19/10/22

1857 کی بغاوت میں اردو اخبارات کا کردار: امیر حمزہ


 اٹھارہویں صدی کے نصف اول سے ہی ہندوستان میں بیرونی در اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک طرف نادر شاہ اور احمدشاہ ابدالی کے حملے تھے تو دوسری جانب مشرقی ساحل سے مغربی تاجر ین کی یورش تھی۔ یہیں سے ہندوستانیوں کی زندگی اور ہندوستان کا ماحول بدلنا شروع ہوگیا تھا۔ عوامی زندگی میں احتجاجی گفتگو شروع ہو گئی تھی، مغل حکومت لگاتار کمزور ہوتی جارہی تھی اور انگریز مستقل اپنا قدم مضبوط کرتا جارہاتھا جس سے ظاہر ی و باطنی بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ عوامی زندگی میں اس کا اثر آنا لازمی تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شروع سے ہی اردو شاعری میں احتجا ج کی لو نظر آنے لگتی ہے۔ اس احتجاج کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ اول 1857 تک اور دوم 1857 تا 1947۔ اول الذکر محض احتجاجی ادب میں شمار ہوتا ہے، دوم میں آزادی کی جدو جہد شامل ہوجاتی ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا ہی سے ادب کی مروجہ اصناف میں احتجاج ملنے لگتا ہے۔ وہ احتجاج اندرونی و بیرونی دونوں طاقتوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس روایت نے اردو میں شہر آشوب کو فروغ دیا، جس کے موضوعات بدحالی ہی ہوتے تھے جس میں بباطن احتجاج کی لے تیز ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کی دودہائی بعد جب اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں سیاسی گرفتاریاں، مقدمات اور سزا کی روداد تفصیل سے شائع ہوتی ہیں جس سے اس زمانے کی صحافتی خدمات کا پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کی سرپرستی میں رہتے ہو ئے اورآزاد رہ کر بھی اخبارات نے کس طرح سے ہندوستانیوں کو پہلی جنگ آزادی 1857 کے لیے ابھارا۔

1823 تا 1857 کے اردو اخبارات کی بات کی جائے تو اس عہد میں کل 122 اخبارا ت کے شائع ہونے کا ریکارڈ ملتا ہے، جن میں سے کم و بیش چالیس اخبارات اردو کے ملتے ہیں۔ اردو کا پہلا اخبار’ جام جہاں نما‘کلکتہ، مو لوی محمد باقر کا دہلی اردو اخبار، سرسید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں کا سید الاخبار، دہلی سے ہی ’صادق الاخبار‘ نام سے دو اخبار جاری ہوئے، ایک کے مالک سید جمیل الدین خاں تھے اور دوسرے کے ایڈیٹر شیخ خدا بخش، جوشاید مالک بھی رہے ہوں۔ دہلی ہی سے مولوی کریم الدین کا’کریم الاخبار‘ اور رسالہ ’ گلِ رعنا ‘ 1845۔ لاہور سے کوہِ نور، مرزا پور سے خیر خواہ ہند، دہلی سے قران السعدین۔1847 میں آگرے سے ’اسعدالاخبار‘،  1849 میں قطب الاخبار،۔1849 میں میرٹھ سے ’مفتاح الاخبار‘  ایڈیٹرمحبوب علی۔ 1849 میں بنارس سے ’باغ و بہار‘ ایڈیٹر سید اشرف علی۔ 1849 میں اندور سے ’ مالوہ اخبار‘ بہ ادارت دھر م نارائن جیسے اہم اخبار جاری ہوئے۔ ان اخبارات میں سب کی کہانی الگ الگ ہے لیکن ان اخبارات کا کارنامہ یہ رہا ہے کہ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے لیے انھوں نے مکمل طور پر ماحول بنایا۔ان کے پاس نہ وسائل تھے اور نہ ہی مکمل طور پر آزاد رہ کر لکھنے کی اجازت حاصل تھی،اس کے باوجود بڑی جرات و بے باکی سے عوامی شعور کو بیدار کیا اور انگریزوں سے آزادی کی روح بیدار کی۔

اس عہد کے اخبارات میں دہلی اردو اخبار کا کارنامہ سب سے زیادہ نمایاں نظرآتا ہے کیونکہ ملک کی آزادی کے لیے جس صحافی نے اپنی جان قربان کی وہ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر تھے،ساتھ ہی شہادت کا یہ اعزاز اردو کو ہی حاصل ہوا۔1857 تک یہ اخبار تقریباً اپنی بیس سالہ زندگی طے کرچکا تھا جس میں بہت ہی زیادہ متوازن رہ کر مولوی محمد باقر نے صحافتی خدمات انجام دیں۔ مولوی محمد باقر کا تعلق قلعے سے تھا اور قلعے والوں میں محتر م بھی تھے۔ غالب، مومن، ذو ق و شیفتہ بھی اس اخبار کے قدر دانوں میں تھے۔ انگر یزوں کے دبدبے سے ہر خاص و عام خائف تھا تو لازمی تھا ایک صحافی اور مؤقر شہر ی بھی اپنے جذبات کا اظہار کرے اور اپنے قلم سے سلاح کا کام لے۔ جب 10 مئی کو میرٹھ سے بغاوت ہوئی اوروہاں سے سپاہی 11 مئی کو دہلی پہنچے اور پوری دہلی شورش و ہنگامے کی لپیٹ میں آگئی، مغلیہ حکومت کا علامتی چراغ بھی بجھ گیا۔ ایسے حالات میں ایک ہفتے بعد جب دہلی اردو اخبار کا شمار ہ منظر عام پرآتا ہے تو وہ ایک بدلا ہوا مجاہد آزادی کا اخبار نظر آتا ہے۔ شہ سر خی میں انقلاب کی خبر کا عنوان ہوتا ہے ’قل فاعتبروایا اولی الابصار‘ اس کے بعد عربی میں ایک مکمل خطبہ آٹھ کتابی سطروں کے برابر ہے جس میں خدا کی قہاریت و غفاریت کا بھی ذکر ہے پھر ڈیڑھ صفحات پر خبر سے پہلے ایک جوشیلی تحریر موجود ہے، جبکہ دہلی اردو اخبار کے 1940 کے شماروں میں کسی بھی خبر پر خطبہ نظرنہیں آتا، جس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بغاوت کی خبر کو کن جذبات سے پیش کررہے تھے۔ اس زمانے میں اداریہ لکھنے کا رواج نہیں تھا خبر کے شر وع میں ہی مدیر کچھ رد عمل کا اظہار کردیا کرتا تھا، اس خبر کے شروع میں انگریزوں کو مخاطب کر تے ہوئے لکھتے ہیں ’’ وہ حکام ظاہر الاستحکام جن کے استقلال حکومت و انتظام کے زوال کا نہ ان کو خیال تھا اور نہ کسی غفال کو وہم و گمان کبھی آسکتا تھا ایک طرفۃ العین میں وہ نمایاں ہوگیا۔ ‘‘ اس تمہید کے بعد 11 مئی کی بغاوت کی پوری تفصیل دی گئی ہے جو کتاب کے کئی صفحات پر مشتمل ہے۔ خبر ایسی جزئیات نگاری سے لکھی گئی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔بغاوت کی خبروں کا یہ انداز 24 مئی کے شمارے میں بھی جاری رہا۔ جس میں مولوی محمد حسین آزاد کی نظم ’تاریخ انقلاب عبر ت افزا ‘ بھی چھپتی ہے۔ اس کے بعد دو شمارے اور شائع ہوتے ہیں، پھر 12 جولائی سے بہادر شاہ ظفر کی مناسبت سے اس کا نا م ’اخبار الظفر‘ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بغاوت کے بعد مولوی محمد باقر مکمل طور پر بہادر شاہ ظفر کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں شریک ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے معاون کے طور پر سرگرم رہتے ہیں، جس میں مال گزار ی کے خزانے کو بہ حفاظت لانے کی خوشی میں بہادر شاہ ظفر نے ان کے اخبار کا نام اخبار الظفرکردیا تھا۔ اس نام سے دس ہی شمارے نکلے تھے کہ مولوی محمد باقر نے 16 ستمبر کو جام شہادت نوش فرمایا۔

 دہلی اردو اخبار کے بعد ’سید الاخبار‘ (جاری 1837) کو دہلی کا مؤقر اخبار مانا جاتا ہے۔ مالک تو سرسید کے بڑے بھائی سید محمد خاں تھے لیکن اس کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفور کو بنایا گیا، کیونکہ سید محمدخاں سر کاری ملازم تھے، لازم ہے کہ سرکار میں رہتے ہوئے وہ سرکار کے خلاف لکھنے سے رہے اس لیے انھوںنے ایڈیٹر منتخب کیا۔ مولوی عبدالغفور کا تعلق قانون داں حضرات سے اچھا تھا اس لیے ان کا یہ اخبار وکیلوں میں بھی مقبول تھا۔ یہ1848 تک جاری رہا۔ 1846 میں بھائی کے انتقال کے بعد سرسید نے ہی ذمے داری سنبھالی اور بقول حالی ’’ سید الاخبار کا اہتمام برائے نام ایک اور شخص کے سپر د تھا، مگر زیادہ تر سرسیدخود اس کے مضامین لکھا کرتے تھے۔ ‘‘ اخبار کا مزاج کیا تھا وہ آپ سر سید کی بصیرت سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیںبلکہ تہذیب الاخلاق کی جھلک اس اخبار میں دیکھ سکتے ہیں جس میں سماجی اور تاریخی مواد شائع ہوتا تھا۔

بنارس سے 1852 میں بابوکاشی داس متر ’ آفتاب ہند ‘ ہفتہ واری اخبار جاری کرتے ہیں۔اس اخبا ر کی بھی کوئی الگ خصوصیت نہیں تھی۔کمپنی کے ساتھ بھی تھااور ہندوستانی ہونے کا فرض بھی ادا کرتا، اس لیے انگر یزی حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ آتا تو اس کو کام میں ضرور لاتا۔ یہ  عام خبر وں میں نہیں بلکہ ان خبروں میں ہوتا جہاں معاملہ ہندوستانیوں اور انگریز وں کے مابین ہوتا جیسے شکاری انگریز کی گولی سے ایک ہندوستانی مر گیا۔ عدالت نے اس پر انگریز کو صرف ایک سال کی قید محض کی سزا دی جس پر رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبار خبر کے اخیر میں لکھتا ہے ’’ صاحب جج بہاد ر نے ان کے حق میں یہ حکم صادر فرمایا کہ تین مدعا علیہ رہائی پاویں و مسٹر مسلی صاحب ایک برس تک بلا محنت مقید رہے اور مجر م کو یہ تسلی دی گئی ہے تم کو قید میں کچھ تکلیف نہ ہوگی سیر کتب بخوبی کیا کرو... اس کو عدالت شاہی کہتے ہیں کہ جس میں جانِ رعایا جاوے اور داد خواہ داد نہ پاوے ... اگر کسی ہندوستانی سے ایسا جرم سرزد ہوتا تو بیشک سزا کو پہنچتا...‘‘ اخبارکے آخری دوجملے ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکانے میں معاون ہورہے ہیں جو اخبارات وقتاً فوقتا لکھتے رہے۔

اس عہد میں کئی ایسے اخبارات نکلے جن کے مالکان انگریز تھے یا بظاہر وہ اخبارات انگر یز حامی تھے لیکن ان اخبارات نے بھی انگر یزوں کے خلاف ہندوستانی عوام کو بھڑکانے میں مدد کی۔ جیسے اردو کا پہلا اخبار ’ جام جہاں نما‘  جسے انگریزوں نے اپنے مفاد کے لیے نکالا تھا۔ یہ اخبار کبھی ارد و اور کبھی فارسی میں نکلتا رہا۔ اس اخبارمیں وطن دوستی کے گہرے جذبات پر مواد شائع ہونے لگا۔ مزید یہ کہ اس اخبار نے پنجاب کی سکھ ریاست پر انگریزوں کے حملے کے ارادے کی خبر کو بہت پہلے شائع کردیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستانیوں میں مزید بے چینی پھیلی اور انگریزوں سے تنفر بھی بڑھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اخبار مشکل سے چھ برس پورا کرسکا اور بند ہوگیا۔ انگریزوں کی سر پرستی میں نکلنے والا ایک اخبار ’ کوہ ِ نور‘ بھی تھا جو 14 جنور ی 1850 کو لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے مالک ہرسکھ رائے تھے۔یہ مجاہدین آزادی کی پکڑ دھکڑ، املاک کی ضبطی، مکانوں کے انہدام، مقدمات نیز سزاؤں کی خبریں بڑی تفصیل سے شائع کرتا تھا۔ اس کابھی اثر الٹا ہو ا کہ انگریز دشمنی کی چنگاری کو مزید بھڑکایا گیا۔ ’ کوہ نور ‘  کے مالک ہر سکھ رائے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اخبارکی پالیسی سے اس قدر بیزار ہوئے کہ علاحدگی اختیار کرلی اور اپنا الگ سے اخبار نکالا جس میں بہت ہی شدت سے انگریزوں کی مخالفت کی اور گرفتار کرلیے گئے۔ 1851 میں سیالکوٹ سے ’ریاض الاخبار ‘ نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مالک منشی دیوان چند تھے جنھیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ مذکورہ اخبار کے علاوہ انھوں نے چشمۂ فیض، خورشید عالم، ہمائے بے بہا، نور ً علیٰ نور اور وکٹوریہ پیپر بھی جاری کیا۔ ان سب کے نام سے ہی ظاہر ہورہا ہے کہ انھیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن قارئین کا نتیجہ انگریز مخالف کے طور پر سامنے آتا تھا۔ پنجاب سے ایک اخبار ’پنجاب پنج ‘ مولوی کریم الدین سنبھلی نے جاری کیا تھا۔ یہ رومن رسم الخط میں شائع ہوتاتھا۔ اخبار کے ایک شمارے میں انھو ں نے انگریز کی سرپرستی کا اظہار بھی کیا ہے جو کچھ اس طر ح ہے ’’ انھیں ایک شریف، سخن پر وراور نہایت فیاض حاکم کی امداد حاصل ہے ‘‘۔ اخبار ات کے علاوہ اس زمانے میں کئی رسائل بھی نکلے جن میں ایک ’خیر خواہ ہند‘ ہے جو 1837 میں مرزا پور، بنارس سے جاری ہوا تھا۔ اس کے ایڈیٹر ایک پادری آر، سی ماتھر تھے۔اس میں عیسائی تبلیغ کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ غدر سے پہلے ان اخبار ات کا رول دیگر کے مساوی تھا یعنی انگریزوں کے خلاف کچھ بھی ہاتھ لگ جاتا تو اس سے ہندوستانیوں کے دل میں نفرت پیدا کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے اور بظاہر کمپنی کے طرفدار وں میں بھی شمار ہوتے تھے۔ الغرض اس قسم کے اور بھی کئی اخبارات ہوں گے جنھیں انگریزوں کی سرپرستی حاصل رہی ہوگی لیکن قارئین کے مد نظر وہ بھی خبر وں کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ جس سے انگریز دشمنی میں اضافہ ہی ہو۔عتیق صدیقی اس عہد کے اخبارات اور خبر وں کے متعلق اپنی کتاب ’ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہدمیں ‘ میں لکھتے ہیں

 ’’ 1857 کے اوائل کے ہندوستانی اخباروں میں عموماً اور اردو اخبارات میں خصوصاًانگریزوں اور ایرانیوں کی خبریں اس کثرت سے شائع ہوتی تھیں کہ جس کا کوئی حد و حساب نہیں تھا۔ان خبروں کا مواد اور ان کے پیش کرنے کا انداز اعلانیہ انتہائی انگریز دشمنانہ ہوتا تھا۔‘‘

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’ہندوستانی اخبار نویسی کی ابتدائی تاریخ کا اگر (بہ) غائر مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانی اخبار نویسی کا مزاج ابتدا ہی سے باغیانہ تھا۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستانیوں نے فارسی،بنگلہ، اردو، ہندی اور انگریزی اخبار جاری کرنا شروع کیے۔ یہ سیدھے سادے معصوم سے اصلاحی اخبار ہوتے تھے۔ ان میں خبریں بھی ہوتی تھیں مگر بظاہر غیر سیاسی قسم کی۔ لیکن ان کے انداز بیا ن اور ان کے مواد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کی گہرائی میں غم و غصے کے دبے ہوئے طوفان نظر آئیں گے۔‘‘

 اٹھار ہویں صدی کی آخری دہائی اور اخبارات نکلنے سے پہلے ہی سے انگریزوں کے خلاف ماحول بن چکا تھا، لیکن انگریزوں نے اپنے موافق ماحول سازی کے لیے اخبارات جاری کیے جس کے خریدار وہ خو د ہوا کرتے تھے اور کچھ معزز افراد، اس سے ماحول تو بنا نہیں بلکہ کمپنی کی خبر وں سے کمپنی کے خلاف ہی ماحول بنتا گیا۔ جب اخبار ات کا اضافہ ہوا اور عام ہندوستانی خرید کر پڑھنے لگے تب اخبار کی نوعیت بدلنے لگتی ہے اور ہندوستانی نمائندگی غالب آجاتی ہے، جس کی پاداش میں مالکان پر طرح طرح کے ستم ڈھائے جاتے ہیں جن میں سے ’دہلی اردو اخبار‘ کا ذکر ہوچکا ہے، دیگر چند اخبار ات کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

صادق الاخبار‘ دہلی سے شائع ہوتا تھا جس کے مدیر مولوی جمیل الدین تھے۔ اس اخبار کا مقصد ہی جنگ آزادی کی بھر پور حمایت تھی جس کے ضمن میں انگریزوں کے خلاف تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ جس میں اشاروں کنایوں میں انگریزوں کو نیست و نابود کرنے کی ترغیب بھی ہوتی تھی۔حب الوطنی کے معاملے میں اس قدر متشدد تھے کہ انگریزوں سے ذرہ برابر بھی ہمدردی گوا را نہیں کرتے، انہی رویوں کے باعث وہ عتاب کا شکار ہوئے اور گرفتار کرلیے گئے۔ تین سال قید کی سزا کاٹی نیز جائیداد بھی ضبط کرلی گئی۔

گلشن نو بہار‘ عبدالقادر کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہوتا تھا۔ یہ اگرچہ فارسی میں تھا لیکن اس میں اردو میں بھی خبریںشائع ہوتی تھیں۔مدیر نے اخبار ایکٹ کی خلاف ورزی کر تے ہوئے باغیانہ مضامین چھاپنا شروع کردیے، اودھ جب انگریزوں کے قبضے میں آگیا اس کے بعد جو حالات اودھ کے ہوئے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔انگر یزوں نے کارروائی کی،اخبار بند کروا دیا اور چھاپہ خانہ بھی ضبط کرلیا گیا۔

منشی نولکشور کے ’اودھ اخبار‘ کا ذکر بھی ناگزیر ہوگا جنہوں نے اردو صحافت کو نئی راہ دی۔ یہ اخبار بظاہر انگریز دشمنی میں تو شامل نہیں تھا لیکن خبروں میں جب بھی موقع ملتا توکوئی رعایت نہیں کرتا تھا۔ اس اخبار نے انگریز سرکار کی بدانتظامیوں پر کھل کر نکتہ چینی کی، نوابوں اور بادشاہوں کی عیاشیوں کے خلاف بھی لکھا، گویا کہ اس نے معاشرتی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔انگریز دشمنی کا یہ حال تھا کہ انگریزوں کو آستین کا سانپ لکھتا۔ مجاہدین آزادی کی خبروں کو تفصیل سے شائع کرتاجیسے اندور کے مجاہد آزادی سعادت خاں، پونہ کے مجاہدآزادی رام پرشاد،رام پور کے مجاہد آزادی نیاز احمد اور امیر خاں کی گرفتاری، چلائے گئے مقدمات، قید با صعوبت اور پھانسی کی سزا کی خبروں کو تفصیل سے شائع کرتا جن سے عوام میں انگریزوں کے خلاف بے چینی مزید بڑھتی۔

لکھنؤ سے ایک فارسی اخبار ’سلطان الاخبار‘ 1835   میں رجب علی سر و ر (صاحب فسانۂ عجائب نہیں ) کی ادارت میں شائع ہوا، اس اخبار کا ذکر کرنا مناسب ہوگا، کیونکہ اس کا رویہ اس زمانے کے دیگر فارسی اخباروں کے بالکل بر عکس تھا۔ اکثر فارسی اخبار سرکار انگلشیہ کی پالیسیوں پر عمل در آمد کرتے تھے، لیکن اس نے شروع سے ہی علَم ِ بغاوت بلندکیا۔ اپنے پہلے شمارے میں چھوٹی بڑی اٹھارہ خبریں شائع کرتا ہے، جس میں دوسری خبر ’ خبر عدالت صدر کلکتہ‘ ہے، انگریزوں کی ناانصافی کی عبر ت انگیز مثال بھی ہے۔ یہ خبر چھاپنا یقینا بڑی ہمت کا کام تھا۔رجب علی سرور کا یہ رویہ بعد کے شماروں میں بھی ملتا ہے جہاں وہ انگر یز و ں کے ذہنی و جسمانی ظلم و ستم کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے متعلق عتیق صدیقی لکھتے ہیں :

’’رجب علی لکھنوی پر زور قلم کے مالک تھے۔ لیکن ان کو فکرو نظر کی وہ بلندی نہیں ملی تھی جو رام موہن رائے کے حصے میں آئی تھی۔ وہ کھلی دوستی اور کھلی دشمنی کے قائل تھے۔ وہ خود تو حسینی نسب تھے،لیکن قلم کا انداز چنگیزی تھا۔‘‘

اس عہد میں بر صغیر سے اردو اخبارات جاری ہوئے، جنوب میں اردو اخبارات کا مرکز مدراس رہا۔ وہاں سے اردو کا پہلا اخبار ’ اعظم الاخبار ‘ 1848 میں جاری ہوا۔یہ اخبار مسلمانوں میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم کو بھی ضروری قرار دیتا ہے، جس سے مسلمانوں کی معیشت مضبوط ہوسکے۔ مدراس سے ہی ایک ہفتہ وار اخبار ’ تیسیر الاخبار‘ 1849 میں جاری ہوتا ہے جس کے مالک حکیم عبدا لباسط عشق تھے۔ دیگر اخباروں کی طرح اس کا بھی پہلا کالم انگریزوں کی خبروں کے لیے مختص ہوتا تھا۔ 1849 میں ’آفتاب عالم تاب‘ اور 1852 میں ’جامع الاخبار ‘ ہفتہ واری جاری ہوتے تھے۔ ان اخبارات سے انگریزوں کی مداخلت اور ہندوستانیوں کے ساتھ معاملات کا بھی ذکر ملتا ہے۔

غدر کے سال کے اخبارات کے متعلق عتیق صدیقی لکھتے ہیں ’’ اس وقت ہمارے سامنے 1857 کے، جنوری سے ستمبر تک کے، مختلف اردو اخباروں کے جستہ جستہ شمارے ہیں۔ ان کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے آسمان پر 1857 کے اوائل ہی سے بغاوت کے بادل جمع ہونے لگے تھے اورساتھ ہمارے اخباروں کا لہجہ تلخ حد تک تند و تیز ہونے لگا تھا۔ ‘‘

الغرض اخبارات کی اس چھوٹی سی جماعت نے وہ بھر پورقربانی دی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے، انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی کا بگل بجانا ان ہی کا کارنامہ تھا۔ دیگر زبانوں کے اخبارات کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اردو اخبارات ذہن و دل کی تشکیل میں پیش پیش رہے۔ کیونکہ اردو کا مزاج ہی دیگر ہے۔بقول ظ۔انصاری :

 ’’ مزاج اس زبان کا بہر حال سوداوی ہے اسے گرمی جلدی چڑھتی ہے اور موسم بھی گرم ہو (کسی سیاسی یا ہنگامی مسئلے پر )تو اس کے بدن سے پسینے کے فوارے اور بھپکے چھوٹتے ہیں۔ …گرم مزاجوں کو اس زبان کی صحافت راس آئی ہے۔ آتی ہی ہے۔ جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو کا منظر ہماری زبان کی صحافت میں الٹا چل رہا ہے۔ یہاں اخبار کے میدان کارزار میں توپ نکالی جاتی ہے۔


Dr Amir Hamzah

Madarsa Mohallah

P.O Nawad. Via. Bishsungarh

Distt. Hazaribagh -  825312 (Jharkhand)

Mob.: 8877550086

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں