20/10/22

تحریک آزادی میں اردو زبان کا کردار: عبدالسمیع


 تحریک آزادی اور اردوزبان کا مضبوط واٹوٹ رشتہ ہے۔تحریک آزادی میں اردو کا کردارمجاہدانہ اور نمایاں رہاہے۔اردو زبان کی ترقی و ترویج میں تحریک آزادی کے متوالوں نے اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ اردو زبان ہی کی صحافت اور نظم و نثر نے ایوانِ فرنگی کی بنیادیں ہلا دی تھیں اور حکومت انگلستان کی نیند حرام کر دی تھی۔آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جن کی قیادت میں 1857کی جنگ آزادی کا بگل بجا اور آزاد ملک ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد اردو زبان کے شیدائی تھے اردو زبان کے اشعار،اقوال اور نعرے مجاہدین آزادی کی رگوںمیں جوش وولولہ بھر دیتے تھے اور وطن کی محبت سے سرشار ہوکر مسکراتے ہوئے تختہ ٔ دارپر چڑھ جانے اور سر کٹانے پر آمادہ کر دیتے تھے۔بزرگ مجاہد آزادی مہر چند آہوجہ کے یہ الفاظ کتنے سچے ہیں:

’’ہم مجاہدین آزادی کی جس زبان نے فرنگی حکومت کی بنیادوں میں زلزلے ڈالے وہ زبان صرف اردو تھی ۔بلکہ یہ بھی میرا ایمان ہے کہ اردو نے دوسری زبانوں کے مقابلہ میں حب الوطنی کے جذبوںکو سب سے زیادہ تقویت پہنچائی ۔آزادی کی داستان سناتے ہوئے مجھے اکثر یہ شعر یاد آتا ہے   ؎

اپنے محبوب سے جب پیار کیا تھا میں نے

کاسۂ سرمیں لہو بھر کے دیا تھا میں نے

اردو کو کل بھی ایک تحریک سمجھتا تھا اور آج بھی ایک تحریک سمجھتا ہوں ہمالہ کی بلندیوں سے گنگا وجمناکی مچلتی لہروں تک اردو کی وسعتیں پھیلی ہوئی ہیں۔آزادی اور انقلاب کی جب مجھے یاد آتی ہے تو میںکہتا ہوں کہ بنکے بابو،روی ٹھاکر ،لوک مان تلک، بال، پال اور لال جیسے قدآور مجاہدین آزادی نے جب لوگوں کو کرانتی امررہے سمجھانا چاہا تو عوام پورے طور پر نہ سمجھ سکے لیکن جب سردار بھگت سنگھ اور ونیکشوردت نے اسمبلی ہال میں اردو کے دو لفظ ’انقلاب زندہ اباد،للکارے تو ہندوستانیوں کو انقلاب کے معنی معلوم ہوگئے۔‘‘  

(تحریک مہرچند آہوجہ،مشمولہ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، مرتب: ناشرنقوی،ہریانہ اردو اکادمی پنچکولہ1988، ص 7-8)

انگریزوں کے ظلم واستبداد کی روداد اردو کے تمام شعرا اور ادبا نے بیان کی ہے اردو اخبارات کے اکثر مدیران حضرات بڑی بیباکی اور جرأت کے ساتھ انگریزوں کے مظالم کے بارے میں لکھتے۔اسی جرم کی پاداش میں مولانا محمد باقر کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو اس قدرصحافی گئے جن کے تذکرے کے لیے پوری کتاب درکار ہے۔ان اخبارات میں شائع ہونے والی آزادی کے جذبہ سے بھر پور نظموں نے بھی انقلابی جذبات کو ابھارا اور نوجوانوں کو ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ کیا،رام پرشاد بسمل اور اشفاق اللہ خاں جیسے مجاہدین سرفروشی کی تمنا اور جذبہ لیے تختۂ دار پر چڑھ گئے اور مجاہدین آزادی کا جوش جنوں اور آزادی کی پیاس بڑھا گئے۔اس طرح تحریک آزادی پورے ملک میں پھیل گئی اور بالآخر انگریزوں کو اس ملک سے جانا ہی پڑا  ان اخبارات کے مدیر ہندو مسلم دونوں تھے ان مدیروں اور ذمے داروں میں مہاشہ کرشن،ساغر نظامی، دیا نارائن نگم، ڈاکٹر مکند لال،جوش ملیح آبادی، رائے گنیش لال،سیماب اکبرآبادی،منشی ایودھیا پرشاد،عزیزحسن بقائی،دیوان سنگھ مفتوں،عبدالرزاق ملیح آبادی ، راجہ رائے سنگھ وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر چندرشیکھر لکھتے   ہیں :

’’تحریک آزادی اور اردو زبان کا اس میں حصہ دو مختلف عناصر قرار دینا، تحریک آزادی کی تاریخ کے ساتھ ناانصافی کا پہلو ہوگی۔یہ قول اس بات پر مبنی ہے کہ اگر برطانوی حکومت نے فارسی زبان کو منسوخ کرکے اردو زبان کو فروغ دینے اور ایک طورپر سرکاری زبان بنانے کا رادہ کیا تو اس سے فارسی زبان کا مستقبل تو ضرور ہندوستان میں تاریک ہوگیامگر اردو زبان کو جو ترقی ایک صدی سے کم عرصہ میں حاصل ہوئی وہ شاید دنیا کی کسی زبان کو اتنے کم عرصے میں نہ ہوئی ہوگی۔تحریک آزادی کے علمبرداروں نے اگر یورپ میں تعلیم حاصل کرکے انگریزی زبان سیکھ کر ملت کو ایک راہ پر گامزن کیا تو اس قوم اور ملت کو یکجا کرنے کا سہرا اردو زبان کو ہی حاصل ہوتا ہے۔چونکہ اردو زبان ہندوستان کے تمام لوگوں کی مشترکہ زبان رہی ہے۔ تحریک آزادی کی اگر زبان تھی تو وہ دراصل اردو تھی۔‘‘ 

(تحریک آزادی اور اردو ادب: ڈاکٹر چندر شیکھرمشمولہ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ،مرتب ناشر نقوی ہریانہ اردو اکادمی،ص118)

اردو کے افسانہ نگارپریم چند کے افسانوں میں حب الوطنی اور ہندوستانیوں کے مسائل کی عکاسی بخوبی ملتی ہے ان کے کئی افسانوںپر پابندی اور افسانوی مجموعوں کی ضبطی اس بات کا ثبوت ہے کہ انگریزی حکومت ان کی تحریروں سے خائف تھی۔پریم چند کے پہلے افسانہ ’دنیا کا انمول رتن‘ میں وطن کی آزادی کی خاطر بہائے گئے خون کے قطرے کو ہی انمول رتن قرار دیا گیا ہے۔ ایسے ادیبوں اور شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جنھوں نے اپنی تحریروں اور اشعار کے ذریعے انگریزوںکے ہندوستانیوں پر مظالم کو بیان کیا ہے اور اپنے مضامین اور اشعار میں آزادی کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ان ادبا اور شعراء نے انگریزی استبداد کے خلاف جہاد کیا اور جانی و مالی ہر طرح کی قربانیاں پیش کرکے سر خروہوئے ان لوگوں نے نہ صرف قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ۔ان کے اشعار پر پابندی لگی اور ان کی جذبۂ آزادی سے سرشار تحریروں، کتابوں اور اخبارات ورسائل کو ضبط بھی کیا گیا۔مگر سامراجی قوت کے سامنے مجاہدین اردو نے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سردار بھی یہی کہتے رہے         ؎

سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں

اردو شاعری جنگ آزادی کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ابتدا ئی شاعری میں انگریزی سامراج کا تسلط ان کا ظلم وستم اورتباہی و بربادی کو بیان کیا گیا ہے بعد میں حب الوطنی کے جذبات اورسامراجی قوت کے خلاف بغاوت کی چنگاری بھڑکائی گئی ہے۔اردو شاعری کی تقریباًتمام اصناف میں جنگ ِ آزادی اور انقلاب کا ذکر بڑے جوش وولولے سے ملتا ہے سنجیدہ اور مزاحیہ وطنزیہ دونوں قسم کی شاعری میں تحریک آزادی کے جذبات کاذکر ہوا ہے مختلف صوبوں، علاقوں، مذاہب، ذاتوں، فرقوں سے مجاہدین آزادی کا تعلق تھا       ؎

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

جیسے سیکڑوں اشعار جذبہ ٔ وطنیت اور آزادی کی آگ کو شعلہ زن کر رہے تھے۔

حسرت موہانی ،جوش ملیح آبادی، پنڈت برج نارائن چکبست، فیض احمد فیض،علی سردار جعفری، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری،ساحر لدھیانوی،جاں نثار اختر، مجاز، کیفی اعظمی، اخترالایمان،پنڈت آنند نرائن ملاوغیرہ نے اپنی شاعری اور تن من دھن سے تحریک ِآزادی کو توانائی اور زندگی بخشی۔جنگ آزادی میں اردو زبان نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے اور ہمیشہ اردو زبان انگریزی سامراج سے نبرد آزما رہی ہے۔علی سردار جعفری نے صحیح لکھا ہے

’’اردو والوں نے آزادی کی جدو جہد کو قومی دائرے تک محدود نہیں رکھا اس کے دائرے مابین قومیت ملائے اور اس طرح عوام میں ایک زیادہ جاندار اور ہمہ گیر شعور بیدار کیا۔اردو ادب نے جس طرح ملک کو آزاد کرانے میں اہم رول انجام دیا اسی طرح وہ پندرہ اگست 1947سے لے کر آج تک ملک وقوم کی خدمت میں مصروف ہے۔‘‘ 

)ہندوستان میں اردو کا ماضی حال اور مستقبل ڈاکٹر محمد نعمان مشمولہ جنگ آزادی میں اردو کا حصہ، مرتب اقبال بیدار ،بزم اقبال پبلیکیشنز گلشن اقبال بھوپال، 1998، ص 57)

اردو نثرکی تمام اصناف ناول، افسانہ، ڈرامہ، طنزومزاح، خودنوشت وسونح اور صحافت نے تحریک آزادی میں اہم رول نبھایا ہے۔پریم چند ،کرشن چندر،عصمت چغتائی، عزیز احمد،سجاد ظہیر ،حیات اللہ انصاری وغیرہ کے ناولوں میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر تحریک آزادی کی جدو جہد اور کوششوں و قربانیوں کے نمونے ملتے ہیں۔

اردو افسانہ نگاروں نے آزادی کے جذبات واحساسات، قدروقیمت اور آزادی کی ضرورت واہمیت پر کافی افسانے لکھے ہیں۔پریم چند ،سعادت حسن منٹو، حیات اللہ انصاری،کرشن چندر ،احمد علی،عصمت چغتائی وغیرہ کے افسانوں میں تحریک آزادی کا جذبہ اور جوش وولولہ صاف طور پر نظر آتاہے۔

طنز ومزاح کے باب میں اودھ پنج سے کون ناواقف ہوگا اس اخبار کے قلمکاروں نے طنز ومزاح کے پیرائے میں تحریک آزادی کے بارے میں اہم مواد پیش کیا ہے۔

ڈرامہ براہِ راست احساسات وجذبات کو مہمیز کرتا ہے اس صنف کے ذریعے بھی آزادی کو موثر بنانے کی سعی کی گئی ہے۔تحریک آزادی کی کوششوں اور سعی پیہم کو جن ڈراموں کے ذریعے بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح کے ڈراموں میں مولانا ظفرعلی خاںکا ڈرامہ ’جنگ روس وجاپان‘،امراؤ علی کا ڈرامہ’البرٹ بل‘،محشر انبالوی کا ڈرامہ’غریب ہندوستانی‘،اصغر علی نظامی کا ڈرامہ’قومی دلبر‘،نیرانبالوی کا ڈرامہ’وطن‘،محمد دین تاثیر کا’لیلائے وطن‘،شمس لکھنوی کے ڈرامے’حب الوطن اور مادر وطن‘،محی الدین عزم کا ’دیس کی پکار‘،دل لکھنوی کا’شہید وطن‘،محمد مجیب کاڈرامہ ’آزمائش‘ وغیرہ کا شمار کیا جا سکتا ہے۔

اردو نثر کی تحریک آزادی میں خدمات کے بارے میں پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی رقمطراز ہیں:                 

 ’’انگریزوں نے اپنے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے جن تصورات کو فروغ دیا ان میں قومیت کا شعور بھی تھا،جو ہندوستان کے حق میں آزادی کی نعمت کا مقدمہ ثابت ہوا۔ہندوستان میں قومی شعور کی بیداری کے ساتھ جنگ آزادی میں تیزی اور ہمہ گیری پیدا ہو گئی اور ہندوستانیوں نے انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔تحریک آزادی کے فروغ اور قومی شعورکی بیداری میں اردو زبان و ادب نے عموماًاور اردو نثر نے خصوصاً ایک اہم اور موثر کردار ادا کیا اور آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔‘‘   

(تحریک آزادی اردو نثر اور مسلم ادبا، ڈاکٹر ضیا الرحمن صدیقی، راجستھان وقف بورڈ جے پور1997،  ص7)

تحریک آزادی کے سلسلے میں قابلِ قدر اور وقیع مواد، خطبات و تقاریر ،خودنوشت وسوانح سے آزادی کے مقاصد ونصب العین کے بارے میں بھی ملتا ہے۔مکتوبات اور خطوط کے ذریعے بھی تحریک آزادی کی جدو جہدکی گئی اور جنگ لڑی گئی ۔تحریک ریشمی رومال کا مرکزی نکتہ خط ہی تھا،بہت سے مجاہدین آزادی کے خطوط ومکاتیب مجموعے کی شکل میں مرتب ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں جن سے ان خطوط کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کا پتہ چلتا ہے ۔ ان مکاتیب نے تحریک آزادی میں مجاہدین اور سرفروشانِ آزادی کو منصوبہ ،جذبہ،حوصلہ ، ولولہ اور عزمِ مصمم عطا کیا۔

خطبہ و تقریر انسانی جذبات واحساسات کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔تحریک آزادی کی جدوجہدیا ہندوستانیوںکی تعلیم وتربیت اورفلاح وبہبود کی خاطر انجمنیں اور ادارے قائم ہوئے، ان کے جلسوں میں جو تقریریںہوئیں اب ان کے مجموعے مرتب ہو کر شائع ہوگئے ہیں۔اردو زبان وبیان کی سلاست کے ذریعے مقررین مجاہدین آزادی میںجوش ِعمل اور جذبہ وولولہ پیدا کردیتے تھے۔ کانگریس، مجلس خلافت،مسلم لیگ، جمعیت علمائے ہند،مجلس اتحاد مسلمین،تحریک ریشمی رومال،مجلس احرار ،خدائی خدمت گاروغیرہ کے اجلاس یا کانفرنسوں میں اردو زبان میں تقریریں ہوتی تھیں۔عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، بہادر یارجنگ، مولانا محمد علی جوہر،حکیم اجمل خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری وغیرہ کی اردو تقریریں اور صدارتی خطبات طبع ہو چکے ہیں جو مجاہدین آزادی اور اکابرین دوسری زبانوں میں خطاب کرتے اوران کی تقریر کا ترجمہ اردو زبان میں کیا جاتا تھا ایسے اکابرین و آزادی کے متوالوں میں موتی لال نہرو،سبھاش چندربوس،پنڈت جواہر لال نہرو،مہاتما گاندھی، راجندر پرشاد،سروجنی نائیڈو،سردار پٹیل ، جے پی کرپلانی، دیش بندھو،گوپال کرشن گوکھلے وغیرہ شامل ہیں۔گاندھی جی کی تقریروں کااردو ترجمہ شدہ مجموعہ’ قوم کی آواز‘،گوپال کرشن گوکھلے کی تقریروں کا مجموعہ’ گوکھلے کی تحریریں‘،جواہر لال نہرو کے خطبات صدارت کا اردو مجموعہ ’ہندوستان کا اتحاد‘ ،سبھاش چندر بوس کی تقاریر کا اردو مجموعہ’سبھاش بابو کی تقریریں‘وغیرہ اہم کتابیں ہیں۔

تحریک آزادی کے دور میں آپسی رابطہ اورپیغام کے ارسال وترسیل کا اہم ذریعہ خطوط تھےاردو ادب میں خطوط غالب کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ان خطوط میں بھی 1857 کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا بہترین نقشہ کھینچا گیا ہے۔مجاہدین آزادی اپنے منصوبے، پلان یا کسی کو اپنا ہم خیال بنانے یا آزادی کی کوششوں اور جدوجہد کے اقدام سے آگاہ کرنے کی خاطر خطوط لکھا کرتے تھے۔یہ خطوط ہندوستانیوں کے سیاسی و قومی مسائل ،قوم وملک کے لیے جدوجہد اور آزادی کے عزائم سے بھر پور ہوتے تھے۔ قومی وسیاسی سرگرمیوں اور آزادی کی کوششوں کا بھی ذکر ہوتا تھا۔ علی برادران ،سید سلیمان ندوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا عبدالماجد دریابادی، حسرت موہانی، عبیداللہ سندھی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا حسین احمد مدنی،ابوالکلام آزاد وغیرہ کے خطوط اس سلسلے میں اہمیت کے حامل ہیں۔مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو،سبھاش چندر بوس اور محمد علی جناح کے درمیان جدوجہد کے سلسلے میں جو مراسلت ہوئی اس کا اردو ترجمہ نظامی پریس بدایوں سے 1938 میں شائع ہوا، دو اور ترجمے حیدرآباد اور ممبئی سے شائع ہوئے ان کانام ’قائدین کے خطوط جناح کے نام‘اور’گفتگو ئے مصالحت‘ ہے۔ گاندھی جی اور بی سی جوشی کے درمیان ہونے والی مراسلت کا اردو ترجمہ ’گاندھی جوشی خط و کتابت ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔

 مختلف اداروں،تحریکوں اورجماعتوں کے دفتری کام کاج، اندراجات، منشور ومنصوبے، مقاصد اور کارروائیاں اردو زبان میں ہوتی تھیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل رقمطراز ہیں:

’’سیاسی جماعتوں میں سے جنھوں نے اپنے مقاصد اور نصب العین کی تکمیل اور اپنے خیالات و نظریات کی تشہیر کے لیے اردو زبان کا سہارا لیا ان میں مجلس خلافت،جمیعۃ العلمائے ہند،جمیعۃ العلمائے اسلام،آل پارٹیز کانفرنس ،مجلس احرار اسلام ،خدائی خدمت گار،شیعہ پولٹیکل کانفرنس اورخاکسارتحریک قابل ذکر ہیں۔

مجلس خلافت کا زیادہ ترکام اردو میں ہوا۔اس کے اجلاس کی تمام تر کارروائیاں عام طور پر اردو میں ہوتی تھیں۔اس کی جانب سے شائع ہونے والا تحریکی ِادب عام استفادے کے خیال سے اردو میں شائع کیا جاتا۔ اس نے اپنے مقاصد کی مقبولیت اور تشہیر کے لیے اردو روزنامہ خلافت بھی جاری کیا جو تحریک خلافت کے دو ران بہت مقبول تھا۔دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں تک یہ جاری رہا۔مجلس خلافت کا منشور اس کے کتابچے اور اسناد ودستاویزات اور خطبات وقرارداریں سب اردو میں مطبوعہ ہیں۔‘‘

(تحریک آزادی میں اردو کا حصہ: ڈاکٹر معین الدین عقیل، انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی،1976، ص766-67(

اردو زبان و ادب کا رشتہ تحریک آزادی سے اٹوٹ ہے اور اس کا کردار ناقابل فراموش ہے اردو مجاہدین آزادی کی مشترکہ وراثت اور روایات کی ضامن ہے ۔ ملک کی آزادی کے بعد گنگا جمنی تہذیب ،آپسی محبت ومؤدت اور اخوت و بھائی چارگی کا ذریعہ ہے، جہد مسلسل ،سعی پیہم کی عمدہ مثال ہے ملک وقوم کو اتحاد کے دھاگے سے جوڑے رہنے والی زبان ہے۔

Dr. Abdus Samee

B N Degree College

Hardoi - 241124 (UP)

Mob.: 9170389242

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں