17/3/21

پروفیسر احمر لاری - مضمون نگار: غلام حسین

 



آزادی کے بعد جامعات کے جن اساطین اور اہم ترین اساتذۂ کرام نے اردو زبان و ادب کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں پروفیسر احمرلاری صاحب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔گورکھپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں جب آپ کا تقرر عمل میں آیا تو اس وقت اردو کے دو ممتازاساتذہ پروفیسر محمود الٰہی صاحب اور ڈاکٹر سلام سندیلوی صاحب شعبے میں فائق تھے۔ احمر لا ری صاحب کے تقرر سے شعبے کے وزن و وقار میں اضافہ ہوا۔ تقریباًایک دہے کے بعد دو اور اساتذۂ کرام ڈاکٹر اختر بستوی صاحب اور ڈاکٹر افغان اللہ صاحب کے و رودسے شعبہ توانا اور تونگر ہوا۔ طلبا کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا۔ یہاں کے جن فارغ التحصیل اسکالروں نے قومی سطح پراردو دنیا میں شعبے کا نام روشن کیا ہے ان میں پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد صاحب،پروفیسر عبدالحق صاحب، پروفیسر فضل امام صاحب،پروفیسر فیروزاحمد صاحب، پروفیسر قا ضی افضال حسین صاحب اور پروفیسرجمال حسین صاحب جیسے نامور صاحبان کی وابستگی اسی شعبے سے رہی ہے۔ احمر لاری صاحب بھی اس شعبے کے پروردہ اور پرداختہ ہیں۔ فطرتاً وہ کم گو تھے یا یوںکہیے کہ جن کہ آنکھ کھل گئی ان کی زبان بند ہے۔

’’گویا کہ ’’آپ کا تکیۂ کلام تھا۔دوران تدریس وہ یوں گویا ہوتے جیسے دریائے علم میں طغیانی آگئی ہو اورایسی سحر آفریں فضاطاری ہو جاتی کہ جیسے مہتاب کی کرن میں جان سی پڑ گئی ہواور الفاظ جگنوبن کردمکنے لگے ہوں۔کلام غالب وہ خوب ڈوب کر پڑھاتے تھے اور اشعار بھی وہ بڑے ہی مو ثر انداز میں سمجھاتے۔ ایک موضوع پر کم سے کم دس شعرا کے حوالے دیتے اور تشریح وتعبیربڑے دلنشیںانداز میں کرتے۔ پابندی سے تدریسی امور کی تکمیل میں وہ مستعد رہتے۔ سنجیدہ اور محنتی طلبا پر آپ کی خاص شفقت ہوتی۔نادار طلبا کی وہ دستگیری بھی کرتے تھے۔کچھ شوخ مزاج طلبا ایسے تھے جو آپ کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ ایسی حرکت کرنے والے دنیا میں رسوا ہوئے وہ تواُستاد کی دنیا کے مرد قلندر تھے۔ ریاکاروں،کج رویوں،کج فہموں سے وہ ذرا فاصلہ بنا کر رہتے تھے۔ امتحانی امور میں وہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رویہ اپناتے۔اس لیے بددیانتی سے آپ کا دامن ہمیشہ پاک رہا۔بڑے بڑے سورما کی سفارش اور دھمکی کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ موجودہ دور میں آپ  جیسے معلم تو عنقا ہیں۔میں نے جس سال ایم اے میں داخلہ لیا تو ہمارے کچھ ہم جماعت گر گ باراں دیدہ اور جہاںچشیدہ حضرات تھے جو بڑے اثرورسوخ والے ذہین اور فطین تھے۔ انھیں اردو دانی کا بڑاغرہ تھا۔ مگر جب نتیجہ آیا تو خاکسار کو سب سے زیادہ نمبرات حاصل ہو ئے۔اس سے ان حضرات کی تہہ دارخواہشیں تہ نشیں ہو گئیں۔پھرکیا تھا وہ حضرات میری حرف گیری کی تاک میں رہتے اور پھبتی بھی کستے۔ ایک دن محترم لاری صاحب کے کلاس میں ایک طالب علم نے اشارتاً اور شرارتاً یہ شعر پڑھا        ؎

 اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

استادمحترم نے پوچھا بھئی! یہ کس کا شعر ہے؟ حاضر جوابی کے زعم میں سرمست مخالف گروہ کے سرغنہ نے تپاک سے کہا کہ یہ توشعر شبلی نعمانی کا ہے۔ میں نے فورا ًجواب دیا نہیں،یہ تو معروف شاعر غالب کا ہے۔ اس وقت لاری صاحب نے کہا دیوان غالب کا مطالعہ کرکے کل بتائیے گا۔دوسرے دن وہ حضرت منہ لٹکائے ہوئے کلاس میں آئے اور کہا کہ شبلی نے اپنے مضمون میں غالب کا یہ شعر کوٹ کیاہے جو ’واوین‘ میں ہے۔ پھر اس کے بعد میرے مخالفین کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں اور ٹاپ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے مگربفضل ِربی فائنل میں میں نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیا اور گولڈ میڈل کا مستحق ہوا۔ایم  اے  اردو ادب کے نصاب میں ایک پرچہ فارسی اورہندی ادب کی تاریخ کابھی تھا۔ شعبۂ اردو کے بنیاد گزار اساتذۂ کرام اس کلیہ سے بخوبی واقف تھے کہ اردو کے لیے فارسی زبان ضروری ہے۔ وگرنہ آگے چل کر اردو ادب کی قرأت میں دقت آئے گی۔ہوا بھی یہی آزادی کے بعد ایسی نسلیں عالم وجود میں آئیں جس نے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل تو کرلیں لیکن کلاسیکی ادب کی قرأت سے عاری رہیں۔اس زمرے میں بندہ بھی شامل ہے۔ فی الوقت ہی نہیں ماضی میں بھی اعلیٰ تعلیم کی تدریس میں قابل توقیر وہی اساتذۂ کرام رہے ہیں جن کی وابستگی کسی نہ کسی طور پر عربی اور فارسی زبان سے بھی رہی ہے۔قرین ِقیاس ہے کہ لاری صاحب نے بھی ابتدائی تعلیم کے دوران فارسی زبان کا درس ضرور لیاہوگا۔وہ دور اندیش اورذی علم استاذ تھے۔ محنت سے جی چرانے والے طلبا اکثر ان کی کلاس سے غائب ہو جاتے تھے۔ ان کی کو شش ہوتی کہ طلبا ابتدائی فارسی ضرور سیکھ لیں۔ اس غرض سے وہ فارسی کی پہلی اور دوسری کتاب خود خرید کر طلبا میں تقسیم کرتے۔ جب تک ان کی وابستگی شعبے سے رہی تب تک وہ فارسی بھی پڑھاتے رہے۔ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد شعبے میں کوئی صاحب ایسے نہیں تھے جو فارسی پڑھا سکیں۔لہٰذاکافی دنوں تک مہمان پروفیسر سے کام چلتا رہا اور اب ماشاء اللہ پروفیسر محمد رضی الر حمن صاحب اس اہم ذمے داری کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔

پروفیسراحمرلاری صاحب کلاس لینے کے بعد جب سائیکل اسٹینڈتک جاتے توکچھ طلبا ان کے ساتھ ہو لیتے۔ ان میں سے کوئی ایک سائیکل باہر لاتا۔ کبھی کبھی یہ سعادت مجھے بھی میسر ہو جاتی۔ ان کی سائیکل اتنی اونچی تھی کہ دور سے پہچان لی جاتی۔کبھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔وہ اتنے لمبے تھے کہ چوبیس انچ کی سائیکل کو اونچی کرکے چھبیس انچ کا بنادیتے تھے۔ مزید بر آں جب وہ گدی پر بیٹھتے تو ان کاپیر زمین پر ٹکا رہتا۔پیر لمبے ہونے کی وجہ سے انھیں سائیکل چلانے میں پریشانی ہوتی تھی۔ اس لیے انھوں نے ایک موپڈ بھی خریدلی جس سے وہ یونیورسٹی آنے جانے لگے۔ وہ اپنے ساتھ ایک ہینڈ بیگ ضرور رکھتے تھے جس میں لکھنے پڑھنے اورشعبے کے دیگر ضروری کاغذات بڑے احتیاط سے رکھتے۔ لباس، گفتار اور نشست و برخاست میں وہ اردو تہذیب کے آئینہ دار تھے۔ سارے سراپامیں ان کے بال سب سے زیادہ صحت مند اور تابدار تھے۔ اگر وہ انگلش ٹائپ کے بال نہ ترشواتے تو گیسو دراز ہوتے جو شاعروں اور دانشوروں کا شیوہ رہا ہے۔ آپ کے پیر اتنے بڑے تھے کہ مشکل سے ان کے ناپ کا جوتا کسی دکان پر ملتا اور سینڈل کے لیے بھی انھیں دکاندار کو الگ سے ناپ دینا پڑتاتھا۔ اکثر وہ سینڈل ہی استعمال کرتے اور اس پر سوتی موزہ پہنتے کیوں کہ ان کے پیر میں’ایگزیما ‘کا عارضہ تھا۔ لوگوں کا ایسا کہنا ہے کہ جن کو’ایگزیما‘ ہوتا ہے وہ عمردرازہوتے ہیں۔ واقعی لاری صاحب کی عمر80 برس سے تجاوز کر گئی تھی۔ فضول خرچی سے وہ اس قدر محترز تھے کہ کنجوسی کا گماں ہوتا۔ فی الواقع وہ بڑے فراخ دل تھے۔ مقرب، عزیز،دوست و احباب، شاگرد وں کی وہ خاطر تواضع بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے۔شاگردوں کے ساتھ آپ کوجوحسن سلوک تھا وہ خال خال ہی کسی استاد میں ملتا ہے۔ آپ کا حسن سلوک کے سبھی قائل تھے۔آپ کے ایک شاگرد رشید ڈاکٹر محمدارشد خان آپ کے اخلاق و عادات کے عینی شاہد ہیں۔ چنانچہ لاری صاحب کی حین حیات میں انھوں نے ایک مضمون قلمبند کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے تاثرات کا اظہار اس انداز میں کیا ہے :

’’وہ بہت کم گو واقع ہوئے ہیں۔ بلا مقصد نہیں بولتے اور جب بولتے ہیں تو علم کے موتی ان کی زبان سے نکلتے ہیں، لہجہ بڑا دھیمہ، ٹھوس اورپر وقار نپے تلے الفاظ سوال کی مناسبت سے جواب دیں گے۔ کسی بھی شاگرد کو چھیڑیں گے نہیں۔ بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اس کے سوال کو سنیں گے اور بڑے صبر و تحمل سے اسے جواب دیں گے اور اس کی تسلی و تشفی کریں گے۔‘‘

محترم احمرلاری صاحب نے تجرد کی زندگی بسر کی۔ شعبے کے دیگر اساتذہ ڈاکٹر اختربستوی صاحب اور ڈاکٹر افغان اللہ صاحب نے بھی اس طرز زندگی کی ا تباع کی۔ تینوں حضرات کی زندگی میں اس قدر طمانیت اورعافیت تھی کہ تاہّل کی زندگی گزارنے والے افراد آپ لوگوں کی طرز زندگی پر رشک کرتے۔ تینوں درویش صفت صاحبان نے اپنے بھائیوں اور ان کی اولاد کو اپنا لیا تھا اور اپنے اپنے حسن سلوک اور برتاؤ سے زندگی کو اس قدرپر بہار بنا لیا تھا جس میںکبھی خزاں آئی ہی نہیں۔ ازل سے ہی بھائیوں نے اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔جلاوطنی اور قتل و غارت تک کی نوبت بھی آئی ہے۔ لوگوں کو اپنی اولاد سے بھی گزندپہنچتا ہے۔ مگر قربان جائیے ان تینوں حضرات پر کہ جنھوں نے  جبلتوں و روایتوں پر خاک ڈال کر حرص وآزسے مبرا بے مثال زندگی بسر کی۔ خاکسار کو کبھی یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ڈاکٹرپر ویز لاری (بھتیجا)  اور روما (بھتیجی )ان کی اولاد نہیں ہیں۔ میں نے تو اولاد کو بھی اتنا فرمانبردار نہیں دیکھا۔وہ  اپنے چھوٹے بھائیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک روح دو قالب سناتھا مگر تینوں بھائیوں کی الفت کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ایک روح تین قالب تو بے جا نہ ہوگا۔ایک صاحب قدرے معذور تھے ان کی وہ بھر پور کفالت کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے شاگردوں سے انھیں بڑی انسیت رہتی۔ شاگرد بھی ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔

آپ کا ادبی حلقہ بہت وسیع تھا۔ مراسلت اور روابط ان کے بین الاقوامی سطح پر تھے۔ وہ صوبۂ بہار میں انتہائی مقبول و معروف تھے۔انھوں نے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں وہیں  سے حاصل کی تھی۔ وہاں کے ادبا وشعرا سے صاحب سلامت تھی۔ وہاں کے امتحانات وغیرہ میں بھی مصروف کاررہتے تھے۔ ان کے اہم دوستوں میں پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد صاحب،پروفیسر محمودالحسن رضوی صاحب، پروفیسر فضل امام رضوی صاحب،پروفیسر مختاراحمد صاحب، پروفیسر اصغرعباس صاحب، ڈاکٹراشفاق احمد اعظمی صاحب کے علاوہ ہندی اور اردو کے دیگر ادیبوں اور شاعروں سے گہرے مراسم تھے۔اس باب میں اگر ڈاکٹر غلام رسول مکرانی کا ذکر نہ کیاجائے تو ان کے احباب کی فہرست پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچے گی۔ دونوں حضرات کے تعلقات عرصۂ درازسے قائم تھے۔ایک ساتھ تعلیم حاصل کی اور ریلوے میں ایک ساتھ ملازمت اختیار کی۔ اعلیٰ تعلیم کی ملازمت میں بھی شانہ بشانہ چلے۔لاری صاحب یونیورسٹی میںتو مکرانی صاحب سینٹ اینڈریوزمیںلکچررہوئے۔ دونوں حضرات وسیع المطالعہ تھے اورگورکھپورکی ادبی محفلوں اور مجلسوں کے روح رواں تھے۔مکرانی صاحب جب اپنے مخصوص انداز میں کسی پروگرام کی نظامت کرتے تو سامعین کوان کی علمیت اورطلاقت ِزبان کا اندازہ ہوتا۔ دونوں حضرات کی سنجیدگی اورشائستگی کا اہل شہر معترف تھے۔ ان کے تعلق خاطر کاآپ اس امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لا ری صاحب نے جب عالیشان ’ادبستان‘ کی تعمیر کروائی تو اس سے متصل مکرانی صاحب نے بھی اپنا آشیانہ بنوایا۔ دونوں حضرات کا انتقال ایک آدھ سال کے آگے پیچھے ہواہو گا۔ مگر مشیت ایزدی دیکھیے کہ گورکھپور کے قدیمی قبرستان ’کچی باغ ‘میں مرحومین آسودۂ خاک ہیں۔

گورکھپور کی ادبی محفلوںاور نشست گاہوں کا جب بھی ذکر کیا جائے گا تو احمرلاری صاحب کانام بڑے احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ ان کے بانیان اوررفیقان سے ان کی رفاقت تھی۔دو تین اڈے( نشست گاہیں ) تو ایسے تھے جہاں وہ اپنی سائیکل سے بلاناغہ روز پہنچتے تھے۔ سب سے پہلے وہ حکیم ابوالکلام صاحب کے مطب پر پہنچتے۔ حکیم صاحب کو شعر و شاعری کا بڑا اچھاذوق تھاوہ اردو زبان کے پرستارتھے۔اکثر وہ ادبی محفلوں کی صدارت کرتے تھے۔ ان کی طرز زندگی ایسی تھی کہ انھیں دیکھ کر مولانا ابوالکلام آزادکا بھرم ہوتا تھا۔ ان کے مطب کے معاون ڈاکٹر منظور احمد صاحب کا شمارپڑھے لکھے لوگوں میں ہو تا تھا۔وہ اکثرادبی محفلوں اور مباحثوں میں شریک ہوتے تھے۔حکیم صاحب کے مطب سے تھوڑی  ہی دور پر جوہر صاحب کی چھوٹی سی دکان تھی جہاں بڑی بڑی باتیں ہوتی تھیں۔ لوگ اس دکان کوجوہر صاحب کے تخت کے نام سے جانتے تھے۔ وہ استاذ شاعر تھے اور مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے۔وہ سب سے بڑے تپاک سے ملتے۔ ان کی محفل سے جو بھی اٹھتا تھا اپنے آپ پر فخر محسوس کرتا تھا۔لاری صاحب وہاں ضرور ٹھہرتے خیر وعافیت وادبی امور پر باتیں کر کے آگے نکل جاتے۔گھر واپس ہونے پر وہ بندوق کی دکان پر کچھ دیر کے لیے بیٹھتے تھے جہاں گولیاں کم بولیاں زیادہ چلتی تھیں۔بین الاقوامی سطح پرا دبی مباحث ہوتے۔وہاں بیٹھنے والے حضرات کا ادبی ذوق غیر معمولی تھا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار ادب نواز محمد حامد صاحب رئیس ’گلفشاںحویلی‘ قاضی پور خورد کے یہاں عموماًہندی گورکھپوری کے ساتھ تشریف لے جاتے۔ محترم حامد صاحب متواضع طبیعت کے مالک تھے کسی نہ کسی بہانے ادبی محفلوں اور ضیافتوں کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔اس روایت کو ابھی ان کے چھوٹے صاحبزادے محمد سعید حارث میاں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اب تو پورا منظرنامہ ہی بدل گیا ہے۔ اب ایم کوٹھیاوی راہی جیسی شخصیت کہاں؟ وہ  ہفت روزہ ’اشتراک‘ کے مدیرتھے۔ انھوں نے ایک دفتر بھی قائم کر رکھا تھا۔ جہاں شعرا وادبا کا مجمع لگتا تھا۔راہی صاحب اردو زبان و ادب کے چلتے پھرتے اشتہار اور اردوکو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیاتھا۔ پان خوب کھاتے جیب میں رکھی ہوئی دستی سے بار بار منہ صاف کرتے رہتے تھے۔ کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ان کی تعلیمی استعداد بھلے ہی کم تھی مگر تھے وہ فطرتاً شاعر اور نثار بھی۔راہی صاحب اور لاری صاحب کے درمیان خوشگوار تعلقات نہیں تھے پھر بھی وہ لوگ اردو تہذیب کے تقاضے کی پاسداری کرتے تھے۔پروفیسر محمود الٰہی صاحب اور ڈاکٹر سلام سندیلوی صاحب کی شخصیات شمعِ محفل کی سی تھی۔ جن سے اہل علم و ادب کسب فیض کرتے تھے۔ خیرپروفیسر محمود الٰہی صاحب آپ کے قابل قدرا ستاذتھے جن کاوہ بڑا احترام کرتے تھے اور اہم علمی و ادبی مسائل پرمشاورت کرتے تھے۔اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سلام صاحب اور لاری صاحب کے درمیان کچھ کبیدہ خاطر ی تھی۔اردو زبان وادب کومشتہر اور مقبول عام بنانے میں ڈاکٹر عزیز احمد  صاحب کے شفاخانے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔یہ بھی گورکھپور میں یاد گار اور ناقابل فراموش اردوزبان و ادب کامسکن ہے۔یوں تو اس دیار سے پروفیسر افغان اللہ صاحب اور راز اعظمی صاحب کی قربت جگ ظاہر تھی۔ مگر سچ پوچھیے تو ڈاکٹر صاحب نے نئی نسل میں ادبی ذوق اور اردو زبان سے انسیت پیدا کر کے سالار کارواں بن گئے۔ آپ کے کار دل پزیر سے کون سا ایسا محب اردو ہے جو متاثر نہیں ہے۔ آپ کو بے شمار اشعارازبرہیں۔وہ ادبی محفلوں میں بر محل شعر متاثر کن انداز میں پڑھتے ہیں۔یہ اردو شعر و ادب کے لگاؤ کا ثمرہ ہے کہ مشاہیر شعرا کے منتخب اشعار کا ایک بیاض مرتب کیاہے جسے بڑی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ابھی اس کار خیر میں سرگرم عمل ہیں۔ لاری صاحب آپ کی متحرک سروری کو سراہتے تھے۔ وہ ہر محب اردواوربہی خواہ رضا کارانہ اقدام کو نظر استحسان سے دیکھتے تھے۔

اپنے شاگردوں سے مطالعے کی ترغیبا ت آپ کی ترجیحات میں شامل تھیں۔ ایسے مخلص معلم اب کہاں ہیں!میں نے جب پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو اظہار تشکر کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے۔وہ الفاظ سے دعائیں کم دیتے تھے بس چہرے کی متبسم بشاشت سے یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ آپ سراپا دعا گو ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اب مطالعہ اپنی معمولات زندگی کا حصہ بنا لیجیے۔ میں حیرت میں تھاکیا میں نے اب تک مطالعہ کیے بغیر مقالہ لکھا ہے؟۔ پھر گویا ہوئے کہ ڈگری کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے مطالعہ لازمی ہے۔خصوصاً دیوان غالب،کلیات اقبال اور غبار خاطرکو اپناوظیفۂ حیات بنا لیجیے۔ مزید برآں آپ کا حکم صادر ہوا کہ سب سے پہلے بی  اے  کے نصاب کی کتابوں کا اس قدر بغور مطالعہ کیجیے کہ الفاظ کی تراکیب اور اضافت کے ساتھ اس کے لغوی، اصطلاحی اور مرادی معنی تک رسائی ہو سکے۔مثلاً بزدل، خرگوش،خانہ بدوش جیسے الفاظ کے لغوی معنی سمجھیے پھر پوچھا کیا بز، خر،گوش، بدوش کا لغوی معنی بتاسکتے ہیں۔ایک ڈاکٹریٹ ڈگری یافتہ خاموش بیٹھا تھا پھر آپ نے معنی بکری،گدھا،کان اور کندھا تو بتا دیا مگر یہ رائے دی کی فارسی کی ابتدائی معلومات ایک اردو کے معلم اور متعلم کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ آپ کے مشوروں پرمیں نے عمل کیا۔ آپ نے بی اے کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے اردو کی پہلی کتاب پڑھنا شروع کیا تو ایک جگہ ایک لفظ ’بوتام‘ پر اٹک گیا۔ لغت دیکھنے کی ضرورت پڑی تو معلوم ہوا کہ بوتام ’گُھنڈی‘ کو کہتے ہیں یہ عربی لفظ انگریزی میں جاکر بٹن ہوگیا ہے۔ محترم نے صرف و نحو اور فارسی کی پہلی اور دوسری کتابیں عنایت کیں۔اس طور کے مطالعے میں بڑی برکت ہوئی وہ صحت زبان اور معیاری تلفظات پر بڑا دھیان دیتے۔وہ اعلیٰ تعلیم میں ادبی سطح پر’غلط العوام فصیح‘ کے قائل نہیں تھے۔آپ کی اصلاح کا ایک خاص طریقہ تھا۔ پڑھتے یابولتے وقت غلط زبان استعمال کرنے پروہ نہ ٹوکتے اور نہ ڈانٹتے۔ بس بڑے سلیقے سے لفظ کو دہرا دیتے اور سمجھنے والوں کے لیے یہ اشارہ کافی ہوتا تھا۔روح و رواں اور زندہ وجاوید جیسے غلط الفاظ کواس طرح صحیح کرتے روح رواں اورزندۂ جاوید ہے۔ اکثر لوگ گنتی کے غیر معیاری تلفظ ادا کرتے ہیں کیونکہ اس پر علاقائی بولیوں کا اثر ہوتا ہے۔ جب کوئی چھاچھٹ اورنبے کہتاتو اس کو بتلاتے کہ اس کا معیاری تلفظ چھیاسٹھ اور نوے ہے۔ غرضیکہ آپ کی صحبت میں اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا اورکسی کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا...  جب میں مقالے اور مراسلے لکھتا تو اسے دیکھ کربہت خوش ہو تے اور حوصلہ افزائی کرتے۔آپ کی تو خواہش یہ تھی کہ میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کروں۔ اس کے لیے’قرۃ العین حیدر کی فکشن کا سماجیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے خاکہ بھی تیار ہو گیاتھا اور درخواست بھی یونیورسٹی کے دفتر تک پہنچ گئی تھی۔ مگر یہ کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ میرے لیے شعبے سے متعلق کوئی نہ کوئی کام وہ ضرور نکال لیتے تھے۔ کچھ نہیں تو نصاب کا مسودہ خوشخط لکھواتے۔ پروفیسر محمود الٰہی صاحب کے سبکدوش ہونے کے بعد جب جزوقتی لیکچرر کی ضرورت پڑی توانھوں نے مجھے اور ڈاکٹرفوزیہ بانو صاحبہ کو ترجیح دی۔حالانکہ اس وقت بہت پہنچے ہوئے فقیروں کی کمی نہیں تھی۔ وہ حضرات چیں بجبیں بھی ہوئے مگر انھوں نے اس کی پروا ہ نہیں کی۔ تقریباً سال بھر شعبے میں کام کیااس کے بعدایم پی پی ایس سی میں میرا سلیکشن ہو گیا۔ لاری صاحب مجھے اپنے شعبے میں دیکھنا چاہتے تھے مگر حالات سازگار نہیں ہوسکے۔حالانکہ دوران گفتگو آپ کہتے رہے کہ یہ توبنواس ہے جو مختصر سی مدت میں ختم ہوجائے گی۔ گورکھپور کے شعبۂ اردو سے جب بھی کوئی جگہ مشتہرہو تی تووہ درخواست کا فارم ضرور بھیجواتے۔ مگر کئی سالوں تک کوئی تقررعمل میں نہیں آسکا بہت دنوں کے بعد ریڈر کی جگہ نکلی تو آپ نے فارم بجھوایا۔ میں نے درخواست بھی بھیجی مگر کچھ ناگزیر وجوہ کی بنا پر انٹرویو میں شامل نہیں ہو سکا۔میری اس حرکت سے وہ بہت ناراض ہوئے مگر ڈاکٹرمحمد رضی الرحمن صاحب جیسے لائق وفائق اسکالر کا جب انتخاب عمل میں آیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ وہ ان کی فرض شناسی،علم نوازی اورسنجیدگی سے ازحد متاثر ہوئے اور ان سے شعبے کے روشن مستقبل کے متمنی ہو ئے جو حق بجانب تھا۔

ڈاکٹر صاحب کا سلوک اپنے شاگردوں سے مساویانہ ہوتا تھا۔وہ استاذ اور شاگرد کے مابین بہت زیادہ امتیازی خطوط نہیں کھینچتے اور سفر میں یہ رویہ دوستانہ ہو جاتا۔ مجھے بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملاہے۔ ایک بار پٹنہ کے سفر میں انھوںنے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ وہاں پہنچ کر سبزی باغ کے ایک ہوٹل میں مقیم ہوئے۔ ان دنوں بہار میں بتی گل ہونا عام بات تھی۔حفظ ما تقدم کے تحت مسافر اپنے پاس موم بتی ضرور رکھتے۔ معلوم نہیں بجلی کب چلی جائے اور کب آئے؟ اس وقت بھی یہی ہوا خیر موم بتی جلائی گئی اور بہت دیرتک بجلی نہیں آئی اس کی عمر طبعی ختم ہونے لگی اور وہ تھر تھرانے لگی۔اس وقت بے ساختہ یہ مصرعہ زبان پر آگیا        ؎

ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

 پہلا مصرعہ کافی کوشش کے بعد بھی ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ بات کرتے کرتے نیند آ گئی مگر بجلی نہیں آئی۔ صبح اٹھتے ہی لاری صاحب نے نا مکمل شعر کو اس طرح پورا کیا         ؎

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

 اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

ناشتے کے بعد ہم لوگ پروفیسر محمد حسنین صاحب کے ڈیرے پر گئے۔یونیورسٹی کا کوئی مخفی معاملہ تھا جس پر دونوں صاحبان نے تبادلہ خیال کیا۔ پٹنہ میں رہائش گاہ کو ’ڈیرہ‘ کہا جا تا ہے لیکن ایک یوپی والے کی نظر میں و ہ تو عالی شان محل تھا۔ اس سے بڑھ کر پروفیسر صاحب کی الماریاں جن میں کتابیں بڑے قرینے سے سجائی گئی تھیں جو قابل دید تھیںاور مہدی افادی نے تو کتابوں کو’عروس حریری‘ بھی کہا ہے جسے پروفیسر صاحب نے حرمت بخشا تھا۔ انشائیہ پر آپ کا معرکہ آرا کام ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے نفیس انشائیے بھی لکھے ہیں۔انشائیہ کے متعلق آپ کا یہ قول بہت مشہورہے ’انشائیہ نثر کی غزل ہے‘۔آپ کی زندگی انشائیوں کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔آپ کی طرز زندگی کے اثرات آپ کے شاگردوں پر بھی پڑے۔ ایک مثال پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب کی پیش کی جاسکتی ہے جو نمونہ انشائیہ ہیں۔

لاری صاحب تنقید وتحقیق کے مرد میداں تھے۔ان امور سے زندگی بھر آپ کی وابستگی رہی۔وہ اعلیٰ پایے کے مدون بھی تھے۔ شعبہ ٔاردو میں لکھنے پڑھنے کا خوشگوار ماحول تھا۔سبھی اساتذہ ریسرچ اسکالروں کی معاونت بغیر کسی قیل و قال کے کرتے تھے۔میں تو پروفسیر محمود الہیٰ صاحب کی نگرانی میں مقالہ لکھ رہا تھا مگر ضرورتاًلاری صاحب کے رہنمائی بھی حاصل ہو جاتی تھی۔وہ مضمون کی اصلاح بطیب خاطر کرتے تھے۔آپ کی تربیت کا طریقہ ٔ کار بڑا نرالا تھا۔میرے جیسے بہت سے اسکالر آپ سے مستفید ہوتے تھے۔ آپ کی نگرانی میں ایک درجن سے زائد مقالے لکھے گئے۔بغیر کسی تقدیم و تاخیر کے اسمائے گرامی ہیں۔ ڈاکٹر مقیم صدیقی، ڈاکٹر کفایت اللہ انصاری، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر ابصاراحمد، ڈاکٹر محمد شمیم، ڈاکٹرمحمد نعمان، ڈاکٹر محمد ایمن انصاری، ڈاکٹر عبدالواحد، ڈاکٹر انورحسین، ڈاکٹر محمد ارشد خان، ڈاکٹر مس زبیدہ خاں، ڈاکٹر اکبر علی، ڈاکٹر پرویز لا ر ی، ڈاکٹر ممتاز جہاں وغیرہ میری معلومات میںہیں۔مذکورہ ڈگری یافتگان میں محمد ایمن انصاری اور ارشد خان کے مقالات شائع ہوئے ہیں۔ ادب و صحافت کے میدان میں اس وقت ڈاکٹر اکبر علی محتاج تعارف نہیں۔ آپ لاری صاحب کے عزیر و معتمد شاگردہیں۔ وہ لاری صاحب کے اس قدر قریب تھے کہ لوگ انھیںگھر کا فرد سمجھتے تھے۔سفر ہو یا حضروہ ہر جگہ نظر آتے تھے فی الحال صحافت کے میدان میں اپنے قلم کا جوہر دکھا رہے ہیں اور بڑی ہردلعزیز شخصیت کے مالک ہیں۔اہل اردوکو ان سے بڑی توقعات ہیں۔

آزادی سے تقریبا ًپندرہ سال قبل آپ ضلع دیوریا کے قصبہ لار کے ایک ذی علم خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد عین الحق لاری پرانے سائنس کے گریجویٹ تھے اوروہ بی ایس سی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انھیں اردو زبان وادب سے گہری دلچسپی تھی جس کے باعث انھوں نے اپنی ذاتی لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ لاری صاحب نے اسکولی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی لائبریری کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔اس وقت اردو زبان کی پوزیشن بڑی مستحکم تھی۔ نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم اردو تھی۔ اس کے علاوہ فارسی زبان اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی۔ اس سے اردو کی بنیاد مضبوط ہوجاتی تھی۔ اردوکے ایسے خوشگوارماحول میںآپ نے ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور جب یو نیورسٹی کی ملازمت اختیار کی تووہ تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوئے۔مگر شاعری سے آخری دم تک رشتہ استوار رہا۔ وہ اپنے اصل نام پروفیسر عین الحق لاری سے زیادہ اپنے تخلص احمرلاری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا کوئی شعری مجموعہ تو شائع نہیں ہوا مگر اس وقت کے رسائل اور نشریات میں اپنی جگہ بنائے ہوئے تھے۔ گورکھپور ریڈیو اسٹیشن کے اردو پروگرام میں شاعر کی حیثیت سے مدعو کیے جاتے تھے۔ آپ کے سامعین کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ میں نے خود ہی لاری صاحب کے کلام کو ریڈیو پر سنا ہے۔ وہ شعر بڑے ہی لحن و دلنشیں انداز میں پڑھتے تھے۔ الفاظ کے زیروبم و صوت کی ہم آہنگی سے ایسی فضاقائم ہوجاتی کہ سامعین ان کے اشعار کوکان دھر کرسنتے ہی جاتے تھے۔ اگر وہ مشاعرے میں شرکت کرتے تو انھیں بڑی کامیابی ملتی۔’مشتے نمونہ ازخروارے‘ کے طور پر چند اشعار دیکھیے      ؎

 اپنے ہی ہاتھوں خود اپنا گھر جلا لیتے ہیں ہم

 یوں ہی اکثر جشن آزادی منا لیتے ہیں ہم

کہیں پر قتل آدم کا،کہیں پر ہے آدمیت

یہ کیسے راہبر ہیں، دارو وحشت جن کی منز ل ہے

 اجڑے ہوئے نگر کا سارا منظر ہے ہر طرف

کتنا اداس شہر تمنا دکھائی دے

 لاری صاحب کی ادبی اور ذاتی زندگی روشن خیالی سے منورہے۔ وہ ترقی پسندی کے حامی اور رجعت پسندی کے مخالف تھے۔وہ زندگی بھر اردو ادب کی تنظیموں اور تحریکوں کے شریک و سہیم تھے۔دم واپسیں تک آپ کا رشتہ شعبے سے استواررہا۔ مارچ 2009میں شعبۂ اردو نے ایک شاندار سمینارکا انعقاد کیا تھا۔جس میں آپ بہ نفس نفیس شریک ہوئے۔ باوجود اضمحلال کے آخری وقت تک وہ تشریف فرما تھے۔ آپ کی نقاہت کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے کہا کہ سر آپ آرام کیجیے تو سر نے جواب دیا یہ میرا فریضہ ہے جسے میں انجام دے رہا ہوں۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ کافی نحیف ہوگئے تھے۔ آخر میں اردو کے اس شیدائی کا چراغ حیات فروری2011 کوگل ہو گیا جس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اردو زبان و ادب کی یادگار خدمت کی۔

باب تحقیق میں آپ کی اہم کاوش ’حسرت موہانی حیات اور کارنامہ‘ہے۔ اسی مقالے پر گورکھپور یونیورسٹی نے انھیں 1965 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی جو 1973 میں اردو اکادمی اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ اس کا انتساب انھوں نے اپنے مشفق استاد پروفیسر محمودالٰہی صاحب کے نام اس شعر سے کیا ہے        ؎

 نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز

 یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

  یہ آٹھ ابواب میں منقسم تقریبا چار سو پچاس صفحات پر مشتمل ضخیم مقالہ ہے جو آپ کی محنت شاقہ کی برومندی ہے۔ اس مستند کتاب میں حسرت کی حیات اور ادبی شخصیت کے ساتھ ساتھ سیاست اور صحافت کا بھر پورمنظر نامہ ہے۔بجا طور پر عہدحسرت کو ہندوستان کی تاریخ کا انقلابی دور قرار دیا ہے۔ حسرت کے کردار کی رومانیت شدت کے احساس اوروفورجذبات کی صدائے بازگشت انھیں سیاست، صحافت اور اردو ادب کے میدان میں صاف سنائی دیتی ہے۔اکثر تذکرے کے باب میں حسرت کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے مگرمقالہ نگارنے حسرت کی تذکرہ نگاری کولائق اعتنا سمجھا ہے اور اس کے ادبی مقام کا تعین بڑے متوازن انداز میں اس طرح کیا ہے   :

 اردو تذکروں کے آسمان پراسے مہ کامل کا درجہ بھلے ہی نہ حاصل ہو لیکن اسے روشن سیارے کادرجہ ضرور حا صل ہو گا۔ (ص نمبر332)

تنقید کے باب میں آپ نے صداقت اور استدلال کو اپنا رہنما اصول بنا کر بڑی نکتہ آفرینی  سے کام لیا ہے جو انتہائی عرفان و ادراک سے مزین ہے۔وہ اردو ادب کو پرکھنے کے لیے مشرقی اصول تنقید کو کار آمد سمجھتے ہیں۔وہ مغربی تنقید کی اندھی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔اردو تنقید کے سلسلے میں ان کی یہ متوازن رائے قابل قبول ہے:

’’مشرقی اصول تنقید کا سہارا لیے بغیر اردوشاعری کی صحیح تنقیدممکن نہیں۔ جدید دور کے جن نقادوں نے اس نکتے کو فراموش کردیا اور مغربی اصول تنقید کی کسوٹی پر اردو شاعری کو کسنا  چاہا  انھیں بہرحال ناکامی ہوئی۔ اس سلسلے میں کلیم الدین احمد کی مثال سامنے ہے۔ان کی تصنیف ’اردو شاعری پر ایک نظر‘اردو شاعری کی تنقیص ہو کر رہ گئی ہے۔ اردو کے نقاد کے لیے ضروری  ہے کہ وہ مشرقی اصول تنقید اورمغربی اصول تنقیددونوں پر ہی قدرت رکھتا ہو۔‘‘

( ص نمبر183 (

لاری صاحب کی تنقید پرایک کتاب ’اردو تنقید کا ارتقا 1835تا1936ـ‘منظر عام پر نہیں آسکی۔ اگر یہ کتاب شائع ہو جاتی تو ان کے تنقیدی اصول و نظریات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ آپ نے حسرت موہانی پر بھرپور مقالہ لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے حسرت کی نثرکوان کی شاعری پرفوقیت دی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔

’’ان کے شعر پڑھتے ہی دل میں اتر سکیںیا نہ اتر سکیں، لیکن ان کی نثر دل میں گھرضرور بنا لیتی ہے۔ المختصر حسرت ایک بلند پایہ نثرنگار تھے اور ان کے نثری  کارنامے ہماری ادبی تاریخ کادرخشاں باب ہے۔‘‘ (ص 480)

آپ کے نثری کارناموں میں تحقیق، تنقید، تدوین، مقدمے اور د یباچہ وغیرہ کی کاوشات شامل ہیں۔ جن میں ان کی نثر نگاری کے جوہر کھلتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ سلیس اور شگفتہ  جیسے اوصاف سے متصف ہے اور اظہار مافی الضمیر میں بلا کی روانی ہے۔ بطور نمونہ ایک پارۂ نثر ملاحظہ کیجیے:

’’نشورکی غزلوںمیںروایت کا تحفظ بھی ہے اور اس کی توسیع بھی۔ ان کی ابتدائی غزلوں میںاگر عارفانہ رنگ ہے تو،بعد کی غزلیں تغزل کی رنگینیوں، حسن و جمال کی کیفیات اور زندگی کی سنگلاخ حقیقتوں کی آئینہ دار ہے۔ ان کے اسلوب میں سادگی کے ساتھ پر کاری ہے، تشبیہوں اور استعاروں میں جدت و ندرت ہے اورآہنگ میں نغمگی ہے جو دلوں میں اتر جاتی ہے۔

( مقدمہ نشور واحدی شخصیت اور فن،ص نمبر12)

آپ متعدد کتب کے مصنف و مؤلف اور مدون ہیں۔ ان میں سے کئی کتابیں مقبول عام ہیںجن پر اترپردیش اکادمی نے انعامات سے سرفرازکیاہے۔آل انڈیا  میر اکادمی لکھنؤ نے امتیاز میر ایوارڈاور یوپی اردو اکادمی نے2002میں مجموعی ادبی خدمات پر ایوارڈ سے نوازا ہے۔آپ کی کئی کار آمدکتابیں شائع نہیں ہوسکی ہیں۔ آپ کے متعلقین اور لواحقین کا یہ فریضہ ہے کہ ان نادر نگارشات کو منظر عام پر لائیں۔

پروفیسر احمرلاری صاحب محض اردوکے ایک پروفیسر ہی نہیں تھے بلکہ تخلیقات، تحریکات اور دیگر کاوشات میں سرگرم عمل تھے۔ آزادی کے بعد اردو کے اس دور بخت خفتہ میں انھوں نے تدریس، تحریر، ترسیل، ترغیب جیسے اہم امور پرجس نہج پر خدمات انجام دی ہیں اوراس سمت میں انھوں نے جو مخلصانہ اور رضاکارانہ اقدام کیے ہیں وہ مستحسن ہے۔ ان کی وقیع ادبی خدمات اردو ادب کی تاریخ میں لائق تحفظ ہے۔ اردو زبان و ادب کی بقا و تحفظ میں جن یگانۂ روزگارمحبان اردو نے جگرکاوی کی ہے ان  میں آپ جیسی قابل فخر شخصیت پر یہ شعر صادق آتا ہے     ؎

یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکسترمیں تھی

 

Dr. Ghulam Husain

Head Dept. of Urdu

Govt Madhav College

Ujjain - 456006 (MP)

Mob.: 9893853183

Email.: hussainghulam36@gmail.com

 ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2021

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں