15/3/21

حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا انفراد و اختصاص - مضمون نگار: نذرالاسلام

 



حیات اللہ انصاری (1912-1999) نے ایک ایسے عہد میں لکھنے کی شروعات کی،جب اردو افسانے کی روایت پر طویل عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اس لیے اس عہد میں داستان کا اثر تھا یا پھر پریم چند کی روایت تھی،پریم چند نے اردو افسا نے میںمثا لیت پسندی اور حقیقت نگا ری کی جو روایت قا ئم کی تھی وہ اردو اور ہند ی دو نو ں زبا نو ں میں ایک غا لب رجحا ن کے طو ر پر ٓا گے بڑھ رہی تھی،ہند ی میں جینیند ر کمار، بھیشم سا ہنی اور جب کہ اردومیں سدرشن اور سہیل عظیم آ با دی ایسے افسا نہ نگا ر تھے جو پر یم چند کی قائم کر دہ اس روا یت کو آ گے بڑھا رہے تھے۔ایسے میں حیات اللہ انصا ری اردو افسا نے کے افق پر نمو دار ہو ئے، ظاہر ہے اس عہد میں کوئی ایسا فن کارنہیں تھا کہ جس کا فن حد در جہ وسیع اور قا بل تقلید ہو۔  حیا ت اللہ انصا ری کے یہاں آدرش واد کا رو یہ بھی پا یا جا تا ہے اورپریم چند کی بے رحم سما جی حقیقت نگا ری کا رنگ بھی ملتا ہے، ساتھ ہی کچھ نئے تجربات بھی نظر آتے ہیں۔ یعنی انھوں نے داستانوی روایت اور پریم چند کے اثرات کے ساتھ کچھ نیا رنگ بھی بکھیرا ہے۔اس حوالے سے پروفیسر شارب ردولوی نے بہت ہی عمد ہ بات کہی ہے:

’’حیات اللہ انصاری اردو کے اہم ترین افسانہ نگار ہیں۔ جنھوں نے اردو افسانوں کو داستان اور پریم چند کی روایت سے ہٹ کر نئی بنیاد فراہم کی۔ حالانکہ انھیں پریم چند کے بیانیہ کا ایک مضبوط حصہ مانا جاتا ہے، لیکن قصہ گوئی کی بنیاد کو اگر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ پریم چند کے بیانیہ کے متوازی ایک اور بیانیہ ہے جوا پنے موضوع، رویے اور برتاؤمیں ان سے مختلف ہے۔ یہ بیانیہ حیات اللہ انصاری کا ہے،بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کے افسانوں اور ناولوں میں اردو کے نئے فکشن کے آثارنظر آتے ہیں‘‘۔

(شارب ردولوی، حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات کے بیک کور سے ماخوذ، مرتبہ : عشرت ناہید، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، 2017)

مذکورہ چند جملوں سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں اور ان باتوں کو انھوں نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کردیا ہے۔گویا حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا مزاج دا ستا نوی ہے۔ پریم چند کی روایت کا اثر ہے، مگر حیات اللہ نے افسانے کی بنت اور موضوعات میں کچھ الگ راہ بنائی ہے۔ پریم چند اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کے مطالعے کے بعد کئی چیزیں الگ نظر آئیں گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ پریم چند کے یہاں کسانوں کے مسائل کی عکاسی جس طرح زیادہ ہوئی، اس طرح حیات اللہ انصاری کے یہاں کم ہوئی ہے۔ ان کے موضوعات بھی مختلف ہیں۔ اس لیے پروفیسر شارب ردولوی کی زبان میں یہ کہا جاسکتاہے کہ پریم چند اور حیات اللہ کے افسانوں کی زمین تو ایک ہے لیکن دونوں کے افق الگ الگ ہیں۔

حیات اللہ انصاری کے افسانوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے کل چالیس افسانے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر عشرت ناہید نے ان کے افسانوں کا کلیات ’’حیات اللہ انصار ی کی کہانی کائنات ‘‘کے نام سے شائع کیا۔ انھوں نے بھی افسانوں کی حتمی تعداد نہیں بتائی۔انھوں نے اس کلیات کے جوازکے متعلق یہ لکھا کہ حیات اللہ کے افسانوں کے مجموعے نہیں مل رہے تھے اور کئی افسانے جو ادھر ادھر شائع ہوئے اور کسی مجموعے میں شامل نہیں تھے، ان سب کو جمع کردیا ہے۔ انھوں نے اس کلیات میں کل 37افسانوں کو شامل کیا ہے اور یہ لکھا ’’ حیات اللہ انصاری نے بہت زیادہ تعداد میں افسانے نہیں لکھے لیکن وہ اپنی منفرد پہچان بنانے میں اپنے پہلے افسانے سے ہی کامیاب ہوگئے ۔‘‘

(ڈاکٹر عشرت ناہید، مرتبہ:حیات اللہ انصار ی کی کہانی کائنات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، 2017، ص 20)

اس لیے تلاش وجستجو کے بعد بھی یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ حیات اللہ کے مکمل افسانوں کی تعداد کتنی ہے۔

 حیات اللہ انصاری کابہت ہی مشہور افسانہ ’ڈھائی سیر آٹا‘ہے، جس کے بین السطور میں انھوں نے جہاں معاشی نظا م کی ابتری کی طرف اشارہ کیا،وہیں سماجی اونچ نیچ کے معاملات کو بھی بڑ ی خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ اس افسانے کی جڑ میں سماجی نظام کی ابتری،بے مروتی اور دل شکن داستان پوشیدہ ہے۔ ایساافسانہ بُننے کے لیے کھلی بلکہ برہنہ آنکھوں سے سماج کو دیکھنا لازمی ہے۔ حیات اللہ انصاری نے برہنہ نظروں سے سماج کے حقیقی پہلوؤں کو دیکھا اور دیکھنے کے بعد گہرائی سے غور وفکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس افسانے کی سطرسطر کی فضا بھیگی بھیگی ہے۔ قاری نم دیدہ صفحات سے گزرتا ہے۔ یہ کہانی اکہری نہیں ہے، بلکہ متوازی طور پر دو کہانیاں آگے بڑھتی ہیں۔ ایک مولا کے گھر کی داستان ہوتی ہے اور دوسری کہانی شوکت میاں کے گھرانے سے جڑی ہوئی ہے۔افسا نہ نگا ر نے ان دونوں تہہ دار کہانی کو بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں تجسس اخیر تک باقی رہتا ہے۔ اس افسانے پر مزید کچھ بات کرنے سے پہلے ایک اقتباس پیش کرنا لازمی ہے ـ:

’’دس بجنے کے قریب تھے مگر کھانا ابھی تک تیار نہیں ہوا تھا۔ شوکت میاں اسکول جانے کو تیار تھے۔ ان کی پھوپھی نے جلد ی جلدی دوچار روٹیاں ڈلوادیںاور چار کباب تل دیے۔ پھر جلدی سے ان کو میزپر چن، شوکت میاں کو کھانا کھانے کے لیے آواز دی۔ شوکت میاں ایک ہاتھ میں کتابیں لیے، دوسرے ہاتھ سے شیروانی کے بٹن لگاتے کھانے کے کمرے میں گھس گئے اور بلا ہاتھ دھوئے کھانا شروع کردیا، مگر پہلا ہی نوالہ منہ میں رکھا تھاکہ ایسا منہ بگاڑا گویا کونین پی گئے ہوں۔ جلدی سے وہ نوالہ پانی کے سہارے پیٹ میں پہنچا دیا اور پھر روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر منہ میں رکھا۔ چبایا پھر منہ بگاڑ بولے۔

’’پھوپھی جان، آٹا خراب‘‘

(حیات اللہ انصاری، بھرے بازار میں، تعلیمی پریس لاہور، 1935، ص 52)

اس اقتباس سے افسانے کا نکتۂ عروج واضح ہوتا ہے اور کہانی دل چسپی کی حدو ں میں دا خل ہو نے لگتی ہے کیوں کہ اس میں ہی آٹے کا تذکرہ سامنے آتا ہے۔یہ اختتامی اقتباس نہیں،بلکہ افسانے کے وسط سے ماخوذ ہے۔اس اقتباس سے اس افسانے کی سفاک حقیقت نگاری سامنے آتی ہے اور مارکس کا نظریہ بھی شامل نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس افسانے کو نیاز فتح پوری نے اردو کا پہلا مارکسی افسانہ قراردیا ہے۔کیوں کہ اس میں افسانوی لب ولہجہ سماجی اونچ نیچ سے جا کر مل جاتا ہے اورمکروہ سماج ہمارے سامنے آتا ہے۔ ا س افسانے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں مارکسی نظریہ کی شمولیت کے باوجود نہ گھن گرج ہے اور نہ ہی کوئی الجھاؤ،بلکہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ حیات اللہ نے تخیل کی دنیا میں تجربہ کیا ہے اور تخیل کی دنیا کے تجربے کو تخیل کی فکری بھٹی میں اس قدر پکایا کہ وہ خیال کندن بن گیا اور کندن بننے کے بعد ہمارے سماج پر ایک تیکھا طنز بن گیا ہے۔ اس حوالے سے انور سدید لکھتے ہیں:

’’حیات اللہ انصاری نے طبقاتی تضا د کو حقیقی زندگی سے آشکار کیا۔ ان کے افسانوں میں درد اور کرب زیر میں سطح لہر کی طرح رواں دواں نظر آتا ہے۔ سہارے کی تلاش، انوکھی مصیبت، موزوں کا کارخانہ اور ڈھائی سیر آٹا میں حیات اللہ انصاری ایک بے رحم حقیقت نگار نظر آتے ہیں۔‘‘

(انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ، مقتدرہ قو می زبا ن اسلام آباد، 1991)

اسی طرح ’انوکھی مصیبت ‘ حیات اللہ انصاری کا ایک بہترین افسانہ تسلیم کیا جاتا ہے، جو بہ ظاہر ایک مزاحیہ افسانہ ہے، مگر گہرائی سے اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ اس میں بھی انھوں نے بہترین انداز میں سماجی اونچ نیچ کے مسئلے کو بہتر طریقے سے پیش کیا ہے۔  اس افسانے سے اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اس میں زیریں لہرین مساوات کی ہیں۔ گویا انھوں نے افسانے کے آخر میں پیغام دینے کی کوشش کی کہ انسان برابر ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ’ڈھائی سیر آٹا‘ کے بین السطور میں انسانی ہمدردی واضح انداز میں سامنے آتی ہے اور ’انوکھی مصیبت‘ میں بھی احترامِ آدمیت کا معاملہ بہت انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اگر اس افسانے کو فنی اعتبار سے’انوکھی مصیبت‘ کے پس منظر میں دیکھیں تو انتہائی کمزور افسانہ ہے اور غیر فطری بھی۔ کیونکہ اس افسانے کو جس انداز سے پیش کیا گیا اور کہانی کو بہت دور لے جانے کے بعد ختم کیا گیا، اس میں بناوٹ ہے۔غیر فطری اس طرح ہے کہ کسی فرد کو قضائے حاجت کا معاملہ درپیش ہوتو وہ گھر گھر نہیں پوچھتا ہے، مگر اس افسانے میں قضائے حاجت کے لیے گھر گھر جاکر پوچھا جاتا ہے۔ گھر گھر جاکر پوچھنا تو اس سے بھی بری بات ہے کہ کوئی مالدار اور عہدے دار فرد جنگل میں ہی فارغ ہوجائے۔ اس میں یہ دکھایا گیا کہ جنگل میں کلکٹر فارغ نہیں ہورہا ہے اوروہ حکیم جی کے یہاں جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے فرد کے یہاں بھی جاتا ہے۔ شاید آج تک ہماری سوسائٹی میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہوگا کہ کوئی فرد گھر گھر جاکر قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا طلب کرے۔ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہوگا توبھی گھر گھر پوچھنے کی نوبت بالکل ہی نہیں آئی ہوگی، بلکہ پہلے ہی گھر والے نے اس کی اجازت دے دی ہوگی۔ کہانی کو ’انوکھی مصیبت ‘ کے نام پر بہت دور تک لے جانے اور اسی کو مرکزی نکتہ بناکر کہانی پیش کرنے سے افسانے میں تصنع کی کیفیت پید اہوگئی ہے۔ اس طرح یہ افسانہ کمزور ہوجاتا ہے۔ تصنع کی کئی مثالیں اس افسانے سے پیش کی جاسکتی ہیں۔

انوکھی مصیبت ‘ کو قضائے حاجت اور سماج سے جوڑ کر دیکھیں گے تو کہانی میں مصنو عی کیفیت نظر آئے گی، مگر اسی کہانی کو علامتی تسلیم کرلیں تو اس میں کچھ جان آجاتی ہے۔ ’انوکھی مصیبت ‘ کو ’بنیادی حاجت‘ کے نام اور معاملات سے جوڑ دیں تو اس افسانے کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ وہ اس طرح کہ انسان بنیادی ضرورت کے لیے دوڑدھوپ کرتا ہے۔ ادھر ادھرچکر کاٹتا ہے۔ اس کے بعد بھی اس کی پریشانی ختم نہیں ہوپاتی ہے۔ کیوں کہ سماج میں ایسے لوگوں کاسایہ ہے جو انسانی ہمدردی سے عاری ہیں۔ جیسا کہ اس افسانے میں حکیم صاحب کا کردار ہے۔ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا مادہ نہیں ہے۔ بنیادی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے دنیا میں ہر فرد پریشان ہے۔یہا ں تک بسا اوقات بڑے سے بڑا آدمی بھی پریشان ہے۔

حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں تہذیب کا تصادم بھی بہت ہے۔ کیونکہ انھوں نے ایک طرف موجودہ عہد کے تہذیبی پس منظر کو پیش کیا ہے تو وہیں دو سری طرف انھوں نے ماضی کی تہذیب سے سبق حاصل کرتے ہوئے بہت کچھ لکھا ہے۔ ’ شکستہ گنگورے ‘ نامی افسانے کو اس ضمن میں اولیت حاصل ہے۔ اس افسانے میں حیات اللہ انصاری نے بڑے طمطراق سے ٹوٹتی بکھرتی تہذیب کو مجسم کیا ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اس افسانے کے متعلق لکھاہے:

’’افسانہ ’ شکستہ گنگورے ‘ اس شکست خوردہ اورمٹتی ہوئی تہذیب کا اعلامیہ ہے جس میں نئی نسل نئے خوابوں کو ذہنوں میں بسا کر نئی تبدیلی کی خواہاں ہے۔ جاگیر دارانہ نظام کا زوال ہوچکا ہے۔ اب ان کا سماج میں وہ وقار وافتخار باقی نہیں رہا۔ اس عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی خواہش بھی اس خاندان کی نئی نسل میں شدید ہے۔ ‘‘

پروفیسر شہزاد انجم کی اس بات سے کلی اتفاق کیا جاسکتاہے کہ اس افسانے کا سرا مٹتی ہوئی تہذیب سے ملتا ہے، مگر اس تناظر میں پوری کہانی کار آمد نہیں ہوتی ہے۔ البتہ کہانی کی ابتدائی سطروں میں پرانی تہذیب اور خاندانی دبدبے کے ختم ہونے والے معاملے سے مٹتی تہذیب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، مگر جب اس سے کسانوں کے حقوق کی بحالی کا مسئلہ جڑ جاتا ہے اور منیر کسانوں کا ہمدرد بن کر ابھرتا ہے تو افسانہ الجھ جاتا ہے۔

الغرض حیات اللہ انصاری کے افسانوں کے مطالعے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں زمانے سے انحراف کا رویہ پایا جاتاہے۔ کیوں کہ انھوں نے پریم چند کے عہد میں قلم پکڑنا سیکھا۔ اس عہد میں انھوں نے آدرش کا رویہ دیکھا۔ داستانوی فضا میں عشقیہ جذبات اور ہندوستانی کھیتوں کی کہانیاں سنیں۔ ظاہر ہے ایسی کہانیاں سننے کے بعد ان کا اثر قبول کرنا لازمی تھا،لہذا انھوں نے ان باتوں کا اثر قبول کرکے داستانوی اسلوب بھی اختیارکیا ہے۔ ’ کالا دیو ‘ اور ’خوں خوں میاں‘ جیسے افسانوں میں داستان کا اثر قبول کرتے ہوئے بہترین اندا ز میں کہانیاں پیش کیں۔ گویا انھوں نے اپنے زمانے سے سرتاپا انحراف تو نہیں کیا، مگر اس میں جدت پید اکرنے کی کوشش۔ ان کہانیوں میں ایسی جدت پید اکی جو نہ صرف ان کے زمانے کے لحا ظ سے جدید رویہ تھا،بلکہ آج کے عہد میں بھی وہ ایک جدیدرویہ ہے۔ جدید رویوں سے سروکار رکھتے ہوئے انھوں نے اپنے زمانے سے آگے زمانے کی بات کہی۔ ان کے ان رویوں پر غور کرنے کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ادیب اپنے زمانے میں ہی قید نہیں رہتا ہے،بلکہ صدیوں آگے کی بات سوچتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حیات اللہ انصاری نے اپنے زمانے سے بہت آگے کی بات کی ہے، اسّی سال پہلے لکھی گئی کہانی میں آج کے زمانے کی عکاسی بہت خوب صورتی سے ہوئی ہے۔

داستانوی اسلوب کی ایک بڑی خصوصیت مقفیٰ ومسجع عبارت ہے۔ حیات اللہ انصاری کے افسانے پڑھتے چلے جائیں کہیں بھی عبارت آرائی کا احساس نہیں ہوتا ہے، بلکہ انھوں نے ہرجگہ بیانیے سے سروکار رکھا۔ عبارت آرائی سے کام نہیں لیا۔ فن کار کوجب اپنی فن کاری پر بھروسہ ہوتو غیر ضروری طریقوں سے قاری کو پریشان نہیں کرتا ہے۔ نہ عبارت آرائی کرتا ہے اور نہ ہی چونکانے کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ حیات اللہ انصار ی اپنے فن سے مطمئن تھے،اس لیے انھوں نے غیر ضروری طریقوں سے اپنے افسانوںمیں خوفناکی اور حیرانی کی فضا قائم نہیں کی ہے۔ افسانوں میں وہ جملوں پر جملے بٹھاتے نظرآتے ہیں اور ان جملوں میں ازخود حقیقت بیانی اور سحر آگیں فضا قائم ہوتی چلی جاتی ہے۔

حیات اللہ انصاری کا تعلق چوں کہ صحافت سے بھی تھا،اس لیے انھوں نے صحافت کا بھرم کچھ یوں رکھا کہ عبارت آرائی سے خود کو محفوظ رکھا۔ صحافیوں پر زبان نہ جاننے کا الزام عائد بھی کیا جاتا ہے، مگر حیا ت اللہ انصاری کے فن میں زبان کی خامیوں کا ایسا کوئی عنصر نہیں ہے کہ اس پر منتھن کیا جائے گا۔ بازاری پن سے اپنے افسانوں کو انھوں نے بڑی کامیابی سے بچایا ہے۔ یہی رویہ انھیں منفرد بناتا ہے۔حیات اللہ انصا ری کے افسا نو ں کا بیا نیہ اس قدر مکمل ہے کہ کسی بھی مقا م پر بھر تی کی کیفیت نظر نہیں آتی۔

اس کے علاوہ حیات اللہ انصاری کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ خیال کو افسانہ بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ کسی واقعے پر افسانوی رنگ چڑھانا آسان تو ہے، مگر خیال کو افسانہ بنا نا بہت مشکل ہے۔ حیات اللہ انصاری کے یہاںیہ فن کاری نظر آتی ہے کہ وہ خیال کو افسانہ بنا دیتے ہیں۔اسی طرح ان کے افسانوں میں طبقاتی سماج کا رویہ بہت واضح انداز میں ملتا ہے۔ ان کے عہد میں طبقاتی شعور کا معاملہ انتہائی پرپیچ تھا۔ انھوں نے اس پیچیدگی کو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں کے بین السطور میں طبقانی نظام کی خطرناکی بہت واضح طور پر ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے کی سرشت میں ایسی آواز بہت صاف طور پر سنائی دیتی ہے۔ ایک تو یہ اس عہد کا مزاج تھا۔ دوسرایہ کہ انھوں نے سماج کو بڑی گہرائی سے دیکھا تھا اور ایک حقیقت پسند افسا نہ نگا ر کے طو ر پر سما ج کی تما م مثبت و منفی اقدا ر کو پر کھا تھا۔ان کے افسا نو ں میں حساس نظروں کی کرشمہ سازی کچھ یوں واضح ہوتی ہے کہ ہم بھی اس عہد سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لیتے ہیں،جس عہد میں ہم مو جو د نہیں ہوتے ہیں۔ حیات اللہ انصاری کے افسانہ بننے کے طریقے سے یہ بات بہت واضح ہوتی ہے۔ ہم ان کے عہد میں نہ رہ کر بھی ان کے عہد کی بات سنتے ہیں اور وہ ہمارے عہد کے نہ ہوکر اپنے عہد میں رہ کر ہمارے عہد کی بات کرتے ہیں۔ یہی تو دراصل فن کار ی ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہمارے عہد سے پریم چند کا عہد مختلف تھا۔ ساتھ ہی حیات اللہ انصاری کا عہد بھی مختلف تھا۔پریم چند کے اثرات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ حیات اللہ انصاری نے اپنا رنگ بھی جمایا ہے۔ موضوعات کے سلسلے میں وہ پریم چند سے ہم آہنگ بھی ہیں اور الگ بھی۔ ہم آہنگ اس طرح کے کہ ان کے یہاں بھی آدرش کا رویہ پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں بھی مثالیت پسندی ہے۔ خلوص کے ساتھ افسانے کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ داستانوی اسلوب اختیار کیا جاتا تھا، مگر ایک بات حیات اللہ انصاری کے یہاں یہ ہے کہ انھوں نے بہت کم افسانے لکھے۔ کل چالیس کے آس پاس ان کے افسانوں کا پتا چلتا ہے۔ پھر ان میں موضوعات کی رنگا رنگی بھی بہت خوب ہے۔ پریم چند کے یہاں گاؤں دیہات کے مسائل تو ہیں،حیات اللہ کے یہاں بھی ہیں، مگر حیات اللہ نے شہر کو بھی پیش کیا اور دیہات کو بھی۔ شہری مسائل پیش کرنے میں حیات اللہ انصاری ان سے بہت آگے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ حیات اللہ انصاری نے 1936 کے بعد بھی دنیا دیکھی ہے۔ اس لیے انھوں نے شہروں کو بڑے سلیقے سے پیش کیا، حالاں کہ پریم چند کا انتقال بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یہ بات تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ حیات اللہ انصاری کا مجموعہ ’بھرے بازار میں‘ پریم چند کی حیات میں ہی شائع ہوچکا تھا۔ اس مجموعے میں ’انوکھی مصیبت، آخری کوشش‘ میں شہری مزاج اور شہری معاملات کو جس خوب صورتی سے پیش کیا ہے، اس کی عکاسی پریم چند کے یہاں نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ حیات اللہ انصاری نے دیہی مناظر کو بھی بڑے حسین انداز میں پیش کیا ہے اور شہری مزاج کو بھی۔

حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں حیات نو کا ایک منضبط نظام پیش کیا ہے جس میں سماج کی کراہ بھی سنائی دیتی ہے اور اس کراہ کو ایسی آواز دی گئی کہ ایوان بالا اور طبقۂ اشرافیہ کے محلوں میں زلزلہ آجاتا ہے۔ سماجی اونچ نیچ کو اس پیرایے میں بیان کیا کہ ہر حساس دل میں چبھن سی ہونے لگتی ہے۔ اس طرح وہ نشتر یت سے بھی کام لیتے ہیں اور طنز کے پہلو کوبھی ابھارتے ہیں۔ بات کہتے کہتے نہ وہ چیختے ہیں اورنہ ہی اتنا نرم رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ان کی بات لوری بن جائے۔ باتوں کو اس سلیقے سے پیش کرتے ہیںکہ سلیقہ مندوں کو غوروفکر کا طریقہ ہاتھ آجاتا ہے۔

n

Nazrul Islam

Room No: 308, Jhelum Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9250411070

Email.: nazruljnu27@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں