6/1/21

مظفرحنفی کی شاعری میں جدید حسیت - مضمون نگار: محسن جلگانوی

 



پچھلے مہینے جدید شاعری کے نہایت معتبر اور نمائندہ شاعر مظفرحنفی کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے اپنے جدید اسلوب اور لہجے کی آمیزش سے اپنی شاعری میں سماجی معنویت اور عصری حسیت کوپیش کیاہے۔ ان کے آہنگ شعرمیں جو تلخی ‘طنزاور تازہ کاری کا کرارہ پن دکھائی دیتا ہے  ا س کی نظیر اس عصر کے کسی شاعر کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔

مظفر حنفی اپنی فکری شادابی، اسلوب کی ندرت اور جدید حسیت کے باوصف، اردو کی غزلیہ شاعری کے مستند اور معتبر شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی شاعری کے الاؤ میں تجربات کا ایندھن ہمیشہ شعلہ زن رہا ہے۔ ان کی شعری حسیت میں تازہ کاری، نیا پن اور عصری حسیت ان کے فن کی پہچان بن کر ابھرتے ہیں انھوں نے زندگی کو اس طرح بھوگا ہے کہ تجربے ان کے اظہار کی زبان بن کر بولتے ہیں۔ مظفر حنفی کی غزل کا خاص وصف ان کی زبان و بیان کی کھنک اور گونجتے ہوئے قافیے اور اچھوتی ردیفیں ہیں۔ ان کے لہجے میں جو چھپا ہوا طنز ہے وہ مظفر حنفی کی غزل کو ممیز کرتا ہے مظفر حنفی کی شاعری کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ روایت کا احترام کرنے والا کوئی شاعر شعور و ابلاغ کی سطح پر عصری حسیت اور نجی تجربے کو شعری صورت دینے میں مظفر حنفی سے بہتر طریقے پر زبان کو شاید ہی برت سکے۔

 مظفر حنفی کے زبان وبیان کا خاصہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے فارسیت کے غلبے سے اپنی شاعری کو بچائے رکھا اور رواں دواں اور سہل اندازِ بیان میںشعر کہے لیکن اس سادہ بیان میں انوکھا پن اور نادرانہ اظہار ان کے ہاتھوں سے نہیں گیا۔ بیان و زبان پر ان کی گرفت اور قادرالکلامی کو اردو غزل ان کی شخصیت کو اعتبار بخشتی ہے۔ اردو غزل کے اکثر شاعروں کے یہاں مقلدانہ لفظیات کے باوصف  ان کی شاعری پر کسی نہ کسی پیش روشاعر کی کار بن کاپی ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ مظفر حنفی ان شاعروں میں سے ہیں جن کے بارے میں گوپی چند نارنگ نے اظہار خیال کیاتھا کہ ان کی اپنی لفظیات کا دائرہ بہت وسیع ہے کہتے ہیں      ؎

’’مظفر حنفی ہمارے دور کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جن کی لفظیات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ انھیں نئی بات پرانے انداز میں اور پرانی بات نئے اسلوب میں کہنے پر قدرت حاصل ہے۔ اکثر قدیم علامتیں ان کے جذبے میں تحلیل ہو کر مفاہیم اور جدید حسیت کی آئینہ دار بن جاتی ہیں۔‘‘

ابتدا ہی سے مظفر حنفی،ذہنی اور مزاجی سطح پر شاد عارفی سے متاثر رہے تھے۔ شاد عارفی سے تلمذ حاصل کرنے کے بعد ان کے کلام میں طنز کی دھار مزید تیز ہوتی چلی گئی۔ حنفی کی ذہنی تازہ کاری اور ندرت تراشی نے جلد ہی اپنی شاعری کی ایک مخصوص پہچان بنائی اور طنزیہ مضامین میں مزید وسعتوں اور اضافوں کے ساتھ اپنی علاحدہ شناخت بنالی۔ حنفی کے طنزیہ لہجے کی الگ شناخت کے سلسلے میں ڈاکٹر وہاب اشرفی نے اس طرح تجزیہ کیاہے ۔

’’اردو میں طنز و جراحت کی جو مثال شاد عارفی نے قائم کی تھی اور جس کے بارے میں خیال تھا کہ شاد عارفی اس اندازِ فکر کے شاعر آخرالزماں ہو ں گے اس کا ایک روشن زاویہ مظفر حنفی کی شاعری کی صورت میں ابھرا ہے۔ مظفر حنفی چونکہ شاد عارفی کے رشادِ تلامذہ میں سے تھے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے فن میں فیضِ استاد کی کرنیں بھی موجود ہیں۔‘‘

مظفر حنفی نے شاد عارفی کی جزوی شاعری کا تتبع بھی کیا اور اس کی توسیع بھی کی۔ شاد عارفی کی تیکھی اور نوکیلی غزل کے وہ مداح تھے اور اس سلسلے پر انھیں فخر بھی ہے اور ناز بھی۔لکھتے ہیں          ؎

ہے شاد عارفی سے مظفر کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہوگئے

پیروکار شاد، مظفر گنتی میں دو ایک سہی

طنز غزل کے تار پہ چل کر دکھلاتے ہیں مثلاً میں

شاد عارفی نے ناقدانِ فن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا        ؎

غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ناقدِ فن آزما کے دیکھ

ہر چند کہ اب غزل یا نظم میں درشت لہجے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور ’درشت لہجہ تو اب حرفِ مسترد ٹھہرا‘ مگر مظفر حنفی نے اپنی کھردری اور دردری درشت زمین میں یہ شعر کہہ کر غزل میں کھردرے پن کا جواز پیش کیا تھا       ؎

اس کھردری غزل کو نہ یوں منھ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آکے دیکھ

حنفی نے طنزیہ غزل کے وسیلے سے سماجی مقصدیت اور عصرِ حاضر کی حسیت کو کھردرے لہجے میں پیش کر کے موضوعِ شعر کے امکانات کوو سعت دی اور خود کو یگانہ چنگیزی اور شاد عارفی جیسے عصر ساز شاعروں کی صف میں لاکھڑا کیا        ؎

دشت میں پہنچے تو ویرانی نہ راس آئی ہمیں

گھر ملا تو اس کی دیواریں نہیں درد آشنا

جدید شاعری کے رجحان کی شناخت 1960 میں ہوئی اس سے پہلے یعنی 1955 میں اس کے درخت کا بیج بویا جاچکا تھا۔ 1960 میں اس کا وجود ایک تناور درخت کی شکل میں منصہ شہود پر آیا۔ تحریکیں اور رجحانات میں فکر و شعور اور نظریات کی رو آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتی رہتی ہے۔ کوئی تحریک یا رجحان اچانک ہی منظرِ عام پر نہیں آجاتا بلکہ مروجہ رجحانات نئی بلندیوں کے لیے اپنی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں۔ جدید شاعری کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ نئی نسل پر ترقی پسند تحریک نے جو اثرات مرتب کیے ان میں بعض منفی نوعیت کے تھے۔ ان سے متنفر ہو کر نئی نسل نے اس تحریک سے گلو خلاصی حاصل کی۔ اسے نئی شاعری میں زیادہ توانائی اور اعتماد حاصل ہوا یہی شاعری تجرباتی عبوری دور سے گذر کر اردو شاعری کا ایک نمایاں کردار بن گئی۔

مظفر حنفی کے بموجب ان کی شاعری کی ابتدا 1960 سے پہلے ہوچکی تھی لیکن سنجیدگی کے ساتھ شعر گوئی میں نے 1960 کے بعد ہی شروع کی ہے اور ابتدا ہی سے روش عام سے بچ کر کہنے کی کوشش کرتا رہا ہوں...  1960 کے بعد سے اردو ادب میں جدیدیت کے رجحان نے زور پکڑا اس وقت تک بھوپال میں نئی شاعری کے صرف دو نام ایسے تھے جنھیں جدید لہجے کے شعرا کہا جاسکتا تھا جن میں مظفر حنفی کے علاوہ ایک اور نام فضل تابش کا تھا۔ جدید تنقید نگاروں اور دانشوروں نے مظفر حنفی کو ایک مستند اور معتبر جدید شاعر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔حنفی جدیدیت کی وضاحت اور اس سلسلے میں اپنے موقف کی صراحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’جدیدیت کوئی تحریک نہیں، مختلف ادبی رویوں کے اجتماع کا نام ہے، نیا شاعر ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ ترقی پسندی سے بیزاری کا اعلان کیا جائے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ نئی شاعری کو ترقی پسند شاعری کی توسیع سمجھا جائے۔ جدید رجحان رکھنے والوں میں بیش تر شاعر ایسے نکلیں گے جو ترقی پسندانہ خیالات یا اینٹی کمیونسٹ نظریات رکھنے کے باوجود کامیاب نئے شاعر ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ نئی شاعری مخصوص نظریات کی قائل نہیں، ہر نیا شاعر اپنی جگہ اپنے طور پر سونچنے کے لیے آزاد ہے۔‘‘

ڈاکٹر محبوب راہی جنھوں نے مظفر حنفی کی شخصیت اور شاعری پر ڈاکٹریٹ کی تھی  اپنے مقالے میں مظفر حنفی کی انفرادیت پسندی کے ضمن میں لکھا ہے کہ اکثر ناقدین و مبصرین جدید غزل کے منفرد ناموں میں مظفر حنفی کے ساتھ ظفر اقبال، محمد علوی، سلیم احمد، بانی وغیرہ کے نام بھی جوڑ لیتے ہیں۔ عصری حسیت اور جدید تقاضوں کی ترجمانی کی حد تک اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مظفر حنفی بھی مذکورہ بالا کامیاب جدید شاعروں میں سے ایک ہیں لیکن جہاں تک جدید غزل میں منفرد رنگ و آہنگ اور اچھوتے لب و لہجے کا تعلق ہے، مظفر حنفی کے رنگِ سخن سے ہندو پاک کے کسی شاعر کا رنگ میل نہیں کھاتا اور وہ اپنے رنگ میں یکتا اور بے جوڑ ہیں۔ شاید اسی لیے حنفی نے کہا ہے       ؎

ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفر کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

اے مظفر ریشمیں غزلوں سے میں الجھا نہیں

ورنہ بن جاتیں وہ پیرِ تسمہ پا میرے لیے

نازک ہے فنِ شعر مگر طرزِ نو کے ساتھ

ہم اس حباب کو بھی سلامت اٹھائیں گے

بلا سے گردِ تغزّل مری غزل میں نہیں

جدید لہجہ گھٹن کو تو صاف کرتا ہے

مظفر حنفی کی شاعری میں احساس کی شدت، جذبات کی ہنگامہ خیزی نے رجز کی ایسی کیفیت پیدا کردی ہے کہ قاری کا لہو خود بہ خود جوش مارنے لگتا ہے یہ لہجہ اردو کی جدید شاعری میں کمیاب ہے       ؎

دریائے خوں سے اٹھتے تھے سر بلبلے نہیں

پل کی جگہ تنا ہوا خنجر تھا سامنے

زلزلہ خون میں آیا تھا جو اندر کی طرف

میں نے شہ رگ ہی بڑھا دی ترے خنجر کی طرف

گردن کو جھکاتے ہی چلی پشت پہ تلوار

مرہم نے اٹھایا تھا کہ ماتھے پہ لگا تیر

سر پہ تلوار لٹکنے کا مزا کہتا ہے

اور کچھ دیر ابھی سر نہ اٹھایا جائے

رزم گاہوں کے ایسے خون آشام منظر اردو شاعری میں انیس و دبیر کے مرثیوں میں ملتے ہیں کہ وہاں یہ چیزیں موضوع کے تقاضے کے تحت ہیں لیکن اردو شاعری اور بالخصوص جدید شاعری میں اس کی مثالیں ناپید ہیں۔ شدتِ اظہار اور سر فروشی کا یہ والہانہ پن حنفی کے لہجے کی شناخت ہے۔مزید کچھ اشعار         ؎

جھوم کر اٹھا بگولہ، برگ زرد اے برگِ زرد

لطف آتا ہے ہوا سے چھیڑ خانی میں بہت

بھونکتی ہوئی ہوا، ہونکتی ہوئی فضا

چونکتی ہوئی زمیں شہر بے چراغ میں

اک مدت سے اسے حسرتِ ہنگامہ ہے

آج اے سیل بلا میرے مکاں تک چلنا

بلا کو گھر تک آنے کی دعوت دینا، بگولے دیکھ زرد  پتوں سے چھیڑ خانی کرنا، بدن میں آندھی بھر دینا، شہر سے چراغ میں ہوا کے ہونکنے سے زمیں کا چونکنا ایسی علامات و تراکیب کا استعمال مظفر حنفی کے مخصوص اور غضب ناک لہجے کا وصف ہے۔ ان کی غزل میں جو تیکھا پن اور کٹیلا انداز ہے وہ ان کا بنیادی اور انفرادی شناخت نامہ ہے      ؎

بھیڑ ہے اور اشتراک شدہ

بیچ میں اک ہرن ہلاک شدہ

شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو !

ہمارے قد سے کم نہ ہو فرازِ دار دیکھنا

یلغار، چیخ، تیغ، گرم ہوا، شگاف، زلزلہ، آندھی، بگولہ، شہہ رگ، لاش، تابوت، سرخ پرچم، ہنگامہ، سیلِ بلا، بھیڑیے، ہلاک شدہ ہرن، تیرکمان، تلوار، کسک، صدائے بازگشت، بال ویر، رگ و پے، شب خون، نیزے، اڑان، زقند، صحرا ایسے الفاظ لہو کو گرم اور احساس کو مشتعل و متحرک رکھتے ہیں یہ الفاظ حنفی کی شاعری میں علامیہ بن کر ان کے مخصوص لہجے کی بنیادی شناخت بن جاتے ہیں۔ مظفر حنفی کا یہ کھردرا، ٹیڑھا، ترچھا لہجہ ان کا دانستہ اختیار کردہ ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر انور صدیقی نے ایک تبصرے میں بہت  ہی خاص بات کہی ہے:

’’جب ہم دوسروں سے لڑتے ہیں تو خطابت جنم لیتی ہے اور جب خود اپنے آپ سے لڑتے ہیں تو شاعری... مظفر حنفی کی لڑائی سے دونوں ہی صورتوں میں شاعری پیدا ہوتی ہے۔ اچھی، سچی اور معتبر۔ ہندوستان میں بانی کے بعد محمد علوی اور مظفر حنفی دو ایسے شاعر ہیں جنھیں ہم اعتماد کے ساتھ پاکستانی غزل کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں۔ علوی کے مقابلے میں لسانی اور فنی مہارت کے اعتبار سے مظفر حنفی زیادہ پختہ اور زیادہ قادرالکلام شاعر ہیں۔‘‘    

ہر مروجہ فیشن سے بغاوت کر کے اپنے ایجاد کردہ ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلنا اور ہر اعتبار سے اپنے آپ کو بھیڑ بھاڑ سے منفرد رکھنا ہی مظفر حنفی کا مقصد فن اور مطمح نظر ہے۔

جدیدیت کی آمد آمد کے دور میں نیا شاعر علامتی پیرایۂ اظہار کے وسیلے سے نئے امکانات کی جستجو میں نئے نئے تجربے کررہا تھا، مظفر حنفی نے بھی نئی فضا میں چند تجربات کیے لیکن وہ جلد ہی عام تقلیدی دائرے سے کٹ کر منفرد راہ اپنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دور میں انھوں نے جو تجرباتی غزلیں کہیں ان سے چند اشعار پیش ہیں      ؎

گرمی جو آگئی تری یادوں کے خون میں

پرچھائیوں نے پھوڑ لیے سر جنون میں

بجلی کے کھمبوں نے آنکھیں جھپکائیں

جلدی جلدی ہاتھ ملائے یاروں نے

روئی پر ناریل چڑھا تھا یار

سیب اندر سے پلپلا تھا یار

اب اسے سگریٹ کے مرغولے ذرا بھاتے نہیں

تھک چکی ہے آنولے کے تیل میں لت پت ہوا

جدیدیت کے ابتدائی دور میں چند کم سواد و کم بساط شاعروں کی اول جلول قسم کی شاعری نے اس رجحان کو نقصان پہنچایا لیکن اس تجرباتی دور کے بعد جو شاعر آئے ان میں مظفر حنفی کا نام بہت اہم رہا۔

جدید شاعری کا یہ ادعا رہا ہے کہ وہ اپنے عصر کی تہہ در تہہ کیفیات اور مخصوص موضوعات کی پہلوداری اور ناگفتہ بہ تجربات کے اظہار کے لیے برہنہ پیرائے اظہار اختیار کرنے کا جوکھم نہیں لے سکتا اس لیے اس کو اپنے موضوعات و تجربات کو برتنے کے لیے ابہام کی پرت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جدید شاعر کی اس ادعائیت و روش نے عام قاری ہی نہیں بعض تنقید نگاروں کو بھی بدگمانی کا شکار بنایا۔ ہر چند کہ مظفر حنفی شاعری میں ترسیل و ابلاغ کے زبردست حامی ہیں لیکن ان کے یہاں بھی جب اہمال سے مملو مندرجہ ذیل اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ابہام نے ایمائیت کی حدوں کو چھو لیا ہے      ؎

انگلی پکڑ کے چاند مرے ساتھ ہو لیا

مشرق میں جس  کو ڈھونڈ رہا ہے سنپولیا

جب پار کی نگاہ نے فولاد کی سرنگ

شرما کے میری آنکھ سے منظر سکڑ گئے

چشمہ اور دستانے لانا

چکنی مچھلی ہرا سمندر

قصبے پہ چڑھ آیا سورج

کھدڑک کھڈرک مٹی میں

یہ اشعار علامتی پیرایۂ اظہار میں شاعر نے اپنے ذاتی تجربات کے لیے کہے تھے لیکن جب تک شاعر کے فکری و ذہنی منظر و پس منظر کے دروا نہیں ہوتے ان کے مفہوم تک رسائی مشکل ہے۔ لیکن مظفر حنفی کے یہاں ابہام و اہمال کی ایسی شاعری نسبتاً بہت کم ہے۔ ان کی شاعری کا جو خاص وصف ہے وہ ان کی پیکر تراشی اورتـجسیم کاری ہے۔ وہ لفظوں کے وسیلے سے تصورات کے پیکر بناتے چلے جاتے ہیں، اس سمعی، بصری، لمسی، متحرک اور مثالی پیکروں کا استعمال مظفر حنفی کی شاعری میں سطحی انداز میں نہیں بلکہ فنکارانہ انداز میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار       ؎

سہج سہج اپلوں سے آنچ نکلتی ہے

ترل ترل بہتی ہے نالی، رات ہوئی

ستارۂ سحری کا جگر جگر کرنا

وہ چاندنی کا کتھک ناچنا درختوں پر

خوشبوئیں سر پیٹ رہی ہیں

کھڑکی کھولو، کھڑکی کھولو

گھنگھرو جیسی رم جھم رم جھم بوندنیاں

بادل جھینا جھینا، مولا پانی دے

سہج سہج اپلوں سے آنچ نکلنا، نالی کا ترل ترل بہنا، ستارۂ سحری کا جگر جگر کرنا، چاندنی کا کتھک ناچنا، خوشبوؤں کا سر پیٹنا، رم جھم رم جھم بوندوں کا گھنگھرؤں کی طرح بجنا۔ ان تمام کیفیتوں میں سمعی پیکر، بصری پیکر، حرکی پیکر اور شامی پیکر شامل ہوکر شعری اظہار کو دو چند کرتے ہیں۔ انھوں نے لفظیاتی تکرار سے اشعار میں جو نغماتی موسیقیت پیدا کی ہے ان سے فن پر ان کی دسترس کا پتہ بھی چلتا ہے     ؎

چھتوں سے ستارے ٹپکنے لگے

ہری گھاس دیوار پر چڑھ گئی

پتوں نے اپنے کان کھڑے کر لیے ادھر

وحشی بگولہ ناچ رہا ہے پسِ غبار

تاروں کی موت گیر یہ شبنم پہ ٹل گئی

سورج کے قتل پر تو برستا رہا لہو

ہاتھ میں زیتون کی ڈالی ہے سر پر فاختہ

اندر اندر خون کی تلوار چلتی جائے گی

آنتوں سے پیر پیٹ کے اندر لپیٹنا

پھر سائرن کی چیخ پہ بستر لپیٹنا

(اور پھر) برسات  میں چھتوں سے پانی کی بوندوں کو ستارے قرار دینا، دیواروں پر ہری گھانس کا چڑھ جانا، وحشی بگولے کا ناچ اور پتوں کے کان کھڑے ہو جانا، سورج کی موت پر آنکھوں سے لہو کا برسنا، ہاتھوں میں زیتون کی ڈال اور سر پر فاختہ ہونے کے باوجود خون کی تلوار کا چلنا، سائرن کی چیخ، آنتوں سے پیر پیٹ کر اندر لپیٹنا، جیسا علامتی منظرنامہ مظفر حنفی کی شاعری کو گنجلک نہیں بناتا بلکہ مفاہیم کی وسعتیں ہموار کرتا ہے اور جدید شاعری میں علامتوں کے استعمال میں سلیقہ مندی اور ترسیل و ابلاغ کی راہیں متعین کرتا ہے۔

جدید شاعری میں قدروں کی شکست و ریخت، تشکیک، مہاجرت، ذات کا اظہار، فرد کی گم گشتگی، لاسمتیت وغیرہ اہم موضوعات رہے ہیں۔ مظفر حنفی کے یہاں یہ موضوعات ان کے اپنے منفرد اسلوب میں ملتے ہیں        ؎

سرحدوں پر سر پٹکتی ہے مری لاسمتیت

وسعتِ ارض و سما مشکل مری آسان کر

پھر مکڑیاں سی رینگ رہی ہیں دماغ میں

ذہنوں سے آگہی کا اجالا نہ جائے گا

وہی میں دائرہ در دائرہ ہر سمت پھیلا ہوں

طلسمِ ذات بھی اک نقش ہے آئینہ بندی کا

مجھ کو ہونے کا یہ احساس نہ جینے دے گا

سوئی کی نوک پہ ہر سمت گھماتا ہے مجھے

کھلا کہ اپنی ہی قید میں ہوں

مرا بدن خود حصار نکلا

مظفر حنفی کی شاعری میں وہ سبھی عناصر موجود ہیں جن سے جدید حسیت تشکیل پاتی ہے۔ ان کی شاعری میں موجودہ ماحول کی زمینی سچائیوں، زندگی کی تلخیوں، ناہمواریوں کے علاوہ عالمی مسائل و موضوعات اپنی مکمل حسیت، شعور، آگہی اور معنویت کے تمام در و بست کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ذات و کائنات کے تقاضے، اپنے مشینی عہد کے پیچیدہ مسائل سماجی معنویت کے موضوعات شاعری سے ان کے سچے تعلق اور دروں بینی سے وابستگی کی نشان دہی کرتے ہیں۔

مظفر حنفی کی شاعری میں جدید حسیت، سیاسی جبریت، سماجی ناانصافی، معاشرتی و معاشی اندوہگی، طنز و تمسخر کی چیخ بن جاتی ہے       ؎

یہ اضطراب یہ پارہ صفت شعور یہ خوف

مری صدی ہے مری خود نوشت میں داخل

اک آدھ چھینٹ ہو تو نیا دور بے قصور

یہ آستیں، خون سے تر کس طرح نہیں

تجھ پر اپنے گھر کی باتیں کیوں کر کھلتیں

جب دیکھا مریخ سے آگے دیکھا تو نے

آج ہر ایک ازم ہے ٹوٹے ہوئے طلسم سا

خوف زدہ معاشرہ، خوار ہے فرد ہر طرف

ماں کی چھاتی دودھ سے نم ہوگئی

دودھ کا ڈبہ نہیں دوکان میں

حنفی کے بے شمار اشعار میں فرد کی ذات، ذات کی گم گشتگی، غیر یقینیت، خوف زدگی، انسان کی بے بسی و لاچاری، سیاسی، سماجی، معاشرتی،  معاشی موضوعات کی ترجمانی ملتی ہے۔ تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کے موضوعات جدید شاعر کی شاعری کا مقدر رہے ہیں۔ بے شمار شاعروں نے ان موضوعات پر اظہار کیا ہے۔ مظفر حنفی کی شعری حسیت میں ان مسائل پر جو احساس کی شدت ہے اس سے ان کی بیدار مغزی کا پتہ چلتا ہے      ؎

اب جو بٹوارہ ہوا تو مورتی بھگوان کی

بانٹ لی جائے گی دو ٹکڑے برابر کاٹ کر

ہاں سینہ سپر ہم تھے اندھیروں کے مقابل

چلتی رہی خورشید کی تلوارہمیں پر

ہر اک درخت اختلاف میں رہا ہے پر

لکھا ہے تختیوں پہ نام موسم بہار کا

زمیں ہے تنگ مظفر مرے زمانے کی

سبھی بلاؤں نے ہندوستان کو دیکھا

شعر پر عائد ہوئے جغرافیائی دائرے

کوئی پرچہ اس طرف آئے نہ پاکستان جائے

شیوجی تانڈ و ناچ گئے

وہ مسند سے ہلا نہیں

مظفر حنفی کی غزل متنوع موضوعات کی آماجگاہ رہی ہے۔ نئے شاعر کو تقسیم کا کرب، ہجرت کا کرب، محافظین کی جانبداری، کرفیو زدہ حالات، فسادات کا کرب ورثے میں ملا تھا جس سے انسانی قدروں اور رشتوں میں نئے نئے مسائل، پیچیدگیاں اور تشکیک و بے یقینی کے حالات پیدا کردیے ان موضوعات کی ترجمانی مظفر حنفی کے اشعار میں جابہ جا ملتی ہے       ؎

ہم سائے کے اچھے نہیں آثار خبردار

دیوار سے کہنے لگی دیوار خبردار

ایک میرا دوست جس کا آخری دم تھا لہو

اور میں مجبور میرے پاس بھی کم تھا لہو

ہر سمت آگ، ہر سمت خاک

بستی میں اک سن سن چراغ

شہر میں اور سب خیریت ہے مگر

دن میں کرفیو رہا، سنسنی رات میں

رات اندھیری نگری میں کرفیو ہے

خوف چیخا، کواڑ کھولو نا

مکینوں کی فریاد جعلی سہی

مگر زخم دیوار و در میں بھی ہیں

صدائے بازگشت بھی نہ آئی میری چیخ پر

بگل بجا تو ہر طرف جوان ہی جوان تھے

مظفر حنفی کے کلام میں سماجی اور معاشرتی شعور کی سطح بہت سے جدید شاعروں سے ممیز ہے۔ عام شاعر کے یہاں ہزیمت اور احتجاج کا جو احساس نظر آتا ہے وہ موثر قوت نہیں رکھتا۔ مظفر حنفی کا احتجاج، آلام و کرب کا احساس اعلیٰ قدروں سے وابستہ ہے        ؎   

یہ خنجر بھونکنا، بس توڑنا، دفتر جلا دینا

مری جانب سے بھی لوبان چٹکی بھر جلا دینا

پھر بسیں ٹولیوں میں جلا دی گئیں

دلہنیں ڈولیوں میں جلا دی گئیں

جتنی شامیں تھیں مہندی کے اس پیڑ پر

اب کے سب ہولیوں میں جلا دی گئیں

نوجوانوں کے سر  درپہ کاٹے گئے

لڑکیاں کھولیوں میں جلا دی گئیں

برسرِ پیکار تھے ہم مثعل و خنجر سمیت

جل بجھے بستی کے سارے گھر ہمارے گھر سمیت

ریڈیو پہ سن کے خبریں اک فسادی شہر کی

گھر لرزتا ہے ہمارا صحن و بام و در سمیت

سوختہ شہر میں کیا قدر اکیلے گھر کی

آپ زحمت نہ کریں ہم ہی جلا لیتے ہیں

مظفر حنفی نے اپنے عہد کے کرب کو شعور کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اپنے مشاہدے اور مطالعے کی شدت سے ان تمام مناظر کو شعری پیکر عطا کردیے جو عصری مسائل کی صورت میں ان کے شعور کی حسیت کو مہمیز کرتے رہے۔

مظفر حنفی جدید حسیت کے ایک منفرد اور معتبر شاعر تھے۔ ان کا فنی رکھ رکھاؤ قادر الکلامی، ندرت، جدید اسلوب، مخصوص جدید لہجہ اور آفاقی شعور انھیں جدید شاعروں میں ممیز حیثیت عطا کرتا ہے اس مرحلے پر ان کا یہ شعر یاد آتا ہے      ؎

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپیے

ہم اور چیز، غالب و میر و فراق اور

’’ دانا اور ناداں، دونوں پر ہنسنے کا حوصلہ، سبھی کچھ ہے۔ نہیں ہے تو وہ شے جسے شعر کے مزاج داں، ربودگی یا گم شدگی کہتے ہیں۔ نہ تو خود والہانہ کیفیت میں ڈوبتا ہے، نہ ہمیں ڈوبنے دیتا ہے اسے اپنی ’ ترچھی پرواز ‘ پر ناز ہے اور ہمیں اس کے یہاں یہی صفت خوب جچتی ہے... تصور کیجیے، میدانِ جنگ میں رات کا سناٹا ہے۔ پتہ کھڑکے تو گولی پڑے، اتنے میں سامنے چند گز کے فاصلے سے کوئی بانکا جوان خندق سے کھڑے قد اٹھتا اور بنکر Bunker کے اوپر ’ لائٹر ‘ جلاتا ٹہل ٹہل کر سگریٹ کے کش لینے لگتا ہے، گویا اپنی سرفروشانہ بے نیازی سے فریق مخالف کا منھ چڑا رہا ہے۔ اسے جلا رہا ہے اب یا تو وہ ایک گولی کی خوراک بنے گا یا اپنے پرایوں سب کو بوکھلا دے گا، مظفر حنفی دونوں پر کمر بستہ ہے، اس پر دونوں حالتیں گزری ہیں۔‘‘       

خلیق انجم کے لفظوں میں ان کی شاعری روایت اور بغاوت کے درمیان کی چیز ہے، وہ ماضی کا احترام کرتے ہیں اور ہر اس روایت کو اپناتے ہیں جو قابلِ قدر ہے، لیکن ان تمام روایتوں سے بغاوت کرتے ہیں جو ادب کو جمود، فرسودگی اور کھوکھلے پن سے آلودہ کرتی ہیں۔ شاعر اپنے عہد کی سماجی اور معاشی کشمکش کا بھرپور شعورر کھتا ہے۔ وہ تاریخ کی ان جابر قوتوں سے بھی آشنا ہے جو انسان سے خوشیاں چھین لیتی ہیں۔ شاعر کے پاس وہ بصیرت، حسیت اور قوتِ اظہار ہے جو اس کشمکش کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ خود حاصل کیے ہوئے تجربات کی عکاسی نے اس کی شاعری کے رنگ و روپ کو نکھارا ہے اور ایک ایسی تازگی دی ہے جو زبان و بیان کے قیود سے بلند ہے۔

 

Mohsin Jalganvi

306/DV Apartments

Salar Jung Colony, Tolichowki

Hyderabad- 500008 (Telangana)

Mob.: 7013380902

Email.: uwf.hyd@gmail.com



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں