1/1/21

جگر اور ان کی عشقیہ شاعری- مضمون نگار: ندیم احمد

 



جگرمرادآبادی (6 اپریل 1890 - 9 ستمبر 1960) جدید اردو شعرا میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام محمد علی سکندرتھا اور جگر تخلص کرتے تھے۔ جگرکی پیدائش 1890 کو مرادآباد کے ایک ایسے خاندان میں ہوئی جوادب کی شمع کئی صدیوں سے روشن کیے ہوئے تھا۔ ان کے والد مولوی علی نظر خود اچھے شاعر تھے۔ گھر کے اسی ادبی ماحول نے جگرکے ذہن کو شاعری کی طرف راغب کیا مگریہ بھی عجب حقیقت ہے کہ وہ خاندانی ورثے کے تحت شاعرنہیں بنے بلکہ ان کے اندر کا شاعر ان کی اپنی فطرت اور بے ساختگی سے پر طبیعت کی وجہ سے وجودمیں آیا۔ جگرزیادہ تعلیم تونہ حاصل کرسکے۔ مگرزندگی سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ جگرنے شاعری کی ابتدا محض 13 برس کی عمر میں ہی کردی تھی۔ پہلے والد صاحب سے اصلاح لیتے تھے پھر داغ کو استاد بنالیا۔ داغ کے انتقال کے بعدامیر اللہ تسلیم کی شاگردی اختیار کرلی کچھ عرصے بعدجب تسلیم کا بھی انتقال ہوگیا تواصغر گونڈوی سے ترغیب حاصل کرکے شاعری کے معنوی پہلوؤں کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے۔ اصغر گونڈوی سے ان کو بے حد عقیدت تھی۔ جذباتی لگاؤ کچھ اسی قدر تھا کہ جگرنے اپنی شریک حیات کو صرف اسی لیے طلاق دے دی تاکہ اصغر ان سے نکاح کرسکیں۔ اصغر کی موت کے بعد جگر نے دوبارہ اپنی پہلی بیوی سے نکاح کرلیا۔

جگرکی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ وہ تلاش معاش میں اسٹیشنوں پر چشمے بیچا کرتے تھے۔ اس مشکل اورتکلیف دہ زندگی کے باوجود بھی جگرنے اپنے ذہن ودل کو مسرت وخوشی کے ساتھ کشادہ رکھا اورغم واندوہ کو اپنی شخصیت پرکبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ ہمیشہ خوش دلی، انکساری اور خوش جمعی کے ساتھ لوگوں سے پیش آتے رہے اوراپنی محسنی کے باعث دوستوں کے درمیان گفتگو کاہمیشہ مرکز بنے رہے۔ ان تمام اچھائیوں کے باوجودان میں مے کشی کی بری لت بھی تھی، وہ اکثرنشے میں اپنا آپا تک کھو بیٹھتے تھے۔ اسی شراب نوشی کی وجہ سے ان کی زوجہ نے ان سے ترک تعلق تک کرڈالا تھا۔ ان کی شاعری میں شراب نوشی اوراس کے نشے کا عکس جا بجا نظر آتاہے      ؎

مجھے اٹھانے کو آیا ہے واعظ ناداں

جو اٹھ سکے تو مرا ساغر شراب اٹھا

کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اسے واعظ

میں اپنا جام اٹھاتا ہوں، تو اپنی کتاب اٹھا

جگرکے تین شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ داغ جگر 1921 شعلہ تر1923 اورآتش گل 1958۔ آتش گل کے لیے انھیں 1959 میں ساہتیہ اکادمی دہلی نے انعام سے نوازاتھا۔

جگر مراد آبادی دور جدید کے ان شعرامیں سے ہیں جنہوں نے اردوغزل کی روایت کو نئی بلندی عطا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اردو غزل پر اس زمانے میں ہورہی تنقید سے بے فکر جگر نے غزل کو اپنا شیوہ شاعری بنایا اوریہ جگر کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے غزل کے معنی کی مناسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی مقبولیت کو برقرار رکھنے یا پھر اضافہ کرنے کی غرض سے افسانہ محبت کو ہی اپنی غزلوں میں ترجیح دی اوراسے گلی کوچوں میں عوام الناس کے ذریعہ پھر سے گنگنانے کو مجبورکردیا۔ وہ خود کہتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مقصد’پیغام محبت‘ ہے       ؎

ان کا جو فرض ہے ارباب سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگرکی غزلیں اپنے حقیقی معنوں میں محبت کی گفتگو ہی ہیں۔ ان میں محبت کے رنگ وڈھنگ اور جذبات واحساسات کو کچھ اس طور سے سمیٹا گیا ہے کہ ان کے مطالعے کے بعد کوئی بھی شخص محبت کی حقیقت سے واقف ہوسکتا ہے اورجس کا دل اس محبت کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے اسے ایک ایسا زاویہ نظربھی مل سکتا ہے کہ بہت جلد اس کے دل کو قرار پہنچاسکے۔ جگرنے محبت کی ہرکیفیت کو اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے وہ محبوب ومعشوق کی ہرفطرت سے واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کو پڑھ کر ہرعاشق کویہ اپنا ہی قصہ معلوم ہوتا ہے۔

جگرکویہ کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ وہ عشق کے ہرنفسیاتی پہلو سے آشنائی رکھتے ہیں اوراپنے پاک ارادوں کے زیر نظر انھوں نے عشق کو بھی پاکباز بنادیا ہے۔ اسی امرکے ضمن میں وہ عشق کی عظمت میں چار چاند لگاتے ہوئے اس کے تمام راستوںکو بھی روشن کردینے کے قائل ہیں         ؎

آگے قدم بڑھائیں جنھیں سوجھتا نہیں

روشن چراغ راہ کیے جارہا ہوں میں

جگرکی غزلوںمیں عشق کے گرفتار وپرستارلوگوں کی کیفیت، الجھنیں، دشواریاں اورپریشانیاں کھل کر عیاں ہوتی ہیں مگرجگر ان سے بچنے، ڈرنے، یا گھبرانے کی نصیحت نہیں دیتے بلکہ وہ حوصلے اورنئی امید کے ساتھ عشق کے دامن کو تھام کر محبوب کو حاصل کرلینے کی حکایت پیش کرتے ہیں۔  ان کی غزلوں کا محور ویسے توصرف عشق ہے مگران کے بیان کردہ عشق سے جڑے موضوعات، معاملات کبھی بھی قاری کو گراں نہیں گزرتے بلکہ اسے عشق کرنے اورعشق سے لطف اندوز ہونے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔

کوئی حد نہیں محبت کی فسانے کی

سناتا جا رہا ہے جی کو جتنا یاد ہوتا ہے

ہے انھیں دھوکوں سے دل کی زندگی

جو حسیں دھوکا ہو کھانا چاہیے

ان سے ملنے کو تو کیا کہیے جگر

خود سے ملنے کو تو زمانہ چاہیے

دنیا کے ستم یاد، نہ اپنی ہی فنا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

محبت میں کیا کیا مقام آرہے ہیں

کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں

یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں

وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آرہے ہیں

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں، مجھی کو خراب ہونا تھا

جگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتے کہ محبت درد، بے چینی دینے والی شے ہے۔

وہ دل سے یوں گزرتے ہیںآہٹ تک نہیں ہوتی

 وہ یوں آواز دیتے ہیں پہچانی نہیں جاتی

محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

جیسے کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں

جگر عشق میں دل کے لٹ جانے کا بیان ایک حسین واقعے سے کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی عشق میں لٹ جانے کی صلاح دیتے ہیں۔ان کے نزدیک عشق میں لٹ جانے کا کچھ اور ہی مزا ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے       ؎

نظر ملا کے میرے پاس آکے لوٹ لیا

نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا

بڑے وہ آئے دل وجاں کے لوٹنے والے

نظر سے چھیڑ دیا گد گدا کے لوٹ لیا

دوسری طرف جگرلوگوں کو آگاہ بھی کرتے ہیں کہ عشق کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔جس میں لوگ بر باد ہوجاتے ہیں مگر اسے آسان سمجھنے کی غلطی بھی لوگ اکثر کیا کرتے ہیں         ؎

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے

سمٹے تو دل ِعاشق،پھیلے تو زمانہ ہے

یہ عشق نہیں ہے آساں بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 

جگر کے نزدیک عشق مسرت حاصل کرنے کی شے نہیں ہے بلکہ سب کچھ گنوا دینے کا نام ہی عشق ہے۔عشق میںفائدہ تلاش کرنا نا مناسب ہے عشق میں محرومی،مجبوری اور نا کامی کا عنصر بکژت موجود ہوتا ہے اور بیشتر لوگوں کو یہی میسر بھی آتا ہے مگر ان مشکلات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود لکھتے ہیں         ؎

مرکے بھی کب تک نگاہیں شوق کو رسوا کریں

زندگی تم کو کہاں پھینک آئیں، آخر کیا کریں؟

ہاے یہ مجبوریاں، محرومیاں، ناکامیاں

عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو، ہم کیا کریں

جگر کے اند ر کا شاعر انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ منزل جاناں کے خلاف اپنے قدم روک لیں۔بلکہ وہ انھیں آگے بڑھنے کی ہمیشہ ترغیب دیتا ہے۔ چاہے اس کے لیے انھیں اپنی جان ہی کیوں نہ دے دینی پڑے      ؎

پاؤں اٹھ سکتے نہیں منز ل جاناں کے خلاف

اور اگر ہوش کی پوچھو تو مجھ کو ہوش نہیں

کبھی ان مدبھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام

آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں

جگر کے چند اشعارزندگی کی تلخ حقائق کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں جن سے ہمیں سماجی آگہی کے برطرف زندگی بسر کرنے اور عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے اور کہیں کہیں تو ان کا انداز فلسفیانہ بھی ہوجاتا ہے       ؎

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ نہیں ہوتا

ورنہ کیا تھا، صرف ترکیب عناصر کے سِوا

خاص کچھ بیتا بیوں کا نام انساں  ہوگیا

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

زمانہ خود ہم سے ہے، زمانے سے ہم نہیں

آدمی کے پاس سب کچھ ہے جگر

ایک تنہا آدمیت کے سِوا

حالانکہ جگر نے اپنی غزلوں میں مروجہ تراکیب واستعارات کا ہی استعمال کیاہے مگر ان کی انفرادیت کو مسلّم کرنے والی شے ان کی بے باکانہ اور بے ساختانہ انداز ہے۔وہ قدیم روایتوں کے پاسدار رہے مگر انھوں نے ان روایتوں کو سمیٹ کر اپنی ذہنی ،کاوش جداگانہ انداز اور اپنے واضح نقطہ نظر کی بنا پر اردو غزل کو اور بھی مقبول بنا نے کی سمت پیش رفت کی۔

جگر کی غزلوں پریہ بھی اعتراض کیا جاتاہے کہ ان میں سماجی بیداری کے عناصر بہت کم ہیں مگر پھر بھی جگر کی شاعری میں کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے کہ بقول فراق’’جگر سے زیادہ مقبول اردوشاعر اس صدی میں کوئی نہ ہوا۔‘‘جگر نے صرف معاملات عشق کو ہی اپنی غزلوں کا محور بنایا مگر تغزل اور ترنم کی فراوانی سے وہ صنف غزل گوئی کو معراج کمال تک پہنچانے میں کامیاب رہے ساتھ ہی انھوں نے غزل کی قدیم روایت کے چراغ کو بھی دوبارہ روشن کیا جس کی روشنی 19 ویں اور 20ویں صدی میں اس پر عائد ہونے والے الزامات وطنزیات کی بنا پر کہیں مدھم ہو گئی تھی۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جگر کی غزلیں عشقیہ جذبات سے لبریز وہ گوہر پارے ہیں جن کی موسیقیت اور آہنگ پر اردوشاعری کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ انھوں نے قدیم وجدید شاعری کا ایک ایسا حسین امتزاج پیدا کیا ہے جس میں مضامین کا تنوع تونہیں ہے مگر شائستگی،شگفتگی، نغمگی اور تازہ کاری کے اعلی نمونے موجود ہیں۔جگر کا والہانہ انداز ان کی شاعری کو کمزور نہیں بناتا بلکہ اسے اور توانائی بخشتاہے۔جگر کی غزلوں کی بے ساختگی اور بے باکی اس امر کی دلیل ہے کہ جگر نے اپنے جگر کی بات کو ہی الفاظ کا جامہ منفرد انداز میں پہنایا جو ان کی شاعری کا جزواعظم ہے جس کی چمک ہمیشہ قائم رہے گی اور ان کی شاعری میں نمایاں رندی،سرمستی وشادابی ہمیں ہمیشہ جگر کی غزلوں کو پڑھنے اور انھیں سمجھنے کے لیے مجبور کرتی رہے گی۔

 

Dr. Nadeem Ahmed

C-36/5, Lane No-2, R.K.Marg, Chauhan Banger

Delhi-110053

Mob. 9136162160

Email: nadeemahmad_126@yahoo.co.in



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں