21/10/22

تحریک آزادی اور اردو شاعری: مہر فاطمہ


 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کو عربی، فارسی یا ایرانی لسانی و ثقافتی عوامل نے کم و بیش متاثر کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی یعنی ہندو، بدھی، جینی  اور بھکتی وادی افکار و تصورات سے بھی اردو تہذیب و ثقافت  اور اردو شعر و ادب کا دامن مالا مال ہے، بقول حسن عسکری اردو زبان سے عظیم تر کوئی چیز ہم نے ہندوستان کو نہیں دی، اس کی قیمت تاج محل سے ہزاروں گنا زیادہ ہے، ہمیں اس زبان پر فخر ہے، ہمیں اس کی ہندوستانیت پر فخر ہے، اور ہم اس ہندوستانیت کو عربیت یا ایرانیت سے بدلنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں، اس زبان کے لب و لہجے میں، اس کے الفاظ اور جملوں کی ساخت میں ہماری بہترین صلاحیتیں صرف ہوئی ہیں۔ اور ہم نے مانجھ مانجھ کر اس زبان کی ہندوستانیت کو چمکایا ہے۔

بھکتی تحریک اور تصورکے سائے میں پنپنے والی قدروں کے بغیر اردو  تہذیب بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔ تاریخ اور ادب کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی بخوبی واقف ہے کہ اردو جدید ہند آریائی زبان ہے، جو کھڑی بولی، ہریانوی اور برج بھاشا سے مل کر تیار ہوئی۔ یہ خالص ہندوستانی پیداوار ہے اور قومی یکجہتی کا منہ بولتا ثبوت ہے، گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر کوئی دوسری زبان اردو کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتی، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کی معتبر ڈکشنری فرہنگ آصفیہ جس میں 59000 الفاظ ہیں، جس میں سے پچاس فیصدی الفاظ ہندوستانی، پچیس فیصدی الفاظ ہندی  اور فارسی اور پچیس فیصدی عربی اور دیگر کے میل سے بنے ہیں۔

اردو ادب میں رستم و اسفندیار کی داستان کے ساتھ ساتھ کرشن اور ارجن کے واقعات بھی موجود ہیں،شیریں اور لیلیٰ کی محبوبانہ دلنوازیوں کے ساتھ ساتھ شکنتلا اور رادھا کے والہانہ عشق کا بھی بیان نفسی طمانیت کا سامان بنتا ہے۔ یوسف و زلیخا اور بلقیس و سلیمان کے ساتھ ساتھ رام و سیتا، کرشن و رادھا بھی اردو شاعری اور قصہ گوئی میں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ہماری گنگا جمنی زبان بھی ہے اور گنگا جمنا کی طرح اس کے دھارے دوسری زبانوں سے الگ بھی بہتے ہیں، پھر سنگم پر ایک بھی ہو جاتے ہیں۔ ہندوستانی جانوروں، پرندوں، پہاڑوں، موسموں، جنگلوں، درختوں، پھلوں اور پھولوں کے دلکش مناظر اردو شعر و ادب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اردو ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس کے خمیر میں ہندوستانی اثر موجود نہیں ہے۔ شاعری میں قصائد، غزلیات، مثنویات، مراثی، شہر آشوب، رباعیات، قطعات، گیت، دوہے اور دیگر منظومات غرض ہر صنف کی رگوں میں ہندوستانی مٹی، دریا،پہاڑ، سمندر، جنگلات،گاؤں اور شہر وغیرہ کا لہو  رواں دواں ہے۔

اردو نظم کی ابتدا ہی فطری مناظر، ہندوستانی رسم و رواج اور حب الوطنی ہوتی ہے، خسرو سے نظیر تک صرف نظموں کے عنوان پر ہی نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہندستانی رنگ و آہنگ اور ہندوستانی ثقافت میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

بیسویں صدی کی ابتدا تو  اردو نظموں میں حب الوطنی کے باقاعدہ ترانے گائے جانے لگے۔ اقبال، جوش، فیض، چکبست، سرور جہان آبادی، تلوک چند محروم اور جمیل مظہری، کس کس کا نام لیا جائے۔

اقبال نے بال جبریل کی ابتداء ہی بھرتری ہری کے شعر سے کی ہے، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز آخری زمانے کے مجموعے ہیں، یہ دونوں مجموعے اخوت انسانی اور حب وطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بندگی نامہ ہندوستانی تلمیحات و اشارات سے پر ہے۔ جاوید نامہ میں شیو جی کو دوست کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد یہ کہنے کا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ اقبال ہندوستانی تہذیب یا مشترکہ تہذیب یا اقدار سے منحرف ہو گئے تھے۔

 وہیں چکبست کی نظموں پر نظر ڈالیں تو حب وطنی کے جذبے سے سرشار نظر آتی ہیں،۔ان کی نظم   خاک وطن  سے ایک بند       ؎

گوتم نے آبرو دی اس معبد کہن کو

سرمد نے اس زمیں پر صدقے کیا وطن کو

اکبر نے جام الفت بخشا اس انجمن کو

سینچا لہو سے اپنے رانا نے اس چمن کو

 دیوار و در سے اب تک ان کا اثر عیاں ہے

اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے

اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے

فردوس گوش اب تک کیفیت اذاں ہے

  وہیں نظیر کے یہاں ہولی، دیوالی،عید، میلے ٹھیلے اور کرشن وغیرہ پر بے شمار نظمیں گنگا اور جمنی تہذیب کی عکاسی کرتی ملتی ہیں، نظم ہولی سے ایک بند          ؎

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

خم، شیشے، جام، جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

بالکل یہی دور میر و مرزا کا بھی ہے جس میں فارسی ادب کی طرف خاص توجہ دی گئی، اس عہد کا تاریخی و تہذیبی سطح پر امتیازی رویہ بھی تھا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، میر کی مثنویات اور سودا کے قصائد میں دیکھیے تو ہندوستانی روایت، دہلوی تہذیب اور تاریخی حسیت کا پرتو اس میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ مثنویاں تو خیر تہذیب و تمدن کی بھرپور عکاسی کرتی ہی ہیں، سحر البیان،گلزار نسیم وغیرہ میں ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔میر یا مصحفی کی مثنویاں ہوں یا مرزا شوق کی زہر عشق، ہندوستانی تہذیبی اقدار شعوری یا لا شعوری طور پر پیش کرتی ہیں۔ جگہ جگہ میلوں ٹھیلوں کا ذکر ہوتا ہے، اپنے اپنے عہد کی طرز معاشرت، محلات کی زندگی، عوامی رہن سہن، شادی بیاہ کی تقاریب و رسومات اور زیورات و ملبوسات، غرض کہ مختلف اقسام کے کھانوں تک کا ذکر مثنویوں میں موجود ہے۔ ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے مثنویوں کو تہذیبی دستاویزات کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہم مرثیوں کی طرف نظر کرتے ہیں جن میں ہندوستانی زندگی کی بھرپور عکاسی ملتی ہے، جبکہ یہ مرثیے واقعات کربلا سے متعلق ہیں۔ نہایت مشہور شعر ہے            ؎

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا

تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

عرب کے ریگستان میں اتنی اوس کا کہاں گزر، یہ صرف ہندوستانی موسم ہے جہاں کچھ مہینے زبردست اوس گرتی ہے اور ہر طرف سر سبز و شادابی ملتی ہے۔ قصیدے کی بات کریں تو سودا، ذوق، غالب، محسن وغیرہ کا قصیدہ دیکھیے ہر ہر لفظ سے ہندوستانی شان و شوکت ٹپکتی ہے۔ مثلا، سودا کے نعتیہ قصیدے کی ابتدا یوں ہوتی ہے        ؎

ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی

نہ ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی

یعنی کفر اسلام کے لیے بطورتمغہ ہے اور اس کی دلیل یہ دی کہ تسبیح کے دانے جو سلیمانی پتھر کے ہیں ان میں باریک باریک دھاریاں ہیں اور دھاری سے استعارتا زنار مراد لیا جاتا ہے جو کفر کی نشانی ہے۔ اس دھاری کو تسبیح کے دانوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا لہذا یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں اسلام کا وجود ہوگا وہاں وہاں کفر ثابت ہے۔ اس سے بڑھ کر باہم ربط کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

محسن کاکوروی نے پانچ قصیدے لکھے اور پانچوں قصیدے نعتیہ ہیں۔ لامیہ قصیدے کی ابتدا یوں ہے          ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پر لاتی ہے صبا گنگا جل

ان کے قصیدوں کو پڑھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضور عرب کے ریگزاروں میں نہیں بلکہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

 اردو غزل کی بات کریں تو غزل ہے ہی سراپا الفت و محبت، انسان دوستی، مذہبی رواداری، سیکولرزم، جمہوری اور تہذیبی قدروں کی امین، ترجمان اور پاسبان۔ غزل میں ابتدا ہی سے یہ رنگ نمایاں ہے۔ خسرو کا شعر ہے         ؎

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں

 کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

ذرا ولی کا رنگ دیکھیے       ؎

تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری

اے بت کی پجن ہاری ٹک اس کو پجاتی جا

یا میر کہتے ہیں

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور

شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

 

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

جہاں ان کلاسیکی شعرا نے ہندوستانی عناصر، گنگا جمنی تہذیب اور مقامی زبانوں کے الفاظ کا استعمال فنکارانہ طور پر کیا ہے وہیں جدید شاعروں کے یہاں بھی یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔

سن ری سجریا، رس کی گگریا، کل گاؤں کے میلے میں

دور دیس کا ایک پردیسی تجھ پر تن من ہار گیا

 

یوں ہردے کے شہر میں اکثر تیری یاد کی لہر چلے

جیسے اک دیہات کی گوری گیت الا پے شام ڈھلے

دور افق پر پھیل گئی ہے کاجل کاجل تاریکی

پاگل پاگل تنہائی میں کس کی آس کا دیپ جلے

غرض یہ کہ حقیقت پسندی ہو یا پھر رومانوی دور کی حسن پسندی، اشتراکیت پسند ادبی رجحانات ہوں یا انقلاب پسند رویے، آزادی کے نغمے ہوں یا کسان اور مزدور تحریکوں سے وابستہ نعرے ہوں یا  ادبی شعری اظہار کی روشیںہوں، ہر جگہ تہذیب کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔

آخر میں چند  بند           ؎

زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے

اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے

جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے

 

زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے

اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے

جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے

 

یہ کیسی باد بہار ہے جس میں شاخ اردو نہ پھل سکے گی

وہ کیسا روئے نگار ہوگا نہ زلف جس پر مچل سکے گی

ہمیں وہ آزادی چاہیے جس میں دل کی مینا ابل سکے گی

 

چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہم ہوائے بہار بن کر

ہمالیہ سے اتر رہے ہیں ترانۂ آبشار بن کر

رواں ہیں ہندوستاں کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر

 

ہماری پیاری زبان اردو

ہمارے نغموں کی جان اردو

حسین، دل کش جوان اردو

ظاہر ہے کہ اس لمبی تمہید کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان میںDiversity اتنی زیادہ ہے اور جہاں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں وہاں ادب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ حب الوطنی، سماجی مسائل اور ترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبردآزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا       ؎

بم گھروں پر گریں کہ سر حد پر

روح تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

وغیرہ وغیرہ۔اب ظاہر ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تحریک ایک ایسی داستان کا درجہ رکھتی ہے، جو شہیدان وفا کے خون سے گوناگوں رنگین نظر آتی ہے۔ جس میں ایک رنگ اردو کا بھی ہے۔ جب بھی تحریک آزادی کی بات چھڑے گی تو’اردو‘ کا تذکرہ ضرور ہوگا کیونکہ اس کے تذکرے کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ اردو زبان نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جب ہمارا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو اس دوران سرزمین ہند نے اپنی کوکھ سے جہاں بے شمار مجاہدین آزادی کو جنم دیا وہیں بے شمار شاعر، ادیب اور صحافی بھی پیدا کیے۔اردو شعرا نے وطن کی محبت میں نہ جانے کتنے ترانے گائے۔ انقلاب زندہ باد اور آزادی پائندہ باد جیسے نعرے لگائے۔ ان کی شعر و شاعری اور شعلہ بار تقریروں سے تمام ہندوستانیوں بالخصوص مجاہدین آزادی کو عزم و حوصلہ اور طاقت و توانائی عطا کرنے، عوام کو بیدار کرنے، اس کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے، ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے، انگریزوں کے ظلم کی داستان بیان کرنے اور انسانوں کی پیدائش و فطری آزادی کا نعرہ بلند کرنے کا کام نہایت کامیابی سے کیا۔

اردو شاعری یعنی غزل ہو کہ نظم دونوں میں اس کی عکاسی بھر پور ملتی ہے۔غزل میں اس کے نقوش اس قدر واضح نہیں کیونکہ غزل میں رمز و ایما اور اشاروں کنایوں سے کام چلایا جاتا ہے۔مثال پیچھے بھی گزر چکی ہے۔اردو غزل میں آزادی کے تعلق سے پروفیسر کوثر مظہری کا مضمون تحریکِ آزادی اور اردو غزل ہے۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس میں انہوں نے اس موضوع کے حوالے سے بہت سے شاعروں اور ان کی شاعری پر بات کی ہے۔غالب،شیفتہ اور مجروح کے اشعار پیش کیے۔ تحریک آزادی کے دوران تخلیق ہونے والا زندانی ادب، اس میں حسرت کی ’نکاتِ سخن‘ بھی ہے۔ یہ ان کے رسالے ’اردوئے معلیٰ‘ میں پہلے قسط وار شائع ہوئی پھر بعد میں متروکاتِ سخن، معائب سخن، محاسنِ سخن،  اور’نوادرِ سخن‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی۔انہی کے مشہور زمانہ اشعار ہیں          ؎

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

حسرت کے تعلق سے پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے مضمون میں بڑی اہم بات لکھی ہے

’’حسرت کی غزلوں میں تحریک آزادی اور انقلاب کے جو عناصر ملتے ہیں ان میں بہت زیادہ درشتگی کے بجائے ایک طرح کی دھیمی لے ملتی ہے، اس لیے اس میں سوز و گداز کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔‘‘

رہتی ہے روز اک ستم تازہ کی تلاش

بے چین ہے وہ فتنہ دوراں میرے لیے

ہوتی ہے روز بارش عرفاں مرے لیے

گویا بہشت عشق ہے زنداں مرے لیے

سیاست میں جس طرح حسرت عملی طور پر شریک رہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ان کے تجربات شعری میں تصنع اور آورد کے بجائے برجستگی اور آمد نظر آتی ہے، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بہت سے شعرا اپنے زمانے کی اتھل پتھل پر بھی ایک اچٹتی نظر ڈالنے کو بطور فرض کفایہ کے ادا کرتے جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح تصوف کے مضمون کو بیشتر شعرا نے صرف ’برائے شعر گفتن‘ کے طور پر برتنے پر اکتفا کیا۔‘‘

)مضمون بعنوان تحریکِ آزادی اور اردو غزل، پروفیسر کوثر مظہری، ادبی میراث(

اس طرح غزلوں میں اشاروں کنایوں میں اس مضمون کو باندھا گیا۔ کیونکہ غزل اشاروں کنایوں کا ہی فن ہے غالب نے کہا تھا نا کہ         ؎

 ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

مجروح نے غزل کے روایتی اور مستند لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے تحریکِ آزادی اور انقلاب کے موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے         ؎

 دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن، جوش بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر نہ دیکھ

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اب جہاں تک نظم کی بات ہے توترقی پسند شاعروں نے اس موضوع کو اپنی نظموں میں خوب خوب نبھایا۔اس ضمن میں خاص طور پرعلی سردار جعفری، مخدوم محی الدین، مجاز، فیض اور کیفی اعظمی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

انگریزوں کے خلاف جوش ملیح آبادی کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سے، ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے         ؎

کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں

اکتائے ہیں شائد کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں

تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں

کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے

اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں

سنبھلوکہ و زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے

اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم ’نعرہ شباب‘ میں دیکھنے کے لائق ہے        ؎

دیکھ کر میرے جنوں کو نازفرماتے ہوئے

موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے

تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں

ہڈیاں اس کفر و ایماں کی چبا ڈالوں گا میں

پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا

گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا

ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا

موت کے سائے میں رہ کر، موت پر چھایا ہوا

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

مجاز نے بہت کم  عمر پائی اور کم عمری میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری اور مشاقی کی بدولت نو عمری میں ہی اپنی شناخت قائم کرلی۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جدوجہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھرتے گئے۔ اس مرحلے پر بھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجاز کی نظم ’انقلاب‘ سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ کیجیے       ؎

آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے

آگ دامن میں چھپائے خون برستاتے ہوئے

کوہ و صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی

رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی

سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی

ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی

خون کی ہولی کی جنگل سے ہوائیں آئیں گی

خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی

وغیرہ۔اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن پر پہلے بھی بات کی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ قائم رہے گا۔ تحریک آزادی کے تعلق سے یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ اور ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، وغیرہ بھی اردو کی دین ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔


 Mehar Fatima

C- 206, Saranya Sarovar Apartment

Hugdur Main Road, Whitefield

Banglore- 560066 (Karnatka)

Mob.: 9555949032

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں