23/3/21

فکروتحقیق کا ’خاکہ نمبر‘ - یوسف رامپوری

 



اردو کی نثری اصناف میں ایک اہم صنف’خاکہ نگاری‘ ہے۔اردومیں گذشتہ کئی صدیوں سے اس صنف میںطبع آزمائی کی جارہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ صنف ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اسی لیے آج بھی اردومیں خاکے لکھے اور پڑھے جارہے ہیںمگر اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردومیں خاکہ پربہت زیادہ تحقیقی اور تنقیدی کام نہیں ہوا ہے،کچھ کتابیں ، مضامین ومقالات، ضمیمے اور نمبرات ضرور شائع ہوئے ہیں لیکن وہ کافی محسوس نہیں ہوتے ۔’ خاکہ‘ کی صنف اپنی تازگی وشگفتگی کی وجہ سے اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے، خاکہ کے حوالے سے اردو کے نثری ادب کو کھنگالا جائے ،اچھے خاکوںکی بازیافت کی جائے اور قلمکاروںکو زیادہ سے زیادہ خاکہ لکھنے کی طرف متوجہ کیاجائے۔اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے اس جانب توجہ مبذول کی اور اپنے سہ ماہی رسالہ ’فکروتحقیق ‘ کا ’خاکہ نمبر‘ شائع کیااور اس میں ایسے تنقیدی ا ور تحقیقی مضامین شامل اشاعت کیے جو مختلف پہلوؤں سے خاکہ کی صنف کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔دراصل یہ نمبر ایک مقصد کے تحت شائع کیا گیاجس کی طرف مدیر فکروتحقیق نے یوں اشارہ کیاہے:

’’ فکرو تحقیق کے خاکہ نمبر کا خیال بھی اس وجہ سے آیا کہ اردو میں خاکے سے متعلق زیادہ مواد نہیں ہے۔اردو کے تحقیقی یا ادبی رسالوں نے بھی اس صنف پر زیادہ توجہ نہیں کی ہے جبکہ یہ ایک ایسی صنف ہے جس کے ذریعے عام قاری کو اردو سے جوڑا جاسکتاہے اور ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ادق اور ثقیل مضامین سے قارئین کا ذہن بھی بوجھل ہوتا جارہاہے جب کہ خاکہ سے قارئین کے ذہنوں میں تازگی اور شگفتگی کی ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

یہ ’خاکہ نمبر‘فکروتحقیق ( جنوری تاجون2017،جلد 20شمارہ نمبر1-2)کاخصوصی شمارہ ہے۔اس کے مدیر پروفیسر سید علی کریم(ارتضیٰ کریم )، نائب مدیر ڈاکٹر عبدالحی ، معاونین ڈاکٹرعبدالرشید اعظمی اورڈاکٹر شاہد اختر انصاری ہیں۔خاکہ نمبر کی فہرست کو پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا۔(1) فن اور روایت (2) علاقائی تناظر (3) شخصی زاویے(4) قطب نما (5) خاکہ نمبر کے پہلے حصے ’فن اورروایت‘ میں ان مضامین کو شامل کیا گیا ہے جو خاکہ کے فن اور روایت سے بحث کرتے ہیں۔دوسرے حصے ’ علاقائی تناظر ‘ میں ان مضامین کو رکھا گیا ہے جن میں کسی مخصوص ریاست کی خاکہ نگاری پر گفتگو کی گئی ہے۔تیسرے حصے یعنی ’شخصی زاویے‘  کے ضمن میں بعض شخصیتوں کی خاکہ نگاری پرلکھے گئے مضامین شامل اشاعت ہیں۔ ’قطب نما‘ کے تحت اشاریے پیش کیے گئے ہیں جو اردوخاکہ نگاری کے حوالے پر مشتمل ہیں۔ پانچویں حصے ’خاکے‘ کو دوحصوںمیں تقسیم کیا گیاہے: ’رفتگاں ‘اور ’قائماں‘۔ رفتگاں میں ان شخصیات پرخاکے ہیں جو گزرچکے ہیں اور ’قائماں‘ میں باحیات شخصیات پرلکھے گئے خاکے شامل کیے گئے ہیں۔

فن اور روایت‘کے ذیل میں پہلا مضمون مناظر عاشق ہر گانوی کا ہے جس کا عنوان ہے ’خاکہ نگاری کا فن اور اردو کے خاکہ نگار‘۔اس مضمون میں انھوں نے خاکہ کے فن سے بھی بحث کی ہے ، خاکہ کی تاریخ کا بھی سرسری جائزہ لیا ہے اور اردوکے خاکہ نگاروں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔مضمون مختصر مگر جامع ہے۔چند صفحات میں موضوع کے متذکرہ بالا گوشوں کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ آفتاب احمد آفاقی کا مضمون ’بیسویں صدی کے نصف اول میں خاکہ نگاری ‘ہے۔ عنوان سے ظاہر ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل کی خاکہ نگاری پر نظر ڈالی گئی ہے، لیکن اس مضمون میں خاکہ نگاری کی ابتدا سے بھی بحث کی گئی ہے یعنی اردومیں خاکہ نگاری کا آغاز کب ہوا۔ ہرچند کہ دوسرے محققین کی طرح آفتاب احمد آفاقی بھی اس بات کے معترف ہیں کہ محمد حسین آزاد کی آب حیات سے باضابطہ خاکہ نگاری کا آغاز ہوتا ہے لیکن انھوں نے محمد حسین آزاد سے پہلے اولین نقوش کی جستجو کی بھی کوشش کی ہے۔گویاکہ اردو میں خاکہ نگاری کے آغازکے حوالے سے بھی یہ مضمون اہمیت کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں خاکہ نگاری پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ معروف ادبا اور نثر نگار اس طرف مائل ہوئے اور عمدہ خاکے لکھے۔اس لیے اردو خاکہ نگاری کا بھرپور جائزہ لینے کے لیے یہ مضمون گراں قدر ہے۔ محمدالیاس کا مضمون’ خاکے کا فن اور اس کی روایت‘  خاکہ نگاری کی روایت اور فن سے بحث کرتا ہے ۔ اس مضمون کو مختلف ذیلی عنوانات کے تحت لکھا گیا ہے جن سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مضمون میں کون سے پہلو زیر بحث آئے ہیں اور کن خاکہ نگاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ذیلی عنوانات اس طرح ہیں: خاکے کا موضوع، خاکے کا مواد ، اختصار، ایک طویل اور دوسرا مختصر،وحدت تأثر، کردار نگاری،واقعہ نگاری، منظرکشی، فرحت اللہ بیگ، عبدالحق،محمدشفیع دہلوی، بشیر احمد ہاشمی، خواجہ غلام السیدین، عبدالرزاق کانپوری، عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی،عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، اشرف صبوحی، دیوان سنگھ مفتون،شوکت تھانوی، مالک رام، اعجاز حسین،چراغ حسن حسرت اور تمکین کاظمی،غلام احمد فرقت کاکوروی، رئیس احمد جعفری، محمد طفیل، عبدالمجید سالک،ضیا برنی، شاہد احمد دہلوی، علی جواد زیدی، عبدالاحد خاں تخلص بھوپالی، معین الدین دردائی، الطاف حسین قریشی،نریش کمار شاد ۔

 یاسمین رشیدی کا مضمون ’اردو کے منتخب خاکوں کا پس نوآبادیاتی مطالعہ ‘پس نوآبادیاتی تناظرمیں لکھا گیا مضمون ہے۔ اس میں خاکہ کے پس نوآبادیاتی مطالعے پر ارتکاز کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مضمون منفرد نوعیت کا ہے۔مضمون میں موضوع کا ا حاطہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔اردوخاکہ نگاری میں محمد حسین آزاد کی کتاب ’ آب حیات‘ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بہت سے محققین ’ آب حیات ‘ کو اردو خاکے کا نقشِ اول خیال کرتے ہیں ۔اس حوالے سے محمد مقیم خان کا مضمون’ اردوخاکہ کا نقش اول: آب حیات‘شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے اس پر تحقیقی اور تنقیدی گفتگو کی ہے۔ ’ آب حیات‘ اردوخاکہ نگاری میں نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں ،اس تناظر میں محمد مقیم نے اچھی بحث کی ہے۔

 علاقائی تناظر میں دو مضامین اس خاکہ نمبرمیں شامل کیے گئے ہیں۔ایک مضمون بدر محمدی کا ’بہار میں اردو خاکہ نگاری کا ارتقائی سفر‘ ہے۔اس مضمون کے مطالعے سے بہار میں خاکہ نگاری کی صورت حال سامنے آتی ہے اور ان خاکہ نگاروں کابھی پتہ چلتاہے جن کا تعلق بہار سے ہے۔ علاقائی تناظر میں لکھا گیا دوسرا مضمون محمد علی حسین شائق کا ہے جو ’ مغربی بنگال میں اردو خاکہ نگاری‘ کے عنوان سے معنون ہے۔اس مضمون میں انھوں نے پہلے مختصراًخاکہ کے فن سے بحث کی ہے، اس کے بعد خاکہ کی روایت سے اور پھر مغربی بنگال میں اردو خاکہ نگاری کا جائزہ لیا ہے۔علاقائی حوالے سے یہ دونوں مضامین اہم ہیں لیکن اگر دوسرے صوبوں کی خاکہ نگاری پر بھی مضامین شامل اشاعت ہوجاتے تو اور بہتر ہوتا۔

اردومیں جن ادیبوں نے خاکے لکھے ، ان کی خاصی بڑی تعدادہے،لیکن جن کے خاکے زیادہ مشہور ہوئے ، ان کی بھی فہرست اچھی خاصی طویل ہوجاتی ہے۔ پیش نظر ’خاکہ نمبر ‘میں معروف اور ا ہم خاکہ نگاروں پرتحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔اس زمرے میں پہلا مضمون محمد اطہرمسعود خاںکا ’شوکت تھانوی: سوانح اور خاکہ نگاری ‘ ہے۔ مضمون میں اگرچہ شوکت تھانوی کی خاکہ نگاری سے بحث کی گئی ہے، تاہم ان کی شخصیت کے دوسرے پہلوئوں کو بھی زیر تذکرہ لایا گیا ہے۔خدمات کے ساتھ ان کی حیات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔مضمون نگار نے شوکت تھانوی کے بارے میں لکھا ہے: اردوافسانہ،ناول،طنز ومزاح، انشائیہ، خاکہ، مضمون، ڈراما، رپورتاژ، ترجمہ، پیروڈی،تمثیل ، صحافت اور شاعری کے ایک خوبصورت مجموعے کانام ہے شوکت تھانوی۔ شاہد ساز کا مضمون  ’کرشن چندرکا خاکہ : سعادت حسن منٹو‘ اچھا مضمون ہے ۔یہ خاکہ سعادت حسن منٹو کی شخصیت کو سامنے لاتا ہے۔خاکہ کی زبان بڑی پرکشش ہے۔مضمون نگار نے کرشن چندر کے رقم کردہ اس خاکے کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا ہے۔ ’ماہرالقادری کی خاکہ نگاری‘ محمد نوشاد عالم کا عمدہ مضمون ہے۔ ماہرالقادری ایک اچھے ادیب، شاعر،صحافی ، خاکہ نگاراور مصنف تھے۔انھوںنے جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی ، اس میں کامیاب ہوئے۔مضمون میں ماہر القادری کے مختصرحالات زندگی بیان کیے گئے ہیں اور مختلف شعبوں میں ان کی خدمات کو بھی سامنے لایا گیاہے، پھر قدرے تفصیل کے ساتھ ان کی خاکہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ محمد شاہد پٹھان کا مضمون ’خواجہ احمد فاروقی بحیثیت خاکہ نگار‘ اہم اور تفصیلی مضمون ہے۔اس مضمون میں فاضل مضمون نگار نے مضمون کے عنوان پر اپنی نگاہ کومرکوز رکھاہے تاکہ ان کی خاکہ نگاری پر سیرحاصل گفتگو ہوجائے۔ اس کوشش میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مضمون کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ خواجہ احمد فاروقی بہت سی اہم شخصیات پر خاکے لکھ کر ا ن کے کارہائے نمایاں کوسامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔عابد سہیل کی خاکہ نگاری پر ریحان حسن کا مضمون ’خاکہ نمبر‘ میں شامل اشاعت کیا گیا ہے۔اس مضمون میں عابد سہیل کی دو کتابوں’کھلی کتاب‘ اور ’پورے آدھے،ادھورے‘ کے حوالے سے خاصی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔دراصل یہ دونوں کتابیں صنف خاکہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوںنے عابد سہیل کے خاکوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے اور اسلوب سے بھی بحث کی ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ ’’عابد سہیل کے خاکوں کا افسانوی اسلوب قاری کو اپنی جانب مبذول کرنے پر مجبورکردیتا ہے۔‘‘سفینہ بیگم نے اپنے مضمون ’اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری‘ میں خاکہ کی تعریف اورپس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اشرف صبوحی کے خاکوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔صبیحہ نسرین کا مضمون ’عصمت چغتائی کی خاکہ نگاری‘ کے حوالے سے ہے ۔ عصمت چغتائی اگرچہ ایک معروف افسانہ نگار اور ناول نگارتھیں، مگر انھیں خاکہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی۔ان کے خاکوں کی کچھ خصوصیات بہت اہم ہیں۔پیش نظر مضمون میں ان کے خاکوں کے کئی پہلوؤں کو سا منے لایا گیا ہے۔انصار احمد درویش نے کلیم عاجز کی خاکہ نگاری پر مضمون لکھا ہے۔اس مضمون کے ذریعے کلیم عاجز کی شخصیت کا یہ پہلو بھی سامنے آتاہے کہ وہ عمدہ خاکہ نگار تھے ، ورنہ زیادہ تر لوگ تو انھیں ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔

اردو کے جو خاکے زیادہ مشہور ہوئے اور جنھیں شاہکار خاکے کہا گیا ، ان میں ایک خاکہ ’نذیر احمد کی کہانی‘ہے۔اس خاکے کے حوالے سے نکہت پروین کا مضمون ’ اردوکا شاہکار خاکہ’نذیر احمد کی کہانی‘ ایک تنقیدی وتحقیقی مطالعہ‘ عمدہ مضمون ہے۔ مضمون نگار نے اس خاکے کا کئی پہلوؤں سے تفصیل کے ساتھ تنقیدی جائزہ لیا ہے۔جس کے بعد اس خاکہ کے محاسن واوصاف واضح طورسے سامنے آگئے ہیں۔تبسم منہاج کا مضمون ’ خاکہ نگار۔۔۔سید آل عبا آوارہ بحیثیت منفرد خاکہ نگار‘ سید آل عبا کی خاکہ نگاری کا احاطہ کرتا ہے ۔ان کی کتاب ’اپنی موج میں‘ 26خاکے ہیں ۔فاضل مضمون نگار نے ان خاکوں کی روشنی میں سید آل عباآوارہ کی خاکہ نگاری سے بحث کی ہے۔انھوںنے لکھا ہے کہ سید آل عبا مختلف طبقوں، اہل فنون اور پیشہ وروں پرخاکے لکھ کر قدیم دورکی تہذیب وروایات اور ماحول ومناظرکو سامنے لائے ہیں۔علاوہ ازیں دیگر خصوصیات کو بھی مضمون میں اجاگر کیا گیا ہے۔اختر آزاد کا مضمون جدید خاکہ نگاری کا عمدہ نمونہ ’ بند آنکھوں کا تماشا ‘ شامل اشاعت ہے۔اخترآزادنے’بند آنکھوں کا تماشا‘ میں شامل خاکوں پر تنقیدی گفتگو کی ہے اور ان خاکوں کی انفرادیت کو بھی واضح کیا ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ’’ان خاکوں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے عنوانات شعر کے مصرعے بنے ہیں۔‘‘ مضمون میں سید احمد شمیم کے خاکوں کے اسلوب کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔مجتبیٰ حسین کا نام مزاحیہ نگاری کے لیے مشہور ہے۔ ان کی تحریروںمیں مزاح کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مزاح نگاری ان کی دلچسپی کا باعث بھی ہے اور ان کا فطری میلان بھی اسی طرف ہے۔اس لیے ان کی تحریروں میں مزاح کا عنصر اکثر وبیشترنمایاں نظرآتاہے۔ انھوں نے جو خاکے لکھے ہیں وہ بھی مزاحیہ پہلو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ ارشاد آفاقی نے اس حوالے سے اپنا مضمون ’مجتبیٰ حسین کی مزاحیہ خاکہ نگاری‘ لکھا ہے۔ اس مضمون میں انھوںنے مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا مزاحیہ نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہے۔مضمون کافی تحقیقی اور تفصیلی ہے اور موضوع کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔ نوشاد منظر کا مضمون ’اسلم پرویز کے خاکوں کا مجموعہ ’گھنے سائے ‘ اسلم پرویزکی کتاب پر ایک تبصراتی مضمون ہے۔فاضل مضمون نگار نے اس کتاب میں شامل خاکوں اور شخصی تحریروں پر مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے اور اسلم پرویز کی نثر کے اسلوب اور ساخت کوبھی موضوعِ بحث بنایاہے۔

پیش نظر’ خاکہ نمبر‘میں خاکہ کے حوالے سے تین اشاریے بھی شامل اشاعت کیے گئے ہیں: اردو ادب میں خاکے(سید مسعود حسن )، ’اردوخاکوں کے مجموعے: ایک ناتمام اشاریہ‘ (انیس صدیقی) اور ’ہندوستانی جامعات میں فن خاکہ نگاری پر تحقیقی مقالات‘ (شاہانہ مریم شان)۔ ان اشاریوں کی وجہ سے اس خاکہ نمبر کی افادیت ومعنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ان اشاریوں کی مدد سے اردوکے بہت سے خاکوںتک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔

مضامین اور اشاریوں کے علاوہ سہ ماہی فکروتحقیق کے اس ’خاکہ نمبر‘میں کچھ خاکے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ان میں سے بعض خاکے ان شخصیات پر ہیں جو گزرچکی ہیں اور بعض خاکے زندہ شخصیات پر ہیں۔ لیکن جن شخصیات پرلکھے گئے خاکوںکو اس نمبر میں جگہ دی گئی ہے، وہ سبھی اپنے اپنے میدانوں میں اہم شخصیات ہیں۔جو خاکے شائع کیے گئے ہیں ان کی فہرست اس طرح ہے:عمیق حنفی۔آدمی درآدمی (مجتبیٰ حسین)، اندازِ بیاں اور’قاضی عبدالودود‘(کلیم الرحمن)قمر رئیس(عتیق اللہ)،پیداکہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ،’ساجدہ زیدی‘(غضنفر) ، ذکرخیر مجتبیٰ حسین(انجم عثمانی)عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں ، قاضی عبدالستار(مظفر حسین)

مجموعی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے زیر اہتمام شائع ہونے والے سہ ماہی فکروتحقیق کا یہ نمبر (خاکہ نمبر)بہت معیاری ہے اور بڑی حد تک خاکہ نگاری پر تحقیقی وتنقیدی کام کی ضرور ت کو پورا کرتا ہے۔یہ نمبر کافی ضخیم ہے یعنی422صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خاکہ کے حوالے سے بہت سی معلومات بہم پہنچاتاہے اور اردو خاکہ نگاری پر تفصیلی مواد پیش کرتا ہے۔ یہ نمبر خاکہ پر تحقیقی وتنقیدی کام کرنے والوں کے لیے تو اہم ہے ہی مگر اردو طلبا اوراردو سے وابستہ دیگر افراد کے لیے بھی مفید ہے ۔ اس کی اشاعت کے لیے قومی اردوکونسل اور ادارے کا عملہ مبارکباد کا مستحق ہے۔ 

 

Dr. Yusuf Rampuri

Mohalla Tandola Tanda, Distt Rampur  (UP)

Mob: 9310068594

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں