17/10/22

جدوجہد آزادی میں اردو صحافت کا کردار: اسدرضا

 

اردو صحافت کی200 ویں سالگرہ سارے ہندوستان میں زور شور سے منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر جدوجہد آزادی میں اردو صحافت کے کردار پر روشنی ڈالنا بے حد ضروری ہے۔اردوصحافت نے انیسویں صدی میں بھی جذبۂ حریت کو اُبھارااور 1857کی پہلی جنگ آزادی میں دہلی اردو اخباراوردیگر اردواخبارات نے انگریزوں کے خلاف غلام ہندوستانیوںکو لام بندکرنے میں اہم رول ادا کیا لیکن بدقسمتی سے یہ جنگ کامیابی سے ہمکنارنہیں ہوسکی لیکن اکثر اردو اخبارات نے انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی اپنی عادت نہیں بدلی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں 1901تا1947تک اردو کے بیشتر اخبارات تحریک آزادی میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے۔ مولانا ظفرعلی خاں کا روزنامہ ’زمیندار‘، مولانا حسرت موہانی کا رسالہ ’اردو معلی‘، بابو دیناناتھ کا ہفت روزہ ’ہندوستان‘، شانتی نارائن بھٹناگر کا ہفت روزہ ’سوراجیہ‘، مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبارات ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘، مولانامحمدعلی جوہر کا روزنامہ ’ہمدرد‘،مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کا روزنامہ ’ہند‘، لالہ لاجپت رائے کا ’وندے ماترم‘، مہاشے کرشن کا ’پرتاپ‘، سوامی پرکاش آنند کا روزنامہ ’بھیشم‘ اور ’ویر بھارت‘ وغیرہ جیسے انقلابی اوروطن پرست اخبارات ورسائل ہندوستانیوں کے دلوں میں تحریک آزادی کی لہر پیدا کرتے رہے۔ ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ اردو صحافت ہی کی دین ہے۔ اسی طرح مجاہدین آزادی نے اردو کا یہ شعرپڑھ کر ہی تختۂ دار کوچوما         ؎            

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

دراصل تحریک آزادی میں اردوصحافت نے قائدانہ کردار اداکیا کیونکہ یہ گنگاجمنی مشترکہ تہذیب کی زبان تھی۔ وہ اردوصحافی مسلمان بھی تھے اور ہندوبھی جنھوں نے اپنے اخبارات، مضامین اور اداریوں سے ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کی۔ بیسویں صدی کی اولین پانچ دہائیوں میں اردو صحافت نے کس طرح تحریک آزادی میں نئی جان ڈالی، اس کا جائزہ ہم ہردہائی میں نکلنے والے اخبارات ورسائل کے تذکرے سے کریں گے۔

بیسویں صدی کی پہلی دہائی یعنی 1901 تا 1910 میں بابو دیناناتھ نے ہفت روزہ ’ہندوستان‘ جاری کیا تھا جس میں اس وقت کے تمام مجاہدین آزادی کے جذبۂ حب الوطنی سے لبریز مضامین اور اداریے شائع ہوتے تھے۔انگریزی سرکار کے ظلم و جبر کے خلاف آوازبلند کرنے میں یہ اخبار پیش پیش تھا۔ لہٰذا انگریزوں کے عتاب کاشکارہوا۔ 1903میں مولانا حسرت موہانی نے ’اردوئے معلی‘ جاری کیا۔ یہ ملک کا پہلاجریدہ تھاجس نے سب سے پہلے انگریزوں سے مکمل آزادی کامطالبہ کیا۔ چونکہ مولانا بیباک صحافی تھے لہٰذاانھیںجیل کی سزا بھی کئی بار کاٹنی پڑی اور انگریزسرکارنے ’اردوئے معلی‘ کو بھی کئی بار بندکیا، اُس کی ضمانت ضبط کی اور ایڈیٹرحسرت موہانی کو سزائیں دیں۔ 1907میں الٰہ آباد سے بابوشانتی نرائن بھٹناگر نے انقلابی اخبار ’سوراجیہ‘نکالا۔ لیکن برطانوی سرکار کے خلاف ایک مضمون شائع کرنے کے الزام میں بھٹناگر صاحب کو دوسال کی سزائے قید دی گئی اور 500روپے کاجرمانہ کیاگیا۔ اس اخبار کے دوسرے مدیر بابو ہری داس کو بھی انگریزسرکارنے سخت سزادی۔ سوراجیہ کے تیسرے مدیر نندگوپال داس کو دس سال کی سزائے قید سنائی گئی۔ چوتھے مدیر لدھارام کودس سال کے لیے کالاپانی بھیجنے کی سزا دی گئی۔ بالآخر فرنگی حکومت نے تحریک آزادی کے اس ترجمان اخبار ’سوراجیہ ‘ کوبالجبربند ہی کرادیا۔ 1907میں ہی بشن نرائن آزادنے ’آزاد‘ نام سے ایک اخبار جاری کیا جوفرنگی سرکار کے ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کرتا تھا۔ جنوری 1907میں اس اخبار نے لکھا ’گورنمنٹ کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جتنی سختیاں ہم پہ کی جائیں گی اُتنی ہی نفرت گوروں کے لیے ہمارے دل میں بڑھے گی۔ قومی شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرہ سے ہزار ہزار جاں نثار پیداہوں گے۔ قید ہمارے لیے فردوس سے کم نہیںکیونکہ ہم قوم کے لیے صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ قید کی تکلیفیںہمارے لیے راحت ہیں۔‘‘ (نیشنل آرکایوز، نئی دہلی،رسالہ’آزاد‘، جنوری1907، ص1)

اس پہلی دہائی میں اردو کے دیگراخبارات وجرائد نے بھی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورصحافیوں نے قیدوبند کی صعوبتیں اورایذائیں برداشت کیں۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی یعنی 1911 تا 1920 میں تو اردو صحافت نے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانامحمدعلی جوہر، مولانامجیدحسن اور مولاناظفرعلی خاں وغیرہ جیسے مجاہدین آزادی صحافی اور ’الہلال‘، ا’لبلاغ‘، ’ہمدرد‘، ’مدینہ‘ اور ’زمیندار‘ جیسے عہد ساز اورجذبۂ حریت سے سرشار اخبارات دیے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے 13؍جولائی 1912 کو اپنا اخبار ’الہلال‘ جو ہفت روزہ تھا نکالا۔اس دہائی میں اردوصحافت انقلابی ہوگئی تھی۔ ’الہلال‘ اور خودمولانا آزاد انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بننے لگے کیونکہ وہ اپنے اخبارمیں انگریزحکومت کے جبرواستبداد اوراستحصال کی پُرزور مخالفت کررہے تھے اوران کالہجہ سخت تھا۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے مولانا سے 8؍ستمبر 1913کو پہلی بار دوہزار کی ضمانت طلب کی۔ لیکن مولانا اپنی تحریروں اور اخبار کے ذریعے جدوجہد آزادی کونئی توانائی عطا کرتے رہے۔ جب وہ اور ان کا حریت پسند قلم راہ جدوجہد سے نہیں ہٹے تو مولانا کے اخبار سے 16؍نومبر1916کو دس ہزار کی ضمانت دینے سے انکار کردیا تو ’الہلال‘ کی پریس ضبط کرلی گئی اور یہ اخبار بندہوگیا۔ لیکن مجاہد آزادی کاقلم کہاں رکنے والا تھا۔ لہٰذا انقلاب آفریں مولانا آزاد نے ایک نیااخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا اور ’الہلال‘ کے نام سے مولانا نے ایک دوسراہفت روزہ اخبار 15؍ نومبر 1915 کو جاری کیا۔ لیکن اس اخبار کے تیور بھی انقلابی اور مجاہدانہ تھے۔ اس اخبار کاہرمضمون عوام کے جوش آزادی میں اضافہ کرنے والاتھا۔ لہٰذا انگریز سرکار نے پھرجبر کا مظاہرہ کیالیکن اخبارکو بندکرنے کی بجائے خودمجاہدآزادی مولانا آزاد کو ہی نظر بند کردیا۔ ان پرکئی طرح کے الزامات عائد کیے گئے۔ اسی دوران انھیں کچھ رہائی ملی تو مولانا نے یکم جون 1927کو پھر سے ’الہلال‘ کی اشاعت شروع کردی۔ لیکن آزادی کی حمایت، فرنگی سرکار کے ظلم وستم کی مخالفت پرجوش مضامین اورسچی خبروں کی وجہ سے چھ مہینے بعد ہی انگریزوں نے ’الہلال‘ کو 9؍ستمبر1927 کو مستقل طورپر بندکرادیا۔ جذبۂ حریت سے سرشار اپنی تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے مجاہدآزادی مولانا ابوالکلام آزاد کو تقریباً چھ بار جیل کی صعوبتیں برداشت کرناپڑیں۔ انھیں مختلف برسوں میں انگریزوں نے مختلف شہروں کی جیلوں میں قیدرکھا۔

مولانامجیدحسن کاہفت روزہ اخبار ’مدینہ‘ نے بھی بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہندوستانیوں کوتحریک آزادی میں شمولیت کی ترغیب دی۔ انگریزوں کے جبروتشدد کی اس اخبار نے جب سختی سے مخالفت شروع کی تو یہ اخبار بھی انگریزسرکار کے عتاب کانشانہ بنا۔ چونکہ اس اخبار میں اکبر الٰہ آبادی،مولانا ظفرعلی خاں، حسرت موہانی اور علامہ اقبال جیسے صحافی وانقلابی ادیب و شاعر لکھتے تھے۔ لہٰذافرنگی سرکارنے اس اخبار کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ اس صورت حال میں اخبارکانام 17؍اگست 1919کو ’یثرب‘ کردیاگیا۔ مگریہ بھی جلد ہی پابندی کانشانہ بن کر بندہوگیا۔ بعدازاں یہ اخبار ایک بار پھر ’مدینہ‘ کے نام سے جاری ہوا۔ جنوری 1917میں یہ سہ روزہ  پھربندہوگیا۔ تاہم اس اخبار نے تحریک آزادی کومہمیز دینے میں قابل قدررول ادا کیا۔

یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگاکہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو صحافت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی تھی کہ اسی دہائی میںپہلی عالمی جنگ 28؍جولائی 1914کو شروع ہوئی جو 11؍نومبر1918کوبندہوگئی۔ انگریزوں کی ہندوستانی حکومت بھی اس جنگ میں شامل تھی اور انھوں نے ہندوستانی فوجیوں کوبھی اس جنگ میں جھونک دیا تھاجس کی مخالفت  ’زمیندار‘، ’ہمدرد‘ اور دیگر اردواخبارات نے کی۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی اسی دہائی میں ہوا۔ چونکہ اردو اخبارات پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور خلافت عثمانیہ کوختم کرنے کی سازشوں سے نالاں تھے، لہٰذا اس دہائی میں ہندوستان میں فرنگی حکومت کی مخالفت میں اردو صحافیوں نے بے خوف ہوکر مضامین، رپورٹیں، خبریں اور اداریے شائع کیے۔ مولانا محمدعلی جوہر کے انگریزی واردو کے اخبار بالترتیب ’کامریڈ‘ اور ’ہمدرد‘ نیزمولاناظفرعلی خاں کا اخبار ’زمیندار‘ اخبار خلافت ’مدینہ‘ اخبار نے جہاں جذبۂ حریت پیداکرنے میں اہم رول اداکیا وہیں ایسے مضامین،نظمیں اوراداریے بھی شائع کیے جن میں پہلی عالمی جنگ کی مخالفت کی گئی تھی اور ہندوستانیوں کو عموماً اورمسلمانوں کو خصوصاً فوج میں نوکری کرنے سے روکا گیاتھا۔ اردو صحافت کی آواز کوکمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے جہاں جبراً اخباربند کرانے اور ضمانت ضبط کرنے کے سلسلے کوجاری رکھا وہیں شدھی اورتبلیغ کی تحریکیں چلواکر ہندوؤں اور مسلمانوں میں ٹکراؤ پیداکرنے کی کوششیں اورسازشیں کیں۔  مولانا محمد علی جوہر نے اس سلسلے میں ہندومہاسبھا اورمسلم تنظیموں مثلاً خلافت تحریک کے لیڈروں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں انگریزوں کی سازشوں کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ تاہم اس کے باوجود اکثرہندومسلمان متحدہوکر انگریز حکومت کی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں یہ بتانابھی مناسب ہے کہ جب کسی اخبار کی ضمانت انگریز حکومت ضبط کرتی تھی تودیگر اردواخبار اوران کے مدیران کرام اس عمل کی مخالفت بھی کرتے تھے اور ظلم وجبر کے شکار اخبار کی مدد بھی کرتے تھے۔ مثلاً جب فرنگی حکومت نے مولانا محمدعلی جوہر کے انگریزی اخبار ’کامریڈ‘ اور اردواخبار ’ہمدرد‘ کی ضمانت ضبط کی اورمزیدضمانتیں طلب کیں تو مولانا آزادنے نہ صرف اپنے اخبارمیں اس کی مذمت کی بلکہ قارئین سے اپیل بھی کی کہ وہ چندہ دے کر مولانا جوہر کے اخبارات کی مددکریں۔ اس سلسلے میں مولانا رقمطراز ہیں:

حکام اپنے ضعف کی بندش زبان شکایت کی بندش سے دور کررہے ہیں، ظلم وجورہو، ستم ہو کچھ بھی ہو مگران کی یہی خواہش رہتی ہے کہ عام نظریں ان واقعات کو دیکھیں، عام سماعتیں ان حوادث کوسنیں، علم ودماغ ان نتائج سے اثرپذہرہوںلیکن نہ زبان پرکوئی لفظ آئے، نہ قلم سے کوئی حرف نکلے۔امتثال میں اگرتخفیف ہواتو تعزیر وتعذیب کی پہلی قسط ضمانت سے شروع ہوگی جو اس ہفتے میں کامریڈ وہمدرد(دہلی) سے دوہزارروپے کی مقدار میں لی گئی ہے۔قارئین الہلال وزمیندار ومسلم گزٹ کایہ فرض ہوناچاہیے کہ اس مقدار کو اپنے مخصوص چندوں سے فراہم کریں۔ میں اس فنڈ میں ایک روپے نذرکرتاہوں۔‘‘

(الہلال،13؍اگست1913)

اسی طرح مولاناظفر علی خاں کے اخبار’زمیندار‘ کوزبردستی بندکرنے اور اس کی ضمانتوں کی ضبطی کی خبر مرادآباد کے اخبار ’مخبر‘ نے نہایت افسوس اور رنج وغم کے ساتھ شائع کی۔ اس اخبار نے لکھاکہ:  

ملک جس طرح یہ افسوس ناک خبرسن چکاہے کہ 13؍جنوری 1914کو زمیندار پریس گورنمنٹ پنجاب کے حکم سے ضبط کرلیاگیا ہے اوراس کی چار مشینیں، ایک انجن اور کل سامان متعلقہ سرکاری حفاظت میں لے لیاگیا ہے اور اس کی سابقہ دوہزار والی ضمانت کی طرح ستمبر کی دوبارہ مدخلہ دس ہزار کی ضمانت بھی بحق سرکار ضبط ہوئی جس سے تخمیناً تیس پینتیس ہزار کا مالی نقصان بھی غلام قادرخاں مالک پریس کو برداشت کرناپڑا۔ ساتھ ہی زمیندار کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

(خبر مراد آباد، 23 جنوری 1914)

دراصل اردوصحافی اور اردواخبارات کے مالکان ومدیران انگریز سرکار کے ظلم وجبر پر خاموش نہیں بیٹھتے تھے جب ایک اخبار پرظلم ہوتاتھا تو سارے اخبارات اس کی حمایت میں آجاتے تھے لیکن فرنگی حکومت کے سامنے بے بس ہوجاتے تھے۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی پرانے اخبارات کے علاوہ نئے اردواخبارات نے بھی تحریک آزادی کی کھل کرحمایت کرکے اور فرنگی حکمرانوں کے جبر کو برداشت کرکے بھی حریت پسندی کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ اردوصحافت اور تحریک آزادی میں چولی دامن کا ساتھ رہا۔ ’تحریک لاہور‘، ’پیغام‘کولکاتا، کیسری لاہور، تنویر انبالہ، ہمدم لکھنؤ وغیرہ اور ہفتہ وار افغان پشاور سے نکلا لیکن سرکار کی نکتہ چینی کے باعث عتاب کاشکار ہوکر بندہوگیا روزانہ اخبار ’آزادی‘ کراچی سے شائع ہوتاتھا۔ترقی پسند جے بخاری اس کے مدیر تھے حریت پرستی کی وجہ سے یہ اخبار بھی سرکاری عتاب کاشکار ہوا لیکن مولانا محمدعلی جوہر نے اس روزنامہ کی تعریف کی تھی۔ بہرحال بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اردو صحافت حریت کے چراغ روشن کرتی رہی۔

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی 1931تا 1948میں تو اردو صحافت اپنے شباب پر تھی اورتحریک آزادی جوش وخروش سے جاری تھی۔ اسی دہائی میں دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939کو شروع ہوئی۔ اس جنگ کی وجہ سے اردو صحافت کو ہندوستان میں فرنگی حکومت کوگھیرنے اور اس پروطن عزیز کومکمل آزادی کے لیے دباؤ ڈالنے کاسنہری موقع حاصل ہوا۔ اس دہائی میں بمبئی سے روزنامہ ’انقلاب‘، پٹنہ سے ’اقدام‘، ‘نقیب‘،’راج گیر‘، روزنامہ ’احسان‘لاہور جس میں پہلی بار ٹیلی پرنٹر کا استعمال ہوا اور جسے علامہ اقبال کی سرپرستی حاصل تھی۔ ’ہم زاد‘ پھلواری شریف سے ہفتہ وار اخبار ’مساوات‘ بھی کلکتہ سے ’انجام‘ سہ روزہ ’نوائے وقت‘، ’مسلم ‘ پٹنہ سے ’مسلم لیگ‘ پٹنہ اور ماہنامہ ’بیسویں صدی‘روزنامہ ’پشاور‘لاہور وغیرہ اسی دہائی کی دین ہیں۔ اس دور میں چونکہ برطانوی حکومت اخبارات کو عالمی جنگ کی وجہ سے اشتہارات بھی کافی دے رہی تھی۔ لہٰذا اردو اخبارات کی تعداد بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن اردواخبارات اب مذہب اوردھرم کے نام پر تقسیم ہونے لگے تھے۔ اس دہائی میں بھی اگرچہ بیشتر اخبارحریت پسندتھے لیکن پرتاپ اورتیج جیسے اخبارات انگریزوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ہندومہاسبھا کی حمایت بھی کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ اخبار مثلاً ’مسلم لیگ‘، ’نوائے وقت‘ وغیرہ مسلم لیگ کے حامی تھے لیکن تحریک آزادی میں بھی شریک تھے جبکہ بیشتر اخبار مثلاً ’الجمعیۃ‘، ’انقلاب‘ اور ’ملاپ‘ وغیرہ درمیانہ روش اختیار کیے ہوئے تھے یعنی ہندو مسلم اتحاد اور تحریک آزادی دونوں کی وکالت کرتے تھے۔ اردو صحافت کی وجہ سے اب انگریزبھی نرم رخ اختیار کرنے پرمجبور ہورہے تھے۔ ریڈیونشریات بھی اسی دہائی میں شروع ہوئیں لیکن آل انڈیا ریڈیو حکومت برطانیہ کاہی ترجمان بناہوا تھا تاہم دوسری عالمی جنگ کی خبروں کی وجہ سے لوگ ریڈیو نشریات کوسنتے ضرور تھے۔ اس دہائی میں بھی برطانوی سرکار ہندوستانی پریس پر عموماً اور اردو اخبارات پرخصوصاً سختی سے نظر رکھے ہوئے تھی۔ صحافیوں کو گرفتار بھی کیا جاتاتھا، ان پرجرمانے بھی کیے جاتے تھے لیکن اردو صحافی انگریزوں کوملک سے بھگانے کے لیے عوام کو ترغیب دے رہے تھے۔

1941تا1947کے دورمیں تحریک آزادی ثمرآورثابت ہوئی۔ اسی دور میں دوسری عالمی جنگ 2؍ستمبر1945کو ختم ہوگئی۔ برطانیہ، امریکہ اور روس وفرانس کااتحاد کامیاب ہوا، جاپان وجرمنی ناکام ہوئے۔ اس دہائی میں بھی ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے اردو کے نئے اخبارات ورسائل نکلے۔ مثال کے طورپر مہاشے کرشن کے بیٹے ویریندر نے 1941میں لاہور سے اخبار ’جے ہند‘ شروع کیا۔یہ اخبار کانگریس پارٹی کاحامی تھا۔ دہلی 1942میں روزنامہ ’جنگ‘شائع ہوناشروع ہوا۔ 23؍جولائی 1944میں لاہور کا اخبار ’نوائے وقت‘ روزنامہ ہوگیا۔ 1942میں پٹنہ سے روزنامہ ’صدائے عام‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔ 1943کو لاہور سے اخبار ’پربھات‘ جاری ہوا۔ جبکہ 1941میں ’ہمالہ‘ اخبار کی اشاعت شروع ہوئی۔ 1941میں پھلواری شریف سے مولانا امیرحسن نے روزنامہ ’الہلال‘ شروع کیا۔ 1945میں کانگریس پارٹی نے لکھنؤ سے روزنامہ ’قومی آواز‘ جاری کیا۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں تحریک آزادی اپنے عروج پرتھی۔

اردوصحافت اس تحریک میں مزید شدت پیداکررہی تھی۔ اسی شدت کانتیجہ ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کی شکل میں سامنے آیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں ہی پارٹیاں دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کو جھونکنے کے خلاف تھیں۔ اردوصحافیوںنے انگریزوں کو ’ہندوستان چھوڑنے‘ کے لیے دباؤ ڈالا اور اس تحریک کو آگے بڑھایا۔لہٰذا فرنگی حکومت نے اس تحریک کی شروعات ہی پر ایمرجنسی ایکٹ کے تحت اردوسمیت تمام ہندوستانی زبانوں کے اخبارات پرسنسرشپ نافذ کردی۔ یہ فرمان بھی انگریزوں نے جاری کیا کہ ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک سے متعلق ہرقسم کی خبروں کی اشاعت سے پہلے اخبارات ان کی جانچ سرکاری افسران سے کرائیں۔ ایسا نہ کرنے پر سخت سزائیں دینے کی تنبیہ کی گئی۔ اس طرح اخبارات کی آزادی پوری طرح چھین لی گئی۔ ظاہرہے صحافیوں کے ساتھ ساتھ قارئین اور عوام نے اس جبر کی پُرزورمخالفت کی۔ ہندوستانی عوام سڑکوں پرآنے لگے۔ روزنامہ ’پرتاپ‘ لاہور کے مدیر مہاشے کرشن نے اس سنسرشپ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنا اخبار ہی بندکرنے کا اعلان کردیا، لیکن انگریزوں نے سنسرشپ نہ صرف جاری رکھی بلکہ مہاشے کرشن اوران کے بیٹوں کو نریندراور ویریندر کو بھی گرفتارکرلیاگیا۔ بعدمیں اُنھیں چھوڑ دیا گیا۔ ’ملاپ‘ لاہور کے مدیر خوش حال چندخورسند اور بیٹے رنبیرکوبھی تحریک آزادی کو بھڑکانے اور انگریز سرکارکی مخالفت کرنے کے الزام میں گرفتارکیاگیا۔ کچھ عرصے بعد انھیں بھی رہا کردیاگیا۔ اس دورمیںاردواخبارات کی تعداد 500سے زائد تھی اور یوپی، بہار، پنجاب، بمبئی، مدارس، بنگال، سندھ، سینٹرل پروونسیز (اب مدھیہ پردیش)، دہلی، آسام، اڈیسہ، شمال مغربی سرحدی صوبہ بلوچستان، سندھ، حیدرآباد، اجمیر، میروارڑہ غیرہ سے بڑی تعداد میں اردو اخبارات نکلتے تھے اور عوام کوراہِ آزادی پرلے جاتے تھے۔ انگریز حکومت کی نظر میں بھی اردو اخبارات کی زیادہ اہمیت تھی اوروہ سمجھتی تھی کہ اردو اخباروں کاہندوستانیوں پرنسبتاً زیادہ اثرپڑتا ہے۔ اسی لیے اخباروں کے تجزیے سے متعلق شعبوں میں اردو کا شعبہ سب سے بڑاتھا۔ اس کاعملہ بھی نسبتاً زیادہ بڑا تھا۔ شعبۂ اردو کاسربراہ انفارمیشن آفیسر ہوتاتھا جبکہ دیگر زبانوں کے شعبے کا انچارج صرف اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر ہوتاتھا۔ اردو ہی کے سب سے زیادہ اخبارات کا تجزیہ سرکار کراتی تھی۔ اردو کے بعد ہی انگریزی اور ہندی کے اخبارات تجزیے کے لیے منگائے جاتے تھے۔ بیسویں صدی میں 1901تا 1947جو اخبارات،رسائل اورجرائد منظرعام پر آئے ان کی تعدادتین ہزار سے زائد تھی۔

بہرحال اردوصحافیوں کی قربانیاں، اردواخبارات کی تحریک آزادی، نیتاجی سبھاش چندر بوس کی للکار، مہاتماگاندھی، پنڈت جواہرلعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریریں اور تقریریں رنگ لائیں اور15؍اگست1947 کوہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔ لیکن آزادی کی نوید تقسیم ہند کا پروانہ بھی لائی۔ برصغیر ہندوستان دوملکوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگیا۔ اردو اخبارات بھی تقسیم کاشکار ہوئے۔ جہاں ’ملاپ‘ اور ’پرتاپ‘ جیسے اردو اخبارات پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آگئے وہیں ’جنگ‘ اور ’ساقی‘ جیسے اخبارات ورسائل منتقل ہوکر پاکستان چلے گئے۔ اردو کے بہت سے مسلم صحافی پاکستان ہجرت کرگئے۔ آزادی کے بعد چندبرس تک ہندوستان میں اردو زبان اور اردوصحافت کوتقسیم کاخمیازہ بھگتناپڑا لیکن آہستہ آہستہ اردو صحافت بھی آگے بڑھی۔

Dr. Asad Raza

21/37, 3 EC Road

Dehra Dun - 248001 (Uttrakhand)

Mob.: 9873687378


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں