11/1/21

راحت اندوری: منفرد لہجے کا شاعر - مضمون نگار: محمد نوشاد عالم

 



اردوشعروادب اورخاص کر مشاعروں کی دنیا میں راحت اندوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اردو غزل کے مشہور و معروف شاعرہیں اورگذشتہ پچاس سالوں میں انھوں نے اردوشعروادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

شیخ راحت اللہ اندوری بہ معروف راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوی اہلیہ یونیورسٹی اندورسے بی۔اے کی ڈگڑی حاصل کی، اس کے بعد اودھ یونیورسٹی لکھنؤ سے ایم اے (اردو) امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔تحقیق کے لیے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپا ل کو منتخب کیا،اور’اردوکی ترویج واشاعت میں مشاعروں کاحصہ‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگڑی حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کریمیہ کالج(آئی کے)کے شعبۂ اردوسے منسلک ہوگئے،اور بحیثیت اردولکچرر ملازمت کی ابتداکی اور درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے،لیکن بعض مصروفیات کی وجہ سے ملازمت ترک کرنی پڑی۔

راحت اندوری کوبچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے شاعری کی ابتدا کی۔ چونکہ شہر اندور میں  مشاعروں اور محافل کا رواج بہت قدیم ہے، لہٰذا راحت اندوری بھی رفتہ رفتہ نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے،اور پہلی بار 1968 میں ا نھوں نے ایک مشاعرے میں اپنی غزل پڑھی،جسے کافی پسند کیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا، دور حاضر میں وہ ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اب تک ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آکر دادتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے مجموعوںمیں دھوپ دھوپ،ناراض، رُت (دیوناگری)، سفر میں رہے،میرے بعد(دیوناگری)، پانچواں درویش اور’کُن فیکون‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

راحت اندوری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے ہم عصر شعراکی طرح زندگی کی تلخیوں، کربناکیوںاور عصری مسائل جیسے موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کیاہے۔ان کی غزلوںمیں سماج میں پھیلی ناانصافی، انسانی رشتوں کی ناقدری، زندگی کی بے ثباتی، فسادات وغیرہ جیسے مسائل نظر آتے ہیں۔ دوسرے شعرا کی بہ نسبت راحت اندوری کالب ولہجہ زیادہ باغیانہ نظر آتاہے۔ زبان میں نشتریت اور کھردراپن ہے،جس کی وجہ سے ان کے اشعار ہمارے دلوںمیں نشتر بن کر پیوست ہوجاتے ہیں۔

راحت اندوری کی شاعری دراصل معاشرے میں ہورہی ناانصافیوں،زندگی کی تلخیوں،بے یقینی،خوف وہراس اور فسادات وغیرہ کا منظرنامہ ہے۔وہ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کوقاری کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری اسے اپناہی تجربہ ومشاہدہ سمجھنے لگتاہے۔ یہی وہ ساری خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے راحت اندوری کی غزلیں عوامی سطح سے لے کر علمی وادبی حلقوں میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے        ؎ ؎

کالج کے سب لڑکے چپ ہیں کاغذکی اک نائو لیے

چاروں طرف دریاکی صورت پھیلی ہوئی ہے بے کاری

——

خریدے ہیں مرے بچوں نے فاقے

میں سڑکوں پر مقدر بیچتا ہوں

ڈاکٹر شہپر رسول ان کی شاعری کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں        ؎

’’وہ جب اقدار کی شکست وریخت،زندگی کے مصنوعی پن،تہذیب کے تنزل، طنزوتشکیک اور نارسائی یعنی آج کے عہد کے منظرنامے کو اپنی غزل کا منظرنامہ بناتے ہیں تو آئینہ،پتھر،پیاس،سمندر،روشنی اور تاریکی جیسے الفاظ ان کی شاعری کی کلید بن جاتے ہیں۔اس طرح زیست کی نہ صرف مختلف سطحیں اور سمتیں سامنے آتی ہیں،بلکہ انسانی تہذیب معیاروںمیں سمائے ہوئے تضاد کی معنی خیز پردہ دری بھی ہوئی ہے۔‘‘

راحت اندوری کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کی ان سچائیوں،حقیقتوں،تصادمات، واقعات وحالات اور کشمکش کوپیش کرتے ہیں،جولوگ اپنی مفاد کے لیے دوسروںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ان کی غزلوںمیں پوری انسانیت کا دردچھپاہوا ہے      ؎

یہ بوڑھی قبر تمھیں کچھ نہیں بتائے گی

مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوںمیں

——

محبتوںکا سبق دے رہاہے دنیاکو

جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتا

راحت اندوری کی غزلوںمیں ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہیں جوقاری وسامع کے ذہن ودل،فہم وادراک کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں،اور انھیں سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ان کی غزلوں میں حق وباطل کا تصادم بھی ہے اور فرسودہ رسم ورواج سے انحراف بھی۔انھوں نے غزل کو ایک نیا مزاج،آہنگ اور لب ولہجہ عطاکیاہے،جو پوری طرح ان کا اپنا ہے۔انھوں نے غزل کو محدود دائروں سے نکال کر وسیع تر امکانات سے روشناس کرایا۔وہ ماحول اور انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ ومشاہدہ رکھتے ہیں       ؎

خبر نہیں کہ ہواکس طرف اڑالے جائے

ہماری نسل بکھرتا ہوا برادہ ہے

——

شاخ پر جتنے تھے پھل کوئی چراکر لے گیا

اورہم اخلاق کے پابند گنتے رہ گئے

——

بکھرگیاہوں میں املی کی پتیوںکی طرح

اب اور لے کے کہاں تک غرور جائے گا

راحت اندوری اپنی شاعری کے ذریعے وہ سارے نقوش ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں ان کا عہد کروٹیں لیتاہے۔انھوں نے اپنی غزلوںمیں عہد حاضر کے قوم کی صورت حال کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاہے،اوراس قوم کی ذلت وخواری اور پستی کے اسباب وعوامل کی نشاندہی اپنی شاعری کے ذریعے بخوبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اوریہ کام وہی شخص کرسکتاہے جس نے تہذیب کی شکست وریخت کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہو،ان کے یہاں ماضی کی نوحہ گیری نہیں بلکہ ماضی کو سمجھنے کی بصیرت ملتی ہے       ؎

بے حسی، مردہ دلی، رقص، شرابیں، نغمے

بس انھیں راہوں سے قوموں پہ زوال آتے ہیں

——

طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا

جس میں ڈیراتھا اسی مسجد میں تالے پڑگئے

——

یہی پرانے کھنڈر ہیں ہماری تہذیبیں

یہیں پہ بوڑھے کبوتر ہیں اور یہیں شہباز

راحت اندوری دورحاضر کے مشاعروں کے بے حد مقبول اور کامیاب شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل،عہدحاضر کے سیاسی وسماجی حالات اورعام آدمی کے دکھ دردکی ترجمانی ملتی ہے۔انھوں نے سماج کی بے حسی کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے کلام میں طنز کی سبک رولہریں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا لہجہ تیکھاہے،جبکہ ان کے شعری مزاج میں صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی پائی جاتی ہے،جو ایک سچے فن کار کی پہچان ہوتی ہے       ؎

میرے احباب کو جس وقت بھی فرصت ہوگی

اورتو کچھ نہیں ہوگا،مری غیبت ہوگی

——

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پر بھیڑیے

جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہوگئے

——

جنگ میں کاغذی افراد سے کیا ہوتا ہے

ہمتیں لڑتی ہیں تعداد سے کیا ہوتا ہے

راحت اندوری کی شاعری کی زبان عام فہم اورسلیس ہے۔ محاورے کا استعمال جابہ جا نظرآتاہے۔انھوں نے عوام وخواص دونوں کے معیار کو سامنے رکھ کر اشعار کہے ہیں۔ زبان وبیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ اس میں پرکاری کا عنصر بھی موجودہے۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پررونماہونے والے ہر اہم واقعات وحادثات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔بحیثیت ایک مصور،فن کار،شاعر،نغمہ نگار،دانشور اور مفکر وہ اپنی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ان کی شاعری تجربات ومشاہدات کی سنگلاخ وادیوں سے ہوکر گزرتی ہے        ؎

شام ہوتی ہے تو پلکوں پہ سجاتاہے مجھے

وہ چراغوں کی طرح اور جلاتاہے مجھے

——

روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ

جوتم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے

——

میں اپنی لاش لیے پھررہاہوںکاندھے پر

یہاں زمین کی قیمت بہت زیادہ ہے

انھوں نے کم وبیش ہر صنف سخن میں کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی،لیکن بحیثیت غزل گو شاعر کے ان کو امتیاز حاصل ہے۔ دورحاضر کی نئی غزل میں ان کی شاعری کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔انھوں نے لہجے کی نئی سمت اور فکر کے اچھوتے زاویے کو اپنی شاعری میں پیش کیاہے    ؎

پرانے داؤں پر ہردن نئے آنسولگاتاہے

وہ اب بھی اک پھٹے رومال پر خوشبو لگاتاہے

——

میں کالی رات کے تیزاب سے سورج بناتاہوں

میری چادر میں یہ پیوند اک جگنو لگاتاہے

——

مجھے زمین کی گہرائیوں نے داب لیا

میں چاہتا تھا مرے سر پہ آسمان رہے

راحت اندوری نے دانستہ یاغیردانستہ طورپر شاعری میں تجریدی آرٹ کے نمونے پیش کیے ہیں۔انھوں نے غزل کے مروجہ اصطلاحوں،تلمیحات اور استعاروں سے گریز کیا ہے۔ ان کی انفرادیت ان کی امیجری ہے،وہ لفظوں کے ذریعے اس طرح تصویر کھینچتے ہیں کہ اس کا عکس دکھائی دینے لگتاہے        ؎

فرشتے رنگ برساتے ہیں،موسم رقص کرتے ہیں

جب اڑتے بادلوں میں ہم تیری صورت بناتے ہیں

——

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتاہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتاہے

راحت اندوری نے اپنی شاعری میں ’سورج‘ اور ’پرندہ‘ کو ایک استعارہ کے طورپر پیش کیاہے۔ان کے مجموعۂ کلام میں ایسے سیکڑوں اشعار مل جائیں گے،جن میں سورج اور پرندہ بحیثیت استعارہ پیش کیاگیاہے۔یہ دونوں استعارے معنی خیز ہیں۔سورج روشنی کااستعارہ ہے، جبکہ پرندہ پروازکی علامت ہے۔ان کی شاعری میں سورج کہیں قدرت خداوندی کااستعارہ بنتاہے،توکہیں راحت ؔاندوری کی جدوجہد بھری زندگی کااستعارہ بنتاہے،توکہیں انگریزی قوم کے لیے استعمال ہواہے،توکہیں تہذیبوں کے نشیب وفراز اور قوموں کے عروج و زوال کی علامت کے طورپر استعمال ہواہے۔اشعار دیکھیں          ؎

دھوپ اور چھاؤں کے مالک مرے بوڑھے سورج

میرے سائے کو مرے قد کے برابر کردے

——

ابھی سورج صدادے کر گیا ہے

خدا کے واسطے بیدار ہوجا

——

پھول جیسے مخملیں تلوؤں میں چھالے پڑگئے

گورے سورج نے ہزاروںجسم کالے کردیے

——

——

کئی دن سے نہیں ڈوبا یہ سورج

ہتھیلی پر مری چھالا پڑا ہے

——

اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتاخواب

اور سورج کی طرح گھرسے نکل پڑتاہے

مختصرطور پر کہہ سکتے ہیں کہ راحت اندوری کا شمار دورحاضر کے ان مشہورومعروف شعرا میں ہوتاہے،جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے پوری اردودنیا پر حکومت کی ہے۔ وہ ایک بے باک اورنڈرشاعر ہیں اور انھوں نے زندگی میں کوئی سمجھوتہ نہیں سیکھا۔انھوں نے اپنی شاعری میں سیاسی، سماجی اورمعاشی مسائل کو سچائی کے ساتھ پیش کیاہے۔ ان کی شاعری میں روایت کا احترام، ترقی پسنداور جدید میلانات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ راحت اندوری نے غزل کی فکری سوچ کو جس سیدھے سادے،منفرد اور پروقار انداز سے پیش کیاہے،اسے دورحاضر کا آئینہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔


Mohd. Naushad Alam

Naional Translation Mission

Central Institute of Indian languages,

Manasgangotry, Hunsur Road

Mysore - 570006 (Karnatka)

Mob.: 9066099647

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں