29/12/20

ہندوستان میں فارسی لغت نگاری: ایک تعارف - مضمون نگار: قمر حیدر

 



دنیا کی کسی بھی زبان کو جاننے اور پہچاننے کے لیے اس کے الفاظ وقواعد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، انھیں الفاظ ومحاوروں کو ابجد کی ترتیب کی رعایت کے ساتھ کتابی شکل میں جمع کردینا لغت نویسی کہلاتا ہے اور ترتیب شدہ مجموعے کو لغت،فرہنگ،ڈکنر ی اور شبد کوش کے نام سے یادکیا جاتاہے۔لغت میں در حقیقت روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ، محاورات کی تشریح اور ضرب الامثال کی توجیہ وتوضیح درج ہوتی ہے۔لفظ کس زبان کا ہے اس کی اصل کیا ہے ،اس کی قواعدی نوعیت کیا ہے یہ ساری چیزیں لغت میں مذکور ہوتی ہیں۔

اس مقام پر یہ بات ذہن نشین کرانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لغات اور دائرۃ المعارف میں کچھ بنیادی فرق ہوتے ہیں، ان میں اہم ترین فرق یہ ہے کہ لغات میں بنیادی طور پر لغت ومعنی کو مدنظر رکھا جاتاہے جبکہ دائرۃ المعارف میں مختلف موضوعات پر اجمالی معلومات درج کی جاتی ہیں۔

لغت نویسی نہایت ہی صبر آزما، دقت طلب اور طاقت فرسا فن ہے جس کا تعلق لسانیات اور علم زبان سے ہے اس کے لیے وسیع معلومات، الفاظ کا ذخیرہ، اس کے طریقہ استعمال سے آگہی، معنی، تلفظ واملا سے واقفیت وغیرہ درکار ہوتی ہے، نیز زمانے کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کسی حد تک آشنائی بھی ضروری ہے۔

کتب لغات کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لغت کی کتابیں مختلف النوع ہوتی ہیں، کچھ ایسی لغات ہوتی ہیں جس میں صرف اسی زبان کے الفاظ کے معنی،محل استعمال اور طریقہ استعمال کو بیان کیا جاتاہے ،عموماً اردو فارسی لغات میں حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے کلمات والفاظ کی تشریح وتوضیح درج ہوتی ہے۔

کچھ لغات ایسی بھی نظر آتی ہیں جس میں دوزبانوں کا استعمال ہوتا ہے مثلا اردو سے عربی یا عربی سے اردو ،یا فارسی سے عربی وعربی سے فارسی میں الفاظ کی تشریح وتوضیح نیز معنی وغیرہ درج کیا جاتا ہے۔

بعض لغت میں کئی کئی زبانوں کا استعمال ہوتا ہے، الفاظ کے معنی وطریقہ استعمال کو چند زبانوں میں بیان کیا جاتاہے،دور حاضر میں اس قسم کی لغات زیادہ مرسوم ہیں، ہرزبان کی لغت چند مختلف زبانوں میں ترتیب پا رہی ہے۔

لغت کی ایک قسم عصر حاضر میں یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی علم یا موضوع سے متعلق کلمات واصطلاحات کی تشریح وتوضیح سے مختص ہیں مثلا سائنسی علوم سے متعلق لغات، علم نجوم یا حکمت وفلسفے کی اصطلاحات پر مشتمل لغت۔

ہندوستان میں فارسی لغات کی تدوین:

فارسی زبان اپنی قدامت کے اعتبار سے متعدد ادوار سے گذری ہے اور ہر دور پچھلے دور کے بہ نسبت زیادہ ہی تابناک رہا ہے چونکہ کسی بھی زبان کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا ایک ذریعہ لغات ہیں بلکہ ادبی منابع میں سے ہے اس لیے ہر دور میں ادبا ودانشوروں نے اس پر خاطر خواہ توجہ دی ہے ،فارسی لغت نویسی کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے درمیانی مراحل سے فارسی لغت نویسی کا آغاز ہوچکا تھا ،چنانچہ ڈاکٹر معین اپنی لغت فرہنگ معین کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

ایسے شواہد دستیاب ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لغت نویسی کا آغاز پانچویں صدی ہجری کے وسط میں ہو چکا تھا ممکن ہے اس سے پہلے بھی یہ کام ہواہو لیکن حوادث تاریخی کے ہاتھوں ضائع وتباہ ہوگیا اور اس کے اثرات نہیں ملتے ہیں۔(مقدمہ فرہنگ معین)

فارسی زبان کی قدیم ترین لغت کے عنوان سے دواہم نام قابل ذکر ہیں (1) فرہنگ پہلو یک (2) فرہنگ اوئیم۔  ان دونوں لغات کا تعلق فارسی میانہ سے تھا لیکن باقاعدہ فارسی لغات کی تدوین کا کام بظاہر پانچویں صدی ہجری سے شروع ہوا اس صدی کی دواہم کتابیں قابل ذکر ہیں۔ (1) رسالہ ابو حفص سغدی (2) تفاسیر لغۃ الفرس مؤلفہ شرف الزمان قطران بن منصور ارموی۔پانچویں صدی کے مشہور شاعر تھے ،سردست یہ دونوں کتابیں نایاب ہیں(فرہنگ فارسی معین،ص39)

اس سلسلے میں قدیم ترین کتاب جو دستیاب ہے۔ فرہنگ اسدی یا لغت فرس اسدی مؤلفہ اسدی طوسی ہے۔ اس کے بعد ایک عرصہ دراز تک اس قسم کی کتابیں ترتیب نہیں دی گئیں یہاں تک کہ آٹھویں صدی میں شمس الدین محمد ہندوشاہ کے ذریعے صحاح الفرس لکھی گئی اس کے بعد متعدد لغات اسی صدی میں معرض وجود میں آئیں۔

ساتویں صدی ہجری میں شبہ جزیرہ ہند میں لغت نویسی کا آغاز ہوا کیونکہ ایرانیوں سے راہ ورسم بڑھے اور ایرانی تمدن کو ہندوستان میں رونق حاصل ہوئی، بڑھتے بڑھتے فارسی زبان ایران کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور رائج زبان قرار پائی ،چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ تمام سلاطین وہندوستانی راجاؤں نے فارسی زبان سے بخوبی آشنائی حاصل کرلیا ،چوتھی صدی عیسوی سے ہندوستانی حکام سے ساسانیوں کے خاص روابط ومراسم تھے (فرہنگ نویسی فارسی در ہند وپاکستان، مولفہ  ڈاکٹر شہریار تقوی)

تاریخی حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں ایرانیوں نے فرہنگ نویسی اور لغت نگاری میں کوتاہی کا مظاہرہ کیاہے۔جس کا شکوہ عظیم لغت نگار ڈاکٹر محمد معین کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

چونکہ ایرانیوں کی مادری زبان تھی لہذا انھوں نے لغت نگاری کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی جیسے عرب نے عربی لغت نگاری میں تساہلی سے کام لیا تھا مگرچونکہ عربی زبان ایرانیوں کی مذہبی زبان تھی لہٰذا ایرانیوں نے عربی لغت تدوین کرنے کا بیڑا اٹھایا…..ایرانیوں کی اسی عدم توجہی کے باعث ہندوستانی دانشوروں نے چونکہ ان کی سرکاری زبان فارسی تھی لہٰذا فارسی لغات کی تدوین کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے تالیف کا عمل شروع کیا گرچہ ان کا یہ اقدام قابل تحسین ہے لیکن چونکہ اہل زبان نہ تھے لہٰذا غلطیاں بھی بہت نظر  آتی ہیں۔

(مقدمہ لغتنامہ علی اکبر دھخدا،ص41)

ہند وپاک کے دانشوروں کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے جلال الدین ہمائی رقمطراز ہیں:پرانے ہندوستان کے دانشوروں نے لغت نگاری کے حوالے سے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ایرانیوں سے کہیں زیادہ ہیں…یہ خدمات ویسے ہی ہیں جیسے عربی زبان کی ایرانیوں نے خدمت کیاتھا۔(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان مولفہ ڈاکٹر شہریار تقوی،ص11)

قدیم ہندوستان میں مورخین کے بیان کے مطابق ساتویں صدی ہجری سے لغت نویسی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا تھا اور مسلسل اس تعلق سے دانشوروں نے خدمات انجام دیں لیکن اس سلسلے کا سب سے زرین دور گیارہویں صدی کو کہا جاسکتاہے جس میں یہ کام بام عروج پر پہنچا۔

ہندوستان میں لغت نگاری کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

.1        ساتویں صدی سے نویں صدی ہجری تک:اس دور میں لغت نگار دانشوروں نے الفاظ جمع کرنے پر زیادہ توجہ اور جدیت سے کام لیا اور یہ کوشش کرتے تھے کہ ہر نئی لغت مواد کے اعتبار سے پرانی لغت سے جدا وممتاز رہے، اس دور کے مولفین چونکہ شعر سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے لہٰذا شاہد مثال کے طور پر اشعار زیادہ درج کیا ہے۔

.2         مغلیہ دور سے تیرہویں صدی تک: اس دور میں لغت نگاری میں اک نیا طریقہ پیدا ہوا، الفاظ کی جمع آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق وتنقید پر بھی توجہ مبذول کی گئی، چنانچہ اس دور میں فارسی کو کافی حد تک ارتقا حاصل ہوا۔

.3         دور جدید یعنی چودہویں صدی ہجری:اس دور میں چونکہ مغلیہ سلطنت کی بنیادیں متزلزل ہو گئی تھیں اور ہندوستان پر انگلستان کا قبضہ بڑھتا جا رہا تھا سیاسی اتھل پتھل نے مسلمانوں کے تمدن،زبان اور فارسی ادب کو بھی متاثر کردیا کیونکہ انگریز فارسی کے بجائے اپنی زبان رائج کرنا چاہتے تھے لیکن یہ کوشش مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی مسلمانوں نے اپنی زبان وتمدن کو انگریزوں کے عفریتی پنجوں سے بچا لیا جس کے نتیجے میں متعد دزبانوں کا ایک مجموعہ اردو کے نام سے سامنے آیا۔(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان مولفہ ڈاکٹر شہریار تقوی،ص24)

ہندوستان میں پہلی لغت جو فارسی زبان میں لکھی گئی وہ فرہنگ قواس ہے جس کو علاء الدین محمد شاہ کے درباری شاعر مولانا محمد فخرالدین مبارک شاہ غزنوی معروف بہ کمانگر یا قواس نے تالیف کیا تھا یہ کتاب نو سوچالیس صفحات پر مشتمل ہے جو بھوپال کی حمیدیہ لائبریری میں موجود  ہے یہ نسخہ مولانا نظام الدین فرماندار احمدآباد گجرات کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے۔

(نامہ فرہنگستان، ج1،شمارہ60،مقدمہ برہان قاطع،ص74)

مجلہ آئینہ میراث ،ص106 پر علیم اشرف خان کا یہ جملہ اس کی تائید کرتا ہے: ہندوستان کے مشہور دانشور قاضی عبد الودود کے بقول ہندوستان میں تالیف ہونے والی قدیم ترین فارسی لغت’فرہنگ فخر قوامی‘ ہے لیکن ابھی ماضی قریب میں پروفیسر نذیر احمد نے ایک نئی لغت کا انکشاف کیا ہے جو اس سے بھی زیادہ قدیمی ہے  جس کا نام ’فرہنگ قواس‘ ہے۔

(روزنامہ اطلاعات،16مرداد،سال1392)

ہم یہاں پر چند اہم قدیم ترین کتب لغت کے اسما   درج کررہے ہیں:فرہنگ قواسی مولفہ محمد فخرالدین مبارک شاہ،دستورالافاضل مولفہ مولانا رفیع دہلوی،بحر الفضائل مولفہ مولانا فضل الدین محمد بن قوام،مؤید الفضلا  مولفہ مولانا محمد ابن لاد، ادات الفضلا مولفہ قاضی بدرالدین دہلوی، مجموع اللغات مولفہ ابوالفضل، فرہنگ جہانگیری مولفہ جمال حسین اینجو، برہان قاطع مولفہ محمد حسین برہان تبریزی، فرہنگ رشیدی مولفہ عبد الرشید تقوی،لغات عالم گیر فاضل محمد دہلوی، سراج اللغات سراج الدین علی خان آرزو، چراغ ہدایت سراج الدین علی خان آرزو۔

چند فارسی لغات کا تعارف:

ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا رواج صدیوں پرانا ہے، فارسی زبان کے رائج ہونے کے بعد لغت نویسی کی ضرورت کے پیش نظر ہندوستانی دانشوروں نے نہایت تن دہی سے اس کام کو انجام دیا، سلاطین ہند کی ادب نواز اور علم پرور طبیعت نے دل کھول کر ایسے افراد کی حمایت واعانت کی جس کے نتیجے میں آسودہ خاطر ہوکر بڑے وسیع پیمانے پر یہ کام انجام پایا اورلغات کی ایک طویل فہرست فارسی ادب کی کتابوں میں ملتی ہے ،ہر ایک کتاب کے جداگانہ تعارف کے لیے پوری ایک کتاب نا کافی ہوگی مگر مضمون کی افادیت کے پیش نظر کچھ کتب کا اجمالی تعارف  ہدیہ قارئین کرام کیا جارہاہے۔

.1  بہار عجم:دوسرے دور میں ہندوستان میں تالیف ہونے والی یہ لغت لالہ ٹیک چند بہار نے مرتب کیا تھا اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تقریبا دس ہزار مفردات، مرکبات ومثالوں کو درج کیا ہے اور اکثر معنی بیان کرنے میں اشعار سے استفادہ کیا ہے۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بعض امثال،کنایات اور فارسی عبارات ایسی ہیں جو اس سے قبل کی لغات میں مذکور نہیں ہیں۔

مقدمہ میں لالہ ٹیک چند نے تحریر کیا ہے:یہ ذخیرہ ہے لغت واصطلاحات کا جس کو مروجہ کتب،معتبر شروح متقدمین کے دیوان ومثنویات سے حاصل کیا ہے۔

(پژوہشنامہ علوم انسانی،ص28)

شاید اسی تحقیق وجستجو کا نتیجہ تھا کہ یہ لغت بعد کے لغت نویس دانشوروں کے لیے عظیم سرچشمہ علم قرارپائی جس کے سبب مولف کی زندگی میں ہی متعدد مرتبہ طبع ہوئی۔ مولف آصف اللغات بہار عجم کی جامعیت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:متعدد مفردات اور بہت سے مرکبات درج کیا ہے ،اکثر الفاظ میں متقدمین ومتاخرین سے متعدد اسناد ذکر کیے ہیں جس سے مرکبات میں تازگی نظر آتی ہے...اس کی جامعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے اساتذہ فن کے کلام یکجا کردیا ہے۔

(آصف اللغات،ج1،ص5)

اس کتاب کی عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تکمیل تدوین سے لے کر ہمیشہ یہ کتاب ادبی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی، متاخرین نے اس کتاب سے بھر پور استفادہ کیا ہے، فرہنگ آنند راج، لغتنامہ دھخدا، فرہنگ نفیسی ،فرہنگ معین جیسی عظیم کتابوں میں بہت سے مفردات ومرکبات کی تشریح کو من وعن نقل کردیا گیاہے۔

سراج اللغات:سراج الدین علی خان آرزو نے تالیف کیا ہے ،ہندوستان میں فارسی لغت نگاری کے ارتقا میں اہم رول ادا کیا ہے، انھیں نے  سب سے پہلے زبان شناسی کے فارمولے اور فارسی وسنسکرت زبان کے درمیان کے روابط کو واضح کیا اور نہایت اہم اقدامات کیے۔

آپ نے دو کتابیں علم لغت میں تالیف کیا تھا۔ (1) چراغ ہدایت (2) سراج اللغات ،اول الذکر کتاب مختصر مگر دوسری کتاب محمد شاہ کے دور میں 1147ھ میں تالیف کیا۔

ڈاکٹر شہریار تقوی تحریر کرتے ہیں: سراج اللغات باوجودیکہ اہم وعظیم اور نہایت قیمتی لغت تھی مگر کبھی طبع نہیں ہو سکی کہا جاتا ہے کہ کرناٹک کے ایک نواب کے دور میں طبع ہوئی تھی مگر اس کا کوئی نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔

(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان،ص112)

اس لغت میں مولف نے ثقافتی مباحث کے ساتھ ساتھ اعلام جغرافیائی اور تاریخی  بھی درج کیے ہیں۔

فرہنگ آنند راج: مولفہ محمد بادشاہ فرزند غلام محی الدین ،یہ کتاب آنند نامی بادشاہ کی تشویق پر ترتیب پائی تھی اس میں اس دور میں استعمال ہونے والے عربی، فارسی، ترکی، مغلی اور ہندی الفاظ درج ہیں ،کتاب کی تدوین میں گذشتہ مصنّفین کے تجربات وطریقوں سے خوب استفادہ کیا ہے۔

الفاظ کا تلفظ،قواعدی مباحث،مختلف معانی کو جدا جدا لکھنا،معنی مجازی وکنایہ کی تشخیص ،عروض وبدیع کی اصطلاحات کا اندراج اس کی اہم خصوصیات ہیں۔

یہ لغت تئیس ابواب پر مشتمل ہے،اس کتاب میں الف ممدودہ اور ہمزہ کے درمیان کا امتیاز نظر نہیں آتا ہے، مولف نے الفاظ فارسی کے ریشہ واصل کے بیان پر زیادہ توجہ دیا ہے مگر بعض مقامات پر اصل بیان کرنے میں سہو کے مرتکب ہوگئے ہیں اور علمی مباحث سے گریز کرتے ہوئے صرف گمان پر بھروسہ کیاہے۔

فرہنگ جہانگیری: 1017ھ میں تالیف ہوئی جو ایک بہترین وجامع ترین لغت ہے،مصنف جمال الدین حسین اینجو اکبر بادشاہ کے دربار کے امرا  میں سے تھے ،اس میں ترپن لغات سے استفادہ کیا گیا ہے،اور بعض الفاظ ومفردات جو خود ان کی تحقیق کا نتیجے ہیں درج ہیں۔وہ خود بیان کرتے ہیں:میں نے بعض ایسے کلمات بھی درج کیے ہیں جس کا وجود دیگر کتب لغت میں نہیں ملتا ہے اس کے لیے تحقیق کی ضرورت تھی کہ ان مناطق میں بسنے والے ادبا سے استفسار کیا جائے۔

لغت کی ترتیب پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر کلمہ کے دوسرے حرف کو باب اور پہلے حرف کو فصل کا عنوان دیا ہے اسی وجہ سے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں کی جاتی ہے (www.fa.wikipedia,org/wiki/) فارسی زبان در ہند)

فرہنگ رشیدی: عبد الرشید حسینی  سند ھ کے رہنے والے تھے انھوں نے فارسی کلمات ومفردات کے بارے میں  اچھی تحقیق پیش کیا ہے وہ خود تحریرکرتے ہیں:

چونکہ میں نے دوعظیم لغت کا مطالعہ کیا ’فرہنگ جہانگیری‘ و’سروری‘ دونوں میں ایسے امور نظر آئے جن سے اجتناب ضروری تھا۔ (1) دونوں لغت میں بے جا تفصیل، بے حاصل عبارات کی تکرار اور غیر ضروری اشعار کی کثرت سے پر ہیں۔ (2) بعض الفاظ کی تصحیح، اعراب کی وضاحت ،معنی کی تنقیح کما حقہ نہیں کی گئی ہے  جو ضروری تھی۔(3) اغلاط واشتباہات کی زیادتی۔

(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان،ص102)

برہان قاطع: مولفہ محمد حسین متخلص بہ برہان ،1062 ھ میں ترتیب حروف تہجی کی رعایت کے ساتھ تدوین عمل میں آئی ہے،اس کتاب کو مصنف نے گولکنڈہ کے بادشاہ سلطان عبد اللہ قطب شاہ کے نام سے معنون کیا ہے،اس لغت کو خوب شہرت ملی اور کئی مرتبہ طبع ہوئی۔

قاطع برہان: 1278ھ میں اسد اللہ خان غالب نے برہان قاطع کی تصحیح کے عنوان سے ترتیب دیا تھا، در اصل غدر کے ایام میں جب غالب خانہ نشینی پر مجبور ہوگئے تو ان کے پاس صرف برہان قاطع نامی کتاب تھی لہٰذا اسی کے مطالعے میں مصروف ہوگئے اوردوران مطالعہ جہاں کہیں بھی برہان قاطع کے مندرجات سے اختلاف کرتے تھے یا جہاں کہیں بھی اعترا ض نظر آتا اس کی اصلاح کی غرض سے حاشیہ نویسی شروع کردیا اور بغیر کسی لغت کے سہارے ذاتی معلومات کی بنیادپر ایک سو انیس غلطی کی نشاندہی کیا۔

منابع

.1        آصف اللغات۔

.2         پڑوہش نامہ علوم انسانی

.3         روزنامہ اطلاعات

.4         فرہنگ معین

.5         فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان

.6         مقدمہ لغتنامہ دھخدا

.7         مقدمہ برہان قاطع

.8         مجلہ آئینہ میراث

.9         نامہ فرہنگستان

.10      زبان فارسی درہندwww.fa.m.wikipedia.org/wiki


Qamar Haider

46 E, Barhamputra Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9910786441




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں