4/1/21

مظہرامام کی نظمیں: حقیقت اور رومان کا آمیزہ - مضمون نگار: شہاب ظفر اعظمی

 


ملک گیر سطح پر اردو کے بڑے اور مقبول شاعر وں میں مظہر امام کانام آتاہے۔وہ ہر مذاق کے قاری کو اپنے شاعرلگتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مظہرامام رومان پسند شاعر ہیں اور ترقی پسند شاعر بھی۔جدید شاعری میں ان کی کاوشیں ملتی ہیں اور نئی تجرباتی شاعری میں بھی انہوں نے شہرت و قبولیت حاصل کی ہے۔حالانکہ ان کا شعری سرمایہ بہت ضخیم نہیں ہے۔ان کی مدت حیات،شاعری اور شہرت کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ غزلوں کا انتخاب محض ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہوگا۔ان کے صرف تین شعری مجموعے آئے۔ زخم تمنا، رشتہ گونگے سفر کا اور پچھلے موسم کا پھول۔ بند ہوتا ہوا بازار ان کے دو مجموعوں (زخم تمنا اور رشتہ گونگے سفر کا)سے لی گئی نظموں کی کلیات ہے اور ’پالکی کہکشاں کی‘ میں تینوں مجموعوں کی غزلوں کو یکجا کردیا گیا ہے۔حیرت انگیز طور پر ان کی نثری کتابوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ دراصل مظہر امام غزلوں پر غزلیں یا نظموں پر نظمیں لکھنے کے عادی نہیں تھے۔ انھوں نے کمیت کے بجائے کیفیت پر توجہ دی اور اردو کومختصر مگر غیرمعمولی شعری سرمایہ عطا کیا۔اسی لیے ان کی شاعری کا کوئی حصہ ایسا نہیں ملتا جسے غیر ضروری یا بھرتی کا قراردے دیا جائے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ’پچھلے موسم کا پھول ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہر شعر انتخاب کی کیفیت رکھتاہے۔یعنی کوئی شعر ایسا نہیں ہے جسے یکسر رد کرنے کا جی چاہے۔‘‘میرا خیال ہے یہ جملہ ان کے تمام شعری سرمایے کو سامنے رکھ کر بھی کہا جاسکتاہے۔

مظہر امام جدید غزل کے معماروں میں شمار کیے جاتے ہیں مگر ان کی نظمیں بھی کم اہم نہیں ہیں۔ان کی نظمیں تعداد میں قلیل ہیں مگر کیف و معنی کے اعتبار سے زبر دست ہیں اور جدید نظموں کی فہرست میں نمایاں مقام کی حامل سمجھی جاتی رہی ہیں۔ان کے پہلے مجموعہ ’زخم تمنا‘ میں 42 نظمیں ہیںجو زیادہ تر نیم رومانی احساسات و جذبات کی غمازی کرتی ہیں۔ان پر اختر شیرانی،جمیل مظہری  وغیرہ کا عکس بھی نظر آتاہے۔بعد میں آگے چل کر مظہر امام کی شاعری میں فنی پختگی آئی اور ’رشتہ گونگے سفرکا‘ کی نظمیں ایک مثال قائم کرتی ہیں۔ان کی ابتدائی نظموں میں قنوطی رنگ نمایاں ہے۔پژمردگی،دنیا بیزاری اور خواہش مرگ اس دور کے حاوی موضوعات ہیں۔مثلاً ان کی نظم ’حیات آوارہ‘ کا یہ بند دیکھیے    ؎

جیسے کوئی شاعر ناکام تڑپے دادو تحسیں کے لیے

آرزوئیں جس طرح دل کی خلائوں میں ہوں محو پیچ و تاب

دشت میں کرتاہو کوئی تشنہ لب جس طرح پانی کی تلاش

ڈھونڈتا ہے سایہ جیسے گرمیوں کی دوپہر میں آفتاب

زندگی یوں ہی بھٹکتی پھر رہی ہے جستجوئے موت میں

(زخم تمنا: ص172،ناشراڑیسہ اردو پبلشرز۔دیوان بازار، کٹک، اشاعت1962)

ایسا کیوں ہے؟ شاعر موت کا خواہش مند کیوں ہے؟ ان کی ابتدائی نظمیں مایوسی و محرومی سے بھری ہوئی کیوں ہیں؟ ایسے سوالوں کا جواب مظہر امام خود ’دیباچہ‘ میں دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:

’’مجھے احساس ہے کہ ہر وقت آنسو بہاتے رہنا کوئی مہذب فعل نہیںہے لیکن اس کو کیا کیجیے کہ خود تہذیب کی حسین قدروں کا حسن مشتبہ ہو گیاہے۔ انسان اپنی عظمت کھوتا جارہا ہے اور تباہی و بربادی کی طاقتیں سرافراز ہو رہی ہیں۔نیکی،حق پسندی اور انسان دوستی کے نعروں میں پہلی سی حرارت نہیں رہی۔میرے غم کی نوعیت انفرادی نہیں اجتماعی بھی ہے‘‘ (ایضاً، ص 14)

اس اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مظہر امام جس زمانے کی بات کر رہے ہیں وہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی ہے جو جنگ عظیم،سیاسی کش مکش اور سماجی اتھل پتھل کا زمانہ ہے۔تہذیبی قدریں زوال آمادہ ہیں اور انسانی عظمت دم توڑ رہی ہے۔معاشرے میں عدم تحفظ نے انسان کے سامنے ایسے مسائل کھڑے کر دیے ہیں جو اس کے مذہبی، تہذیبی اور اقداری تصورات کو منہدم کرنے پر تُلے ہیں۔یہ ایسے حالات ہیں جو شاعر کو تنہائی،رنج و غم اور قنوطیت جیسے احساسات سے دوچار کرتے ہیں اور لاشعوری  طور پر اس کی تخلیقات حُزن و یاس ہی نہیں انسان کی مجبور ی و بے بسی کا بھی اظہاریہ بن جاتی ہیں۔ نظم ’برف میں آگ‘ کا اختتام انتہائی مایوس کن انداز میں ہوتاہے        ؎

میں سوچتاہوں نئے حوصلوں کی بات کروں

جنون شوق کی پرواز کی ادائیں دوں

مگر یہ کیا کہ مرے بازئووں میں تاب نہیں

فغاں! کہ برف کی سِل ہے دلِ فسردہ بھی

لگائوں آگ اگر برف میں تو کیا حاصل

کہ آگ اپنی حرارت کو بھی گنوا دے گی

 (ایضاً، ص 83)

نظم ’غروب شام‘ میں بھی وہی مایوسی اور اندھیرا دکھائی دیتاہے       ؎

شام کے ڈوبتے سورج کی سسکتی کرنیں

میرے افکار کو کیا دیں گی تب وتاب حیات

میرے ٹھٹھرے ہوئے جذبات کے ویرانے میں

اور اُمڈا  ہی چلا آتاہے سیل ظلمات

(ایضاً، ص 84)

زخم تمنا‘ کی نظمیں مایوسی اور قنوطیت کے باوجود بنیادی طور پر رومانی ہیں۔اس لیے ترقی پسندوں میں شامل ہو کر بھی مظہر امام اپنی نظموں کو نعرہ یا پروپگنڈہ کی شکل نہیں دے سکے ہیں۔ان میں ترقی پسند نظم نگار وں کے برعکس وضاحت بیان کے بجائے رمزو ایما سے کام لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں فیض احمد فیض اور مظہر امام میں بڑی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیض نے اپنی شاعری کا آغاز براہ راست ترقی پسندی سے نہیں کیا بلکہ بنیادی طور پر ایک رومان پسند شاعر ہیں۔ قریب قریب یہی صورت حال مظہر امام کی بھی ہے۔ان کی ابتدائی شاعری پر رومان کی خوبصورت فضا سایہ فگن ہے مگر وہ فضا تصوراتی اور خیالی نہیں ہے۔ان کے احساسات و جذبات میں بلا کی سچائی ہے اور یہی سچائی انھیں فیض کے قریب کردیتی ہے۔

مظہر امام اپنی رومانی دنیا اور حسن و عشق کی خواب آور فضاؤں میں رہ کر شاعری کررہے تھے کہ زندگی کی مٹھاس کڑواہٹ میں بدل گئی۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوئے تو ان کی شاعری میں ایک نیا موڑ آگیا۔اس ضمن میں وہ خود لکھتے ہیں:

’’زندگی کے شکستہ اور تلخ تجربوں نے جن کی نوعیت ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھی،میری روح میں یاس و تلخی کا زہر گھول دیا۔غالباً یہ میرے حق میں اچھا ہی ہوا، یوں کہ اس کے بغیر شاید میں اپنے عہد کے مزاج  سے ناآشنا اور ہم عصروں کے لیے اجنبی رہتا۔‘‘ (ایضاً، ص 13)

لیکن ایسے میں بھی مظہر امام کے قدم ڈگمگاتے نہیں اورنہ ہی وہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔زندگی کی اُن تمام نئی قدروں سے وہ نبردآزما ہوتے ہیں اور زندگی کی ایک ایک چبھن کو پھولوں کی تازہ اور نازک پنکھڑیوں میں اس طرح ملفوف کرکے زمانے کو پیش کرتے ہیں کہ بیک وقت چبھن کے ساتھ ساتھ نازکی،تازگی اور من موہ لینے والی خوشبو سے ہماری مکدر طبیعت فرحت و بشاشت کا احساس کرتی ہے۔ یعنی بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں مظہر امام بہ حیثیت شاعر جیسے جیسے پختہ، سینئر اور بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کی نظموں میں ایک مثبت اور پختہ نقطۂ نظر نمایاں ہو تا چلا جاتاہے۔یہ فرق اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اُس دور میں ترقی پسندی کی ادعائیت کو چھوڑ کر جدیدیت کو اپنا لیتے ہیں۔یہاں جملہ ٔ  معترضہ کے طور پر یہ بتاتا چلوں کہ مظہر امام کی ترقی پسندی سے علاحدگی اور جدیدیت کی طرف جھکاؤ کو کچھ دانشوروں نے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا۔

 مظہر اما م شہرتوں کے پیچھے دوڑنے والے شاعر نہیں تھے۔لہٰذا محض شہرت کی خاطر وہ جدیدیت سے منسلک نہیں ہوئے۔دراصل ہر بڑا فنکار اپنے زمانے،اپنے آس پاس کے ماحول اور اہم شخصیتوں کے فکر و خیال کو کسی حد تک قبول بھی کرتاہے اور رد بھی۔اسی ردو قبول کے درمیان اس کے اپنے شخصی اور فنکارانہ نقوش ابھرتے ہیں۔مظہر اما م کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔وہ ترقی پسندی سے متاثر ہوتے ہیں،مگر جب وہ پرچار اور پروپیگنڈہ بننے لگتی ہے جس میں فنکار کے انفرادی احساسات گم ہونے لگتے ہیں تو جدیدیت کے رجحان سے قریب آجاتے ہیں۔ پھر جدیدیت میں مریضانہ انفرادیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں سے بھی الگ ہونے میں انھیں دیر نہیں لگتی اور آخر میں مابعد جدیدیت کے نظریات سے متاثر ہوتے ہیں۔ ادبی تحریکوں،رجحانوں اور نظریوں کا اثر لینا قلم کار کے عصری شعور کا مظہر ہے۔مظہرامام کا ذہن و فکر بھی جامد و ساکت نہیں ارتقا پذیر تھا۔فنکارانہ سطح پر وہ سفر،مدام سفر پر یقین رکھتے تھے۔انھوں نے جہاں جدیدیت کو قبول کیا وہیں ترقی پسند نظریات کے مثبت پہلوئوں سے بھی صرف نظر نہیں کیا۔ان کی بعد کی نظمیں فکر ی سطح پر جدید ہوتے ہوئے کہیں نہ کہیں ترقی پسند افکار کی بھی آئینہ داری کرتی ہیں۔

زخم تمنا ‘ سے ’رشتہ گونگے سفر کا ‘ تک کی نظمیں رومانیت اور ترقی پسندی سے جدیدیت تک سفر کی نشاندہی کرتی ہیں۔ان مجموعوں میں شامل نظمیں اپنے انداز اور اسلوب کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ فکری طور پر دوسرے مجموعے کی نظمیں بھی اقدار کے بحران اور انسانی رشتوں کے بکھرائو کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں۔اِن میں بھی تنہائی،بے گانگی،بے یقینی،دردو کرب اور غیر محفوظیت کا اظہار کیاگیاہے جو اُس دور کا عام ادبی رجحان ہے مگر اِن نظموں میں داخلیت اور دروں بینی کا میلان نمایاں ہے۔’زخم تمنا‘ کی نظمیں اجتماعی احساسات اور عام انسانی احوال و کوائف کو پیش کرتی تھیں اور انداز بیان بھی نسبتاً واضح اورLoud تھا۔جبکہ ’رشتہ گونگے سفرکا‘ کی نظموں کا اسلوب بالواسطہ اور علامتی ہے اور جد یدیت کے فلسفے کے زیر اثراِن میں نئی لفظیات کو برتتے ہوئے انفرادی ذات اور شخصیت کا اظہار کیاگیاہے۔’ زخم تمنا‘ سے ہی ستمبر 1960 میں لکھی گئی ایک مختصر نظم ’اشتراک‘ دیکھیے جہاں سے تبدیلی کا نمایاں اشارہ ملتاہے        ؎

’’خیر اچھا ہوا تم بھی میرے قبیلے میں آہی گئے

اس قبیلے میں کوئی کسی کا نہیں /ایک غم کے سوا

چہرہ اترا ہوا/بال بکھرے ہوئے /نیند اچٹی ہوئی

خیر اچھا ہوا تم بھی میرے قبیلے میں آہی گئے

آئو ہم لوگ جینے کی کوشش کریں‘‘   (ایضاً، ص 146)

اور پھر’رشتہ گونگے سفر کا ‘کی نظم ’اکھڑتے خیموں کا درد‘ میں یہاں پہنچتا ہے کہ        ؎

مہیب طوفاں مہیب تر ہے

پہاڑ تک ریت کی طرح اڑرہے ہیں

بس ایک آواز گونجتی ہے/مجھے بچائو مجھے بچائو

مگر کہیں بھی اماں نہیں ہے/جواپنی کشتی پہ بچ رہے گا

وہی علیہ السلام ہوگا

(رشتہ گونگے سفر کا،ص17،شب خون کتاب گھر،الہ آباد، اشاعت 1974)

یہ نظمیں مظہر امام کے مثبت طرز فکرکی نمائندگی کرتی ہیں۔ شاعر مایوس،پژمردہ اور غمگین چہرہ والے نئے فرد کا استقبال کرتاہے او ر اسے خواہش مرگ کے بجائے مژدۂ حیات کا پیغام دیتاہے۔طوفان حیات میں وہی سلامت رہے گا جس کے پاس طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ ہوگا۔ انسانیت اورزندگی کی معنویت تبھی ہے جب حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے موت کو شکست اور حیات کو فتح حاصل ہو۔ مظہر امام نے اِس نظم میں ابتدائی نظموں کے قنوطی رویے کے برخلاف رجائی اورحوصلہ افزا نقطہ ٔ نظر پیش کیا ہے۔ یہی نقطۂ نظر’زخم تمنا‘ کے آخری حصے اور ’رشتہ گونگے سفر کا‘ کی زیادہ تر نظموں میں واضح ہوکر سامنے آتاہے۔

رشتہ گونگے سفر کا‘ کی کئی نظموں میں ازدواجی زندگی کی بے معنویت،زندگی کے جبر اور آزادبے نام رشتوں کی اہمیت کو موضوع بنایا گیاہے۔(بقول شاعر اس نوع کے موضوعات کی جانب اردو میں شاذ ہی توجہ دی گئی ہے) اس میں پہلی نظم جو آپ کو متاثر کرے گی، اُس کا عنوان ہے ’تمھارے لیے ایک نظم‘۔یہ ایک سحر انگیز نظم ہے جس کی لفظیات عام سی مگر انداز بیان مختلف ہے۔سیدھے سادے عام لفظوں میں نظم کا ارتقا ہمیں نئے احساسات اور نئی کیفیات سے روشناس کراتاہے۔نظم کا یہ حصہ دیکھیے:

میں /اُن ساعتوں کی گذرگاہ پر آبلہ پا رواں ہوں

جو دفتر کی/بیوی کی /بچوں کی

احباب کی ملکیت ہیں/میں اب وہ نہیں ہوں

جو میں تھا

اب اک مردہ انسان کا کوٹ میرے بدن کی کثافت چھپائے ہوئے ہے

میں برسوں کی رسوائیاں

اِ س کی بوسیدہ جیبوں میں مدفون کرنے میں مصروف ہوں‘‘

(رشتہ گونگے سفر کا، ص 8،شب خون کتاب گھر،الہ آباد، اشاعت 1974)

شاعر نے ایسی راہ اختیار کی ہے جو اس کے خوابوں سے الگ ہے۔وہ بالکل بدل چکاہے۔اچانک ایک شب وہ اپنے دیرینہ معشوق کو تصور میں لاکر ہم کلام ہوتاہے او ر اسے اپنی مجبوریاں بتاتاہے۔یہ مجبوریاں گھریلو اور سماجی ضرورتوں سے بندھی ہوئی ہیں۔ جب وہ معشوق کو یہ سب بتاتاہے تو اُسے راحت محسوس ہوتی ہے۔مگر پوری نظم ایسی سادہ نہیں ہے۔دوسرے اور تیسرے حصے میں یہ رومانی نظم فلسفہ،استعارہ اور علامت کے سہارے نئی معنویتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔چنانچہ نظم کے اختتام پر کئی نئے موضوعات جنم لیتے ہیں اور نظم جو رومانی تصور لیے ہوئے معشوق کے ساتھ ہم کلامی سے شروع ہوئی تھی فلسفیانہ رنگ لے کر زندگی اور جبر کے تصور تک پہنچ جاتی ہے۔

یہ دنیا اک ایسا مکاں ہے/جہاں کوئی کھڑکی نہیں

صرف دروازہ ہے ایک/اندر سے جو بندہے

اگر کھول پائیں تو کھولیں/کہ اندر ہمیں ہیں!

(ایضاً، ص 11)

تکنیک،ہیئت اور اسلوب کا تجربہ Patches  میں منقسم اس نظم کو جدید ہی نہیں کامیاب اور خاص بھی بنادیتاہے۔

مظہر امام کی کئی نظموں میں ایک شادی شدہ مرد کا کردار ناآسودہ فرد کے طور پر ابھرتاہے،جو لذت گناہ سے ہمکنار ہو نا چاہتاہے مگر خود پر کنٹرول کرتاہے اور بالآخر اپنی ناآسودہ زندگی میں لوٹ آتاہے۔زندگی سے اس کی توقعات زیادہ ہی ہیں۔وہ ہرا بھرا گھر اور خاندان رکھتے ہوئے اپنے محبوب کی یاد میں کھویا رہتاہے،گویا زندگی کے جبر کا شکار ہے۔نظم ’گوشت کا نغمہ‘ میں دیکھیے     ؎

تجھ سے بچھڑے ہوئے/چھ سال ہوئے

وقت کی کوکھ میں کتنے لمحے /جل گئے/راکھ بنے

زندگی ایک نئے رنگ میں آتی ہے/کہ اب

گھر بھی ہے،بیوی بھی،بچے بھی ہیں

شب کی تپتی ہوئی خاموشی میں

پھر بھی جب یاد تری نغمہ فشاں نوحہ بہ لب آتی ہے

اپنی شہ رگ کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے کانوں میں مرے

میری آواز میں آواز تری گونجتی ہے

میرے خوابوں میں ترے خواب چمک اٹھتے ہیں

کاش اک رات بھی /خلوت میں کبھی تو جو میسر آتی

پھر میں یہ فیصلہ کرتا/کہ محبت میں تری

روح کا نغمہ بھی شامل ہے

فقط گوشت کی فریاد نہیں‘‘ (ایضاً، ص 35)

مظہر امام کے یہاں محبت تمام پابندیوں اور رشتوں سے بے نیاز ایک روحانی رشتہ ہے جس میں فرد کی آزادی کہیں سے مجروح نہیں ہوتی۔گھر آنگن کی مجبوریاں اور گھٹن زندگی کے جبر کو نمایاں کرتی ہیں۔مظہر امام اس جبر کو پسند نہیں کرتے اور بغاوت کے خواہاں رہتے ہیں۔اپنی نظم ’کنگال آدرش‘ میں انھوں نے زندگی کے جبر اور ازدواجی زندگی کی بے معنویت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ بیوی شاعر کی شخصی آزادی پر روک لگاتی ہے اور روایتی مثالیت پرستی کا تقاضا کرتی ہے ۔ لیکن شاعر باورچی خانے کے ایندھن سے بستر کی شکن تک رسمی سماجی رشتے کو محبت نہیں مانتا بلکہ ناگوار قسم کا سمجھوتہ مانتاہے۔بیوی پابندیاں لگاتی ہے کہ وہ  دوستوں کے ساتھ ساحلِ سمندر تک نہ جائے،مئے ناب سے زندگی کو حرارت نہ بخشے اور کسی سادہ رو حسینہ کی اُس کے سامنے تعریف نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔شاعر کو یہ پابندیاں پسند نہیں۔وہ کہتاہے      ؎

یہ محبت کی بنجر زمیں/جہاں پھول کھلتے نہیں

جہاں چاندنی اپنا جلوہ دکھاتی نہیں/یہ محبت

جو چولہے سے بستر کی بھدی شکن تک ہی محدودہ ہے

یہ محبت نہیں /جبرہے (ایضاً، ص 34)

دراصل شاعر زندگی کی یکسانیت سے نجات پانا چاہتاہے اور ایک فنکار کی طرح رومانیت،حسن،رنگینی اور مسکراہٹ کا خواہاں ہے۔اور یہ سب چیزیں نہیں مل پاتیں تو وہ ماضی اور محبوب کو یاد کرتاہے۔’رشتہ گونگے سفر کا‘ نگاہ میں رکھیے تو نظم گم شدہ قدروں پر نوحہ اور فلسفیانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ ساتھ زندگی کے جبر اور باغی تیوروں کا اظہار بھی کرتی ہے۔اس نظم میں مظہر اما م کا گمشدہ محبو ب زندگی کے طویل سفر میں دوبارہ ملتاہے۔وہ بھی کسی کارواں سے الگ ہوکر بھٹکتاہوا ایسے دوراہے پر آن کھڑاہے جہاں اس کی ملاقات اپنے پرانے ساتھی سے ہو جاتی ہے۔اگر دونوں باغی ہیں اور روایات کے بندھن سے آزادی چاہتے ہیں تو دونوں کو ایک ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا چاہیے تھا۔مگر ایسا بالکل نہیں ہوپاتا۔ دونوں روایات کی شکستہ مگر اونچی دیواریں توڑ نہیں سکتے کیوں کہ اخلاقی اور سماجی قدروں کا جبر اُن کے ہاتھ باندھے رکھتاہے۔شاعر اپنے محبوب سے فون پر بات کرتاہے مگر ناآسودہ ہے۔وہ جسم اور لمس کا فاصلہ ختم کرنا چاہتاہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔روایت کی زنجیر،بیوی بچوں کی صورت میں شاعر کے پائوں سے لپٹی ہوئی ہے۔صوت وآواز کا رشتہ ہی ایک سہار اہے جو اگرچہ گونگے سفر کا رشتہ ہے مگر اسے تقویت بخشتاہے۔اس لیے وہ چاہتاہے کہ یہ رشتہ دائمی طور پر قائم رہے۔

تمھاری رگوں میں /میری رگوں کی طرح

کتنی صدیوں کا خوں /کتنی نسلوں کا خوں

موجزن ہے/اور یہ ساری نسلیں

شکستہ،مگر اونچی دیوار کی طرح  اِستادہ ہیں

یوں ہی کب تلک فون پر بات کرتے رہیں گے

یوں ہی فاصلہ جسم کا،لمس کا

ایک رشتہ فقط صوت و آواز کا

یہ رشتہ بھی حصہ ہے گونگے سفر کا

جانے کب ٹوٹ جائے،کسے یہ پتہ ہے!

کاش یہ رشتہ ٔ  صوت و آواز ہی دائمی ہو

کہ گونگے سفر کے سبھی سلسلے عارضی ہیں

(ایضاً، ص 13)

یہ نظم بظاہر ایک فرد کے محسوسات کی آئینہ داری کرتی ہے مگر دراصل یہ اس عہد کے برگشتہ انسان کی آواز اور اس کے کرب کا فنکارانہ اظہارہے۔اس میں محض سماج کی بالائی سطح پر تیرنے والی حقیقتوں کا ادراک نہیں بلکہ پوری زندگی پر چھائی ہوئی تاریکی کو جذب کرنے کی کوشش ہے جس سے آج کا انسان خارجی اور داخلی طورپر دوچار ہے۔

مظہر امام کی نظمیں انداز پیش کش کے اعتبار سے بھی انفرادو امتیاز کی حامل ہیں۔ان کی اکثر نظموں میں وحدت تاثر کے ساتھ ساتھ خودکلامی کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کے سہارے وہ فرد کے باطن تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس دوران وہ علامتوں اور استعاروں کا سہارا لیتے ہیں لیکن ایسی علامتیں اور استعارے جو قابل فہم ہوتے ہیں اور نظم کی ترسیل میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں کرتے۔

ہیئت کے اعتبار سے مظہر امام کی نظمیں متنوع اقسام کی ہیں۔ انھوں نے پابند،آزاد نظمیں لکھیں اور سانیٹ، ترائلے کے تجربے بھی کیے۔مسدس بھی لکھے اور غزل کے فارم میں بھی نظمیں کہیں۔مروجہ بحروں میں ارکان کی کمی و بیشی کے ذریعے بھی نظموں میں جدت پید اکی۔گویا نظم کے بندوں،بحروں یا مصرعوں کی ترتیب وغیرہ میں انہوں نے سکہ بند طریقوں پر انحصار نہیں کیا۔

مظہر اما م نے طویل نظمیں بھی لکھیں اور مختصر بھی۔ مگر ہر قسم کی نظم میں ایجاز،اختصار،تہہ داری اور جامعیت پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ان کی ایک مختصر نظم دیکھیے      ؎

بکھرا بکھر ا/الجھا الجھا/ٹوٹا ٹوٹا/کھویا کھویا

ٹیلی ویژن پر ایک چہرہ/اپنا چہرہ مانگ رہا تھا

(آئینے سے ٹپکتا لہو:رشتہ گونگے سفر کا،ص34،شب خون کتاب گھر، الہ آباد)

یہ چھوٹی سی نظم چند الفاظ پر مشتمل ہے مگر تاثیر اور جامعیت کے ساتھ معنوی تہہ داری کے لحاظ سے بڑی نظم کہلانے کی مستحق ہے۔اس کی ظاہری ساخت سادگی کی حامل ہے مگر باطنی یعنی معنوی ساخت ایسی ہے جو نظم کے اختتام کے بعد بھی قاری کے ذہن میں سفر کرتی رہتی ہے۔ بالکل یہی کیفیت آپ ان کی دیگر مختصر نظموں مثلاً اشتراک،بے ادب ستاروں سے، شعاع فردا کے رازدانو، وہ ایک بات،پوسٹ نہ ہونے والا خط اور کھلے آسمان کے نیچے وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ مظہر امام نے اپنی نظموں کے لیے ایک دلکش،تازہ اور جاذب نظر اسلوب اختراع کیاہے،ایک ایسا اسلوب جو اُن کے ہم عصروں میں کسی کے پاس نہیں۔ یہ اسلوب رومانیت، روایت، ترقی پسندی، جدیدیت اور نئی شاعری کے خوبصورت آمیزے سے تیار ہواہے۔اور یہی آمیزہ انھیں تاریخ نظم گوئی میں ایک مستحکم اور پائیدار فنکارانہ مقام عطا کرتاہے۔


 Dr.Shahab Zafar Azmi

Department of Urdu

Patna University,Patna 800005

shahabzafar.azmi@gmail.com

Mob.8863968168

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں