14/1/21

سیمیں دانشور ’سووشون‘ کے آئینے میں - مضمون نگار: مہدیہ نژاد شیخ


 

دنیائے فکشن کے عروج و ترقی  میں مرد و خواتین دونوں کا اہم رول رہا ہے، خواہ مغربی ادب ہو یا ایشیائی ادب۔ ادب کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مرد و عورت کے باہمی تعاون و اشتراک سے ہی فکشن نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ جبکہ ادبی کلامیہ(لٹریری ڈسکورس) میں بہت دنوں تک عورتوں کے بارے میں یا عورتوں کے ذریعے لکھی گئی تحریروں کو ثانوی حیثیت دی گئی،اسے یا تونظرانداز کیا گیا یا پھر اسے قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا۔مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب خواتین فکشن نگاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منواتے ہوئے دنیائے ادب میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ انھوں نے عورتوں کے مسائل ومشکلات،ان کی نفسیاتی اورجنسی پیچیدگیاں اور سماجی و سیاسی حیثیتوں کا جائزہ  لیتے ہوئے انھیں فکشن کے بنیادی کردار کی حیثیت عطا کی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے مرد فکشن نگار عورتوں کے مسائل کو اپنی تحریروں کا موضوع  نہیں بناتے تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عورتوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور ان  کے دیگر مسائل کو اس حد تک بیان نہیں کرسکتے تھے جس حد تک ایک خاتون فکشن نگار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ خواتین فکشن نگاروں نے صرف عورتوں کی زندگی اور ان کے مسائل تک ہی اپنے موضوع و مواد کو محدود نہیں رکھا بلکہ دنیا اور دنیا کے دیگر مسائل کو بھی اپنے فکشن کا موضوع بنا دیا۔

فارسی فکشن کی ترقی اور فروغ  میں بھی  جتنا مرد فنکاروں کا حصہ ہے اتنا ہی خواتین کا بھی ہے۔ سیمیں دانشور(متوفی2012) جدید فارسی ادب کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے فارسی فکشن نگاری کی جانب توجہ کی۔ اس طرح جہاں انھوں نے براہ راست فارسی فکشن کو عورت کے مسائل و مشکلات سے آشنا کیا وہیں انھوں نے خاتون فکشن نگاروں کے لیے فارسی ادبیات کا در وا کیا اور ِاسی کے ساتھ انھوں نے ادب کو جانچنے اور پرکھنے کا ایک نیا معیار بھی عطاکیا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی ادبیات کی تاریخ میں سیمیں دانشور نمایاں مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے جہاں ایک طرف چند اہم ناول لکھے ہیں تو دوسری طرف ان کے افسانے قارئین کے درمیان کافی مقبول ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے مغربی ادب کے کئی شہ پاروں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ سیمین دانشور کے حالات زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے۔

سیمیں دانشور 28/ اپریل1912 میں شیراز میں پیدا ہوئیں- شیراز ابتدا سے ہی فارسی شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ان کی پرورش و پرداخت نہایت ہی علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی۔ان کے والد، محمدعلی دانشور (متوفی 1941) جن کا لقب احیاء السلطنہ تھا شیراز کے ایک مشہور و معروف طبیب تھے۔ ان کی والدہ، قمر السلطنہ حکمت،کو آرٹ سے حد درجہ دلچسپی تھی اور دنیائے مصوری میں  ان کو بلند مقام حاصل تھا۔ سیمیں دانشور کی تعلیم (1927-1937) شیراز کے ایک اسکول، مہر آئین  میں ہوئی جہاں فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اور بچوں کو زیادہ تر انگریزی زبان میں  ہی پڑھایا جاتا تھا جبکہ ایران میں انگریزی زبان کو اس وقت زیادہ اہمیت  نہیں دی جاتی تھی۔ لہٰذا انگریزی زبان و ادب سے  وہ اپنے بچپن میں ہی متعارف ہوگئی تھیں۔ 1938 میں  ان کے والد نے اعلی تعلیم کے لیے انھیں تہران یونیورسٹی بھیجا  جہاں انھوں نے فارسی زبان و ادب کو بطور مضمون ایم اے کے لیے انتخاب کیا۔ اس دور میں والدین کے لیے لڑکیوں کو گھر سے دور رکھ کر تعلیم دینا  ایک نہایت ہی مشکل اور انقلابی قدم مانا جاتا تھا جو اس وقت تک ایرانی سماج میں رائج نہیں تھا۔سیمیں دانشور اس معاملے میں بے حد خوش نصیب تھیں کہ ان کے والدین اعلی تعلیم یافتہ،  مہذب اور علم دوست تھے۔اس لیے انھوں نے بغیر کسی صنفی تفریق کے اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے روشناس کرایا۔

1941 کے بعد انھوں نے عملی طور پر صحافت اور ادب کے میدان میں قدم رکھا چنانچہ انھوں نے 1942 میں  ریڈیو ’تہران‘ اور 1943 میں ’ایران‘ اخبار کے لیے مضامین لکھنا  شروع کیا۔ 1950 میں  وہ فارسی کے مشہور افسانہ نگار  جلال آل احمد (متوفی1969) سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ 1952 میں انھیں امریکہ کی جانب سے فل برائٹ(Fulbright)  اسکالرشپ ملی اور وہ امریکہ چلی گئیں۔ جہاں انھوں نے دو سال رہ کر جمالیات (Aesthetics) کی تعلیم حاصل کی۔ وہیں انھوں نے کلیفورنیا کے  اسٹنفورڈ  یونیورسٹی (Stanford University)   میں ایک سال کے لیے افسانہ نویسی کی تربیت  بھی حاصل کی۔ 1952 میں وہ  ایران واپس آئیں جس کے بعد انھوں نے فارسی ادبی رسالہ ’نقش و نگار‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی، جس کے 7 شمارے  شائع ہوئے۔ 1959میں وہ بحیثیت لکچرر تہران یونیورسٹی سے منسلک ہوئیں۔ 8 مارچ 2012 کو وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں اور تہران میں ہی انھیں سپرد خاک کیا گیا۔

سیمیں دانشور کو فارسی ادب میں سب سے پہلی خاتون  افسانہ نگار ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ 1948 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’آتشِ خاموش‘ (خاموش آگ) شائع ہوا جو کسی ایرانی خاتون کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔ 1961 میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’شہری چوں بہشت‘ (ایک شہر بہشت جیسا)، 1980میں تیسرا مجموعہ ’بہ کی سلام کنم‘(کسے سلام کروں) اور 1997 میں ان کا آخری افسانوی مجموعہ ’از پرندہ ہای مہاجر بپرس‘ (مہاجر پرندوں سے پوچھو) شائع ہوا۔ 1969 میں سیمیں دانشور کا شہرہ آفاق ناول ’سَووشون‘ شائع ہوا۔ ان کے دیگر ناول ’جزیر سرگردانی‘ 1993میں اور’ساربان سرگردان‘ 2001 میں شائع  ہوئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے  کئی اہم مغربی ادب پاروں  کا  فارسی  زبان میں ترجمہ کیا  جیسے  انتون  چخوف  کی متعدد  کہانیوں  کا  ترجمہ کر کے ’دشمنان‘  نامی مجموعے (تہران 1953) کی صورت  میں  پیش  کیا۔  اسی  طرح  انتون  چخوف  کا  ہی  ڈرامہ 'The Cherry Orchard' کا فارسی ترجمہ ’باغ  آلبالو‘ (تہران  1968) کے نام سے شائع  کیا۔  علاوہ  ازیں، الن پیتون (Alan Paton) کے ناول 'Cry, the Beloved Country' کا ترجمہ ’بنال وطن‘(تہران1972) کے نام سے کیا۔ (مزید تفصیل کے لیے رجوع کریں: عبدالٰہی، ص 203-06)

جب ہم سیمیں دانشور کے فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ایرانی معاشرہ جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں عورتوں کی صورت حال کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ وہ اپنے ملک کی صورت حال اور وہاں کی عورتوں کے دکھ درد اور مسائل سے بخوبی واقف تھیں۔ اسی لیے انھوں نے ان عورتوں کے احساسات و جذبات کی عکاسی اور ان کے معاشی و معاشرتی مسائل کو اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ ان کی تخلیقات میں اس عہد کے لوگوں کی تہذیب و روایات اور رسم و رواج کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ یہاں ہم سیمیں دانشور کے مشہور زمانہ ناول ’سو و شون‘ کے حوالے سے ان کے فکر و فن کا جائزہ لیں گے۔

موضوع و اسلوب کے لحاظ سے سیمیں دانشور کی تخلیقات میں  ’سو و شون‘ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ’سووشون‘ کا شمار فارسی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ لفظ ’سووشون‘ ایک شیرازی اصطلاح ہے جس کامعنی ’سوگ سیاوش‘ ہے۔ سیاوش شاہنامہ فردوسی کا وہ اساطیری کردار ہے جسے افراسیاب کے حکم سے ناحق مارا گیا۔ اسی کی یاد میں شیراز میں جو سوگ منایا جاتا ہے اسے ’سوگ سیاوش‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سیمیں دانشورنے  اپنے ناول میں سو و شون  کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے:

’’زری از یوسف می پرسد: تو میدانی سو و شون چیست؟ یوسف می گوید: یک نوع عزاداری است..... یعنی سوگ سیاوش۔‘‘(دانشور، ص272)

(ترجمہ: زری یوسف سے پوچھتی ہے:تمھیں پتا ہے سو و شون کا کیا مطلب ہے؟  یوسف جواب دیتا ہے: ایک قسم کی عزاداری ہے۔............ یعنی سوگ سیاوش۔)

یہ ناول مختلف ادبی اور فنی زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے۔  اس مضمون میں ہم اس ناول کی اہم ترین خصوصیتوں پر نظر ڈالیں گے۔ سب سے پہلے بات کریں گے موضوع و نقطہ نظر کی۔

موضوع و نقطہ نظر:

اس ناول میں سیمیں دانشور  نے دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں ایران کے اجتماعی حالات و واقعات کی تصویرکشی کی ہے جس میں ایران کے جنوبی علاقے  بالخصوص فارس کے پر آشوب ماحول اور عدم تحفظ کے اجتماعی احساس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جب پوری دنیا دوسری جنگ عظیم کی آگ میں جل رہی تھی اور ہر طرف قتل و غارتگری  کا بازار گرم تھا، انسانی زندگی کی کوئی اہمیت باقی نہ  رہ گئی تھی اور اس وقت کا انسانی معاشرہ افراتفری کے ماحول سے جوجھ رہا تھا، ایران بھی اس ماحول سے خود کو الگ نہیں رکھ پایا۔ اتحادی قوتوں (Allied Forces) نے ایران کو اپنے قابو میں لے رکھا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام میں ابتری پھیل گئی تھی اور مختلف رجحانات وہاں تیزی سے جنم لینے لگے تھے۔ سیمیں دانشور نے ایران پر بیرونی قوتوں کا قبضہ اور اس کے منفی نتائج کا احاطہ اس ناول میں کیا ہے۔ سو و شون سیاسی اور تاریخی ناول کے  ساتھ ایک علامتی ناول بھی ہے۔ تاریخی اور سیاسی اس لیے کہ اس میں 1941 کے بعد ایران کے صوبہ فارس کو جن مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا اس کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ناول نگار نے اس کے بیان میں علامتی اسلوب نگارش کو اختیار کیا ہے۔حسن میر عابدینی نے   اس ناول کے بارے میں یوں لکھاہے:

’’سو و شون ایک علامتی اور سیاسی ناول ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ظاہری حصے میں زری اور اس کے خانوادہ پر گزرے ہوئے واقعات بیان ہوئے ہیں جو 1943میں ہو رہے تھے۔ زری چاہتی ہے اپنے ملک ایران میں اپنے آپ کواس دور کے آشوب، مصائب،  بیماری، قحط اور موت سے بچا ئے لیکن جنگ اور دیگر مسائل سے ان کا گھر بھی دوچار ہوتا ہے۔ اس ناول میں علامتی حصے اور ظاہری حصے  کو دیکھ سکتے ہیں۔ زری کاگھر پورے ایران کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے جبکہ زری ایران کی عورت اور یوسف ترقی پسند فکر کے حامل لوگوں کی تمثیل ہے۔ اور جن حالات سے ان کا خاندان اورگھرگزر رہا ہے پورا ایران  و پورے ایران کی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’(میرعابدینی، ص138)

سیمیں دانشور سیاسی و سماجی مسائل کو اپنے اس ناول میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے اور اس دور کی عورتوں کی بھی تصویرکشی کرتی ہیں۔ سو و شون میں صنف نسوان کے جتنے بھی کردار ہیں وہ کسی نہ کسی اعتبار سے سماج میں صنف نازک پر ہونے والے ظلم و ستم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی طرح سیمیں دانشور اس دور کی عورتوں کی بے بسی، لاچارگی، مفلسی، ان کے صبر و تحمل اور ان کی نفسیاتی کشمکش کو دکھانے میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں چنانچہ سید علی سراج  اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’سب سے وسیع موضوع جو اس ناول میں بیان ہوا ہے عورتوں پر استحصال اور ظلم و ستم ہے۔اس ناول کی تمام خواتین کردار-چاہے وہ  زری ہی کیوں نہ ہو  جو ایک تعلیم یافتہ اور مالدار خاتون ہے-  خوف،  توہم پرستی اور خانہ نشینی سے دوچار ہیں۔’’(سراج، ص81)

پلاٹ: 

جہاں تک اس ناول کے پلاٹ کا تعلق ہے تو ناول کے آغاز میں ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران ایران کے سیاسی و سماجی حالا ت کا پتہ چل جاتا ہے۔ایران اس وقت انگریزی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ جنگ اپنے ساتھ آشوب،  بھکمری، قحط اور بیماری لائی تھی۔ یوسف ایک جوان زمیندار ہے جو اپنی  بیوی(زری) اور بیوہ بہن (فاطمہ خانم) اور اپنے بچوں کے ساتھ فارس کے ایک گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کے گاؤں کا حاکم انگریزوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ اس علاقے کے  بڑے بڑے زمیندار انگریزوں کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک چکے تھے اور ایرانی پیداوار کا زیادہ تر حصہ ملک سے باہر بھیجا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے غریب اور مفلس عوام قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے تھے۔

یوسف واحد ایسا زمیندار تھا جو انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھا اور ہر طرح سے مزدوروں کی حمایت کر رہاتھا۔ یوسف کا بھائی ابوالقاسم خان بھی انگریزوں کے ماتحت اور ان کی غلامی کرنے پر مجبورہوگیا تھا۔

اس ناول میں سیمیں دانشور نے زری نام کی ایک خاتون کو اہم کردار بنایا ہے اور اسی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ زری  اپنے گھر کو فتنے سے بچا ئے رکھنے کی سعی کرتی ہے۔جب وہ اپنی آنکھوں سے شہر کوٹائیفائیڈ اور عدم تحفظ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کو برباد ہوتے ہوئے  دیکھتی ہے تو سہم جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں بھی وہ اپنے گھر کو سنبھالنا چاہتی ہے لیکن  اس کا گھر بھی ان حالات و حادثات سے محفوظ نہیں رہ پاتا ہے۔ زری کے گھر میں بھی افرا تفری اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جب حاکم کی بیٹی کی شادی میں حاکم کی بیوی زری کے کان کی بالیوں کو ادھار  لے کر لوٹاتی نہیں ہے۔ یہ وہی بالیاں ہیں جن کو یوسف نے اسے تحفے میں دیا تھا۔ اس کے بعد حاکم ان کے بیٹے کے گھوڑے کو اپنی بیٹی کی خواہش کو پوری کرنے کے لیے چھین لیتا ہے اور آخر میں حاکم کے سپاہی  اس کے شوہر کو قتل کردیتے ہیں کیونکہ یوسف اپنی زمین کی پیداوار انگریزوں کے حوالے کرنے سے انکار کردیتا ہے اور اس کے برعکس دوسرے غریب مزدوروں کو کھانا پانی پہنچاتا ہے۔ یوسف کی موت کا زری کی شخصیت پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ ہی بدل کے رہ جاتا ہے اور وہ اپنے شوہر کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مقابلہ آرائی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے۔ سیمیں دانشور نے زری کے اندر پیدا ہوئے انقلاب کو یوں بیان کیا ہے:

’’نہ یک ستارہ، ہزار ستارہ در ذہنش روشن شد دیگر می دانست کہ از ہیچ کس و ہیچ چیز در این دنیا نخواہد ترسید‘‘

(دانشور، ص285)

(ترجمہ:ایک ستارہ نہیں، اس کے ذہن میں ہزار ستارے روشن ہوئے، اب اس کو پتہ تھا کہ اس دنیا میں کوئی شخص یا کسی چیز سے نہیں ڈرے گی۔)

کردار نگاری:

اس ناول میں مختلف قسم کے  کردار موجود ہیں  جن کی نہایت ہی باریک بینی کے ساتھ تصویرکشی کی گئی ہے۔  ان میں سے ہر ایک سماج کے کسی نہ کسی خاص گروہ  کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس  ناول میں دو کردار کلیدی ہیں: یوسف اور اس کی بیوی، زری۔

جہاں تک ضمنی کرداروں کا تعلق ہے ان میں عمہ خانم، عزت الدولہ، ابولقاسم خان، مک ماہوں، سرجنت زینگر،  سودابہ خانم، خدیجہ، ملک رستم،ملک سہراب، مسٹر فتوحی،  خسرو، خانم حکیم و غیرہ  کا شمار ہوتا ہے جن کا ضمنی ہونے کے باوجود کہانی سے بہت گہرا ربط ہے۔

یوسف ایک ترقی پسند فکر کا حامل ہے جس کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے اور وہ بڑی حد تک جدید عہد کی باریکیوں اور اس کے حقائق سے باخبر ہوتا ہے۔ اس کی سوچ و فکر سماج کے دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ وہ پرامن بقائے باہم پر یقین رکھنے والا انسان ہے اور باہمی تعاون اور سماج میں عدل و انصاف کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والا دردمند دل رکھتا ہے۔ وہ مجبوروں اور بے بسوں کا حامی ہے۔ ملک کی بھلائی اور خیرخواہی اس کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ وہ ہرقسم کی بدی اور شیطانی طاقت سے برسرپیکار ہے  اور ان طاقتوں کے سامنے سر جھکانا اس کی شان کے خلاف ہے۔ وہ اکیلا دو محاذوں پر دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ایک طرف استعماری طاقتیں سرزمین ایران کی طرف پھن پھیلائے کھڑی ہوئی ہیں تو دوسرے محاذ پر اس کو اندرونی غداروں، بے ایمانوں اور ایمان فروشوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔

اس ناول میں دوسرا کلیدی کردار زری کا ہے جو ایک تعلیم یافتہ خاتون ہے۔ وہ اس گاؤں کی وہ واحد خاتون ہے جو انگریزی زبان سے آشناہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کو گاؤں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ناول کے ابتدائی حصے میں اس کو ایک نرم مزاج اور امن پسند انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے اور زری اپنے ملک کی پرخطر صورت حال اور بدامن فضا کا مشاہدہ کرتی ہے اس کے مزاج میں نرمی کی جگہ سختی اور ٹھہراؤ کی جگہ انقلابی کروٹیں جنم لینے لگتی ہیں چنانچہ وہ اپنے شوہر کی موت پر احتجاج اور مظاہرے کو اپنی جنگ کا وسیلہ بناتی ہے۔

زبان و بیان:

سیمیں دانشور کی زبان سلیس اور عام فہم ہے۔ اس میں پختگی اور شفافیت کے ساتھ ساتھ روانگی کا بھرپور دخل ہے۔ اسی طرح ان کی زبان ابہام اور پیچیدگی سے مکمل طورپر پاک ہے۔ جیسا کہ مشہور ایرانی نقاد داریوش صبور ان کے طرز نگارش  پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’سیمیں دانشور کی نثر  بے تکلف،  رواں، صاف، عام بول چال سے نزدیک  اور  پیچیدگی سے بالکل محفوظ ہے’’(صبور، ص429)

سیمیں دانشور کے ناول میں  اصل کردار عورت ہے اور کہانی کی پیشکش بھی عورتوں کے ہی فکری زاویے سے کی گئی ہے اسی وجہ سے اس میں عورتوں کی روزمرہ کی بات چیت کا انداز، ان کی بول چال کا سلیقہ، اٹھنے بیٹھنے کی روش اور عورتوں کی زندگی کے مخفی احوال نہایت ہی سادگی اور لطافت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں عورتوں کے درمیان گفتگو کی رائج اصطلاحیں اس ناول میں جگہ جگہ موجود ہیں جیسے:  ’لچک بہ سر‘۔ یہ اس ضعیف عورت سے کنایہ ہے جس کی مرداساس معاشرے  میں کوئی قدر اور مقام نہیں ہے۔

’’خدایا  چرا  مرا  لچک بہ سر  آفریدی؟  اگر  مرد  بودم  نشان میدادم  کہ  مردانگی  یعنی چہ؟‘‘(دانشور، ص250)

(ترجمہ:اے اللہ مجھے لڑکی کیوں بنایا؟ اگر میں مرد ہوتی تو سب کو دکھا دیتی کہ مردانگی کیا ہوتی ہے؟)

اس طرح کے سیکڑوں محاورے اور مثالیں ناول میں ملتی ہیں جواس کے حسن و جمال میں اور بھی اضافہ کرتی ہیں۔

الغرض سیمیں دانشور جدید فارسی ادب کی خواتین فکشن نگاروں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے فکشن کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ایران میں یہ بات معمول کے خلاف سمجھی جاتی تھی کہ کوئی خاتون افسانہ یا  ناول لکھ کر چھپوائے۔ وہ پہلی ایرانی خاتون تھیں جنھوں نے خواتین کے لیے فکشن کے میدان کی راہ ہموار کی۔ یہ ان کی بلند فکر اور دوراندیش نگاہوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اپنے سماج میں عورتوں کی حالت زار کو بھانپنے اور سمجھنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے فکشن نگاری کو اپنا آلہ کار بنا کر عورتوں کے سماجی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور نفسیاتی حقوق دلوانے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑیں۔ مذکورہ ناول ’سو و شون‘ بھی ان کی اصلاحی کاوشوں کا ایک بہترین ماحصل ہے اور ایک ایسا ادبی شاہکار ہے جس میں ایک طرف فنی رعایت اور ادبی حسن و کمال کی جلوہ نمائی پائی جاتی ہے تو دوسری جانب ایسے حساس ترین سماجی اور سیاسی پہلوؤں اور مسائل کو پیش کیا گیا ہے کہ قاری نہ صرف فنی و ادبی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ سماج کی مخفی حقیقتوں اور پوشیدہ سچائیوں سے بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ روبرو ہوتاہے۔ یہ غیرمعمولی فنی اور اصلاحی امتزاج ’سو و شون‘ کو ایک جامع ترین فنی شہ پارے کی حیثیت عطا کرتا ہے۔

کتابیات:

w      عبدالٰہی، مہناز، ’سالشمار سیمیں دانشور‘ مشمولہ ادبی رسالہ بخارا،  شمارہ 75،  فروردین-تیر  1389ھ ش   

w      دانشور، سیمیں، سو و شون، تہران: انتشارات خوارزمی، 1349ھ ش

w      میرعابدینی، حسن،  ’’تاریخ نویس دل آدمی‘ مشمولہ  بر ساحل جزیرہ سرگردانی (یادنامہ سیمیں دانشور)، مرتب: علی دہباشی، تہران:انتشارات سخن، 1383ھ ش   

w      صبور، داریوش، از کاروان حلہ:دیداری با نثر معاصر فارسی، تہران: انتشارات سخن 1384ھ ش

w      سراج، سید علی، گفتمان زنانہ: روند تکوین گفتمان زنانہ در آثار نویسندگان زن ایرانی، تہران:انتشارات روشنگران و مطالعات زنان، 1394ھ ش

Mahdiya Nazad Shaikh

Ph.D Urdu Scholar, JNU

New Delhi - 110067



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں