نذیر بنارسی کی شاعری کا
مطالعہ کرنے سے ایک بات پورے طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے شعری تخیل کا مرکز و
محور عام انسان کی زندگی،زبان اور ماحول سے بیحد متاثر ہے اور انھیں کے حالات و
واقعات کو انھوں نے ادبی زبان کا جامہ پہنا کر پیش کیا ہے،لیکن اس سے بھی بڑھ کر
ان کے یہاں کیف و انبساط سے پر اس رومانی شاعری سے استفادے کا رجحان ملتا ہے، جس
کا ایک زمانے میں حقیقت سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ اس قسم کے خیالات عام مشاعروں کی
کامیابی کے ضامن ہیں اور عام لوگوں کے اردو زبان کی شیرینی سے متا ثر ہوکر اس کی
جانب توجہ کرنے اور اسے سیکھنے کے رجحان کی آبیاری میں بھی اہم کردار ادا کر رہے
ہیں۔لیکن ان کے درمیان ان کے ذخیرہ ئ شاعری میں ایسے اشعار کی کثرت بھی ہے جو نہ
صرف ان کے گہرے ادبی شعور کے غماز ہیں بلکہ عصری احساسات اور زمانے کی رو کو
دیکھتے ہوئے موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانی حالات سے بھی زمانے کے ذہن کو
متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ زبان کے اتنے رخوں کو ایک ساتھ برتنا
زبان کی ماہیت اور اس کے لوازمات پر ان کی دسترس کے ضامن ہیں۔شعری گفتگو ذاتی ہو
یا شخصی،نذیر بنارسی نے ابہام کو ان اشاراتی زاویوں کے طور پر استعمال کیا ہے جن
کی گہرائی اور گیرائی سے معنویت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے فلسفے کی
معنوی پیچیدگیوں سے کام نہیں لیا ہے بلکہ مادیت کے سیاق میں منتخب موضوعات کے
تخلیقی اظہار کے ضمن میں ان ادیبوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں احتشام حسین نے
لکھا ہے:
”مادّی نظریے پر عام طور سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس
پر عمل کر نے والے ادب میں ادبیت کے بجائے فلسفہ،تاریخ،معانیات اور دوسرے عناصر کی
جستجو کرتے ہیں۔یہ درست نہیں ہے کیوں کہ ادب محض فنی خصوصیات کا مجموعہ نہیں ہے،اس
سے کچھ زیادہ ہے۔پھر نئی فنی خصوصیات خود تاریخی حالات اور سماجی ارتقا سے وجود
میں آتی ہیں۔“
(بحوالہ، جدید اردو تنقید،اصول و نظریات، شارب ردولوی، ص،
369)
دلیل کے طور پر نذیر بنارسی کے
چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
لڑکے
آپس میں مریں،اور وطن پر نہ مریں
اس قدر
خون مگر خون شہیداں کی کمی
مٹ گیا تھا اختلاف باہمی کل
رات کو
زندگی تھی زندگی در زندگی،کل رات کو
تھی کسی کی ہر نظر،پہلی کرن،
خورشید کی
ہو رہی تھی صبح کی سی روشنی،کل رات کو
رہ گئی ہچکی سی لے کر، فکر
دنیا، اے نذیر
غم کو بھی کرنا پڑی تھی خودکشی
کل رات کو
زندگی بھر چل کے ہم آئے ہیں
منزل کی طرف
دو قد م
منزل کو بھی اب چل کے آنا چاہیے
جیسا کہ اشعار سے ظاہر ہے کہ
یہ زندگی کے مختلف رنگ کی ترجمانی کر رہے ہیں،اور ہر ایک میں نذیر بنارسی کی علمی
لیاقت اور زبان کو برتنے کے مختلف زاویوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔پہلا شعر عصر حاضر کے
غالباً سب سے پیچیدہ مسئلے،جو کہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ناسور کی شکل اختیار کر
گیا ہے،کی آئینہ داری کے ساتھ ساتھ اس کے غالب آنے کے خطرناک نتائج کی جانب بھی
ہماری توجہ منعطف کرتاہے۔دوسراشعر زندگی کی تکرار کے ساتھ رومانی چاشنی میں مزید
اضافہ کرتا ہے۔تیسرا شعرتضاد کی بہترین مثال ہے۔چوتھا شعر عام رومانی شعری روش کے
بالکل الٹ ہے۔غم کے بھی خودکشی کرنے کا موضوع نیا نہ سہی لیکن اس کو جس طرح نذیر
نے رومانیت کے لمحات کے ساتھ منسلک کر کے نیا معنوی جامہ پہنایا ہے،میرے خیال میں
بے مثال ہے۔آخری شعر مجھے بانی کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے ؎
عجیب مرحلہ تھا، بھیڑ سے گزرنے
کا
اسے بہانہ ملا مجھ سے بات کرنے
کا
یہ خودداری یا اپنے وجود کے
احترام کا جذبہ بانی کے اس شعر کی بہ نسبت موضوع کے اعتبار سے نذیر بنارسی کے
مندرجہ بالا آخری شعر میں زیادہ وسیع کینو س میں نظر آتا ہے۔ممکن ہے ان کا شعری
موقف رومانیت تک محدود ہو، لیکن اصل میں یہ بھی ہے کہ الفاظ کے اندر جو معنی
پوشیدہ ہوتے ہیں،اس کے مختلف ابعاد کی ترسیل ہی مختلف معنوی جہات کی ضامن ہوتی
ہے۔شاعر کی شعری نفسیات شعر کہتے ہوئے بھلے ہی کسی ایک موضوعی دائرہ کار میں رقص
کرے،لیکن خیال اور معنی کی امکانی وسعت سے اس کو الگ کرنا ناممکن ہے۔ہارڈنگ نے
لکھا ہے۔
اگر ہم شاعر سے یہ پوچھتے ہیں
کہ وہ کس شے کی ترسیل کر رہا ہے تو گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس پہلے سے
کوئی خیال یا معنی تھا،جس کو اس نے نظم کے الفاظ میں ترجمہ کر دیا۔حالانکہ جو بات
اسے کہنا تھی،اس کا وجود ہی اس وقت تک نہ تھا جب تک وہ کہی نہیں گئی تھی۔کوئی سوچا
ہوا خیال جو خود نظم نہ ہو،لیکن ہو بہ ہو نظم کی طرح ہو،ناممکن تھا... ایک ہی خیال
کے لیے ایک سے زیادہ لسانی اسلوب نہیں ہو سکتا۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی
عینی لسانی شکل ہو جو درستی اور کفایت کے ساتھ اس سب کو ظاہر کر دے،جو خیال کے
اندر چھپا ہوا ہے۔
(بحوالہ شعر،غیر شعر اور نثر،ازشمس الرحمن فاروقی،ص95)
نذیر بنارسی نے رومان کے مخصوص
الفاظ کے لسانی برتاؤ میں جدید معنوی امکانات بھی تلاشے ہیں۔ان کے بعض اشعار ایسے
ہیں جو زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہیں۔یعنی ان کو کسی بھی زمانے کے آئینے میں
پرکھا جا سکتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں
؎
بدلتا ہے ہر دور کے ساتھ ساقی
یہ دنیا ہے کتنی بڑی انقلابی
کوئی لا
سکو تو لاؤ،مر ا
وہ حسیں زمانہ
جسے میں نے کچھ نہ سمجھا،جسے
میں نے کچھ نہ جانا
یہ مجبوری سی مجبوری،یہ ناچاری
سی ناچاری
کہ تنہا ہو نہ سکنے پر بھی
تنہا ہو گئے ہم تم
ایسی سحر کہ جس میں کوئی جلوہ
گر نہ ہو
وہ رات کا کفن ہو،ہماری سحر نہ ہو
بچا لو وحشت
دیوار و در سے
کھنڈر بہتر ہے غیر آباد گھر سے
چوتھے شعرمیں جلوہ گر کا معنی
اگر خواہش یا آرزو لے لیا جائے،جس کے پورا ہونے کے امکان میں تذبذب ہو تو اس شعرکے
معنوی امکانات بہت وسیع ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے اشعار جہاں تنہا احساسات کی آئینہ
داری کرتے ہیں وہیں اجتماعیت کے عناصر بھی رکھتے ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کی ناکامی
یا اس کے تاثر کے جلد زائل ہوتے چلے جانے کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ
پیچیدہ الفاظ برتنے کی زبردستی کی شعو ری کوشش نے اس کے اسرا رو رموز کی معنویت کا
وہ اثر برقرار نہ رہنے دیا جو ان کا خاصہ تھا۔باقر مہدی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
”جدید شاعری کا ڈئیلیما یہ ہے کہ اس نے مسائل کو رد کر کے
جو تخلیقی اسرار و رموز کی تلاش کی، وہ اسے دوسرے جزیروں تک نہیں لے گئی،یعنی
تخلیق کے لیے تشکیل کیسے کی جائے؟ پر غور نہیں کیا گیا بلکہ ذات کو ہی سر چشمہ
شعرو ادب سمجھ لیا گیا اور پھر ان پر تکیہ کر لیا گیا۔“
(باقیات باقر مہدی،مرتب، یعقوب راہی،ص، 134)
ظا ہر ہے کہ نذیر بنارسی کے
یہاں اسرار و رموز کی جستجو کا وہ رجحان نہیں ہے اور تخلیق کی تشکیل کا وہ اعلیٰ
معیار جو کہ پوری دنیا کی بوطیقا میں شامل ہے یا ہو سکتا ہے، نذیر بنارسی کے یہاں
موجود ہے۔ ان کے یہاں ماحول اور حالات کے وہ عناصر سرچشمہ ئشعر و ادب ہیں جوتخیل
کو واقعاتی صورت میں تبدیل کر کے بیک وقت مختلف مراکز میں نمایاں ہوتے ہیں۔ اشعار
ملاحظہ ہوں ؎
اپنے سر ہر اک مسافر کی بلا
لینے کے بعد
ناخدا ڈوبا، مگر بیڑا بچا لینے
کے بعد
اپنا اپنا
زور بازو آزما
لینے کے بعد
سب کنارے ہو گئے طوفاں اٹھا لینے کے بعد
آپ سے کس نے کہا تھا کہ
سہارا دیجے
آپ نے ڈوبنے والوں کو ابھرنے
نہ دیا
کچھ تازہ حوصلے دیے،کچھ تازہ
ولولے
طوفاں نے زندگی کو بھی طوفاں
بنا دیا
ہر گھڑی چپ بھی رہنا کچھ اچھا
نہیں
جانے کتنے یوں ہی بے زباں ہو
گئے
بڑھتے جاتے ہیں زمانے میں
مسیحا جتنے
زندگی اتنی
ہی بیمار نظر آ
تی ہے
ان اشعار کا اطلاق بھی دنیا کی
کسی قوم،ملک اور حالات پر ہو سکتا ہے جہاں یہ مسئلے یا واقعات موجود ہیں۔جیسے کہ
پہلا شعر کسی بھی ملک کے رہنما یا لیڈر جس نے قوم اور ملک کے لیے قربانی دی ہو،کی
شخصیت پر صادق آتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اشعار بھی ہیں جو آج کے مسائل کی مختلف
صورتوں میں آئینہ داری کرتے ہیں۔ نذیر بنارسی کے اشعار کی آفاقیت کی ایک دلیل یہ
بھی ہے کہ ان کے شعری تخیل ان کے بعد شاعری کر نے والوں کے یہاں بھی ان محسوسات کے
ساتھ مل جاتے ہیں جو نذیر بنارسی نے بیان کیے ہیں۔مندرجہ بالا پانچویں شعر کو ذہن
میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی جو کہ پہلے صاحب دیوان عرب شاعر ہیں اور
دبئی (متحدہ عرب امارات) ان کا وطن ہے،کا شعر پیش ہے ؎
چپ رہنے کی عادت تجھے پتھر نہ
بنا دے
تو اب در
و دیوار سے گفتار کیا کر
زبیر فاروق کے یہاں صیغہ ئ
واحد کو مرکز بنا کر جو بات کہی گئی ہے اس سے بہت پہلے نذیر بنارسی کے یہاں وہی
بات دلیل کے ساتھ جس کا سرا مختلف تاریخی شواہد میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے،کو
اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے اور اس کا تاثر بھی اجتماعی ہے۔آخری شعر کے ماحول میں
نذیر کی شعری شخصیت کاڈویل کے اس بیان کی مماثل نظر آتی ہے۔وہ لکھتا ہے:
”وہ (کوئی با شعورشخص)معاشی زندگی کے ارتقا کے تسلسل میں
ماحول سے جدو جہد کرتے ہوئے اور عملاً اس (جدو جہد)کی تعبیر کرتے ہوئے اپنے آپ کو
شعوری طور پر ماحول سے الگ کرتا ہے۔جب انسان بیرونی حقیقت کی نوعیت کو اقتصادی
پیداوار کی مسلسل کوششوں کے ذریعے گرفت میں لے لیتا ہے تو ماحول اور اپنی ذات کا
باہمی امتیاز اس کی سمجھ میں آجاتا ہے کیوں کہ اب وہ ان کی وحدت کو بھی سمجھتا
ہے۔وہ یہ جان لیتا ہے کہ انسان ایک مشین کی طرح (سماجی) ضرورت کا تابع بھی ہے اور
کائنات کے تسلسل میں (اس سے ہم آہنگ)آزادانہ ارتقا کا تماشہ(تھیٹر) بھی۔“
(بحوالہ جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،ازشمیم حنفی،ص114-15)
اس قبیل کے متعدد اشعار ان کے
یہاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ انھوں نے حسن و عشق کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پیش
کرتے ہوئے ان میں سے بیش تر میں اپنی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔اس ضمن میں چند اشعار
ملاحظہ ہوں
عمر بھر کی بات بگڑی،اک ذرا سی
بات میں
ایک لمحہ
زندگی بھر کی
کمائی کھا گیا
تمھیں چند قطرہ اشک بھی،کیے
پیش جس کے جواب میں
وہ سلام
نیچی نگاہ کا،
تمھیں یاد ہو
کہ نہ یاد ہو
اک نظر ان کو دیکھنے
کے لیے
کی ہے کتنوں نے دوستی ہم سے
بخشا اسی کو درد جو شایان درد تھا
دل بھی دیا خدا نے تو پیچان کر
دیا
کچھ روز ہم بھی تارک دنیا و
دیں رہے
انجام یہ
ہوا کہ کہیں کے نہیں رہے
آسماں سے اتارا گیا
زندگی دے کے مارا گیا
یہ وہ اشعار ہیں جن میں دوسرے
معنوی امکانات بھی تلاشے جا سکتے ہیں،لیکن میرے خیال میں غالب موضو ع حسن و عشق کی
فضا کے ارد گرد ہی سفر کرتا ہے۔وزیر آغا نے اردو غزل کے حوالے سے لکھا ہے:
”غزل بت پرستی کی ایک صورت بھی ہے اور بت شکنی کا ایک عمل
بھی۔اس میں جزو کی بے قراری بھی ہے اور کل کا تھپک کر سلا دینے والا ہاتھ بھی۔غزل
میں ان دونوں پہلوؤں کا وجود ضروری ہے۔جہاں ایسا نہیں ہوتا اور وہ کسی ایک پلڑے کی
طرف واضح طور پر جھک جاتی ہے تو اس سے غزل کا مزاج بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اردو
غزل کے تدریجی ارتقا میں ایسے ادوار بھی آئے ہیں، جن میں غزل توازن کی اس صفت کو
برقرار نہیں رکھ سکی اور اسی لیے خالص بت پرستی یا خالص تخیل پسندی کی رو میں بہہ
گئی ہے،تاہم بحیثیت مجموعی اس نے اپنی بنیادی صفت سے انحراف نہیں کیا ہے۔“ (معنی
اور تناظر،از، وزیر آغا،ص249)
بلا
شبہ یہ توازن نذیر بنارسی کے یہاں موجود ہے۔ کلاسکی اور جدید طرز فکر میں انھوں نے
تحریک آزادی اور وطن پرستی کے موضوع پر بھی شعر کہے ہیں۔ان کے علاوہ شہر بنارس جس
کو ’یاران دلبراں‘ بھی کہا جاتا ہے،کی خصوصیات کا محاکمہ کرتے ہوئے پوری غزل اور
دوسری غزلوں میں اشعار موجود ہیں۔
کسی پہلو سے جب دنیا ہمیں زندہ
نہ چھوڑے گی
وطن ہی
کے لیے ہم سر
کٹا لیتے تو اچھا تھا
اپنے آنسو پونچھ لے ائے مادر ہندوستاں
اس لٹی حالت پہ بھی سب کچھ لٹا
سکتے ہیں ہم
اس پرانی بے وفا دنیا کا
رونا کب تلک
آئیے مل جل کے اک دنیا نئی
پیدا کریں
دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا
شکوہ کریں
لاؤ تیشہ،
ایک دریا دوسر ا
پید ا کریں
ایسا بھی ہے بازار بنارس کی
گلی میں
بک جائیں خریدار بنارس کی گلی
میں
ہشیاری سے رہنا نہیں آتا جنھیں
اس پار
ہو جاتے ہیں اس پار بنارس کی گلی میں
اس کے علاوہ بھی نذیر بنارسی
نے سماج کے ایک بہترین نبض شناس کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان
کے یہاں موجودہ معاشرے سے بیزاری کا رجحان نہیں ملتا اور نہ ہی اپنی انفرادیت کے
کھو جانے کا جذبہ انھیں پریشان کرتا ہے۔وہ در اصل کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت
کے قائل ہیں۔ان کے یہاں دونوں صورتیں یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ان کا فن کبھی
اذیتوں سے نجات کی کوشش کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے تو کبھی زندگی کی وحشت خیزی کی
تلافی کے عناصر کی صورت میں۔اور ان کے درمیان زندگی کے دوسرے شعبہ ذات
مثلاًدینی،تہذیبی،مادی،سیاسی وغیرہ گردش کرتے ہیں۔ان مختلف موضوعاتی محوروں کے
اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ منزل کا نشاں ہنوز دھندلا ہے، جو مختلف نجات کے
راستوں کی جانب لے جاتا ہے۔ میکس شلر نے کہا ہے۔
”ہم پہلی نسل ہیں،جس میں انسان آپ اپنے لیے متنازعہ بن
گیا ہے۔جس میں اسے یہ علم نہیں رہ گیا ہے کہ حقیقتاًوہ کیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ وہ
یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔“
(بحوالہ،جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،ازشمیم حنفی،ص180)
اور اسے جانتے ہوئے بھی نہ
جاننے اور نہ جانتے ہوئے جاننے کی مختلف صورتوں کا اظہار جب نذیر بنارسی اپنے
مخصوص انداز میں کرتے ہیں تو اس پورے سیاق میں آڈن کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں:
”زبان کی ماہیت پر کوئی غور و فکر اس فرق کو سامنے رکھے
بغیر شروع نہیں کی جا سکتی جو الفاظ کے اس طریقہئ استعمال میں،جب ہم انھیں ذاتی
گفتگو کے لیے کام میں لاتے ہیں... جب ہم واقعی گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے پاس ہمارا
حکم بجا لانے پر تیار الفاظ،موجود پہلے سے نہیں ہوتے،بلکہ ہمیں انھیں ڈھونڈنا پڑتا
ہے اور جب تک ہم بات کہہ نہیں لیتے۔ہمیں ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کیا کہنا
ہے۔“
(بحوالہ شعر غیر شعر اور نثر،از شمس الرحمن فاروقی،ص 94)
میرے خیال میں زبان کی ماہیت
کے ساتھ ساتھ تخیل کی ماہیت اورمکمل ادائیگی پر بھی صادق آتے ہیں۔ نذیر بنارسی کے
یہاں حقیقت کی عکاسی کے بیان کی دوسری پرتیں بھی ہیں جن میں تغزل کے ساتھ سنجیدگی
اساطیر ی،دیو مالائی،تاریخی اور فلسفیانہ عناصر بھی شامل ہیں۔ اشعار
؎
جو اکیلے ہنسے، وہ پاگل ہے
صرف اپنی خوشی،خوشی تو نہیں
اک مسافر اس طرح سویا ہے تیرے
در کے پاس
ایک پتھر
سر کے نیچے، ایک پتھر سر کے پاس
تم مبارک باد کے قابل ہو اے
اہل جنوں
تم بگڑتے
بھی گئے تو کارواں بنتا گیا
مرے خیال نے پہنچا دیا ہے کس
کے پاس
شکنتلا کی انگوٹھی
کی طرح گم ہیں حواس!
زمانہ ہو گیا،بن سائیں سائیں
کرتا ہے
تمھارے بعد کسی کو نہ مل سکا بن باس
اس کے جینے کی داستان نہ پوچھ
سانس بھی لے کے جو ادھار چلے
اگر نذیر بنارسی کے ان اشعار
کا جائزہ نہ لیا جائے جو کہ ان کے مندرجہ بالا تمام اشعار کے بالمقابل ان کی
شاعرانہ شخصیت پر اگرمنفی اثر نہیں ڈالتے تو ان کے وقار میں کسی قسم کا اضافہ بھی
نہیں کرتے،تو مضمون مکمل نہ ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے اس قسم کے اشعار عام
مشاعروں کے قارئین کے جذبات اور ان کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہے ہیں۔اس
قبیل کے بھی چند اشعار ذیل میں درج ہیں
؎
تم ساتھ میں لے کر چلنا بھی
چاہو تو میں شاید چل نہ سکوں
پابند ہوں اب آزاد کہاں،
مجبور ہوں، خود مختار نہیں
بہار آئی، سبزے کھلے دھانی
دھانی
پھر انگڑائی
لینے لگی ہے جوانی
مرے شانے پر یہی زلف تھی،جو ہے
آج مجھ سے کھنچی کھنچی
مرے ہاتھ
میں یہی ہاتھ تھا، تمھیں یاد ہو، کہ نہ یاد ہو
کلیوں میں مسکرا کے،پھولوں میں
کھلکھلا کے
یہ کون جھانکتا
ہے،پردہ اٹھا اٹھا
کے
نذیر آؤ رو لیں گلے مل کے ہم
تم
نہ جانے کہاں پھر ملاقات ہوگی
کہیں دیکھا ہے میں نے تم سا
حسیں
سوچتا ہوں
کہ تم وہی تو
نہیں
اس قسم کے مزید اشعار بھی نذیر
بنارسی کی شاعری میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں بھی ایک خوبی یہ ہے کہ رومانی
اور سماجی سطح پر یہ ان موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جن کی قدرو قیمت شعبہ ئ زندگی
میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے،خواہ وہ اانسان کے کتنے ہی قدیم روایتی احساسات کی
ترجمانی کریں،انسان ان سے ازل سے ابد تک نہ الگ ہو سکتا ہے اور نہ فرار حاصل کر
سکتا ہے۔ جب مجموعی طورپر ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے،تو ان کی قدر و قیمت
قارئین کے دلوں میں خود نذیر بنارسی کے اس شعر کے عین مطابق جگہ بنا نے کی صلاحیت
رکھتی ہے۔وہ شعر یہ ہے ؎
وقت کی قدر کرو،وقت کی قیمت سمجھو
وقت ہوں،وقت نہیں لوٹ کے پھر
آنے کا
Jawed
Ahmad (Javed Anwar)
Editor
'Tahrik-e-Adab'
Research
Scholar, Dept of Urdu, BHU
Varanasi
- 221005
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں