7/1/21

’پیسہ اور پرچھائی‘ کے ڈراموں میں المناک تصویر- مضمون نگار سرفراز جاوید

 


محمدحسن معاصرین میں زبان وادب کا ممتاز شعور رکھتے تھے۔ وہ اردو ادب میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک دانشور، بڑے ناقد، ادبی مورخ، ڈرامہ نگار، ناول نگار، شاعر اور صحافی تھے۔اردو زبان وادب میں ان کی نگارشا ت استناد کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی گراں قدر علمی وادبی خدمات توجہ طلب ہیں۔ ان کی اعلیٰ تخلیقات اور تنقیدی آرأکی معنویت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ان کے یہاں بے جا لفاظی اور ادعائیت نہیں ہے۔ وہ ترقی پسند نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ انھوں نے اپنے انتقاد ی مضامین میں معتدل طرزفکر سے کام لیا ہے۔ وہ ایک تخلیق کاربھی ہیں۔انھیں اردو ڈرامہ نگاری میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ اردو ڈرامہ نگاری کوان کے ڈراموں نے اعتبار ووقار عطا کیا ہے۔یہی وجہ ہے ان کے ڈرامے اپنی اہمیت و معنویت کی رو سے اردو نصاب کا حصہ بھی بنے ہیں۔ ان کے بیشتر ڈرامے فکروفن کی معراج ہیں۔ان میں انسانی جذبہ و احساس اورمعاشرے کی بڑی خوب صورت ترجمانی پائی جاتی ہے۔

پروفیسر محمدحسن کی ڈرامائی تخلیقات کا آغاز ترقی پسند افکار و خیالات کے ماحول میں ہوا۔ یہی وجہ ہے ان کی تخلیقات میں ترقی پسند تحریک کی اجتماعی فکر کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ زیرقلم مضمون میںخاص طور سے ان کے ریڈیائی ڈراموں میں ابھری المناک اور تشویشناک تصویرکو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ انھوں نے ریڈیائی ڈراموں کی تخلیقات سے قبل روزی روٹی کے لیے معروف انگریزی اخبار پائنیر میں نائب مدیر کی حیثیت سے کام شروع کیاتھا۔ اسی دوران ریڈیو لکھنؤ سے وابستہ ہونے کابھی موقع میسر آیا۔ تو ان کا طبعی میلان ڈرامے اور ریڈیو فیچر لکھنے پرمتوجہ ہوگیا۔ ان کے ڈرامے اور فیچر لکھنؤ ریڈیو سے نشر ہونے لگے۔ تو ان کا تخلیقی جوہر پروان چڑھنے لگا۔جس سے ان کو ڈرامہ نگاری کے میدان میں وقار اور استحکام حاصل ہوگیا۔

 محمدحسن نے نوجوانی کے دوران ڈرامہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔لیکن اس عمر میں بیدارمغزی کا یہ عالم کہ ان کی تخلیقات فکروفن کے ساتھ بہتر معاشرے کی تشکیل کا خواب سجوئے ہوئے تھیں۔یہی سبب ہے ان کے عہد جوانی کی تخلیقی نگارشات بھی اپنے دور کی ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی صورت حال کی بھرپور تصویرکشی کرتی ہیں۔ کیونکہ ان میں بنی نوع انسان کی معاشرتی زندگی کے عصری مسائل کا عکس پایا جاتا ہے۔ ان کے ڈراموں کے مطالعے سے قارئین کی فکر کو تقویت ملتی ہے۔ مزید غوروفکر کے ذہنی در بھی واہوتے ہیں۔ اور قاری کی معاشرتی مسائل پر توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔ محمدحسن نے بیشتراپنی تخلیقات میں خاص طور سے اظہارِ ذات پر سماجی مسائل و معاملات کی ترجمانی کو مقدم رکھا ہے۔ ڈرامہ نگاری میں ان کی پہچان 1955میں ریڈیائی ڈراموں کے مجموعہ ’پیسہ اورپرچھائیں‘ کے منظرعام پر آنے سے ہوئی۔ اس مجموعے میں 9ڈرامے ہیں۔ یہ تمام ڈرامے اپنے موضوعات اور فکر کے اعتبار سے امتیاز کے حامل ہیں۔ جن میںسماجی زندگی کے مسائل کے ساتھ تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اموربھی پائے جاتے ہیں۔

دراصل بنی نوع انسان کی حیات و زیست میں المیہ کا بڑاگہرا تعلق ہے۔کیونکہ بیشتر حادثات وسانحات انسان کو المناک و افسوسناک انجام سے دوچارکرتے ہیں اور یہ خاکی بشر منھ تکتے ہوئے قدرے حیرت وافسوس کی کیفیت کا مجسمہ بن کررہ جاتا ہے۔ ’پیسہ اور پرچھائیں ‘ مجموعے کے تمام ڈرامے فکر وفن اور معنویت کے اعتبار سے بڑے اہم ہیں۔ اس  کے بیشتر ڈرامے المناک و افسوسناک واقعات پر انجام کو پہنچے ہیں۔ ’پیسہ اور پرچھائیں ‘ ڈرامہ موضوع کے اعتبار سے پیسے کی اہمیت کو پیش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مادی عیش و آسائش کے وسائل انسان پیسے کی بدولت حاصل کرتا ہے۔ مگر انسانی زندگی کی خوشی کے لیے بہت سے وسائل پیسے سے بھی فراہم نہیں کیے جاسکتے۔

اس ریڈیائی ڈرامہ میں رامو، رگھو، بیدار بخت اور ریحانہ اہم کردار ہیں۔ بیدار بخت اپنی ہم جماعت دوست ریحانہ کے عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اسے اپنی رفیق حیات بنانے کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ اسے خالی محبت کے سہارے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ریحانہ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہے۔وہ اپنے خیالی منصوبہ کے تحت اس سے ملاقات کی خاطر بمبئی کے ایک ہوٹل میں وقتی قیام کرتا ہے۔ اس کے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کے لیے پیسے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔مگر وہ منیجرکو منی آرڈر کے آنے کا فریب دے کر،ہوٹل میں مزیدکافی وقت قیام پذیر رہتا ہے۔ ریحانہ رئیس باپ کی بیٹی ہے جو مادی عیش وآرائش کی دلدادہ ہے۔ دنیاداری کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔وہ بیدار بخت سے دورانِ تعلیم کالج میں گہری دوستی رکھتی تھی۔کیونکہ بیدار بخت سول امتحان کی تیاری کرتا تھا۔ریحانہ کو یہ امیدبھی تھی کہ وہ سول کے مسابقتی امتحان میں کامیاب ہو کراچھے عہدے پرفائز ہوجائے گا۔ اسی کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے اس نے دوران تعلیم بیدار بخت سے ازدواجی زندگی میں منسلک ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا۔بیدار بخت عشق اور وعدہ کے باعث اس کاپیچھا کرتا ہے۔مگر دونوں کے لیے یہ وعدہ خواب بن کر رہ گیا۔ ریحانہ ہوٹل میں اس سے ملنے کے لیے ضرور تشریف لاتی ہے۔ مگر وہ اب اس کی رفیقہ حیات بننے سے انکار کردیتی ہے۔کیوں کہ ریحانہ کو عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے لیے وافر دولت تو کجا روزی روٹی کا معقول ذریعہ بھی نظر نہیں آتا۔ بیدار بخت داستانی کردار کی طرح محنت مزدوری سے اسے شہزادی بنانے کا بھروسہ دلانے کی کوشش کرتا ہے۔مگر ریحانہ آدمی کی عام معاشرتی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ کیونکہ دنیا میں دولت و پیسہ سے عیش و عشرت کے بہت سے وسائل آسانی سے میسرآجاتے ہیں۔ بیدار بخت کی حیثیت ایک کنگال شخص کی سی ہے۔ایسے میں ریحانہ کا رویہ اوردو ٹوک جواب بیدار بخت کو بڑی المناک صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ ریحانہ کے جوابی مکالموں پرتوجہ دیجیے:

ریحانہ:وہم نراوہم۔ تم خوابوں کی وادی میں چل رہے ہو اور سوتے میں چلنا خطرناک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریحانہ: اب تم بے کار ہو۔ نوکرہوبھی جاؤ تو دوتین سوروپیے کے۔ میں اپنے سارے شوق، آرٹ، حسن مطالعہ اور سیر وتفریح سب کو دفن کرکے صرف تمہاری محبت کا وظیفہ پڑھوں کیا۔ تم اسے پسند کروگے؟

( کلیات،محمد حسن کے ڈرامے،مرتب،انورپاشا، ص52)

عاشق کو معشوق کی ایسی باتیں کس قدرتکلیف دہ ہوتی ہیں۔ وہ دولت کی کمی کے باعث محبوب کو پانے میں مجبورمحض ہے۔عاشق کی کنگالی محبوب کے روکھے پن اور بے وفائی سے سامناکراتی ہے۔جو عاشق کے دل ودماغ میں المناک صورت حال پیداکرتی ہے۔ مزید جس میں محبوب کی صرف خودغرضی اور مادہ پرستی شامل ہو۔ توایسی باتیں سن کر عاشق کو کتنا افسوس ہوگا۔نوجوان بیدار بخت کو ریحانہ کی طرز فکر سے گہرا صدمہ پہنچتا ہے۔ وہ پیسے کی خاطر مجبور محض جیب کتروں کے گروہوں کی معاونت کرتا ہے۔ جس سے ایک روز اس کے پاس بہت ساری رقم آجاتی ہے۔ وہ پھر ریحانہ کو ہوٹل میں ملاقات کے لیے مدعو کرتا ہے۔ وہ ملنے آتی ہے تو بیدار بخت کے پاس کافی رقم دیکھ کر پگھل جاتی ہے۔اور بیدار بخت کے تعلق سے اپنی رائے بھی تبدیل کرلیتی ہے۔ریحانہ میںیہ تبدیلی دولت اور عیش و نشاط کے خواب کی خاطرآتی ہے۔ مگر ریحانہ کی طرز فکر کی بدولت بیدار بخت کا باطن قطعی تبدیل ہوجاتا ہے۔کیونکہ وہ خودغرض، لالچی اور مادہ پرست دوشیزہ ہے۔جومحبت پہ دولت وپیسے کو فوقیت دیتی ہے۔ بیدار بخت کے ذہن میںریحانہ کے مادہ پرست اور خودغرضانہ رویے سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ریحانہ  سے مخاطب ہوکر دوٹوک انداز میں اس کی ذہنیت کی تصویر پیش کرتے ہوئے اپنا عندیہ ظاہرکرتاہے:

نوجوان:پہلا راز، کہ روپیہ کا یہ انبار تمہاری ان مسکراہٹوں اور عنایتوں کو خرید سکتا ہے،جن کا میں نے تمام عمر کی عبادت سے سودا کرنا چاہا تھا اور ناکام رہا اور آج جب تمھارا حسن میرے سامنے ایک بکنے والا مال تجارت ہو گیاہے اورایک بھکاری کی طرح سجدہ ریز ہے، مجھے تم سے نفرت ہے۔ وہ پاک جذبہ مرچکا ہے، جو ہمارے لیے پھولوں کی زنجیر بنا ہوا تھا۔ وہ ریحانہ جو میرا خواب تھی، آج مرگئی۔‘(ایضاً، ص63)

ڈرامہ نویس نے تخیل کے ذریعے بیدار بخت عاشق سے ریحانہ کے باطن کی ایسی تصویرکشی کرائی ہے کہ اس کا جوخواب دولت کی بدولت اتارچڑھاؤ یعنی رنگ بدلتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں کو بروئے کار دیکھ رہی ہوتی ہے۔ لیکن عاشق اس کے روبرو اس کی باطنی حقیقت بیان کرتا ہے۔ توریحانہ اپنے خوابوں کو براہ راست ٹوٹتا ہوا دیکھتی ہے۔یہ واقعہ اس کے لیے المیہ ثابت ہوتا ہے۔

اس ریڈیائی ڈرامہ میں رامو کا کرداربڑی اہمیت کاحامل ہے۔ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بمبئی شہر جاتا ہے۔ وہ وہاں محنت و مشقت سے روزی روٹی کماتا ہے۔ مگرسوئے اتفاق کارخانے میں ملازمین کی چھٹنی کے باعث اسے باہر کا راستہ دیکھنا پڑتا ہے۔ رامو کے لیے نوکری کا چھوٹنابڑی پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔کیونکہ اسے روزی روٹی کی فراہمی کے ساتھ ماں کی دواداروبھی کرانی ہوتی ہے۔وہ نوکری چھوٹنے کی وجہ سے مقروض ہوجاتا ہے۔اسے ماں کے علاج میں بھی انتہائی دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ وقت پر ماں کی دوادارو بھی نہیں کراپاتا۔ وہ پریشانی کے عالم میںمجبورمحض ہوتا ہے۔ تواسی دوران اس کی ملاقات رگھو سے ہوجاتی ہے۔ وہ اس کی چال کے آس پاس ہی رہتا ہے۔وہ ایک دوسرے سے شناسا بھی ہیں۔ مگر رامو کو رگھو کے پیشے سے قطعی واقفیت نہیںہے۔ رگھورامو سے ملاقات کے بعداس کی ابتر حالت سے واقف ہوجاتا ہے۔ تو وہ نہ صرف اسے کام دلانے کی بات کرتا ہے بلکہ انسانی اوراخلاقی بنیاد پراسے کھانا کھلاتا ہے۔ مزید خرچہ کے لیے کچھ روپیے بھی دے دیتا ہے۔ رامو اس کے حسن معاملات سے بہت خوش ہوتا ہے مگر جب اسے کام کے تعلق سے معلوم ہوتا ہے تووہ غیراخلاقی اور برے پیشے کے باعث نہ صرف رگھو سے منع کرتا ہے بلکہ اس کی رقم بھی لوٹادیتا ہے۔ مگر رامو دوچار دن میں ہی کام نہ ملنے، ماں کاعلاج نہ ہونے اور قرض خواہوں کے تقاضوں سے تنگ آکر پھررگھو کے پاس جاتا ہے۔جس کی رگھو کو بھی امید تھی۔رامو جیب تراشی کا پیشہ کرنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اس دھندے میں ملوث ہو جاتا ہے۔تو وہ اس پیشے کے سبب دیر سویر گھر پہنچنے لگتا ہے۔ تو ماں اس سے ایک دن معلوم کرتی ہے کہ بیٹا آج دیر سے کیوں آیا ہے؟ وہ بیمار ماں سے ادھر ادھر کے بہانے بنا دیتا ہے۔مگرایک ماں بیماری کی حالت میں بھی بیٹے کے چال چلن پر توجہ دیتی ہے۔ اوربیٹے کو کسی غلط پیشے میں ملوث نہ ہونے کی نصیحت بھی کرتی ہے۔لیکن رامو اپنی ضروریات زندگی اور ماں کی دوا دارو کے لیے مجبوراًیہ پیشہ اختیار کرلیتاہے۔جب وہ ایک روز موٹی رقم مارنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو وہ ماں کی دوا دارو اچھے ڈھنگ سے کرانے کے بارے میں غوروفکر کرتا ہے اور بہت خوش ہوتا ہے۔ اس کے دماغ میں بہتر خیالات ابھرتے ہیں۔ وہ اب اس پیشے سے تائب ہو کر کوئی اپنا کام کرکے اچھی زندگی گزربسر کرے گا۔ مگرجب وہ گھر پہنچتا ہے تواس کی ماں دوا نہ ملنے کے باعث مرجاتی ہے تو اسے انتہائی صدمہ ہوتا ہے۔ رامو کو ماں کی موت ایک المیہ کی صورت سے دوچار کر تی ہے۔ رامو جس فعل کو برا سمجھتا تھا مگر مجبوری میں اسے اختیار کرنا پڑا۔ماں کی موت پراس کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔تو وہ اپنے جرم کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے:

رامو:ماں جی مرگئی۔ اپن نے اسے مارڈالا۔ انسپکٹر صاحب اپن نے اسے مار ڈالا۔ ہمیں پھانسی دے دو۔ ہم جیب کاٹ نہیں ہے۔ خونی ہے۔ بھگوان قسم ہم خونی ہے۔ اپن تم سے بھیک مانگتا ہے۔ انسپکٹرصاحب ہمیں پھانسی دے دو بھگوان کے لیے پھانسی دے دو۔‘(ایضاً، ص64)

ڈرامہ’سرخ پردے‘ میں ریحانہ، نصیبن، جاوید، وقار، نواب اور بیگم کے کردار ہیں۔ ڈرامے کا موضوع اشرافیہ طبقے کے زمیندار گھرانے کا جھوٹاوقار و عظمت ہے۔ وہ سماج میں خاص مقام کے غرورمیں بہن بیٹیوں اوراولاد کے رشتے تنگ دستی کی حالت میں بھی معاشرتی معیارکے اعتبار سے کمتر ذات والے،مرفہ الحال اشخاص کے یہاں کرنا بھی گوارا نہیں کرتے، لڑکیاں دوشیزگی میں ہی عمر گزاردیتی ہیں اور جوانی کی آسودگی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بھی خاندانی شرافت وعزت کے فریب میں چہاردیواری کی گھٹن میں مرجاتی ہیں۔ ریحانہ کی بہن دولت مند بوڑھے شخص کی زوجیت پر خود کشی کو ترجیح دیتی ہے۔یعنی وہ خاندان کے جھوٹے وقار کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ جس کی روح آسیب بن کر حویلی کے ایک کمرہ میں اثررکھتی ہے۔عموماً اس کمرے میں جانے والے پر بھی اثر ہوجاتا ہے۔ آواز کے ذریعے ریحانہ کی بہن کا المیہ سنیے:

آواز: تومیری جوانی بیت چکی تھی اور میں نے اس بوڑھے دولت مند کے ہاتھوں بکنا پسند نہیں کیا اور خودکشی کرلی (ہنستی ہے) مگر یہ سب باتیں تو معلوم ہیں اور اب (طنزیہ ہنسی) اور اب تمہاری جوانی بیت رہی ہے۔ تمھارا راستہ بھی شاید وہی ہے جو میرا تھا۔ نصیبن بوا سچ کہتی ہیں۔ اس گھر میں شہنائیاں نہیں بجیںگی۔ یہاں کسی کاسہاگ نہیں سجے گا۔ آؤ میرے راستے پر آؤ (قہقہہ) آؤ، برات میرا انتظار کررہی ہے۔‘ (ایضاً، ص 67)

ریحانہ اپنے خوابوں کے مسیحا جاوید کی خاطر نصیبن بوا کی بات کو نظر انداز کردیتی ہے اور کمرے کو درست کرنے چلی جاتی ہے جو کافی عرصے سے بند ہے۔ ریحانہ اس کمرے میں جانے کے بعد آسیبی اثر کے باعث بے ہوش ہوکر گرجاتی ہے۔ تواس کے پاس نصیبن، بیگم، وقار اور گھر کے بہت سے افراد جمع ہوجاتے ہیں۔ وہ سب اس کے لیے دعا کرتے کراتے ہیں۔ ریحانہ ہوش میں آجاتی ہے۔تاہم جاوید کے رہنے سونے کا انتظام اسی کمرے میں کردیا جاتا ہے۔ نصیبن بوا اپنی عادت وفکر سے مجبورجاوید کو کمرے میں اثر ہونے کے تعلق سے سب باتیں گوش گزارکرتی ہیں۔ جاوید ان کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔لیکن جب وہ کمرے میں محواستراحت ہوتا ہے تو اسے وہی آواز سنائی دیتی ہے۔ جو ریحانہ کی مرحوم بہن رضوانہ کی ہوتی ہے۔ وہ جاوید سے مخاطب ہوکر گھر کے ماحول یعنی ریحانہ کی جوانی کی گھٹن اور وقار کی عیاشی سے باخبر کردیتی ہے۔ جیسے ہی جاوید خواب و نیند سے بیدار ہوتا ہے۔ تو اس کے خوابوں کی رانی ریحانہ چائے لے کر حاضر ہوجاتی ہے۔ دونوں میں مختصراً رسمی گفتگو ہوتی ہے۔ وہ جلد ہی اصل مدعے پر آجاتے ہیں۔ یوں تو ریحانہ کمرے کے اثر و آسیب سے متعلق باتیں پردئہ خفا میں رکھنا چاہتی ہے۔ مگر جاوید کے اصرار پر کمرے سے وابستہ رضوانہ بہن کے المیے کی کہانی اشارے وکنایے میں بیان کردیتی ہے:

ریحانہ :یہ سرخ پردے، یہ باسی پھول، یہ مسہری (آہستہ آہستہ کہتی ہے)

 یہ سارا کمرہ مجھے رضوانہ بہن کی یاددلاتا ہے اورجب پچھلی بار یہاںآئی تو۔

جاویدـ:توکیا ہوا؟

ریحانہ:تومجھے یکایک ان کی شادی یادآئی، وہ ان کے دکھ اور ان کی خوف ناک موت یادآئی۔‘ (ایضاً، ص 77)

جاویدگفتگو کے دوران ریحانہ سے بڑے مبہم انداز میں باہم شادی کے لیے پیش کش کرتا ہے مگر وہ اس کی بات سمجھ نہیں پاتی۔اسی اثنا میں ریحانہ کا بھائی وقار فاتحہ کی رسم میں شرکت کے لیے انھیں بلانے آجاتا ہے۔ جاوید وقار کو کچھ دیر بیٹھنے کے لیے بولتا ہے اور اپنے دل کی بات یعنی ریحانہ سے اپنی شادی کے متعلق عرض کرتاہے۔وقار خاندانی عزیزداری کی نسبت کی نزاکت سے یہ سن کر ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ وہ والد نواب صاحب سے دونوں کے باہمی انس و محبت کے بارے میں بتا دیتا ہے۔ نواب صاحب یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران جاوید بھی تشریف لے آتے ہیں۔ تو نواب صاحب اورجاوید کے مابین بہت سی تلخ باتیں ہوتی ہیں۔ نواب صاحب ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جاویدسے چلے جانے کو کہہ دیتے ہیں۔ تو جدید تعلیم یافتہ نوجوان جاوید نواب صاحب کوان کی جھوٹی اخلاقیات کے لیے آئینہ دکھاتاہے:

نواب:چلے جاؤ جاوید۔

جاوید: تمھارے قانون؟ تمھارے اخلاق یہ سب فریب ہیں، تم انسان کو جکڑنے کے لیے زنجیریں بناتے ہو اور انھیں خوبصورت نام دیتے ہو۔ اخلاق، مذہب، رسم و رواج، بس یہی تو ہے تمہاراسماج۔ مجھے بدبو دار لاشوں سے ڈرنہیں لگتا۔ میں صرف ان سے نفرت کرسکتا ہوں۔۔ــ آؤ ریحانہ چلیں۔‘ (ایضاً، ص 82)

ڈرامہ نویس نے اپنے ترقی پسند نقطۂ نظر کے باعث نوجوان نسل کی فرسودہ رسم ورواج سے بغاوت کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس قضیے کو بڑے فن کارانہ انداز میں ایسا موڑ دیاہے کہ نواب صاحب کی بیگم ان کو بہت سے واسطے دے کر منانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔مگر نواب صاحب اپنے جلال و جمال میں رام ہونے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ بیگم صاحبہ کا منت سماجت کرتے ہوئے ہی انتقال ہوجاتا ہے۔ ان کی موت کا غیر متوقع المناک واقعہ نواب صاحب کی قلب ماہیئت کردیتا ہے۔مگر نواب صاحب کی باطنی تبدیلی کے عملی اظہار سے قبل ایک شریف بیٹی جو کبھی باپ کے سامنے اف تک نہیں کرتی تھی۔وہ والدہ کی موت پر والد کے دوبدوتلخ لہجے میں گویاہوتی ہے:

ریحانہ: (سسکیاں بھرکرروتے ہوئے) تم نے انھیں مارڈالا۔ نواب صاحب، تم نے میری ماں کی جان لے لی۔ خاندان کی عزت کے رکھوالے، تم انھیں زندگی بھر خوش نہ کرسکے۔ ان کو عمربھرجلاتے رہے۔ ان کو اپاہج کرکے بھی تمھیں چین نہیں آیاتھا۔

لواب توچین آگیا... میری امی... میری امی... میری امی!!‘(ایضاً، ص 84)

جاوید موقع کی نزاکت کافائدہ اٹھاتے ہوئے چچی بیگم کے سانحہ ارتحال پر ان کو بڑے سنجیدہ اور پراثر الفاظ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہے:

جاوید:چچی،محترم خاتون! تمھاری روح کو لاکھ لاکھ سلام، تمہارا جسم عمر بھر پتھر کی دیواروں میں قیدرہا، لیکن تمہارے پہلو میں ایک مغل کادل تھا، جسے کوئی فتح نہ کرسکتا تھا۔‘ (ایضاً، ص 84)

نواب صاحب بیگم کی حادثاتی موت پرایک حقیقی احساس سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ قلبی طور پرحسرت وافسوس کااظہار کرتے ہیں۔ مزید احساس جرم انھیں شرمندہ بھی کرتا ہے۔ وہ بیگم کی خواہش کے مطابق اسی وقت ریحانہ کاہاتھ جاوید کے ہاتھ میں بطور رفیقہ حیات تھمادیتے ہیں۔ نواب صاحب یہ نیک کام بیگم کے خاکی جسم کو مخاطب کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں:

نواب:بیگم بیگم، تم نے آج ہماراساتھ چھوڑدیا اورہم تمھاری آخری خواہش بھی پوری نہ کرسکے۔ ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے تاکہ تمہاری روح کو سکون مل سکے۔

جاوید اپناہاتھ لاؤ، ریحانہ بیٹی!

ریحانہ:جی!

نواب:اپناہاتھ دو۔ لو بیگم ہم تمہارے سامنے ان دونوں کے ہاتھ ملاتے ہیں۔

تم انھیں دعادو۔‘ (ایضاً، ص 84)

سونے کی زنجیریں‘ یہ ڈرامہ موضوع کے اعتبار سے آصف الدولہ کے اودھ کے پرآشوب دور کی المناک وافسوسناک صورت حال کو پیش کرتا ہے کیوں کہ اس عہد میں ایسا قحط پڑا، جس میں روزی روٹی کے لیے اشراف واجلاف کابُراحال تھا۔ لکھنؤ کے بہت سے اشرافیہ اشخاص بھی رات میں چھپ کر محنت و مزدوری کرنے پر مجبور تھے۔

نظیراکبرآبادی اورنقش فریادی ڈرامے اردوادب کی تاریخ کے دوبڑے شاعروں کی حیات و شخصیت کی مختصرعکاسی کرتے ہیں مگران میں المیے کی کوئی صورت حال پیش نہیں آتی۔اکبراعظم بھی اکبر کی رواداری اورانسانیت دوستی کا مظہر ہے۔ اس میں بھی کوئی المناک واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔’انسپکٹر جنرل‘ ڈرامہ میں بھی کوئی المناک واقعہ نہیں ہے۔ ہاں شہرکامیئر اورسرکار کے کارکنان ایک شخص کو انسپکٹر جنرل سمجھ کرنفسیاتی دباؤ میں فریب کھاکر ضرور ٹھگے جاتے ہیں۔

حکم کی بیگم‘ المیے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ جس میں تاش کے پتوں کے کھیل کی بازی کے ذریعے روپیہ داؤ پر لگایا جاتاہے۔ ڈرامہ میں ایک بوڑھی عورت کاؤنٹس کا اہم کردار ہے۔ وہ ایک روز بڑی رقم تاش کے کھیل میں ہارجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے اس کی ادائیگی کے لیے کہتی ہے مگر وہ اس بڑی رقم کی ادائیگی سے صاف انکار کر دیتا ہے۔کاؤنٹس اپنے ایک دوست کے یہاں بطور ادھار رقم کے لیے جاتی ہے۔وہ اس کو رقم دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ مگر وہ شخص کاؤنٹس کی ہمدردی میںرقم دینے کے بجائے اس کو تاش کے پتوں کاایک ایسا راز بتاتا ہے۔ جس کے ذریعے کاؤنٹس تمام ہاری ہوئی رقم دوبارہ جیت لیتی ہے۔

 ڈرامہ میں ہرمان نام کاایک کردار تاش کھیلنے والوں کے پاس بیٹھ کر ان کاکھیل دیکھتا ہے مگرعملی طور پر تاش نہیں کھیلتا اورنہ ہی کسی بازی میں داؤ پر کوئی رقم لگاتا ہے۔ جب  ایک روز اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھی کاؤنٹس کے پاس تاش کے پتوں کاایساراز ہے کہ کھیلنے والا کبھی بازی نہیں ہارتا۔ وہ اس رازکو جاننے کے لیے بیتاب ہو جاتا ہے۔وہ کاؤنٹس کے محل تک رسائی کے لیے تدبیر کرتا ہے۔ وہ بوڑھی کاؤنٹس کی خادمہ سے عشق لڑاتا ہے۔ وہ اپنی محبت میں کسی نوجوان کو پہلی بار دیکھتی ہے۔تو اندرونی طورپر اچھا محسوس کرتی ہے۔وہ فریب عشق میں ہرمان سے ملاقات کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔وہ ملاقات کی خاطر ہرمان کو محل میں رسائی کی تدبیر اور وقت بتاتی ہے۔ وہ اپنے منصوبے کے مطابق بڑا رسک لیتا ہے۔ مگر محل کے اندر کاؤنٹس کے کمرہ میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جب دیررات کاؤنٹس ایک پروگرام سے واپس آتی ہے۔ وہ کمرے میںجیسے ہی بستر پر لیٹتی ہے تو ہرمان کاؤنٹس کے پاس پہنچ کر رازمعلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ شروع میں بہت منت سماجت کرتا ہے۔ مگر وہ بتانے کے لیے راضی نہیں ہوتی،تووہ آخرمیں پستول سے ڈرا کر راز اگلوانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ بوڑھی کاؤنٹس خوف کھا کربغیر راز بتائے مرجاتی ہے۔ ہرمان کاؤنٹس کی حادثاتی موت سے بے حددکھی ہوتا ہے۔وہ حسرت وافسوس کے عالم میں ذہنی اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ اسی ذہنی کیفیت کے عالم میں کاؤنٹس کی تجہیز وتکفین کے موقع پرآخری دیدار کے لیے پہنچتا ہے۔تو وہ وہاں پر ذہنی کرب کی تاب نہ لاکربے ہوش ہو کر گرجاتاہے۔ یہ حادثہ اس کے دل ودماغ پر اس قدر اثرکرجاتا ہے۔کہ وہ ہر وقت حسرت و افسوس کی حالت سے دوچار رہتا ہے۔ ہرمان کے اس قدرپچھتاوے اور توبہ کے باعث ایک روز بوڑھی کاؤنٹس اس کے خواب میں حاضر ہوتی ہے۔ تووہ اسے نہ صرف معاف کرتی ہے بلکہ تاش کے پتوں کاراز بھی بتادیتی ہے۔  وہ اس روز سے کسی قدر معمول کی زندگی گزارنے لگتا ہے۔مگراپنے لائحہ عمل کے تحت دیرینہ عیش وعشرت کی خواہش کو بروئے کار لانے کے لیے تاش کے کھیل میں بازی لگانے کاموقع تلاش کرتاہے۔ جواسے مل بھی جاتا ہے۔ وہ دودن میں ستّا اوراکّا کے دائوپرموٹی رقم کی بازی جیت لیتا ہے۔ جس کا شہرہ پورے شہر میں پھیل جاتا ہے۔ تیسرے روز پھر ہرمان اپنے راز کے مطابق ایک بڑی رقم کو داؤ پرلگاتا ہے اورغیر متوقع طور پرچشم زدن میں بازی ہار جاتا ہے۔وہ اس ناکامی کے باعث حسرت و افسوس کامجسمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ڈرامہ نویس نے ہرمان کی کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

ہرمان: حکم کی بیگم، حکم کی بیگم، اکّانہیں آیا، اکّا نہیںآیا تیرے پاس، حکم کی بیگم اوہو، دیکھو کیسی آنکھیں چڑھاتی ہے حکم کی بیگم۔ ڈائن چڑیل، بڑھیا، حکم کی بیگم، کاؤنٹس (قہقہہ) بڑھیا نے مجھے دھوکا دیاہے۔ (قہقہہ) تریا۔

ستا، اکّا،تریا۔ ستا، اکّا، بیگم (قہقہہ) کاؤنٹس، کاؤنٹس (بہت زیادہ چیخ کر) تریا، ستا، اکّا، تریا، ستا، حکم کی بیگم۔‘(ایضاً، ص 186)

ڈرامہ نویس نے انسانی نفسیات کے ایک ایسے پہلو کی تصویرکشی کی ہے۔ جس کو وہ  عیش و عیاشی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ وہ دولت کے حصول کے لیے بہت ہی سہل طریقہ بروئے کارلانے کاخواہش مند رہتا ہے۔ ہرمان تاش کے کھیل یعنی اس جوئے کے ذریعے بڑی دولت کماناچاہتاہے۔وہ اپنے لائحہ عمل کے مطابق تاش کے پتوں کا راز پابھی لیتا ہے۔ مگر وہ سوء قسمت ایسے انجام کو پہنچتا ہے جو نہ صرف ا س کے خوابوں کوچکناچورکرتا ہے۔ بلکہ اس کی زندگی تباہی وبربادی کے المیے کی تصویر بن کررہ جاتی ہے۔وہ اب جس کی بھرپائی نہیں کرسکتا۔

معماراعظم‘ ڈرامہ اپنے انجام کے اعتبار سے المیہ کی صورت حال پیش کرتا ہے۔ جس میں سول نس معمار اعظم کا کردار ہوتا ہے۔وہ اپنے مالک کی بدقسمتی سے اس کے کاروبار  کا مالک بن جاتاہے۔ سول نس کی قسمت کاکرشمہ کہیے کہ اس کا سابق مالک برودک اور اس کا بیٹاراگ نر بھی اس کے یہاں کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔در حقیقت دونوں باپ بیٹے ہی اس کے کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہوتے ہیں۔ وہ برودک کے بیٹے راگ نرکو اپنے کاروبار سے کسی بھی طرح مستعفی نہیں کرناچاہتا۔ جب کہ برودک نے متعدد باراس سے یہ التجا بھی کی ہے۔کہ وہ بیٹے راگ نر کے بارے میں چند تعریفی کلمات لکھ دیں،تو وہ اپنا الگ کام کر لے۔سول نس اس بات پراپنے سابقہ مالک برودک سے خفگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا یہ رویہ برودک کے لیے ایک المیہ ہی کی مانند ہوتا ہے۔ جو شخص اس کے یہاںکبھی نوکری کرتا تھا۔وہ آج ایک بڑا معمار بن کراپنے سابقہ مالک کو غصہ دکھاتے ہوئے،راگ نر کی صلاحیت کے برعکس عیارانہ طور پرکس طرح باتیں بناتا ہے۔:

سول نس! (غصے میں)توکیا تم سمجھتے ہو، وہ الگ کام چلانے کے قابل ہوگیاہے۔ اسے ابھی کچھ بھی تونہیں آتا۔ میرے پاس رہ کراسے تھوڑا بہت نقشہ کشی تو آگئی ہے مگر اسی سے توکام نہیں چل سکتا۔‘(ایضاً، ص 189)

سول نس یہ رویہ برودک کے ساتھ اپنے کاروبار کی بقا کے لیے روا رکھتا ہے۔ برودک اس کے اس رویے سے دکھی ہوتا ہے۔ اس کا ضمیر سول نس کے اس سلوک کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اس کو اس کا ماضی یاددلاتے ہوئے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتاہے:

برودک: مسٹرسول نس، جب آپ میرے دفتر میں کام کرتے تھے تو آپ بھی کاروبار کے بارے میں اتنا ہی جانتے تھے مگراس کے باوجود اپنا کاروبار چلانے میں کامیاب ہوئے (مشکل سے سانس لے کر) اور آپ نے آگے بڑھناچاہا، میرے کاروبار کو تہس نہس کرکے میرے اورمیرے ایسے بہت سوں کو پاؤوں تلے کچل کر تو آپ آگے بڑھے تھے۔‘(ایضاً، ص 189)

سول نس نے تعمیراتی کام میں بہت شہرت پائی۔ اس نے بہت سے گرجوں کے بلند مینار بھی تعمیر کیے۔ ان پرچڑھ کر ہار بھی پہنائے، ایک گرجا کے ہار پہنانے کے دوران ہلڈانام کی چھوٹی سی لڑکی اس کی انتہائی عقیدت مندہوجاتی ہے۔ جب ہلڈا نے ہار پہنانے کی رسم کے دوران سول نس سے ملاقات کی تھی۔ وہ اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ سول نس نے اسے اپنی شہزادی کہہ کر مخاطب کیاتھا۔مزید اسے شہزادی بننے کی خاطر دس سال انتظار کرنے کے لیے کہاتھا۔اس نے حسن عقیدت دس سال انتظار کیا۔اس کے بعد وہ ایک روز اچانک سول نس کے دفتر پہنچ جاتی ہے۔وہ سول نس کو ماضی کی کچھ باتیں یاد دلاتی ہے۔ سول نس اثبات میں ہامی بھرتا ہے۔وہ اپنی کمزور سرشت اورلڑکی کی فریفتگی کے باعث خود اس پر فریفتہ ہوجاتاہے۔یوں تو وہ بوڑھے برودک کی درخواست پر راگ نر کے بارے میں تعریفی کلمات لکھنے سے گریز کرتا ہے۔ مگرہلڈا کے کہنے سے لکھ دیتا ہے۔ہلڈا اپنے معمار اعظم کو حسن عقیدت، گرجے کے مینار کی بلندی پر پھردیکھنے کی خواہشمند ہے۔سول نس ازراہ عشق ہلڈاکی بات کو لبیک کہتا ہے۔ اس تعلق سے ہلڈا کی راگ نر سے گفتگو ہوتی ہے۔تو راگ نر وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ بلندی پرچڑھ نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی طاقت انھیں بلندی پرچڑھا سکتی ہے۔ ہلڈا بھی یقین کے ساتھ کہتی ہے کہ میرامعمار اعظم بلندی پر چڑھے گا اور کلس کو ہارپہنائے گا۔ آخرکارہلڈا کے حسن وجمال کے عشق میں سول نس مینار کی بلندی پر چڑھنے کے لیے تیارہوجاتاہے۔ آخر وہ وقت آجاتاہے۔جب سول نس باجے گاجے اور جم غفیر کی موجودگی میں مینار کی بلندی پرچڑھ جاتا ہے۔ مگر اس کا جسم ایسالرزاکھاتا ہے کہ وہ دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے اور خاکی جسم بھی پاش پاش ہوجاتا ہے۔ یہ بڑاالمناک حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ عوام کی آواز میں درد اور افسوس ہوتاہے مگر راگ نر اورہلڈا اپنی اپنی بات پر تفوق جتلارہے تھے۔ ڈرامہ نگارنے اس منظرکوکچھ اس طرح قلم بند کیاہے:

ایک آواز: بیچارے کاجسم پاش پاش ہوگیا۔ ٹھیک پتھروں کے اوپرگرے تھے۔

ہلڈا: اب وہ مجھے اس بلندچوٹی پردکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

راگ نر:اوہ خدایا کس قدر دردناک حادثہ ہے۔ خیر وہ اپنا کام پورا کرکے نہ دکھاسکا۔

ہلڈا:(جوش میں) لیکن وہ ٹھیک چوٹی پر پہنچ گیا اورمیں نے فضا میں بانسریوں کے نغمے کی آواز سنی۔ اس نے سب سے اونچی بلندی کوفتح کرلیا۔ میرامعمار اعظم۔‘ (ایضاً، ص219)

پروفیسر محمد حسن کواردو ڈرامہ نگاری میںخاص امتیازحاصل ہے۔ان کے ڈرامے فکرو فن اورپیش کش کے ساتھ تاریخ، تہذیب، ثقافت اورسماجی مسائل کے عکاس ہیں۔ جن پر بھرپور تنقیدی و تجزیاتی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ان کی ڈرامائی تخلیق پر ہنوزکماحقۂ تو کجاخاطر خواہ بھی کام نہیں ہوا ہے۔

 

Dr. Sarfaraz Javed

R-155, Gali No: 6, Sir Syed Road

Jogabai Ext., Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں