29/10/22

علی گڑھ تحریک، انجمن پنجاب اور جمالیات: دانش کمال

 

علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان تھے، جبکہ ان کے رفقا میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک اور آغا خان وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی بیدار ی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگرچہ سرسید سے بہت سارے امور میں اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس تحریک کے اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس تحریک نے تعلیم کے میدان میں تو جو کارنامے ادا کیے سو کیے، ادبی سطح پر بھی اس تحریک نے بہت فعال کردار ادا کیا اور اردو ادب کے ایک کافی طویل دورانیے کو متاثر کیا۔ اسی تحریک کی ابتدائی شکل ہمیں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی صورت میں نظر آتی ہے جس کا بنیادی مقصد انگریزی زبان سے اعلیٰ علمی اور سائنسی کتابوں کا ترجمہ تھا۔ یہ تراجم اس لیے بھی ضروری تھے کہ ہندوستانی ماحول میں اکثریت انگریزی زبان سے ناواقف تھی، اوربہت حد تک سرسید اور ان کے حامیوں کا یہ خیال تھا کہ موجودہ حالات میں انگریزی زبان اور اس سے متعلقہ علوم ہی ترقی کا واحد زینہ ہیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی نے بہت ساری کتابیں شائع کیں۔ مولوی عبدالحق نے تو سوسائٹی کی جانب سے شائع شدہ کتابوں کی تعداد 40 بتائی ہے لیکن اصغر عباس کی تحقیق کے مطابق سائنٹفک سوسائٹی سے کل 15کتابیں ہی اشاعت پزیر ہوئی تھیں بہرحال اس وقت اور ماحول میں جبکہ تراجم کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا اتنی کتابوں کا ترجمہ ہوکرشائع ہوجانا اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تحریک کے چلتے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیادرکھی گئی جو بعد میں محمڈن اے او کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔

اس تحریک کے بنیادی مقاصد تو نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقلی تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترویج و ترقی تھے۔ لیکن اس تحریک نے اردو ادب کو جس انداز سے متاثرکیا، اس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے۔ چنانچہ اسی تحریک کے زیر اثر حالی نے سوانحی سلسلہ شروع کیا اور یادگار غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید جیسی جاوداں کتابیں تصنیف ہوئیں۔ شبلی نے ہیروز آف اسلام کے منصوبے کے تحت الفاروق، المامون، النعمان اورالغزالی جیسی کتابوں کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا۔ ڈپٹی نذیر احمدنے ناول نویسی کی طرف قدم بڑھائے اور اردو میںناول نگاری کا پہلا خاکہ پیش کیا۔ اس طرح اس تحریک نے اردو میںکئی ایک اہم اصناف کی جانب پیش رفت کو تیز کردیا۔اسی کے ساتھ ساتھ اردو نثر و نظم کی تہذیب میں بھی اس تحریک نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سرسید اپنی ان کوششوں کے بارے میں خودکہتے ہیں

’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی،الفاظ کی درستی،بول چال کی صفا ئی پر کو شش کی۔ رنگینیِ عبارت سے جو تشبیہات اور استعاراتِ خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت، صِرف لفظوں ہی میں رہتی ہے اور دِل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا۔تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی، ہاتھ اٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا سادگیِ عبارت پر توجہ کی۔ اِس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، وہ صرف مضمون کی اَدا میں ہو۔ جو اَپنے دِل میں ہو، وہی دوسرے کے دِل میں پڑے، تاکہ دِل سے نکلے اور دِل میں بیٹھے۔‘‘(ہماری خدمات)

اگرچہ اردو ادب میں سادہ زبان کے استعمال کا آغاز مرزا غالب کے خطوط سے ہی ہوچکا تھا، مقفی اور مسجع نثر کی روایت ختم ہونے کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے لیکن اس نظریے کو فروغ دینے اور اسے پوری طرح رائج کرنے میں سرسید کی کوششوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سرسید اور ان کے رفقا کے لیے سادہ نثر کو اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ انھوں نے جو بھی تخلیقات پیش کیں وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ افادی مقاصد کے تحت لکھی گئی تھیں۔ اس افادی مقصدکے تحت ان تخلیقات کے مخاطب ادبی طبقات تو کم کم ہی تھے، ان کا مخاطبہ عوام سے زیادہ تھا اس لیے ضروری بھی تھا کہ ایسا سادہ اور ہلکا پھلکا اسلوب اپنایا جائے جسے سمجھنے میں عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔

اس کے بعد انجمن پنجاب کی تشکیل ہوئی اور جدید اردو نظم کی بنیاد اسی کے مناظموں سے پڑی۔ انجمن پنجاب کا خصوصی تعلق علی گڑھ تحریک سے اس لیے بھی جڑتا ہے کیونکہ سرسید کے سب سے قریبی رفقا میں خواجہ الطاف حسین حالی کا بھی شمار ہوتا ہے جو انجمن پنجاب کے زیر انتظام ان مناظموں کے انعقاد میں پیش پیش تھے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن پنجاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں

’’اردو شاعری اس منزل سے اس وقت روشناس ہوئی جب 57 کے انقلاب کے بعد زندگی میں نئے حالات پیدا ہوئے اور ان نئے حالات کے نتیجے میں جب نیا احساس بیدار ہوا،نئے شعور نے آنکھ کھولی اور نئے معاملات و مسائل وجود میں آئے۔ایک نئی دنیا پیدا ہوئی، ایک نیا نظام قائم ہوا،ایک نئے معاشرے کی بنیاد پڑی اور ایک نئی تہذیب کی جھلکیاں نظر آنے لگیں،یہ تبدیلی ہماری زندگی کی بہت اہم تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس نے زندگی کے ہر شعبے میںایک نیا انداز پیدا کیا۔شاعری بھی اس نئے انداز سے بچ نہ سکی۔اس کے موضوعات بدلے اور ان موضوعات کو پیش کرنے کے لیے نئے سانچے بنائے گئے۔اس تبدیلی کی جھلک سب سے پہلے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان مشاعروں میں نظر آتی ہے جنھیں لاہور میں اسی مقصد سے ترتیب دیاگیاتھا اور جن میں حالی اور آزاد پیش پیش تھے۔‘‘ 

(عبادت بریلوی،جدید شاعری، ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ، 2005، ص11,12)

انجمن پنجاب کے ان مناظموں میں موضوعاتی نظموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور ان میں خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز رکھی گئی کہ نیچرل شاعری کو فروغ دیا جائے اور فطرت، مظاہر فطرت وغیرہ پر خصوصی طور پر نظمیں لکھی جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں

’’انجمن پنجاب کے مشاعرے آزاد یا حالی کے کہنے پر شروع نہ ہوئے تھے۔وہ کسی بھی صورت میں مشاعرے کے محرک نہیں تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے لفٹنینٹ گورنر نے مدارس کی درسی کتب کے لیے فطرت کی شاعری پر مشتمل نظمیں لکھوا کر نصاب میں شامل کرنے کے لیے ہالرائیڈ کو خصوصی ہدایات بھیجی تھیں اور ہالرائیڈ نے منصوبہ بندی کرکے آزاد اور حالی کی معاونت حاصل کی تھی۔‘‘ 

(ڈاکٹر تبسم کاشمیری،آزاد انجمن پنجاب اور جدیدیت،مشمولہ آزاد صدی مقالات،شعبہ اردو،پنجاب یونیورسٹی،اورینٹل کالج، لاہور، 2010، ص 88)

کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں حالی اور آزاد نے اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کیں، دراصل یہاں بھی وہی فکر کام کررہی تھی کہ انگریزی ادب سے استفادے کے بغیر ہم بالکل ہی کورے ہیں۔ چونکہ انگلش قوم اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تصور کی جاتی تھی لہٰذا یہ خیال عام تھا کہ تہذیبی، ثقافتی اور ادبی سطحوں پر اس قوم کی برابری کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ انہی کی اتباع و پیروی کی جائے۔ دوسری جانب زمینی سطح پر اس صداقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ انگلش قوم اس وقت علوم و فنون اور ادب میں ایک مخصوص بلندی پر فائز تھی اور بہت ساری قابل استفادہ چیزیں ان کے پاس موجود تھیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس قوم سے استفادہ کرنا کچھ ایسا برا بھی نہ تھا۔ چنانچہ حالی و آزاد کی کوششوں سے ایک عمومی فضا بننی شروع ہوگئی۔ آزاد نے اس سلسلے میں بہت سارے لکچر دیے جن میں انھوں نے قدیم شعری جمالیات کو مکمل طور پر ترک کردینے کی سفارشیں پیش کیں۔ ان کے شعری خیالات کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے

’’شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے۔اوراسے قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔

ابتدا میں شعر گوئی حکما اور علمائے متبحر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی اور ان تصانیف میں اور حال کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔البتہ فصاحت و بلاغت اب زیادہ ہے مگر خیالات خراب ہو گئے۔سبب اس کا سلاطین و حکام عصر کی قباحت ہے۔انھوں نے جن جن چیزوں کی قدر دانی کی۔لوگ اس میں ترقی کرتے گئے۔ ورنہ اسی نظم و شعر میں شعرا ئے اہل کمال نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جن کی بنا فقط پند پر ہے اور ان سے ہدایت ظاہر و باطن کی حاصل ہوتی ہے۔چناچہ بعض کلام سعدی و مولوی روم و حکیم سنائی و ناصر خسرواسی قبیل سے ہیں۔‘‘

(نظم آزاد،مرتبہ آغا محمد باقر، شیخ مبارک علی تاجر کتب لوہاری بازار، لاہور، 1929، ص 22,23)

ظاہر سی بات ہے آزاد شاعری کے افادی پہلوؤں پر خاصا زور صرف کررہے تھے، وہ معاملات حسن و عشق اور تفریح و تفنن طبع کے لیے تخلیق شعر کے قائل نظر نہیں آتے بلکہ انتہائی سختی کے ساتھ شعر کے افادی پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام خسرو و سعدی، مولانا روم اور حکیم سنائی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ’بعض‘ کا لاحقہ لگاکر ان کے عشقیہ کلام کو بھی نشان زد کردیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک تخلیق شعر کااصل مقصد تفریح طبع اور تسکین احساس جمال نہیں بلکہ قوم کی تعمیر و ترقی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب کلام میں صرف افادی پہلوؤں پر زور دیا جانے لگے گا تو ایسی صورت میں جمالیاتی پہلو کا دب جانا فطری ہے۔

محمد حسین آزاد نے بذات خود ’محنت کرو، حب وطن، میری پیاری اماں‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں۔ ان نظموں میں جمالیاتی قدروں کا وہ پیمانہ ہی نہیں ہے جس سے ہم عمومی ادب کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان کی نظم حب وطن کے چند اشعار دیکھیں          ؎

بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں

جلتے عوض چراغوں کے سینوں میں داغ ہیں

کب تک شب سیاہ میں عالم تباہ ہو

اے آفتاب ادھر بھی کرم کی نگاہ ہو

عالم سے تا کہ تیرہ دلی دور ہو تمام

اور ہند تیرے نور سے معمور ہو مدام

حب وطن اپنی جگہ ایک جمالیاتی تجربہ ضرور ہے کہ یہ انسانی فطرت میں داخل و شامل ہے، لیکن اس تجربے کا اظہار جس انداز سے کیا گیا ہے ظاہر سی بات ہے وہ کسی تصنع، تکلف اور ملمع کاری سے عاری ہے۔ یہ سادگی اور صفائی ضرور ہے لیکن اس میں قاری و سامع کو اپنی جانب کھینچنے اور ملتفت کرنے کا وہ ملکہ نہیں جس سے قاری ایک ہی نظر میں شکار ہوجائے اور کسی سحر میں گرفتار کھنچاچلا آئے۔ دوسری طرف اس طرح کے کلام میں اگرچہ سادگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور لفظی صناعی سے دانستہ گریز کیا گیا لیکن اس کے باوجود مذکورہ پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ’’عوض چراغوں کے‘‘ کے اندر جو لفظی تعقید ہے وہ اہل نظر کی نظر سے مخفی نہیں ہے۔ اس تحریک سے جڑے ہوئے شعرا کے کلام کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ یہ سادگی بذات خود کہیں کہیں تصنع کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ تراکیب و تعبیرات جو کسی مقام پر بالکل برجستہ سما سکتی تھیں، سادگی کے نام پر انھیں بھی تج دیا گیا اوریہ کلام بالکل ہی سیدھا اور سپاٹ نظر آنے لگا۔

اس سے قبل مقدمہ شعر و شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کلام کی سادگی کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا؛

’’سادگی ایک اضافی امر ہے، وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بمجرد سننے کے متبادر ہوجاتے ہیں اور جو خوبی اس میں شاعر نے رکھی ہے اس کو فورا ادراک کرلیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس کے سمجھنے اور اس کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے ایک عالی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھالیتا ہے اور اس کو محض ایک سخیف اور رکیک و سبک تک بندی کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ ہمارے نزدیک ایسی سادگی جو سخافت اور رکاکت کے درجہ کو پہنچ جائے سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کہا جائے گا۔‘‘ 

(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص58,59)

ظاہر سی بات ہے سادگی اور صفائی، سلاست و روانی، لوازم شعر اور دیگر تمام متعلقات کے لیے سارے اصول خودساختہ تھے ایسی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انجمن پنجاب کے زیر انتظام جو بھی شاعری پیش کی گئی وہ ایک مستحکم منشور کے تحت تخلیق کی گئی تھی۔ لہٰذا اس ضمن میں عمومی رجحان کا خیال رکھنا، قاری و سامع کے احساس جمال کی تشفی کا سامان فراہم کرنا وغیرہ ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ ایک بندھے ٹکے اصول کے تحت اپنے مقصود و مفہوم کو صرف شعری قالب میں ڈھال کر عوام کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اسی تناظر میں اگر ہم مولانا حالی کی شاعری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خود مولانا حالی اپنے شعری نظریات کی وضاحت اپنے اشعار ہی کے ذریعے کردیتے ہیں          ؎

اے شعر! دل فریب نہ ہو تو، تو غم نہیں

پر حیف تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو

یعنی حالی کے نزدیک شعر کا دل گداز ہونا لازمی اور ضروری ہے، جبکہ اس کی دل فریبی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اس طرح دیکھا جائے تو حالی نے فنی جمالیات کا گلا تو پہلی ہی فرصت میں گھونٹ ڈالا، نیچر پر مبنی شاعری کی بات کی جائے تو بوزان کے اور اس کے ہم نواؤں نے مظاہر فطرت کو جمالیاتی دائرے سے پہلے ہی باہر نکال رکھا تھا، یہاں صرف ایک ہی بحث باقی تھی کہ مظاہر فطرت کی ادبی یا شعری عکاسی میں چونکہ ادیب و شاعر کا شعور شامل ہوجاتا ہے اس لیے ان ادبی کاوشوں پر جمالیاتی بحثوں کی گنجائش بہرحال باقی رہتی ہے۔ حالی کے اس قول کی روشنی میں ادیب و شاعر کی فنی جمالیات کا راستہ بھی مسدود ہوجاتا ہے۔ حسن و عشق کے معاملات کو حالی و آزاد شاعری کا حصہ رکھنا نہیں چاہتے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ بقول مولانا حالی

’’… انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین و تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کا علم اخلاق کا نائب مناب قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بنا پر صوفیہ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اوررکن رکین شعر ہے وسیلۂ قرب الٰہی اور باعث تصفیہ نفس و تزکیہ باطن مانا گیا ہے۔‘‘  

(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص15)

لفظی صناعی اور فکری سطح پر حسن و عشق کو ممنوع گرداننے کے بعد ظاہر سی بات ہے اب صرف اخلاقی موعظت ہی باقی رہ جاتی ہے جو اشعار میں کسی قدر جمالیاتی قدروں کی موجودگی کا سراغ دے سکتی ہے۔ افادی اور مقصدی ادب کا سب سے بڑا ا ور واضح نقصان یہی رہا ہے کہ یہاں جمالیاتی قدروں نے دم توڑ دیا ہے اور فکری اور موضوعاتی سطح سے لے کر فنی اور اسلوبیاتی سطح تک ایک ہموار اور مسطح راستہ بنادیا ہے جہاں کوئی بھی نشیب و فراز نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بغیر کسی نشیب و فراز کے، بغیر کسی فنی شعبدہ گری کے، صرف سادگی و صفائی کی بنیاد پر شعر کس قدر دل پزیر بن سکتا ہے! حقیقت کی ترجمانی کچھ الگ شے ہے، خاص طور پر مولانا حالی عربی و فارسی کے جن شعرا کا حوالہ دے رہے ہیں اگر ان کی شعری جمالیات کا جائزہ لیا جائے توبات تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ ان کے یہاں کذب و افترا کا ماحول نہیں ہے، وہ جھوٹی باتیں نہیں کرتے، ان کے یہاں جمالیات کا ایک مخصوص پیمانہ و معیار پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم زہیر ابن ابی سلمی جیسے عظیم الشان شاعرکے معلقہ کی بات کریں جو سماجی اخلاقیات کی بہت زیادہ تلقین کرتا ہے        ؎

فلا تکتمن اللّٰہ ما فی نفوسکم

لیخفی و مہما یکتم اللہ یعلم

یؤخر فیوضع فی کتاب فیذخر

لیوم الحساب او یعجل فینقم

اس طرح کی باتیں کرنے والا شاعر بھی اپنے قصیدے میں آخرکار ایک تخیلاتی منظر میں عورتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ ہی بیٹھتا ہے         ؎

و فیہن ملہی للطیف و منظر

انیق لعین الناظر المتوسم

یعنی شاعری معاملات حسن و عشق سے مکمل طور پر عاری ہوہی نہیں سکتی، کسی نہ کسی سطح پر حسن و عشق شاعری میں جگہ پا ہی جاتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسانی میں داخل ہیں۔ اگر ان سے دانستہ پہلو تہی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ شعر بالکل سپاٹ اور بے جان ہوجائے گا اور پھر وہ اپنی جانب قارئین کو کھینچ پانے میں ناکام ہوجائے گا۔ اصلاحی، تعمیری، افادی اور مقصدی شاعری میں بھی ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی ہوگی کہ اس شاعری میں اتنی تو جاذبیت بہرحال موجود رہے کہ لوگ اسے سننے اورپڑھنے پر آمادہ ہوسکیں کیونکہ جب سامعین و قارئین اسے سننے اور پڑھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوں گے تو آپ کے مقاصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔

علی گڑھ تحریک اور انجمن پنجاب کی عمومی خدمات سے انکار کرنا ممکن نہیں اور یہ تقاضا انصاف کے بھی مخالف ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف بھی ہونا چاہیے کہ اگر ان کی جانب سے جمالیاتی اقدار پر اس قدر سخت بندش نہ لگائی گئی ہوتی تو شاید اس زمانے میں تخلیق کیا گیا ادب بھی ایک جمالیاتی معیار کا حامل ہوتا۔ ہاں اسی کے ساتھ ساتھ اس تحریک کی عقلیت پسندی اور افادی پہلوؤں پر حد سے زیادہ زور دینے کا جو رد عمل سامنے آیا وہ اردو کو جمالیاتی خزانوں سے معمور کرگیا۔

n

Danish Kamal  (Danish Asari)

H.No. 167/A, Behind Ayesha Masjid,

Bulaqui Pura, Mau Nath Bhanjan

Mau - 275101 (UP)

Mob.: 9236741905, 7007809510

E. mail. dkamal2011@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں