12/3/21

جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کی معاشی و سماجی ترقی میں ماحولیاتی سیاحت (ایکوٹوریزم) کا کردار - مضمون نگار: ہلال احمد وار




جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کی معاشی و سماجی ترقی میں ماحولیاتی سیاحت (ایکوٹوریزم) کا کردار

سیاحت دنیا کے بڑے معاشی شعبوں میں سے ایک اہم  شعبہ ہے۔ اس شعبے کے ساتھ بہت ساری چھوٹی اور بڑی صنعتیں وابستہ ہیں  جو سیاحوں کو درکار مصنوعات اور  دیگرخدمات پیدا کرکے روزگار کے  مواقع پیدا کرتا ہے۔ ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کے مطابق 2018  میں سیاحتی شعبے  کا عالمی معیشت میں  10.4 فیصد تعاون تھا اور  اس سے 319 ملین روزگار پیدا ہوئے،جو دنیا بھر میں مجموعی روزگار کا دس فیصد حصہ تھا۔  ماہرین کا ماننا  ہے کہ سیاحت کا عالمی معیشت میں  اصل تعاون برعکس  اس کے براہ راست تعاون سے تین گناہ زیادہ ہے۔ معاشی فوائد نے سیاحت کو ایک عالمی طاقت بنا دیا ہے ، جو تعمیر و ترقی   میں فروغ  اور بہتر روزگار پیدا  کر کے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔ عالمی سیاحت  کے معاشی فائدے کا پچاس فیصد فائدہ  دس ممالک حاصل کرتے  ہیں۔ ان میں فرانس اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ اگرچہ ہندوستان  دنیا کے پہلے دس  سیاحتی مقامات میں شامل نہیں ہے، لیکن ایشیائی خطے میں ہندوستان سیاحتی طور پر سب سے زیادہ تیزی سے فروغ پانے والا ملک ہے،جو ایشیائی خطے کے دس فیصد سیاحت کے معاشی فائدے میں سے 6.6 فیصد معاشی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ ہندوستان کی سیاحت میں جموں و کشمیر کو اہم مقام حاصل ہے کیونکہ جموں وکشمیر میں سیاحت کے بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں۔ البتہ یہ وسائل ماحولیاتی طور پر بہت ہی حسا س ہیں۔ ان کو سیاحت کے بطور فروغ دے کر نہ صرف ہندوستان میں بین الاقوامی سیاحت کو فروغ ملے گا،بلکہ یہ جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی، معاشی و سماجی خوشحالی اور امن و شانتی  میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ماحولیاتی سیاحت: ایک تعارف

دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں سیاح ملکی و بین الاقوامی سیر کرتے ہیں جس کے  بہت سارے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی  اثرات  رونما ہوتے ہیں۔ متعدد تحقیقوں سے یہ ظاہر ہوتا  ہے کہ سیاحت دونوں، منفی اور مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔  لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاحت کے منفی اثرات کو کم کرکے اس کے مثبت اثرات کو فروغ دیا جائے۔ نیز سیاحتی وسائل کو معقول انداز میں استعمال کیا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ موجودہ نسل کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والی نسلیں بھی سیاحتی وسائل  سے لطف اندوز ہوسکیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک پر زور دیتا ہے کہ ماحولیاتی سیاحت(ایکو ٹوریزم)  کو فروغ دینے والی  پالیسیاں اپنائیں اور ماحولیاتی سیاحت کا ماحول، معیشت،  سماج و  ثقافت کے تحفظ میں مثبت کردار کو اجاگر کیا جائے۔ ماحولیاتی سیاحت، کی ایک ایسی قسم ہے جس میں حساس مقامات کو سیاحت کے طور پر فروغ  دیتے ہوئے  معاشی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس قسم کی سیاحت میں سیاحوں کو سیاحتی مقامات کے ماحول اور وہاں پر مقیم لوگوں کی ثقافتوں، روایات اور رسومات سے روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ ان کا خیال رکھ کے تحفظ اور فروغ کو آسان بنایا جائے۔ نیز اس سے مقامی آبادی  کے  لیے روزگار کے وسائل پیدا کر کے ان کی سماجی و معاشی بہتری کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ماحولیاتی سیاحت پائیدار روزگار کی تخلیق کرکے نہ صرف مقامی لوگوں کی معیشت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ملک کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی وسائل پیدا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 2012 میں ماحولیاتی سیاحت سے وابستہ ایک قرار دار زیر نمبر 232/67 منظور کی۔ اس قرارداد میں ماحولیاتی، سماجی و معاشی تحفظ نیز غربت کے خاتمے اورلوگوں کے رہائشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پائیدار سماجی و معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے ماحولیاتی سیاحت  کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

جموں و کشمیرکی معیشت کا مجموعی جائزہ

جموں و کشمیر کی معیشت تین شعبوں پر مشتمل ہے۔  زراعت، صنعت اور خدمات۔ زرعی شعبہ باغبانی، مویشی پالن، مچھلی پالن اورریشم کاری پر مشتمل ہے۔صنعتی  شعبے میں بہت سارے چھوٹے اور  بڑے صنعتی کارخانے شامل ہیں۔ جب کہ خدمت شعبے میں مختلف خدمات بشمول سیاحت اور اس سے  منسلک  ہوٹل، ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ 2018-19 کے معاشی سروے کے مطابق جموں و کشمیر کی معیشت میں خدمات شعبے کا 55.92  فیصد  تعاون ہے. جب کہ صنعتی شعبے کا 27.90 اور زرعی شعبے کا 16.18  فیصد ہے۔ درج ذیل گراف جموں وکشمیر کے مختلف معاشی شعبے اور ان کا معیشت میں تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔

 

تصویر 1

 

زراعت (Agriculture)،صنعتیں (Industries)،  خدمات(Services)

ماخذ: معاشی سروے برائے سال 2018-19 حکومت جموں و کشمیر

جموں و کشمیر معاشی و سماجی  ترقی پر گامزن ہے۔ اگرچہ اس کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن تسلی بخش ضرور ہے۔ اس صورت حال کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار جموں وکشمیر کی اکنامک سروے سے لی گئی ہیں۔

جموں و کشمیر معاشی و سماجی  ترقی پر گامزن ہے۔ اگرچہ اس کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن تسلی بخش ضرور ہے۔ اس صورت حال کا اندازہ مندرجہ ذیل جدول کے اعداد و شمار اور گراف سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار جموں وکشمیر کے معاشی سروے اور ڈائریکٹوریٹ برائے معاشیات شماریات سے لی گئی ہیں۔

سال

خدمات

صنعتیں

زراعت

کل

1980-81

39.7

12.90

47.40

100

1990-91

44.70

16.81

38.49

100

2000-01

47.20

20.23

32.57

100

2010-11

51.79

24.14

24.07

100

2018-19

55.92

27.90

16.16

100

(ڈائریکٹریٹ برائے شماریات و معاشیات (اعداد و شمار برائے سال 2013-14) اور معاشی سروے جموں وکشمیر برائے سال  2018 اور 2019 حکومت جموں و کشمیر)

 

تصویر 2

 

زراعت (Agriculture)،صنعتیں (Industries)،  خدمات(Services)

ان اعداد و شمار کے احاطہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جموں و کشمیر کی معیشت میں پہلے زرعی شعبہ غالب تھا جس کا معیشت میں پچاس فیصد سے زیادہ تعاون تھا۔ لیکن اس کا شرح تعاون بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں  زرعی شعبے کا تعاون 47 فیصد سے گرکر 2019 میں  16.8 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف خدمات شعبے کا تعاون مسلسل بڑھ گیا ہیں اور اس میں سیاحت بالخصوص سب سے زیادہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس کی طرف جموں وکشمیر کے  دیہی علاقوں میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے

جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں کی سماجی و معاشی صورت حال

 دو ہزار گیارہ (2011)کی مردم شماری  کے مطابق جموں و کشمیر کی 73  فیصد آبادی دور دراز  دیہی اور سرحدی علاقوں میں مقیم ہے۔ دیہی علاقوں کی معیشت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت اور اس سے منسلک شعبوں پر منحصر ہے جس میں زراعت، باغبانی، مویشی پالن، ریشم کاری، دستکاری، مچھلی پالن وغیر ہ شامل ہیں۔ باغبانی کا  جموں و کشمیر کی کل آمدنی میں  7سے 8 فیصد  تعاون ہے۔ اس کے ساتھ 33 لاکھ خاندان منسلک ہیں۔ دیہی علاقوں کے 30000 ایسے خاندان جو معاشی طور پر پسماندہ ہیں اور جن کے پاس زمین وجائداد نہیں ہے، ریشم کاری کے ساتھ وابستہ ہیں۔مویشی پالن جمو وں وکشمیر میں آغاز سے ہی طرز زندگی رہا ہے، دیہی علاقوں کے لوگ اکثر مویشی پالتے ہیں۔ 2018 کے معاشی سروے کے مطابق مویشی پالن  کا دیہی آبادی کی معیشت میں34 فیصد اور جموں وکشمیر کی مجموعی معیشت میں 5.53 فیصد حصہ ہیں۔ یہ اضافی آمدنی کے علاوہ  دیہی آبادی کو درکار کھاد ، ایندھن ،گوشت، دودھ، اون وغیرہ فراہم کرتا ہے۔ جمو ں وکشمیر کی دستکاری دنیا بھر میں مشہور ہے۔ دیہی علاقو ں  کے معاشی طور پسماندہ طبقے خاص طور پر عورتیں اس پیشے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ درج ذیل جدول اور گراف جموں و کشمیر کی دیہی معیشت میں زراعت اور اس منسلک  شعبوں کے تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔

جموں و کشمیر کی معیشت میں زراعت اور اس سے

منسلک لوگوں کا تعاون

نمبر شمار

شعبہ

کل تعاون معیشت

تعاون زراعت/ دیہی معیشت (فیصد)

1

فصل و باغبانی (Crops)

8.16

51

2

مویشی پالن (Livestock)

5.53

34

3

جنگلات (Forests)

1.45

9

4

کان کنی

(Mining)

0.64

4

5

مچھلی پالن (Fisheries)

.033

2

6

کل تعاون

16.18

100

معاشی سروے برائے سال 2018-19 حکومت جموں و کشمیر

 

تصویر 3

 

فصل (Crops)، مویشی پالن (Livestock)، جنگلات (Forests)، کان کنی (Mining)، مچھلی پالن (Fisheries)

اس طرح سے جموں و کشمیرکی کل آبادی کا 73 فیصدی حصہ جوبالخصوص دیہی علاقوں میں مقیم ہے،  زرعی شعبے کے ساتھ وابستہ ہے جوجموں و کشمیر کی کل معیشت میں صرف 16.8 فیصد  تعاون کرتا ہے، جب کہ  باقی 27 فیصد شہری  آبادی صنعتوں اور سروس سیکٹر کے ساتھ وابستہ ہے جس کا جموں و کشمیر کی کل معیشت میں 83 فیصد  تعاون ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ  دیہی علاقے بے روزگاری معاشی و سماجی پس ماندگی کے شکار ہیں جس سے ان علاقوں میں تعمیر و ترقی اور معیار زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اگرچہ جموں و کشمیرکے دیہی علاقوں میں معیشت زوال پذیر ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں  لیکن 2017 کے معاشی سروے کے مطابق اس میں زرعی زمین کی تقسیم، تعمیرات کے لیے استعمال، کاشت کاری میں جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کا کم استعمال کے علاوہ چراگاہوں میں کمی ،قرض اور سب سیٹی کی قلت، پیداوار کی فروخت کے لیے مارکیٹ اورمنڈیوں کا فقدان شامل ہیں۔

جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں کی معاشی و سماجی  ترقی میں ماحولیاتی سیاحت

زیادہ تر قدرتی اور خوبصورت مقامات دور دراز دیہی اور سرحدی علاقوں میں واقع ہوتے ہیں۔  جموں و کشمیر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں خوبصورت اور سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے والے مقامات دور دراز دیہی اور سرحدی علاقوں میں واقع ہیں۔ جیسے دکسں (اننت ناگ)، لولاب اور وادی بنگس  ( کپواڑہ) ،توش میدان (بڑگام) اور گریز (بانڈی پورہ)۔ یہ مقامات اپنی خوبصورتی اور دلکش آب و ہوا کی بدولت گلمرگ، پہلگام اور مغل باغات جیسے مشہورسیاحتی مقامات سے زیادہ سیاحتی  صلاحیت رکھتے ہیں۔ جموں وکشمیرکے پانچ سرحدی اضلاع ہیں جن میں پونچھ، راجوری، بارہمولہ، بانڈی پورہ  اورکپواڑہ  شامل ہیں۔ یہ سرحدی اضلاع اپنی تاریخی یادگاروں، پہاڑی چوٹیوں، قدرتی خوبصورتی، مقامی روایات اور مشہور ثقافتوں سے مالا مال ہیں جو سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ایک نایاب سامان ثابت ہو سکتے ہیں۔ البتہ یہ علاقے سماجی ومعاشی طور پر پسماندہ ہیں اور یہاں پر مقیم آبادی کا معیار زندگی کم ہے اور روزگار  کے مواقع بھی کم ہیں۔ ان اضلاع کی پسماندگی کی وجہ تعمیری دھانچے اور رسائی کی کمی ہے۔ جموں و کشمیر کے دیہی اور سرحدی علاقوں میں سیاحت کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔  یہاں بہت سے قدیم مندر ، خانقاہیں، قلعے، روایات اور رسومات، کھانا، لباس وغیرہ ہیں جو انتہائی متاثر کن اور فروغ دینے کے قابل ہیں۔ ان علاقوں کی  قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ سرسبز و شاداب جنگلات ، برف پوش پہاڑ، تیز بہاؤ والے ندی نالے اور دریا،  وائلڈ لائف وغیرہ، ان سب مقامات کی قدر  ومنزلت اور ان کی رعنائیوں میں  بے حد اضافہ کرتے ہیں۔

سیاحت کو دور دراز دیہی اور سرحدی مقامات کی ترقی کے لیے سب سے نمایاں اور آسان آلہ ہیں اور  سیاحتی سرگرمیان ان علاقوں میں لوگوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کو تبدیل کرنے کی کافی صلاحیت  ہے۔ سیاحت کے فروغ سے ان  دیہی اور سرحدی علاقوں میں بنیادی  تعمیری ڈھانچہ جیسے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، پانی  اور بجلی کی فراہمی،بنک اور دیگر اداروں کی سہولت،  رہائش اور کھان پان کے لیے ہوٹل  وغیرہ کی تعمیر ہو گی۔ دیہی علاقوں کی معاشی بدحالی اور بیروزگاری سے نمٹنے کے لیے دیہی علاقوں میں سیاحت سے سرمایہ کاری،  روزگار، ماحولیاتی تحفظ اور ثقافت اور روایات کو فروغ ملے گا۔ خاص طور پر روایتی صنعتوں کی۔ جیسے کارپینٹری، دستکاری  مقامی فن کاری  وغیرہ جس سے دیہی علاقوں میں مقیم آبادی کی معاشی و سماجی حالت بہتر ہو سکتی ہیں سیاحت مزید معاشی سرگرمیوں کے لیے بھی راہ فراہم کرے گی۔

سیاحت کی صلاحیت اور فروغ کو دیہی ترقی کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیاحت موثر بنیادی تعمیری ڈھانچہ فراہم کر کے حائل رکاوٹوں کو دور کرکے نجی شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھا سکتی ہے۔کمیونٹی کی سطح پر سیاحت  جمو ںو کشمیر کے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی۔ جو متبادل آمدنی کا ذریعہ فراہم کر کے مقامی آبادی کو سیاحت کے منصوبوں کے مرتب اور نگرانی میں شامل کر کے تجارت، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے نئے دروازے کھول دے گا۔ دیہی علاقوں میں سیاحت کا فروغ قدرتی وسائل تک رسائی متبادل آمدنی اور ذریعہ معاش فراہم کرے گا۔ جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں میں معیشت میں گراوٹ اور شہری زندگی اور خدمت شعبوں کی طرف بڑھتی ہوئی کشش دیکھی جا رہی ہیں۔کیونکہ دیہی معیشت جو زراعت پر مبنی ہے، کا مستقبل غیر یقینی اور زوال پذیر ہے۔ اس لیے دیہی علاقوں کے معیشت کوبرقرار رکھنے اور روزگار کی تخلیق اس میں تنوع  کے لیے دیہی سیاحت ایک اہم  ہتھیار اور ذریعہ ثابت ہوگی۔ سیاحت دیہی فنون و دستکاری اور بنیادی تعمیری  ڈھانچے کی ترقی کے لیے ایک ترغیب فراہم کرے گی، جودیہی علاقوں میں دیگر معاشی سرگرمیوں میں اضافے میں معاون  و مددگار ثابت ہوگا۔  دیہی علاقوں میں سیاحت کی ترقی کا ایک خاص فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے دیہی اور سرحدی علاقے  کی آبادی کے سماجی  رابطے  بڑھیں گے جو اکثر الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں۔

 جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے چند اقدامات

جموں و کشمیرمیں 47 فیصد قابلِ استعمال زمین پر  جنگلات  ہیں۔یہ جنگلات دوردراز دیہی اور سرحدی علاقوں میں  ہیں۔   جنگلاتی  پالیسی 2011 ، جنگلات کے تحفظ ااور ان  سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے جنگلات کو ماحولیاتی سیاحت کے بطور فروغ دینے کی وکالت کرتی  ہے۔  2011 جنگلاتی پالیسی کو لاگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلات نے  2017 میں  ماحول دوست سیاحتی پالیسی مرتب کی۔ اس سے جنگلات، چراگاہوں، قومی پارکوں اور  وائلڈ  لائف سنچریوں میں سیاحت کو   فروغ  دینے کی راہیں ہموار کی گئیں نیزجنگلات پر منحصر دیہی اور سرحدی علاقوں کے لوگوں کو سیاحت ایک متبادل ذریعہ معاش  اپنا نے  پر بھی  زور دیا گیا۔ 2016 سیاحتی پالیسی کے تحت  جموں و کشمیر کے روایتی سیاحتی مقامات جیسے گلمرگ، پہلگام، ڈل جھیل  وغیرہ سیاحوں کی کثیر آمد رفت  سے ماحولیاتی طور پر آلودہ ہو چکی ہیں۔اس لیے دور دراز اور سرحدی علاقوں میں واقع  دوسری سیاحتی مقامات جن میں  بنگس،  لولاب،  دودھ پتھری، توشہ میدان وغیرہ کو فروغ دینے پر زور دیا گیا کہ روایتی سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے دباؤ کو کم کیا جا سکے ۔جموں و کشمیر میں دور دراز دیہی اور سرحدی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے دیہی سیاحتی اسکیم کے تحت جموں و کشمیر کے 30 دیہاتوں میں سیاحت کو درکار بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھا گیا ہے۔ البتہ معاشی قلت کی وجہ سے ان سیاحتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔ اس لیے  ان علاقوں میں سرکار کی طرف سے پہلے ہی سے چلائے جارہے دیہی ترقیاتی پروگرام کو سیاحت کے ساتھ جوڑ کر سیاحتی منصوبوں کو لاگو کرنے کے لیے مالی قلت کو دور کیا جا سکتا ہے اور علاقوں میں تعمیر و ترقی اورسماجی و معاشی خوشحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سرکار کے بہت سارے منصوبے اور اسکیمیں ایسی ہیں جو دیہی علاقوں کے لوگوں کی معاشی خوش حالی اور فلاح و بہبود  کے لیے دستیاب ہیں۔ ان اسکیموں میں  پردھان منتری گرام  سڑک یوجنا، رولر واٹر سپلائی اسکیم، منریگا، دیہی بجلی اسکیمیں، کھادی ایینڈ ولیج انڈسٹریز، نبارڈ، اور دیگر کئی ایسی اسکیمیں ہیں جو محض دہی علاقوں ہی کے لیے دستیاب ہیں۔ لیکن ان اسکیموں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اسکیموں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگ معاشی و سماجی طور سے مضبوط ہوں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو اسکیمیں دستیاب ہیں، ان کو مزید موثر اور  بہتر انداز میں استعمال کیا جائے۔ ایسا ممکن ہے اگر ان اسکیموں کو دیہی علاقوں میں سیاحت کے ساتھ جوڑ کر مزید مفید بنایا جاسکتا ہے۔ جس سے دیہی علاقوں میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے ترقیاتی منصوبے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے سے نوجوانوں میں بہترین روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس طرح سے سیاحت جموں وکشمیر کی ترقی اور امن وسلامتی کے قیام میں معاون ثابت ہوگی۔



Hilal Ahmad War

Research Scholar, Dept of Social Work

MANUU, Gachibowli

Hyderabad - 500032 (Telangana)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں