25/10/22

امجد حیدرآبادی کی شعری انفرادیت: حارث حمزہ لون


 حیدر آباد دکن کی سرزمین نے اُردو زبان کے جو نامور شعرا پیدا کیے ان میں حکیم الشعرا حضرت امجد حیدر آبادی کو ملک گیر شہرت ملی۔ امجد اُردو زبان کے سب سے بڑے رباعی گو شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ بقول پروفیسر سید مناظر احسن گیلانی ’’حضرت امجد ہندوستان کے ان شعرا میں ہیں جن کو زمانہ صدیوں کے بعد پیدا کرتا ہے۔‘‘ اُردو شاعری کی تاریخ میں حضرت امجد کا وہی مقام ہے جو فارسی شاعری کی تاریخ میں ابو سعید ابوالخیر اور سرمد کا ہے۔

امجد حیدر آبادی کا اصل نام سید احمد حسین اور تخلص امجد حیدر آبادی تھا۔ 1886 کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ جب چالیس دن کے تھے ان کے والد مولوی سید رحیم علی کا انتقال ہوگیا۔ والدہ محترمہ صوفیہ کے زیر سایہ زیور علم سے آراستہ ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مشہور درسگاہ دارالعلوم مدرسہ نظامیہ حیدر آباد میں ہوئی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات منشی، منشی عالم اور منشی فاضل میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ امجد کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں شیخ میراں صاحب کی دختر محبوب النساء سے انجام پائی جن کے بطن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیدا ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی ایام میں بنگلور سٹی ہائی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آخر دفتر صدر محاسبی (اے۔ جی۔ آفس) میں منتظمی کی خدمت حاصل کی۔ 1908 کی آفات سماوی یعنی موسیٰ ندی میں آئی طغیانی نے امجد کو تنہا کردیا۔ اس طغیانی کے قہر نے ان کو اپنے مکان اور اہل و عیال سے محروم کردیا۔ یہ ان کی زندگی کا عظیم و دردناک سانحہ تھا جس نے حیدرآباد میں سخت ترین ظلم ڈھائے۔ کئی زندگیاں اور مال و زر بہائو کی نذر ہوگئے۔ اس طغیانی نے انسانوں کو ایسے درد و غم سے دوچار کیا کہ جب بھی اس کی یاد تازہ ہوتی تو آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے ہیں۔ اس المناک واقعے پر حضرت امجد نے تڑپتی ہوئی نظم ’قیامت صغریٰ‘ لکھی ہے جس کو پڑھ کر حضرت امجد پر گزرے آلام و مصائب کی تصویر نظروں میں آجاتی ہے۔ یہ غم کا طوفان جس میں انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا دردناک منظر بھی دیکھا جہاں ان کی ماں، بیوی، بیٹی اور سارا خاندان سیلاب میں بہہ گئے۔ انھیں ایک درخت نے سہارا دیا اور اس سے لِپٹ کر اُن کی آنکھیں آنسو بہاتی رہیں۔ اس طغیانی میں حضرت امجد کے گھر کا جو بھی اثاثہ تھا بہہ گیا، اس بندۂ خدا کی باقی تمام زندگی درد و غم اور محرومی میں گذرتی رہی مگر ہمیشہ توکل و صبر سے کام لیتے رہے۔لب پر کبھی شکوۂ خدا وندی نہیں تھا، البتہ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے اپنے آلام و مصائب کو بڑے درد مندانہ اندازمیں اشعار میں پیش کیا۔ وہ ایک عظیم المرتبت شاعر تھے اور درد و غم جیسے ان کا مقدر بن چکا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے کلام میں بڑی شائستگی ہے۔ انھیں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنا پر’سرور ثانی‘ اور ’شہنشاہ رباعیات‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ 1915 میں حضرت امجد کی دوسری شادی فلسفہ کے مشہور زمانہ استاد علامہ سیدنا درالدین کی صاحبزادی جمال سلمیٰ سے ہوئی جس کی وجہ سے امجد کی کایا پلٹ گئی۔ لیکن بے رحم موت نے فرصت نہ دی اور انھوں نے 29مارچ 1961 کو اس دنیا سے کوچ کیا اور اپنے سینے میں درد و غم کا ایک پہاڑ لیے چل بسے۔ امجد نے ساری زندگی صبر اور توکل کے ساتھ گذار کر یہ ثابت کر دیا کہ ایک بندۂ مومن کے لیے صبر و توکل ہی سب کچھ ہے اور اس میں اللہ کی رضا و خوشنودی رسولؐ حاصل ہوتی ہے        ؎

 تقدیر سے  کیا  گِلہ  خدا کی مرضی

جو کچھ  بھی ہوا،  ہوا  خدا کی مرضی

امجد ہر بات میں کہاں تک کیوں کیوں

ہر کیوں کی ہے  انتہا  خدا  کی  مرضی

امجد حیدرآبادی نے پندرہ سال کی عمر سے شاعری شروع کی۔ خود اُن کا بیان ہے کہ شیخ ناسخ کے دیوان کے مطالعے سے انھیں اُردو شاعری کا شوق پیدا ہوا اور وہ شعر کہنے لگے۔ حضرت امجد نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن نظموں،  غزلوں اور رباعیوں سے انھیں بے حد دلچسپی تھی خصوصاً صنف رباعی میں انھوں نے اپنی نازک خیالی،  بلند پروازی اور فکر کی رسائی کے جو کمالات دکھائے ہیں اس کا جواب آج تک پیدا نہ ہوسکا۔ امجد کو اُردو، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا جس کے اثرات ان کی شاعری میں جابہ جا نظر آتے ہیں۔ امجد نے اپنی پہچان اُردو دنیا میں بحیثیت رباعی گو کے بنائی ہے۔ اپنے کلام کی انفرادیت کی بنا پر امجد کو سرمد ثانی اور شہنشاہِ رباعیات کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

امجد حیدر آبادی کے نزدیک شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں الفاظ کی پرکھ ہو۔ غور و فکر کی خوب خوب عادت ہو اور فکر کی پرواز بلند ہو۔ اور شاعر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کائنات کے ذرّے ذرّے سے واقفیت رکھے، آسمان کی بلندی اور اس کے بدلتے رنگ، زمین کی پستی اس میں موجود خزانے، سمندر کی گہرائی اور اس کی وسعت، پہاڑوں کی اونچائی اور اس کی استقامت وغیرہ وغیرہ سے اچھی واقفیت ہو۔ اس مفہوم کو امجد نے رباعی میں یوں کہا ہے کہ         ؎

ہم توڑ کے تارے آسمان سے لائے

مضمون  بلند  لا مکاں  سے  لائے

ہر  شعر  بہ اعتبار  فن  خوب  کہا

لیکن کوئی  تاثیر کہاں  سے  لائے

 امجد نیک سیرت انسان تھے۔ ان کی تربیت میں صوفیائے کرام کے اخلاق حسنہ کا بہت بڑا اثر رہا ہے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے رہا جس میں اخلاقیات، تصوف، شریعت اور معرفت کے چراغ ابتدائی زمانے سے روشن رہے ہیں۔ انھوں نے ایک رباعی میں اپنا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے           ؎

سید  احمد  حسین  امجد  ہوں  میں

امجد ہوں میں جواب سرمد ہوں میں

گوندھی ہوئی ہے نور سے مٹی  میری

خاکِ  قدمِ  پاکِ  محمدؐ  ہوں  میں

امجد حیدر آبادی ایک فطری قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کا کلام جہاں سوزوگداز، درد و الم سے بھرا ہوا ہے وہیں اخلاق، فلسفہ، حکمت اور تصوف کے بیش بہا نگینوں سے جڑا ہواہے۔ وہ جس کسی چیز سے متاثر ہوتے فوراً ان کے خیالات’رباعی‘ کی شکل میں ڈھل جاتے۔ امجد کے کلام کے مطالعے سے اسلامی فکر کو جلا ملتی ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ ان پر ایک کیفیت طاری کردیتا تھا۔ اس تاثر کو انھوں  نے بڑی خوبصورتی سے رباعیوں میں ڈھال دیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کی مشہور آیت ہے کہ لا تقنطو من رحمۃ اللہ ’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘۔ امجد نے اس آیت سے متاثر ہوکر لکھا کہ         ؎

بے کس ہوں نہ مال ہے نہ سرمایہ ہے

مجھ سے  کیا پوچھتا ہے  کیا  لایا ہے

یارب!  تیری رحمت کے بھروسے امجد

بند  آنکھ  کیے یوں ہی  چلا  آیا  ہے

سورہ انفال کی آیت ’خدا ہی تو تمہارا حمایتی ہے‘ کو امجد نے اس طرح بیان کیا ہے          ؎

  ہر   چیز  مسببِ  سبب   سے   مانگو

منت سے، خوشامد سے، ادب سے مانگو

کیوں غیر کے آگے ہاتھ  پھیلاتے ہو

بندے ہو اگر رب کے تو رب سے  مانگو

ایک اور آیت کا ترجمہ ’ ہماری دی ہوئی پاک چیزیں کھائو‘ کو امجدنے اس طرح بیان کیا ہے           ؎

لے لے کے خدا کا نام  چلاتے ہیں

پھر  بھی  اثر  دُعا  نہیں  پاتے ہیں

کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز

کرتے نہیں  پرہیز،  دوا کھاتے ہیں

امجد حیدر آبادی کی شاعری خصوصاً رباعی میں ان کا سوز و گداز، خلوص، نیک نیتی اور قوم و انسانیت سے دردمندی کے احساسات کی بڑی اہمیت ہے۔ ممتاز دانشور فرمان فتحپوری کے بموجب امجد صوفی منش، قانع، متوکل اور خدا ترس آدمی ہیں۔ ان کی شاعری کے اکثر موضوعات میں توحید، ایمان، توکل، عشقِ حقیقی اور عرفان سرور شامل ہیں۔ ان مضامین میں ایسی رندانہ سرمستی اور عارفانہ سرخوشی رچی بسی ہوتی ہے کہ معمولی سی معمولی بات میں بھی غزل کا ساکیف نکھر آتا ہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے ’’زبان و بیان پر قدرت اور پاکیزگی خیال نے ان کی رباعیات میں کلاسیکی عظمت پیدا کی ہے‘‘۔ حضرت امجد کی رباعیات زندگی کے اعلیٰ ترین رُخ کو پیش کرتی ہیں اور شعری آرٹ کا نہایت حسین نمونہ ہیں۔ انھوں نے عرفان نفس اور کائنات کے روحانی پہلوئوں کو جس خوبی کے ساتھ لباس شعر میں جلوہ گر کیا ہے اس کی دوسری مثال عصر حاضر میں نہیں ملتی۔ ایک رباعی میں انھوں نے عقل و فہم کی گُھتیاں سلجھائی ہیں           ؎

انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں

نادان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں

لا حول    ولا    قوۃ    الا    باللہ

شیطان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں

حضرت امجد حیدرآبادی نے مناجات میں اللہ رب العزت کی صفات اور اس کی فیاضی کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے دیکھیں            ؎

او میرے مالک! او عرش والے

جلوے ہیں تیرے، سب سے نرالے

ہم غم زدوں کا، غموار ہے تو

ستا رہے تو، غفار ہے تو

تعریف  تیری   میری   زباں  پر

اللہ اکبر، اللہ اکبر

حضرت امجد کا ابتدائی کلام طغیانی رود موسیٰ کے دو سال پہلے 1906 میں شمسی پریس آگرہ سے شائع ہوا تھا اس میں سو  رباعیات تھیں یہ مجموعہ طغیانی کی نذر ہوگیا۔ اس کے بعد کا اُردو کلام ’رباعیات امجد‘ کی تین جلدوں اور ’ریاض امجد‘ دو حصوں یعنی ’خرقہ امجد‘ اور ’نذر امجد‘ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایک مختصر رباعیات کا مجموعہ ’حسن بلال ‘ کے عنوان سے شامل ہیں۔ ’رباعیات امجد‘ میں حقائق و معارف، عبادت الٰہی کی ترغیب، اخلاق و فلسفہ اور تصوف سب کچھ شامل ہے، ان ہی رباعیات کی بدولت امجد اقلیم رباعی کے بادشاہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ’خرقہ امجد‘ حضرت امجد کا ایک اہم شعری کارنامہ ہے۔ ’نذر امجد‘ میں ہجرت نبویؐ کے حالات کا دلکش و  روح پرور تذکرہ ہے۔

ریاض امجد‘ کی نظموں میں ان کے اضطراب، سوز و گداز اور انسانی درد مندی کے جذبات و احساسات کا ایک وسیع کینوس دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان نظموں میں انھوں نے جہاں آپ بیتی بیان کی ہے وہیں جگ بیتی اور عوام کے آلام و مصائب کی عکاسی بھی کی ہے۔ ’ریاض امجد‘ حمد، نعت، مناجات، ہندی دوہوں کے علاوہ غزلوں اور بلند پایہ اخلاقی نظموں پر مشتمل ہے۔ اخلاقی نظم نگاری ان کا خاص موضوع تھا۔ انھیں واقعہ نگاری اور وصف نگاری میں کمال حاصل تھا۔ ’ریاض امجد‘ میں تضمینیں بھی بکثرت ہیں۔ انھوں نے عربی فارسی اور اُردو شعرا کے کلام پر مصرعے لگائے ہیں۔

امجد حیدر آبادی نے جہاں شاعری کے میدان میں کمال درجے کی مہارت کے ساتھ اپنا مقام بنایا ہے وہیں انھوں نے اچھی نثر لکھ کر بھی اُردو ادب کے سرمایے کو مالا مال کیا ہے۔ ان کے نثری سرمائے میں ’جمال امجد‘ کے نام سے خودنوشت سوانح عمری قابل توجہ ہے جس کا مطالعہ دلوں کو مغموم بنا دیتا ہے۔اس میںانھوں نے اپنے حالاتِ زندگی کا بڑے کرب سے اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تصانیف میں ’گلستان امجد‘، ’حکایات امجد‘، ’حجِ امجد‘ اور ’پیام امجد‘ شامل ہیں جن میں بہت اہم امور پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

امجدصاحب کی شاعری کو بلندی اور ارتقا تک پہنچانے میں ان کے خالص روحانی جذبات، پر خلوص صداقت، باطنی اسرار و رموز اور انسانی درد مندی کا بڑا رول رہا۔ انھوں نے پند و نصائج کے وسیلے سے اسلامی فکر اور اسلامی تعلیمات کے اہم عناصر کو بھی اپنے اظہار میں سمویا۔ امجد کے کلام میں سارے عالم کا درد اور انسانی مصائب و آرام پر تشویش و اضطراب کے احساسات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 

امجد نے رب کائنات سے اپنی محبتوں میں کمی نہ ہونے دی بلکہ ان کے یہاں بار بار باری تعالیٰ کے اوصاف اور ان کی رحمتوں کا ذکر ملتا ہے۔ وہ آدمی کو اپنی ہر طلب کے لیے اسی سے رجوع ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ خدا کو حاکم کُل، مالک و مختار قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو          ؎

یہ   خورشید  و  قمر  کیا    دیکھتے   ہو

فضائے  بحر   و  بر  کیا   دیکھتے   ہو

کسی  کے  حکم  سے  بس  ہو  رہا  ہے

اِدھر    اُدھر   کیا    دیکھتے    ہو

امجد حیدر آبادی کو حضورؐ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ان کی شاعری کا معتدبہ حصہ سرکار دو عالمؐ کی مدح سرائی کو محیط ہے۔ ’نذر امجد‘ میں رسولؐ  کی ولادت سے لے کر ہجرت کے حالات کو منظوم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو       ؎

قیامت تک اب ایسی صورت نہ ہوگی

یہ صورت نہ ہوگی  یہ سیرت  نہ  ہوگی

اب آگے نبوت میں  شرکت نہ  ہوگی

ہمیں اب کسی کی  ضرورت  نہ  ہوگی

امجد حیدر آبادی نے اخلاقی تعلیمات، فلسفیانہ تصورات اور حکمت کے وسیلے سے عام آدمی کے ذہن کو صیقل کیا اور پند و نصائح سے علم و عمل اور بلند کردار کی تلقین کی۔ انھوں نے اپنے مخصوص و منفرد اسلوب و آہنگ میں عوام الناس کے دلوں میں اللہ کی عظمتوں، رفعتوں اور رحمتوں کے تصور اور برکتوں کو شعری پیکر بنایا اور رسول اکرم ؐ کی عظیم ترین شخصیت کے علم و عمل پر چلنے کی تلقین کی۔

امجد حیدرآبادی کے کلام میں صوفیانہ انداز بھی ہے، حقیقت بیانی بھی ہے اور انسانیت کی فکر بھی نظر آتی ہے۔ امجد نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت کی اصلاح کا خوب کام انجام دیا ہے۔ وہ شاعری میں ایک ناصح کی حیثیت سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ امجدکی شاعری مقصدیت پر مبنی شاعری ہے۔

الغرض امجد حیدر آبادی کی شاعری کے بالاستیعاب مطالعے سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی شاعری ان کی زندگی کے حادثات، سانحات، واقعات، انقلابات زمانہ اور نشیب و فراز کا آئینہ خانہ ہے۔ انھوں نے بے پناہ آلام و مصائب کا سامنا کیا جس نے انھیں روحانیت اور تصوف کی راہ پر گامزن کیا۔ تصوف کے بنیادی وصف تزکیہ نفس کو اختیار کرکے انھوں نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ اور قوم و ملت کی بہبودی کے لیے خود کو وقف کردیا۔ اور اس کے لیے رباعی کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ امجد ایسے منفرد شاعر ہیں، جنہوں نے شہرِ حیدر آباد کی عزت و آبرو کو پوری اُردو دنیا میں وقار بخشا اور برصغیر میں دکن دیس کا نام روشن کیا۔

Haris Hamzah Lone

Kashmir   R/O : Rehmatabad Rafiabad

Baramulla- 193303 (J&K)

Post Office : Watergam

Contact : 7889382310

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں