16/3/21

حفیظ میرٹھی کی شعری کائنات - مضمون نگار: راحت علی صدیقی قاسمی


 


حفیظ میرٹھی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، ان کی شعری کائنات میں غزل کی حکمرانی ہے، غزل گوئی ہی ان کی شناخت کا باعث ہے۔انھوں نے جس زمانے میں غزل کی وادی میں قدم رکھا، وہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا، میرٹھ میں بھی ترقی پسندوں کی سرپرستی میں نشستیں منعقد ہوتی تھیں،جن میں ترقی پسند تحریک کے افکار و نظریات کا غلبہ رہتا تھا، نظم کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی تھی، مسلسل کسی ایک موضوع پر خیالات پیش کرنا موزوں اور مناسب سمجھا جاتا تھا،میرٹھ ہی نہیں پوری ادبی دنیا اسی روش پر گامزن تھی، نظم کی روایت ترقی کر رہی تھی، غزل پر اعتراضات کیے جارہے تھے،اسے فرسودہ اور بے وقت کی راگنی خیال کیا جارہا تھا، اس کے موضوعات و لفظیات کو فرسودہ و قبیح تصور کیا جا رہا تھا،شاعری کا مسائلِ زندگی سے ہم آہنگ ہونا ضروری تصور کیا جانے لگا تھا، شعرا کی پوری توجہ اسی جانب مرکوز تھی۔

حفیظ نے اس دور میں غزل گوئی کا فریضہ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ، اور کسی نظریے و تحریک کے پابند نہیں ہوئے،غزل کو ایسے موضوعات اور افکار عطا کیے، جن کا تصور غزل کے پیرایہ میں کم ہی ہوتا ہے، فرسودہ خیالات سے اجتناب کیا، روایتی طرز اختیار نہیں کیا،قدیم لفظیات کے ذریعے ہی نئے معانی تخلیق کیے۔

زندگی جن مشکلات و مصائب سے دوچار ہوتی ہے، سماج و معاشرہ جس کربناک صورت حال کا مشاہدہ کرتا ہے،غربت و افلاس  کے جو ہولناک مناظر ہوتے ہیں، حفیظ نے ان کو غزل کے موضوعات میں تبدیل کردیا، زندگی کے نشیب و فراز ،سماج و معاشرے کی صورت حال کو دیکھا محسوس کیا، اور اسی احساس کو غزل کا نازک پیکر عطا کیا،اور اس خوبی کے ساتھ کہ اس کا حسن بھی باقی رہا،تشبیہات و تمثیلات اور استعارات و علامات کی کائنات بھی سجی رہی، اور کائنات کا چہرہ بھی غزل کے آئینے میں نظر آنے لگا، اس کے چہرے پر لگے زخم بھی نمایاں ہوگئے، اور ان کا مرہم بھی تلاشنے کی کوشش کی گئی ، ان موضوعات کو اختیار کرنے کے باوجود حفیظ کی غزلیں خبروں کاروپ لینے اور سپاٹ پن سے محفوظ ہیں ، اور ان کا تغزل بھی باقی ہے،وہ غزل کے نرم و نازک اور خوبصورت پیکر کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوئے، جوان کی بڑی کامیابی ہے۔

ان کے موضوعات روایتی نہیں ہیں، وہ پرانے جام کو نیا پیمانہ عطا کرنے کے عادی نہیں ہیں، وہ مشاہدہ کے لیے کھلی آنکھیں، اور محسوس کرنے کے لیے دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں، اور ان موضوعات پر گفتگو کرنے کے لیے ایک نظریہ رکھتے ہیں، جو انھیں سچ کہنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتا ہے، رات کو رات کہنے کی جرأت دیتا ہے، ان تمام  عناصر سے مل کر حفیظ کی غزل وجود پذیر ہوتی ہے، اور سوز دروں اس کے تاثر کو دوبالا کردیتا ہے۔ پروفیسر عتیق احمد صدیقی اُن کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’جو کچھ اس شاعری میں نظر آتا ہے وہ رسمی اور تقلیدی نہیں ہے بلکہ اُس کا تعلق قلبی محسوسات سے ہے، یہ مشاہدات وسیع ہیں اور ان کی وسعت کی وجہ سے شاعری کو متنوع موضوعات ملے ہیں اور یوں وہ خود کو روایت کے محدود درائرے سے آزاد کرسکی ہے اور نسبتاًایک کھلی فضا میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔‘‘

(حفیظ میرٹھی، فن اور شخصیت، ص:27)

رات کو رات کہہ دیا میں نے

سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا

جس سمت دیکھیے وہیں رستے ہوئے سے زخم

ویسے بڑا حسین ہے دور ترقیات

خون اس دور گرانی میں بہت سستا ہے

رات پھر ایک قتل ہوا گائوں میں پانی پر

کیا برا وقت ہے مفلسوں کے لیے

خون بیچا گیا روٹیوں کے لیے

بہت سے اشعارہیں جن کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے، اور ان کی شاعری میں موجود سماج و معاشرے کی صورت حال کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔

انسانی جذبات و احساسات کے قدردان تھے، اخلاقی اقدار کی پامالی انھیں تکلیف میں مبتلا کرتی تھی، اس تکلیف کا اظہار ان کی غزلوں سے بھی ہوتا ہے، حفیظ انقلابی مزاج کے حامل تھے، وہ برائی کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے، انقلاب کی قندیل روشن کرنا، ان کی فطرت کا خاصہ تھا ، وہ انقلاب کا انتظار کرنے والوں میں سے نہیں تھے، بلکہ انقلاب پیدا کرنا ان کی خواہش تھی، جس کا اظہار ان کی غزلوں میں جابجا ہوتا ہے،وہ مادی ترقی اور انسانی اقدار و معیار کی تنزلی پر طنز کرتے ہیں، رشتوں کی صورت حال پر تکلیف کا اظہارکرتے ہیں، کردار سازی کا درس دیتے ہیں، کردار کی عظمت کو دولت عظمیٰ گردانتے ہیں، کردار کو انسان کی پہچان کا باعث گردانتے ہیں، مذہبی منافرت بھی انھیں پسند نہیں ہے، اور انسان کو محض مذہب کی بنیاد پر پہچاننا ان کا شیوہ نہیں ہے، سماج میں پیدا ہورہی اس صورت حال پر طنز کرتے ہیں، اور اس کو انسانوں کی پہچان و شناخت پر حملہ کرنے والا گردانتے ہیں، تلمیحات بھی ان کی غزلوں میں موجود ہیں، جو اشعار کو مزید خوبصورت اور دلکش بناتی ہیں۔

زندگی کے ساتھ ساتھ ادب ،شاعری اور مشاعروں کی صورت حال پر بھی حفیظ نے اپنی غزلوں میں اظہار خیال کیا ہے، اور حقائق کو غزل کا جامہ پہنا دیا ہے، شاعروں کا اشعار پر گفتگو زیادہ کرنا اور شعر کم پڑھنا بہت سے شعرا آج بھی اس روش کو اپنائے ہوئے ہیں ، حفیظ کو یہ پسند نہیں تھا، انھوں اپنی غزلوں میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے، مشاعروں میں بڑا شاعر اسی کو خیال کیا جاتا ہے، جو زیادہ قیمت وصول کرے ، ترنم ہی کامیابی کی شاہ کلید ہے، اس طرح کے موضوعات کو بھی انھوں اپنی غزلوں میں جگہ دی ہے، اور سادگی کے ساتھ غزل گوئی کو اپنا شیوہ بنایا ، اسی کو پسند کرتے تھے، اشعار کے پس منظر پر گفتگو کرنا انھیں پسند نہیں تھا، انھوں شعرا پر تنقید کی، ساتھ ہی ہمدردی کا اظہار بھی کیا، اور تنقید کی عظمت سے بھی واقف کرایا       ؎

تنقید سے شاعر کی تقدیر سنورتی ہے

تعریف کے متوالے تنقید گنوارا کر

حفیظ کی غزلوں میں علامہ اقبال کا رنگ بھی نظر آتا ہے، انھوں نے عشق و عقل اور خرد و جنوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے، جہاں اقبال کا نظریہ ہی اُن پر غالب ہے اور عقل کے مقابلے میں عشق کو انھوں نے فوقیت دی۔ خرد کو جنوں سے کم تر گردانا ہے۔ حفیظ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور اس رنگ کو محسوس کیجیے:

خرد کرتی حقیقت آشنا کیا

سوائے وہم اُس کے پاس تھا کیا

مسلک عشق تو سیدھا سادہ تھا

عقل نے ڈال دی الجھنوں کی طرح

حفیظ نے اپنی غزلوں میں جن موضوعات کو اختیار کیا ہے، اس سے یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے، کہ انھوں زندگی کو قریب سے دیکھا، اور اس پر تبصرہ کیا ہے، اور اصلاح حال کی کوشش کی، ان کی غزلیں ہر اس موضوع کو بڑی چابک دستی کے ساتھ بیان کرتی ہیں، جو نام نہاد نظم نگاروں کے موضوعات ہیں، ان تمام موضوعات کو حفیظ کسی نظریے اور کسی تحریک کی پابندی کے بغیر بیان کرتے ہیں، اور پورے طورپراپنے احساس کو غالب رکھا ہے، البتہ اس بات کو یقینی طور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں نئی لفظیات نہیں ہیں، انھوں نے جدید علامات اورلفظیات نہیں تراشے ہیں،بلکہ لفظیات میں وہ میر و غالب کے ہی پیروکار نظر آتے ہیں، ان کا کمال یہ ہے کہ اس قدیم لفظیات کو انھوں نے جدت کے حامل موضوعات عطا کیے ہیں، جس کے باعث وہ غزل گوئی میں کامیاب ہوئے، حالانکہ کہیں ان کی لفظیات میں جدت بھی نظر آتی ہے، لیکن عام طورپر وہ ان کا طرز شاعری نہیں ہے۔ انھوں نے سادہ و آسان الفاظ کی جانب رغبت کی ہے، مشکل ترین الفاظ اُن کی غزلوں میں کم نظر آئیں گے۔ حفیظ کی غزلوں کو سمجھنے کے لیے لغت کی حاجت کم ہوتی ہے، اُس کے ساتھ ہی ان کی غزلوں میں غنائیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اُن کی غزلیں زبان پر جاری ہوجاتی ہیں، اُن کا غزل پڑھنے کا انداز بڑا دلچسپ اور سادہ تھا، ایسا لگتا تھا جیسے آواز دل سے نکل رہی ہے اور دل پر دستک دے رہی ہے۔

حفیظ میرٹھی نے نظمیں بھی کہی ہیں، جن کے موضوعات اور فکر کا دائرہ محدود ہے، کچھ رثائی نظمیں ہیں، مثلاً اپنی اہلیہ کی وفات پر انھوں نے نظم کہی ہے،حفیظ کی دو شادیاں ہوئیں، لیکن اس کے باوجود انھیں تنہائی کی تلخ زندگی سے واسطہ پڑا، شریک حیات کی جدائی کے غم سے وہ ٹوٹ گئے، درد وغم کی اسی کیفیت کو انھوں نظم کا پیکر عطا کیا ہے، دوسری شادی کے بعد وہ سنبھلے اور زخم مندمل ہونے لگا، لیکن دوسری اہلیہ کی وفات پر وہ زخم ناسور بن گیا، قلب کی کیفیت ناگفتہ بہ ہوگئی، جیسے دریا میں تلاطم بپا ہوجائے، آہ و بکا سینہ چیر کر باہر نکل آئے، انہی کیفیات سے حفیظ زوجۂ ثانی کی وفات پر دوچار ہوئے اور غم کے جذبات و احساسات کو نظم کا لباس عطا کیا، نظم کا عنوان ہی اس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہے، ’میں ٹوٹ گیا ہوں‘ اور ’درد ہمارا ‘وہ تمام چیزیں ان دونوں نظموں میں جمع ہوگئیں، جو رثا کی بنیاد ہیں۔

حفیظ جن علمی و ادبی شخصیات کو پسند کرتے تھے، ان کے نظریات و فکر پر اعتماد کرتے تھے، جن کا فن و فکر انھیں متاثر کرتا تھا، جن کے علم و ادب کے ثنا خواں تھے، ان شخصیات کی شان میں نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا ہے، اور ان کے مقام و منصب، ان کے افکار اور ان کی شخصیت کی خوبیاں و خصوصیات ظاہر کی ہیں، ان میں مولانا مودودی کی شان میں ’نذرانہ عقیدت‘ ہے، جو لندن کے ایک پروگرام میں پیش کیا، روش صدیقی اور بہادر شاہ ظفر کی یاد میں کہی گئی نظمیں ہیں، جو مختصر ہیں، لیکن ان شخصیات کے کمالات کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں۔

حفیظ کسی ادبی نظریے کے پابند نہیں رہے، وہ ترقی پسند تحریک کے سکہ بند موضوعات تک محدود ہیں، اور نہ ہی کسی ادبی تحریک و تنظیم کی پابندی انھیں گوارا ہے، ان کی اپنی فکر اور اپنا دائرہ ہے، جس کی حدود کے باوجود وہ کامیاب ہیں، البتہ ابتدائی دور میں جب انھوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو ادبی دنیا میں ترقی پسند تحریک بام عروج پر تھی، اور میرٹھ بھی اس کے اثر سے خالی نہیں تھا، میرٹھ میں ظ انصاری کی صدارت میں ترقی پسندوں کی نشستیں ہوتی تھیں، حفیظ بھی ان میں شریک ہوتے تھے اور اپنا کلام پیش کرتے تھے، ایک نشست میں حفیظ نے اپنی نظم نغمۂ آدم سنائی جس کے حوالے سے ظ انصاری رقم طراز ہیں:

’’ظ انصاری نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ نشست شروع ہونے سے پہلے ترقی پسند ادب پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کے خلاصے کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حفیظ صاحب کی نظم’نغمۂ آدم‘ مکمل ترقی پسند ادب ہے۔‘‘

(حفیظ میرٹھی حیات اور شاعری، ص:32)

حالات حاضرہ پر مبنی نظمیں بھی حفیظ کی شاعری میں موجود ہیں، انھوں نے دعائیہ نظمیں بھی کہی ہیں، اور شادی کے موقع پر سہرے بھی لکھے اور ’شبھ کامنائیں‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے، جو شادی کی خوشی کے اظہار دعاؤں اور مبارکباد پر مبنی ہے۔

حفیظ میرٹھی ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کے علمبردار تھے، اتحاد و اتفاق کے قیام کے لیے انھوں نے دینک جاگرن اخبار کی فرمائش پر ’امن کی شبنم‘ نظم کہی ہے، حالانکہ وہ اس طرح فرمائشی شاعری کو پسند نہیں کرتے تھے اور اسے دباؤ کی شاعری کہتے تھے، اس کے باوجود انھوں نے ’’امن کی شبنم‘‘ نظم کہی اور اتحاد و اتفاق کی کوشش کی، فساد کے زخموں پر مرحم رکھا۔

ملاحظہ کیجیے اس نظم کے اشعار:

امن کی شبنم سے ہی کھلتے ہیں تیوہاروں کے پھول

اب نہ لے چمن میں کوئی آگ برسانے کانام

ہم اگر تڑپیں گے تم بھی بے مزہ ہوجاؤگے

کون لے گا ماتمی ماحول میں گانے کانام

حفیظ میرٹھی کی نظم’ارتقا‘ بھی خوب ہے، جو انسان کی مادی ترقی اور سماجی اخلاقی مذہبی تنزلی کو بیان کرتی ہے، اس کے علاوہ، ’گیٹ اپ‘ کے عنوان سے بھی انھوں نے نظم کہی ہے، جو قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کو بیان کرتی ہے، اس کے الفاظ، چھپائی، رسم الخط وغیرہ کے حسن کو ظاہر کرتے ہے۔

حفیظ میرٹھی کی نظموں میں بھی غزلوں جیسی نغمگی موجود ہے، ان کی نظمیں سادہ ہیں،غزل کی سی غنائیت ان کی نظموں میں موجود ہے، علامات و استعارات پیچیدہ الفاظ اور بعید الفہم طرز کی بو بھی ان کی نظموں میں موجود نہیں ہے، موضوع سادہ، مفہوم بالکل واضح ہے، البتہ الفاظ کی نغمگی، سوز اور قلبی کیفیت کا برملا اظہار ان کی نظموں کو دلچسپ اور خوبصورت بناتاہے، جس سے انتہائی محدود ہونے کے باوجود حفیظ کی نظمیں اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، یہ نظمیں فطری طور پرغزل سے لگاؤ کی بین دلیل ہیں۔


Rahat Ali Siddiqui

Gaon, Mohammad Pur Mafi

Post Khatoli

Distt.:Muzaffar Nagar - 251201 (UP)

Mob.: 9557942062

 



 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں