28/10/22

تحریک آزادی کا جلی عنوان اردو زبان: مضمون نگار عقیلہ


 ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو زبان و ادب نے انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ یاد رہے کہ زبان کا تعلق کسی مذہب یا کسی قوم سے نہیں ہوتا۔ انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے جس زبان نے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کو ایک صف میں کھڑا کردیا وہ اردو زبان ہی تھی۔ اس زبان کے شعرا صحافی اور ادبا نے اپنی ذمے داری کوسمجھتے ہوئے اسے ادا کرنے کی کوشش بھی کی۔ شعرا بھی ملک و قوم کی بدتر ہوتی ہوئی حالت سے بے خبر نہ تھے۔ جب انھوں نے ملک میں غیر کو حاکم بنے دیکھا تو کف افسوس ملتے رہ گئے۔ یہ دور اردو غزل کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ ایسے میں شعرا نے تغزل کے پردے میں انگریزی حکومت کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ اس زمانے میں بعض شعرا نے انگریزوں کو گلچیں اور صیاد کا نام دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ بطور مثال سودا کا شعر ملاحظہ فرمائیے        ؎

صبا سے ہر سحر مجھ کو لہو کی باس آتی ہے

چمن میں آہ! گلچیں نے کس بلبل کا دل توڑا

اسی طرح مظہر جان جاناں بھی ملک کی حالت دیکھ کر تڑپ گئے۔ وہ اپنے دل کا حال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں         ؎

یہ حسرت رہ گئی کس کس مزے سے زندگی کرتے

اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا

شاعروں نے غلامی اور اس سے پیدا ہونے والی گھٹن کو بہت پہلے ہی محسوس کر لیا تھا۔ اپنے انھیں احساسات و محسوسات کو شاعری کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں میر کے یہ چند اشعار پیش ہیں           ؎

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

آگے چل کر یہ رنج و غم بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اب شعرا میں اتنا حوصلہ آگیا کہ وہ برطانوی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہہ سکیں۔ جب ہندوستانیوں نے اس بات کو محسوس کر لیا کہ یہ حاکم نہیں لٹیرے ہیں اور ہمارے ملک کو تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن کر رہے ہیں تو ظالم حکمراں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اب ڈھکے چھپے لفظوں کی جگہ للکار نے لے لی۔ 1857 کے بعد ہندوستانی عوام نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ غیر ملکی اقتدار کو اپنے ملک سے بھگانا ہے اور کسی بھی طرح آزادی حاصل کرنی ہے۔ پہلی جنگ آزادی ناکام ضرور ہوگئی تھی مگر اس ناکامی نے لوگوں کو جوش اور حوصلے سے بھردیا تھا۔ انگریزی حکومت بھی اس بات سے باخبر ہوگئی تھی کہ جب تک ہندو مسلم کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، اس ملک پر حکومت کرنا نا ممکن ہے۔ لہٰذا انھوں نے ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ادھر ہمارے ملک کے دانش مند حضرات ان کے ناپاک منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے قومی یکجہتی پر زور دینے لگے۔ اس طرح اردو شاعری میں فلسفیانہ نظریات،عشقیہ تصورات اور دیگر موضوعات کی طرح قومی یکجہتی کے تصورات بھی شامل ہوگئے۔

انجمن پنجاب لاہور میں ہونے والے جلسوں اور مشاعروں نے قومی یکجہتی کے نظریات کوایک نئی رفتار اور قوت بخشی۔ اس سلسلے میں محمد حسین آزاد،  شبلی نعمانی، چکبست اور مولانا الطاف حسین حالی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس انجمن میں ایسی نظمیں پڑھی گئیں، جن کی بنیاد حب الوطنی اور قومی یکجہتی تھی۔ حالی کی نظم ’حب وطن‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ جو حالی کی وطن سے غیر معمولی محبت اور انسیت کا پتہ دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ       ؎

جان جب تک نہ ہو بدن سے جدا

کوئی دشمن نہ ہو وطن سے جدا

اسی طرح چکبست کی شاعری اپنے وقت کے سیاسی موضوعات سے لبریز تھی۔ حب الوطنی کے جذبات و خیالات کو انھوں نے بڑے ہی مؤثر انداز سے پیش کیا۔ انھوں نے ان سیاسی لیڈروں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا، جو برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اورکبھی ہار نہیں مانی۔ بال گنگا دھرتلک سے چکبست خاص متاثر تھے۔ ان کی موت سے پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی تھی۔ چکبست انھیں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں       ؎

تھا نگہبان وطن دبدبۂ عالم ترا

نہ ڈگیں پاؤں یہ تھا قوم کو پیغام ترا

نیند سے چونک پڑے سن لیا جو نام ترا

بندۂ رسم جفا چین سے اب سوئیں گے

انقلابی شاعری کی بات ہو اور جوش ملیح آبادی کا ذکر نہ ہو کیونکہ جوش کے لب و لہجے میں وہ گھن گرج ہے جو جنگ کے میدان میں سپاہی کی آواز میں ہوتی ہے۔ جوش صرف برطانوی حکومت کو للگارتے نہیں ہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کو بغاوت کے لیے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکساتے بھی ہیں۔

شاید جوش کے انھیں خیالات کی بنا پر انھیں شاعر انقلاب کا لقب دیا گیا۔ ان کے یہاں ایسی نظموں کی کثرت ہے جو عوام میں جوش اور ولولہ بھردے۔ زنداں، ’شکست زنداں کا خواب‘،  ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام اور انقلاب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جو ش کی نظم کے کچھ اشعار جو اس موقعے پر مجھے یاد آرہے ہیں۔ جس میں وہ نہ صرف برطانوی حکومت کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ صاف صاف لفظوں میں انھیں دھمکاتے بھی ہیں اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں

وقت کے فرمان کے آگے جھکادو گردنیں

اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی

جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمھارے خون کی

علامہ اقبال بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ ان کے ابتدائی دور کی نظمیں حب الوطنی، ہندومسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بہترین مثالیں ہیں۔ انھوں نے آنے والے خطرے سے ہندوستانیوں کو باخبر کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ تمہاری فلاح اتحاد میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ   ؎

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

علامہ اقبال کو اپنے وطن ہندوستان سے بہت محبت تھی۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’بانگ درا‘ میں ایسی نظمیں کثیر تعداد میں موجود ہیں جو خالص وطن کی محبت میں لکھی گئیں۔ وہ اپنے ملک کی حالت زار دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں ’تصویر درد‘ میں ان کے یہ آنسو دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ترانہ ہندی‘ لکھ کر اقبال نے قومی شعرا کی فہرست میں اپنا نام درج کیا۔ ’ترانۂ ہندی‘ کو آج بھی قومی گیت کی حیثیت حاصل ہے۔ اسے خاص موقعے پر بڑی شان سے پڑھا جاتا ہے۔

ان شعرا کے علاوہ ایسے کئی شعرا ہیں جنھوں نے اپنی جان کی فکر نہ کرتے ہوئے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش  کی اور انھیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تاکیدبھی کی حسرت موہانی، مجاز لکھنوی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مخدوم وغیرہ یہ ایک لمبی فہرست ہے جن کے نام اور کارنامے ان چند صفحات میں پیش نہیں کیے جاسکتے۔ بعض شعراکو باغیانہ شاعری کی بدولت قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھانی پڑیں۔ لیکن ان کا حوصلہ کبھی کم نہ ہوا۔

نظم کی طرح عوام کو بیدار کرنے میں اردو نثر نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ ادیبوں نے ایسی کہانیاں تحریر کیں جنھیں پڑھ کر عوام نے غیر کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایسے ناولوں اور افسانوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ جو عوام کے خون کو گرما دے۔ منشی پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ، سوز وطن جو 1908 میں شائع ہوا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی جسے انگریزی حکومت نے ضبط کیا۔ لیکن پریم چند کے حوصلے اس حادثے کے بعد مزید بلند ہوئے اور انھوں نے اپنا کام جاری و ساری رکھا۔ جس کے نتیجے میں میدان عمل اور چوگانِ ہستی جیسے ناول وجود میں آئے۔ ان کے علاوہ اردو ڈراموں نے بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کیں۔

اسی طرح اردو اخبارات نے حوصلہ اور جوش پیدا کردیا کہ وہ انگریز کے سامنے اپنی بات کہہ سکے۔ ہندوستانیوں کو احساسِ کمتری سے نکالنے والے یہ اخبارات ان کا سب سے طاقتور ہتھیار بھی بنے۔ انگریز حکومت کو اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا اس لیے وہ اسلحے کو دبانا اور کچلنا چاہتے تھے۔ مگر ایسا کر نہ سکے۔ کئی صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، کچھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بعض کو ایسی دردناک سزائیں دی گئیں کہ سن کر روح کانپ جائے۔ لیکن یہ آزادی کے متوالے تھے اپنی دھن میںپکے، سزا اور اذیتیں برداشت کیں مگر راستہ نہ بدلا۔ انھیں نہ موت کا خوف تھا نہ پکڑے جانے کی فکر، انھوں نے اپنا مقصد حیات آزادی مقرر کرلیا اور پھر سکون سے نہ بیٹھے۔ ڈنکے کی چوٹ پر حکومت سے بغاوت کی۔ ان صحافیوںنے خبروں کی آڑ میں ہندوستانیوں میں غیرت جگائی، ان میں وہ جوش اور ولولہ پیدا کر دیا کہ وہ سر کٹانے کے لیے تیار ہوگئے ’کلکتہ کا جام جہاں نما‘ اردو کا پہلا اخبار تھا۔ جس نے ملک کی سرگرمیوں سے باخبر کیا۔ اس کے بعد اردو زبان میں اخباروں کا سلسلہ جاری ہوا۔ جنھوںنے چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا کام انجام دیا۔ دہلی کا ’اردو اخبار‘ حسرت موہانی کا ’اردوئے معلی‘’مولانا ابوالکلام آزاد کا ’الہلال‘ اور ’البلاغ ‘ پیسہ اور زمیندار وغیرہ بھی اہم اخبارات تھے۔ جس کے ذریعے عام آدمی تحریک آزادی میں شامل ہوتا گیا اور اس تحریک میں جان ڈالتا گیا۔

1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے ظلم کا پہاڑ صحافیوں پر بھی ٹوٹا تھا۔ محمد حسین آزاد کے والد محمد باقر جو انقلاب زمانہ میں سچی اور حقیقی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔ اسے اردو زبان کا شرف سمجھیے کہ محمد باقر اس زبان سے وابستہ تھے اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ پہلے ہندوستانی صحافی تھے جنھوں نے ملک کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔

پیسہ اخبار‘ بھی اردو صحافت میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مدیر محبوب عالم انگریزوں سے سخت ناراض تھے اور ان کے خلاف بے خوف لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات زمیندار، ہمدرد زمانہ وغیرہ اخبارات بھی اپنی ذمے داری اچھی طرح نبھا رہے تھے۔ مولانا حسرت موہانی کا نام بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اردو کے مشہور شاعر، کامیاب مجاہد آزادی اور ذمے دار صحافی تھے۔ 1903 میں علی گڑھ سے حسرت موہانی نے ’اردوئے معلی‘ نکالا۔ یہ رسالہ ادبی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم تھا۔ وہ انگریزوں سے پوری طرح آزادی چاہتے تھے۔ مولانا چاہتے تھے کہ آزادی اور وطن سے متعلق جو جذبات انھیں بے چین رکھتے ہیں وہی جذبات  ان کے ہم وطنوں میں بھی منتقل ہو جائیں اس کے لیے انھوں نے صحافت کا راستہ اختیار کیا اور کئی بار جیل بھی گئے۔1908 میں ’اردو ئے معلی‘ میں ’مصرمیں انگریزوں کی پالیسی‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا حالانکہ یہ مضمون مولانا حسرت نے نہیں لکھا تھا۔ اس کے باوجود انھیں دو سال کی قید اور پانچ ہزار جرمانے کی سزا ہوئی۔ لیکن مولانا کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ جرمانہ ادا کرسکیں۔ لہٰذا حکومت نے ان کا کتب خانہ نیلام کر دیا۔ اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی مولانا حسرت کی ہمت میں ذرّہ برابر کمی نہ آئی۔ بلکہ انگریزوں کے خلاف نفرت اور غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ رہائی کے بعد ایک بار پھر مولانا نے ’اردوئے معلی‘ نکالا۔  لیکن مالی تنگی اور حکومت کی ناراضگی کے سبب اسے جلد بند کر دیا گیا۔ مولانا حسرت موہانی انگریزی حکومت کے خلاف جلسوں میں پرجوش تقریریں بھی کرتے تھے۔ جس کی بدولت انھیں قید بھی ہوئی بہرحال انھیں کئی مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آزادی کی تحریک میں وہ برابر شریک رہے۔

تحریک آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اہم رول ادا کیا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مولانا آزاد نہ ہوتے تو ملک کو آزادی نہیں ملتی لیکن ہاں! اتنا ضرور ہے کہ اس تحریک کی رفتار اور سرگرمیوں کو کچھ کمی ضرور واقعہ ہوتی۔ مولانا آزاد کی خدمات تحریک آزادی میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہیں۔ ان کی بدولت مسلمانوں نے جنگ آزادی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیا۔سرسید کی طرح مولانا آزاد بھی قوم کے خیرخواہ تھے۔ لیکن انھوں نے سر سیداحمد خاں کی طرح مسلمانوں کو انگریزی حکومت کا وفادار بننے کی صلاح نہیں دی۔ بلکہ انھیں اس حکومت کے خلاف کھڑا ہونے کا درس دیا۔ مولانا آزاد کو اپنے ملک و قوم سے بہت ہمدردی تھی اور یہی جذبہ انھیں کم عمری میں ہی صحافت کی طرف لے آیا۔ محض بارہ سال کی عمر میں ’’گلدستہ نیرنگ عالم‘‘ شائع کیا۔ ان کا تعلق تقریباً ایک درجن اخبارات سے رہا۔ ان کے سب سے مشہور و مقبول رسالے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ بھی اہم ہیں۔ الہلال 1912 میں شائع ہوا لیکن جلد ہی اسے بند کرنا پڑا۔ 1915 میں البلاغ نکالا لیکن یہ اخبار محض پانچ مہینے بعد بند ہو گیا۔ 1927 میں الہلال ایک بار پھر جاری کیا۔ دراصل مولانا آزاد ان رسالوں کے ذریعے تحریک آزادی کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی مدد سے قومی تحریکات کی وضاحت کی اور اس بات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ وطن سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤںاور  مسلمان مل کر آزادی کی تحریک میںحصہ لیا۔یہی وجہ تھی کہ انگریزی حکومت کو ان اخبارات سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ انھوں نے اس پر طرح طرح کے جرمانے اور پابندیاں عائد کیں اور آخر 1927 میں ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑا۔

مختصر یہ کہ تحریک آزادی میں اردو زبان نے قربانیاں دیں۔ ’انقلاب زندہ باد‘، ’ سر فروشی کی تمنا‘، جیسے پرجوش ولولہ خیز اور خون کو گرما دینے والے نعرے اسی زبان کی دین ہیں۔ جنگ آزادی میں حصہ لینے کی بدولت اردو کے کئی صحافیوں، شعرا اور ادیبوں کو طرح طرح سے ستایا گیا، انھیں اذیتیں دی گئیں۔ کئی لوگوں کو کالا پانی کی سزا ہوئی اور بعض لوگوں کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی ان مجاہدین نے ہار نہیں مانی۔

اردو میں ایسی لاتعداد تحریریں موجود ہیں جن میں عام آدمی کو آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ غرض اس زبان میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے آزادی کے متوالے بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ قید میں گزارا اور محمد باقر جیسے جانباز بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے حق کی خاطر اپنی جان نچھاور کردی۔

 

Aqeela

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi - 110007

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں