12/1/21

رشید اختر ندوی اور ان کی ناول نگاری - مضمون نگار: محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

 



ندوۃ العلما کسی ادارے کانام نہیں؛ بلکہ یہ ایک ہمہ گیرعلمی، ادبی، دینی، اصلاحی اورتعلیمی تحریک کانام ہے، جس کاقیام 1894 میں لکھنؤ میں ہوا۔

بانی ندوہ مولانامحمدعلی مونگیریؒ کے نظام تعلیم و تدریس خاکہ میں یہ بات درج تھی کہ دارالعلوم میں جن علوم وفنون پرخاص توجہ دی جائے گی، ان میں تاریخ وادب بھی ہے؛ چنانچہ جب ہم وہاں کے فارغین کی فہرست پرنظرڈالتے ہیں توعلوم شرعیہ پردسترس کے ساتھ ساتھ احسان وسلوک، تاریخ وفلسفہ اور ادب وصحافت پربھی دستگاہ رکھنے والوں کے نام پاتے ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی، عبدالرحمن کاشغری ندوی، عبدالسلام قدوائی ندوی، شاہ معین الدین ندوی،مولاناعبدالباری ندوی، ابوالجلال ندوی، ریاست علی ندوی، سید ابوظفر ندوی، مسعودعالم ندوی،رئیس احمدجعفری ندوی، محمدناظم ندوی، ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹرعبداللہ عباس ندوی، پروفیسر محمداجتبا ندوی، ڈاکٹرعبدالحلیم ندوی، مولانارابع حسنی ندوی، مولاناواضح رشید ندوی، ڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی، پروفیسریٰسین مظہرصدیقی ندوی، سیدرضوان علی ندوی، سیدضیاء الحسن ندوی، پروفیسرمحسن عثمانی ندوی اور مولانانذرالحفیظ ندوی وغیرہم ادبا، مؤرخین اور صحافیوں کی اس طویل فہرست میں شامل ہیں، اسی طویل فہرست کا ایک نمایاں نام’رشید اخترندوی‘ بھی ہے۔

رشیداخترندوی کی پیدائش13/جنوری 1918 کو دہلی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم دہلی میں ہی ہوئی، پھر دارالعلوم ندوۃ العلما کارخ کیااوروہاں سے سندفضیلت حاصل کی، ندوہ سے فراغت کے بعدجامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیااوروہاں سے بی اے کیا، وہ خود لکھتے ہیں: ’’اسے ایک پاکستانی مصنف کاخط ہندوستانی بھائیوں کے نام تصورکرلیجیے یاایک اس شخص کاایک طویل سلام بنام وطن سابق قراردیجیے، جس کاخمیرہندوستان کی پاکیزگی سے اٹھا، جودہلی میں پیداہوا، جس نے دہلی ولکھنؤ میں تعلیم پائی اورجوبمبئی(ممبئی)کے ماحول میں زندگی کی سچی مسرتوں اورکامرانیوں سے آشناہوا‘‘(تشنگی، دیباچہ، ص: 7)

دہلی، لاہور اورپشاور کے متعددروزناموں کے نیوز ایڈیٹر اورچیف ایڈیٹررہے، 1973 میں ادارۂ معارف ملی (اسلام آباد) کے سکریٹری مقرر ہوئے، 21/جولائی 1992میں مری(پاکستان) میں وفات پائی اورمرکزی قبرستان اسلام آبادمیں تدفین عمل میں آئی۔ (وفیات اہل قلم، از: ڈاکٹرمحمدمنیراحمدسلیج، ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان2008، ویکیپیڈیا:  رشیداخترندوی)

رشیداخترندوی عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے، مولوی ضرورتھے؛ لیکن نرے مولوی نہیں تھے، وہ ندوی ضرورتھے؛ لیکن ندوی سے بڑھ کربھی تھے،ہمارے برصغیرکے مولویانہ معاشرہ میں دومیدان کافی مبغوض رہے ہیں، ایک سیاست کا میدان اوردوسراپردۂ سیمیں کا میدان، رشیداخترندوی کشت زارپردۂ سیمیں کے کیچڑسے بھی لت پت ہوئے ہیں، جس کاذکرکرتے ہوئے وہ خودلکھتے ہیں: ’’فلمی دنیابھی ایک عجیب دنیاہے اور میں نے ڈیڑھ سال یہاںرہ کربہت کچھ سیکھا اوربہت کچھ پایاہے، یہاں کی ہرچیزہماری دنیا سے مختلف ہے، کردار، اخلاق، سمجھ بوجھ اوریہاں تک کہ چہرے مہرے اورکبھی کبھی تومجھے بعض آدمیوں کودیکھ کرایسامحسوس ہوا، جیسے یہ آدمی کسی اورآدم کی اولادہیں، یہاں کا ہرآدمی ایک بڑا فرعون ہے، مطلق العنان اورخودمختارفرعون، میراجی توبہت چاہاکہ ان فرعونوں کے قلمی چہرے تیارکروں؛ مگردماغ نے دل کی یہ بات رد کردی اوربہت سی باتوں سے ڈرادیا۔(نسرین، یک حرف، ص5-6)

  وہ بیک وقت کئی میدانوں کے شہسوارتھے، وہ ایک کامیاب مؤرخ بھی تھے، ایک اچھے صحافی بھی تھے، عمدہ مترجم بھی تھے اورایک مایہ ناز ادیب بھی، ترجمہ نگاری کے شاہکارکے طورپرہم ’تزک بابری‘ اور’ہمایوں نامہ‘ کوپیش کرسکتے ہیں، ان دونوںکوانھوں نے فارسی سے اردو زبان میں منتقل کیاہے۔

تاریخ نگاری میں سوانحی تاریخ رشیداخترندوی کی حددرجہ پسندیدہ قسم تھی، جس کی ابتدا سیرت سے ہوتی ہے، ’ محمدرسول اللہ‘ سیرت پران کی ایک منفرد کاوش کہی جاسکتی ہے؛ لیکن اس کے بعض مندرجات پراعتراض ہونے؛ بلکہ اس کی وجہ سے ’گستاخ رسول‘کے لقب سے ملقب کرکے مقدمہ درج کیے جانے کی وجہ سے اس میں حک واضافہ کرکے ’محمدسروردوعالمؐ‘ کے نام سے اسے دوبارہ شائع کیاگیا، خلافت راشدہ، عمربن عبدالعزیز، محمدبن ابی عامر،صلاح الدین ایوبی، حیدرعلی،اورنگ زیب، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

تاریخ کے ساتھ ساتھ چمنستانِ ادب کو بھی انھوں نے وردویاسمین اورسوسن ونسرین سے مالامال کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے اورانھوں نے تقریباً دودرجن کے قریب تاریخی، معاشرتی، نفسیاتی اوررومانی ناول لکھے،وہ جس طرح ایک کامیاب تاریخ نویس تھے، اسی طرح ایک کامیاب ناول نگاربھی اورجس طرح ان کی تاریخ نویسی نے لوگوںکواپنی طرف متوجہ کیا، اسی طرح ان کے ناولوں نے بھی لوگوں کواپنی طرف کھینچا،اوراس زورسے کھینچاکہ ایک ایک ناول کو ایک سال کے عرصے میں متعددبارپریس کی زیارت سے شرف یاب ہوناپڑا،رشید اختر ندوی کے قلم کی طاقت نے نہ صرف یہ کہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دل موہ لیے؛ بلکہ اہل قلم نے بھی خوب سراہا۔

 ان کے ناولوںکی مقبولیت کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے، جوان کے ناشرنے ’عرض ناشر‘ کے طورپر دوسرے اورتیسرے ناول پر تبصرہ کیاہے، ظہیرصاحب ان کے دوسرے ناول’سوزدروں‘ پرلکھتے ہیں: ’’مولانا رشید اخترندوی کا پہلاناول ’سازشکستہ‘ توقع سے زیادہ مقبول ہوا، جمہورنے تواسے پسندہی کیا؛ لیکن ملک کے مستنداہل قلم نے بھی سازشکستہ کوسراہا اوراسی کومصنف کاایک ادبی شاہ کار بتایا، ’سوزدروں‘ مصنف کا دوسرا ناول ہے، جو پہلے ناول کی اشاعت کے بہت تھوڑے دن بعد چھپا اور ملک میںاس قدر پسند کیاگیاکہ اس کی مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ موصوف کایہ ناول کاغذکی اس گرانی اورقحط کے دور میں دوبارہ شائع کیاجارہاہے‘‘(سوزدروں،عرض ناشر، ص4)

سودائی‘کے ’عرض ناشر‘ میں لکھاہے کہ: ’’یہ رشید اخترندوی کاتیسراناول ہے، رشیداخترکے ناول ’سازشکستہ‘ کاموضوع اتنااچھوتا اور طرز بیان اس قدردلچسپ تھاکہ اردوادب سے دلچسپی رکھنے والوں کومصنف سے غیرمعمولی دلچسپی ہوگئی، مصنف کے دوسرے ناول’سوزدروں‘ سے یہ دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اورہم سے تقاضے پرتقاضے ہونے لگے کہ مصنف کاکوئی اورناول جلدسے جلدچھاپیں، مصنف نے یہ ناول سودائی لکھا اوراس کی مقبولیت کایہ عالم ہواکہ ایک سال کے اندراندرہمیں اسے دوبارہ چھاپنا پڑا اوراب یہ پانچویںبارچھپ رہا(یہ 1949 کی بات ہے)،  مصنف کے پہلے دونوںناول چوتھی چوتھی بارچھپے ہیں اوراردوکہانی کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ کسی ناول نویس کواتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہو‘‘۔

(سودائی، عرض ناشر، ظہیر، ص4)

ناشرکی اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ناول نگاراپنی ناول نگاری کے فن میںکمال درجہ کوپہنچے ہوئے تھے؛ چنانچہ انھوںنے جب اپنا پہلا ناول ’سازشکستہ‘ اردو کے نامور شاعر، صحافی اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک کے پاس مقدمہ کے لیے بھیجا تو انھوں نے اس طرح اظہار خیال کیا: ’’مولانارشید اخترندوی نے جب اپنے اس افسانے کامسودہ مجھے مقدمہ کی تحریرکے لیے دیا تو میںنے اپنے دل میںیہ نیت کرلی کہ اگرافسانہ معیاری اعتبار سے پست ہو اتواس عزت واحترام کے باوجود، جو مولانا کے فضل وکمال کے متعلق میرے دل میں جاگزیں ہے، میں مقدمہ لکھنے سے صاف انکار کردوںگا؛ لیکن افسانے کو سرسری نظرسے دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ مصنف صرف ندوۃ العلما کامولوی ہی نہیں؛ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے اوراس تحریر میں کامیاب افسانہ نگاری کے تمام عناصرموجودہیں اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگرچہ اس افسانے کاپس منظررومانوی ناولوںکی طرح ایک نواب کا خاندان اور کشمیر کے مناظر ہیں؛ لیکن نقطۂ نگاہ کافی ترقی پسندہے اورمولاناکے نزدیک افسانہ خالص تفریحی صنف ادب نہیں؛ بلکہ سماج کی بعض دکھتی ہوئی رگوں کو چھیڑنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے‘‘

(سازشکستہ، ص6)

مولاناکے ناولوںکی مقبولیت عوام خواص میںاتنی کیوں تھی؟ اس کوواضح کرتے ہوئے ظہیرصاحب لکھتے ہیں: ’’مولانارشیداخترندوی کے برسوں کے صحافتی اور تصنیفی تجربے نے آپ کی نگاہ کودوربین بنادیاہے، ان کا ادبی مطالعہ بہت وسیع ہے اورزندگی کامطالعہ اس سے بھی زیادہ وسیع، انسانی نفسیات، گناہ وثواب کی کشمکش، ہوس ومحبت کی دبی ہوئی خواہشیں، سچے عشق کی پاکبازیاں اورغلط راہ پرپڑکراس کی بے عنوانیاںان مسائل کوبیان کرنے میں مولانا کو بڑا عبورحاصل ہے، مولانابہت صا ف زبان لکھتے ہیں، ان کے ناول کے کرداروںکے مقالات زندہ اشخاص کی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جووہ ہمارے سامنے کرتے نظرآتے ہیں‘‘۔ (سوزدروں، عرض ناشر، ص4)

رشید اخترندوی کی ناول نگاری اجزائے ترکیبی کے اعتبارسے پورے اترتے ہیں، ایسانہیںہے کہ ان کے مولوی اورمؤرخ ہونے کی وجہ سے ناول اپنی سطح سے کچھ نیچے گرگئے ہوں، ان کے ناولوںمیںجوبھی قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظرکشی اورنقطۂ نظرہیں، سب اپنی جگہ پرفکٹ ہیں، عبدالمجیدسالک اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’افسانے کے سب سے زیادہ اہم اجزا اس کے کردارہیں اورجب سے ادب کی یہ صنف پیداہوئی ہے، اس وقت سے آج تک اس کی تنقید کا ایک نمایاں معیار یہ رہاہے کہ مصنف نے جن کرداروںکاتعارف کرایاہے، وہ کیسے ہیں؟ آیاحقیقی زندگی میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں؟ آیامصنف کے ذہن میں ان کرداروں کی خصوصیات منظم ومنضبط طریق پرموجودہیں؟ اورآیا افسانے میںاس نے ان سب کو پوری طرح نباہ دیاہے یانہیں؟ اس افسانے کے پڑھنے والوں کو معلوم ہوگاکہ نواب ہو، یانجمیٰ، سلمیٰ ہویاللی، سب کے سب کردارجیتے جاگتے انسانوںکے ہیں اورجن طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی خصوصیات کی نمائندگی بوجہ اتم کرتے ہیں‘‘(ساز شکستہ، ص 7)

رشید اخترندوی کا پہلا ناول’سازشکستہ ‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے شروع ہونے والی کہانی ہے، جہاں سلیم اورنواب زادہ محمودکی ملاقات ہوتی ہے، جیل انگریزوں سے بغاوت کے جرم کی سزاکے طورہوئی ہے، دونوں میں گرچہ دولت وثروت کے لحاظ سے فرق مراتب ہے؛ لیکن جیل کی فضا میں چونکہ اس کالحاظ نہیں، جس کی وجہ سے دونوںمیںخوب دوستی ہوجاتی ہے، جو وہاں سے باہرآنے کے بعدبھی برقراررہتی ہے؛ بلکہ یہ دوستی گھریلو تعلقات میں بدل جاتی ہے؛ لیکن پھر دولت اپنی اوقات بتاہی دیتی ہے، ساحرنے ٹھیک ہی کہاہے: ’’ایک شہنشاہ نے دولت کاسہارا لے کر، ہم غریبوںکی محبت کااڑایاہے مذاق‘‘ ،یہاں بھی سلیم کی غربت کامذاق اڑایاجاتاہے اوران تمام احسانات کوبھلادیاجاتاہے، جوسلیم نے نواب زادہ محمود صاحب پرکی تھیں اورجن کی بدولت نواب صاحب معاشرہ اوراپنے ہم پلہ لوگوں میں باوقار  اورایک مصنف کی حیثیت سے معروف تھے، پھریہ مذاق بھی اس اخلاص اور احسان کے بدلے میںتھا، جوسلیم نواب صاحب کی چھوٹی بہن سلمیٰ پرکرناچاہتے تھے، ’ساز شکستہ‘ کا آخری حصہ پڑھیے اوران تمام چیزوںکو درد اور کسک کے ساتھ چشم تصورسے محسوس کیجیے، جوسلیم نے محسوس کیاتھا:

’’مجھے صحیح نہیں معلوم کہ نوجوان کتنی دیربعدواپس لوٹے؛ لیکن یہ یادہے کہ جب وہ نکلے توان کے پیچھے نواب زادہ اکرام بھاگ رہے تھے، اکرام کے ہاتھ میں پستول تھااوروہ اسے نوجوان پرداغناچاہتاتھا؛ لیکن مجھے عین سامنے پاکروہ اپنے ارادہ میںناکام رہااورنوجوان صاحب بھاگ نکلے، یہ داستان عام ہوگئی اورنواب صاحب کے کانوں تک بھی جاپہنچی، وہ بڑے پریشان ہوئے، انتہائی پریشان، ان کی پریشانی میںنجمیٰ کے شوہرنے سلیمان مرزاکا قصہ کہہ کر اور اضافہ کردیا، انھوں نے سلمیٰ پر شاید عمر میں پہلی بارہاتھ اٹھایا اور اتنا ماراکہ سلمیٰ بے ہوش ہوگئی، دوسرے دن یہ ساری داستان سلمیٰ نے مجھ سے کہی، وہ زاروقطاررورہی تھی، اس کی خوبصورت آنکھیںروتے روتے سرخ ہوچکی تھیں، وہ کہہ  رہی تھی اب میںبدنام ہوگئی، میری زندگی تباہ کردی گئی، مجھ سے اب کون بیاہ کرے گا؟ میںنے دیکھاسلمیٰ زندگی کی خوشی بیاہ میںسمجھتی ہے، سماج کے ظاہری بندھن میں بندرہ کروہ مطمئن ہوجائے گی تومیرے دل میںایک لہر پیدا ہوئی، عمرمیں پہلی باراورغیرمحسوس طورپرزبان پریہ الفاظ آگئے:

’’سلمیٰ! تم سے میںشادی کروں گا؛ لیکن اس وقت، جب کوئی اورشادی نہ کرے‘‘۔

سلمیٰ کے آنسورک گئے اوربولی:

’’آپ سچ کہتے ہیں؟‘‘۔

میںنے کہا:

’’سچ، بالکل سچ‘‘۔

’’تونواب صاحب سے پھرکہیے گا؟‘‘۔

سلمیٰ یہ کہہ کرخوش خوش چلی گئی، میں نے سلمیٰ سے یہ بات کہہ تودی؛ لیکن بعدمیںسوچاکہ نواب صاحب کے حضورمیں ایک سائل کی حیثیت سے میں کیسے جاسکوںگا؟ اورآخرمجھے جاناہی پڑا، اظہارمدعاپرنواب صاحب نے پیشانی پربل ڈال کرمیری طرف دیکھا، میں سمجھاوہ مجھے نگل جاناچاہتے ہیں اور سچ مچ ان کی خواہش یہی تھی، اس کاانھوں نے اظہاربھی کردیا، بولے:

’’تم نے آج میرے سینے میں چھری چبھودی، تم نے نہیں سوچامیرا اورتمھارا معیارزندگی کتنامختلف ہے، سلمیٰ میری بہن ہے، ایک بڑے نواب کی بہن، اس کے لیے موٹرچاہیے اوراعلیٰ درجے کامکان بھی، اس کے لیے اچھے سے اچھے لباس اورکھانے کی ضرورت ہے اورتم ایک معمولی اخبارنویس ہو، محض دال روٹی پرگزرکرنے والے‘‘۔

دفعتاً ان کی آواز تیز ہوگئی اورفرمانے لگے:

’’اب تم نے یہ بات کہہ دی، مجھے تم بہت عزیزہو؛ لیکن اس کی کیاضمانت کہ میری بہن کی زندگی تمہارے ساتھ اچھی کٹے گی، نہ رہنے کومکان، نہ موٹر اورنہ کوئی اورجائداد، آخرآپ کس برتے میری بہن سے شادی کرناچاہتے ہیں؟ آپ کویہ کہتے شرم نہ آئی‘‘۔

اس کے بعدحضورنواب صاحب بہت کچھ بکتے رہے، ایسی ایسی باتیںان کی زبان سے نکلیں، جنھیں میری غیرت کبھی سن نہ پائی تھی؛ مگرمیں سنتارہا اورجب وہ انتہائی  رذالت پراترآئے تومیں نہ رہ سکااورکہہ اٹھا:

’’نواب صاحب! یہ میری نہیں، سلمیٰ کی خواہش ہے اوراس لیے ہے کہ اسے ڈرہے کہ شایددنیامیں کوئی سوداگراس داغ دار موتی کوخریدنانہ چاہے‘‘۔

نواب صاحب کاغصہ کچھ دھیماہوا؛ مگرصرف تھوڑی دیرکے لیے، وہ ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے بولے:

’’تم اس کمزوری سے ناجائزفائدہ اٹھاناچاہتے ہو، یہ تم لوگوںکی فطرت ہے، رذیل اورکمینی فطرت؛ مگرتمھیں نہیں معلوم دولت ہرعیب کودھوسکتی ہے اورسلمیٰ کایہ عیب بھی دولت دھودے گی‘‘۔

میں نے نواب صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا اورمجھے ایسے آثارنظرآئے کہ مجھے یقین ہوگیاکہ دولت سچ مچ ہرعیب دھودیتی ہے، یہ غربت ہی ہے، جس میں نیکی بھی عیب دکھائی دیتی ہے اورجب غربت داغ دارہوجاتی ہے تواسے کوئی نہیں دھوسکتا، میں نے سلمیٰ سے ہمدردی کرنی چاہی تھی، اس کی زندگی کوخوش رکھناچاہاتھا اور اخلاص اورسچی محبت کے سرمایہ پربھروسہ کیاتھا، یہ میری بھول تھی، بہت بڑی بھول، دنیااخلاص کو نہیں دیکھتی، اس کی نگاہ ظاہر پر پڑتی ہے اوریہ اس کی پرانی ریت ہے، ناقابل تبدیل ریت‘‘۔ (سازشکستہ، ص157-160)

ناول کے اس آخری حصے سے آپ کو قصہ، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ نگاری، منظرکشی اورنقطۂ نظرساری چیزیںمعلوم ہوگئی ہوں گی اورآپ نے  رشید اخترندوی کے اس پہلے ناول سے یہ نتیجہ اخذکیاہوگاکہ ان کے قلم میں بہترین ناول نگاری کاجوہرموجودہے، ساتھ میںیہ بھی دیکھاہوگاکہ سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ ان کی زبان نہایت سہل اورآسان ہے، نہ تعقید لفظی ہے اورناہی تعقید معنوی، نیزرنج وغم اورحزن والم کاتلاطم خیز، بے کراں اوراتھاہ سمندربھی پائے گا، جوان کے ناولوںکی عمومی خصوصیات میں سے ہے۔

بعض حضرات نے رشیداخترندوی پریہ الزام عائد کیاہے کہ ان کے ناول مقصدیت سے خالی ہوتے ہیں؛ لیکن یہ بات عقل وقیاس سے بعیدہے؛ کیونکہ ایک مصنف جب کچھ لکھتاہے تواس کے پیچھے کچھ نہ کچھ مقصد ہوتا ہے، اگرکسی تحریرکے پیچھے مقصد نہ ہو تو وہ تحریرمقبول بھی نہیں ہوگی، جبکہ پیچھے یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ رشیداخترکے ناول مقبول ہوئے ہیں؛ بلکہ ایک ایک ناول کوچندہی سالوں کے اندرپانچ پانچ مرتبہ بھی چھاپنے کی نوبت آئی ہے۔

رشیداخترندوی کاایک ناول ’نسرین‘ کے نام سے ہے، یہ ایک معاشرتی ناول ہے، وہ خوداس ناول کی تحریرکامقصدواضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہوسکتاہے میرے اس ناول سے ان نوجوان لڑکیوں کوکچھ روشنی ملے، جوفلمی دنیامیں آنے کے لیے تڑپ رہی ہیں اورخداکرے اس لائن میںوہ اس طرح نہ آئیں، جیسے کہ یہاں اکثر لڑکیاں لائی جاتی ہیں... اوریہ سب کچھ کیوںہوتاہے اورمیں نے اس موضوع کوکیوں ناول کی صورت دی ہے؟ محض اس لیے کہ ہمارے وطن کامعاشرتی نظام انتہائی ناپاک اورمکروہ ہے اورضرورت ہے کہ اس نظام کوبدل دیاجائے اورجب تک یہ نظام نہیں بدلے گا، اس وقت تک ہزارنسرین، ہزاربیگم ساڑی اورہزارثروت جاہیں اس  ہندوستان کے ہرگلی اورہرکوچے میں ماری ماری پھرتی نظرآئیں گی اورانھیں ہرگھڑی اورہرآن ہزاردھوکے دیے جاتے رہیں گے‘‘(نسرین، ص7)

ان کا ایک شاندار ناول ’تشنگی‘ ہے، تین سوتیرہ صفحات پرپھیلاہواہے، اس کے پڑھنے کے بعدان کے بقیہ ناولوںکوپڑھنے کی تشنگی دوچند ہوجاتی ہے، یہ ناول خودبھی تشنگی کوبڑھاتارہتاہے اورجب تک قاری ختم نہیںکرلیتا، اس وقت تک اضطرابی کیفیت سے دوچار رہتا ہے،  اوربقول نعمان منظور: ’’یہ ناول اردوناول نگاری میں اس مقام پرجلوہ گرہوا، جب کہ اردوناول نگاری گھٹنوں کے بل چل رہی  تھی۔‘‘

(https://dunya.com.pk/index.phd/special-feature/2014-05-22/9198)

اس ناول کے لکھنے کااصل مقصدکیاہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے خودمصنف اس کے دیباچے میں لکھتا ہے:’’یہ ’’تشنگی‘‘، جس کے پہلے حرف سے لے کر آخر حرف تک ہرحرف میرے لیے ننگی، بھوکی روح کاسچا ترجمان ہے، مجھے اپنے سارے ناولوں میں سب سے زیادہ پیاراہے… یہ ناول اس وقت کی تصنیف ہے، جب ہندوستان غلام تھا اورانگریزوں کے جابروظالم پنجے نے ہندوستانیوں کے گلے گھونٹ رکھے تھے، اس وقت میری روح ایک ایسے سماج اورایک ایسے نظام کے لیے تڑپی، جس میں آدمی نہ ہندوہوتانہ مسلمان، نہ پارسی ہوتانہ عیسائی، اس ناول کاہیرومحسن، اس ناول کی ہیروئن میری اور اجیت، سب ہی ننگے، بھوکے اورمحتاج تھے، سب کا مذہب ننگے آدم کامذہب تھا، سب کے نام گومختلف تھے؛ مگرسب کاعقیدہ ایک تھا، آدمی صر ف آدمی رہے اورآدمی رہ کرہی اپنا منصب پہچانے، اگر’تشنگی‘ کے پڑھنے والے ان ’آدمیوں‘ کی تشنہ روحوں کوسمجھ لیں، جواس ناول کے اندربھاگتے وگرتے اورسوچتے ہیں تورشیداخترندوی،اس کاتشنہ روح مصنف بڑاسکون پائے گا۔‘‘ (تشنگی، دیباچہ، ص8)

رشیداخترندوی کایہ ناول ملک کی آزادی سے پہلے کاہے، جیساکہ انھوں نے خودلکھاہے؛ لیکن اس کوپڑھ کرمحسوس ہوتاہے کہ اس کے کردار آج کے چلتے پھرتے نمونے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ ہرمصنف کی طرح ان کے بھی بعض ناولوںکے کردارمیںکچھ جھول بھی ہے اوریہ مصنف کے لیے عیب کی بات نہیں؛ کیونکہ مصنف انسان ہے اورانسان ہونے کے ناطے ایسا ہونا فطری بات ہے، دنیاکے کسی بھی مصنف کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتاکہ اس کی تمام تصنیفات گرفت اورمواخذہ سے باہرہیں؛ چنانچہ ان کے ایک ناول ’بادوباراں‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے مس حبیب اللہ خاں، لالہ موسیٰ اسٹیشن ایک خط میں ان کولکھتی ہیں:  ’باد و باراں‘ میں جنگلی قوم کی سردارعورت کاکردارکہانی کی پختگی میں کمی پیداکرتاہے، اگراس کے بدلے میں منورکوکسی اورقسم کی تکلیف پہنچتی تو’بادوباراں،‘ ’سوزدروں‘سے بھی سبقت لے جاتا۔‘‘ (پہلی کرن، ص 415)

خلاصہ یہ کہ مولانارشیداخترندوی ایک اردوکے سچے خادم، ادیب،مؤرخ، قابل اوراچھے ناول نگارتھے؛ لیکن افسوس کہ ان کی ادبی خدمات کاجس طرح تعارف ہوناچاہیے، اس طرح تعارف نہیںپیش کیاجاسکا، وجہ خواہ کچھ بھی ہو(یوں بھی اپنی بعض تحریروں کی وجہ سے وہ معتوب ہوئے تھے؛ بلکہ ان پر مقدمہ بھی دائرکیاگیاتھا؛ لیکن قبل ازوقت ضمانت مل گئی تھی)، اورنئی نسل توشایدہی ان کی ادبی خدمات سے واقف ہو، ان پرکام کرنے کی ضرورت ہے، اللہ کسی کوپیداکرے، آمین!

جی چاہ رہا ہے کہ یہاں پررشید اخترندوی کے ناولوں کے نام بھی درج کردوں؛ تاکہ پڑھنے والے پڑھیں اورمحظوظ ولطف اندوز ہوں، سیکھنے والے سیکھیں اور ادب حاصل کریں اورجائزہ لینے والے جائزہ لیں اور جانچیں پرکھیں اورادبی دنیامیں ان کاجومقام ومرتبہ ہوناچاہیے، ان کووہ دلانے کی کوشش کریں، نام یہ ہیں: سازشکستہ، سوزدروں، سودائی، یروشلم، حیدرعلی، غرناطہ، یہ جہاں اور ہے، تشنگی، یلغار، نسرین، نشان راہ، کانٹوںکی سیج، تلخیاں، بادوباراں، نشیمن، گل رخ، ایک پہلی، پندرہ اگست، مردکوہستاں، محمدبن ابی عامر، پہلی کرن، نسیم (ہرجائی

n

Md Jamil Akhtar Jaleeli Nadwi

Vill + P,O: Pochari

Distt: Dhanbad - 828306 (Jharkhand)

Mob: 08292017888, 9576971884

 



1 تبصرہ:

  1. ماشاء بہت ہی عمدہ تعارف اپنے پیش کیا ہے ۔۔۔۔۔۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے

    جواب دیںحذف کریں