4/1/21

خودانحصاری کا مہاتما گاندھی ماڈل اور نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 - مضمون نگار: وجیتا پرویز

 



خود انحصاری کا تصور کوئی نیا منطقی نظریہ نہیں ہے جس سے ہم واقف نہ ہوں۔  ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کے مطابق  اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنا انتظام خود کریں، ہم کسی دوسرے کی مدد کے لیے محتاج نہ ہوں عام طور پر اسی کو خود انحصاری سمجھا جاتا ہے۔  خود انحصاری کی بات کریں اور گاندھی جی کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے۔  گاندھی جی نے یہ منصوبہ ٓا زادی سے پہلے ہی تیار کیا تھا اور اپنی کتاب ’’ India of My Dream ‘‘ میں اس کو کس طرح عملی جامہ پہنانا ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔  آزادی کے بعدلگ بھگ تمام تر حکومت نے اپنے اپنے طریقے سے ملک کو  ترقی کی راہ میں گامزن کرنے کی کوششیں کیں۔ اسی سلسلے کے تحت وقتاً  فوقتًا کئی تعلیمی پالیسی وجود میں آئی۔ مثلاً  1966 کی تعلیمی پالیسی کا نفاذ جو ڈاکٹر  ڈی۔ ایس۔ کوٹھاری کی سربراہی میں منعقد ہوا،  1986 کی نئی تعلیمی پالیسی (NEP1986)  اور موجودہ دور  2020  میں بھی حکومتِ ہند    خود انحصاری کو  فروغ دینے کا منصوبہ تیار کرتے ہوئے اسے عمل پیرا کرنے کی کوششوں پر زور دے رہی ہے۔  لہٰذا اسی زمرے میں حکومت  ہند نے  خود انحصار ہندوستان  یا  ’ آتم نربھر بھارت‘  کا  نعرہ دیتے ہوئے قومی تعلیمی پالیسی 2020 (National Education Policy, 2020)  کی  تشکیل کی ہے۔ اس مضمون میں گاندھی جی کے خود انحصاری کے طریقہ کار  اور قومی تعلیمی پالیسی۔ 2020کے درمیان یکسانیت اور مماثل نکات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  اور یہ  بھی دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر قومی تعلیمی پالیسی2020کے سبھی نکات اور سفارشات  پر عمل ہو تا ہے  اور انھیں نافذ کر دیا جائے  تو اس سے گاندھی جی کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کتنی آسانی ہوگی۔

مساوات اور شمولیت:

 ’’سوراج سے میرا مفہوم ہے ہندوستان کی حکومت، لوگوں کی رضامندی سے اس بات کا پتہ لگائے کہ بالغ آبادی کی سب سے بڑی تعداد،  مرد ہوں یا خواتین  آبائی پیدا  ہونے والے یا رہائش، جنھوں نے دستی مزدوری کے ذریعے ریاست کی خدمت میں حصہ لیاہے اور جنھوں نے اپنا  نام رائے دہندگان کے طور پر اندراج کروانے میں پریشانی اٹھائی ہے۔   اصلی سوراج چند لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت  رہنے سے نہیں بلکہ تمام لوگوںکو اس طرح کی  حکومت کے مخالف رہنے سے آئے گی، دوسرے لفظوں میں، سوراج  حاصل کرنے کے لیے عوام کو اس بابت تعلیم دینا ضروری ہے کہ جس سے وہ حکومت کو باقاعدگی سے اقتدار کرنا سیکھ جائیں۔‘‘

(بحوالہ انڈیا آف مائی ڈریم،از  ایم کے گاندھی،ص7)

پورنا  سوراج  یا مکمل خود اختیاری کے تصور کو حقیقی قالب میں ڈھالنے کے لیے گاندھی جی نے خود انحصار اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو خود کفیل ہونے کے لیے ایک مقصد ان کے سامنے رکھا۔ سماج کی سب سے چھوٹی اکائی فردسے اپنی بات شروع کرتے ہیں کہ ایک فرد، ایک گاؤں اور ایک ملک اسُ وقت تک سوراج حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ خود کفیل یا خود انحصار نہ ہو جائے۔  انھوں نے اسی سلسلے کے تحت  ایسے تعلیمی نظام کی سفارش کی جس میں  تمام  مذاہب، ذات، غریب امیر، ہر طبقے کے لوگوں کو تعلیم کا حق حاصل ہوگا۔  اس کے ساتھ ہی وہ تعلیم کے ذریعے انھیں با اختیار بنانا بھی چاہتے تھے۔  وہ ملک کی اصل دولت خزانوں کے بجائے پرائمری اسکول کے چھوٹے بچوّں کو بتاتے تھے اور ان کی تعلیم کو ضروری قرار دیتے تھے۔

 اس اعتبار سے  نئی قومی تعلیمی پالیسی2020  (NEP-2020) نے بھی اس بات پر دستاویز کے شروعات میں ہی توّجہ دی ہے کہ تعلیم گاہوں سے  ترک تعلیم (Dropout)کی شرح کو کم کیا جائے گا اور ہمہ گیر رسائی (Universal Access to Education For All) سے تمام  لوگوں کی تعلیم کو ہر سطح پریقینی بنایا جائے گا۔  یہ  اکثر دیکھا گیا ہے کہ تعلیمی درجے کے اضافے میں طلبا کا اندراج کم ہوتا جاتا ہے  اور یہ اعداد و شماراور بھی اہم ہو جاتے ہیں اگر ہم صرف  طالبہ  اور ایس سی؍ایس ٹی  (SC/ST)  طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کے اندراج کی شرح کو دیکھیں۔ مثلاً، NSSO   کا سروے  جو   2017-2018 کے اعداد و شمار کو پیش کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 6-17  سال کے لگ بھگ 3کروڑ 22   لاکھ بچّے ابھی بھی اسکولی تعلیم سے محروم ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی میں  2030  تک سو فیصد مجموعی اندراج شرح (Gross Enrolment Ratio) یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ گاندھی جی نے اپنی زندگی کے چالیس سالہ تعلیمی میدان کے تجرباتی اور عملی کوششوں کے بعدنئے ہندوستان کی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعلیمی منصوبہ تیاّر کیا تھا، جسے ’وردھا شکچھا یوجنا ‘ یا ’ بیسک راسٹریا سکچھا یوجنا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے  جس کی خصوصیت یہی ہے کہ اس میں گاندھی جی نے مفت اور ضروری تعلیم دینے کی سفارش کی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق سات سال سے چودہ  برس تک کے تمام بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم فراہم کی جائے گی۔  گاندھی  جی کے مطابق ضروری تعلیم کا خواب تب تک حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جب تک مفت تعلیم اور اس سے جڑے تمام لوازمات کا خیال نہ  رکھا جائے  بقول گاندھی جی :

’’یہ خیال کرنا معقول نہیں ہے کہ والدین کی اکثریت یا تو  احمق  ہے یا بے دل کہ وہ  اپنے بچے کی تعلیم کو نظر انداز کرتے ہیں  جبکہ یہ انھیں بلا قیمت ان کے دروازے پر دستیاب ہے‘‘                                                                                                               

(بحوالہ ینگ انڈیا،  از  ایم  کے  گاندھی،14-8-1924) 

یقینا تعلیم کی مفت فراہمی سے ترک تعلیم کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہو سکتی ہے، پوری طرح سے نہیں تو ذیلی طور پر اس کا فرق پڑنے کے امکان ہیں۔  ایسے کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے طلبا اسکولی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں یا ثانوی درجات تک آتے آتے اپنی تعلیم کو ترک کر دیتے ہیں۔  ان میں بچہ مزدوری، گھریلو کام کے لیے اسکولی طالبہ کا رکھنا، گھر میں اپنے چھوٹے بھائی  بہنوں کی دیکھ بھال خاص طور پر جب ماں باپ دونوں مزدوری کے لیے گئے ہوں، کچھ احتیاطی حفاظتی انتظامات میں کمی جو بچوں کواسکول بھیجنے  کے لیے والدین کی نفی،  غلیظ اور غیر صحتمند بیت الخلا کی موجودگی یا محرومی بھی ایک وجہ بن سکتی ہے۔  نئی  قومی تعلیمی پالیسی2020 کے دستا ویز نے پہلے سے موجود تمام پالیسیاں مثلاً نئی تعلیمی پالیسی 1986- اور پلان آف ایکشن(POA-1992)   اور  رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ۔2009 (RTE-2009) کے بقایا کاموںکو پورا کرتے ہوئے ان کے حلقے کووسیع کرنے کی منشا رکھتی ہے اور یونیورسل ایلیمنٹری ایجوکیشن(UEE)  کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔  اس منشا کے دائرے کو پورا کرنے کے اعتبار سے اسکولی تعلیمی نظام میں تبدیلی کی گئی ہے۔  اب تین سال سے لے کر اٹھارہ سال (3-18) تک کے بچوں کواسکولی تعلیم کا حصّہ بنایا گیا ہے جو پہلے چھ سال سے اٹھارہ  سال (6-18) تک کے بچّوں کو ہی شامل کرتا تھا۔  لہٰذا اب تین سے چھ سال کے بچوں کو آنگن باڑی اور بال باٹیکا  وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔  اب ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم (Early Chilldhood Care & Education) بھی اسکولی ڈھانچے میں شمار کیا جائے گا۔  جس کو نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے اس طرح سے تقسیم کیا ہے۔ (5+3+3+4)  اس ڈھانچے کے تحت شروعات کے پانچ سال جس میں تین سے آٹھ سال تک کے بچے تعمیری سطح پر(Foundational Level) تعلیم حاصل کریں گے۔  اس کے بعد تین سال کا   پیریڈ  جسے ابتدائی سطح کہا گیا ہے اس میں آٹھ سال سے گیارہ سال کے بچّوں کو تعلیم فراہم کی جائے گی۔  اگلی سطح جو تین سال کی ہوگی ثانوی درجات کی ہوگی جس میں گیارہ سے چودہ سال کے طلبا شامل رہیں گے۔  اسکولی ڈھانچے کی آخری سطح چار سال کی  اعلیٰ ثانوی درجات کی ہوگی جس میں  درجہ نو سے بارہ کے طلبا تعلیم حاصل کر پائیں گے۔

نئی قومی تعلیمی بالیسی 2020 نے دو خاص پہل کی ہے جس میں ڈراپ آئوٹ یا ترکِ تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کی سفارش اور دوسری اسکول کے بنیادی ڈھانچے جو بوسیدہ اور خستہ حال ہیں ان کی درستگی اور ان میں معقول بندوبست میں شامل ہے۔  اسکولی نظام کی بہتری کے لیے اور بھی کئی نکات  پالیسی کے دستا ویز میں شامل ہیں۔  چونکہ اسکول سے ہی آگے بڑھ کر بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے خود کو تیار کریں گے اس لیے اسکولی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ پالیسی میں دی گئی ہے۔  چند خاص نکات جو نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں اٹھائے گئے ہیں، وہ نیچے درج ہیں۔

*          سر گرمیوں (Activities)  کے مختلف شعبوں میں طلبا کی بہتر شمولیت کے لیے اساتذہ کا  تربیت یافتہ ہونا۔

*          بچوں میں  خاص طور پر دیہی علاقوں کی طالبات کے لیے اسکول  کی آمد رفت میں سہولیات  کی  فراہمی کے ساتھ ساتھ ہاسٹل کی سہولیات کو  مہیّا کرانا۔

*          کونسلرس اور سماجی کارکنان، سول سوسائٹی کے رضاکار اس بات کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کریں گے کہ بچّے اسکول میں داخلہ بھی لیں گے اور روزانہ اسکول بھی آئیں گے۔

*          اگر کسی طالب علم کی کسی وجہ سے اسکول کی تعلیم چھوٹ گئی ہو یا اس کا اندراج منسوخ کر دیا گیا ہو تو اسے دوبارہ آسانی سے داخل ہونے دیا جائے گا۔

*          معاشرتی اور معاشی طور پرپسماندہ گروپ   (Socially & Economically Disadvantaged Group) ایسے گروہ ہیں جو تاریخی طور پرنظر انداز کیے گئے طبقات  میں شامل ہیں، ان کی ترقّی کے اعتبار سے کچھ خاص اسکیمیں چلائی جائیں گی۔ 

اوپر درج اسکیموںکے فوائد جن طبقات کو حاصل ہوں گے ان میں سب سے اہم اس طرح ہیں۔  جیسے خواتین اور ہیجڑے، ایس سی، ایس ٹی، اوبی سی اور اقلیتوں کے گروپ،  دیہی بچے، معذور بچّے اور ایسے پسماندگی کے شکار بچے جو تنازعہ اور جنگی علاقے میں اپنی زندگی بسر کرتے ہوں۔ ایسے سبھی بچوں کو تعلیم کا حق فراہم کرانا اور با معنی تعلیم (Quality & Meaningful Education)  جس کی بات نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں کی گئی ہے اس مقصد کے حصول کے اعتبار سے مختلف خصوصی تعلیمی خطے  (Special Education Zones) کا  انتخاب کیا جائے گا۔  جو ایسے علاقے ہوں گے جہاں معاشی اور معاشرتی طور پر پسماندہ گروہ کی زیادہ آبادی ہوگی اور انھیں علاقوں  میں مختلف  اسکیمیں اور پالیسیوں کو نافذ کرنے کی سرکار کی کوشش بھی شامل رہے گی۔  مثال کے طور پر  وہ امداد جو صنفی شمولیت (Gender -Inclusion Fund)کے مابین آتے ہیں جسے مرکزی حکومت کے ذریعے ریاستی حکومت کو حاصل ہوگا اور یہ فنڈ طالبات اور  ایسے متعلم کو دیا جائے گا جو  ٹرانس جینڈ ر صنف سے تعلق رکھتا ہو جس سے اس کو تعلیمی حصول میں مدد ملے گی۔  جیسے کہ صفائی ستھرائی اور بیت الخلاء کی فراہمی، ان کے لیے سائکل، شرائط  کے ساتھ نقد کی منتقلی وغیرہ۔  خصوصی تعلیمی خطّے)  SEZs) کے مدِّنظر وافر مقدار میں جواہر نوودیے ودیالیہ اور کیندریہ ودیالیہ (JNV & KV)  کھولے جائیں گے۔  شمولیت کے تصور کو پورا کرنے کے اعتبار سے معذور طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔  اسکولی تعلیم کی متبادل شکلوں میں جس میں مدرسہ وغیرہ آتے ہیں انھیں بھی  تمام مضمون پڑھانے اور بہتر بنانے کی بات کی گئی ہے۔ وہاں بھی اب سائنس، سوشل سائنس،ریاضی، انگریزی اور ہند ی جیسے مضامین اور زیانیں پڑھانے کے لیے مالی امداد دینے کی بات کہی گئی ہے۔ 

پیشہ ورانہ تعلیم پر نقطہ نظر:

پیشہ  ورانہ تعلیم کے متعلق گاندھی جی کا نقطہ نظر بہت واضح تھا۔  وہ  بیسک تعلیم کے مقام کو بہت اونچا مانتے تھے۔  ان کے مطابق کامیابی اور کامرانی کا دارومدار انسان کے ہاتھوں سے کیے گئے عمل پر منحصر ہے۔  ان کے مطابق سوچنے والا ہاتھ(Thinking Hand) ہی وہ  اہم آلہ ہے جو زندگی کو ایک منزل کی طرف آگے بڑھنے کے لیے متحرک کرتاہے۔  بیسک تعلیم گاندھی جی کے نزدیک صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیا  یا کرافٹ ہے۔  گاندھی جی کا تجربہ سوچنے والے ہاتھوں سے یا ہاتھوں کی تعلیم پر انحصار کرتا ہے جو انسان کو خود انحصار بنانے میں مدد کرتا ہے۔   اس زمرے میں  Handicraft  کے کاروبار کو کافی  فروغ حاصل ہے جس میں ان کا سودیسی تصوّر بھی شامل ہے۔   وہ  مشینوں کے خلاف ہر گز نہیں تھے بلکہ اس کا تعلق وہ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کو کم ہونا بتاتے ہیں، ان کے مطابق انسان مزدوری بچانے کی حرص اور زیادہ منافع کمانے کی وجہ سے مشین کا استعمال کرتا ہے۔  وہ  چھوٹی صنعتوں کے فروغ  اور خود انحصار کرنے والی معیشت پر زور دیتے تھے۔  ان کے نزدیک کھادی معاشی آزادی اور ملکی مساوات میں مدد کرتا ہے۔ اسی طرح دوسری صنعتوں اور اس سے متعلق دست کاری جیسے ہاتھوں سے تیل کی پیڑائی، صابن بنانا، جلد سازی، چمڑے کا کام، کپڑے کتائی، چھپائی،مٹی اور دیگر دست کاری کے کام سے  روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔  انھیں مزدوروں کے قدراور ان کے اعزاز کا بہت خیال تھا۔  وہ ملک کی ترقی کا دارومدار انھیں کے دم سے سمجھتے تھے۔  وہ کہتے ہیں:

’’محنت کش کی مہارت اس کا سرمایہ ہے، جس طرح سرمایہ دارمزدوروں کے تعاون کے بغیراپنے سرمائے کو نتیجہ خیز نہیں بنا سکتا، اسی طرح محنت کش بھی سرمایہ کے تعاون کے بغیراپنی مزدوری کو نتیجہ خیز نہیں بنا سکتا  اور، اگر مزدور اور سرمائے دار دونوں کے پاس ذہانت کا تحفہ یکساں  طور پر موجود  ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں، ایک مناسب معاہدے کو محفوظ بنانے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد ہوتا ہے تو، وہ ایک دوسرے میںبرابر کے شریک کی حیثیت سے ایک عام کاروباری اقدام میں ایک دوسرے کا احترام اور تعریف کرتے ہیں۔‘‘

بحوالہ انڈیا آف مائی ڈریم،از  ایم  کے  گاندھی،ص 51)

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں  مہارت کی ترقّی کے پروگرام کو نصاب میں شامل رکھا گیا ہے۔  درجہ چھ سے درجہ آٹھ  تک کے بچوں کو ایک ایسا کورس مکمل کرنا ہوگا جو مختلف انواع و اقسام کی ہنرمندی اور دوسرے فنون سے منسلک ہوگا جس کی میعاد  دس دنوں کی ہوگی۔  ان دس دنوں کے زمانے میںوہ لوگ اپنے اسکول بیگ کے بغیر (Bagless)  کسی مقامی پیشہ ور  ماہرین کے ساتھ انٹرنشپ کریں گے اور مقامی ضرورت کے اعتبار سے مختلف قسم کے مہارتی کاموں میں حصہ لیں گے۔ جیسے لکڑی کے کام،  بجلی سے جڑے آلات اور اس کی مرمت کا کام، مٹی سے مختلف اشیاکا بنانا، باغبانی، کاغذ کے کام، نقاشی اور بھی دیگر کئی ایسے فنون اور عمل ہیں جن کی بچے تربیت حاصل کریں گے۔   پیشہ ورانہ تعلیم  و  تربیت کی اہمیت کو تمام پالیسیوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میںاعلیٰ تعلیمی سطح پر بھی اسی طرح کی پیشہ ورانہ تعلیم کوترجیح دی جا رہی ہے اور اس سے متعلق  ڈگری، ڈپلومہ اور سرٹیفیکٹ کورسیسز چلائے جا رہے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کی فراغت کے ساتھ ہی طلبا روزی روٹی سے جڑ سکیں اور انھیں روزگار فراہم ہو۔  پیشہ ورانہ تعلیم معاشرے کو جلد با اختیار بناتی ہے اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتی ہے۔ غریب اور کمزور طبقے کے خواتین و حضرات جو اپنے بچوں کو بہت لمبے عرصے تک تعلیم کی فراہمی نہیں کرا سکتے ان کے لیے اس طرح کی چھوٹے  مدت کے پیشہ ورانہ کورس جو بنیادی تعلیم کے بعد ان  میں داخلہ دلا کر جلداپنی اولادوںکو مستحکم بنا کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کر سکتے ہیں اوریہ خود انحصاری کا بہترین نمونہ ہے۔        

مادری زبان کی اہمیت اور اپنی ثقافت کا علم:

گاندھی جی نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی کہ تعلیم کی زبان کوئی غیر ملکی زبان ہو، انھوں نے ہمیشہ اس کی سفارش کی کہ طلبا کو ہمیشہ مادری زبان میں ہی تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ ہندوستان مختلف زبانوں کا گہوارہ ہے اور لوگ کئی طرح کی بولیاں بھی بولتے ہیں۔  مہاتما گاندھی یہاں کی مشترکہ زبان کو ترقّی کی راہیں ہموار کرنے والی زبان مانتے تھے۔  مادری زبان سے انسان سماجی طور سے بہتر جڑتا ہے اور زیادہ بہتر سیکھتا ہے۔   وہ کہتے ہیں:

 ’’غیر ملکی زبان  ذریعہ ء تعلیم دماغی دھند کا باعث بنا ہواہے، اس کی وجہ سے ہمارے بچوں کے ذہن پر بیجا  تنائو ڈالا ہوا ہے۔ انھیں گھمائودار اور نقال بنایا  ہواہے، اصل کام اور فکر کے لیے ان کو نا اہل کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ان کی تعلیمی لیاقت کے لیے کنبہ یاعوام میں معذور کر دیا گیا ہے۔‘‘

(بحوالہ ٹو وارڈس نیو  ایجوکیشن،  از  ایم  کے گاندھی، ص 54)

گاندھی جی نے اس بات کو مانا کہ ایسی تعلیم جو غیر ملکی زبان کی مدد سے فراہم کی جائے طلبا میں تنقیدی  سوچ کو پیدا ہونے سے روکتی ہے، اور طلبااپنے گرد و پیش کے عام لوگوں سے نہیں جڑ پاتے ہیں۔  ان کے مطابق بچے مشکل تصورات کو باآسانی عام بول چال کی زبان کے ذریعے سیکھ پاتے ہیں۔  جس کے نتیجے میں وہ  اپنے خیالات اور علم سے عام  لوگوں کی زندگیوں میں ترقی لا سکیں گے۔  گاندھی جی غیر ملکی زبانوں  میں انگریزی یا کوئی بھی دوسری غیر ملکی  زبان کے  ذر یعے تعلیم حاصل کرنے کو ہندوستانی ثقافت، تہذیب اور ہندوستانی زبان کی موت سمجھتے تھے۔  انھوں نے دنیا کی دوسری زبانوں کے سیکھنے کا ذریعہ بھی اپنی مادری زبان کوبنانے کی سفارش کی ہے۔   ترجمے کے عمل کو انھوں نے بہتر بتایا ہے جس سے دنیا بھر کی چیزوں کے سیکھنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بہتر معیشت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔  وہ کہتے ہیں :

ــ’’ یہ ایک اچھا کاروبار ہوگا کہ طلبا کی ایک ایسی جماعت کو  تیّار کیا جائے، جن کا کام دنیا کی مختلف زبانوں میں موجود سب سے اعلیٰ علم  کا انتخاب کرنا ہواور اس کا مقامی زبان میں ترجمہ کرنا ہو۔‘‘

(بحوالہ ٹو وارڈس  نیو  ایجوکیشن،  از  ایم کے گاندھی،ص58)

مہاتما گاندھی نے مقامی زبان کے فروغ کے لیے اس بات کی سفارش کی کہ کچہری کی قانونی بھاشا بھی علاقائی زبان میں ہو، خصوصاً جس علاقے میں وہ کچہری  واقع ہو۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر میں بھی جس علاقے یا خطے میں وہ قائم ہو وہاں اسی علاقے کی بولی جانے والی زبان رائج  ہو۔ ان کے مطابق ایک آزاد ملک میں سبھی کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔  نہ کہ مادری زبان بلکہ اپنی دلچسپی اور پسند کے مطابق مضامین کو اپنی مادری زبان میں پڑھنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے۔  نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020نے زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے گھریلو زبان یا مادری زبان کو  وسیلہ تعلیم کے لیے بہترین ذریعہ بتایا ہے کیوں کہ اس میں طلبا تعلیمی تصوّرات کو با آسانی اور جلد سمجھ پاتے ہیں لہٰذا درجہ بانچ  تک  طلبا کو ذریعہ ہدایت مادری زبان رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔  اس اعتبار سے سائنس، حساب اور سوشل سائنس اور دیگر نصابی مضامین کی درسی کتابیں مقامی زبان میں تیار کرنے کی کاوشیں شروع کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے بلکہ کچھ  ریاستیں پہل کرتے ہوئے کام شروع کر چکی ہیں۔  اساتذہ کی بھی اسی منصوبے کے مطابق ان کی تربیت کی جائے گی اور اسکول کی زبان اور گھر کی زبان کے درمیان ان کو ایک پلُ تعمیر کرنا ہوگا جو دونوں کو جوڑ کر رکھے گا۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے کثیر لسانی (Multi Lingualism)   کو بڑھاوا دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔   اس دستا ویز میںتحقیق کے حوالے سے اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ  دو سے آٹھ سال تک کے بچّے ایک سے زیادہ زبانیں ایک ساتھ سیکھ سکتے ہیںاور اس سے ان کی وقوفی مہارتوں (Cognitive skills)  میں اضافہ  ہوتا ہے، لہٰذا اس پالیسی کے تحت بنیادی سطح سے ہی طلبا کو دیگر زبانیں بھی سکھائی جائیں گی حالانکہ خاصی توجہ مادری زبان پر ہی  رہے گی۔  ملک کی ترقّی طلبا کی ذہنی نشو و نما اور مقامی زبانوں کی بقا کے مدّنظر سہ لسانی فارمولہ (Three Language Formula)  کی پیروی کرتے رہنے کی بات نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں کہی گئی ہے۔  سہ لسانی فارمولے کا ذکر کوٹھاری کمیشن (Kothari Commission 1964-1966) میں کیا گیا تھا اور اس میں مادری زبان کے ساتھ ایک مقبول ہندوستانی زبان اور ایک مقبول غیر ملکی زبان کو پڑھنالازمی تھا۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی2020 نے ہندوستانی زبانوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ہندوستانی زبانیںبہت اہمیت رکھتی ہیں اور اس کی مقبولیت اور اس کی ثقافتی اہمیت بیش قیمتی ہے  اور یہ قومی اتفاق و اتحاد میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔  لہٰذا نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں  قومی اتحاد کو ایک مہم کے تحت ـ ’’ایک بھارت شریسٹھ بھارت ‘‘ میں درجہ چھ سے درجہ آٹھ تک (6-8)کے بچّوں کو ایک مقابلے میں حصہ لینے کی بات کہی گئی ہے، اس مقابلے کے تحت طلبا ہندوستان کی خاص زبانوں میں یکسانیت اور تفریق کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔  اس کے ساتھ ہی سبھی زبانوں کے لسانی اور قواعد کے ڈھانچے کو سمجھتے ہوئے اس کی بنیادی  اور ابتدائی شکلوں کے بارے میں جانیں گے۔ وہ سنسکرت اور  دوسری کلاسیکل زبانوں کے بارے میں جانیں گے۔   نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے سنسکرت زبان کو علم کا خزانہ تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس زبان میں قدیم ہندوستانی زبانوں کی تاریخ  اور ثقافت کا سر چشمہ موجود ہے۔  فلسفہ،  ریاضی،  سیاست،  طب اور دیگر تمام ایسے علم کے خزانے اس میں موجود ہیں جو قدیم  ہندوستانی تعلیم کی  وراثت کو سمیٹے ہوئے ہے۔  لہٰذا سنسکرت زبان کے ذریعے ہندوستان کی موجودہ بھرپور ثقافتی تاریخ کو گلے لگانے کی بات کی گئی ہے اور اسی کے ذریعے ملک کو قابلِ بقا ترقی اور خود اختیاری اور خود انحصاری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سفارش اس دستاویز میں کی گئی ہے۔  یہ پالیسی ایک انتہائی بلند پایہ اور بلند نظر دستاویز ہے  اور اس کو نافذ کرنے کے لیے مستحکم مزاجی اور صاف دلی کی ضرورت درپیش ہے۔  گاندھی جی کے خواب کو مکمل کرنے کے لیے اور خود انحصار ہندوستان کے جذبے کو برقرار رکھنے کے لیے پختہ ارادے اور  ایمان داری کو یقینی بنانا از حد ضروری ہے۔

 حواشی

.1        قومی تعلیمی پالیسی2020‘،  منسٹری آف ایجوکیشن، گورنمنٹ آف انڈیا۔

.2         گاندھی   ایم کے(1947)  ’انڈیا آف مائی ڈریمس‘، نوجیون ٹرسٹ، احمد آباد، انڈیا۔

.3         کمارپّا  بی (1953)  ’ ٹووارڈس نیو ایجوکیشن‘، نوجیون پبلشنگ ہائوس، احمد آباد، انڈیا۔ 


Vijayata Perwez

Assistant Professor

Maulana Azad National Urdu University

College of Teaching Education,

Sambhal - 244302 Uttar Pradesh

Mob.: 8979240096




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں