4/3/21

ہند اسلامی تہذیب و ثقافت اور فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ - مضمون نگار :نورین علی حق

 



اکیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہونے والے ناول ’کئی چاندتھے سرآسماں‘ نے گزشتہ دوصدیوں یعنی اٹھارہویں اورانیسویں صدی کی ہندوستانی تہذیب وثقافت اورفکری نہج کواپنے پیمانے میں سمیٹ لیاہے اور مذکورہ ان دوصدیوں کے گلاس میں باقی ماندہ تہذیبی تلچھٹ کے اثرات بیسویں صدی پربھی تھے،جودیگرادبی شاہپاروںاورناولوںمیں نظر آتے ہیں، کئی چاندتھے سرآسماںپراکثرتنازعے ہوتے رہے ہیں،فاروقی کے مخالفین کئی چاند تھے سرآسماں کونصف تاریخی توکچھ تاریخی ناول قراردیتے ہیں۔ شاید فاروقی کوموجودہ عہدکے ادبی رویوں کااحساس پہلے سے تھا اس لیے انھوں نے خوداپنے ناول کے اظہار تشکر کے باب میں رقم کیاہے کہ :

’’یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں مندرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کاحتی الامکان مکمل اہتمام کیاہے،لیکن یہ تاریخی ناول نہیںہے۔اسے اٹھارویں۔انیسویں صدی کی ہنداسلامی تہذیب اورانسانی ا ورتہذیبی وادبی سروکاروں کامرقع سمجھ کر پڑھا جائے توبہترہوگا۔‘‘(ص850)

فاروقی کایہ بیان سوفیصددرست ہے کہ ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ بنیادی طورپراٹھارویں اورانیسویں صدی کا تہذیبی مرقع ہی ہے۔حالانکہ فاروقی یہ بات کہنے کے لیے بڑاعاجزانہ اسلوب اختیارکرتے ہیں،لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ اردوناول کی تاریخ میں کئی چاندتھے سرآسماں کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا ناول نہیں،جو اٹھارویں اورانیسویں صدی کی ہنداسلامی تہذیب اوراس کے عبرت ناک زوال کواس قدر مفصل اور مبسوط انداز میں بیان کرتا ہو۔ ناول میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی تہذیب وثقافت،طرزفکر، شاعری، تصوف، فن موسیقی، فن عروض، سیاست، حکمرانی، ہندوستان سے مغل حکمرانی کے خاتمے کی جھلکیاں سب کچھ موجود ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے وسیع کینوس کاناول فاروقی کس طرح لکھ سکے۔شایدیہ ان کے لیے اس لیے ممکن ہوسکاکہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ادب اورادبی مطالعے میں صرف کی ہے۔

ناول کئی چاندتھے سرآسماں ہندوستان کی تہذیب وثقافت کوپیش کرتاہے۔ناول کے بیانیے اوراس کی جزئیات نگاری میں تہذیبی عکاسی کا بھرپورخیال رکھاگیا ہے اوراسی لیے کئی چاندتھے سرآسماں کودیگرناولوں پر تفوق وامتیازحاصل ہے۔ناول کے مطالعے سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی طرزبودوباش،رہن سہن،کھان پان، چلت پھرت، آداب مجلس، آداب مے نوشی، آداب آمد و رفت، آداب گفتگو، چھوٹوں پرشفقت اور بڑوں کی عزت، ملازمین اورنوکروں کے آداب،خواتین کے سفر کا طریقہ، نوابوں اور بادشاہوں کی نشست و برخاست کاطریقہ یہ سب اس ناول کا اختصاص ہیں۔نواب شمس الدین احمد خان جب وزیرخانم کے گھرپہنچتے ہیں تووزیرکس طرح استقبال کرتی ہے۔ملاحظہ کریں۔

’’نواب صاحب پوری شان سے اترے، صدر دروازے پروزیرنے خودتعظیم کی،جھک کرمبارک سلامت کہا، چاندی کے گلاب پاش سے ان کے کپڑوں پرہلکے عطرکی پھوار ڈالی، گلے میں ہارڈالااورکہا:اے آمدنت باعث دل شادی ما۔زہے نصیب کہ آپ کے قدم اس حقیرکفش خانے تک پہنچے،ہم تنہانشینوں کانصیبہ جاگا۔ بسم اللہ تشریف لائیے۔‘‘(ص 270)

استقبال کایہ طریقہ ناول میں متعددجگہ مل جائے گا۔ ولیم فریزرکے گھرمشاعرے میں جب وزیرخانم پہنچتی ہے توولیم فریزربھی اس کا استقبال ’اے آمدنت باعث دل شادی ما‘کہہ کرکرتاہے۔یہ طریق کارخالص ہند اسلامی تہذیب کاحصہ تھا۔ مسلم حکمرانی کے زوال پذیر عہدکے آداب پڑھ کردل خوش ہوجاتاہے۔اس عہد کے آمد و رفت کے آداب سے انسان متاثرہوئے بغیرنہیں رہتا۔ مرزافخرووزیرخانم کی تصویردیکھنے کے بعدامام بخش صہبائی کوطلب کرتے ہیں۔طلب کرنے کااندازبھی نرالاہے اوراس میں بھی ہنداسلامی تہذیب کی ندرت نمایاں ہے۔

’’اگلی صبح کومولوی صہبائی ابھی چاشت کی نمازسے فارغ ہوئے ہی تھے کہ صاحب عالم وعالمیان کاایک چوبدار ایک کوزے میں ٹھنڈادودھ اورایک کوری ہانڈی میں گرم گلاب جامنیں اوردوسری ہانڈی میں مال پوے لے کرمولوی صاحب کے دروازے پرپہنچاکہ صاحب عالم نے ناشتہ بھجوایاہے اورارشادفرمایاہے کہ مولانا صاحب بشتاب حویلی مبارک میںصاحب عالم وعالمیان مرزامحمدسلطان غلام فخرالدین بہادرکے ایوان خاص میں تشریف لے آویں۔چوبدارکوتوانعام دے کررخصت کیاگیااورصہبائی دوگھڑی بعد برآمد ہو کر قلعے کے لیے سوارہوئے۔‘‘(ص722)

 بادشاہ زادے کااس طرح صہبائی صاحب کوطلب کرنانہ صرف یہ بتاتاہے کہ صاحب عالم اورمولاناصہبائی میں کتنی قربت تھی اس اقتباس سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ اٹھارویں اورانیسویں صدی میں کسی شخص کواپنے کسی کام کے لیے طلب کرنے کاطریقہ کیاتھا۔ لین دین کایہ سلسلہ ناول میں بیشترمقامات پرمل جائے گا۔ اس اقتباس میں مولاناصہبائی کے لیے ہی صرف ناشتہ نہیں آیابلکہ ناشتہ لانے والے چوبدارکو مولانا صہبائی انعام سے بھی نوازتے ہیں۔ ناول کاہرصفحہ ہنداسلامی تہذیب کاعکاس ہے۔ جگہ جگہ تہذیبی رفعت نظرآتی ہے۔ ناول کی قرأت سے اٹھارویں اورانیسویں صدی کی طرزمعاشرت کابخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔ قلعہ معلی سے لے کرشاہ جہاں آباد کے عوام وخواص کی معاشرت آنکھوں میں سماجاتی ہے۔ ایک طرف ناول جہاں بادشاہ اورنوابوں اورعملی طور پر ہندوستان کے حکمراں انگریزوں کی زندگی کوبیان کرتاہے تودوسری جانب عوام اورپیشے کے اعتبارسے نچلے طبقے کے یوسف سادہ کاراوران کے خاندان کوبھی بیان کرتاہے۔ وزیرخانم کے لیے مرزافخروکارشتہ لے کرمولاناصہبائی جب مولوی محمدنظیررفاعی مجددی یعنی وزیرخانم کے بہنوئی کے گھرپہنچتے ہیں تووہاں کس طرح پردے کاخیال رکھا جاتا ہے۔ وہ قابل ذکرہے۔

’’بندگی سرکار۔ پردہ کرالیں۔ مولانا صہبائی صاحب اوران کی بیگم تشریف لائے ہیں۔بڑی بیگم کچھ گھبراکر اٹھیں۔ مولوی صہبائی صاحب کی بیگم توبہت کم کہیں آتی جاتی تھیں، آج کوئی خاص بات ہوگی۔انھوں نے نواب مرزاسے کہا:بیٹے توجلددیوان خانے میںمولوی صاحب کوبٹھا،ان کی خوب تعظیم کیجو۔تیرے خالو صاحب شاہ صاحب کے یہاں گئے ہیں،آتے ہی ہوں گے۔اتنے میں تومولوی صاحب سے باتیں کر،میں ابھی بھنڈا اور پان بھیجتی ہوںاورچل،توجلدیہاں سے ہٹ کہ میں پردہ کراؤں۔

نواب مرزا توٹوپی، کرتا، درست کرتا ہوا بھاگ کر مردانے دروازے پرگیااورمولوی صاحب کوسلام کرکے ہوا دار سے اتار کر بصدتکریم دیوان خانے میں لے آیا۔ اس درمیان اندرسے آوازآچکی تھی کہ پردہ ہے اوربیگم صہبائی صاحب کی پالکی زنانہ دروازے پرلگادی گئی تھی اور چادر کا پردہ چاروں طرف کھنچوادیاگیاتھا۔ڈیوڑھی کے پردے کے پیچھے بڑی بیگم نے ان کااستقبال کیا،اہتمام کے ساتھ آنگن کے پاراندرونی دالان میں لائیں اور انھیں صدر میں بٹھایا۔ تشریف آوری کی غایت پوچھنا خلاف تہذیب تھا۔ مہمان کو اظہار مدعا میں کتنی ہی دیرلگتی، میزبان کوانتظارکرناپڑتااوربظاہروہ مہمان کی غیرمتعلق باتوں پراس قدرمتوجہ رہتاگویامہمان کی آمد صرف معمولی ملاقات اور دیدوادیدکی غرض سے ہے۔‘‘ (ص750-751)

اقتباس میں ہنداسلامی تہذیب کی کئی جھلکیاں موجودہیں کہ خواتین پالکی میں ہی چلتی تھیں،چھوٹی بیگم بڑی بیگم یامنجھلی بیگم کوبھی ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہوتا تو وہ بھی پالکی کا استعمال کرتی تھیں۔گھرمیں آنے والی خواتین  کے لیے بھی گھرکے مردوں سے پردہ کرانالازمی تھا، لڑکوں کابچپن اورلڑکپن ٹوپی اورکرتے پجامے میں ہی گزرتاتھا۔گھرمیں اگرکوئی بڑاموجودنہ ہواورکوئی مہمان آن پڑے توخواتین اس کااستقبال نہیں کرتی تھیں،اپنے بچوں کو نصیحت کرکے مہمان کے استقبال کے لیے انھیں بھیجتیں، مہمان سے آمدکا مقصد دریافت کرنا خلاف تہذیب  تھا۔یہ وہ تہذیبی رفعتیں ہیں،جواس عہدکوموجودہ عہدسے ممتازکرتی ہیں۔

کئی چاندتھے سرآسماں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ناول تہذیبی جھلکیاں اورجزئیات نگاری کے کسی موقع کوہاتھ سے جانے نہیں دیتا،لیکن تہذیبی جھلکیوں کی بھرپور عکاسی اورجزئیات نگاری کی بہتات کے باوجود ناول کے اصل قصے پرکوئی منفی اثربھی نہیں پڑتا۔مولوی محمدنظیررفاعی مجددی کاتعارف کراتے ہوئے فاروقی سلسلہ رفاعیہ کے راتب اوررسوم کوبھی بیان کرتے ہیں۔ ناول میں جس طرح اٹھارویں اورانیسویں صدی کے تمام اہم شعراکاتذکرہ ہے اسی طرح مذکورہ دوصدیوں میں پائے جانے والے صوفیااورماقبل کے بھی اہم ہندوستانی صوفیاکابھرپورتذکرہ ہے۔کئی جگہوںپر حضرت خواجہ معین الدین چشتی،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابافریدالدین گنج شکر اور خواجہ نظام الدین اولیا کابھی ذکر آیاہے۔

ولیم فریزرکے گھرپرمنعقدشعری نشست میں مرزا غالب کی غزل پردادکی برسات دیکھ کرفینی پاکس سوچتی ہے کہ’’میرے ملک میں تو شیکسپیئر کے ڈرامے پربھی لوگوں کی یہ حالت نہیں ہوتی۔سچ ہے اہل ہندکی تہذیبی بناہی شاعری پرقائم ہے۔‘‘(ص259)

اس فکرکی تصدیق کرتے ہوئے فاروقی نے پورے ناول میں جگہ جگہ شعری اہمیت کااحساس کرایاہے کہ ہندوستانی سماج،معاشرے اوراس کی تہذیب میں شعری جڑیں کافی گہرائی تک پیوست ہیں۔ اٹھارویں اور انیسویں  صدی کے اکثرقابل ذکرشعراکاکسی نہ کسی طور ذکر اس میں موجودہے۔وزیرخانم،نواب شمس الدین احمد خان اوران کے بعد آغا مرزا تراب علی اورنواب مرزاداغ کی آپسی گفتگومیں عموماشعری ذوق کی پختگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے مابین شعرپیش کرناایک عام بات ہے۔اس طرح اس ناول میں سیکڑوں فارسی اور اردو کے کلاسکی اشعار بھی درج ہیں۔ وزیرخانم اورشاہ نصیرکی استادی وشاگردی کے مناظرکوپیش کرتے ہوئے فاروقی نے عروضی بحثیں بھی کی ہیں۔

ناول میں ہندو مسلم اتحاد اور یگانگت کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ہندومسلم اتحاد اور آپسی بھائی چارہ اورمحبت کاایک منظردل ونظرمیں کھب جاتاہے، جہاں وزیرخانم شمس الدین احمدخان کی طرف پیش رفت سے پہلے پنڈت نندکشورکواپنے گھرمدعوکرتی ہے اوران کی تشریف آوری کابہترین انتظام کرتی ہے، جب وہ آتے ہیں تووہ اس معاملے میں لسان الغیب حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ سکھ مسلم اتحادکامظاہرہ اس وقت ہوتاہے، جب شمس الدین احمدخان کودہلی طلب کیاجاتاہے اور ایسا خدشہ  درپیش ہوتاہے کہ وہ دہلی میں ولیم فریزرکے قتل کے الزام میں گرفتارکرلیے جائیںگے۔اس وقت پنجاب کا ایک سکھ انھیںکہتاہے کہ آپ پنجاب چل چلیںوہاں سے آپ کوگرفتارکرناحکومت انگریز کے لیے آسان نہیں ہوگا۔کئی چاندتھے سرآسماں بنیادی طورپرتہذیبی ناول ہے،اس میں ایک طرف اتحادویگانگت کامظاہرہ ہوتاہے تو دوسری جانب ہندوستان کی مغل حکمرانی کے زوال وانحطاط اورٹوٹتی بکھرتی مغل تہذیب کوبھی پیش کیاگیا ہے۔ زوال آمادہ عہدمیں ہندوستانیوں کی فکری سطحیت اور انگریزوں کے بڑھتے قدم بھی قارئین کوپریشان کرتے ہیں۔ہندوستانی تشخص اورتحفظ کوانگریزوں کی آمد نے پارہ پارہ کردیاتھا۔لیوان ریلیشن کاتصوربھی اس ناول میں موجودہے۔

اٹھارویں انیسویں صدی کی دلی میں عمومی طور پر گھروں کے باہرچوبدار، لٹھیت، برچھیت اور دربان ملازم ہوتے تھے، جو آنے والوں کی آمدکی اطلاع پہلے گھروالوں کو دیتے اور اجازت ملنے کے بعد انھیں اندورن خانہ جانے کی اجازت دیتے۔ گھروں میں مامائیں، اصیلیں، کنیزیں اور باندیاں بھی ہوا کرتی تھیں، جو  گھر یلو کام کرتی تھیں۔ آنے والااگرکوئی خاص مہمان ہو تو اسے ملازم جوتے پہناتے۔ملازم اپنے مالکوں کوتین اور سات سلام کرتے۔مہمانوں کی تواضع کے لیے بھنڈے، پان، شربت، عطروغیرہ کاانتظام گھرمیں ہوتا تھا۔  ٹوٹتی پھوٹتی تہذیب اورتہذیبی اثرات کوفاروقی نے کئی چاندتھے سرآسماں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایسالگتاہے کہ ناول جس عہد کو محیط ہے، اسی عہد کے فاروقی بھی ہیں، اس کے باوجود فاروقی اس عہدکی کسی تہذیبی عکاسی سے چوکتے نہیں۔ فنون لطیفہ سے بھی فاروقی کوبخوبی واقفیت اوردلچسپی ہے۔وہ مخصوص اللہ کی شبیہ سازی کی باریکیوں اورندرتوں پرپینی نظررکھتے ہیں تو مخصوص اللہ کے پوتوں داؤد او ریعقوب کی گائیکی اور موسیقی کو بھی پوری دلچسپی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ فاروقی شبیہ سازی، قالین بافی کے فن کوبیان کررہے ہوں یاموسیقی کے فن کووہ کسی بھی فن کوچھوکرگزرنے کے قائل نہیں،جس فن کووہ موضوع بحث بناتے ہیں اس پرتسلی اوراطمینان کی حدتک اپنے علم کاثبوت پیش کرتے ہیں۔

’’اس اثنامیں تینوں سنتورآہستہ آہستہ بجنے لگے تھے۔ بیٹوں نے پھرسے طاؤسوں کوچھیڑا،جب سب سرمل گئے تودونوں نے سروقدکھڑے ہوکرحضارمحفل کو سلام کیا، باپ کے قدم دوبارہ لیے اورکہا:

عالی جاہا،ہمارے نصیب کی بلندی ہے کہ ایسی والاشان وصفات مجلس میں اپنے والدگرامی کی موجودگی میں کچھ ٹوٹا پھوٹا کہنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ درخواست ہے کہ ہمارے عیوب پرآشفتہ نہ ہوں، بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیں:

’’اللہ اللہ،عزیزان گرامی ارشادفرمائیں۔ سب ہمہ تن گوش ہیں‘۔کسی بزرگ نے جواب دیا۔

بے شک، اب تاب انتظار نہیں۔بسم اللہ، ایک اورآوازآئی۔

دریں اثناسہ تاروں کی صدامیں سنتورکی گنگناہٹ شامل ہوکربلندہوئی۔محمدداؤدنے راگ چاندنی کدارامیں الاپ شروع کیا۔پھریعقوب نے کہا:حضرت سلطان ابوسعیدابی الخیرکی رباعی ہے،گوش ہوش کامتمنی ہوں۔ سب ذرااورسنبھل کربیٹھ گئے۔یعقوب نے گاناشروع کیا۔

جزدررہ عشق تونہ پوید ہرگز

دل رازترابہ کس نہ گوید ہرگز

صحراے دلم عشق تو شورستاں کرد

تامہرکسے دگرنہ رویدہرگز

پہلامصرعہ کہہ کرمحمدیعقوب نے توقف کیا، محمدداؤد نے الاپ کو اور اونچا کیا، پھر دوسرا مصرعہ ہلکے سروں میں ادا کیا۔ اب دونوں کی جگل بندی شروع ہوئی۔ عام طور پر جوڑے میں گانے والوں میں ایک کی آوازہلکی یا پست اور دوسرے کی آوازبھاری یااونچی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی عجب تھا۔ دونوں کی آوازیں متوسط تھیں اورآپس میں اس قدرمشابہ تھیں اوردونوں کاریاض اتنا پختہ تھاکہ معلوم ہی نہ ہوتاتھاکہ کس نے الاپ لی اورکس نے انترے سے استھائی میں قدم رکھا۔‘‘(ص124-125)

 اس اقتباس میں فاروقی نہ صرف یہ کہ آلات موسیقی سے اپنی واقفیت کااظہارکررہے ہیںبلکہ الاپ،راگ اورراگوں کی متعددقسمیں بھی وہ بیان کرتے ہیں۔دادرا، ٹھمری، خیال، یمن، بسنت، بہار، باگیسری اور کھتریوں اور چرواہوں کی دھنیں جیسے چیتی، بنارسی وغیرہ کابھی ذکر بڑی بیگم، منجھلی بیگم اورچھوٹی بیگم کے حوالے سے آیاہے۔

ناول کئی چاندتھے سرآسماں میں تہذیبی جھلکیاں پوری طرح موجود ہیں، ناول نگارکی کوشش کامیاب ہے کہ ان دو صدیوں کی پوری تہذیب، ثقافت، تمدن اور فکری جہتیں نکھر کر سامنے آگئی ہیں۔ ادبی اور سماجی تہذیب سے لیس یہ ناول اپنی مثال آپ ہے۔ اس ناول کاراست تعلق اٹھارویں اورانیسویں صدی کی سیاست، تہذیب، ادب،طرزمعاشرت،معاشرت کی بدلتی تصویریں،تبدیل ہوتے ہندوستانی رجحانات ومزاج، ہندوستان سے کمزور ہوتی مغل حکمرانی، اس کے اسباب وعلل، انگریزوں کے بڑھتے قدم، ہندوستان پران کے مضبوط ہوتے شکنجے، ہندوستانی معاشرت اور تہذیب کے رنگ میں انگریزوں کے رنگنے کی تاریخ، ہندوستانیوں میں انگریزوں کے خلاف باغیانہ تیور، ہوا کارخ دیکھ کر ادباکی انگریزوں سے بڑھتی قربت، ہندوستانی سماج ومعاشرت کی تفہیم کے لیے انگریزوں کی کوشش، ہندوستان اورہندوستانیوں پرعرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے انگریزوں کی سیاسی تدبیر،شاہ اور ولی عہدسے خفیہ معاہدے۔کئی چاندتھے سرآسماں بظاہر وزیر خانم کی زندگی کے گردگھومتااورطواف کرتا ہوا نظر آتاہے۔ لیکن وزیرخانم کے بہانے مصنف نے اس عہد کے بیشترقابل ذکرموضوعات کوبصراحت روشن کیا ہے۔ مصنف نے اس عہدکی زبان کوبھی اپنے موضوع کے دائرے میں شامل کرلیاہے۔ کئی چاندتھے سرآسماں ایک مخصوص عہدکی تاریخ کو پیش کرتا ہے، لیکن یہ ناول تاریخ کے لفظ کواس کے وسیع تر تناظر میں دیکھتا اور اس عہد کی ہر چیز اور ہر قابل  ذکر شے کو موضوع بحث بناتا ہے۔ کئی چاندتھے سرآسماں کے مطالعے سے کسی بھی تاریخی کتاب کی طرح صرف اس عہدکی سیاسی تاریخ کاعلم نہیں ہوتا بلکہ  اس کے مطالعے سے سیاست، تہذیب، ادب، ادبی تاریخ، ٹھگی، گنگا جمنی تہذیب،مشترکہ ثقافت، سیاسی، تہذیبی، سماجی، مالی واقتصادی،علمی وفکری عروج سے زوال کی طرف گامزن ہونے کی تاریخ بھی پتہ چلتی ہے۔ بسی بسائی دہلی نوآبادکاروں کے شکنجے سے آزادی کے لیے 1857میں اجڑگئی۔ ایسے دہلی کے اجڑنے اوربسنے کی تاریخ بھی عجیب وغریب ہے۔دہلی عمومایکساں صورت پر باقی نہیں رہتی۔اس نقطہ نظرکے ساتھ اگر دیکھا جائے، جس نقطہ نظرکے ساتھ فاروقی دلی کودیکھتے اوردکھاتے ہیں توہمیں یہ ماننا ہوگاکہ دہلی کے اجڑنے کاسلسلہ تو انگریزوں کی عملی حکمرانی اورمغل سلطنت کے عملی زوال کے ساتھ ہی شروع ہوچکاتھا۔ چونکہ دلی صرف ایک شہر نہیں دلی ایک دبستان ہے، دہلی تہذیب کاایک نمائندہ شہر ہے، دہلوی ثقافت کاانحطاط ہی دراصل دلی کازوال ہے اوریہ کام انگریزوں کے عملی طورپرہندوستان کاحکمراں بننے کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ ہاتھی گھوڑوں پرمع جلوس گلیوں میں گھومنے کارواج عمومامغلوں کے یہاں نہیں پایاجاتاتھا لیکن انگریزولیم فریزرگلیوں میں ہاتھی پرگھومتے تھے اورکسی وزیرخانم کے گھرپیشگی اجازت کے بغیرہی پہنچ جاتے توکبھی برسرعام نواب شمس الدین سے ان کی بہن کاہاتھ مانگ لیتے تھے۔یہ سوچے بغیرکہ ہندوستانیوںکی بھی کوئی عزت اور وقار ہے۔

ایسی زوال آمادہ صورت حال کااستعارہ فاروقی کووزیرخانم میں اوروزیرخانم کی زندگی کی بے سروسامانی اوربے بسی کااستعارہ مغلیہ سلطنت میں مل گیا، جس طرح وزیرخانم اپنی زندگی اورنصیبے کوبباطن رورہی تھی،اسی طرح مغل سلطنت بھی اپنے روشن وتابناک ماضی اورناگفتہ بہ صورت حال پرماتم کناں تھی۔

’’اگلے دن مغرب کے بعدقلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹاساقافلہ باہرنکلا۔ایک پالکی میں وزیر،ایک بہل پراس کااثاث البیت اورپالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پرنواب مرزاخان اور خورشید میرزا۔  دونوں کی پشت سیدھی اورگردن تنی ہوئی تھی۔ محافظ خانے والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تومیرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونیاں دونوں طرف لٹائیںاوریوں ہی سراٹھائے ہوئے نکل گئے۔ ان کے چہرے ہرطرح کے تاثرسے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادرمیں لپٹی اور سر جھکائے بیٹھی ہوئی وزیرخانم کوکچھ نظرنہ آتاتھا۔‘‘(ص848)

 اس اقتباس کاآخری جملہ بڑا ہی معنی خیزہے۔ اس کے باوجودیہ کہاجاسکتاہے کہ وزیرخانم کو کچھ نظرآرہاہویانہ آرہا ہو، بہرحال وہ اپنے گھریعنی نواب شمس الدین کے دیے ہوئے گھرتک توپہنچ ہی گئی ہوگی لیکن مغل سلطنت جب قلعہ مبارک سے باہرکی گئی تواس کے لیے کہیں جائے اماں نہ مل سکی اوربہادرشاہ ظفر،ملکہ اوران کے صاحبزادگان پیدل ہمایوں کے مقبرے تک پہنچے تھے اور انھیں کچھ بھی کہیں نظرنہ آیاحتی کہ خود آخری مغل تاجدار کو ضعیفی کی حالت میں ننگے تختے پربیٹھ کررنگون تک کا سفر کرنا پڑا اور بے بسی وغربت میں کوئے یارمیں دو گززمین کی تمنا لیے جاں جان آفریں کے سپردکرناپڑی۔

کئی چاندتھے سرآسماں کاموضوع بظاہر وزیر خانم اور اس کی زندگی ہے لیکن وزیرخانم اوراس کی زندگی کوپیش کرتے ہوئے مصنف نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے پورے ہندوستان، انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کے جذبے، دہلوی تہذیب وتمدن، مذکورہ دو صدیوں کی کوثر و سلسبیل سے دھلی دھلائی زبان، نوابیت و بادشاہت، ہندوستانیوں کے رنگ وآہنگ، مزاج و اطوار سب کو موضوع بنالیا ہے۔ اس لیے ناول کا کینوس خاصاوسیع اور دلکش ہوگیاہے۔

کئی چاندتھے سرآسماں اپنے اسلوب اور انداز تحریر کے اعتبارسے بلامبالغہ اکیسویں صدی کاسب سے اہم اردو ناول ہے۔اکیسویں صدی کے ہندوپاک میں ایسا اسلوب بس کئی چاندتھے سرآسماں کایک وتنہااسلوب ہے اور دور دور تک سناٹاہے۔چونکہ ایسے اسلوب کی تخلیق کے لیے قرآن پاک کی آیتوں کاعلم، جگرکاوی، دہائیو ںپرمبنی اردو، عربی، فارسی اورانگریزی کا مطالعہ،تصوف کے اعلی پائے اورماخذکی حیثیت رکھنے والی کتابوں پر گہری نظر، فارسی واردو کے کلاسیکی شعرا کے دواوین کی قرأت،فن عروض وتقطیع کی مہارت،عربی محاورات سے دلچسپی، صوفیائے کرام کے حالات زندگی اور اقوال پرنظر، ہندستان میں انگریز و ں کی تاریخ، اٹھارویں وانیسویں صدی کے ہندوستان کی بھرپور واقفیت، اس عہد کے علما، شعرا، ادبا اور دانش وروںکے تذکروںپر نظر، کم ازکم دہلی کے جغرافیہ کی واقفیت، باڑہ ہندوراؤ، پہاڑی، ہندوراؤ اسپتال اور پرانی دلی کی دیگر گلیوں اور محلوں کا مشاہدہ، خانوادۂ فرنگی محل اور خانوادۂ ولی اللہی اوران خانوادوں کی اہمیت اورعلمی فروغ میں ان کے کردارسے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ تقاضافاروقی نے پورا کیاہے، یہ انسائیکلوپیڈیائی علم اور واقفیت کئی چاند تھے سر آسماں کے اسلوب کو منفرد، ممتاز اور یکتابناتی ہے اوربات پھربھی بنتی نہیں کہ جب تک اٹھارویں اورانیسویں صدی کی زبان کی واقفیت نہ ہو۔مجھے لگتاہے کہ اس ناول کی زبان سب سے قیمتی شے ہے، جواسے باقی رکھے گی۔یہ خوش کن حیرت کی بات ہے کہ دوصدیاں پیچھے جاکر ایک انسان اس سماج، معاشرے اوراس میں رائج زبان کولکھے۔کم ازکم اردوناول کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے۔

اس ناول کا بیانیہ رواں دواں اور جدید عہد کی تراکیب سے بناگیاہے،اس کی تراکیب کی بنت فارسی تراکیب پرمبنی نہیں ہیں۔البتہ درمیان میں ایسے الفاظ ضرورآتے ہیں،جن کارواج اکیسویں صدی میں عمومی طورپرنہیں ہے،وہ اسمائے معرفہ (Proper nouns)  جن کارواج اٹھارویں اورانیسویں صدی میں تھا، لیکن اب یعنی اکیسویں صدی میں نہیںہے۔ایسے اسماسیکڑوں اورہزاروں کی تعدادمیں آئے ہیں، جن کی توضیحات وتشریحات عام فہم لغات میں میسرنہیں لیکن وہ ناول کی قرأت میں مانع نہیں ہوتے،سیاق وسباق سے مفہوم ادا ہوجاتے ہیں۔ انسانی فہم اپناکام کرجاتی ہے۔ جیسے بندوقوں  کی بہت سی قسموں کاتذکرہ فاروقی نے اپنے ناول میں کیا ہے اوران کی تشریح بھی کردی ہے، اکیسویں صدی میں لفظ بندوق کے علاوہ بندوقوں کی کسی بھی قسم کا اردو نام شاید ہے  ہی نہیں توہم ان کی تشریح کوسمجھنے سے بھی عاری ہی رہتے ہیں۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں،جہاں فاروقی نے اٹھارویںاور انیسویں صدی میں رائج محاورات کا استعمال کیاہے تو اس کی تشریح بھی کردی ہے،جس سے بیانیے اورمکالمے کی تفہیم آسان ہوگئی ہے۔ ولیم فریزرکی ہفوات کے بعدنواب شمس الدین احمدخان،جب فریزرکی کوٹھی پرپہنچے تواس وقت کایہ مکالمہ دیکھیں۔

’’ہماری کیامجال جوپھاٹک نہ کھولیںلیکن صاحب کلاں بہادرسکھ کرگئے ہیں۔ان کے حکم کے بغیرہم کسی کواندر نہ آنے دیں گے۔ ‘‘ (437)

اس سے آگے فاروقی بڑے عالمانہ اندازمیں سکھ کرگئے ہیں، محاورے کی تشریح بھی کرتے ہیں اوراپنی تشریح کوبیانیے کاجزوبھی بنادیتے ہیں۔

’’سکھ کرگئے ہیں، کافقرہ شمس الدین احمدکے کانوں میں تیزاب بن کرٹپکا، ’سوجانے‘کے لیے یہ محاورہ صرف بادشاہ ذی جاہ کے لیے بولا جاتاتھا۔ دوسروں کے لیے مناہی نہ تھی، لیکن ایک رسم سی بن گئی تھی اورقلعے کے باہریہ محاورہ رائج بھی نہ تھا۔اس دوٹکے کے مجہول النسب فرنگی کی یہ مجال کہ ہمارے بادشاہ دیں پناہ کے لیے جو فقرہ استعمال ہوتاہے اسے یہ ہتھیالے!ملک تویہ لوگ لیے ہی جارہے ہیں۔اب ہمارے خاص روزمرے اورمحاورے بھی اپنے اوپرصرف کرنے لگے۔(ص437)

فاروقی کے اسلوب کی ایک بڑی خصوصیت ناول کئی چاندتھے سرآسماں کے حوالے سے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ وہ خوداپنی عبارت کی تشریح بھی ناول کے متن میں داخل اورشامل کرلیتے ہیں۔ایسامتعددمقامات پرہوا ہے۔لیکن اس کاکوئی منفی اثرناول کے متن پرنہیں ہوتا۔ فاروقی جتنی توجہ ناول کی قصہ گوئی اورجزئیات نگاری پر مرکوز رکھتے ہیں۔اتنی ہی توجہ اسلوب اورزبان وبیان پربھی دیتے ہیں۔بیک وقت وہ اپنی نگاہیں ناول کے تمام عناصرپررکھتے ہیں۔ناول کاکوئی پہلوان کی توجہ سے محروم نہیں رہ پاتا۔

کئی چاندتھے سرآسماںمیں فارسی اورعربی زبان کے بھی کافی اثرات ہیں۔ناول میں فارسی کے بہت سے اشعاردرج ہیں۔ فارسی میں لکھے گئے خطوط بھی موجود ہیں۔ ناول کے ابواب کے بہت سے عناوین فارسی اشعار کے مصرعوں پرمبنی ہیں۔آپسی گفتگو کو آگے بڑھانے اور گفتگو کا لطف دوبالا کرنے کے لیے بھی فارسی اشعار کا سہارا لیاگیاہے۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کی بہت سی آیتیں بھی موقع ومحل کے مطابق درج کی گئی ہیں۔عربی محاورات خصوصی طورپرقابل ذکرہیں،جن کی موجودگی کی وجہ سے فاروقی کاناولانہ اسلوب مزید نکھر گیا ہے، ناول کے متن میں رنگارنگی پیداہوئی ہے اورخصوصی طورپرناول کے مکالموں کامعیارقابل رشک ہو گیاہے،جس سے اس عہدکے لسانی ذوق کابھی اندازہ ہوتاہے۔ عربی کے محاورات ایسے نہیں ہیں،جنھیں پڑھ کرکہہ دیاجائے کہ بس کہیں سے مل گیااورفاروقی نے اپنی عبارت میں چسپاں کردیا، محاورات ایسے ہیں،جنھیں پڑھ کراردو،فارسی کے ساتھ فاروقی کی عربی پرعمیق نظرکااندازہ ہوتاہے اورناول کے متن میں جوشگفتگی، شائستگی، لطافت، ندرت اورسہ لسانی مٹھاس پیدا ہوئی ہے وہ تواپنی جگہ، ناول کی عبارت میں ان محاورات کے استعمال کی برجستگی سے اندازہ ہوتاہی نہیں کہ جومتن ہم پڑھ رہے ہیں، وہ کسی غیرعربی داںکا ہے، ایسالگتاہے کہ ناول نگار نبض شناس مزاج عربی ہے۔کئی چاندتھے سرآسماںمیںصرف قرآنی عربی محاورات نہیںہیں، ایسے محاورات بھی ہیں، جنھیں عربی کے فکشن نگار اور شعرا استعمال کرتے ہیں۔لیس بین الموت والفراق فرق (ص730)  شبابیات کے شعراعمومی طورپراس طرح کے محاوروں کا استعمال کرتے ہیں۔اس مفہوم کے اردومیںبہت سے اشعار  موجود ہیں،لیکن فاروقی نے ان اشعار کا استعمال نہیں کیا، وہ عربی کے محاورات لاتے ہیںاوریہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اٹھارویں اورانیسویں صدی کے ہند اسلامی معاشرے میں زبان وبیان کے حوالے سے کیا ترجیحات تھیںاوراس سے عوام وخواص دونوں کوکتنی رغبت تھی،ظاہرہے کہ اس اظہارکے ساتھ فاروقی کے قاری کولطف زبان سے جس طرح آشنائی ہوتی ہے۔وہ خود بڑی قیمتی شے ہے        ؎

اذاحاق القضاضاق القضا

الانتظاراشدمن الموت

کل عام وانتم بخیر

البحرلایخاف من السرق

الفضل للمتقدم

نورالقمرمستفیدمن الشمس

مذکورہ بالاتمام محاورات برجستہ استعمال ہوئے ہیں اور مشرقی شعریات کی عظمت، لسانی خودمختاری وخود انحصاری اور خود مکتفی ہونے پردال ہیں،ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ اگرکسی مستحکم پس منظررکھنے والے شخص سے ہمیں گفتگو کا موقع مل جائے اوروہ دوران گفتگوفارسی اشعار، اردو و فارسی کے محاورات اوراپنی گفتگوکوآگے بڑھانے کے لیے قرآن پاک کی آیتوں کاسہارالیتاہے توہم کس طرح کی داخلی وخارجی مسرتوں سے گزرتے ہیں،اسی طرح کا احساس کئی چاندتھے سرآسماں کوپڑھتے ہوئے قاری کو ہوتا ہے۔ اس طرح کی عبارت آرائی اوراسے 848صفحات تک نبھانا بچوں اورعام فہم فکشن نگاروں کاکام تویقینانہیں ہوسکتا،یہ حق فاروقی کاہی ہے،جوانھوں نے اداکیاہے۔

فاروقی اپنے ناول میں جہاں کلاسیکی شعراکی اردو وفارسی شاعری سے کام لیتے ہیں،وہیں ان کے پیش نظر صوفیا کے حالات اوران کے اقوال بھی ہیں،وہ صوفیاکے اقوال کوحسب منشااورحسب ضرورت برجستگی کے ساتھ اپنے بیانیے کاجزوبنادیتے ہیں،جس سے عبارت خوانی کالطف دوبالاہوجاتاہے اوراگرناول کے قاری کی نگاہ دوررس اورمطالعاتی مشقتوں کی عادی ہے تووہ نہ صرف فاروقی کی علمیت اورگہری نگاہ کاقائل ہوتاہے بلکہ وہ ناقابل بیان حدتک فاروقی کی عبارت سے حظ حاصل کرتا ہے اوراس کی پڑھی ہوئی چیزوں کی بازیابی بھی ہوجاتی ہے۔

ذراغورکریں کہ ایک ناول نگارناول لکھنے کے لیے جہاں کلاسیکی اردووفارسی دواوین اور تذکرے کامطالعہ کررہاہے وہیں اس کی نگاہ اس طرح کے قدیم اور معتبر تصوف کے متن پربھی ہے۔کئی چاندتھے سرآسماں کے متن کی عظمت،اس کے عروج،اس کی شگفتگی، شائستگی، سنجیدگی، متانت اورعمق کے رازہائے سربستہ چوطرفہ مطالعے اور دہائیوں کے مشاہدے میں پوشیدہ ہیں۔غورکرنے کامقام یہ بھی ہے کہ فاروقی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاکانام درج کرتے وقت بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ ناول اٹھارویں اورانیسویں صدی کے دہلوی سماج اور معاشرے کانمائندہ ناول ہے،اس کی زبان بھی دہلی کی ٹکسالی زبان ہے، اس لیے وہ حضرت کے نام کے ساتھ سلطان جی کااضافہ کرتے ہیں،چوں کہ پرانی دہلی بلکہ کہناچاہیے کہ دہلی کے باشندے خواجہ صاحب کی زندگی سے اب تک انھیں سلطان جی صاحب ہی کہتے آئے ہیں۔زبان و بیان کی باریکیوں اورندرتوں سے فاروقی کہیں صرف نظرنہیں کرتے۔امیرخسرونے بھی کہاتھا         ؎

صاحب جی سلطان جی تم بڑوگریب نواج

 اپناکرکے راکھیوتوہے بانہہ پکڑے کی لاج

کئی چاندتھے سرآسماں کردارکے معاملے میں بھی اکیسویں صدی کاشاندارناول ہے،جس نے اردوناول کو وزیرخانم جیساتاریخی اورناقابل فراموش کرداردیا۔اس کے زیادہ تر کردار تاریخی،تہذیبی اورثقافتی ورثے کاحصہ ہیں،خیالی اورفرضی کردار سازی نسبتاآسان ہے،لیکن تاریخی کرداروں کولکھنے اورانھیں پیش کرنے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیںاوران تقاضوںکوفاروقی نے پوراکیاہے۔اس ناول کے زیادہ ترمردکرداراٹھارویں اورانیسویںصدی کے شناسا کردارہیں، جن کا تذکرہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔

 ناول کے بیانیہ کاابتدائی تذکراتی اورشجراتی اسلوب شعوری اورتکنیکی وجوہ کی بناپرہے اورایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ناول میں بیان کیے جانے والے واقعے کاتعلق چونکہ اٹھارویں اورانیسویں صدی سے ہے اوران صدیوں میں تذکرے کارواج اورخاندانوں کے علم اور شجرے جوڑنے اوربنانے کا رواج کافی تھااورمصنف انہی صدیوں میں ڈوب کرناول تحریرکرناچاہتے تھے،لہذااس کا آغاز تذکراتی اسلوب سے کیاتاکہ زبان اوربیان کے ساتھ اس کاطرزاوراندازبھی اٹھارویں اورانیسویں صدی کا ہو اور ناول کا پلاٹ مضبوط ومستحکم اورقاری کے لیے دلچسپ ہوجائے،گوکہ اس طریق کارکی وجہ سے پلاٹ میں پیچیدگی آئی ہے مگروزیرخانم مرکز میں ضرور ہے۔ناول نگارکی جزئیات نگاری میں بھی تذکراتی اسلوب کابڑادخل ہے۔

فاروقی نے ایک ناول لکھتے ہوئے ناول نگاری کے تمام عناصرکوقوت بخشی ہے۔ انھوں نے تہذیبی، فکری، سیاسی، سماجی، موضوعاتی، اسلوبیاتی، کرداری، استعاراتی اورتکنیکی نقطۂ نظرسے ناول کوباندھے رکھاہے اورقاری کی دلچسپی کہیں ختم نہیں ہوتی، پورا ناول پڑھنے کے باوجود اسے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا اسلوب اور واقعات کی برجستگی اور سماجی حقیقت نگاری خاصے کی چیز ہے، جو قاری کو مطمئن نہیں ہونے دیتی۔ ناول کئی چاند تھے  سرآسماں ہرلحاظ سے قابل ذکر اور ناول نگاری کی روایت اورتاریخ کو مستحکم اور مضبوط کرنے والاناول ہے۔


Noorain Ali Haque

C-139,  Gali No.3, Near Iqra Masjid

Wazirabad

Delhi- 84

Mob.: 9210284453





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...