5/1/21

مظفر حنفی: یادیں باتیں - مضمون نگار: مناظر عاشق ہرگانوی

 



مظفر حنفی بلند قامت تھے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی۔ انھیں عزت ملی اور شہرت بھی ملی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے کلکتہ یونیورسٹی تک انھوں نے سلوک کو جائزہ بنایا اور ایک محتسب کی حیثیت سے اپنی چھاپ چھوڑی۔ افسانہ لکھا، شاعری کی، تحقیقی کام کیا، تنقید کی طرف توجہ دی، بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا اور ترجمے کا بھی کام کیا۔

مظفر حنفی سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یاد نہیں ہے۔ لیکن وہ میرے گھر آئے تب ان سے قربت بڑھی۔ 1996 میں بھاگلپور کے ڈی ایم نے کل ہند مشاعرے کا پروگرام بنایا اور میرے ذمے شاعروں کو بلانے کا کام سونپا۔ شاعروں سے رابطے کے لیے میں خود پٹنہ اور دہلی گیا۔ دہلی میں مظفر حنفی کے گھر پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ وہیں طے پایا کہ فہمیدہ ریاض دہلی میں ہیں۔ انھیں بھی مدعو کیا جائے تاکہ مشاعرہ انٹرنیشنل ہوجائے۔ رفیق الزماں دہلی میں میرے رہنما تھے۔ مظفر حنفی نے اپنے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں چائے ناشتہ کرایا۔ یہ ڈرائنگ روم مظفر حنفی کا نگار خانہ تھا۔ ان کی تصویریں، ان کی کتابیں، ان کو ملے ایوارڈس اور ان سے متعلق دیگر معلومات سے بھرا یہ گھر ایک نظر میں مظفر حنفی کا شناخت نامہ تھا۔ بعد میں درجن بھر ان کے گھر بٹلہ ہاؤس گیا اور اسی کمرے میں بیٹھا، ہر بار ایک ہی نظارے سے واسطہ پڑا۔  استنادی عرق ریزی ان کے یہاں تھی جو منقش روداد کا احاطہ کرتی تھی۔

مشاعرے میں مظفر حنفی بھی غلام ربانی تاباں، فہمیدہ ریاض، کمار پاشی، مخمور سعیدی اور دوسرے شعرا کے ساتھ آئے، انھیں یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا۔ مشاعرے کی اگلی صبح افتخار امام صدیقی، زیب غوری، ان کی اہلیہ، فہمیدہ ریاض اور مظفرحنفی میرے گھر پر آگئے۔ بغیر اطلاع دیے اچانک آجانے پر مجھے حیرت ہوئی اور اس سے زیادہ خوشی ہوئی۔ ایک آدھ گھنٹے کی اس ملاقات میں ہم نے ایک دوسرے کے لیے قربت محسوس کی۔ کتابیں اور رسائل اپنی جگہ پر لیکن فکری سطح پر ملاقات کے سلسلے کو ایک الگ عنوان اور نام دیا جاسکتا ہے جس کی جھنکار کی جھنجناہٹ میں اپنائیت اور خلوص کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ ہم قلمکاروں کے لیے محبت دفاعی ہتھیار ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ علم و ادب کے خزانے لٹانے والے کثرت میں جیتے ہیں اور نئی جہت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مظفرحنفی وسیع النظر اور کشادہ دل انسان تھے اور تکریم احساس کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں، میں اس وقت ریڈر کی پوسٹ پر تھا اور مظفر حنفی اقبال چیئر کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ میرے پروفیسر بننے کا مرحلہ شروع ہوا تو ایک اکسپرٹ مظفر حنفی کو بنایا گیا۔ وائس چانسلر کی طرف سے خفیہ طور پر میرے کاغذات مظفر حنفی کو بھیجے گئے۔ انھوں نے میری حمایت میں اپنی رپورٹ بھیجنے کے بعد مظہرامام کو خبر دی کہ ’’مناظر صاحب پروفیسر بن گئے ہیں۔‘‘

مظفر صاحب نے خود مجھے اطلاع نہیں دی کہ معاملہ ابھی راز کا تھا۔ لیکن انھوں نے مظہرامام کے ذریعے مجھے مبارک باد بھی دی۔یہاں احساسات، خیالات اور الفاظ کے کلیش سے نبرد آزمائی نہیں تھی بلکہ مطالعے کی روشنی کی جگمگاہٹ تھی جو مظفر حنفی کے بطن میں تھی۔ یہ طرز زندگی کی ایک انفرادیت ہے جس سے شخصیت کا آئینہ سامنے آتا ہے جس کی آفاقی اہمیت ہوتی ہے۔ اسے فنکارانہ ذات کا اسلوب اور نئے پن کے سراغ کی چمک کہہ سکتے ہیں۔

مظفرحنفی اپنی بیشترکتابیں مجھے بھیجتے تھے اور میں اپنے رسالہ ’کوہسار جرنل‘ میں یا دیگر رسائل میں تبصرہ ضرور کرتا تھا۔ کبھی ’کوہسار‘ میں انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ہر شمارے میں کسی نہ کسی شخصیت سے میرے انٹرویو شائع ہوتے تھے، مظفر حنفی سے بھی میں نے انٹرویو شائع کیا تھا۔  اس طرح ان کی شخصی اور ادبی فنکاری پر روشنی پڑتی ہے؟ نئی معلومات حاصل ہوتی ہے اور بہت سے نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔

ہرگانوی: غزل آپ کے مزاج سے زیادہ قریب ہے یا نظم

مظفر: غزل، میرا مقطع ہے    ؎

 

بری نہیں ہے مظفر کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

ہر چند کہ آپ نے وجہ دریافت نہیں کی، پھر بھی اجمالاً عرض کردوں کہ ادب کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ مختصر ترین لفظوں میں بات یوں کہی جائے کہ سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ غزل اس باب میں سب سے زیادہ کامیاب ہے۔

ہرگانوی: کیا نثری نظم کا  زور ختم ہوگیا؟

مظفر: حقیقت یہ ہے کہ اردو میں نثری نظم نے کبھی زور نہیں پکڑا۔ ہمارے ہاں پابند شاعری کی استتی چھتنار روایت ہے کہ آزاد نظم کو ہی جڑیں جمانے میں دشواری ہورہی ہے۔ ویسے نثری نظمیں آج بھی چھپ رہی ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجرباتی چیزیں زندہ رہ سکیں گی۔

ہرگانوی: آپ ایک مدت تک کہانیاں لکھتے رہے لیکن اب باضابطہ طور پر شاعری کررہے ہیں اور تنقید لکھ رہے ہیں اس تبدیلی کی وجہ؟

مظفر: یہ سچ ہے کہ 1952 تا 1960 میں نے افسانے زیادہ لکھے، شاعری کم کی۔ پھر جب 1959 میں ماہنامہ ’نئے چراغ‘ کی ادارت سنبھالی تو ساتھ ہی تجارت کا کام بھی تھا۔ وقت کم ملتا تھا کہانیاں لکھنے کا۔ چنانچہ اس زمانے میں رسالے کے لیے ارسطو ثانی کے نام سے منی کہانیاں (افسانے) کافی لکھے۔ غزل کے اشعار چونکہ ایک نشست کا مطالبہ نہیں کرتے، مختلف اوقات میں ہوتے رہتے ہیں اس لیے اس طرف رغبت زیادہ ہوگئی، مزید برآں جدیدیت کے رجحان نے شاعری کے ساتھ نثر اور فکشن میں بھی علامت پسندی اور تجریدیت کو پسندیدہ قرار دیا لیکن میرا ذاتی خیال تھا اور اس بارے میں اس دور کے ناقدین کے مباحثے بھی رہے کہ علامت، ابہام، تجرید وغیرہ شاعری کے زیور ہیں۔ ان کے استعمال سے افسانہ ’منہ بند‘ ہوجاتا ہے۔ جب اس رویے میں شدت آئی تو میں نے غزل کو اپنا لیا کیونکہ اس کا تو خمیر ہی رمزیت اور اشاریت سے اٹھا ہے۔ اسی کے آس پاس شاد عارفی کا شاگرد ہوا اور اوائل 1962 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ان کے ہمعصر ناقدین بوجوہ ان سے خفا تھے اور میں چاہتا تھا کہ مرحوم کے فن پر تنقیدی اور تحقیقی کام ہو۔ لہٰذا خود ہی ابتدا کی اور مضامین کے علاوہ ان پر ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیقی مقالہ بھی لکھا۔ پھر یونیورسٹی کی ملازمت میں آکر پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت بھی تنقید کے میدان میں اترنا پڑا۔ سو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ہرگانوی: آپ نے تدوین کابھی اہم کام کیا ہے۔ اس کی افادیت بتائیں؟

مظفر: تدوین بے شک ایک اہم ادبی کام ہے، ذوق پر مولانا محمد حسین آزاد نے یا شاد عارفی پر اس خاکسار نے توجہ نہ کی ہوتی تو غالباً ان اہم فنکاروں کو ان کا جائز ادبی مقام نہ ملتا یا بہت دیر سے ملتا۔

ہرگانوی: ہمارے یہاں علامتی شاعری کئی مرحلے سے گزری۔ اس کی ترقی کے امکانات کیا ہیں؟

مظفر: موجودہ صنعتی اور مشینی دور میں بیانیہ شاعری، رزمیہ، مثنوی وغیرہ کا ذوق بہت کم ہوگیا ہے۔ شاعری کی رمزیت اور اس میں علامت کے استعمال سے جو پرتیں پڑتی ہیں اور ہر ذوق کے قاری کی پسند کے مفاہیم اس سے برآمد ہوتے ہیں اس کے پیش نظر علامتی شاعری کے لیے ترقی کا میدان کھلا ہے۔

ہرگانوی: ترجمے کی افادیت؟

مظفر: اس کی افادیت سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔

ہرگانوی: آج کی اردو صحافت؟

مظفر: بیشتر سنسنی خیزی پر انحصار کرتی ہے لیکن اعلیٰ نمونے کم سہی، نایاب نہیں ہیں۔

ہرگانوی: آپ کی دانست میں آج کے انسان کے کرب کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

مظفر: انسان اور کرب لازم و ملزوم ہیں۔ ماضی میں بھی انسان کرب سے دوچار تھا اور مستقبل میں بھی ہوگا۔ تاوقتیکہ سائنسی ترقی اسے احساسات سے عاری نہ کردے۔

ہرگانوی: کیا مشاعرے زبان و ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟

مظفر: بے شک مشاعروں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ مشاعروں کی بھرمار اور بے کردار، نقلی شاعر اور شاعرات کی کثرت نے اس مفید ادارے کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

مظفر حنفی کا جواب چشم کشا ہے۔ پانچ دس سوالات اور جوابات اور بھی تھے جنھیں یہاں دے کر خودنوشت کا حصہ نہیں بنانا چاہتا۔ ہاں، اتنا ہے کہ انھوں نے سیاسی پشت پناہی سے نہیں بلکہ اپنی تحریر اور کلام کے بل بوتے پر وہ ادب میں زندہ ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر چھائے رہنے کا ہنر انھیں معلوم تھا۔ تقریباً سات یا آٹھ درجن کتابیں ان کے نام سے ہیں۔ مثبت کردار نے انھیں تمام لوازمات کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔

دہلی میں اس دن رفیق الزماں میرے ساتھ اور رہنمائی کررہے تھے۔ پہلے ہم شمع افروز زیدی کے یہاں گئے لیکن وہ گھر پر نہیں تھیں۔ رفیق الزماں نے کہا کہ یہیں پر تھوڑا آگے مظفر حنفی رہتے ہیں، میں نے کہا ’’چلیے‘ اور ہم مظفرحنفی کے یہاں پہنچ گئے۔ باتوں کے دوران جب انھیں بتایا کہ شمع افروز زیدی گھرپر نہیں تھیں تو انھوں نے ایک لطیفہ سنایا۔ وزیرآغا دہلی آئے ہوئے تھے، رسالہ ’بیسویں صدی‘ کے لیے مظفر حنفی کو وزیرآغا سے انٹرویو لینا تھا۔ میز پر دوسری طرف ٹیپ پر گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے شمع افروز زیدی اور حمان نیر بیٹھے تھے۔

’’یہ محترمہ کون ہیں؟‘‘ وزیر آغا نے شمع کی جانب اشارہ کرکے پوچھا۔

’’شمع افروز زیدی ہیں۔ ’بیسویں صدی‘ کی نائب مدیر ہیں‘‘ مظفر حنفی نے تعارف کراتے ہوئے کہا ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں ایم اے کیا ہے۔ ’اردو ناول میں طنز و مزاح‘ کے موضوع پر جامعہ سے ہی میری نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ مکمل کررہی ہیں۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب، ایک بات رہ گئی۔ ازراہِ کرم یہ بھی بتا دیجیے۔‘‘

رحمن نیر بول پڑے ’’یہ محترمہ میری بیوی بھی ہیں۔‘‘اس دن بھی ہم دو تین حضرات مظفر حنفی کے گھر پر تھے۔ گفتگو جاری تھی کہ مظفر صاحب نے مجھ سے کہا ’’ایک سمینار شاد عارفی پر کرائیے۔ میں ہر طرح سے تعاون کے لیے تیا رہوں۔‘‘

میں نے اسی وقت عثمان انجم صاحب کو وشاکھا پٹنم فون لگایا کہ وہ اس غیر اردو داں علاقے میں اردو کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ ہر سال نیشنل سمینار کرتے ہیں اور ماہنامہ ’اصنام شکن‘ پچیس سال کا زیادہ عرصے سے نکال رہے ہیں۔‘‘ میں نے عثمان انجم صاحب سے کہا کہ شاد عارفی کی وفات کی پچاسویں برسی ہے۔ اس موقع پر آپ ایک سمینار کیجیے اور تمام مقالے کتابی شکل میں شائع کیجیے۔ یہ 2015 کی بات ہے۔ عثمانی صاحب میری بات مان گئے اور سمینار ہوا اور کتاب ’شاد عارفی کی شاعرانہ عظمت‘ وشاکھاپٹم سے شائع ہوئی۔ کتاب میں تازہ بہ تازہ مضامین لکھنے والوں میں بالترتیب عثمان انجم، مظفر حنفی، مناظر عاشق ہرگانوی، فراز حامدی، نیر فتح پوری، محبوب راہی، فاروق جائسی، محمد زماں آزردہ، رؤف خیر، محمد محفوظ الحسن، مولا بخش، افضل مصباحی، سعدیہ پروین، شان بھارتی، امتیاز احمد راشد، احمد معراج اور محمود خاں  اصغر کے نام شامل ہیں۔ اس سمینار اور کتاب کے بعد مظفرحنفی سے قربت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ والہانہ اور وارفتہ انداز دراصل زندگی کی علامت ہے۔ جس طرح حسن، عشق کی تخلیق کرتا ہے اور عشق اپنی انتہائی منزلوں میں پہنچ کر حسین ہوجاتا ہے اسی طرح رشتے حسی کیفیت کو اجاگر کرتے ہیں اور زندگی کو جلا بخشتے ہیں       ؎

میں نے مانا کہ تو چلا بھی گیا

دل کی محفل یونہی سجی ہے ابھی


Prof. Manazir Ashique Harganvi

Kohsar Bhikanpur-3

Bhagalpur - 812001 (Bihar)

Mob.: 9430666156

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں