7/1/21

آہ! مظفر حنفی- کچھ یادیں کچھ باتیں - مضمون نگار: پی پی سریواستو رند

 


10اکتوبر 2020 کی صبح موبائل کی گھنٹی بجی۔ غازی آباد سے ڈاکٹر ذکی طارق کا فون تھا۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک دلدوز خبر نے ذہن اور دل دونوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بولے ’’رند صاحب! آپ کے دوست ڈاکٹر مظفر حنفی ہم سب کو چھوڑکر چلے گئے۔‘‘ میں یکدم سکتے میں آگیا۔ مجھے یہ تو علم تھا کہ مظفر بھائی ان دنوں کچھ زیادہ ہی علیل ہیں مگر اس خبر کی توقع کبھی نہیں تھی— موبائل پر فیس بک کھولتے ہی دیکھا کہ یہ خبر تو تیزی سے گشت کررہی ہے —برا ہو اس ’’کورونا وائرس‘‘ کا کہ جنازے میں بھی شرکت کے لیے پابندیاں ہیں۔ لوگ مزاج پرسی اور کسی کے غم میں بھی شریک نہیں ہوسکتے، پرانی تہذیب اور رواداری کا جنازہ اٹھ گیا۔ میں نے گھر والوں کو یہ جانکاہ خبر سنائی اور مظفر بھائی کے جنازے میں شرکت کی خواہش بھی ظاہر کی مگر کوئی تیار نہ ہوا۔ یہاں تک کہ میرے ڈرائیور نے بھی جامعہ نگر جانے سے انکار کردیا۔ افسوس کہ اپنے دیرینہ دوست کاآخری دیدار بھی نہ کرسکا۔

مظفر بھائی سے خط وکتابت کا سلسلہ تو 1970 سے تھا۔ وہ میرا کلام ادبی رسائل میں پڑھتے اور خطوط کے ذریعے اس پر گفتگو بھی کرتے تھے۔ میں ان دنوں محکمۂ ریلوے میں ذمے دار عہدے پر تھا مگر اکثر تبادلے کا شکاربھی ہوتا رہا۔ پھر بھی خط وکتابت کا سلسلہ قائم رہا مگر بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔ 1992 میں بھائی مظفر حنفی کاایک خط موصول ہوا جس میں انھوں نے کچھ غزلوں کی فرمائش کی۔ اس وقت تک مظفر بھائی پروفیسر اقبال چیئر، شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی ہوچکے تھے۔ وہ شعرا کے کلام کا ایک تاریخی انتخاب جو 1940 تک بقید حیات تھے ترتیب دے رہے تھے جس کا نام تھا ’روح غزل‘ مجلس مشاورت میں جناب مجروح سلطانپوری، شمس الرحمن فاروقی، سالک لکھنوی اور سید عبدالکریم تھے۔ اس تاریخی انتخاب کو انجمن روح ادب، 1-میوروڈ، الہ آباد نے 1993میں شائع کیا۔ مظفر حنفی کا یہ ایک بڑا کام تھا۔ انھوں نے اپنے مقدمہ میں لکھا کہ:

’’میں نے شاعر اور اس کے کلام کے انتخاب میں قدیم وجدید یا ترقی پسند اور غیرترقی پسند جیسی کوئی حدبندی کو روا نہیں رکھا اور کوشش کی ہے کہ پچھلے پچاس برسوں کے ہرقابل ذکر غزل گو کا انتخاب اس کتاب میں یکجا ہوجائے۔‘‘

روح غزل‘ کے انتخاب میں تقریباً 693 شعرا کو شامل کرنا جو 800 صفحات پر مشتمل تھا کوئی آسان کام نہ تھا مگر انھوں نے کردکھایا۔ آرزو لکھنوی، آنند نرائن ملا، ابر احسنی، اثر لکھنوی، اختر شیرانی، بہزاد لکھنوی، بیخود دہلوی، تلوک چند محروم، جوش ملیح آبادی، جوش ملسیانی، حسرت موہانی، جگرمراد آبادی، فراق گورکھپوری، نشور واحدی، میراجی، بانی جیسے شاعروں کے کلام منگانا اور پھر اس کی ترتیب ایک مشکل کام تھا مگر مظفر حنفی نے کردکھایا۔ انھوں نے میری غزلیات کو بھی ’روح غزل‘ میں شامل کیاجو صفحہ 217 پر ہیں۔

آج میری یادوں میں ماضی کے اوراق پھڑپھڑا رہے ہیں۔

ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

مظفر حنفی کو میں نے پچاس برس پہلے کسی ادبی رسالے میں پڑھا تھا اور ان کی شاعری کو پڑھ کر چونکا بھی تھا۔ یہ بات شاید 1964-65 کی ہے۔ ادبی رسائل ہمیشہ سے میرا شغل رہے ہیں۔ میں مرکزی سرکار کے محکمۂ ریلوے میں ایک ذمے دار عہدے پر فائز تھا اور میرے فرائض میں اپارٹمنٹل انکوائریاں تھیں جس کی وجہ سے کافی وقت سفر میں گزرتا تھا۔ بڑی مصروف زندگی تھی۔ سفر کے یہ لمحات ہی میرے لیے فرصت کے ہوتے تھے، اس لیے میری کوشش یہی رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت مطالعے میں گزرے۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران مظفر حنفی کی کچھ غزلیں نظر سے گزریں۔ نیا لہجہ، نیا انداز، گنگا جمنی الفاظ نے مجموعی طورپر میرے ذہن پر اپنا اثر چھوڑا جس میں انوکھا پن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسندی اور عام خمریاتی شاعری کا ہینگ اوور (Hang Over) اتر رہا تھا اور اردو شاعری میں جدیدیت کا رنگ واضح سمت کی طرف گامزن تھا۔ نوجوان شعرا کی طرح ایک عام قاری بھی دوراہے پر کھڑاتھا۔ روایتی شاعری اور ترقی پسند شاعری سے طبیعتیں بیزار ہوچکی تھیں۔ ایسے ماحول میں جدید لب ولہجے میں ایک خوشگوار فضا کا احساس ہورہا تھا۔ شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ مجھے مظفر حنفی کی غزلیں پسند آئیں۔ اس وقت مظفر حنفی کی عمر شاید 24-25برس کی رہی ہوگی۔ پہلی غزل جس نے مجھے متاثر کیا اس کے چند اشعار درج ہیں           ؎

دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں

ٹینوں پر گھنگھرو کی بوندیں ناچ رہی ہیں

ڈول رہے ہیں آنکھوں میں پتھر کے سائے

شریانوں میں بہتی ندیاں سوکھ گئی ہیں

در پر ویرانی کا پردہ جھول رہا ہے

کھونٹی پر تنہائی کی بیلیں لٹکی ہیں

مجھ سے مت بولو، میں آج بھرا بیٹھا ہوں

سگریٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں

چلیے صاحب اور کوئی دروازہ دیکھیں

آج مظفر کی باتیں بہکی بہکی ہیں

مجھے محسوس ہوا کہ مظفر حنفی نے اس زمانے کی شعری آوازوں کی باز گشت قبول نہیں کی بلکہ ان کی جگہ لفظوں کی تازگی اور نئے مضامین کے ساتھ اپنے محسوسات کوانفرادیت بخشی ہے۔ اس زمانے میں کہی گئی غزلیات کے مطالعے سے ایک بات جو واضح طورپر نظر آتی ہے وہ یہ کہ ان کی شاعری کے کئی پہلو داخلی اندھیروں کے روشن اجالوں کے نام ہیں۔ ان کے یہ گوشے عام انسانی زندگی کے منور پہلو ہیں،حالانکہ مظفر حنفی کو اس وقت کے مستند استاد محترم شاد عارفی سے شرف تلمذ حاصل تھا مگر انھوں نے 24-25  برس کی عمر میں ہی استاد کے نقش قدم پر چلنا پسند نہیں کیا، انھوں نے فن کی باریکیاں، مضمون آفرینی، الفاظ کی نشست وبرخاست تو سیکھی مگر اپنی راہ الگ اختیار کرنے کی کوشش کی اور اپناچراغ الگ جلایا۔

1964-65 کا دور بڑے اتھل پتھل کا دور تھا۔ فراق، جوش، جگر مشاعروں کے کامیاب شاعر تھے۔ علی سردار جعفری،جاں نثار اختر، مجروح وغیرہ ترقی پسندی کا ڈھول بجا رہے تھے۔ جدید غزل اپنا رنگ بکھیر رہی تھی، ایسے دور میں منفرد سوچ، بالغ نظری، طرفگیِ احساس کے ساتھ نوجوان شاعر مظفر حنفی بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہا تھا۔ مظفر حنفی نے اس زمانے کی یا اس زمانے سے کچھ پہلے کی آوازوں کی باز گشت کا کوئی اثر نہیں لیا۔ کئی نوجوان شعرا جدیدیت کاسہارا لے کر حد سے کچھ زیادہ ہی جدید ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں شائع شدہ مظفر حنفی کی ایک اور غزل دیکھیں          ؎

چھڑا کے ہاتھ اَنا سے کہاں چلے صاحب

اب آچکی ہے یہ دلدل گلے گلے صاحب

کرن کی ڈور سے لٹکی ہوئی کئی لاشیں

مجھے ملی تھیں اسی پیڑ کے تلے صاحب

زمین پاؤں کے نیچے نہیں، مگر پھر بھی

ہمارے خون میں آتے ہیں زلزلے صاحب

اس بات سے قطع نظر کہ قصبات اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس وقت بھی روایتی شاعری ہورہی تھی۔

مظفر حنفی کی پیدائش کھنڈوہ (مدھیہ پردیش) کی ہے جہاں سے انھوںنے روایتی شاعری کا لبادہ نہیں اوڑھا۔ مندرجہ بالا غزل میں ایک نیاپن ہے۔ لب ولہجہ تازہ ہے۔ وہ اپنی نوجوانی کے عالم میں اور چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود جدید غزل کے نزدیک نظر آتے ہیں۔ لفظیات، تراکیب، علامتیں اور جذباتی قدریں اس وقت بھی ان کی شاعری میں نمایاں تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی طبیعت پورے طورپر جدیدیت کی طرف راغب تھی۔ اس زمانے میں انھوںنے کہاتھا:

عظمت سے ہٹ کے ندرت وجدت کو ناپیے

ہم اور چیز، غالب و میر و ذوق اور

1964-65میں بھی مظفر حنفی کا لب ولہجہ اور شعری آہنگ اس زمانے کے ماحول کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان کا جو کلام رسالوں میں شائع ہوا، اس میں فصاحت کے ساتھ سادگی تھی، جسے پڑھ کر مجھے احساس ہوتا تھا کہ ترقی پسندی اور جدیدیت سے ہٹ کر بھی شاعر اپنے طرز فکر سے اپنی تخلیقات کے موتی بکھیر سکتا ہے اور نئی فضا قائم کرسکتا ہے، اچھا ادب زندگی کا ادراک ہے۔

میرکے زمانے کو آج تین سو سال ہونے کو آئے۔ اس طویل عرصہ میں زبان اور اظہار کے طورپر طریقے بھی وہ نہیں رہے۔ نئے شعرا نے اپنا لہجہ Diction یعنی زبان کے استعمال کا منفرد انداز اپنانے کی کوشش کی۔ میر اور سودا کا دور الگ تھا۔ دونوں شعرا نے تمام اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن دونوں کے الفاظ اور زبان میں نمایاں فرق رہا۔ یہی صورت میر وغالب کے درمیان ہے۔ میر آخر میر ہیں۔ انھوں نے زبان کے سلسلے میں جس جرأت سے کام لیا، انھیں کا حصہ ہے۔ جدید شاعری کا دور آتے آتے الفاظ، زبان اور زبان کے برتاؤ میں نمایاں فرق آیا۔ نوجوان شعرا اپنی شعوری فکر اور شدت احساس کے مطابق روایتی ڈھانچے سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے اور اظہاریت کے امکانات تلاشتے نظر آئے۔ مظفرؔ حنفی نے بھی اپنے لہجے میں نیاپن لانے کی کوشش کی اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اظہار کے راستوں پر اپنے شناخت نامے چسپاں کیے اور غیرغزلیہ احساس کو بھی مخصوص کشادگی کے ساتھ نئے اور ستھرے انداز میں پیش کیا       ؎

کھیتوں میں ابر لے کے نہ پروائی جائے گی

بدلی سمندروں پہ ہی برسائی جائے گی

اک مصرفِ اوقات شبینہ نکل آیا

ظلمت میں تری یاد کا زینہ نکل آیا

کس قدر تیز چلی سرد ہوا پچھلی رات

گرم بستر کو بہت یاد ہماری آئی

اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغِ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں مظفر حنفی جدیدیت سے کافی متاثر تھے اور روایتی شاعری سے دامن جھٹکنے کی کوشش کررہے تھے مگر انھوں نے جدیدیت کے شعلے کو اس طرح لپک کر نہیں پکڑا کہ ان کی ہتھیلیاں ہی جلادے۔ انھوں نے جدیدیت کا اثر بہت ہی محتاط اور سنجیدہ طورپر لیا جس کا لطف دیرپا ہے۔ ان کا لب ولہجہ اور شعری آہنگ اس زمانے کے قاری کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس وقت بھی ان کے کلام میں فصاحت، سادگی، رنگینی اور تاثر کی شان پوری آب وتاب سے نمایاں تھی۔ اب یہ اشعار دیکھیں         ؎

ٹوٹی ہوئی چوڑی کی مزیدار کہانی

خوابیدہ گلی جاگ پڑی آنکھ مسل کر

اچھی خاصی دو آنکھیں لے کر پھرتے ہو

پھر بھی مانگے کی عینک سے دیکھا تم نے

کیوں اوڑھے ہوئے ہو بیتے دن کا پشچا تاپ

بھور بھئی یگ بیت چکا ہے کھڑکی کھولو

سادگی کی ان کی علامتوں کو مظفر حنفی خوب سمجھتے تھے۔ ان کے یہاں تاثراتی میلانات اور فکر کی وسعت موجود تھی۔ جذباتی انتشار، جذباتی کشمکش، داخلی کیفیت کا احساس نوجوان مظفر حنفی کو تھا۔ اس طرح کی غزلیں جو اس زمانے میں شائع ہوتی تھیں، آپ بھی دیکھیں        ؎

سنا تھا دل کو کہ گرم و گداز ہوتا ہے

ہمارے سینے میں یہ سخت و سرد کیا شے ہے

……

موروثی اقدار کو تج کر ہم نے وہ تکلیف سہی

جیسے زندہ پاؤں کسی کے کاٹے جائیں آرے سے

وہ سر سے پا تک تمام شعلہ

اسے کوئی چومتا کہاں سے

اب تو خوش آمدید کہیے ملکۂ بہار

کانٹوں پہ چل رہا ہوں بڑے اعتماد سے

میں مظفر حنفی کی پچاس سال پہلے کی شاعری پر کوئی طویل مضمون نہیں لکھ رہا ہوں، میں تو اپنے ذہنی تاثرات قلم بند کررہا ہوں جو مظفر حنفی کی اس وقت کی شاعری سے میرے ذہن ودل پر مرتب ہوئے۔ مضامین یا تقریظیں لکھنا یا کسی شاعر کا مجموعی طورپر جائزہ لینا تو ناقدین اور اہل قلم حضرات کاحصہ ہے۔ آج مظفر حنفی جس مقام پر ہیں اور انھوں نے اردو ادب کی جو خدمت کی ہے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

افسوس کہ مظفر حنفی اب ہمارے درمیاں میں نہیں ہیں مگر انھوں نے جو سرمایۂ ادب چھوڑا ہے، وہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ بنے گا۔ مظفر حنفی کبھی کسی خاص عنوان کے پابند نہیں رہے مگر ان کا طرز بیان ہمیشہ سے ہی بے ساختہ رہا۔ان کی تمام تخلیقات میں بلند فکری تخیل، گہرا مشاہدہ اور مطالعے کی وسعت کا شعور بھرپور عظمتوں کے ساتھ نمایاں ہے۔ معاصر ادب میں مظفر حنفی ایک اہم نام تھا اور رہے گا۔ اس پر ہم سب کو فخر ہے۔

 

PP Srivastav Rind

R-16, Sector - 11

NOIDA - 201301 (UP)

Mob.: 9711422058

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں