18/10/22

آزادی کی جنگ اور روہتاس: اے کے علوی


 ہندوستان میں انگریز استعمار کے خلاف جب جنگ کا آغاز ہوا تو اس میں مختلف علاقوں اور طبقات کے لوگوں نے شرکت کی۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی اور دیگر طبقات کے لوگوں نے آزادی کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ کچھ علاقے تحریک آزادی کا اساسی مرکز تھے مگر ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد تھی جنھوں نے خاموشی کے ساتھ انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ بہار کے بہت سے علاقوں اور اضلاع میں بھی انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ انہی میں ایک ضلع سہسرام (روہتاس) بھی ہے۔ روہتاس ویدک عہد میں کاروش علاقہ کہا جاتا تھا۔ یہ مشرق مغرب جنوب میں سون ندی اور مغرب جنوب میں وندھیا سلسلۂ کوہ سے گھرا ہوا ہے۔ یہ سرزمین بھی رشی منیوں اور جانبازوں کے علاقے کے طور پر مشہور ہے۔ راجہ ہریش چندر کے بیٹے کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے۔ 635 عیسوی میں روہتاس کے حکمراں ادے سین تھے، یہ جانکاری بھبھوا کے قریب منڈیشوری دیوی کے سنگی کتبے سے ملتی ہے۔ گیارہویں صدی میں اس سرزمین پر راج پرتاپ دھول کی حکومت تھی جو تاراچندی اور تتراہو کے سنگی کتبے سے ثابت ہوتا ہے۔

قرون وسطیٰ میں شیر شاہ، مان سنگھ، ہیمو اور خرم وغیرہ سے یہ ضلع  منسلک رہا ہے۔ اس کو شہرت شیر شاہ سوری کی وجہ سے مل پائی۔روہتاس بہت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ادب کے شعبے میں یہاں بھوجپوری، ہندی اور سنسکرت میں کئی شاعر و ادیب ہوئے جن میں ملکی سطح پر راجہ رادھیکا رمن پرشاد سنگھ، شری رام سوروپ پاٹھک اور موسیقی کے شعبے میں گھنا رنگ جی نے اپنا مقام بنایا ہے۔ روہتاس ضلع کا قدیم نام شاہ آباد (آرہ) تھا۔ 10 نومبر 1972میں  اس کی تقسیم ہوئی۔ شاہ آباد کے جنوبی حصے کو روہتاس ضلع کی شکل میں منظوری ملی۔ اس وقت یہاں دو سب ڈویژن تھے، سہسرام اور بھبھوا ۔ سون بھدر کے مغربی کول اور کرم ناشا کے مشرقی ساحلی علاقوں کو روہتاس کہا جاتا ہے۔  اس علاقے سے تعلق رکھنے والوں نے بھی ہندوستان کی آزادی کے لیے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت دی۔

1857کے انقلاب میں بھارت کی آزادی کی تحریک میں برطانوی سامراج کے خلاف مخالفت اور جدوجہد میں 80سال کی عمر میں بابو ویر کنور سنگھ داناپور کے باغی سپاہیوں کی قیادت کرتے ہوئے گرانڈ انگریز جنرل کو لڑائی میں پکڑتے ہیں اور اس جیت کا حقدار اپنے سپاہیوں کو  بناتے ہیں۔ بابو ویر کنور سنگھ کے اہم معاون میں چھوٹے بھائی امر سنگھ، بھتیجے رِتورنجن سنگھ، ہری کشن سنگھ، روہتاس ضلع شیو ساگر بلاک کے بڈّی گائوں کے نشان سنگھ، روہتاس بلاک اکبرپور گائوں کے دلاور خاں جیسے لو گ تھے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین میں نشان سنگھ، حاجی بیگم، دلاور خان، عبدالقیوم انصاری، جگن ناتھ پرشاد سنگھ، مسیح الزماں انصاری، ننہکو میاں، بابو پہلوان سنگھ، سیتا رام دویدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

مجاہد آزادی نشان سنگھ1782 میں پیدا ہوئے۔ 1857 کے انقلاب میں آزادی کی تحریک میں انگریزوں کے خلاف بابو ویر کنور سنگھ کے اہم معاون تھے۔ انھوں نے1857 میں راناپور چھائونی کے باغی سپاہیوں کی قیادت کی۔ آرہ جیل کا پھاٹک توڑ کر جنگ آزادی کے قیدیوں کو آزادی دلائی، کرو یا مرو کا عزم کیا، انگریزوں کے ساتھ آرہ، ببی گنج کی لڑائی میں جوہر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے لیے لڑے، انھیں موت کے گھاٹ اتارا۔ بابو ویر کنور سنگھ کی شہادت کے بعد نشان سنگھ ڈومرکھار کے قریب کھری گھاٹ کی کاگ شیل نام کی گپھا میں رہ رہے تھے۔ انگریزوں کو پتہ چلتے ہی 5جون 1858 کو سہسرام کے مجسٹریٹ کال نے انھیں حراست میں لے کر بغاوت کا مقدمہ چلاکر 7جون 1858 کوگورکچھنی سہسرام میں توپ کے منھ پر باندھ کر اڑا دیا اور نشان سنگھ کی شہادت ہوئی۔ آج نشان سنگھ لائبریری اسی مقام پر کامیابی کے ساتھ قائم ہے۔ نشان سنگھ کے نام پر ہائی اسکول، نشان نگر بڈی اور بیدا واقع بڈی روڈ میں نشان سنگھ دروازہ قائم ہے۔

مجاہد آزادی حاجی بیگم ریاست بہار کی پہلی خاتون مجاہد آزادی تھیں۔ جنگ آزادی میں جھانسی کی رانی کے بعد دوسرا مقام حاجی بیگم کا ہی تھا۔ پٹھان ٹولی سہسرام واقع اپنے محل میں رہ کر وہ گھڑسواری اور تلوار بازی کے کرتب سیکھ کر ماہر ہوگئی تھیں۔ 1857کی جنگ میں بابو ویر کنور سنگھ کا تعاون کرتی رہیں اور ایک بہن کی طرح راکھی بھی باندھتی تھیں۔ بابو ویر کنور سنگھ، امر سنگھ سہسرام جگدیش پور سے حاجی بیگم کے یہاں آئے ہوئے تھے۔ سہسرام کے بیکر نام کے انگریز مجسٹریٹ کو معلوم ہوگیا تو وہ رجمنٹ فورس لے کر حاجی بیگم کے محل پر پہنچ گیا اور حملہ کردیا۔ گھمسان جنگ پٹھان ٹولی سے لے کر آدم پور کے میدان تک چلی۔ حاجی بیگم تلوار لیے گھوڑا پر سوار انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہیں۔ سیکڑوں انگریز سپاہی مارے گئے۔ انگریز فوج بھاگ گئی اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حاجی بیگم نے بابو ویر کنور سنگھ اور امر سنگھ کو روہتاس کیمور کی پہاڑی ہوتے ہوئے مرزا پور پہاڑی سے محفوظ نکالا اور آزادی کی لڑائی لڑتی رہی۔ دوسری بار انگریزی فوج نے حاجی بیگم کے محل کو لوٹ کر توپ سے اڑا دیا۔ کھنڈر محل کو چھوڑ کر حاجی بیگم خرم آباد چلی گئیں۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1859 کو ہوا۔ ان کا مزار پٹھان ٹولی میں ہے۔ اردو کی کتاب میں ان کی زندگی پرمبنی کئی اہم واقعات شامل کیے گئے ہیں۔

مجاہد آزادی دلاور خاںروہتاس بلاک کے اکبرپور ویر کنور سنگھ کے معاون فوج کے اہم جنگجو تھے۔ آرہ فتح میں ان کا اہم کردار تھا۔ انھیں سہسرام میں روضہ روڈ میں پیڑ سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔

مجاہد آزادی عبدالقیوم انصاری 1921 کے ’سہیوگ آندولن‘ میں سرگرم رہے۔ جنگ آزادی میں حصہ لینے کی وجہ سے فروری 1922 کو ڈہری میں انگریزوں نے انھیںگرفتار کرکے سہسرام جیل بھیج دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا آزاد، سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر راجندر پرساد، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے رہتے ہوئے آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد بہار کابینہ میں وزیر بنائے گئے۔

مجاہد آزادی جگن ناتھ پرساد سنگھ کی پیدائش 4جولائی 1914 کو دریگائوں شیوساگر بلاک میں رَن بہادر سنگھ کے یہاں ہوئی جو ان کے والد تھے۔ پٹنہ کالج کے طالب علم رہے اور سائمن کمیشن کی مخالفت کرنے پر پٹنہ میں جیل بھی گئے۔ 1942 کی آزاد کرانتی میں حصہ لیا۔ 1944 میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے۔ ملک کی آزادی تک سرگرم رہے۔ آزادی کے بعد 1947سے 1957تک بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ 1968سے 1974 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔ وزیر بھی رہے۔ ان کا انتقال 17 نومبر2004کو ہوا۔

مجاہد آزادی مسیح الزماں انصاری کی پیدائش شیو ساگر تھانہ کے نوڈیساں (رائے چور) گائوں میں 1910 میں ایک بنکر خاندان میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ خانقاہ کبیریا میں ہوئی۔ طالب علمی کی زندگی سے ہی حب الوطنی ان کے شہ رگ میں تھی۔ وہ اکثر آزادی کی مجلسوں وغیرہ میں شامل ہوتے رہتے تھے۔ جب سبھاش چندر بوس سہسرام آنے والے تھے، ان کی تقریر کو سننے کے لیے صبح سے ہی حسن خاں سور روضہ کے میدان میں مسیح الزماں حاضر ہوگئے تھے۔ انھوں نے عبدالقیوم انصاری کی تقریر و شائع ہونے والی تحریر کی چرچہ کرنے میں خود کووقف کردیا۔ اس طرح دھیرے دھیرے لوگوں میں ان کی پہچان بن گئی۔ یہ عبدالقیوم انصاری کے ساتھ مومن کانفرنس کے اجلاسوں میں شامل ہوتے رہے۔ انصاری صاحب بھی انھیں پٹنہ، کولکاتہ، الٰہ آباد، رانچی وغیرہ مومن کانفرنس کے اجلاسوں میں ساتھ لے جاتے۔ انصاری صاحب مسیح الزماں انصاری پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ مسیح الزماں صاحب مومن کانفرنس کی تنظیم سے جڑ گئے۔ عبدالقیوم انصاری سہسرام سے اردو کا ایک رسالہ ’افکار‘ نکالا کرتے تھے جس کے ایڈیٹر وہ خود تھے لیکن پرنٹرو پبلشر مسیح الزماں انصاری تھے۔ اس اردو رسالے کے ذریعے مسلمانوں میں ملک کی آزادی کے تعلق سے بیداری پیدا کی جاتی رہی۔ کچھ ہی برسوں میں اس رسالے نے دھوم مچا دی۔ اس وجہ سے برطانوی حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت اس رسالے پرپابندی لگا دی۔ جس سے انصاری صاحب و مسیح بھائی کو رانچی جیل بھیج دیا گیا۔ مولانا آزاد بھی وہیں بندتھے۔ 85 برس کی عمر میں دسمبر1995 میں مسیح الزماں انصاری کا انتقال ہوگیا۔

مجاہد آزادی ننہکو میاںآزادی کے دیوانوں میں سب سے آگے رہنے والوں میں تھے۔’بھارت چھوڑو آندولن‘ میں گاندھی جی کی آواز پر انھوں نے سرگرم طو رپر حصہ لیا تھا۔ 1942 میں جیل جانے کے بعد اس وقت کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ ایچ بی مارٹن نے 3 فروری 1943 کو جی آر 1197میں گرفتار کرکے انھیں چھ ماہ بامشقت قید اور 150روپے جرمانے کے ساتھ سزا دی تھی۔ حاجی صاحب کے خاندان میں آج کے دن تقریباً دو سو رکن ہیں۔ جن میں ان کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ صدرجمہوریہ ہند کے ذریعے ’تامر پتر‘ سے نوازے گئے حاجی ننہکو میاں کی پیدائش یکم جنوری 1898 کو ہوئی۔ 15 اگست کو ان کے انتقال کے بعد ضلع انتظامیہ کی موجودگی میں ان کے آبائی مقام سے سرکاری اعزاز اور فوجی دستوں کے توپوں کی سلامی کے بعد چیناری کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

 مادر وطن پر انگریزوں کی بربریت اور جابرانہ رویے کو دیکھتے ہوئے ناقابل برداشت  طوق غلامی کو نکال پھینکنے کے لیے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی آواز کرو یا مرو ’’انگریزو بھارت چھوڑو‘‘ کا نعرہ سن کر سربکفن ملک کے لاکھوں کروڑوں مجاہد آزادی نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔انھیں سرفروش مجاہدوں میں رہتاس ضلع کے چناری تھانہ کے چالیس مجاہد آزادی جو سپرد خاک ہوگئے، لیکن ان کے نام آج بھی چناری بلاک اور گاندھی چوک پر سنگ مرمر میں کندہ ہیں۔ یہ سبھی جاں فروش 15اگست  1942میں ہزاروں تماشہ بین کے ساتھ آزادی کا ترنگا اپنے کندھے پر لے کر مقامی تھانہ پر آزادی کا پرچم لہرایا اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ انگریزو بھارت چھوڑو کے نعرے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں میں بند کیاگیا اور ہر طرح سے زدوکوب کیا گیا۔1857 کی جنگ آزادی کے دیوانوں کی طرح انھیں بھی انگریز سپاہی گولیوں کا نشانہ بنائے ہوئے بستی اور گائوں کو مشین گن اور توپوں سے اڑاتے۔ اس وقت کا سماں فراموش نہیں کیاجاسکتا جبکہ چناری کے سرگرم مجاہد آزادی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ لے کر انگریز گورے گرفتار کر رہے تھے۔

چناری کے حاجی ننہکو میاں کو اس کی پاداش میں سہسرام کورٹ کے ایس ڈی او ایچ بی مارٹن نے کیس نمبر 1197میں چھ ماہ بامشقت اور ایک سو پچاس روپے مالی جرمانہ کی سزا سنائی اور جرمانہ نہیں دینے پر 9ماہ کی قید سنائی۔ پھر بھی عظیم مجاہد آزادی اور محب وطن نے تحریک آزادی جاری رکھی۔ 15 اگست 1947کو ملک آزاد ہوگیا۔ مجاہدین آزادی کی دلی خواہش پوری ہوئی۔

105سال کے مجاہد آزادی حاجی ننہکو میاں یوم آزادی 15 اگست 2002کو ضلع مجسٹریٹ کی دعوت پر گئے اور پرچم کشائی کے وقت ہی انتقال کر گئے۔ سہسرام کے ایس ڈی او کشوری شاہ نے ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر ان کے آبائی گائوں چناری لے کر آئے اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ گلپوشی اور توپوں کی سلامی کے بعد ہزاروں عقیدت مندوں نے امارت شرعیہ کے امیر مولانا نظام الدین کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی اور سپرد خاک کردیا۔ ننہکو میاں نے جب آخری سانس یوم آزادی کے موقع پر منچ پر لی تھی تب ضلع انتظامیہ کے ذریعے ننہکو میاں کے نام پر پارک بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

مجاہد آزادی بابو پہلوان سنگھاجینی راجپوت اور زمیندار تھے۔ یہ گڑھ نوکھا کے باشندے تھے۔ مانا جاتا ہے کہ بابو پہلوان سنگھ سنت کوی دریاداس کے شاگرد تھے۔ پہلی جنگ آزادی میں ان کا کردار قابل تعریف رہا ہے۔ انھوں نے ویر کنور سنگھ کی بھررپور مدد کی تھی۔ ان کی موت ممکناً غازی پور میں زمیندار بلونت کے یہاں ہوئی۔

مجاہد آزادی سیتارام دویدی نے بھی 1857 کی جنگ آزادی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انگریزوں نے انھیں قید کرکے پٹنہ جیل بھیج دیا ۔ انھیں وہاں بہت اذیتیں دی گئیں، جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔

1942 کی کرانتی میں روہتاس ضلع کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ یہ انقلاب مہاتما گاندھی کی سرپرستی میں ہوا تھا۔ اس انقلاب میں کئی لوگ شہید ہوئے تھے۔ کچھ ایسے بھی شہید ہیں جن کا نام روہتاس کے صفحات پر تو نہیں مگر تاریخ کے صفحات پر ضرور ہیں۔ ان کا تعارف اس طرح ہے

جگدیش پرساد بچری گائوں (پیرو) بھوجپور کے باشندے تھے۔ موت کے وقت ان کی عمر تقریباً20برس تھی۔

مہنگو رام سہسرام کے تھے جن کی عمر تقریباً22برس تھی۔

گیا رام سنگھکئوپا گائوں کے باشندہ تھے۔ موت کے وقت ان کی عمر 30برس تھی۔

جگن ناتھ رام سہسرام کے باشندہ تھے۔ان کی عمر19سال تھی۔

راماشیش سنگھ سہسرام کے باشندہ تھے۔

ان کے علاوہ جنگ آزادی کی تحریک میں شہید ہونے والوں میں لکشمن سنگھ گونڈ (سپولہ گنج، سہسرام)، لکشمن اہیر (چنورتکیا سہسرام)، تری بھووَن مہتو(بھارتی گنج، سہسرام)، سورج دھوبی (سنجھولی)، جھوری کوئری (سنجھولی)، رام چندر سنگھ عرف رندھیر سنگھ (داوتھ) وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ ایسے بھی شہید ہیں جو تاریخ کے صفحات میں گمنام ہوگئے ہیں۔

درج بالا شخصیتوں کے علاوہ روہتاس ضلع کے ماتحت بلاکوں میں اور کئی مجاہدوں نے ملک کی آزادی میںاپنا مکمل تعاون دیا ہے۔ ان مجاہد آزادی کو سرکاری اعزاز اور سہولت دستیاب ہے۔

 

Dr. A. K. Alvi

House No: 01, Ward No: 30, Alvi House

Chokhandi, Sasaram - 821115

Distt.: Rohtas (Bihar)

Mob.: 9304520864

Email.: dr.a.k.alwi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں