12/3/21

بہار میں رثائی ادب - مضمون نگار: سلطان آزاد

 




رثا‘ سے لفظ مرثیہ بنا۔ اصطلاح میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت پر رنج و الم کا اظہار ہو۔ اس کی وضاحت میں کئی دانشوران علم وادب نے اپنی اپنی رائے پیش کی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں: ’رثا‘ یا ’رثیٰ‘ کے معنی کسی کی موت پر آہ وزاری کرنا۔ عربی میں جو شاعری کے موضوع شمار کرائے گئے ہیں اس میں رثاکو ہمیشہ شامل کیا گیا ہے۔ عزیزوں اور محبوبوں کی وفات پر آنسو بہانے کے لیے جو نظمیں لکھی جاتی ہیں وہ مرثیہ کہلاتی تھیں‘‘  (بحوالہ : ادبی اصناف از ڈاکٹر گیان چند جین)

اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے الطاف حسین حالی فرماتے ہیں:

’’ مرثیہ کے معنی ہیں کسی کی موت پر جی کڑھنا اور اس کے محامد اور محاسن بیان کرکے اس کا نام دنیا میں زندہ رکھنا۔‘‘

(بحوالہ : مقدمہ شعروشاعری از الطاف حسین حالی)

عام طور سے محققین کی رائے ہے کہ لفظ مرثیہ عربی لفظ کا مشتق ہے اور اس کا مولد ومسکن عرب ہے۔ اس سلسلے میں قاسم نقوی لکھتے ہیں:

     ’’ مرثیہ کا صحیح مرکز ملک عرب ہے اور زبان عربی ہے۔‘‘(بحوالہ: رسالہ شاعر،ممبئی، جولائی 1971)

گویا عربی میں رثائی شاعری بالخصوص مرثیہ نگاری کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دورِ جاہلیت سے ہی مرثیہ گوئی کی روایت رہی ہے۔ خصوصی طورپر حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت پر کئی عربی شعرانے مرثیے کہے خصوصی طورپر حضرت کعب بن مالک انصاری نے بھی مرثیہ لکھا۔ جس میں اظہار غم کے علاوہ کئی اشعار تلوار کی تعریف میں کہے گئے تھے جو عربی مرثیہ نگاری میں نئی ایجاد تھی۔

 فارسی رثائی شاعری میں ایران کے حوالے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس کا باضابطہ رواج قیام صفوی کے دور حکومت میں ہوا۔ اس دور کا کامیاب مرثیہ محتشم کاشی کو تسلیم کیا جاتاہے۔ بقول علامہ شبلی نعمانی ’’محتشم کا شی نے آٹھ، دس بندوں کا ایک مرثیہ لکھا جو دردوغم کی مجسم تصویر ہے اور اس کا جواب آج تک نہ ہوسکا۔‘‘                                 

(بحوالہ : موازنہ انیس ودبیر از علامہ شبلی نعمانی)

اگرچہ اس دور کے دیگر مرثیہ نگاروں میں مقبل، مخلص، موزوں نسیم، حاجی محمد جان قدسی اور شفیع وغیرہ بھی تھے۔  (بحوالہ: دبستان دبیر از ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی)

ان فارسی شعرا کے علاوہ اہم فارسی مرثیہ نگاری میں شیخ سعدی اور حضرت امیر خسرو کے نام بھی سرفہرست ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

’’ شیخ سعدی اور امیر خسرو کے دومرثیے بہت مشہور ہیں اور چونکہ دل سے نکلے ہیں حسرت خیز اور دردانگیز ہیں۔‘‘   (بحوالہ: موازنہ انیس ودبیر از علامہ شبلی نعمانی)

اردو مرثیہ نگاری کی ابتدا کب ہوئی اس کی کوئی واضح تاریخ نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

 ’’یہ معلوم نہیں کہ مرثیے کی ابتدا کس نے کی لیکن اس قدر یقینی ہے کہ سودا اور میر سے پہلے مرثیے کا رواج ہوچکا تھا۔‘‘(بحوالہ: موازنہ انیس ودبیر از علامہ شبلی نعمانی)

تاریخ ادب اُردو اور مختلف تحقیق سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اُردو رثائی شاعری بالخصوص مرثیہ نگاری میں پہل صوفیائے کرام نے کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھیں عوامی طورپر شہرت نہیں ملی یا تشہیر نہیں کی گئی، جو بعد کے مرثیہ گو کو شہرت ملی لیکن ان میں مذاقی، طپاں، ظہور اور وسعت کو تقدم ضرور حاصل ہے۔ ہندوستان میں اردو شعرا نے بھی اہل عرب کی طرح شخصی مرثیے کہے ہیں لیکن اُردو مرثیہ کی جو روایت باضابطہ طورپر شروع ہوئی اور رائج ہوئی وہ خصوصی طورپر واقعات کربلا حضرت امام حسین ؓ اور ان کے رفقا کے لیے مخصوص ہوئی۔

مختصر یہ کہ ہندوستانی رثائی ادب میں مقبول ترین صنف مرثیہ نگاری تو ہے لیکن اس کے ارتقائی دائرے میں سلام، نوحہ وغیرہ بھی شامل ہیں، جس پر شعراے اردو کثرت سے طبع آزمائی کرتے رہے ہیں جو بدستور جاری ہے۔

صوبہ بہار علم وادب کا قدیم گہوارہ رہاہے۔  یہاں بھی رثائی ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے بقول ڈاکٹر اختراورینوی:

’’ بہار کے ابتدائی مرثیے 1206ھ کے ملتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ شاہ آیت اللہ اور ان کے صاحبزادے شاہ غلام علی وسعت کا ایک ایک مرثیہ ملا ہے، جس پر 1206ھ  درج ہے۔اس سے قبل کا مرثیہ انھیں نہیں ملا۔‘‘

(بحوالہ: بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء از ڈاکٹر اختراورینوی)

اس تحقیق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے متین عمادی فرماتے ہیں:

’’ حضرت شاہ آیت اللہ کا سال وفات یکم رجب 1210ھ ہے یعنی یہ مرثیہ جسے اختراورینوی صاحب نے دیکھا وہ ان کی ضعیفی کی عمر کا مرثیہ ہے۔ میں نے حضرت نورالحق طپاں (1156ھ/4شعبان 1233ھ) کے 46 مرثیوں کی جو بیاض کتب خانہ عمادیہ میں دیکھی ہے اس میں 1184ھ سے لے کر 1200ھ کے مرثیے ہیں۔ اور ہر مرثیہ پر سنہ دیا ہواہے۔ مرثیہ اوّل ودوم پر سُرخ روشنائی سے 1184ھ درج ہے۔ اس طرح مرثیہ نگاری کی تاریخ اور بھی قدیم ہوجاتی ہے۔ میں بے تکلف کہہ سکتا ہوں کہ مرثیہ نگاری کا آغاز بہار میں 1184ھ سے ہوا ہے۔‘‘           

(بحوالہ :مراثی ظہور مرتبہ متین عمادی، ص 14،مطبوعہ2006)

 گوکہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ بہار میں رثائی شاعری کی ابتدا باضابطہ طورپر 1184ھ سے شروع ہوچکی تھی۔

رثائی ادب میں تو صوفیائے پھلواری شریف نے ابتدائی دورجسے تشکیلی دَور بھی کہہ سکتے ہیں، نہ صرف شروعات کی بلکہ اسے فروغ دینے میں بھرپور کوششیں بھی کیں۔ اس سلسلے میں متین عمادی اپنے مضمون بعنوان ’بہار کے چند مرثیہ نگار صوفی شعرا‘ میں فرماتے ہیں:

’’ اس قصبے کے صوفی حضرات نے بہار میں مرثیہ نگاری کو جنم دیا اور اسے پروان چڑھایا۔ان ہی قدسی نفوس سے بہار میں مرثیہ نگاری کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔‘‘

(بحوالہ: بہار کے چند مرثیہ نگار صوفی شعرا از متین عمادی،مطبوعہ الناصر، پٹنہ، 1402ھ)

بہار کی رثائی شاعری میں مرثیہ کے علاوہ نوحہ، مسدس، سلام اور قصیدہ وغیرہ بھی شامل ہیں، جسے رثائی شعرا نے ہر دور میں بڑی دلجمعی اور عقیدت ومحبت کے ساتھ طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ زمانہ قدیم سے آج تک جاری ہے۔ لہٰذا بہار کے رثائی ادب کو تاریخی اور تحقیقی اعتبار سے بالترتیب چار ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے ارتقائی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ وہ ادوار اس طرح ہیں: (1) آغاز اور ابتدائی دور  (2) تعمیری دور  (3) ارتقائی دور اور (4)  جدید دور۔

آغاز اور ابتدائی دور:

یہ دور رثائی شاعری یعنی اردو مرثیہ نگاری کا تشکیلی دور ہے۔اس دور کے زیادہ تر شعرا صوفی ہیں یا تصوف پسند ہیں۔اس دور میں مرثیہ یا دوسرے رثائی کلام میں ابتدائی نقوش کے علاوہ ان میں تصوّف کا بھی بھرپوررنگ نمایاں نظر آتاہے۔ ایسے دور کے مرثیوں میں جذبات وتاثرات کے سمندرجیسے بہائو ملتے ہیں جن میں درد کی گہرائیاں ہیں اور اس میں غم ہی غم ہیں۔ علاوہ ازیں اس دور میں علاقائی زبان بھی جلوہ گر ہے جن میں مگہی یا پوربی، فارسی اور اردو کی آمیزش ہے۔ اس دورکے رثائی شعرا جن کے تذکرے ہمیں بازیافت میں ملتے ہیں ان میں شاہ آیت اللہ جوہری، غلام جیلانی محزوں، مفتی غلام مخدوم ثروت، شاہ نورالحق تپاں، شیخ غلام علی راسخ عظیم آبادی، شاہ امان علی ترقی، شاہ ظہورالحق ظہور، غلام شبلی وسعت، شاہ ابوالحسن فرد، قاضی مخدوم عالم مخدوم، سید شاہ غلام حسن، حسن عظیم آبادی، مولاناشاہ عبدالغنی، مولانا احمدی عظیم آبادی، پیر شاہ دمڑی فقیر ، مولوی محمد عالم علی، حیدری وغیرہ میں رثائی شاعری کے وہ نقوش ملتے ہیں جس میں اعلیٰ قسم کی فنکاری اور بھرپور رثائیت ہے۔

اس دور میں بہار کی رثائی شاعری میں اور بھی بہت سے شعرا ہوئے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کے مراثی یا دوسرے رثائی کلام مثلاً نوحہ، سلام وغیرہ دستیاب نہیں ہیں یا زمانہ کی گردشوں میں گُم ہوگئے یا ضائع ہوگئے۔ان شعرا کے اسمائے گرامی اس طرح درج کیے جاتے ہیں۔

*          شاہ محمد وحدت      (1217ھ تا 1295ھ)

*          مولوی علی وارث   (1227ھ تا 1296ھ)

*          مولوی وجیہ          (1213ھ تا 12965ھ)

*          مولوی سید ابراہیم   (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

*          مولوی کمال علی     (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

*          مولوی رضی الدین (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

*          مولوی محمد طالع مغموم          (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

*          قاضی حق            (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)  

اس کے علاوہ اسپرنگر نے صوبہ بہار کے کچھ شعرا جو مرثیہ گو تھے ان کا ذکر کیاہے۔ وہ سبھی قدیم مرثیہ گو ہیں ان کے متعلق جناب ذکی الحق نے اپنے مضمون بعنوان ’بہار کے مرثیہ گو‘ میں ضمناً ذکر کیاہے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں:

(1) غلام حسن حسن (شاگرد عشقی)،(2) میر ممنون حیراں (مظلوم، مرثیہ گوئی کے لیے) (3)  سید اللہ بخش شیفتہ دہلوی، (4)  سید محمد خاں نواب، (5) مرتضیٰ خاں نثار دہلوی، (6)  میاں محمد نجات دہلوی وغیرہ۔

تعمیری دور:

یہ عہد رثائی شاعری بالخصوص مرثیے کی ترقی کے لیے نہایت سازگار ثابت ہوا۔ مرثیے نے ارتقائی منزلیں طے کیں۔صوبہ بہار میں جس کا مرکز دبستان عظیم آباد بنا۔ یہی وہ دور ہے جسے میر انیس اور مرزا دبیر کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی زمانے میں مرزا دبیر کا تعلق عظیم آباد سے ہوا۔ اس دور میں رثائی شاعری کے تحت مرثیہ، مسدس،  نوحے اور سلام وغیرہ بھی خوب کہے گئے۔ بہار کی رثائی شاعری میں اس دور کی نمائندگی کرنے والے شعرا میں صفیر بلگرامی، شاد عظیم آبادی، عفت عظیم آبادی، حسن کھجوی، فقیر حسن عظیم، دوست محمد فہیم، شمیم کھجوی، سید مظہر حسن مظہر ، میر سید محمد زکی بلگرامی، سید محمد باقرمتین، حلم شیخ پوروی، فضل حق آزاد عظیم آبادی، بہار حسین آبادی، خورشید کاظمی، حامد عظیم آبادی، کاظم حسین زار عظیم آبادی، حفاظت بھیک پوری، بدرالدین احمد بدرعظیم آبادی، مظہر  عظیم آبادی، مرتضیٰ رشید، نوازش حسین مداح، کامل دھرمپوری، مشتاق کریم چکی، اسحاق فریدی،   مائل دھرم پوری اور خلیل بریلوی وغیرہ۔

اس دور، یعنی تعمیری دور کے دیگر رثائی شعرا میں درج ذیل شعرا بھی ہیں، جن کے تذکروں میں ان کی رثائی شاعری، مثلاً مرثیہ، نوحہ، سلام وغیرہ کہنے کی صرف اطلاعات ملتی ہیں۔ نمونۂ کلام نہیں۔ ممکن ہوکہ ان کے ایسے کلام پردۂ اخفا میں ہوں لہٰذا ان کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں، جو اس طرح ہے:شاہ انوارعالم  المتخلص بہ شاہ عظیم آبادی(تلمیذ مرزا دبیر)، علامہ سریر کابری کے والد سید شاہ رستم علی، احمد دربھنگوی، اظہر کاظمی، شفیع فریدی، مظہر فاروقی، حکیم  مولا نگری، میر فداحسین بحر،  میر ممتاز حسین نہر، احقر حمزہ پوری اور حیرت حمزہ پوری وغیرہ۔

ارتقائی دور:

یہ وہ دور ہے، جب رثائی ادب میں مرثیہ نگاری، نوحہ اور سلام وغیرہ بامِ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اگرچہ اس دور میں مراثی سے عجائب پرستی کا عنصر ختم ہوا۔صبر واستقامت کے تاریخی نقوش ابھارے گئے۔ اس طرح مرثیے کی متانت اور سنجیدگی میں اضافہ ہوا۔ عہد کی ضرورت کے پیس نظر تبدیلیاں ہوئیں۔ اس دور کی نمائندگی کرنے والے شعرائے کرام میں علی اکبر کاظمی، شمیم گوپالپوری، ندیم گوپالپوری، مظفر حسین آبادی، جمیل مظہری، عطا کاکوی، عابد کھجوی، منظر عظیمی،حیات حسین وفا، اصغر امام فلسفی، احسن رضوی دانا پوری، یحییٰ نقوی، دانش عظیم آبادی، جذب گوپالپوری، سید مہدی حسن مہدی، نقی احمد ارشاد، ہوش عظیم آبادی، وفا ملک پوری، نسیم عظیم آبادی، ناصرزیدی، تپش گوپال پوری، قاسم صہبا جمیلی، نادم بلخی، صابر بہاری، شہزاد معصومی اور سید اشتیاق حسین کیف عظیم آبادی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جدید دور:

ادب میں رثائی شعرا بہت کم ہیں۔ جو لوگ مرثیہ کہہ بھی رہے ہیں ان کے بند اب دو سو یا تین سو بند کے نہیں بلکہ بہ مشکل سو سے ڈیڑھ سو سے زائد بند نہیںکہتے۔ کیونکہ سننے والوں کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سنانے والے کے پاس۔ طوالت سے گریز کیا جاتاہے۔ اس دور میں نوحے، سلام، رباعی اور رثائی نظمیں کہیں جارہی ہیں۔ گویا ضروریات کے تحت تبدیلیاں کی گئیں۔ اگرچہ اس میں بھی بھرپوری رثائیت ہے۔ تبلیغی، اصلاحی اور انقلابی رُخ بھی نظر آتاہے۔ غرض، محض تقلید پر اکتفا نہیں بلکہ اجتہاد کے مظاہرے ایسے کلام میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس دور کی نمائندگی کرنے والے شعرا میں، شہرت بلگرامی، اخترعظیم آ بادی، جرار ر ضوی، مرتضیٰ اظہر رضوی، پیارے مرزا، معین افغانی، صبا نقوی، حسن نواب حسن، ارتضیٰ ؔرضوی، عابد رضا عابد، تراب حسین فردوسی عظیم آبادی، متین عمادی، رہبر حسین آبادی، گوہر شیخپوروی،سیدرضا مہدی رضا، سید مشتاق حسین وقارعظیم آبادی، اسد رضوی، شمیم عظیم آبادی، محسن رضا رضوی، رباب زیدی اور رومان  رضوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

رثائی شاعری کے فروغ میں عزائی انجمنوں کا بھی اہم رول رہاہے۔ جو عزا خانوں نیز امام باڑوں میں قبل مجالس پیش خوانی اور بعد مجالس ماتمی جلوس میں مرثیے اور نوحے وغیرہ لحن میں پڑھے جاتے ہیں۔ ایسے ماتمی جلوس کا اہتمام محرم اور چہلم کے موقع پر خصوصی طورسے ہوتا ہے۔ ایسی انجمنیں بہار کے اہم شہروں میں عظیم آباد (پٹنہ) کے علاوہ مظفرپور، شیخ پورہ، حسین آباد اورکھجوہ وغیرہ علاقوں میں بھی موجود ہیں۔ فی الوقت مرکز بہار، عظیم آباد(پٹنہ) کی کچھ اہم عزائی انجمنیں اس طرح ہیں:

انجمن پنچبتی،پٹنہ سٹی۔ انجمن حسینیہ، بائولی، پٹنہ سٹی۔ انجمن حیدری، پٹنہ سٹی۔ انجمن سجادیہ، پٹنہ۔ انجمن دستہ سجادیہ، پٹنہ سٹی۔ انجمن عباسیہ، پٹنہ سٹی۔ انجمن ہاشمیہ، پٹنہ۔ انجمن قاسمیہ، پٹنہ۔  انجمن اصغریہ،پٹنہ سٹی۔ انجمن معصومیہ،پٹنہ سٹی۔انجمن جعفریہ،پٹنہ سٹی۔ انجمن فیض معصومین،پٹنہ سٹی۔ انجمن زینبیہ،پٹنہ سٹی اور انجمن معین العزا (وقف ہائوس گلزار باغ،پٹنہ) وغیرہ۔

درج بالا عزائی انجمنوں کے علاوہ رثائی شاعری کے فروغ میں رسالہ، اخبار وجرائد کا بھی حصّہ رہا ہے۔ اس میں خصوصی طورپر رسالہ الناصر(پٹنہ سٹی) اور دیگر مقامی اخبارات کے ساتھ ریڈیو،پٹنہ کی اُردو سروس کا بھی خصوصی پروگرام ہر سال بہ موقع محرم اور چہلم نشر ہوتاہے۔ جس میں بہار کے اہم رثائی اور مرثیہ خواں حصہ لیتے رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ بہار میں رثائی ادب کو فروغ دینے اور اسے ارتقاء کی منازل تک پہنچانے میں جہاں بہتیرے شعرا کا حصہ رہا وہیں عزائی انجمنوں، رسائل واخبارات اور الکٹرانک میڈیا میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا بھی دخل رہا ہے، جس کی شمولیت اور ذکر لازم ہے۔

حوالے:

.1        اردو مرثیہ نگاری: اُمّ ہانی اشرف

.2         اردو مرثیے کا ارتقا: ڈاکٹر مسیح الزماں

.3         انیس و فردوسی کا تقابلی مطالعہ: ڈاکٹر فداحسین

.4         ادبی اصناف          :گیان چند جین

.5         اردو ادب کی تاریخ میںنالندہ ضلع کی خدمات:ڈاکٹرعشرت آرا سلطانہ

.6         بہار میں اُردو زبان وادب کا ارتقا: ڈاکٹر اختر اورینوی

.8         بہار میں اردو مرثیہ نگاری کا ارتقا: ڈاکٹر محمد ارمان

.8         بہار میں تذکرہ نگاری: ڈاکٹر منصورعالم

.9         بحر الفصاحت:محمد نجم الغنی نجمی

.10      بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار:عاشور کاظمی

.11      پیغمبران سخن        :شادعظیم آبادی

.12      تذکرہ بز م شمال جلداوّل:شاداںفاروقی

.13      تذکرہ شعراے سارن:سمیع بہواروی

.14      تاریخ ادب اردو، جلدسوم:وہاب اشرفی

.15      تاریخ شعراے بہار جلد اوّل:سید عزیزالدین بلخی بہ راز عظیم آبادی

.16      تذکرہ آرہ:ایک شہر سخن: ش۔م۔عارف ماہرآروی

.17      تذکرہ اردوشعراے پلاموں:ارشد قمر

.18      تذکرہ مسلم شعراے بہار(مکمل)        :حکیم سید احمد اللہ ندوی

.19      تذکرہ مشاہیر ادب :شیخ پورہ:ابوالکلام رحمانی

.20      دبستان دبیر:ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی

.21      دبستان عظیم آباد:سلطان آزاد

.22      ذکر ومطالعہ:ذکی الحق

.23      عکس اشک:محسن رضا رضوی

.24      فضل حق آزاد عظیم آبادی:عصر حیات اور فن:ڈاکٹر روحی حسن مجید

.25      گل رعنا:حکیم سید عبدالحئی

.26      مقدمہ شعروشاعری:الطاف حسین حالی

.27      موازنہ انیس ودبیر:شبلی نعمانی

.28      مراثیِ شاد:شاد عظیم آبادی،مرتبہ نقی احمد ارشاد

.29      مراثیِ ظہور:شاہ ظہورالحق ظہور:مرتبہ ازمتین عمادی

.30      مرزاسلامت علی دبیر:حیات اورکارنامے:مرزا محمد زماں آزردہ

.31      مظفرپور:علمی، ادبی اور ثقافتی مرکز:محمد حامد علی خاں

.32      رسالہ الناصر۔خاصر نمبر :محرم نمبر،پٹنہ سٹی:مدیر ناصرزیدی


Sultan Azad

Sultan Azad, Pannu Lane Gulzarbagh

Patna- 800007 (Bihar)

Mob.: 8789934730



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں