12/3/21

اجتبیٰ رضوی بہ حیثیت نظم نگار - مضمون نگار: فرحت نادر رضوی

 


شاد عظیم آبادی کے بعد بہار میں اردو شاعری کے حوالے سے تین نام خصوصی اہمیت کے ساتھ لیے جاتے رہے ہیں، پرویز شاہدی (1919تا  1968)،  جمیل مظہری(1904 تا 1980) اور اجتبیٰ حسین رضوی(1908 تا1991)۔  معاصر ہونے کے علاوہ یہ گہرے دوست بھی تھے،ان تین شعرا کے درمیان پرویز شاہدی اسلوب اور فکر کے اعتبار سے کافی مختلف نظر آتے ہیں،جبکہ اجتبیٰ رضوی اور جمیل مظہری میں مغائرت کے باوجود کہیں کہیں شدید مشابہت بھی پائی جاتی ہے،اور ان دونوں کے شعروں پر ایک دوسرے کا شبہہ بھی ہوتا ہے، در اصل یہ صاحبان اس قدر بے تکلف تھے کہ اکثر ایک ہی زمین پر طبع آزمائی کرتے اور بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ باہم اشعار کی ردو بدل کر لی جاتی، لیکن ایسا ہمیشہ ہی ہوا ہو،یہ قطعی ممکن نہیں،کیونکہ تفلسف و تفکر، غیاب و شہود، حیات و مقصد حیات جیسے ماورائی موضوعات کے علاوہ زمینی موضوعات اور عصری حسیت کے حوالے سے بھی ان کے درمیان رد عمل اور اظہاری رویوں میں گہری انفرادیت نمایاں ہے، ڈاکٹر منظر اعجاز (سابق صدر شعبہ اردواے این کالج پٹنہ)  نے بہت درست بات کہی ہے:

ـ’میلان طبع کے لحاظ سے پرویز شاہدی ترقی پسند تھے،جمیل مظہری اپنے جذب دروں سے مغلوب مجذوب صفت لیکن فلسفی شاعر تھے، اجتبیٰ رضوی کا میلان متصوفانہ اور عارفانہ تھا۔‘‘

(شاد کے بعد بہار کی شعری تثلیث،پرویز شاہدی، جمیل مظہری،اجتبیٰ رضوی :مرتبہ ڈاکٹر محمد حامد علی خان، ص 21)

اسی حوالے سے پروفیسر علیم اللہ حالی (سابق صدر شعبہ اردو، مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا) لکھتے ہیں:

’’جمیل مظہری کے یہاں عصری شعور کا اظہارکبھی راست مخاطبت، للکاراور حدی خوانی کے انداز میںسامنے آتا ہے، یا پھر موضوعات و مسائل فلسفیانہ سطح پر پہنچ جاتے ہیںـ۔۔۔۔انھوں نے اس خارجی تغیر کو رومانی تصورات میں تبدیلی کے حوالے سے پیش کیاہے،جبکہ پرویز نے ان موضوعات و مسائل کواپنی ذات کے حوالے سے پر اثر بنایا ہے، اجتبیٰ رضوی کی شاعری میں جو خفتہ شعلگی اور داخلی التہاب کی کیفیت ملتی ہے اس میں خارجی موضوعات زیریں لہر کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کی متصوفانہ کیفیت اور تھیوسوفیکل فکر کی وجہ سے بظاہر ایک گریز کا اندازہ ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خارجی وقوعوں نے اپنی ذات میں محبوس ہوجانے پرمجبور کر دیا ہے۔۔۔اجتبیٰ رضوی کی شاعری میں موضوعات دھندلکے میں پوشیدہ ہو جاتے ہیں،ان کی عارفانہ اور فلسفیانہ شخصیت مسائل کو ــEtheric سطح پر لے جاتی ہے اور بسا اوقات قاری کے پیش نظر ایک متحرک عکس لطیف ہی آپاتا ہیـ۔‘‘

(ایضاًص 16,17,18)

مندرجہ بالا بیانات کافی حد تک درست ہیں لیکن مسائل کا بیان ہمیشہ ہی Etheric سطح سے ہوا ہو،ایسا سمجھنا درست نہیں، در اصل اجتبٰی رضوی کی شاعری کے مختلف ادوار ہیں جن میں ان کی شاعری مختلف فکری، جذبی، نظریاتی اور اظہاری جہتوںکی حامل نظر آتی ہے، اگرچہ ان کا عمومی رجحان ہمیشہ ہی گہرا فلسفیانہ رہا ہے،جس کی ایک اہم وجہ ایسے ماورائی موضوعات ہیں جو ایک باریک رشتے سے مادی حالات و عوامل کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں،جن پر انھوں نے زیادہ لکھا ہے، چنانچہ قارئین کی عمومی توجہ ان کی شاعری کے اِن زیادہ لکھے جانے والے مخصوص حصوں پر ہی رہی ہے،جس کی وجہ سے مندرجہ بالا خیال ناقدین کے درمیان فروغ پا گیا،لیکن ان کی شاعری کا ایک دور ایسا بھی رہا جب انھوںنے شوریدہ انسانی جذبات اور لطیف احساسات سے لبریز نہایت خوبصورت اور عام فہم شاعری کی،حب الوطنی اور قومیت کے جذبات سے لبریز احساس کو جھنجوڑنے والی پیامی نظمیں لکھیںاور عصری سیاست، معاشی استحصال اورعدم مساوات جیسے زمینی مسائل کے حوالے سے طنز کی گہری کاٹ رکھنے والی حساس شاعری کی،یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں ارضی موضوعات کے بیان میں بھی اس داخلی التہاب اور شعلگی کی دبی دبی لہریں محسوس کی جاسکتی ہیں جو ان کی شاعری کے مزاج کے ساتھ مخصوص ہے۔لیکن یہ بھی درست ہے کہ ان کی شاعری کا یہ حصہ ان کے عرفانی مشاہدات اور روحانی اکتسابات سے لبریز مخصوص قسم کی شاعری کے بالمقابل قلیل نظر آتا ہے۔

اجتبٰی رضوی زود گو نہ تھے، گفتگو کی طرح ہی شاعری بھی بہت نہیں کی، لیکن فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ نظم،غزل،اور رباعیات  و قصائدکے علاوہ ان کی ایک آزاد نظم ’پہنائی‘ (غیر مطبوعہ) ان کے شعری اثاثے کی صورت دستیاب ہوئی ہے۔ان کے علاوہ ان کی نثریات ایک دستی روزنامچے کی صورت میں موجود ہیں جن میں انھوں نے اپنے عقائد وو نظریات زندگی اپنے ذاتی تجربات کے افشردے کی صورت قلم بند کیے ہیں، ایک اور نہایت چھوٹی ڈائری ہے جس میں انھوں نے اپنے مخصوص روحانی تجربات  و اکتسابات اشاروں کی زبان میں لکھے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں ان کی نظم نگاری کے حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے۔

شعلہ ندا میں ان کی نظموں کی کل تعداد29 ہے جس میں 5 شخصی نوعیت کی نظمیں ہیںجن میں شاعر نے ٹیپو سلطان، مہاتما گاندھی،نہرو اور مولانا آزاد سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے،ایک نظم ’گاندھی لنلتھ گو ملاقات‘ ہے جس میں عصری سیاست کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے،  4نظمیں ذاتی نوعیت کی ہیں جس میں شاعر نے اپنی جذباتی کیفیات کا بیان نہایت پر سوز و دلگداز انداز میں کیا ہے۔دو نظمیں ’ہلال عید‘ اور ’صبح بنارس‘ اس دور کی نظمیں ہیں جب شاعر کے دل کی دنیا آباد تھی، شوخی بیان ااور شگفتگی احساس ان نظموں سے چھلکی پڑتی ہے، خصوصاً صبح بنارس وہ شاندار نظم ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ان کی مذہبی کشادہ قلبی کا احساس ہوتا ہے،بلکہ شاعر کا فن اس نظم میں اپنے نقطہ عروج پر ہے،اس نے لفظوں میں ہندوستان کی روایتی تصویر کو زندہ محفوظ کر لیا ہے،ایک نظم ’سہرا‘ ہے جو چیف جسٹس (پٹنہ ہائی کورٹ) سرور علی کے عقد مسنون کے حوالے سے نظم کی گئی ہے، ان کے علاوہ کل17 نظموںمیں شاعر نے اپنی مخصوص فکر اور فلسفہ حیات کے حوالے سے گفتگو کی ہے،کہیں وہ بالعموم اولاد آدم کا درد بیان کرتا ہے اور کہیں بالخصوص امت مسلمہ سے دوبہ دو گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ان نظموں میں میٹا فزکس، سائنسی رموز و نکات، انسانی نفسیات،فلسفہ مذہبیات، تشکیک و تلاش،اقرار و اعتراف اوررد و قبول نظریات کے تمام مراحل بیان ہوئے ہیں۔ نظموں کا یہ حصہ عوامی حصہ شاعری سے مختلف ہے،یہاں ان کے اسلوب کی دبازت قاری سے دقت نظر اور ژرف بینی کی متقاضی ہوتی ہے۔ بالخصوص غیاب و شہود سے متعلق موضوعات کی عارفانہ رمزیت ایک خاص سطح ِفکر کے حامل اذہان پر ہی منکشف ہوسکتی ہے،مخصوص حسی درکے تجربوں سے گزرے بغیر شاعر کے مخصوص اکتسابات روحانی و محرکات وجدانی کی سریت و رمزیت تک قارئین کی رسائی ناممکن ہے، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرنے والوں کے لیے بھی ان کی شاعری کے حوالے سے قلم اٹھانا مشکل رہا ہے، ان پر بہت کم لکھا گیا ہے۔لیکن جو کچھ لکھا گیا ہے وہ قابل قدر ہے،چنانچہ اختر اورینوی’صبح بنارس ‘ کو ’اردو شاعری کا تاج محل‘ کہتے ہیںجبکہ 1963میں ’نگار‘ پاکستان میں فرمان فتح پوری نے نیاز فتح پوری کا قلمی چہرہ لکھتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ نیاز صاحب کواردو کے جن شعراء کا کلام بے حد پسند تھاان میں جمیل مظہری اور اجتبٰی رضوی ہیں۔۔۔۔نیاز فتح پوری کے قول کے مطابق جمیل مظہری اور اجتبٰی رضوی کے کلام میںجو چیز قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ ’’صاحب دلانہ طرز فکر ‘‘ ہے

(ماخوذ از’جمیل، پرویزاور اجتبٰی:تقابلی مطالعہ‘ڈاکٹر محمد توقیر خاں، شعبہ اردو فارسی، ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرہ، ایضاً ص53)

آغا عماد الدین احمد اجتبٰی رضوی کو ’ماضی،حال اور مستقبل کے کشادہ پس منظر میں شاعری کرنے والا شاعر تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شعلہ ندا کے مفکر کے گردو پیش صرف حال اور ماضی کا زمانہ ہی نہیں تھا،بلکہ مستقبل کا تا حدّنظر پھیلا ہوا میدان بھی تھا۔‘‘ (لوح و قلم(مجموعہ مضامین)

خود جمیل مظہری نے جا بجا اجتبٰی رضوی کے کلام پر نثر و نظم میں تبصرہ کیا ہے ایک جگہ فرماتے ہیں ’پردے کے ادھر کی باتیں اجتبٰی کے یہاں زیادہ ہیںـ‘ اپنے ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں:

’’اجتبٰی رضوی نے مجھے فلسفے اور تصوف کی چاٹ دلائی اور مجھے دشت تحیرمیں تنہاچھوڑ کرخود خانقاہِ خودی یا بے خودی میں گوشہ نشین ہوگئے۔‘‘

(غبار کارواں ماہنامہ ’آجکل‘ دہلی مئی 1970)

 بے تکلف  دوست ہونے کی وجہ سے انھوں نے جابجا شعری پیکر میں بھی اجتبٰی رضوی اور پرویز شاہدی کے حوالے سے دلچسپ طرزاظہار اختیار کیا ہے،اگر ایک طرف وہ اجتبٰی رضوی کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، تو دوسری طرف ان کی زمانے سے بیگانہ وشی پر مخلصانہ طنز بھی کرتے نظر آتے ہیں       ؎

زبور ہند کہیے مظہری رضوی کی غزلوں کو

حقائق کو جو لفظوں میں سمو کر معجزہ کر دے

اے رضوی ِ دانا ہوش میں آ،سن مظہریِ ناداں کی صدا

تو سالک ہے مجذوب نہ بن، مجذوب پہ دنیا ہنستی ہے

جمیل مظہری کی مشہور نظم ہے        ؎   

بقدر پیمانہ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا

اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا

اسی غزل کے مقطع میں اپنے دوستوں کے ناموں کو یوں شریک کرتے ہیں          ؎

جمیل حیرت میں ہے زمانہ مرے تغزل کی مفلسی پر

نہ جذبہ اجتبائے رضوی، نہ کیف پرویز شاہدی کا 

گفتگو کے آغاز میں ہی سید حسین احمد ایڈوکیٹ ناشر شعلہ ندا کے جس بیان سے استفادہ کیا گیا اس میں کہا گیا ہے :

’’1932 سے رضوی کی شاعری غالب، اقبال اور شاد سے بہت واضح طور پر متاثر نظر آتی ہیـ۔‘‘

یہ بیان جزوی طور پر درست ہے، شاد سے اثر پزیری کئی اعتبار سے فطری ہے اس حوالے سے ایک اہم پہلو عظیم آباد کی ادبی فضا بھی ہے جہاں اجتبٰی رضوی کا ذوق شاعری بالیدہ ہوا، اجتبٰی رضوی نے شاد کے ساتھ وابستگی کا اعتراف خود بھی کیا ہے،چنانچہ اس حوالے سے کسی بحث کی گنجائش نہیں رہ جاتی        ؎

سرمئہ بینش ہے، آنکھوں  میں لگا خاک مزار

بزم میں اب کیا ہے رضوی قبر پر چل شاد کی

جہاںتک غالب کا تعلق ہے،اجتبٰی رضوی کے یہاں تفکر و تفلسف کی موجودگی اس غلط فہمی کی وجہ ہوئی کہ ان کی شاعری پر غالب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ذرا سی توجہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرزا غالب او راجتبٰی رضوی کامزاج شاعری ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ غالب کی شاعری میںجذبات کا اظہار بھی تفکر بردوش ہے جبکہ اجتبٰی رضوی کے یہاں تفکر میںبھی وارفتگی اظہار اور التہاب کی سیماب آساکیفیات پائی جاتی ہیں، غالب کی فکر میں ٹھہراؤ ہے اجتبٰی رضوی کے یہاں سیالیت ہے، ان کی فکر کسی بھی مقام پر تھمتی ہوئی نہیں نظر آتی ہمیشہ جس نقطے پر ہے اس سے آگے کی سمت جولاں محسوس ہوتی ہے، غالب موجود کے جواز کا متلاشی ہے، رضوی غیر موجود کے امکانات کے جویا نظر آتے ہیں، غالب کے یہاں بھی ’امکانات‘ کی موجودگی ہے لیکن وہ حتمیت کا منکر نہیں ہے، لیکن اجتبیٰ رضوی ذہنی،فکری،نظریاتی ہر سطح پر تجربی رویہ اختیار کرتے ہیں، وہ مشاہدات و موجودات کی سطح مادی کی بھی ’حتمیت‘ کے قائل نہیں ہیں،اور خود اپنے زاویہ فکر کو بدل بدل کر غور و فکر کی کاوش کرتے رہنے میں یقین رکھتے ہیں، وہ ذہنی حتمیت کو توڑنے اور عقائد و نظریات کی ازسرِ نو تعمیر کی جانب متوجہ رہنے کوہی نسل انسانی کے ارتقا کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔

اجتبٰی رضوی نے تلا ش و جستجو کی کیفیات اورادراک و اکتساب کی واردات کے حوالے سے زیادہ گفتگو کی ہے،ایسی نظموں کی ایک الگ ہی کیفی جذبی فضا ہے جہاں شوق شوریدہ کی بیتابیاں اضطراب آرزوکی صورت رواں دواں محسوس ہوتی ہے، کہیں عالم ممکنات کی بے کراں وسعتیںخوابیدہ عزائم کو آواز دیتی ہیں،کہیں جلووں کی ارزانی نظروں کو خیرہ کرتی ہے تو کہیں وسائل ادراک کی کم مائیگی حسرت و تمنا بن کر روح میں اترتی چلی جاتی ہے۔ فریاد آدم،ترانۂ آدم اور تقدیر آدم ایسے ہی احساس کی حامل طویل نظمیں ہیں۔

 ان کی نظم ’ترانۂ آدم‘ پیکر خاکی کے دل میں پلنے والے عزم و بغاوت کی داستان سے مرتب ہے، اپنی بے بظاعتی کے احساس شدید کے باوجودابن آدم خود اپنے سوز جگر کی تابانی سے بیقرار ہے، فرسودہ عقائد کے بھرم توڑ ڈالنے کا عزم انگڑائیاں لے کر اس کے دل میں بیدار ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

تقدیر آدم‘اسی فکری سلسلے کا نقطہ عروج  ہے، شاعر کی تلاش کا ماحصل شاید اب سامنے آرہا ہے، کائنات کا انتظام بے پناہ،جہاں ہر قطرہ انالبحر کی ہوک رکھتا ہے، جہاں ہر ذرہ ایک دل مضطرب کی بیقراریاں سمیٹے صدا دے رہا ہے کہ آئو اور میری بیکرانیوں کو تسخیر کرو،یہ کائنات کی وسعت بے پناہ ایک سر مستی میں ڈھلتی چلی جاتی ہے ایک رقص مسلسل کی کیفیت ہے،ذرہ ذرہ وجد میں ہے،وقت ایک بحر بیکراں ہے کہ آپ اپنی وسعتوں میں گم رواں دواں ہے،یہ سیل رواں ۔۔۔یہ تیز دھارے۔۔۔۔جس کی زد پر انسان کا وجود خس و خاشاک کی طرح بہا جاتا ہیـ۔۔۔اور تب ایک احساس ہوتا ہے کہ یہ وجود یہ احساس ’ہمی‘ کیسا پر فریب تھا کہ ’ وجود‘ تو فقط فشار سینئہ تقدیر کا دھواں ہے، او ریہ’ جنون حیات دواں ‘ بھی مرگ بدوش ہے،یہاں عدم بھی ایک فسوں اور وجود بھی ایک طلسم ہے،یہ کیسا سلسلہ ہے،کیسا مشغلہ ہے کہ جس کا مقصود بھی ذہن پر نہیں کھلتا ۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام موجودات عالم فریب نظر ہیں اگر ’باقی‘اور ازلی و ابدی کچھ ہے تو بس ایک حرکت و رفتار بے نہایت،جاری و ساری ہے ایک ذرہ کے جگر سے یہ رقص و وجد کی کیفیت گرداب در گرداب پھیلتی اور محیط بر کائنات ہوتی جاتی ہے،نہ تو آغاز نہ ہی نقطہ انجام کا اندیشہ ہے، گویا سفر ہی سفر ہے گردش ہی گردش، قرار و سکون نہیں،منزل نہیں، حیات در اصل ایک بے خودی و وارفتگی کی کیفیت ہے،جو خود اپنے وجود کی نمودکے لیے کوشاں ہے،افسوس کہ حیات کے بے بہا خزانے نمود حیات کی کاوشِ بے جا میں صرف کر دئے جاتے ہیں        ؎

نمود کوششِ ناپختہِ مزاق حیات

حیات بے خود و وارفتہِ شراب نمود

اور اس خرابے  میں ’آدمِ بد بخت‘ ایک سعی ِنامشکورکا اسیر ۔۔۔مگر اس طرح کہ    ؎

جگر برشتہ ودل داغ و ریز ریز نہاد

حریف فطرت سفاک، خود نگر،محسود

طلسم دیدئہ وگوشِ غریب ِ ہجر نصیب

فریب وعدئہ نا استواردیدو شنید

بجھی نہ اس کی لگی،گو دیا کیے جبریل

نچوڑ کر اسے افشردئہ غیاب شہود

شہیدِ قدرتِ پیچیدہ راہ کیا کہنا!

مسافرِ سفرِ بے پناہ کیا کہنا!

 اجتبٰی رضوی کا مذہبی شعور بے حد بالیدہ تھا،وہ ایک وسیع المشرب اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے، مذہب کے بنیادی فلسفے پر ان کی نظر گہری تھی قدیم ترین مذاہب مثلاً زرتشتی مائیتھولاجی، بدھ مت،بائیبل اور بھگوت گیتا پر تصرف رکھتے تھے،کشف المحجوب ان کے زیر مطالعہ رہتی تھی، ان کے نزدیک مذہبی جذبات کے اظہار کی بہترین صورت انسانوں کے درمیان انس، محبت، بھائی چارے اور ہمدردی کے اظہارمیں پوشیدہ ہے،نہ کہ انسانوں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے دوری،سبقت  اور عدم مساوات پیدا کرنے میں، وہ قوت کے اظہار کی جگہ محبت کے اظہار کو ضروری سمجھتے ہیں اور یہی بات ان کی شاعری کو اقبال کی شاعری سے الگ کرتی ہے اقبال کی شاعری پیغام کے نفاذ کی کوشش ہے مگر اجتبٰی رضوی پیغام کے راسخ کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ مذہب کی اصل ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہے،تمام مذاہب قابل قدر اور تمام مذہبی پیشوا لائق احترام ہیں، انھوں نے بھگوت گیتا کے فلسفے سے بھی کافی اثر قبول کیا اور روحانی اکتسابات کی مختلف منزلوںمیں مہاتما بدھ اور حضرت عیسٰی کی تعلیقات سے بھی رہنمائی حاصل کی، یہ باتیں اگرچہ انھوں نے کبھی براہ راست کہی نہیں لیکن ان کا طریقہِ زندگی اور ان کی طرز فکر ہی نہیں بلکہ ان کی مکمل شخصیت اس  کا بے ساختہ اظہارتھی جسے ان سے محض ایک ملاقات میں ہی محسوس کیا جاتا تھا۔ ناقدین نے ان کے اور ٹیگور کے درمیان بعض اقدارِ مشترکہ کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے، وہ ایک اچھے مصور بھی تھے پروفیسر منظر اعجاز نے گیتا اور بدھسٹ فلسفے پر ان کے تصرف کے  بارے میں دو دلچسپ واقعات اسی مضمون میں پیش کیے ہیں جس کا حوالہ اوپر پیش کیا گیا ہے، یہاں اختصار کے سبب مکمل واقعہ پیش نہیں کیا جاسکتا مختصراًیہ کہ آچاریہ جانکی ولبھ شاستری کسی جلسے میں گیتا کے حوالے سے اجتبٰی رضوی کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے تھے اور ایک موقع پر اجتبٰی رضوی نے بدھ کے فلسفے پر نہایت بلیغ تقریر کی تھی۔وہ ایک اعلیٰ درجے کے خطیب بھی تھے، ان کی شخصیت میں ایک غیر معمولی جاذبیت محسوس کی جاتی تھی،ان کے حلقہ اثر میں آنے والوں میں اکثر کو ان کا معتقد پایا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت کی یہ تمام کیفیات ان کی شاعری میں بھی عکس ریز ہوتی ہیںخصوصاً ان کا جذبہ حب الوطنی، ہندوستان کی روحانی فضا سے اثر پزیری اور مذہب کا وسیع ترنقطئہ نظر ان کی نظم ’صبح بنارس‘ میں ابھرتا ہے، بظاہر یہ ایک منظری نظم ہے جس میں بنارس کے دسا سمّیدھ گھاٹ پر صبح کے اشنان کا روح پرور منظر پیش کیا گیا ہے، لیکن مکمل نظم ایک عرفانی فضا میں پروان چڑھتی ہے جہاں عبد و معبود کے مقدس رشتے کے احترام میں یہ ساری کائنات جھکی ہوئی محسوس ہوتی ہے،ذرہ ذرہ تقدیس اور بندگی کے ایک غیر مرئی رشتے سے بندھا ہوا نظر آتا ہے،جہاں حسن و جمال ِارضی بندگی کے جلال و تابندگی سے چشم نظارہ کو مرعوب رکھتا ہے۔

صبح بنارس

تماشا کی وہ ارزانی وہ گنگا وہ صنم خانہ

حرم والے ذرا کاشی کامنظر دیکھتے جائیں

بہے جاتے ہیں ٹکڑے چاند کے گنگا کے دھارے میں

صنم خانہ تو ان کا گھر ہے دیکھو عکس مسجد کو

ہے ٹیکا یانشان بندگی ماتھے کی یا بندی

وہ آنکھیں جن کی بے پروا نگاہی درس  خود داری

وہ آنکھیں اعتبارسادگیہائے نظر جن کو

بھلا معصوم آنکھیں اور گناہ کفر کی تہمت

وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے

بنارس کی سحر اشنان کی تقریب روزانہ

کبھی دیکھیں گے جنت اور ابھی دیکھیں صنم خانہ

کوئی پانی میں دیکھے عکس تقدیر صنم خانہ

خدا کا گھر جھکا  آغوش کھولے بے قرارانہ

وفا داری کا تمغہ آفتاب صبح بت خانہ

وہ آنکھیں جو جلال حسن سے اٹھتی ہیں شیرانہ

وہ آنکھیں چار ہوتی ہیں جو آنکھوںسے دلیرانہ

لبِ رحمت پہ اک گہرا تبسم ہے حکیمانہ

خدا معلوم کب ہو جائے بت خانہ خدا خانہ

پروفیسر منظر اعجاز لکھتے ہیں       ؎

’’صبح بنارس کافی طویل نظم ہے، لیکن حسن و جمال اورکیف و اثر میںبے مثال ہے۔اختر اورینوی نے اس نظم کواردو شاعری کا تاج محل کہا ہے،جمنا کی سطح پر تاج محل کا عکس ہندوستان کی جس مشترکہ تہذیب کا معنوی تناظر فراہم کرتا ہے، اگر غور سے دیکھا جائے توصبح بنارس گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔اس مایہ دار تہذیب کی بقا و سا  لمیت  اور اس کے ارتقا کا امکان حرم و دیر کی ہم آغوشی اور ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے۔‘‘ (ایضاًص14)

اجتبیٰ رضوی نے کچھ بے حد سادہ اور شدید اثر رکھنے والی نظمیں بھی کہی ہیں جس سے ان کی حساس طبعی اور دلگدازی کا احساس تو ہوتا ہی ہے،یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سہل اور عام فہم لب و لہجہ انھیں پسند تھا، جہاں کہیں ان کی گفتگو عمیق نظر آتی ہے اس کا سبب ان کی مشکل پسندی نہیںموضوع کی غیر عمومی سطح ہے       ؎

روح بیتاب تجھ کو ڈھونڈتی ہے

جیسے اندھی کوئی بھکارن ہو

بھیک دن بھر گلی گلی مانگے

اور سر شام بھیک کی گٹھری

اپنے ہاتھوںسے آپ گم کردے

رات بھیگے فقیر سب سوجائیں

اور وہ رستہ ٹٹولتی ہی پھرے

یوں ہی اے میرے گمشدہ محبوب

روح بیتاب تجھ کو ڈھونڈتی ہے

فکری تجربات جب قلبی واردات میں ڈھل کر صفحہ قرطاس پر اترتے ہیں اس وقت نہ تو جولانی بیان نظر آتی ہے نہ ہی تفکر کی عمیق پہنائیاں اور نہ دشوار گزارراہیں،جن پر چلنا دشوارہو،بلکہ اظہار ایک دھیمی دھیمی سی آنچ سی سلگتا ہوا محسوس ہوتا ہے، یہاں خطابت کے زور کی جگہ خود کلامی کی سی سرگوشی کا احساس ہوتا ہے:

مرد فقیر‘ ان کی ایک ایسی ہی نظم ہے جہاں شاعر نے فرسودہ عقائد اور رائج طرز فکر کی گمراہ کن آسانیوں سے منہ موڑ کر نئے فکری زاویوںکی تلاش و جستجو میں رواں دواں ہونے کی ایک کیفیت بیان کی ہے،پوری نظم استعاراتی فضا میں پروان چڑھتی ہے، اور عالم جذب کی ایک بے نیازی سمیٹے نظر آتی ہے۔

مرد فقیر

ہم کو کل احباب نے آکر بازاروںکے حال سنائے

کچھ نیلامی مال کے تاجر راہ میں تھے اک بھیڑ لگائے

مال یہیں لو بڑھ نہ چلو ان لوگوں کا اصرار یہ تھا

خلقت تھی افلاس کی ماری اور سستا بازار یہ تھا

اتنے میں اس راہگذر پر آنکلا اک مرد فقیر

سوز کلیم و برق تجلی جس کے لبِ جنباں میں اسیر

دیس کی دھن میں پردیسی بیتاب تھا چلتا جاتا تھا

دور بہت جانا تھا اسے اور سورج ڈھلتا جاتا تھا

بھیڑ پکاری سب ٹھیرے ہیں تم بھی یہیں ٹھرو بابا

اس نے کہا چلنا ہے مجھے چلنے کا رستہ دو بابا

اجتبیٰ رضوی کی نظمیں تعداد میں اگرچہ کم ہیں لیکن زیادہ تر نظمیں طویل ہیں، انھوں نے طویل بحروں کے ساتھ ساتھ مختصر مترنم بحروں میں بھی نظمیں لکھی ہیں، لیکن طویل بحریں زیادہ استعمال کی ہیں، و ہ موضوع کو طرز اظہار پر فوقیت دیتے ہیں،شاعرانہ صناعی کی ارادی کوشش ان کے یہاں نہیں نظر آتی، چونکہ ان کے ذوق سلیم کی پرورش میں فارسی شاعری کا دخل رہا لہٰذا ان کااسلوب اور لفظیات، فارسی طرز اظہار سے متاثرنظر آتی ہیں، نظموںمیں اکثر ایسے مصرعے جابجا ہیں جو جزوی یا کلی طور پر فارسی کے ہوتے ہیں، ان کا جذبۂ اظہار اس قدر قوی اور شدید ہے کہ ایک پر، زور دھارے کی صورت اپنا راستہ از خود بنا تا جاتاہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ شعلہ ندا میں ایک نظم ’البیلے جلوے‘ اور ایک غزل ایسی بھی ہے جو مروّجہ بحروں سے بالکل الگ ہے،چنانچہ ناشر شعلہ ندا نے بحر متدارک کی ایک جدید ترکیب  وضع کرتے ہوئے ان کی تقطیع کی ہے۔شعلہ ندا کی کاپیاں کہیںدستیاب نہیں البتہ آن لائن یہ کتاب موجود ہے۔ لہٰذا اس کی اشاعت ثانی کی بھی بے حد ضرورت ہے۔

اجتبٰی رضوی کی نظم گوئی کے تمام پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، یہاں محض ایک تعارفی یا تمہیدی کاوش کی گئی ہے۔اجتبٰی شناسی کے حوالے سے ’ ذکر اجتبٰی رضوی‘(مرتب محسن رضا رضوی،سنہ اشاعت1993)  کے بعددوسری اہم ترین کاوش ’اجتبٰی حسین رضوی شخصیت اور جہات‘(مصنفہ شمیم فاطمہ اسریٰ رضوی،سنہ اشاعت2019)  ہے،اول الذکر کتاب میں اجتبٰی رضوی سے متعلق مشاہیر ادب کے اہم مضامین یکجا کیے گئے ہیں، جبکہ موخر الذکر میں اجتبٰی رضوی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے نہایت مفصل گفتگو کی گئی ہے،یہ کتاب اگرچہ اجتبٰی رضوی کی تفہیم میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے،لیکن ابھی بھی شخصیت، شاعری اور نثر نگاری کے حوالے سے ایسے بہت سے پہلو تفسیر و تفہیم کے متقاضی رہ گئے ہیں، جن کو صرف اور صرف ایک تصنیف میں سمیٹا جانا ممکن نہ تھا۔امید ہے کہ محققین اس پوشیدہ خزانے کی تلاش کریں گے اور مستقبل میں اس حوالے سے مزید تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔           


Dr. Farhat Nadir

M-114, Abul  Fazal-1

3rd Floor, Front Side

Jamiya Nagar

New Delhi- 110025

Mobile:9667892300

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں