27/10/22

اردو تبصروں کا ابتدائی دور: راہین شمع


تبصرہ عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ’بصر‘سے مشتق ہے جس کے معنی بینائی یا آنکھ کے ہوتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ذکاء اللہ نے ریویو کے لیے تبصرہ کی اصطلاح وضع کی۔اصطلاح میں تبصرہ کے معنی کسی بھی فن، یا تصنیف، تخلیق کا جائزہ لینا، اس کے حسن و قبح کو واضح کرنا اور ساتھ ہی فن پارے کا معیار متعین کرنا وغیرہ۔

انگریزوں کی آمد سے قبل اردو ادب میں افسانوی نوعیت کا ادب موجود تھا۔ داستان بھی نثر اور نظم کے پیرائے میں بیان کی جاتی تھی۔ ان کے آنے سے افسانوی ادب میں وسعت پیدا ہوئی۔ اس طرح انگریزوں کی آمد سے داستان سرائی کے تراجم کے ساتھ ساتھ ناول، ناولٹ، افسانہ، افسانچہ، انشائیہ وغیرہ کی اردو ادب میں ابتدا ہوئی۔ انگریزوں کی ہندوستان پر حکومت قائم ہوجانے سے ہندوستان کی ادبی دنیا میں جس وجہ سے انقلاب آیا وہ ہے پرنٹنگ پریس کا آغاز۔ پرنٹنگ پریس کی وجہ سے جہاں ترسیل وابلاغ وغیرہ اور کتب و رسائل کی اشاعت میں تیزی آئی۔ اس طرح ہندوستان میں صحافتی ادب کی شروعات ہوئی۔ اسی کے زیر اثر غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف نے اردومیں جنم لیا۔

انگریزوں کے ہی دور حکومت میں مخصوص طبقے کے لیے کی گئی جد وجہد نے ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی تھی جس کو سرسید تحریک یا علی گڑھ تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ واحد ایسی تحریک ہے جس کے اثر سے غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف اور موضوعات میں تنوع پیدا ہوا۔ سرسید احمد خاں اور ان کے رفقا نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے غیر افسانوی ادب کی دیگر اصناف کا سہارا لیا۔ اس تحریک سے جن اصناف کو عروج حاصل ہوا ان میں اداریہ نگاری، مضمون نگاری، انشائیہ نگاری، سوانح نگاری، تنقید نگاری اور تبصرہ نگاری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

سرسید احمد خاں اور ا ن کے رفقا نے انگریزی طرز پر اردو میں شائع شدہ کتب و رسائل پر ریویو لکھے۔جن کا مقصد اردو میں بھی وہی رہا جو انگریزی میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی نئی کتب و رسائل کی اشاعت سے عوام کو باخبر کرنا۔ اس سے قبل اردو میں نئی کتابوں پر جو تحریریں لکھی جاتی تھیں وہ پیش لفظ، مقدمات، دیباچے  اور تقریظیں وغیرہ۔ جو کتاب کے ساتھ ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ علی گڑھ تحریک کے علمبرداروں نے جہاں مختلف موضوعات کی کتب و رسائل پر تبصرے لکھے وہیں انھوں نے ریویو نویسی کے اصول وضوابط پر بھی سب سے پہلے گفتگو کی۔ ان میں سب سے پہلا نام علی گڑھ تحریک کے روح رواں سرسید احمد خاں کا ہے۔ جنھوں نے انگریزی ریویو نگاری کے اثر سے اردو میں تبصرے لکھے اور تبصرہ کے اہم اصول و ضوابط کی بھی نشاندہی کی۔ سرسید احمد خاںکتاب’نجم الامثال‘ پر تبصرہ میں تبصرہ کے اہم شرائط کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ اگر ہم ان تمام باتوں کو راستی کے ساتھ بیان نہ کریں جو اس کتاب میں ہیں تو ہم صرف ایک مداح ہوںگے اوراس کے حسن و قبح کی نظر کرنے والے نہ ہوں گے۔ اس لیے ہم اس بات کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکتے۔‘‘

(مقالات سرسید،( جلد ہفتم) مرتبہ، شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب، نرسنگھ داس گارڈن، کلب روڈ، لاہور،اشاعت 1962، ص(293)

سر سید احمد خاں کی تحریر سے تبصرہ نگاری کے اہم نکات کی وضاحت ہوتی ہے مثلاً

تبصرہ نگار کتاب کی اصل حقیقت کو بیان کرے۔ تبصرہ نگار فن پارے کی حقیقت کو واضح نہیں کرے گا تو وہ صرف قصیدہ خواں ہوگا، تبصرہ نگار فن پارے کے حسن و قبح دونوں پر نظر رکھے۔

انگریزی میں جس طرح تبصرہ کو ’بک ریویو‘ کہا جاتا ہے۔ سرسید کے عہد میں بھی’ بک ریویو‘ کو کتاب پر ریویو کہاجاتا تھا۔ ترجمہ صرف بک کا کیا گیا مگر ریویو کے لیے انگریزی کی اصطلاح ہی استعمال کی جاتی رہی۔ سرسید کے رفیقوں میں مولوی ذکاء اللہ نے بھی سرسید کی ہی طرح ریویو کے ترجمہ کی وضاحت ’ مدو جزر اسلام‘ پر تبصرہ میں کی ہے۔ ذکاء اللہ لکھتے ہیں:

’’ ریویو ایک انگریزی لفظ ہے۔جس کے اصل معنی نظر ثانی کرنے کے ہیں۔ مگر اصطلاحی معنی اس کے یہی ہیں کہ کتابوں کی عیب و صواب بینی۔ اب ایک عربی لفظ تبصرہ ہے۔جس کے معنی دکھا دینے کے ہیں۔ جیسے ریویو کے اصل معنی کی مناسبت سے عیب و صواب بینی کے انگریزی میں ہوگئے۔ اس طرح تبصرہ کے معنی عیب و صواب دکھادینے کے ہماری زبان میں ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ کوئی اس کو استعمال کرے۔ ‘‘

تبصرہ یعنی ریویو، مسدس مدو جزراسلام، مشمولہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، ماہ شوال 1310ھ،مطابق: 1879-80، ص168:(

سرسید احمد خاں نے تبصرہ کی جن شرائط کو ضروری قرار دیا ہے، مولوی ذکاء اللہ نے بھی انھیں شرائط کو معنی میں ڈھالا ہے۔

 سرسید کے ساتھیوں میں تبصرہ نگاری کے فن پر مہدی افادی نے بھی گفتگو کی ہے۔ ’ تمدن عرب پر ایک کھلی چٹھی ‘ کے نام سے مہدی افادی کا تحریر کردہ مضمون (اس کو تبصرہ ہی کہنا چاہیے) جو کہ 1899میں رسالہ ریاض الاخبار میں شائع ہوا تھا۔ اس میں مہدی افادی لکھتے ہیں

’’ میں(تمدن عرب) کو پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے خیال میں تاریخی فلسفہ کا بہترین نمونہ ہے اور میں اپنی اس رائے میں غالباً منفرد نہیں ہوں کہ ترجمہ کے لحاظ سے لائق سے لائق شخص کا انتہائی تخیل جو کچھ ہو سکتا ہے، کتاب اس کی پوری تصویر مرئی ہے۔ افسوس ہے کہ میں اپنی مصروفیت سے اس قدر وقت نہیں پاتا کہ اپنے دعویٰ کی دلیل میں اقتباسات کو پیش کر سکوں، یہ فرض ریویو نگار کا ہے‘‘

(افادات مہدی: مرتبہ مہدی بیگم، مطبوعہ: معارف پریس، اعظم گڑھ، اشاعت1939، طبع سوم، ص11(

اس کے علاوہ مہدی افادی نے’علامہ شبلی کا ماہوار علمی رسالہ‘ کے عنوان سے تبصرہ لکھا جو 1906میں رسالہ البشیر میں شائع ہوا۔ ریویو کے متعلق مہدی افادی لکھتے ہیں:

’’ فاضل ایڈیٹر پرکچھ ریویو کرنا منظور ہے، مگر یہ اس قدر مشکل کام ہے کہ سمجھ میں نہیں آیا کہاں سے شروع کروں۔ اردو لٹریچر کے پیدا کرنے والے تھوڑے ہیں، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو آج کل کے وسیع معیار قابلیت کے لحاظ سے اہل قلم کی صف اول میں شامل ہونے کے لائق ہوں۔ سرسید سے قطع نظر کرنے کے بعد جن کو باالاستحقاق اولیت کا فخر حاصل ہے، میرا خیال ہے، شبلی بلحاظ فن صرف ہندوستان نہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا میں کسی سے دوسرے درجہ پر نہیں ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 74(

مہدی افادی نے ’ شعر العجم پر ایک فلسفیانہ نظر‘ پر تبصرہ کیا جو رسالہ’مشرق‘1910میں شائع ہوا۔ جس میں مہدی افادی نے ریویو نگاری کے ایک اہم نکتے پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ شعر العجم‘ کے جزئی عیوب بھی ریویو نگار کے خیال میں اتنے ہیں کہ اگر وہ ابھار کر دکھادیے جائیں تو ایک دوسری کتاب تیار ہو سکتی ہے۔‘‘(ایضاً، ص166(

مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میںریو یو کے فرائض کی نشاندہی ہوتی ہے۔ تبصرہ نگار فن پارے کے متعلق جو دعویٰ کرے اس کی دلیل دے اور اس دلیل کے لیے اقتباسات کتاب سے نقل کیے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ تبصرے کا مختصر ہونا شرط ہے۔ اس لیے اقتباسات یا زیادہ اقتباسات نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ہاںاگر اقتباس نقل کرنا ضروری ہے تو اس اصول کی پیروی کرنا بھی یقینی ہے اور یہ ممکن اس وقت ہوسکتا ہے جب اخبارات میں ریویو کے لیے صفحے کی تعداد مختص نہ ہو یا اختصار کی پابندی نہ ہو۔ ادارے کا مقصد تبصرہ کے نام پر اشتہار نہ ہو۔ لیکن یہ بات ایسی بھی نہیں کہ تبصرہ نگاری کے اصول سے خارج کردینا چاہیے۔ طویل تبصروں میں اس کی خوب گنجائش ہوتی ہے۔ جبکہ اشتہاری یا کیٹلاگ میں دلیل کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔

تبصرہ بہت مشکل کام ہے۔ اگر مصنف سے دوستی ہے تو وہ اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہم ساتھیوںکی خوبیوں اور خامیوں دونوں سے واقف ہوتے ہیں لیکن جب بیان کا تذکرہ آتا ہے تو ہم صرف خوبیاں ہی گنواتے ہیں۔ خامیوں کو جانتے بوجھتے بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔ یا پھر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ  اپنوں کے ساتھ ہمدردی اور جانب داری کے جذبے سے ہٹ کر رائے دینا ہمارے لیے نہایت گراں بار ہوتا ہے۔

1980کے آس پاس مہدی افادی نے علامہ شبلی نعمانی کو خط لکھا جس میں ریویو کے تعلق سے بات کی تھی۔ مہدی افادی نے 1890کے دوران جو خط علامہ شبلی نعمانی کو لکھے تھے ان تک میری رسائی نہیں ہوپائی ہے۔ مگر مہدی افادی کے خط کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی کا لکھا گیا خط ملا۔ جو 8مئی 1890کو لکھاگیاتھا۔ مہدی حسن کے نام علامہ شبلی نعمانی کا خط دیکھیے

’’ ریویو کا جو تذکرہ آپ کے خط میں ہے وہ شاید مناسب نہ تھا، گو آپ کا منشا نہ ہو لیکن اس سے متبادر ہوتا ہے کہ ریویو گویا کتاب کا ایک قسم کا معاوضہ ہے، حالانکہ مصنف کی بڑی پست فطرتی ہے کہ وہ لوگوں سے ریویو لکھانے کا شائق ہو، اگر کوئی شخص کسی معقول کتاب پر ریویو لکھنے کی قابلیت رکھتا ہے تو ہر حالت میں اس کو لکھا چاہیے، لیکن ریویو کوئی آسان چیز نہیں ہے، ہمارے ریویو نگاروں کے لیے یہی بہت ہے کہ ان کی یہ قابلیت تسلیم کی جائے، نہ کہ اس سے کسی مصنف پر احسان رکھا جائے، ملک میں شاید ایسے مضمون نگاردو تین سے زیادہ نہیں ہیں، جن کے ریویو سے کسی مصنف کو خوشی ہوسکے، خدا کرے آپ کا محمڈن کلب کامیاب ہو اور بے ہودہ قسم کی کتابیں (ناول وغیرہ) اس کی الماریوں کی آغوش میں نظر نہ آئیں۔

والسلام            

شبلی از علی گڑھ، 8؍مئی1890ء‘‘

)مکاتیب شبلی( جلد دوم) مولانا سید سلیمان ندوی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی،پوسٹ بوکس نمبر19،اعظم گڑھ(ہند)27001 ایڈیشن 2012، ص 167-68)

شبلی نعمانی کی اس تحریر میں تبصرہ نگاری کے اصول وضوابط کے اہم نکات ہیں :

ریویو  در اصل کتاب کا معاوضہ ہوتا ہے،ریو یولکھنا قابل لوگوں کا کام ہے یعنی تبصرہ نگار کو موضوع پر مکمل دسترس ہوتبھی وہ تبصرہ لکھنے کا اہل ہوگا۔مصنف اگر اپنے کسی دوست و احباب سے تبصرہ لکھوائے تو یہ اس کی پست فطرت کی علامت ہے۔

سرسید احمد خاں کے رفیقوں میں تبصرہ نگاری کے فن پر بحث الطاف حسین حالی نے بھی کی۔اپنے معاصرین میں تبصرہ نگاری کے فن پر سب سے طویل تحریر( اقتباس کی صورت میں) انھیں کی ہے۔ الطاف حسین حالی نے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب’سیرت النعمان‘  پر تبصرہ لکھا۔ یہ ریویو 1892کے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوا۔ سرسید احمد خاں کی طرح الطاف حسین حالی نے بھی تبصرہ میں تصنیف پر رائے دیتے ہوئے ہی ریویو نویسی کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے۔ حالی لکھتے ہیں:

’’اگرچہ اس کتاب پر ریویو لکھنا ایک محدث، فقیہ، مورخ اور ممارس فن رجال کا کام ہے اور میںان چاروں صفتوں سے مبرا ہوں، لیکن ممکن ہے کہ مثلاً ایک شخص جو ریل کی حقیقت سے واقف نہ ہو، مگر اس میں بیٹھ کر سفر کرچکا ہو، وہ لوگوں کے سامنے جو اب تک ریل میں سوار نہیں ہوئے محض آسائش یا تکلیف کی کیفیت جو اس ریل کے سفر میں گزری ہو بیان کرے۔ ریویو لکھنے میں بشرطیکہ وہ دیانت اور سچائی سے لکھا جائے، اکثر اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ کتاب کا وہ حصہ جو ریویو نگار کی رائے کے موافق ہوتا ہے، اس کی داد دی جاتی ہے اور جس قدر اس کی رائے کے خلاف ہوتا ہے وہ مصنف کی لغزش یا خطا پر محمول کیا جاتا ہے۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ مثلاً جو کتاب تسنن یا تشیع یا تقلید یا عدم تقلید کی تائید میں لکھی جائے، اس پر مخالف مذہب کا آدمی کبھی عمدہ ریمارک نہ کرسکے۔ جو مضمون ایک اسکول کے فلسفے پر لکھا جائے ہر گز دوسرے اسکول کا پیرو اس کی داد نہ دے سکے۔ میرے نزدیک ریویو نگاری کا منصب صرف اس بات کا دیکھنا ہے کہ مصنف نے وہ فرائض جس کو زمانہ کا مذاق ہر نئی تصنیف میں اس طرح ڈھونڈتا ہے جس طرح پیاسا پانی کو، کس حد اور کس درجہ تک ادا کیے ہیں پس جب ہم کسی کتاب پر ریویو لکھ رہے ہیں ہم کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ مصنف کی رائے جزئیات مسائل میں فی نفسہ کیسی ہے، کیونکہ اس کا فیصلہ کرنا پبلک کا کام ہے نہ ریویو لکھنے والے کا۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کتاب کا عنوان بیان کیا ہے، ترتیب کیسی ہے؟ طریق استدلال مذاق وقت کے موافق ہے یا نہیں؟ اور کتاب کی غایت جو مقتضائے وقت کے موافق ہونی چاہیے یا جو مصنف نے اپنے ذہن میں ملحوظ رکھی ہے وہ اس سے حاصل ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ میں اس ریویو میں صرف انھیں باتوں سے بحث کروں گا اور ہر گز ریویو نگاری کی حد سے متجاوز نہ ہوں گا۔ ‘‘

)کلیات نثر حالی،( جلد دوم) مرتبہشیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب، نرسنگھ داس گارڈن،کلب روڈ، لاہور، نومبر 1968، ص211-12(

حالی کے پیش نظر ریویو کا طریقہ کچھ اس طرح ہونا چاہیے :

مبصر کو فن پارے کے مختلف اجزا پر روشنی ڈالنی ضروری ہے۔(1) عنوان بیان، (2) تصنیف کی ترتیب (3)  طریق استدلال (4)  تصنیف کی غرض و غایت، مبصر کو غیر جانبداری سے فن پارے پر رائے دینی چاہیے،مبصر کو دیانت دار اور سچائی کا پیرو کار ہونا چاہیے۔تبصرہ نگار کو مصنف کے نقطہ نظر یا اس کی رائے پر زور نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ کام قارئین کا ہے نہ تبصرہ نگار کا،تبصرہ نگار کومحدث، فقیہ، مؤرخ اور ممارس فن رجال ہونا چاہیے۔ یعنی مختلف علوم پر اس کو عبور ہونا چاہیے۔

سرسید تحریک کے بعد اگر کسی نے اردومیں تبصرہ نگاری کے فن پر بحث کی ہے تو وہ ہیں ابو الکلام آزاد۔ انھوں نے سنہ 1903میں کلکتہ سے ماہوار رسالہ’ لسان الصدق‘ جاری کیا۔ جس میں انھوں نے اس رسالے کے مقاصد سے عوام کو باخبر کیا۔اس رسالہ کے سرورق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابو الکلام آزاد نے ’’لسان الصدق‘‘ میں عام علمی، اخلاقی، تاریخی، سائنٹفک مضامین شائع کرنے کے علاوہ اس رسالے میں چار اہم مقاصد کو بیان کیا ہے جن کے تحت رسالے میں تحریریں شائع ہوں گی۔ ان چاروں مقاصد میں سے تیسرا مقصد جس کو ’تنقید‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد تھا کہ اس رسالے میں ملک کی معروف کتابوں اور اخباروں پر ریویو شائع ہوں گے۔ ’لسان الصدق‘ کا پہلا شمارہ نومبر 1903کو جاری ہوا۔ اس شمارے میں ابو الکلام آزادنے ’لسان الصدق ‘ کے مقاصد کی تفصیل پیش کی ہے۔ اس میں ’تنقید‘ کے عنوان سے تصانیف پر منصفانہ ریویو کرنے پر زور دیا گیا۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

’’تیسرا مقصد

تنقید انگریزی میں کسی کتاب پر’ریویو‘ کرنا یہ مفہوم رکھتا ہے، کہ اس کتاب کے حسن و قبح پر بحث کی جائے، اور ریویو نویس اپنی رائے ظاہر کردے، لیکن اردو میں ہمیشہ ریویو کا ترجمہ ’تقریظ‘ کیا گیا ہے، جس سے ریویو کا اصلی مفہوم ہی مفقود ہوگیا، اس لیے تقریظ تو عام طور پر کسی کتاب کے مدح و تحسین کرنے کا مفہوم رکھتی ہے، بر خلاف ریویو کے کہ اس کا مفہوم صرف اس کے حسن پر بحث کرنی نہیں ہے بلکہ اس کے قبح پر بھی نکتہ چینی کرنی ہے۔ اکثر کتابوں کے آخر میں بعض ہم عصر افاضل کی تقریظیں نظر آتی ہیں جنھیں مدح و تحسین سے دو تین صفحہ کالے کرنے سوا کرٹسزم کے اصول سے ذرا بھی کام نہیں لیا جاتا۔ تقریظ کا صرف مدح و تحسین کا مفہوم رکھنا یہاں تک مسلم ہوگیا ہے کہ اگر کسی تقریظ میں کتاب پر کوئی ذرا سا اعتراض کیا ہو یا کتاب کی کسی قدر خرابی ظاہر کی ہو تو وہ تقریظ کے دائرے سے باہر سمجھ کر اس قابل نہیں سمجھی جاتی، کہ کتاب کے ساتھ شائع کی جائے۔

سرسید احمد خاں مرحوم نے جب اپنے ابتدائی زمانے میں آئین اکبری کی تصحیح کی۔ اور اسے طبع کیا، تو مرزا اسد اللہ خاں غالب مرحوم سے تقریظ کی فرمائش کی۔ مرزا صاحب یورپ کے جدیدآئین کے دلدادہ تھے اور آئین اکبری کو ایک فضول کتاب سمجھتے تھے۔ انھوں نے سرسید کی خاطر تقریظ تو نظم میں لکھ دی لیکن اظہار رائے سے نہ بچ سکے۔ تقریظ کا پہلا شعر یہ ہے          ؎

مژدہ یاران را کہ این دیرین کتاب

یافت از اقبال سید فتح باب

اس کے بعد انھوں نے انگریزوں کے آئین اور ایجادات کی تعریف کی ہے۔ اور اس کتاب کی تصحیح میں سرسید نے جو عرق ریزی کی تھی اسے شاعرانہ پہلو سے فضول بتایا ہے اور چند شعر سرسید کی مدح میں لکھ کر تقریظ ختم کردی ہے۔

سرسید نے جب تقریظ دیکھی، تو بہت ناراض ہوئے اور کتاب کے ساتھ شائع نہیں کی۔ اس ناراضی کا اصل سبب یہ تھا کہ سرسید ریویو کے اصلی مفہوم کے عادی نہ تھے، تقریظ میں صرف مدح و تحسین کا ہونا ان کے ذہن نشین تھا۔

ریویو‘ کا اصلی ترجمہ ہماری زبان میں تنقید سے بہتر نہیں ہوسکتا اور ممالک اسلامیہ میں ریویو کی جگہ یہی لفظ مستعمل ہے۔ ہندوستان کے عام اخبارات میں آج کل جس طریقے سے کتابوں پر بالعموم ریویو کیاجاتا ہے اسے ریویو کی جگہ تقریظ کہنا چاہیے۔ نہ کتاب کی پوری کیفیت ظاہر کی جاتی ہے، اور نہ اس کے حسن و قبح پر بحث ہوتی ہے صرف مصنف اور جائے طبع اور قیمت کی اطلاع دے دینی ریویو نویسی کا فرض سمجھا گیا ہے۔ ایسے ریویو سے علاوہ اس کے کہ ریویونویسی کا اہم فرض نہیں پورا کیا جاتا۔ سب سے بڑی یہ خرابی پیدا ہوتی ہے کہ کتاب کے نقائص نہ پبلک پر ظاہر ہوتے ہیں، اور نہ مصنف پر، رفتہ رفتہ مصنفین بھی تقریظ کے عادی ہوجاتے ہیں، اور پھر وہ کسی قسم کے اعتراض سننے کی قابلیت نہیں رکھتے۔

لسان الصدق‘ کا فرض ہوگا کہ وہ ہر کتاب پر اپنی سچی رائے ظاہر کرے، اور جس طرح کتاب کا روشن پہلو پبلک کے سامنے کردے، اسی طرح اس کے تاریک پہلو کو بھی پیش کردے۔ وہ اس کی بالکل پرواہ نہیں کرے گا، کہ اس کا مصنف کون ہے؟ اور کس پایہ کا ہے؟ وہ تصنیف گو کیسے ہی با اقتدار اور مشہور شخص کی کیوں نہ ہو، یہ اس کی سچی خرابیاں ظاہر کردے گا، کیونکہ یہ لسان الصدق ہے، اور سچائی اس کا دستور العمل ہے۔ ‘‘

)لسان الصدق، کلکتہ، نومبر 1903 تا مئی 1905(عکسی اشاعت) ایڈیٹر مولانا ابو الکلام آزاد، ناشر، مولانا آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی، پاکستان، اشاعت 1996، ص27)

ماہوار ’ لسان الصدق ‘ کا سلسلہ جاری تھا۔ مگر آزاد کا اس رسالے میں ’ریویو‘ کا جو مقصد تھا وہ اس سے مکمل طور پر ابھر کر نہیں آرہا تھا۔ آزاد اس سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کے لیے ’لسان الصدق‘ میں ریویو کے لیے مخصوص صفحات ناکافی تھے اسی لیے انھوں نے کلکتہ سے ’ریویو‘ کے عنوان سے ایک ماہنامہ نکالنے کا عزم کیا۔ ’ لسان الصدق‘ کے جلد نمبر 3، شمارہ نمبر2-1اپریل اور مئی 1905کے شمارے میں پورے ایک صفحے پر رسالہ ’ ریویو‘ کا اشتہار چھپا۔ جس میں انھوں نے ’ریویو‘ کے نصب العین اور مقاصد اجرا کی صراحت کی اور 20جون 1905میں رسالے کو نکالنے سے عوام کو باخبر کیا۔ مگر یہ رسالہ کبھی جاری نہ ہوسکا۔ لسان الصدق میں شائع اشتہار کی شکل دیکھیے:

’’ اردو میں اپنی ڈھنگ کا پہلا رسالہ

ریویو

جس کا مقصد صرف ریویو ہے

یورپ کی زبانوں میں متعدد رسالے ایسے شائع ہوتے ہیں، جن کا مقصد صرف ’ریویو‘ ہوتا ہے، وہ ملک کی قابل قدر تصنیفات پر مفصل تنقید کرتے ہیں۔ مصنّفین کو ضروری معلومات سے مدد پہنچاتے ہیں، دوسرے ملکوں سے علمی تعلقات پیدا کرکے علم دوست جماعت کے لیے وہ اسباب مہیا کرتے ہیں، جن سے وہ اپنی علمی ضرورتیں آسانی سے پوری کرسکیں۔ افسوس ہے کہ اردو میں ا س وقت تک کوئی رسالہ اس مقصد سے شائع نہیں ہوا،اور یہ اہم کام لٹریری رسالوں کا ضمیمہ بن کر ناقابل اور غیر موزوں حالت میں خراب ہوتا رہا۔ آج لسان الصدق اس کمی کے پورا کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ 20جون 1905 سے ایک ماہوار رسالہ بالفعل (14) صفحوں کی ضخامت پر بطور ضمیمہ لسان الصدق شائع ہونا شروع ہوگا، جس کا نام اور نام کے ساتھ صرف مقصد ریویو ہے۔

مقاصدـ(1)  ہندوستان میں جس قدر کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں ان پر مفصل ریویو کرنا، اور کوشش کرنا کہ اس کتاب کی مفصل کیفیت، مصنف کی عمدہ تصویر شائع کی جائے۔

(2)  ممالک اسلامیہ میں عربی کی جو قابل قدر کتابیں شائع ہوتی ہیں ان پر مفصل ریویو کرنا، اور خریداروں کی فرمائش پر اصلی قیمت پر کتاب منگوادینا، اور کوشش کرنی کہ جن اردو عربی کتابوں پر ریویو کیا جاتا ہے اس کے متعدد نسخے دفتر میں موجود ہوں۔

(3) ہندوستان میں اس وقت تک کوئی، ایسی ایجنسی نہیں ہے جہاں قلیل منفعت پر مصر، شام، قسطنطنیہ کی نادر الوجود کتابین شائقین کو دستیاب ہوجائیں اگر ایک دو دوکانیں ہیں بھی تو وہاں زیادہ تر قدیم مذاق کی تصنیفات اور دینیات کی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں اس لیے ریویو کے متعلق ایک ایجنسی قائم کی گئی ہے، جہاں تمام جدید کتابیں اور علوم و فنون جدید کے تراجم تقریباً اصلی قیمت پر شائقین کو مل سکتے ہیں۔

(4)  دائرۃ المعارف جیسی قیمتی کتابیں منگوا کر اس ایجنسی کے ذریعے ماہوار قسط کے آسان طریقے پر فروخت ہوں گی۔

نوٹ قیمت سالانہ مع محصول 3عہ، مگر خریداران لسان الصدق کے لیے صرف 12، درخواستیں دفتر لسان الصدق کے پتے پر کی جائیں۔

(لسان الصدق، کلکتہ، نومبر 1903 تا مئی 1905( عکسی اشاعت) ایڈیٹر مولانا ابو الکلام آزاد، ناشر، مولانا آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی، پاکستان، اشاعت 1996، ص338)

ابو الکلام آزاد کا یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ مگر انھوں نے جب جولائی1912میںرسالہ الہلال جاری کیا۔ اس رسالے کونکالنے کی ابتدا ہی سے ان کا خیا ل یہ تھا کہ ’مطبوعات جدیدہ‘ یا انتقادیات کاایک مستقل عنوان الہلال میں شامل کرنا چاہیے۔ کیونکہ مولانا آزاد چاہتے تھے کہ لسان الصدق کی طرح الہلال کے قارئین کو بھی نئی کتابوں اور جریدوں سے روشناس کرایا جائے۔ اور اگر ہوسکے تو ان پر جامع مگر مختصر ریویو شائع کیا جائے۔

 جنوری یا فروری 1905میں دیا شنکر نسیم کی مثنوی ’گلزار نسیم‘ کا نیا ایڈیشن شائع ہوا جس کو چکبست نے مرتب کیا اور اس دیباچے پر تحریر کیا۔ اس کتاب پر عبد الحلیم شرر نے رسالہ ’ دلگداز‘ شمارہ30جلد 9مارچ اور اپریل 1905 میں ’ گلزار نسیم پر ریویو‘ کے عنوان سے تبصرہ لکھا۔ یہ تبصرہ قسط وار شائع ہوا کیونکہ اس نے مباحثے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اس تبصرے کی پہلی قسط میں عبد الحلیم شرر تبصرہ پر گفتگو کرتے ہیں

’’ افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے دوسرے رخ یعنی مثنوی گلزار نسیم کے عیوب کی طرف مسٹر چکبست نے بالکل چشم پوشی کی ہے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ اس ایڈیشن مین گلزار نسیم پر ایک منصفانہ ( ریویو) کیا جاتا اس لیے کہ جس قدر یہ مثنوی ایک عمدہ(ریویو) کی محتاج تھی اردو کی اور کوئی نظم نہیں۔ مگر افسوس کہ ( ریویو) نویسی میں ہمارے یہاں یاتو مروت و دوستی کے جذبات ظاہر کیے جاتے ہیں یا بغض و عناد کے۔ اور اگر معاصرین سے واسطہ نہ ہو تو ہمارے ریو یونگار قوم پرستی کرتے ہیں اور اپنی قوم و گروہ میں ہیرو پیدا کرنے کی ایسی ہوس ہوتی ہے کہ انصاف کو بالکل ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اس مرض سے انگلستان کے ریویو نگار بھی پاک نہیں ہیں۔ مگرزمانے کی مساعدت سے مغرب والے اپنی اس ہوس میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ہم اپنی وقعت اور کم کردیتے ہیں۔ وجہ یہ کہ وہاں ایک ہی قوم ہے اور سب کے جذبات یکساں ہیں بخلاف اس کے یہاں باہمی اختلاف ہے لہٰذا ایک گروہ کسی شخص کو زبردست ہیرو بنا کے بڑھاتا ہے تو دوسرا گروہ اس کے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسی سبب سے ہم کو ریویو لکھنے میں جس قدر اعتدال اور منصف مزاجی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اہل یورپ کو نہیں۔‘‘

مباحثہ گلزار نسیم، یعنی چکسبت و شرر، مؤلف خلاصۃ الحکما میرزا محمد شفیع شیرازی ثم الکھنوی، باہتمام پنڈٹ منوہر لال بھاگوبی۔ اے سپرنٹنڈنٹ مطبع منشی نول کشورلکھنؤ میں طبع ہوا، اشاعت اول1913، ص 57-58) 

عبد الحلیم شرر کے نزدیک تبصرہ کے اصول ہیں، ریویو میں فن پارے کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں سے بھی چشم پوشی نہیں ہونی چاہیے،تبصرہ نگار کو حسن و قبح میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔،تبصرہ مروت و دوستی کے جذبات سے عاری ہونا چاہیے ساتھ ہی بغض و عناد سے بھی پاک ہونے کی ضرورت ہے۔

آل احمد سرور نے اردو تنقید کے مسائل کو خوب بیان کیا ہے۔ انھیں تنقیدی تحریروں میں تبصرے کے تعلق سے چند سطور ہی سامنے آتی ہیں۔

وہ اپنے تنقیدی مضمون تنقید کے مسائل میں تحریر کرتے ہیں:

’’ گذشتہ تیس سال میں علمی و ادبی ذوق کے متعین کرنے میں رسالوں کا رول نہایت شاندار رہااور تنقید و تحقیق اور تبصرہ تینوں میدانوں میں ان رسالوں نے ایک قابل قدر کام کیا ہے۔ رسالہ ’اردو اور نگار‘ کی خدمات کو اس سلسلے میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان رسالوں کے ذریعے سے اول تو سیکڑوں گمنام اور غیر معروف شاعروں اور ادیبوں کا تعارف ہوا اور ان کے کلام کے نمونے سامنے آئے ہیں۔ دوسرے جانے پہچانے شعرا کی بہت سی تصانیف جو ابھی تک پردہ خفا میںتھی منظر عام پر آئی ہیں۔ تیسرے ان میں ہر قسم کے تنقیدی مضامین نکلے ہیں جن میں سے بعض نے نہایت قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ ان میں سے کئی رسالوں کے گرد اہل قلم کا ایک حلقہ ہے جس میں جانب داری اور وکالت اور ایک دوسرے کی پیٹھ کھجانے کا بھی مظاہرہ ہے۔ مگر ان کے ذریعے سے نظریاتی اور عملی دونوں قسم کی تنقیدیں بہرحال سامنے آتی ہیں مگر سنجیدہ رسالوں کا بھی ایک خاصا سیلاب ہے لیکن انھوں نے بجائے ذوق سلیم کی اشاعت کے سستی مقبولیت پائی اور سہل الحصول شہرت عطا کی ہے اور اس طرح ذوق کو بلند کرنے کے بجائے اسے پست کیا ہے۔ چونکہ رسالے نکالنے کی سہولتیں پہلے سے زیادہ ہیں اور پڑھنے والوں کا حلقہ بھی بہر حال سست رفتاری سے سہی مگر بڑھ تو رہا ہے اس لیے ان میں تنقید سے تحسین یا تنقیص پر اور تبصرے سے زیادہ مدح یا قدح پر توجہ ہے۔

اس زمانے میں تبصرہ نگاری کے فن پر خاصی ترقی ہوئی ہے۔ رسالہ اردو اور اردو ادب کے تبصرے عام طور پر تبصرے ہیں۔ ان میں صرف چند نام نہیں گنائے جاتے۔  پاکستان میں سویرا، نیا دور، صحیفہ اور فنون نے تبصرہ نگاری کا اچھا معیار قائم کیا ہے۔ نیا دور بنگلور، اور سوغات بنگلور نے بھی اس سلسلے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہنری جیمس تو در اصل تبصرے کو تنقید کہنے کوہی تیار نہیں ہے اور اس کا یہ خیال سالوں کے بیشتر تبصروں اور کتابوں کے بیشتر مقدموں کے متعلق صحیح ہے۔ کیوکہ ان میں ادب سے زیادہ اشتہاریت اور معیار سے زیادہ مدح سرائی ہوتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ان تبصروں نے ادب کے معیاروں کو بھی متاثر کیا ہے کیونکہ ہر چنگاری کو شعلہ اور ہرذرے کو آفتاب سمجھنے کی وبا خاصی عام ہوگئی ہے۔ تبصرہ نہ تو وہ کھونٹی ہے جس پر تبصرہ نگار اپنے خیالات کا لبادا لٹکاتا ہے، نہ یہ محض خوبیوں یا خامیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اس میں کس نے کہا، کیا کہااور کیسے کہا، تینوں پہلوؤں کی طرف توجہ ضروری ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اردو میں ابھی تک کوئی رسالہ ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ کی طرح صرف اچھے تبصرے پیش کرنے کے لیے نہیں نکل سکا۔ مگر اس معاملے میں تو غالباً ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں یہی رنگ ہے۔

تنقید اور تبصرے کا گہرا تعلق پڑھنے والوں کے ذوق سے ہے۔ اور اس سلسلے میں کچھ تلخ حقیقتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ دور نے تجارتی مقاصد کو خاص طور پر فروغ دیا ہے۔ اور اس لیے خون جگر کوبھی مال تجارت بنانے کا طریقہ بہت عام ہے۔ قومی حکومت سے ہمیں یہ توقع تھی کہ یہ تمام قومی زبانوں کے فروغ پر یکساں توجہ دے گی۔ مگر بعض سیاسی الجھنوں کی وجہ سے ایسا نہ ہوا۔ بہر حال ہم صنعتی دور میں قدم رکھ چکے ہیں اور ایسا ایک بڑا طبقہ موجود ہے جس کے لیے تفریحی مواد کی ضرورت ہے۔ ادب سے مانوس ہونے کی وجہ سے لیکن ادب کے بلند مقام کو نہ سمجھتے ہوئے وہ اس تحریر کی طرف مائل ہوتا ہے جو در اصل ادب نہیں مگر جس کے اوپر ادب کا ایک غلاف ہے یہ شاعر کا کلام نہیں پڑھ سکتا، اس کے مختصر انتخاب پر قناعت کرتا ہے۔ یہ علمی مسائل کو سمجھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتا، ہاں ان سے کچھ اوپری واقفیت ضروری سمجھتا ہے یہ اپنا بھرم رکھنے کے لیے جدید ترین دبستانوں اور مکاتب خیال سے بھی اپنی دلچسپی ظاہر کرتا ہے خواہ وہ تجریدی آرٹ ہو یا اسپیس ٹریول یا خلا میں پرواز کے مسائل۔ میں ایسے رسالوں کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہوں مگر ان کی علم وادب کی ٹھیکیداری پر مجھے اعتراض ہے۔ ان رسالوں نے تنقیدکو محض شخصیت کی شعبدے بازی بنا دیا ہے اور فن سے زیادہ فن کار سے شغف کو فیشن۔ پھر فن کار کے یہاں اہم محرکات کی تلاش میں اس نے جو زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیںاور رائی کا پہاڑ بنایا ہے، اس کی وجہ سے ادبی معیاروں کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ بقول ہنری جیمس نو دن کے شاہکاروں کی کثرت اور ہم عصری ادب کی حد سے بڑھی ہوئی سطحیت میں گہرا تعلق ہے۔ اس سطحیت میں زبان، حسن کاری کے آداب، خیال کی گہرائی، احساس کی تازگی سب مجروح ہوتے ہیں۔ ‘‘

(نظر اور نظریے، آل احمد سرور، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، اشاعت اول1973، ص104تا107)

درج بالا اقتباسات سے یہ بات تو صاف طور پرواضح ہوگئی ہے کہ سرور صاحب تبصرہ کو بھی تنقید کے دائرے میں ہی رکھتے ہیں۔یہ بات بہت حد تک صحیح بھی ہے۔ کیونکہ تنقید اور تبصرہ دونوں ہی فن پارے کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کا نام ہے۔ نقاد معلم الاخلاق ہوتا ہے یہی کا م تبصرہ نگار کا بھی ہے۔ جس طرح نقادفن پارے پر رائے دے سکتا ہے مبصر کو بھی آزادی رائے ہے۔تبصرہ نگارفن پارے کو پرکھتا ہے۔ نقاد کے لیے بھی فن پارے کو پرکھنا شرط ہے۔ جس طرح تنقید میں ہیرو پرستی اچھی خیال نہیں کی جاتی تبصرہ نگاری میں بھی اس کی گنجائش نہیں۔ نقاداور تبصرہ نگار کو مبلغ اور نقیب نہیں ہونا چاہیے۔نقاداور مبصر کو یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ پہلو کے دونوں رخ کو دیکھنا ہوگا۔ تنقید نگاری اور تبصرہ نگاری کی بڑی خصوصیت فن پارے کی پرکھ ہے۔تبصروں میں مدح سرائی سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ ورنہ اس کی صورت اشتہار تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ تبصرہ نگارکوفن پارے میں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کہا، کیا کہا اور کیسے کہا۔

تبصرہ نگاری کے تعلق سے یہ مختصر تحریریں ہمار سامنے ہیں جن میں مبصر اور اصول تبصرہ نگاری کی مفید معلومات ملتی ہیں ان مختصر تحریروں کے علاوہ بھی اردو تبصرہ کے اصول و ضوابط پر بہت سے ناقدین نے روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً کلیم الدین احمد، ڈاکٹر شفیق الرحمن، رحم علی الہاشمی، عبادت بریلوی، شمس الرحمن فاروقی، عبد السلام خورشید، ظ انصاری، یوسف سرمست، ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری، ڈاکٹر خالد محمود، ڈاکٹر کوثر مظہری وغیرہ نے تبصرے کے فن پر مضامین قلم بند کیے ہیں۔

n

Dr Raheen Haya

Asst. Prof. Mohammad Ali Jauhar University Rampur. U.P

Email.: raheenhaya786@gmail.


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں