اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ
مصنف: محمد حسن
صفحات:334، قیمت:160روپے،
طباعت ثانی: 2020
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان،نئی دہلی
مبصر: امتیاز احمد علیمی
S-2/5Aتیسری منزل، فاطمہ اپارٹمنٹ،جوگا بائی نئی دہلی
سماجیات ایک مستقل شعبہ ہے جس
میں سماجی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے اور ادب کو سماج کے رشتوں اور سماج کو ادب کے
ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔سماج کے وسیلے سے ادب کے صرف سماجی پہلو پر ہی
دھیان نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے عصری مسائل، اخلاقی و اقداری روایات،اس کے ذوق
جمال اور ذوق سلیم سبھی کی شناخت کرائی جاتی ہے۔ایک ادیب یا تخلیق کار کی تخلیق کے
ساتھ اس کی ذاتی زندگی، اس کے دیہی اور شہری تعلقات اور پیشے وغیرہ سبھی کو زیر
بحث لاتی ہے۔ لیکن ادبی سماجیات،اس کی مبادیات اور اس کی تاریخ کیا ہے یہ اس کتاب
کو پڑھتے ہوئے معلوم ہواکہ ادب کی بھی اپنی سماجیاتی تاریخ ہوتی ہے۔اس نئے علم کی
روشنی میں اردو کی ادبی اور سماجیاتی تاریخ اور اس کے مختلف ادوار کو پیش کرنے کا
کام بقول مصنف ’پہلی بار ہو رہا ہے‘۔یہ بات سچ ہے کہ اردو میں اس نئے موضوع کی طرف
پہلی بار محمد حسن نے ہی متوجہ کرایا ورنہ
اردو کی ادبی تاریخیں تو بہت لکھی گئیں لیکن اس نوعیت کی کتاب اردو میں نایاب
ہے۔محمد حسن نے سماجیاتی علوم کی روشنی میں اردو ادب کا مطالعہ کرتے وقت جن اہم
پہلوؤں کو اپنے پیش نظر رکھا ہے ان میں سے ایک متن سے مختلف مفاہیم اور مطالب اخذ
کرنے کی آزادی،دوسرا متن میں مختلف لکھنے والوں کے طبقاتی شعور اور ان کے انفرادی اور اجتماعی شعور کا
اظہار اور اس کی نوعیت،تیسرا مختلف ادوار کے ادب میں اس دور کی عکاسی اور اس دور
کے بعد کے ادوار میں اس کے معنی و مطالب
کی توسیع اور چوتھا مختلف اصناف کے مصنفین کی طبقہ واری تقسیم۔انھیں مذکورہ
پہلوئوں کی روشنی میں اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں
کامیابی بھی ملی۔
ادبی تاریخ کی تشکیل نو میں
ایک ملک کے دوسرے ملک سے سماجی اور تجارتی روابط نے اہم کردار ادا
کیا۔قدیم،وسط اور جدید ہندوستان کی معاشی، تہذیبی و ثقافتی اور تجارتی لین دین کے
نتیجے میں شہری اور دیہی مرکزیت کا عمل کس طرح سے عمل میں آیا اس پر تفصیل سے
روشنی ڈالی گئی ہے۔سنسکرت،پراکرت،برج اور
کھڑی بولی کے وجود پذیر ہونے کے اسباب کیا تھے۔ان زبانوں کے نشیب و فراز نے دیہی، مدنی، قصباتی، علاقائی اور بین الاقوامی
سطح پر کیا اثرات مرتب کیے۔وسط اور مغربی ایشیا کے تاجروں کی آمد و رفت سے ہندوستان
کی مختلف تمدنی اکائیوں،لسانی وحدتوں اور علاقائی منطقوں میں جس طرح کی ہلچل پیدا
ہوئی اس کو تہذیبی اور سماجیاتی تاریخ کی روشنی میں بہت ہی منظم انداز میں پیش کیا
گیا ہے۔اس کے علاوہ ابتدائی دور،رزمیہ دور، بھکتی دور،نشاط ثانیہ،انقلاب
فرانس،صنعتی انقلاب،مغلیہ عہد،فورٹ ولیم کالج،1857کا غدر،جنگ آزادی وغیرہ کی
سیاسی،سماجی،تہذیبی،مذہبی اور تجارتی
اثرات کی روشنی میں اردوادب کی تاریخ کی تشکیل نو کی گئی ہے۔تفصیل کے لیے
کتاب کا مطالعہ نا گزیر ہے۔ محمد حسن نے
ادبی سماجیات کے ایک بہت ہی اہم پہلو ادبی سر پرستی کے مسئلے پر بھی تفصیل سے
روشنی ڈالی ہے۔ہر عہد میں ادب کی سر پرستی مختلف لوگوں اور طبقوں کے مابین رہی ہے
جس کی وجہ سے تخلیقی ادب کے طرز اور روش،تکنیک اور انداز بیان پر ان طبقوں کے
اثرات نمایاں رہے ہیں۔مثلاً ایک زمانے میں دیہی سماج میں چوپال لوک گیتوں اور
عوامی فن کاروں کی سر پرستی کا مر کز رہی
پھر دیوان خانے اور درباروں کی،صنعتی دور میں عوامی ذارئع ترسیل کا،ان سبھی ذرائع
اور وسائل نے ادب کے رنگ و آہنگ نفس مضمون،ہیئت اور تکنیک سبھی کو متاثر کیا۔محمد
حسن نے ادبی سماجیات کے مذکورہ پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا
ذکر کیا ہے کہ ادبی سماجیات کا بھی ایک اہم منصب ہے اور اسے نظر انداز کرنا ادب کی
تفہیم اور اس کی سماجی معنویت کے ایک دلچسپ اور بصیرت آموز پہلو سے محرومی کے
مترادف ہے۔محمد حسن نے ماہرین سماجیات جنھوں نے سماج کے مطالعے میں ادب سے کام
لینے کی روایت اور بنیاد ڈالی تھی ان کے پیش کردہ مختلف رویوںکا ذکر کیا ہے مثلاً
ادب کو سماج کے کسی مخصوص دور کا آئینہ قرار دے کر اس سے اس دور کے بارے میں
تہذیبی اور اقداری شہادتیں حاصل کرنایا ادب کا جمالیاتی فن پارے کے بجائے مال
تجارت کی حیثیت سے مطالعہ کرنایا ایک مخصوص معاشرے پر کسی ادبی فن پارے کا رد عمل
کس طرح ہوتا ہے وغیرہ۔ادبی سماجیات جن اہم پہلوئوں پر اپنا نقطہ نظر مر کوز رکھتی
ہے ان میں ایک ادب کی سر پرستی کرنے والے اداروں کا مطالعہ بھی شامل ہے اس کے
علاوہ ادبی سماجیات کا سب سے زیادہ وسیع اور غالباً زیادہ معروضی شعبہ ادبی ذوق کا
تجزیہ اس کے عوامل و محرکات کا مطالعہ اور سماج پر اس کے اثرات کی نوعیت اور اس کے
دائرۂ کار کا تعین ہے۔
مذکورہ بالا نکات کے علاوہ
مزید جن اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ان میں شاعری،ڈرامہ، داستان، ناول
افسانہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔شاعری میں غزل، نظم، مثنوی اور مرثیہ پر تفصیل سے روشنی
ڈالی گئی ہے۔ڈرامہ میں مشرقی اور مغربی ڈراموں کی روشنی میں ان کے سماجی پہلوؤں
پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔داستان میں قصہ در قصہ کی روایت اور اس کے سماجی پہلو کو
زیر بحث لایا گیا ہے۔ناول جسے صنعتی عہد کا رزمیہ کہا جاتا ہے اس کو سماجی نقطہ
نظر سے دیکھنے اور پرکھنے کی سعی کی گئی ہے اسی طرح افسانے میں بھی اس کے مختلف
جہات کو دیکھنے،سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور دونوں کے مابین بنیادی
فرق کیاکو بھی واضح کیا گیا ہے۔ان تمام اصناف کے سلسلے میں انھوں نے مصنفین کے سلسلے
میں تین حیثیتوں پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔پہلے پس منظرپھر پیشے یا ذرائع
روزگار اور آخر میں ادبی سر پرستی۔جب ان حیثیتوں سے کسی ادب اور فن کا ر کا
مطالعہ کیا جائے گا تو اس کی تخلیقات میں سماجی پہلوؤں کو تلاش کرنا قدرے آسان
ہو جائے گا۔محمد حسن نے اردو ادب کی بیشتر اصناف سخن کی ادبیت اور سماجی پہلوؤں
پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ہر صنف کے جانچنے اور پرکھنے کے کیا زاویے ہوتے ہیں
یا ہو سکتے ہیں اس کو بھی بیان کیاہے۔اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ کے مطالعے کے لیے
یہ کتاب انتہائی اہم ہے۔اس کے مطالعے سے ادب کی تفہیم کے مزید در وا ہوں گے۔امید
قوی ہے کہ علمی اور ادبی حلقوں میں اس کی مزید پذیرائی ہوگی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں