28/12/20

ناول ’ہمسایہ ہا‘ - مضمون نگار: نگار

 



احمد محمود،کا شمار ممتاز ایرانی داستان نویسوں اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں میںداستان یک شہر، زمین سوختہ، مدارصفر درجہ، آدم زندہ، درخت انجیر معابد کے علاوہ ہمسایہ ہا کافی مقبول و معروف ہیں۔

احمد محمود کے دوسرے ناول:

داستان یک شہر: یہ ناول سب سے پہلے مطبع امیر کبیر سے شائع ہوا اور پھر انتشارات معین سے  شائع ہوا۔ یہ ناول ’ہمسایہ ہا‘ کا تکملہ ہے۔ خالدایک ایسا کردار ہے جو احمد محمود کے دوسرے داستان ہمسایہ ہا میں بھی راوی داستان کی شکل میں نظر آتا ہے اس داستان میں بھی اس کا کردار بعینہ وہی ہے۔ خالد بھی تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے قیدو بندسے دوچار ہوتا ہے۔ رہائی کے بعد چند لوگوں کے ساتھ اسے بندر لنگہ کی طرف جلاوطن کر دیا جاتا ہے ان واقعات کی کڑیاں ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول اصلاً احمد محمود کی اپنی سرگذشت ہے۔ اس لیے کہ احمد محمود نے بھی جلاوطنی کے ایام بندر لنگہ میں ہی گذارے تھے۔

زمین سوختہ: یہ ناول  پہلے پہل مطبع ’نشرنو‘ سے پھر اسی سال تقریبا 22 ہزار کی تعداد میں از سر نو انتشارات ’معین‘ سے شائع ہوا۔ موضوع کے اعتبار سے یہ ناول ایران و عراق کے مابین جنگ کے آغاز میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات پر مشتمل ہے جو جنوبی ایران یعنی خوزستان شہر میںوقوع پذیر ہوا۔اس ناول میں مرکزی کردار خالد کے بھائی کا ہے۔راوی کا خاندان اہواز میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ ابھی موسم گرما اپنے آخری مرحلے میں ہے۔لوگ موسم بہار کے آغاز اور مدارس و اسکول کے کھلنے کے منتظر ہیں کہ اسی دوران عراقی افواج کے حملے کی خبر گردش کرنے لگتی ہے اور جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ لوگ شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ زیر زمیں بنکروں میں پناہ لیتے ہیں۔ راوی اپنے دو بھائیوں کے ساتھ شہر میں ہی رہ جاتا ہے۔ ایک بھائی خالد عراقی بمباری میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ اس صدمے کے اثر سے دوسرا بھائی شاہد دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ احمد محمود نے اس ناول میںایران پر عراق کے حملے سے پیدا ہونے والی تباہی و ویرانی اور سماج پر اس کے اثرات کا منظر پیش کیا ہے۔ خود احمد محمود نے بھی اپنے بھائی کو اسی جنگ میں کھویا تھا۔

مدار صفر درجہ: یہ ناول تین جلد اور 1782 صفحات پر مشتمل ہے جو انتشارات ’معین‘ سے شائع ہوا۔ یہ ناول 1971 سے 1978 کے درمیان رونما ہونے والے واقعات پر محیط ہے۔ اس داستان کامرکزی کردارجو ’باران‘کے نام سے موسوم ہے،حالات سے مجبور ہوکر سیاست میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ ناول گوناگوں مسائل اور موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جیسے شاہ کے مخالف قوتوں کا اکٹھا ہونا، اصلاح اراضی، اقتصادی رابطے اور اس کے اثرات، دانشمند اور روشن فکرافراد کا ٹکر اؤ، ساواک کی سازشیںاور کوششیں وغیرہ۔ احمد محمودنے اس کے ذریعے ایران کے جنوبی خطے کے لوگوں کے مسائل سے قاری کو واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

آدم زندہ: یہ ناول انتشارات ’معین‘ تہران سے شائع ہوا۔اصلا اس کا مصنف ممدوح بن عاطل ابو نزال ایک عرب ہے اسی لیے اس ناول میں مذکور واقعات تیسری دنیایعنی عرب سے تعلق رکھتے ہیں اور احمد محمود نے اسے عربی سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔

درخت انجیر معابدـ:  یہ احمد محمود کا آخری ناول ہے جو دو جلدوں میں انتشارات ’معین‘ سے 2000 میں شائع ہوا۔ اس ناول کو سال کا بہترین ناول قرار دیا گیااور’ہوشنگ گلشیری‘ انعام سے نوازا گیا۔ یہ ناول شرفا کے ایک خانوادہ کی گویا مختصر تاریخ ہے۔ اس ناول میں احمد محمود نے لوگوں میں رائج خرافات و معتقدات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ احمد محمود کا ایک اہم ناول ’ہم سایہ ہا‘ ہے۔

جدید فارسی ادب میں ان کے ناولوں میں ایک ناول ہمسائے بیحد مقبول ہے۔ یہ ناول 1974 میں شائع ہوا۔ اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ احمد محمود کی جلاوطنی کے زمانے میں بندر لنگہ میںمعرض تحریر میں آیا۔  احمد محمود نے اس ناول میں گوناگوں شخصیات اور مختلف طبقات کو جمع کرکے ایک ایسے سماج کو تخلیق کرنے کوشش کی ہے جس کی تعمیر میں سبھی کا حصہ ہے۔ احمد محمود خود بھی اس داستان کا ایک حصہ ہیں لیکن انھوں نے خود کو اس داستان کے مرکزی کردار خالد کی شخصیت میں خود کو مخفی رکھا ہواہے۔

اس ناول کے اکثر کردار سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل سے دوچار نظر آتے ہیں یعنی احمد محمود نے ان کرداروں کی زبان حال سے اس زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اور مشکلات کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ اس میں وقوع پذیر حوادث و واقعات کا تعلق اہواز کے ایک محلہ فقیرنشین میںکرایہ پر زندگی بسر کررہے سات خاندان سے ہے۔تقریباًسبھی خاندان ایک یا دو روم میں زندگی بسر کرتے ہیں۔شہر کے بڑے میدان، میدان مجسمہ، میدان زندان، محلے اور خطہ جنوب کے مخصوص بازار، ایندھن فروش، کتاب فروش مجاہد،  پمپ ہاؤس،  اینٹ بھٹے کی دوکان، پٹرول پلانٹ اور امان آقا کی دو قہوہ کی دوکان وغیرہ۔ اس کے علاوہ بچوں کا کھیلنا کودنا، لوگوں کے گھروں کا شیشہ توڑدینا، گھروں میں جھانکنا، دکانداروں کی چوری اور کبوتر بازی وغیرہ کا ذکر تفصیل کے ساتھ اس ناول میں ملتا ہے جس سے اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کے احوال، عادات، رہن،سہن وغیرہ سے اچھی طرح واقفیت ہوتی ہے۔  نوجوان دریا میں تیرتے ہیں اور مچھلیاں پکڑتے ہیں،  بڑے بوڑھے چائے خانے پر بیٹھ کر سیاسی موضوعات جیسے پلیس یا تیل کی صنعت کے قومی ہونے کے بارے میںگفتگو کرتے ہیں۔ شہر کا حال یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے آشنا ہے کوئی کسی کے لیے اجنبی نہیں ہے۔

کرایہ داروں کے گھروں میں الگ سے مطبخ اور حمام موجود نہیں ہے۔ لوگ اسی ایک روم میں کھانا پکاتے ہیں، شام میں اسی گھر میں جھاڑو لگاتے ہیں، صفائی کرتے ہیں اور چٹائی بچھا کر اسی پر کھانا کھاتے ہیں۔ رات میں چند لوگ  مچھردانی لگاکر احاطے میں سوجاتے ہیں۔مکان کے قریب قریب بنے ہونے کی وجہ سے ہر آدمی اپنے پڑوسی کے گھر بنی ہوئی غذا کو خوشبو سے ہی پہچان لیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آسانی سے آتے جاتے ہیں۔ ملا احمد جو بچوں کو پڑھاتے ہیں ان کے آنے سے پہلے بہت سے لوگ گھر وں کی صفائی کرتے ہیں۔

اس ناول میں دو قسم کے قہوہ خانے کا ذکر ہے جو ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ ایک امان آقااور مرشد کا قہوہ خانہ جہاں تیل کے کارخانے میں کام کرنے والے مزدور، ڈرائیوراور عام لوگ آتے ہیں۔ دوسرا قہوہ خانہ شکوفہ ہے جہاں تعلیم یافتہ، اساتذہ اور اچھے لوگ جمع ہوتے ہیں۔

اس ناول میں لوگوں کے مختلف پیشوں کا بھی ذکر ملتا ہے جس میں کچھ تو سرکاری ہیںجیسے دندان ساز، سارجنٹ، انسپکٹر، پولیس، وکیل۔ استاد، تیل کارخانے میں کام کرنے والے وغیرہ یہ لوگ عام لوگوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں اور کچھ پرائیوٹ ہیںجیسے، لوہار، قہوہ خانے کا مالک،  باورچی، ڈرائیور، گیرج دلال، حجام، ملااور کمہاروغیرہ۔ یہ سات گھرانے سماج کے پسماندہ خاندان میں شمار ہوتے ہیں۔ کبھی ان میں اختلافات بھی واقع ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں یہاں تک کہ اکثر مواقع پر ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔

اس ناول کا مرکزی کردار خالد نام کا ایک نوجوان ہے جو اپنے والدین اور اپنی بہن کے ساتھ ایک بڑے سے پرانی چہاردیواری میں زندگی بسر کرتا ہے۔ان گھروں میں عام لوگوں کے ساتھ سیاسی اور حکومتی افراد جیسے پولیس افسران اور جاسوس وغیرہ بھی زندگی بسر کرتے ہیں۔خالد پندرہ سال کاایک نوجوان ہے اور بالغ ہونے کے قریب ہے۔ اس کی زندگی بچپن سے فقر و بیکاری میں گزرتی ہے۔ اسی درمیان اس کی آشنائی آمان آقا اور اس کی بیوی بلور خانم سے ہوجاتی ہے اور وہ امان آقا کی قہوہ کی دوکان سے وابستہ ہوجاتا ہے، جہاں وہ سیاسی مسائل اور پٹرولیم کی صنعت سے متعلق ہنگاموں سے آگاہ ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سیاست میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی درمیان اس کی آشنائی سیہ چشم نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس دوران سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں جس کی وجہ سے اسے گرفتار ہونا پڑتا ہے۔قید سے آزادی کے بعدوہ مزید جوش اور سرگرمی کے ساتھ پٹرولیم کی صنعت کو قومی کرنے کی تحریک میں شامل ہوجاتا ہے اور سیاست دانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑتا ہے لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ یہ تحریک ناسمجھی پر مبنی ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے والی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے چونکہ ابھی ہمارے اندر یہ استعداد نہیں ہے کہ تیل نکالنے کے لیے ضروری آلات اور مشین وغیرہ بنا سکیں۔ہمارے پاس انجینئر نہیں ہیں۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ اگر ایک مٹی کی صراحی یا گھڑابناتے ہیں تو اس میں کئی جگہ سے پانی رسنے لگتا ہے۔ چونکہ ہمارا اقتصادی ڈھانچہ تیل کی صنعت پرہی ٹکا ہوا ہے اس لیے اگر اس کو قومی کردیا گیا توہم برباد ہوجائیں گے۔چنانچہ انگریزوں کو باہر نکالنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ انگریزوں کو نکالنے سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہم سے تیل خریدیں ہی نا تو پھر ہم کیا کریں گے وغیرہ۔

داستان ’ہمسایہ ہا‘ایک ایسے شخص کی زبان سے بیان ہوتا ہے جو پندرہ سال کا ایک نوجوان ہے جو ان سات کرایہ پر زندگی بسر کرنے والے خاندان کا ایک فرد ہے۔ ناول کا موضوع سماجی و اقتصادی مشکلات، افسروں اور عہدہ داروں کا سلوک، نوجوانو ں کے اندر پھیلی جنسی بے راہ روی اور نشہ آور اشیا کا عادی ہونا ہے۔

جنوبی ایران میں غیرملکی افراد کی موجودگی اور افسروں کی من مانی نے ماحول اتنا زیادہ خراب کر دیاتھا کہ ہر ایک شخص ایک انجانے خوف میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ بغاوت کے الزام میں سیاسی افراد کے علاوہ عوام بھی جیلوں کی نذر کیے جارہے تھے۔احمد محمود نے بھی قید و بند کی صعوبتیں اوراذیتیں سہیں۔ اسی لیے اس ناول میں ان حالات کی عکاسی اور جلوگری نظر آتی ہے۔ اس ناول میں خالد خود احمد محمود کی ذات ہے جو اپنے حالات خالد کی زبان سے بیان کر رہا ہے۔

اس جنگ میںشامل ناول کے دوسرے کردارجیسے شفق، پندار، ناصرابدی، منوچ سیاہ، قاضی اور رستم آفندی بھی ہیں جو اس جنگ میں متحد ہوکر بہادری سے لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ قیدخانے میں بھوک ہڑتال کر رہے ہیں تا کہ تیل کی صنعت قومی ہوجائے۔

اس کے علاوہ ناول کا پلاٹ، جذباتیت اور کشش سے پر ہے، گرمی کے زمانے میں ان گھروں کے سارے افراد احاطے میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ گرمی کی شدت سے نجات پائیں۔ اس ناول میں خواج توفیق کے افیون کی شدید بو اور پھر ان کی عذر خواہی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح عمو بندر کی فجر کی اذان کی آواز،اور ایک اہم آواز جو اس ناول میں بار بار سنائی دیتی ہے وہ بلور خانم کے چیخ و پکار کی آواز ہے جس سے ناول کا آغاز ہوتاہے۔

گرچہ اس ناول کے اکثر کردار سیاسی ہیں لیکن یہ احمد محمود کاہنر ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے دبے کچلے افراد جیسے عورتیںکہ معاشرے کے ایک اہم فرد ہونے کے باوجود ان کے حالات بد سے بدتر ہیںجو مقام ان کو ملناچاہیے وہ نہیںدیا جارہا ہے۔غربت اور ظلم و ستم کا اثر سب سے زیادہ ان پر ہی پڑتا ہے۔ ان سب مسائل ومشکلات کی بھی اس ناول میں نشان دہی کی ہے۔  یہ ناول ایک سیاسی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ اس میں انیسویں صدی کی تیسری دہائی میںوقوع پذیر ہونے والے سیاسی حادثات اور واقعات کا ذکر بہت ہی تفصیل سے ملتا  ہے۔

اس ناول میں حکومت کے فیصلے اور ان سے پیدا ہونے والے اثرات کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے اس لیے حکومت نے شائع ہونے کی اجازت نہیں دی لہٰذا احمد محمود نے لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے اخبار کا سہارا لیا۔خود احمد محمود کے ناول کا مرکزی کردار’خالد‘ اور اس کے ساتھی ’شفق‘ اور’پندار‘ جو سیاسی مخالفین میں تھے ایک گروہ تشکیل دیتے ہیں اورروزنامہ ’نہج البلاغہ‘ کے ذریعے  لوگوں کی بھلائی و بیداری کا کام انجام دیتے ہیں۔ احمد محمودنے سماج کے اندر موجود خوبیوں اور بدیوں کی نشاندہی کی ہے اور اپنی آپ بیتی کو اس ناول میں سمونے کے کوشش کی ہے۔احمد محمود نے اس ناول میں ایران کے جنوبی خطے کے لوگوں کے خواہ دیہات کے رہنے والے ہوں یا شہرکے سب کے درد و رنج، فقر و تنگی اور مختلف مصائب و پریشانیوں کوبیان کرنے کے ساتھ لوگوں کے اندر پھیلی ہوئی خرافات، غلط اعتقادات، جہالت، بیماری اورلوگوں کی زندگی کے مختلف جہات سے بھی آشنائی بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ صرف خالد کی زندگی کی داستان نہیں ہے بلکہ اس دور کے لوگوں کی ایک حقیقی تصویر ہے۔ احمد محمود ایک بڑے رائٹر ہیں کئی سارے ناول لکھے ہیں لیکن ان کو شہرت اسی ناول کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ ناول ہمسایہ ہا ایرانی داستانوں کی فہرست میں ایک بے بہا کارنامہ شمار ہوتا ہے۔

منابع:

.1        دستغیب، عبدالعلی، نقد آثار احمد محمود، چاپ اول، تہران: معین، 1999 ش.

.2         محمود، احمد، ہمسایہ ہا

.3         ترکمانی وجیہہ وکبیری پوران، بررسی شخصیت زنان در 5 رمان احمد محمود، بہارستان سخن،  2011

.4         اسحاقیان، جواد، داستان شناخت ایران نقد و بررسی آثار احمد محمود،، تہران2012

.5         زینالی، پروین، رئالیسم سوسیالیستی در دو رمان ہمسایہ ہا و داستان یک شہر، احمد محمود، فصلنامہ علمی پژوہشی

             زبان و ادب فارسی2017

.6         جلالی، فیروز نوری، باران بر زمین سوختہ، نقد رمانہای احمد محمود،چاپ اول، تہران2007


Nigar

Turkaman Gate

New Delhi - 110006

Mob.: 9999875687

Email.: Nigar.du@yahoo.com

 

  


 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دکنی ہندو اور اردو، ماخذ: دکنی ہندو اور اردو، مصنف: نصیرالدین ہاشمی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اب ہم ایسے دور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جبکہ سرکار آصفیہ کی سرکاری زبان فارسی سے اردو ہوگئی تھی، اردو کے رسالے اور ا...