31/12/20

اس شکل سے گزری غالب: حقائق اسا س ڈرامہ - مضمون نگار: پرویز شہریار

 



اردو ادب میں ڈرامے کے رجحان کا غلبہ دیگر اصناف کے مقابلے میں ا گرچہ زیادہ نہیں رہا ہے۔ تاہم اندر سبھا کے ڈراموں کی روایت واجد علی شاہ کے زمانے سے کافی مشہور اور مقبول رہی ہے۔ اردو میں اسٹیج ڈرامے اور ریڈیائی ڈرامے دونوں ہی لکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، یک بابی ڈرامے بھی تعلیم و تدریس کے اغراض و مقاصد کے تحت لکھے جاتے رہے ہیں۔

اردو کے مشہور ڈراموں میں’انار کلی‘ کا خاص طور سے ذکر کیا جاتا ہے۔اصلاحی ڈراموں میں عابد حسین کے ڈرامے ’پردۂ غفلت‘ اور آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ’یہودی کی لڑکی ‘کا ذکر ہوجاتا رہاہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں پارسی تھیٹر نے ڈرامے کے کرافٹ کو بام عروج تک پہنچایا۔اسے اردو ڈرامے کا سنہرہ دور کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بولتی ہوئی جدید فلموں کی آمد سے تھیٹر کا زور کم پڑ گیا اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ فلموں نے لے لی۔

لیکن، دوسری طرف ہوا یہ کہ ڈرامے کو اسٹیج سے ہٹ کر ریڈیو میں جگہ مل گئی اور ریڈیائی ڈرامے کی مقبولیت نے بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کو اپنی طرف متوجہ کر نا شروع کر دیا۔ ان میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر،  راجندر سنگھ بیدی، اپیندر ناتھ اشک اور ریوتی سرن شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ دورِ جدید میں اِپٹا (IPTA) اور دوسری غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے پیش کیے گئے ڈرامے قابل تعریف رہے ہیں،جن میں صفدر ہاشمی کے ڈرامے بھی شامل ہیں۔

ادبی اصناف میں ڈرامہ ایک ایسی صنف ہے جس میں ناظرین براہِ راست کرداروں سے رو برو ہوتے ہیں۔ اس میڈیم کو سب سے زیادہ موثر ذریعۂ ترسیل سمجھا جاتا ہے۔ کتابی ڈراموں میں بہت ساری باتیں اَن کہی رہ جاتی ہیں، لیکن جب ہم اسٹیج پر کرداروں کوآپس میں متصادم دیکھتے ہیں تو ان کے جذبوں کا رنگ کرداروں کے چہروں سے عیاں ہوتاہے۔جس کی گرماہٹ جلسہ گاہ  یا ہال میں موجود تماش بین آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ آواز کے اُتار چڑھاؤ اور مکالموں کی تیزی و ترشی ہم اسٹیج ڈراموں میں بخوبی محسوس کر لیتے ہیں۔

جہاں تک غالب پر کھیلے گئے ڈراموں کاسوال ہے۔ اس موضوع پر بھی وقتاً فوقاً ڈرامے اسٹیج کیے جاتے رہے ہیں۔ اس قسم کے ڈرامے ایوانِ غالب کی ثقافتی و تہذیبی اکائی ’ہم سب ڈرامہ گروپ‘ کے ذریعے پیش کیے جاتے رہے ہیں، جن میں غالب شناسی کے پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتاہے۔ اس میں اب تک جو ڈرامے پیش کیے جا چکے ہیں، ان میں سے چند مشہور ڈرامے ہیں، سید محمد مہدی کا ڈرامہ ـ’غالب کون‘، منجو قمر کا ڈرامہ ’مرزا غالب‘، حبیب تنویر کا ڈرامہ ’میرے بعد‘، اے آر کاردار کا ڈرامہ ’ غالب کی واپسی‘، اور محمد حسن کے ڈرامے ’ تماشہ اور تماشائی‘ اور’کہرے کا چاند‘، نیز ابن کنول کا ڈرامہ ’بزم داغ‘ وغیرہ۔

پروفیسر صادق نے اپنے ڈرامے، ’اس شکل سے گزری غالب‘ کے لکھنے کے جواز کے طور پر نیشنل بک ٹرسٹ سے شائع شدہ اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مجھے مروجہ ڈرامے دیکھنے کے بعداکثر کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی رہی ہے۔اس تشنگی سے مجھے ترغیب ملی کہ مرزا غالب کے معرکہ آرا  واقعے کو ڈرامہ کے طور پر پیش کر دیا جائے جو سچے واقعات پر مبنی ہواور پھر اس کو اسٹیج پر کھیلا بھی جاسکے۔ اسی منصوبے کے تحت پروفیسر صادق نے ’اس شکل سے گزری غالب‘ کے ذریعے مرزاغالب کے کردار، اُس عہد کی تہذیب، اس دور کی سیاسی چال بازیوں اور غالب کے خلاف رچی گئی سازشوں اور بے انصافیوں سے ناظرین کو متعارف کرایا ہے اور اس شعر کو عملی جامہ پہنانے  میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے       ؎

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا  یاد کریں گے کہ خدا رکھتے  تھے

ڈرامے کا اصل موضوع یہ ہے کہ پنشن میں ہوئی بے انصافیوں سے غالب پہلے ہی پریشان تھے لیکن جب اخراجات حد سے زیادہ بڑھ گئے۔مہا جنوں اور ساہو کاروں سے لیے گئے، سودی قرض کی رقم حد سے تجاوز کرنے لگی اور جب غالب کے تایا سسر نواب احمد بخش کے صرف دلاسہ دینے سے بات بنتی نظر نہ آئی تو     غا لب نے کلکتے کے سفر کا قصد کیا تاکہ وہاں جاکے کمپنی سرکار کے گورنر جنرل سے اپنی عرضی گزار سکیں۔ اُس وقت ان کی عمر تقریباً  30 سال رہی ہوگی۔ اس سفر کی پوری روداد اس ڈرامے میں موجود ہے۔ دورانِ سفر غالب نے لکھنٔو، بنارس اور عظیم آباد،وغیرہ میں قیام کیا تھا۔اس عرصے میں ان کی طبیعت بھی خراب ہوئی اور تنگ دستی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔لیکن کلکتے میں ان کے دشمن افضل نے ان کے خلاف وہاں کے عوام اور خواص یعنی وہاں کے مقامی لوگوں اور انگریزی افسران دونوں طبقے کے لوگوں کو غالب کے خلاف بھڑکادیا اور غالب کو چار وناچار،وہاں سے خالی ہاتھ اور بے نیل ومرام دلّیـ واپس آنا پڑا۔

غالب کے چچا نصراللہ بیگ کو انگریزی سرکار سے ملی جاگیر کے ضبط ہوجانے کے بعددس ہزار روپے مہینہ کا وظیفہ جاری ہو گیا تھا، لیکن ایک ماہ کے بعداس میں خواجہ حاجی نے سازش رچی اور اس پنشن کا تین فریقین میں بٹوارہ ہوگیا۔خواجہ حاجی، غالب اور غالب کی دادی۔اس پہ مستزاد یہ کہ پنشن کی رقم منہا کر کے پانچ ہزار کر دی گئی تھی۔ بڑے حصے پرخواجہ حاجی خود قابض ہو گیا۔ اسے دو ہزار روپے مہینہ وظیفہ اور بقیہ تین ہزار کی رقم میں سے غالب اور غالب کی دا دی ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار روپے پنشن کے حقدارقرار دیے گئے تھے۔جبکہ چچا نصراللہ بیگ کے وارثین میں ان کی تین سگی بہنیں یعنی غالب کی پھوپھیاں اور ایک بھتیجا یعنی غالب کا چھوٹا بھائی مرزا یوسف جس کی عمر سات سال تھی، وہ بھی شامل تھے۔ لیکن ان چاروں میں سے کسی کا نام تک اس سرکاری دستاویز میں شامل نہ تھا۔

نواب احمد بخش سے غالب کا سسرالی رشتہ تھا۔ وہ ان کے چچا سسر تھے۔ لہٰذا، ان سے اس موضوع پر کبھی کھل کر بات نہیں ہو سکی تھی اور چچا مرحوم کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا تھا۔چناں چہ، پنشن کی رقم کم پڑنے لگی تو مرزا نوشے میاں نے قرض لینے کی شروعات کر دی۔ آمدنی تو بڑھی نہیں۔ قرض دن بہ دن بڑھتا  چلاگیا۔

یہ ڈرامہ پنشن کے سلسلے میں غالب کی ایک طویل جد و جہد اور نا مساعد حالات کے سچے واقعات پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے غالب نے جتنے بھی اسفار کیے اور اس کی صعوبتیں برداشت کیں اور جن سازشوں کا انھیں قدم قدم پر سامنا کرنا پڑا، وہ سب اس ڈرامے میں دستاویزی حقائق کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔

 واقعہ یہ ہے کہ تین سال کے لیے غالب کی پنشن بند ہو گئی تھی۔ 1857میں غدر کے بعد دوبارہ پنشن جاری ہوئی۔ گھر میں کھانے والے بیس افراد تھے اور ساٹھ روپے آٹھ آنے مہینہ کی پنشن تھی۔ والیِ  رام پور سے ماہانہ سو روپے کا وظیفہ آجاتا تھا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں غالب نے اپنی زندگانی کا سفر طے کیا۔ لیکن ان کے اندر کا ایقان اور استقلال انھیں نچلا بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے اخیر تک انصاف کی جنگ جاری رکھی۔ حتیٰ کہ برطانیہ کی ملکہ ٔ معظمہ کو بھی خط لکھا اور حق بات پر سینہ سپر ہوکر ڈٹے رہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو غالب کی ججھار و شخصیت کے اس وصف کو نمایاں کرتے ہیں کہ ان کے اندر رجائیت تھی۔زندگی کے تئیں ان کا یہی مثبت رویہ تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی کسی چیز کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتے تھے۔یعنی انھوں نے اپنے نصب العین سے کبھی روگردانی نہیں کی اور اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے تمام عمر سعی کرتے رہے۔ یہ بات بھی قابل ِغور ہے کہ انھیں اپنی قسمت پر کبھی بھروسہ نہیں تھا۔ سیاہ بختی اور طالع خفتہ کا احساس تمام عمر ان کے دامن گیر رہا،وہ اپنے ساتھ ہوئی اس بے انصافی اور حق تلفی کے لیے داورِ محشرسے بھی فریاد رسی کے متمنی تھے۔

غالب کی زندگی کے مذکورہ واقعات کو ڈرامے میں بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ 12 ایکٹ اور مرزا یوسف اور ہمزاد سمیت تقریباً 15 کرداروں پر مشتمل یہ ڈرامہ دہلی اردو اکادمی کے ذریعے شری رام سینٹر، منڈی ہاؤس، نئی دہلی میں  28، نومبر 2019 کو شام 6:30  بجے پیش کیا گیا تھا۔ میں اس ڈرامے کا فی نفسہ ایک ناظر رہا ہوں۔مرزا غالب کے کردار میں ایک تو اُس نوجواں غالب یعنی مرزا نوشہ کو دکھایا گیا ہے جس کی عمر تیس سال تھی۔جوانی کی رعنائیاں اور ان کے جوش و خروش کو اسٹیج پر بہت پر کشش طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

بعدازاں، غالب کے بڑھاپے کی حالت کو جب مرزا غالب چھڑی کی مدد سے چلتے پھرتے تھے، بہت ہی ضعیف اور ناتواں، بلکہ نیم جاں والی حالت کو اسٹیج پر بڑے موثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ غالب کی زوجہ امراؤ بیگم کا کردار بہت جاذب نظر اور خوش باش طور پر دکھایا گیا ہے۔ ان کے بھی ایام شباب کو اور پھر ڈھلتی ہوئی عمر کے ٹھہراؤ کو بحسن و خوبی اسٹیج کیا گیا ہے۔

اسکرپٹ رائٹر کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو پروفیسر صادق نے اس میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یہاں، مثال کے طور پر ان کی اس فن پر استادانہ گرفت کی بات کی جائے تو ماہرین ڈرامہ جانتے ہیں کہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہم خارجی، مادّی یا تاریخی واقعات کو تو آسانی سے ناظرین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن معاملہ جب قلبی واردات کا ہو تو اس میں خود کلامی سے کام لیا جاتا ہے۔Monologue اور Soliloquy  مکالمے کے دو بہت مؤثر ذرائع اظہار مانے جاتے ہیں۔لیکن پروفیسر صادق، چونکہ خود بھی رنگ منچ سے ایک اداکار کی حیثیت سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے انھوں نے ادا کارکی سہولیت، رنگ منچ کی رنگا رنگی اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے مرزاغالب کا ہمزاد تخلیق کر دیا۔ ان کا یہ تجربہ بہت زبردست ثابت ہوا۔ اداکاروں نے جس روانی کے ساتھ برجستہ اور بے ساختہ انداز میں مکالمات ادا کیے، وہ دیکھتے ہی بنتا تھا۔ہمزاد کے تلخی آمیز مکالموں کی ادائیگی نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ پروفیسر صادق کے مکالمات نے قصیدہ اور غزل میں بیان ہونے والی سچّی اور جھوٹی تعریف کے فلسفے کو طشت از بام کر دیا ہے۔پہلی بار ایسا ہوا کہ مرزا اپنے ہمزاد کے آگے لاجواب ہو کر بغلیں جھانکتے نظرآئے ہیں۔ اس مقام پر ناظرین نے دل کی گہرائیوں سے داد دی ہوگی۔ میں، ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ شور مچانا یا خوشی سے تالیاں بجانا رنگ منچ کی تہذیب کے منافی ہوتا ہے۔ لہٰذا، اُس وقت کے دورانیہ میں پن ڈراپ خاموشی اس بات کی دلیل تھی کہ ناظرین زبان ِحال سے اس کی پذیرائی کر رہے تھے۔

اس ڈرامے کی ڈیزائننگ اور ہدایت کاری میں پرتیبھا سنگھ نے بھی اپنے فن کا دل کھول کے مظاہرہ کیا ہے۔ اشعار کے پس منظرمیں چل رہے رقص کی موومنٹ نے جو منظر کشی کی ہے، وہ بہت دلکش معلوم ہوتی تھی اور نظروں کو باندھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔ اس کے علاوہ، انگریز کردار خواہ وہ پچاس سالہ افسرسائمن فریزر ہو یا برٹش حکومت کا چیف سکریٹری پچپن سالہ انگریز سوئن ٹن یا پھراس کا ماتحت، پچاس سالہ انگریز ہنری، ان سب کی برٹش لب و لہجے (Accent) میں اردوکے ڈائیلاگ سماعت فرمانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس میں دلّی کے نوجوان اداکاروں نے اپنے جذبات اور اپنی توانائیاں جھونک دی تھیں۔جس سے مکالمات کے بے ساختہ اورفطری ہونے کا زبر دست احساس ہوتا تھا۔کرداروں کے ملبوسات، حقہ اور پاندان اور نشست و برخواست کے فرشی انتظامات، کلو میاں کا بار بار ازاربند میں گرہ لگانا یہ ایسے عمل تھے جس سے مغلیہ عہد کی طرز معاشرت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔اس ڈرامے کی کامیابی یہ ہے کہ ڈھائی گھنٹے کے لیے ہر تماش بین ذہنی طور پر غالب کے زمانے میں خود کو سیر کرتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔

  پروفیسر صادق نے مرزا غالب کی والدہ عزت النسا بیگم کو ایک پر وقار خاتون کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی کردار سازی بہت محنت سے کی گئی ہے۔ اس ڈرامے میں ان کے بال سفید اور ملبوسات بھی سفید دکھائے گئے ہیں، جس کی ستائش نہ کرنا فنکار کی حق تلفی کے مترادف سمجھا جائے گا۔  ڈومنی نواب جان کے رقص کوبھی بنارس کی شام میں یادداشت کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے جس کے بغیرعام ناظرین کے لیے غالب کے ڈرامے میں دلچسپی کے فقدان کو محسوس کیے جانے کا احتمال بر قرار رہ جاتا۔ڈرامہ کی ڈائریکٹر نے جابجا رقص، موسیقی اور بیک ڈراپ میں مصوری کے ذریعے مختلف تہذیبی مناظر کو پیش کرکے ناظرین کی دلچسپی بنائے رکھنے میں بڑا زبردست کام انجام دیاہے۔

کلو میاں کا لنگِ پا ہونا، لونڈی وفادار کی تتلاہت اور رائے چھجمل کی یاری، مداری خان کی چھوٹی چھوٹی خدمت گزاری، افضل بیگ اور عبدالکریم کی مکاری اور دغا بازی، انگریزافسران کی مستعدی و ہشیاری اور ان سب سے بڑھ کے ہمزاد کی تنہائیوں میں ہم کلامی سب یاد رہ جاتی ہیں۔ ناظرین کے حافظے کا حصہ بن کے اسٹیج سے باہر جانے پر بہت دیر تک اپنی گل کاریاں کرتی رہتی ہیں۔

اسٹیج ڈرامے کے کرافٹ میں متعدد ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں، جو ڈرامے کے مسودے کا حصہ نہیں ہوتیں، مگر زیب ِ داستان اور ناظرین کی حسِ سماعت و بصارت کو باندھے رکھنے کے لیے ہدایت کار اپنی طرف سے کچھ چیزوں کا اضافہ کردیتا ہے۔لہٰذا، اس ڈرامے کا موضوع کافی گمبھیر تھا مگر ہدایت کار پرتیبھاسنگھ نے اسے پر لطف اور دلچسپ بنانے کے لیے جا بجا تفریحی عناصر کا استعمال کیا ہے۔ جس طرح شیکسپیئر نے سب سے پہلے یونان کے المیہ ڈراموں کے اصول کے بر خلاف اپنے ڈراموں میں  Comical elements کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح پر تیبھا نے اپنے اسٹیج کرافٹ کے تجربے کو بروئے کار لاکر اس کی المناکی کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے،جسے ذاتی طور پر میں بھی مستحسن سمجھتا ہوں۔ ان طربیہ عناصر کا فائدہ یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی تماش بین اس ڈرامے سے بے حد محظوظ اور لطف اندوز ہوکر اُٹھتے ہیں۔ ایسے بہترین ڈرامے روز روز نہیں اسٹیج کیے جاتے،جن میں ڈرامے کی تینوںہی اکائیاں اپنے عروج وکمال پر ہوں یعنی ٹائم، اسپیس اور ایکٹ اور ان میں ایسا زبردست تال میل شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

Dr. Perwaiz Shaharyar

Flat No: 4/48, NCERT Campus

Sri Aurobindo Marg

New Delhi - 119916




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں