اردوزبان کی تعلیم و ترقی کے
لیے بے لوث خدمات انجام دینے والوں کی کوئی فہرست ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے بغیر
مکمل نہیں ہوسکتی۔ وہ تھے تو لکھنؤ کے مگر سنبھل میں انھیں درس و تدریس کا فریضہ
انجام دینے کا موقع ملا۔ نوکری تو کرنا آسان ہے مگر نوکری کو مشن بنانا اور اٹھتے
بیٹھتے اس فکر میں رہنا کہ لوگ نہ صرف تعلیم یافتہ ہوجائیں بلکہ اردو زبان ان کے
رگ و پے میں سرایت کر جائے یہ ایک مشکل کام تھا مگریہ کام سعادت علی صدیقی نے
نہایت دلجمعی اور حوصلہ کے ساتھ اس طرح انجام دیا کہ اب سنبھل کی ادبی تاریخ ڈاکٹر
سعادت علی صدیقی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔
سعادت صاحب جوانی کی عمر میں
بلڈشوگر کے خطرناک مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ عرصہ تک لکھنؤ میں علاج ہوتا رہا۔
علالت کا سلسلہ چلتا رہااور ایسے وقفے بھی آتے رہے کہ مرض اپنی انتہا کو پہنچ
جاتا اور جسم پر کپڑا پہننا بھی محال ہوجاتا اور کبھی کبھی تو زندگی خطرے میں نظر
آتی۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو لکھنے پڑھنے کا کام شروع کردیتے۔ اپنے دوستوں اور
نیازمندوں کی کسی تحریر یا تصنیف سے متاثر ہوتے تو اپنے تاثر کی اطلاع دیتے۔ خوب
اچھی طرح یاد ہے 13فروری 1994 کی وہ صبح جب میں اپنی کلاس کرنے کالج کے لیے روانہ
ہورہا تھا کہ ہمارے ایک عزیز محمد ناظم ایڈوکیٹ نے یہ اطلاع دی کہ سعادت صاحب کا
انتقال ہوگیا۔
ایک ذہن، مخلص اور غیر معمولی
صلاحیتیں رکھنے والی شخصیت ہم سے چھن گئی۔ سعادت صاحب کے انتقال پر پورے ملک کے
ادبی حلقوں میں کہرام مچ گیا اور ہر اس شخص نے ان کا ماتم اور سوگ منایا جو ان کی
بے ریا زندگی، دلکش شخصیت اور منفرد ادبی حیثیت کا قائل تھا۔ ’ہماری زبان‘دہلی،
’جنت نشاں‘ مرادآباد اور ماہنامہ ’فروغ اردو‘ لکھنؤ نے بساط بھر اس جواں مرگ
ادیب کو اپنے اپنے ’سعادت علی صدیقی نمبر‘ کی صورت میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ’ہماری
زبان ‘ کے ایڈیٹر خلیق انجم نے سعادت علی صدیقی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا
تھا:
’’سعادت علی صدیقی مرحوم ان چند لوگوں میں ہیں جنھوں نے
خلوص دل سے اردو زبان کی خدمت کی ہے۔ وہ انتہائی مخلص، مہذب، شریف النفس اور
منکسرالمزاج انسان تھے۔۔۔ ۔ لاکھوں دلوں میں ان کے لیے جگہ تھی۔ یہ شہرت داؤ پیچ
اور سازشوں کے ذریعہ حاصل کی ہوئی نہیں تھی بلکہ نتیجہ تھی سعادت کی لگن، خلوص، بے
لوث اور انتھک خدمات کی۔‘‘
(’سعادت علی صدیقی نمبر‘،
ہفت روزہ ہماری زبان، 8مارچ 1994)
ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کے
چھوٹے بھائی اور سعادت علی صدیقی مرحوم کے چچا محترم شفاعت علی صدیقی لکھنؤ کی
جانی پہچانی شخصیت تھے۔لکھنؤ کے آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام ڈائریکٹر کے عہدے سے
سبکدوش ہوئے۔ سعادت صاحب ان کے بڑے چہیتے بھتیجے تھے۔ ماہنامہ فروغ اردو نے جب
’سعادت علی صدیقی نمبر‘ نکالنے کا اعلان کیا تو اس کی ذمہ داری شفاعت صاحب کو دی
گئی۔ شفاعت صاحب نے بڑی محنت اور محبت سے اس نمبر کوتیار کیا۔ایک چچا نے اپنے
بھتیجے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خون میں انگلیاں ڈبو کر یہ چند سطریں قلم بند
کیں:
28جنوری 1987 کو میری اکلوتی بیٹی کا انتقال ہوا تھا۔ سات
سال گذر جانے کے باوجود اس حادثہ کا غم تازہ تھا اور زخم ہرا۔ سعادت کی موجودگی اس
زخم کے لیے مرہم کا کام کرتی تھی لیکن مشیّت کے معاملات میں انسان کتنا مجبور ہے
کہ میں اور برادرِ مکرم ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی بیٹھے ہی رہ گئے اور موت ہمارے
بازو کی قوت، ہماری آنکھوں کے نور،لائق اور باکمال فرزند کو اٹھا لے گئی۔مرنا
برحق ہے، جوپیدا ہوا ہے اسے ایک نہ ایک روز تو مرنا ہی ہے مگر سعادت کی وفات،
فرمانبرداری، منکسرالمزاجی، سعادت مندی او رخوش اخلاقی کا مرثیہ ہے۔ اگر ہمیں اللہ
تعالیٰ کی ر حمت و مصلحت پر یقین نہ ہوتا اور اللہ صبر و برداشت کی طاقت نہ عطا
فرماتا تو اتنا بڑا حادثہ جھیل جانا ہم لوگوں کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
(اداریہ ’سعادت علی صدیقی نمبر‘ ماہنامہ فروغ اردو، 1994)
راقم الحروف کے والد ماجد جناب
نظیف الرحمٰن سنبھلی اور ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کا تعلق خاطر کچھ خاص ہی تھا اور
واقعہ یہ ہے کہ والد صاحب کو بھی ان سے جو فکری مناسبت اور قلبی تعلق تھا وہ بالکل
ایسا ہی تھا جیسے ایک شفیق استاد اور عزیز دوست سے ہونا چاہیے تھا۔
سعادت علی صدیقی کی چھوٹی بہن
ڈاکٹر پروین شجاعت نے ’وہ جن کی یاد سے آباد دل کی بستی ہے‘ کے عنوان سے ایک
مضمون لکھاتھا۔ اس مضمون میں انھوں نے بھائی صاحب مرحوم کے کارناموں اور اپنی
یادوں کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے:
’’۔۔۔۔ انگریزی زبان کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ
کی مشہور لائنیں ہیں:
"The
woods are lovely dark and deep but I have promises to keep and miles to go
before I Sleep and miles to goـ.
یعنی دنیا میں آکر مجھے بہت
سے کام پورے کرنے ہیں اور ایک لمبی مسافت طے کرنی ہے، اس سے قبل کہ مجھے ابدی نیند
آجائے۔
بھائی صاحب یعنی ڈاکٹر سعادت
علی صدیقی کے لیے رابرٹ فراسٹ کی یہ لائنیں لفظ بہ لفظ صحیح معلوم ہوتی ہیں۔ شاید
انہیں اس بات کا علم تھا کہ ان کے پاس اپنی مادری زبان اردو کی خدمت کرنے کے لیے
وقت بہت کم ہے اور شاید اسی لیے قدرت نے انھیں سچے کوئلے کی طرح سلگتے رہنے کا ہنر
دے دیا تھا۔نہایت کم عمری سے ہی وہ اپنی زبان و ادب کی خدمت میں جٹ گئے تھے۔ 8سال
کی عمر ہی میں انھوں نے قلم تھام لیا اور کاغذ کو اپنا کھلونا بنا یا۔اس عمر میں
انھوں نے ایک ڈرامہ ’آموں کی دعوت‘ لکھا تھا جو 1953 میں رسالہ ’روشنی‘ میں شائع
ہوا تھا۔۔۔۔طالب علمی کے زمانے سے ہی انھوں نے سنجیدہ موضوعات پر مضامین لکھنے
شروع کردیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسی زمانے میں انھوں نے احمد ابراہیم علوی کے اشتراک سے
ایک قلمی میگزین ’خوش رنگ‘ نکالا تھا۔یہ پوری میگزین انھیں کی تحریر میں ہوتی
تھی۔۔۔۔اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے ان کی مخلصانہ جدو جہد کو فراموش نہیں کیا
جاسکتا۔۔۔۔ جب بھی اردو کی ترقی و بقا کے لیے کی گئی کوششوں سے متعلق کچھ تحریر
کیا جائے گا تو اس میں اردو کے اس خدمت گزار کا نام ضرور شامل ہوگا۔ (ایضاً ص
137مطبوعہ 2008)
سعادت علی صدیقی نے بچوں کے
لیے بے شمار کہانیاں لکھیں۔چور کی چالاکی، غرور کا سر نیچا، انوکھی چادر، رحم دلی،
سانپ اور مینا، چاند میں خرگوش اور راجہ کا انصاف وغیرہ بچوں کے لیے لکھی گئیں بڑی
دلچسپ کہانیاں ہیں۔
’چاند میں خرگوش‘ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی کہانیوں کا
مختصر مجموعہ ہے۔ یہ کہانیان ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کی غماز ہیں۔ ’چاند میں
خرگوش‘ آسان زبان میں لکھی گئی کہانی ہے۔بچوں کو یوں بھی جانوروں سے متعلق
کہانیاں بہت پسند آتی ہیں۔ یہ کہانی ایثار و قربانی کی بہترین مثال ہے۔
1965
میں لکھنؤ سے بچوں کا خوبصورت
رسالہ ’ٹافی‘ نکلتا تھا اس کے مدیر جناب معظم جعفری تھے۔ سعادت علی صدیقی اس کی
مجلس ادارت میں شامل تھے۔ غیر ممالک کی مشہور کہانیوں کو اپنی زبان میں بڑے
خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ان کہانیوں کو1970 میں ادارہ ماہنامہ ’ٹافی‘، ’بچوں کی
لوک کہانیاں‘ کے نام سے شائع کیا۔
بلاشبہ
ہم سعادت علی صدیقی کے تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی کارناموں اور ادبی مشاغل کو حق و
صداقت کے اعلیٰ معیار پر رکھ سکتے ہیں۔ ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں اردو زبان و
ادب کے سرمائے میں بیش بہا اور مثالی اضافہ ثابت ہوں گی۔
ڈاکٹر سعادت علی صدیقی اردو
تحریک سے وابستہ ایک سپاہی تھے۔ وہ اردو کو فنی اعتبار سے مالامال اور زندہ زبان
سمجھتے تھے۔ انھیں اردو کی اہمیت اور اس کی افادیت اور مقبولیت کا اندازہ تھا۔ وہ
اردو کی ترقی، تروج و اشاعت کو اپنا مقدس فریضہ جانتے تھے۔اردو زبان کے متعلق ایک
مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اردو کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہمہ جہت محبوبیت اس کے
سیکولر کردار اور ترقی پسند افکار، جمہورنواز نظریات اور ہر دلعزیز مزاج کے باعث
ہے۔ اس کا دامن ابتدا ہی سے وسیع تر رہا ہے۔ اس نے سب زبانوں، سب مذہبوں اور سب
طریقوں کا فراخ دلی سے خیر مقدم کیا اور ان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی خلوص و
دل سے کی۔’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘ اس کا ایمان رہا اور ’’یا مسلمان
اللہ یا برہمن رام رام‘‘ اس کا کردار۔ اردو شاعر اور ادیب محبت و رواداری کے
پیامبر اور پریت مکتی کے علمبردار ہیں۔ وہ اس دھرتی کے باسی ہیں جسے سارے جہاں سے
اچھا ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں مختلف مذاہب کے بزرگوں، پیشوائوں اور مہاتمائوں نے
پیا م اتحادم، اخوت اور انسانیت کا درس دیا۔‘‘
(’ادبی تحریریں‘؍ مجموعہ مضامین ’اردو شاعری میں نانک
کھتا‘ از سعادت علی صدیقی صفحہ 71مطبوعہ 1989)
ڈاکٹر سعادت علی صدیقی سیکولر
ذہن رکھتے تھے اور تمام مذاہب کا بھرپور احترام کرتے تھے۔ انھوں نے انسانیت، بھائی
چارہ،سماجی اور اردو شاعری میں رام کتھا، اردو شاعری میں نانک کھتا، ہریش چند کی
اردو شاعری، اردو شاعری میں کرشن کتھا جیسے کئی مضامین قلم بند کیے۔ مندرجہ ذیل
اقتباس سے ان کے سیکولر نظریات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے:
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، کثرت میں وحدت کا
زریں نشان، آج دنیا کا سب سے بڑا جمہوری و سیکولر ملک ہے۔ جہاں مذہبوں و دھرموں
کے ماننے والے شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں اور اپنے اپنے طریق عبادات و مذہبی رسوم
ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہندوستان ارض چمن کا وہ حسین گلدستہ ہے جس کا ہر
پھول سدا بہار اور ہر رنگ پائدار ہے۔ اس کی ایک غیر مذہبی مشترکہ تہذیب ہے جس میں
ندرت و جامعیت ہمہ گیری و آفاقیت اور گہرائی و گیرائی کی روح جلوہ گر ہے۔‘‘
(’
ادبی تحریریں‘مجموعہ مضامین
’اردو شاعری میں رام کھتا‘ از سعادت علی صدیقی ص 16؍مطبوعہ1989)
ُُ’ادبی آئینے‘، ڈاکٹر سعادت
علی صدیقی کے مضامین کا دوسرا مجموعہ تھاجو 1983 میں منظر عام پرا ٓیا۔ اس سے قبل
ان کے مضامین کا ایک مجموعہ 1975 میں ’ادبی جائزے‘ کے نام سے شائع ہوچکا تھا۔ ان
دونوں ہی مجموعہ مضامین کو اترپردیش اردو اکامی نے اعزاز سے نوازا۔ ’ادبی آئینے‘
میں شامل دیگر اہم مضامین کے ساتھ ساتھ ’سنبھل کے چند قدیم شعرا‘، ایک باکمال غیر
معروف شاعر ’فرض نگینوی‘ اور ’سیدسرسیوایک باکمال شاعر‘ جیسے مضامین شامل ہیں۔آکاش
وانی لکھنؤ سے اس زمانے میں کتابوں پر تبصرے نشر کیے جاتے تھے۔ ’ادبی آئینے ‘ پر
آکاش وانی سے تبصرہ کرتے ہوئے معروف صحافی جناب صباح الدین عمر نے کہا کہ’’ڈاکٹر
سعادت علی صدیقی ایک نوجوان اردو ادیب ہی نہیں بلکہ اردو کے بڑے مبلغ ہیں اور اپنے
ضلع میں اردو کی ترقی و ترویج و اشاعت کے لیے بڑے سرگرم رہتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے
کہ درس و تدریس اور دوسری مصروفیات کے علاوہ لکھنے کے لیے بھی وقت نکال لیتے
ہیں۔‘‘ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی ایک کتاب ’حبسیۂ غالب‘ہے۔محض 80؍صفحات پر مشتمل
ایک مختصر تحقیقی کاوش ہے جس میں غالب کا حادثہ اسیری، حادثہ اسیری کے اسباب، غالب
کی قمار بازی، ہمعصر تصانیف میں حادثہ اسیری کے اثرات، حبسیۂ غالب کی اہمیت جیسے
قیمتی مضامین شامل ہیں۔ سعادت صاحب کی اس ادبی و تحقیقی کاوش پر ڈاکٹر رغیب حسین
نے ’پیش گفتار‘ کے عنوان سے ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں ڈاکٹر سعادت علی صدیقی
کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں:
’’کتاب میں غالب کا فارسی ترکیب بند اور اس کا اردو ترجمہ
بھی شامل ہے، ترجمہ کرنا درحقیقت ایک دشوار فن ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ عزیزی
سعادت نے اس ترکیب بند کا ترجمہ نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے اور اس ادبی ذمہ
داری کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا ہے، چونکہ وہ زبان کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں،
اس لیے انھوں نے اس بات کا پورا لحاظ رکھا ہے کہ ترجمے سے شعر کی اصل روح مجروح نہ
ہونے پائے۔ حبسیۂ غالب کے مطالعہ سے اس ہونہار ادیب کی تحقیقی صلاحیتوں اور ادبی
سلیقہ کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
(پیش گفتار، حبسیۂ غالب از سعادت علی صدیقی صفحہ
9مطبوعہ1971)
حبسیۂ غالب کے علاوہ ڈاکٹر
سعادت علی صدیقی کی دیگر تصانیف ’ادبی جائزے‘، ’ادبی آئینے‘ اور ’ادبی تحریریں‘
ہیں۔ یہ تینوں کتابیں سعادت صاحب کے تحقیقی و تنقیدی اور تعارفی مضامین کے مجموعے
ہیں۔ ’انیسوی صدی میں اردو کا زندانی ادب‘سعادت علی صدیقی کا تحقیقی مقالہ تھا۔
Mohd.
Ovais Sambhali
178/157,
Barood Khana, Golaganj
Lucknow
- 226 018 (UP)
Mobile
: 9794593055
Email:
ovais.sambhli@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں