26/10/22

ساغر صدیقی کی غزل میں سائنسی عناصر: محمد عادل




 

ہر بڑے شاعر کی شاعری کا فکری وجدان بہت وسیع ہوتا ہے۔ ساغر صدیقی (1928-1974)بھی ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے تخیل کے زور پر بڑے بڑے ادبی محل تعمیر کیے ہیں۔ان کی شاعری میں عشق حقیقی،عشق مجازی، زندگی سے مایوسی،کرب و بے چینی،آوارگی وغیرہ کے موضوعات نمایاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ساغر صدیقی کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ اپنی ذات سے جڑے ہوئے مسائل کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ یہ موضوع کائنات کے موضوع بن جاتے ہیں۔اور ان کا کرب ان کا کرب نہیں رہتا بلکہ پورے عالم کا کرب ہو جاتا ہے۔یہی خصوصیت ان کے آفاقی کلام ہونے کی ترجمان ہے۔ان کی شاعری کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ اس میں اتنی وسعت ہے کہ جس میں پوری کائنات کے موضوع سمٹ آئے ہیں۔ در اصل یہ موضوعات ہی سائنسی فکر کے ترجمان ہیں۔وہ خود اپنی ایک غزل میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں         ؎

چمن سے برق و شرر سے خطاب کر تا ہوں

شعور و فکر و نظر سے خطاب کرتا ہوں

قدم قدم پہ کھلاتا ہوں گل معانی کے

جہان شمس و قمر سے خطاب کرتا ہوں

جبیں پہ سطوت الہام کے تقاضے ہیں

زبان قلب و جگر سے خطاب کرتا ہوں

میں ایک مرد قلندر میں ایک دیوانہ

طلوع نور سحر سے خطاب کرتا ہوں

اکثر بارش کے موسم میں آسمان پر بادلوں کے بڑے بڑے قافلے دیکھنے کو ملتے ہیں جب ہوا کے زور سے بادل ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتے ہوئے جاتے ہیں تو ان کی شکل و صورت میں بہت سی تصویریں ابھر کر آتی ہیںاور انسانی عقل ان اسٹرکچرس میں بہت سی مانوس چیزوں کو تلاش کر لیتی ہے۔ مثلاً کبھی بادلوں میں جانور کا چہرہ تو کبھی انسانی شکل نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آسمان کے کینوس پر کسی نے بادلوں کی مدد سے جیتی جاگتی تصویر بنادی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس امر میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اگر ہم بادلوں میں کسی خرگوش کے خدو خال دیکھ رہے ہیں تو یہ صرف اس کی رینڈم نس سے نکالنے والا پیٹرن ہے۔ یہ عمل اس بات کا عکاس ہے کہ ہمارا دماغ کس طرح انفارمیشن کو پراسس کرتا ہے اور اس سے معنی نکالتا ہے۔ بصارت کے ذریعے پیٹرن تلاش کرنے کے اس عمل کو ’پیریڈولیا‘ (Peridoliya) کہا جاتا ہے۔اور ہمارے دماغ کی پیٹرن نکالنے کی اس صلاحیت کو ’اپوفینیا‘ کہا جاتا ہے۔

در اصل اس عمل کے پیچھے ہما ری ذہنی قوت عمل کرتی ہے۔جب ہماری آنکھیں کوئی عکس دیکھتی ہیں تو ہمارا ادراک متحرک ہو جاتا ہے اور وہ اس عکس کو اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے اور اس سے ملتی جلتی ہوئی چیز سے ملا کر باقی تفصیلات خود مکمل کر لیتا ہے۔ پھر ہمیں وہ بادل کا ٹکڑا کسی چہرے کی طرح نظر آتا ہے۔ اسی طرح بادلوں کی وجہ سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں تو کبھی کبھی ڈر اور خوف کے شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ بادلوں کے خوف کو 'نیفو فوبیا' کہتے ہیں اس فوبیا میں گرفتار شخص بادلوں کے بدلتے ہوئے روپ کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اس کی کیفیت بدلنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ چیخنے اور رونے لگتاہے۔

ساغر صدیقی کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جو پیریڈولیا، اپوفینیا، نیفو فوبیا کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے         ؎

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے

سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے

سائنس کی وہ شاخ جس میں نباتات کی حیات سے متعلق علم حاصل کیا جاتاہے اس کو بوٹنی (Botany) کہا جاتا ہے۔ نباتات بھی ہماری طرح جیتے جاگتے اور متحرک اور سانس لیتے اور چھوڑتے ہیں۔پیٹرولیبن (Peter Wohlleben) ایک جرمن Forester نے اپنی تحقیقی کتاب 'The Hidden life of Trees What they feel How they Communicate,' میں پودوں کی حیات سے متعلق بہت سی حیرت انگیز باتوں کا انکشاف کیا ہے۔ پیٹرولیبن کے مطابق پیڑ پودے بھی آپس میں پیغام بھیجتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں۔لیکن ان کی بات چیت کرنے کا عمل ہم سے الگ ہے۔یہ پیغام نشر کرنے کے لیے اپنی جڑوں، شاخوں، تنوں، پتیوں، پھل اور پھول کا استعمال کرتے ہیں۔ بیلیں اور جھاڑیاں ایک دوسرے سے جڑ کر معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پیڑوں کی جڑیں زمین کے اندر بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی اور آپس میں جڑی رہتی ہیں۔وہ ان جڑوں کے ذریعے آپس میں پیغام بھیجتے ہیں۔اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ یہ اپنی غذا اور دفاع سے متعلق پیغام بھیجتے ہیں۔پیڑ اپنی جڑوں سے ایک خاص قسم کی فنگی کے ذریعے دوسرے پیڑوں کو سگنل بھیجتے ہیں۔جس کو وہ اپنی جڑوں سے ریسیو کر کے آگے پیڑوں کو بھیج دیتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کے ایک بایولوجسٹ جگدیش چندر بوس نے تحقیق میں ثابت کیا کہ پودے الیکٹرک نیچر کے ذریعے بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایک خاص طرح کی خوشبو کو ہوا میں چھوڑ کر بھی پیغام اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ساغر صدیقی کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں جس میں وہ پھولوں کی بات سننے اور گلشن میں شگوفوں کا صبا سے شکوہ کرنے کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں       ؎

بات پھولوں کی سنا کرتے تھے

ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے ساغر

شکوۂ باد صبا کرتے تھے

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی ہر خواہش کو سچ کردکھایا ہے۔انسان کو ہوا میں اڑنے کی تمنا تھی تو اس نے ہوائی جہاز کی تخلیق کی ۔اس نے تیزی سے سفر کرنے کے لیے تیز رفتار گاڑیاں، بس اور ریل گاڑیوں کو بنایا۔ اس نے دوردراز کے علاقوں تک پیغام کی رسائی کے لیے ٹیلیفون اور اسمارٹ موبائل کی ایجاد کی جس کے ذریعے آج وہ اپنی آواز،تصویر،اور تحریر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کچھ لمحات میںمنتقل کر سکتا ہے۔آج سائنسی ترقی کے سبب فاصلے سکڑ کر مختصر ہو گئے ہیںاور دنیا مٹھی میں آگئی ہے۔یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن کی خواہش انسان نے کی تھی اور کبھی ان کو خیالی تصور کیا جاتا تھا۔سائنس کی زبان میں کہا جائے توسائنس فکشن سمجھی جانے والی یہ چیزیں آج حقیقت میں وجود میں آ چکی ہیں۔ جس کی کامیابی کا سہرا سائنسدانوں کے سر بندھتا ہے۔ انسان کی بہت خواہشات میں سے ایک خواہش وقت پر قابو کرنا بھی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح وہ اپنے ماضی یا مستقبل کا سفر کر سکے۔ ٹائم ٹریول جس کوسائنسی فکشن تصور کیا جاتا ہے۔اگر ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت کبھی حقیقت میں آسکا تو ایک بڑی کمال کی بات ہوگی۔لیکن سائنسدانوں نے اس خواب کو بھی شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔انھوں نے اپنی تحقیقات اور تجربات کے ذریعے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رفتار کی کمی بیشی کے مطابق کسی چیز پر وقت کے پھیلنے اور سکڑنے کا عمل وجود میں آتا ہے۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وہ اپنے مستقبل کاسفر کر سکتا ہے۔کچھ سائنسداں وقت کو بہتے ہوئے پانی کے جھرنے سے تشبیہ دیتے ہیں جس میں پانی ایک طرف کو بہتا ہے یعنی اوپر سے نیچے کی طرف۔اسی طرح وقت بھی آگے بڑھتا ہے اور اس میں پیچھے جانا ممکن نہیں یعنی ماضی میں سفر کرنا غیر ممکن ہے۔کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسان وقت میں آگے اور پیچھے جاسکتا ہے یعنی مستقبل اور ماضی کا سفر کر سکتا ہے۔جب کہ آئنسٹائن کا’ نظریہ اضافیت ‘  ٹائم ٹریول کے ممکن ہونے کی بات کو درست قرار دیتا ہے۔اس کے علاوہ سائنسداںبلیک ہول اور ورم ہول پر بھی تحقیق کر رہے ہیں ان کاخیال ہے کہ یہ ہول دوسری دنیا میں جانے کے راستے ہو سکتے ہیںاور ان کے ذریعے انسان ٹائم ٹریول بھی کر سکے گا۔بہر حال اگر انسان کسی طرح اپنے ماضی میں سفر کر سکا تو ایک حیرت انگیز دنیا میں قدم رکھ سکے گا۔جو اس کی دنیا سے مختلف ہو گی۔اس سائنسی فکشن کی ترجمانی میں ساغر صدیقی کی غزل کا ایک شعر دیکھیں        ؎

وقت کی چند ساعتیں ساغر

لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو

میڈیکل سائنس کے نقطۂ نظر سے دل ایک ایسا عضو ہے جو انسانی جسم میں خون پمپ کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارا دل ایک دن میں تقریبا ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے۔ اور سال بھر میں اس کی دھڑکن کی تعداد تین کروڑ 50 لاکھ ہو جاتی ہے۔ ایک اوسط زندگی کے دوران انسانی دل دو ارب 50 کروڑ مرتبہ دھڑکتاہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک بچے کی آرام کی حالت میں نبض کی رفتار ایک منٹ میں 90 سے 120 ہوتی ہے۔بالغ لوگوں کی اوسطاً ایک منٹ میں 27 بار ہو سکتی ہے ماہرین کے مطابق ہمارے جسم میں 4.7 سے 5.6 لیٹر خون موجود ہوتا ہے۔ یہ خون ایک منٹ میں پورے جسم میں تین بار گردش میں آتا ہے اور یوں ایک دن میں 19 ہزار کلومیٹر سفر طے کرتا ہے۔ اس طرح ہمارا دل دھڑ کتے ہوئے بدن میں موجود خون کو پورے جسم میں گردش کراتا ہے۔ جب ہمارے دل کے والو کھلتے اور بند ہوتے ہیں تو اس کی دھڑکن محسوس اور سنائی دیتی ہے۔ دل کی دھڑکن کو سمجھنے کے لیے ایک مخصوص مشین کا استعمال کیا جاتا ہے جس کو الیکٹرو کا رڈیو گرام (ای سی جی) کہتے ہیں۔  اس مشین میں ایک اسکرین ہوتی ہے جس پر ایک لائن خط بناتے ہوئے اوپر نیچے ہوتی ہے۔جو دل کی دھڑکنوں کی رفتار کو دکھاتی ہے کہ کتنی تیزی سے ہمارا دل کام کر رہا ہے۔

اگر انسان کا دل کام کرنا بند کر دے تو لائن سیدھی چلنے لگتی ہے۔ در اصل یہ مشین دل سے گزرنے والی بجلی کی پیمائش کرتی ہے جس کی مدد سے ڈاکٹر دل کے کام کرنے اور اس کی صحت کا اندازہ لگاتا ہے۔

ساغر صدیقی کی غزل کے یہ شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ دل کی دھڑ کن کی کیا خوب ترجمانی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں         ؎

زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح

دل کے ارمان ہیں بجتی ہوئی جھانجھن کی طرح

مذکورہ شعر کواگر ہم سائنس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ساغر صدیقی الیکٹروکارڈیو گرام (ای سی جی) مشین کی اسکرین پر نظر آنے والی انسانی دل کی دھڑکنوں کی عکاسی کر رہے ہیں۔اور اسکرین پر چلنے والی ان لائنوں کو جھومتی ناگن سے تشبیہ دے رہے ہیں۔جس طرح ناگن پھن اٹھا کر لہرا لہرا کر زمین پرچلتی ہے۔اسی طرح الیکٹروکارڈیو گرام پر ہمارے دل کی دھڑکنیں رقص کرتی ہوئی چل رہی ہیں۔شعر کے دوسرے مصرعے میں ساغر دل کے ارمان کو بجتی ہوئی جھانجھن کہہ رہے ہیں۔گویا دل دھڑکنے پر پیدا ہونے والی آواز کو جھانجھن کی آواز کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔جس طرح جھانجھن چھن چھن کی آواز پیدا کرتی ہے اسی طرح ہمارا دل بھی دھک دھک کرتا ہے۔

     ایک دوسری غزل میں اسی موضوع کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں          ؎

دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی

میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

اس شعر میں ساغر رقص کرتی ہوئی موج زندگی اور وقت کی شہنائی کا ذکر کر رہے ہیں۔موج زندگی کا نام آتے ہی ذہن فورا الیکٹرو کارڈیو گرام پر بننے والی دل کی دھڑکنوں کی طرف جاتا ہے۔جس طرح موج سمندر کی سطح پر اوپر نیچے ہوتی ہے اسی طرح 'موج زندگی' دل کی دھڑکنیں اوپر نیچے ہو رہی ہیں۔وقت کی شہنائی سے مراد دل کے دھڑکنے سے پیدا ہونے والی آواز سے لی جاسکتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق ایک اور شعر دیکھیں جس میں وہ دھڑکنوں کی زبان سمجھانے یعنی ای سی جی مشین کے کام کرنے کے عمل کو سمجھانے کی بات کرہے ہیں        ؎

کوئی ان بے وفا نگاہوں کو

دھڑکنوں کی زبان سمجھائے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سائنس اورٹیکنالوجی نے عصر حاضر کی انسانی زندگی میں ایک نیا انقلاب پیدا کیاہے لیکن اس کے بے جا استعمال سے انسانی زندگی پر برے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔آج ہم اپنے چاروں طرف مشینوں کو دیکھتے ہیںاور پوری طرح ان پر منحصر ہوگئے ہیں۔ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی ہو یا چھت پر چلتا ہوا پنکھا، سب مشینیں ہی ہیں۔ جن کے بغیر ہماری زندگی کا وجود ہی ممکن نہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ انسان خود مشینوں میں ڈھلتا جارہا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ حیران کن ہوگا۔کیوں کہ مستقبل میں یہ مشینیں ہمارے جسم کے اندر پیوست کر دی جائیں گی۔عصر حاضر کے سائنس فکشن کا مطالعہ کریں تو 'ٹرانس ہیومینزم' (Transhumanism) کا تصور دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس میں جینیاتی انجنئیرنگ، نینو ٹیکنالوجی،  بائیونِکس اور برین-مشین انٹرفیس(انسانی دماغ اور مشین کا باہمی رابطہ) کی مدد سے مصنوعی انسانی نسل تیار کی جائے گی۔جس کے کام کرنے کی طاقت اور ذہنی صلاحیت آج کے انسان سے کہیں زیادہ ہوگی۔ٹھیک کسی مشین کی طرح انسان بغیرتھکے ہوئے مسلسل کام کرتا رہے گا۔اس کے جذبات اور احساسات پر قابو کر کے اسے کسی کام کے لیے تیار کیا جا سکے گا۔ان کے اندر شیر کی طرح بہادری، چیتے جیسی پھرتی،ہاتھی جیسی طاقت،کتے کی طرح تیز قوتِ شامہ، باز کی طرح دور تک دیکھنے کی صلاحیت کا ملکہ ہو گا۔آج کا انسان اس کے مقابلے میں ایسا تصور کیا جائے گا جیسے ہمارے سامنے بندر اور لنگور کی حیثیت ہے۔ یہ سب ٹیکنالوجی کے سبب ممکن ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ساغر صدیقی کا ایک شعر دیکھیں جو ٹرانس ہیومینزم کا ترجمان نظر آتا ہے          ؎

انقلاب حیات کیا کہیے

آدمی ڈھل گیا مشینوں میں

عصر حاضر میں اشیا میں ہونے والی ملاوٹ ایک اہم مسئلہ ہے جس نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔آج انسان زیادہ سے زیادہ نفع کمانے اور لالچ میں آکر خود اپنی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔نقلی غذا، اور ادویات تیار کی جارہی ہیںجس سے انسانی زندگی اور صحت متاثر ہو رہی ہے۔خورد و نوش کی چیزوں میں ملاوٹ کرکے انسان ان چیزوں کو زہریلا بنا رہا ہے۔ اگر ان اشیا کو کوئی استعمال کرتاہے تو اس کے مضر اثرات صحت پرنظر آتے ہیں۔ دودھ اور اس سے بننے والی اشیا مٹھائیاں، کھوا وغیرہ کو کیمیکل کے ذریعے تیار کیا جارہا ہے۔ جو انسانی صحت کے لیے زہر ہیں۔ مرچ مصالحوں میں بھی کیمیکل ملائے جارہے ہیں۔ نقلی ادویہ بھی بڑے پیمانے پر تیار ہور ہی ہیں۔ جس کو استعمال کرنے کے بعد فائدہ نہیں ہوتا بلکہ انسانی جسم میں زہر پہنچ جاتا ہے۔پھل اور سبزیوں کوزیادہ دیر تک ترو تازہ رکھنے کے لیے ان میں کیمیکل کا چھڑکاو ہو رہا ہے۔کھیتوں میں زیادہ پیداوار حاصل کرنے لیے جراثیم کش دوائیں ڈالی جارہی ہیں جس سے زمین کی ذرخیزی پراثر پڑتا ہے اور فصلیں بھی زہریلی ہو جاتی ہیں۔ جب یہ کیمیکل مٹّی سے ہوتے ہوئے زیر زمین پانی تک پہنچتے ہیں تو وہ بھی زہریلا ہو جاتا ہے۔ ساغر صدیقی کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جو ملاوٹی نظام پر کیا خوب طنز کرتا ہوا نظر آتا ہے           ؎

مجھ کو اک زہر کا چھلکا ہوا ساغر دے دو

مجھ کو اس دور کے انساں پہ ہنسی آئی ہے

الغرض ساغر صدیقی کے کلام میں ایسے اور بھی اشعار ہیںجو سائنس کی صداقتوں پر پوری طرح کھرے اترتے ہوئے نظر آتے ہیںجس پر ایک مکمل کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔

ساغر صدیقی نئی تصویر شوق بنانے کا فن جانتے ہیں۔ انھیں سائنس کی ترجمانی کرنے والے شعرا کا امام قرار دیا جاسکتا ہے۔آخر میں ان ہی کی غزل کے ایک شعر پر بات مکمل کرتا ہوں         ؎

ہم بنائیں گے یہاں ساغر نئی تصویر شوق

ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام


کتابیات

  •         کلیات ساغر
  •         ساغر صدیقی کے شعری مجموعے زہر آرزو، غم بہار، شب آگہی، تیشہ دل، لوح جنوں، سبز گنبد، مقتل گل۔
  •         ’جسم کے عجائبات‘ تحقیق ’جے ڈی ریٹ کلف‘ ترجمہ ’محمد علی سید‘
  •         ماحولیات (محمد شمس الحق) قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی
  •         ماحولیاتی سائنس (ماحولیات کے بنیادی تصورات) ڈاکٹر شازلی حسن خاں (ایجوکیشنل بُک ہائوس علی گڑھ)
  •     The Hidden life of Trees:What they feel How they Communicate
  •         بادلوں میں تصویریں کیوں نظر آتی ہیں
  • https://www.punjnud.com

Er. Mohd Adil

Hilal House, H. No.: 4/114, Jagjeevan Colony

Naglah Mallah Civil Line

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 9358856606

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں