31/12/20

جدید میتھلی اور ہندی کا قطب نما: باباناگارجن - مضمون نگار: مشتاق احمد



جدید ہندی اور میتھلی ادب کی تاریخ میں جن تخلیق کاروں کو قدآوری حاصل ہے ان میں بابا ناگارجن کی امتیازی حیثیت ہے۔وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی اور مضمون نگار تھے۔ وہ خود کو بنیادی طورپر میتھلی زبان کا شاعر اور ادیب کہتے تھے۔ یہ ان کی مادری زبان سے والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ادبی ذخیرہ میتھلی زبان سے کہیں زیادہ ہندی میں موجود ہے اور ان کا شمار ہندی کی جدید شاعری کے جنم داتاؤں میں ہوتا ہے۔

ناگارجن کا اصل نام بیدناتھ مشر تھا۔ ان کی پیدائش صوبہ بہار کے دربھنگہ ضلع کے ایک گائوں ترونی میں 1911 میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سنسکرت پاٹھشالہ میں ہوئی۔ ابھی وہ صرف ساڑھے تین سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا اس لیے اپنے گاؤں میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے۔ ان کے والد ایک پیشہ ور پنڈت تھے۔ ہمیشہ گھر سے باہر رہا کرتے تھے اس لیے ان کو گنگولی سنسکرت پاٹھشالہ میں داخل کردیا گیا۔ وہاں سے وہ بنارس چلے گئے اور پھر وہاں سے کلکتہ۔ اس طرح وہ سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے مدراس جا کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں سے انھوں نے ’اچاریہ ‘ کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1930میں ہوا۔ جب ان کی پہلی نظم’متھلا‘(لہریاسرائے) میں شائع ہوئی۔ انھوں نے پہلے اپنا قلمی نام بدیہہرکھا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد قلمی نام بدل کر ’یاتری‘ کے نام سے لکھنے لگے۔ 1930 تک ہندی اور میتھلی دونوں زبان میں ’یاتری‘ کے نام سے ہی لکھتے رہے۔ جب وہ سری لنکا گئے اور بدھ ازم کی طرف مائل ہوگئے تو اپنا نام بدلا اور ’ناگارجن‘ کے نام سے ہندی میں لکھنے لگے مگر میتھلی میں وہ اپناقلمی نام یاتری ہی لکھتے رہے اور بعد کے دنوں میں ان کی پہچان ’ناگارجن‘ سے ہی مستحکم ہوئی۔

ہندی ادب کی تاریخ میں ناگارجن کوغیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا شمار ہندی ادب کو نئی سمت دینے والوں میں ہوتاہے۔ جہاں تک میتھلی زبان وادب کا سوال ہے تو ودیاپتی، پنڈت ہرش ناتھ، پنڈت سیتا رام جھااور چنداجھا کے بعد ان کا نام لیاجاتاہے۔ انھوں نے نہ صرف میتھلی شاعری کو نئے افکار ونظریات سے آشنا کیا بلکہ میتھلی ناول نگاری کو اعتبار کا درجہ عطا کیا۔ افسوس صد افسوس کہ آسمانِ ادب کا یہ درخشاں ستارہ 5؍ نومبر1998 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔لیکن ان کی تخلیقات کا ذخیرہ ان کی ابدی شہرت کا ضامن ہے۔ان کے بغیر جدید میتھلی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہندی کی جدید شاعری کا ذکر ہی ناگارجن کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔

میتھلی ان کی مادری زبان تھی۔ اس زبان میں وہ اپنی بات کہنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ میتھلی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’چترا اور پترہین نگن گاچھ ہیں۔ ’پترہین نگن گاچھ‘ پر انھیں1967 میں شاعری کا میتھلی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔’پارونوتوریا اور ’بلچنما ان کے مشہور ناول ہیں۔راقم الحروف نے ان کے ناول ’بلچنما‘ کا اردوترجمہ 2005 میں کیا تھاجسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ہندی میں نئی پود، رتی ناتھ کی چاچی، برون کے بیٹے، اُگرتارا، امرتیا کومبھی پاک، بابا بٹیشور ناتھ، پارو، دکھ موچن، غریب داس، جمنیا کا بابا اور ’ہیرک جینتی‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ تالاب کی مچھلیاں، یُگ دھارا، تم نے کہا تھا، پرانی جوتیوں کا کورس اور ’ہزار ہزار بانھوں والی‘ قابلِ ذکر شعری مجموعے ہیں۔

ادب ہی ان کا ذریعہ معاش تھا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں قلم لیے ہوتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت بلند تھی، مشاہدہ بہت گہرا تھا، کوئی بھی موضوع ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کافی لکھا ہے۔ ویروکرم،ترکو کا کھیل، ندی بول اٹھی، بانر کماری بچوں کے لیے لکھی گئی قابلِ ذکر کتابیں ہیں۔ ’پریم چند کی جیونی‘ اور ’ایک ویکتی ایک یُگ‘ ہندی ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ناگارجن نے سنسکرت زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی تیس نظموں کا مجموعہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے بنگلہ میں بھی شاعری کی ہے۔ وہ میتھلی، ہندی اور بنگلہ کے علاوہ گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ملیالم اور تیلگو زبان بھی جانتے تھے۔

ناگارجن خاموشی کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کو کبھی اس بات کا خیال نہیں رہا کہ دنیائے ادب میں انھیں کون کیا کہہ رہاہے۔ بس وہ لکھتے رہے۔ اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنے فن میں ڈھالتے رہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک سچے عکاس تھے۔ آخر کار دنیائے ادب کو ان کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا اور 1967میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، مدھیہ پردیش کا اچاریہ میتھلی شرن گپت ایوارڈ، یوپی حکومت کا ’بھارت بھارتی‘ انعام اور بہار سرکار کا ’راجندر شکھر سمّان ‘ ملا۔

ناگارجن کے لیے مذہب کوئی دیوار نہیں تھی۔ وہ ایک ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بدھ ازم کو اپنایا، جین ازم کی طرف مائل ہوئے اور پھر ناستک ہوگئے۔ درحقیقت ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔اگر ان کا کوئی مذہب تھا تو وہ مذہب انسانیت کا تھا۔ وہ انسانیت کے پجاری تھے۔ان کی تمام شاعری انسان کے دکھ درد کی کہانی ہے۔ ان کے ناول انسان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی انسان کے لیے تھی، وہ خود بھی ایک اعلیٰ انسان تھے۔ راقم الحروف کو ان سے ملنے کا بارہا موقع نصیب ہوا ہے۔ وہ میرے گاؤں کے پڑوسی یعنی بس دوکلومیٹر دور کے رہنے والے تھے۔ اس لیے انھیں ذاتی طورپر بھی خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ اپنی بات کہتے رہے، وہ اپنے طنزیہ لہجے کی وجہ سے بھی ہندی ادب میں جانے پہچانے جاتے تھے۔

ناول’بلچنما‘ بابا ناگارجن کا ایک شاہکار ہے۔ اس ناول میں آزادی سے قبل کے متھلانچل بالخصوص دربھنگہ، مدھوبنی اور سمستی پور کے زمینداروں کے ذریعے گاؤں کے مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں پر جو ظلم وستم ڈھائے جا رہے تھے، ان کی عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کا ہیرو بلچنما دراصل ایک علامت ہے ظلم کے خلاف بغاوت اور طبقاتی کشمکش کی، جو زمینداروں کے ظلم اور غیرانسانی فعل کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ بلچنما اسی زمیندار کے یہاں مجبوراً بھینس چرانے کی نوکری کرتاہے جس زمیندار نے اس کے باپ کو محض ایک آم توڑنے کے جرم میں ایک کھمبے سے باندھ کر اس قدر ماراپیٹا کہ موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ لیکن ایک دن بلچنما ان بے رحم اور قصائی صفت زمینداروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نہ صرف خود زمینداروں کے شکنجے سے آزاد ہوتا ہے بلکہ گائوں کے سیکڑوں کسانوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنی تحریک کا حصہ بناتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن غلامانہ زندگی گذارنے والے کسان اور مزدور زمینداروں کے چنگل سے نجات پاتے ہیں۔

بابا ناگارجن نے ہمیشہ ان طاقتوں کے خلاف آوازِ بغاوت بلند کی جو ہندوستانی عوام کی آزادی کی راہ میں حائل تھے۔انھوں نے ہندوستانی گاؤں میں رہنے والے پسماندہ طبقے کے لوگوں کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ہندوستانی معاشرت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں طبقاتی کشمکش کے ساتھ ساتھ آزادی کی تحریک کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ ان کے کرداروں کا فطری ارتقا ہی ان کی ایک بڑی انفرادیت ہے۔ ’بلچنما‘ میں تمام کردار فعال ومتحرک نظر آتے ہیں۔ بابا ناگارجن کی مثالیت پسندی کی ایسی مثال کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔بلچنما، چنی، رادھا بابو، سوامی جی، پھول بابو، برج بہاری عرف بچو اور اور جانکی سب مثالی کردارہیں۔ان کرداروں کو چوتھی دہائی کے ہندوستان اور اس کے خاص سیاسی اور معاشی پسِ منظر میں دیکھیے تو ہر ایک کردار کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔

جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو ان کی شاعری کا موضوع بھی جبر واستبداد رہاہے۔ وہ ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود مارکسی نظریے کے تھے لیکن مارکسی حکومت کے خلاف بھی آوازِ بغاوت بلند کرتے رہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں وہ ایک باغی ادیب وشاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فنکار کی فکر ونظر کا محور انسانی معاشرے کی بدحالی اور استحصال ہوگا اسے کوئی بھی حکمراں جماعت قبول نہیں کر سکتی۔

 ان کی نظم’ان کو پرنام‘ تو میتھلی اور ہندی دونوں میں ایک شاہکار نظم تسلیم کی گئی ہے       ؎

جو نہیں ہو سکے پورن کام/میں ان کو کرتا ہو ں پرنام

کچھ کنٹھت او لکچھ بھرشٹ

جن کے ابھیمنترت تیر ہوئے

رَن کی سماپتی کے پہلے ہی

جو بیر رکت تو نیر ہوئے

ان کو پرنام!

جو چھوٹی سی نیّا لے کر

اترے کرنے کو اُددھی پار

من کی من میں ہی رہی سوینگ

ہوگئے اسی میں نرا کار

ا ن کو پرنام!

جو اونچ شکھر کی اور بڑھے

رہ رہ نو نو اُتساہ بھرے

پر کچھ نے لے لی ہیم سمادھی

ان کو پرنام!

ایکاکی اور اکنچن ہو

جو بھو پریکرما کو نکلے

ہوگئے پنگو پرتی پد جن کے

اتنے ادرشٹ کے دائو چلے

ان کو پرنام !

کرت کرت نہیں جو ہو پائے

پرتیوت پھانسی پر گئے جھول

کچھ ہی دن بیتے ہیں پھر بھی

یہ دنیا جن کو گئی بھول

ان کو پرنام!

تھی عمر سادھنا پر جن کا

جیون ناٹک دکھانت ہوا

یا جنم کال میں ہی سنگھ لگن

پرکوسمے ہی دیہانت ہوا

ان کو پرنام!

دریڈھ برت اور دودرم ساہس کے

جو اُداہرن تھے مورتی منتر

پر نربدھی بندی جیون میں

جن کی دُھن کا کردیا انت

ان کو پرنام!

جن کی سیوائیں اتولنیہ

پروگیاپن سے رہے دور

پرتی کول پرستھیتی نے جن کے

کردئے منورتھ چورچور

ان کو پرنام!

یہ مذکورہ نظم پانچ دہائی پہلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن عصری تناظر میں بھی اس نظم کی قرأت ذہن کے دریچوں کو وا کرتی ہے اور ایک عظیم فنکار کی تخلیق اپنی عصری معنویت بر قرار رکھتی ہے اس کا بھی خلاصہ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی نظم ’میری بھی آبھا ہے اس میں‘ ملاحظہ کیجیے     ؎

نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہاہے

یہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہے

میری بھی آبھا ہے اس میں

بھینی بھینی خوشبو والے

رنگ برنگے

یہ جو اتنے پھول کھلے ہیں

کل ان کو میرے پرانوں میں نہلایا تھا

کل ان کو میرے سپنوں نے سہلایا تھا    

پکی سنہری فصلوں سے جو

اب کی یہ کھلیان بھر گیا

میری رگ رگ کی سونت کی بوندیں

اس میں مسکراتی ہے

نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہا ہے

یہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہے

اس نظم میں بھی جدید ہندوستان کی تعمیر میں مزدور طبقے کی قربانیوں کو شعری پیکر میں ڈھالا گیاہے اور کس طرح حاشیائی طبقے کو نظر انداز کیا گیاہے اس کو علامتی انداز میں پیش کیا گیاہے۔

مختصر یہ کہ ناگارجن نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں صرف ہماری سماجی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی ہے بلکہ سماجی زندگی کے ایسے تاریک گوشے کو موضوع بنایا ہے جس سے ان کے بنیادی نقطۂ نظر کی مکمل عکاسی ہوتی ہے۔ان کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ہی آس پاس کی زندگی کی ترجمانی کی ہے، اپنے ہی ماحول کی عکاسی کی ہے۔دوسرے شعراء کی طرح ان کا رنگ مصنوعی نہیں اور نہ ان کے موضوع مانگے کا اجالا ہیں۔ غرض کہ ناگارجن ادب برائے زندگی کے علمبردار ہیں اور اپنے قلم کی جنبش سے فرسودہ سماج کے تمام ہوائی قلعوں کو منہدم کرکے ہمیں اس دنیا سے روشناس کراتے ہیں جس میں ہم بستے ہیں اور اپنی آنکھوں سے انسانی زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں۔

Dr. Mushtaque Ahmad

Principal, CM College

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9431414586

Email.: rm.meezan@gmail.com




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں