ہندی
شاعری کی روایت کافی پرانی ہے۔ چھند، دوہے، سورٹھے، چوپائی،سویے اور مُکتک وغیرہ
ہندی کی مقبول و معروف اصناف ہیں۔ شعر گوئی کا خوبصورت اور ہر دلعزیز فن ہندی،عربی،ترکی،فارسی
اور پنجابی زبانوں تک محدود نہیں رہا،بلکہ یہ فارسی کے عمیق دریا کو عبور کرتے
ہوئے اردو کے سبز میدان میں بھی داخل ہو گیا۔اردو میں شعر کہنے کی ابتدا اردو زبان
کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ فارسی اور انگریزی سے وابستہ افرادعام
لوگوں کی زبان بولنے، سمجھنے اورلکھنے لگے تھے۔ایسے خوشگوار ماحول میں یہ ممکن نہیں
تھا کہ اس کا اثر شاعری پر نہ پڑے۔ فارسی زبان میں اشعار کہنے والے شعرا نے وقت کی
نزاکت کو محسوس کیا اور عوام کی نبض ٹٹولتے ہوئے عام فہم اردوزبان میں شعر کہنے
شروع کیے۔ امیر خسرو وہ واحد شاعر ہیں، جنھوں نے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں
شعر کہنے والوں کو بے حد متاثر کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہندی والے خسرو کو بڑے گَرو سے
اپنا کوی اور اردو والے بڑے فخرکے ساتھ اپنا شاعرتسلیم کرتے ہیں۔
اردوشاعری
کی اہم صنف شعر، قطعہ، رباعی، مثلث، مخمس، مسدس، مثنوی، نظم، آزاد نظم، غزل، مرثیے،
دوہے، سانیٹ، ترائیلے اورماہیے وغیرہ قلم
کی نوک سے اُتر کر قرطاس ابیض کی زینت بنے۔ان کے علاوہ رزمیہ شاعری میں بھی طبع
آزمائی کی گئی۔غزل کے لغوی معنیٰ خواتین سے گفتگو کرنے کے ہیں۔وہ صنف سخن، جس میں
عموماً حسن و عشق، وصال و فراق، شراب و شباب، یاس و حرماں اورتصوف و معرفت وغیرہ کی
باتیں کہی جائیں، کو غزل کہا گیا، لیکن غزل اس حد بندی کی پابند نہیں رہی۔ اب اس میں
ہر قسم کے موضوعات و مسائل نظم کیے جاتے ہیں۔ غزل ہی وہ صنف ہے جس میں سب سے زیادہ
لکھا گیا۔ اردو شعرا کے ذریعے غزل میں پیش کی جانے والی رومانیت اور ترقی پسند تحریک
سے متاثر ہوکر ہندی کے کویوں نے تجربے کے
طور پرغزل کہنی شروع کی۔ اس طرح غزل کی مقبول ترین صنف بیسویں صدی کے وسط میں ہندی
ادب میںداخل ہوگئی۔مہا کوی سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا،جے شنکر پرساد،جانکی ولبھ
شاستری اورسمترا نندن پنت جیسے نام چین ہندی غزل کاروں نے دیگر زبان کے شعرا کی
طرح رومانی شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ اس سب کے باوجود ہندی کے کویوں کو غزل
گوئی میںوہ مقام حاصل نہیں ہو سکا، جو اردو غزل میںمرزا محمد رفیع سودا،خواجہ میر
درد، قائم چاندپوری،میر تقی میر، انشاء اﷲ خان انشا، حیدر علی آتش،بہادر شاہ ظفر،
ابراہیم ذوق، مرزا اسد اﷲ خاں غالب، دیا شنکر نسیم، نواب مرزاداغ دہلوی، الطاف حسین
حالی، اکبر الہ آبادی،شبلی نعمانی،ڈاکٹر محمد اقبال،حسرت موہانی،شوکت علی خاں فانی
بدایونی، برج نارائن چکبست، سیماب اکبر آبادی، تلوک چند محروم، علی سکندر جگر
مرادآبادی، شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی، پنڈت رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری،
اختر شیرانی، پنڈت لبھورام جوش ملسیانی، پنڈت بال مکند عرش ملسیانی، ن۔ م۔ راشد،
اسرارالحق مجاز،فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، غلام ربانی تاباں، جاں نثار اختر،
اخترالایمان، شکیل بدایونی، جگن ناتھ
آزاد، کیفی اعظمی، خمار بارہ بنکوی، مجروح سلطان پوری، قتیل شفائی، نریش کمار
شاد، شاد عظیم آبادی،ساحر لدھیانوی، احمد فراز، جون ایلیا، شہریار، گلزار، ندا
فاضلی، بشیر بدراور جاوید اختروغیرہ حاصل کرچکے تھے۔
دراصل،
اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ اردو میں کہی جانے والی غزلیں اردو کے علاوہ ہندی کے
اخبارات و جرائد میں بھی شائع ہورہی تھیں۔اس طرح ہندی کے قاری اور شائقین کے ذہن
کو متاثر کرنے اور قلوب کو چھونے والی اردو غزلیں دیوناگری رسم الخط میں آسانی سے
دستیاب ہوجاتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندی میں غزل کی شروعات کرنے والے کوی
غزل گوئی ترک کرکے پھر سے اپنی روایتی شاعری کی طرف لوٹ گئے۔ دوسری جانب 1960 کی دہائی میںہندی میں غزل کہنے والاایک ایسا
نام سامنے آیا،جسے شعرو اَدب کی دُنیا میں دشینت کمار تیاگی کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ دشینت کمار کے بھتیجے منوج کمار تیاگی نے بتایا کہ دشینت کمار کا اصلی نام دشینت
نرائن سنگھ تیاگی تھا۔اس بابت ان کے پاس دشینت جی کے ہاتھ کا لکھا ہوادستاویز
موجود ہے۔ انھوں نے شروعات میں پردیسی تخلص کے ساتھ شاعری کی،لیکن بعد میں دشینت
کمار کے نام سے کوتائیں لکھیں۔
دشینت کمار کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع
بجنور کی تحصیل نجیب آباد کے تھانہ منڈاولی کے چھوٹے سے گاؤں راج پور نوادا میں
ایک زمیندار خاندان میں ہوئی۔ اُن کے والد کا نام بھگوت سہائے اور والدہ کا نام
رام کشوری دیوی تھا۔ دشینت کمار کی شادی نومبر1949میں ضلع سہارن پور کی تحصیل ناگل
کے گاؤں ڈنگیڑھا میں راجیشوری دیوی کے ساتھ ہوئی تھی۔ان کی ایک بیٹی ارچنا تیاگی
کے علاوہ دو بیٹے آلوک تیاگی اور اَپورو تیاگی ہیں۔ آکاش وانی دہلی میں کام کرنے
والی بیٹی اور اس کے شوہر کا ایک ساتھ سڑک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔ دشینت کمار
کے جنم کو لے کر بھی ایک رائے نہیں ہے۔ دشینت کمار کی کتابوں میں ان کی پیدائش کی
تاریخ یکم؍ ستمبر
1933 درج ہے۔ اسکول کے دستاویز میں بھی دشینت کمار کے جنم کی تاریخ یکم؍
ستمبرتحریر ہے، لیکن ہندی ساہتیہ پر گہری نگاہ رکھنے والے وجے بہادر سنگھ اس تاریخ
کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق دشینت کمار کا جنم 27؍ ستمبر
1931 کو ہوا۔ یہ بات اپنے آپ میں کافی عجیب اور حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ دشینت
کمارکی شائع شدہ کتابوں میں درج ان کی تاریخ پیدائش کو دو برس چھبیس دن پہلے کی
تاریخ کو اصلی قرار دیا جائے۔ تاریخ پیدائش کی بابت دشینت کمار کے بیٹے آلوک تیاگی
کا اپنی ماں راجیشوری دیوی کے حوالے سے کہنا ہے کہ مہینے کی 27تاریخ آتے آتے
تنخواہ ختم ہو جاتی تھی اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے یومِ پیدائش پرفراخ دلی سے خرچ
نہیں کر سکتے تھے۔لہٰذا انھوںنے کنجوسی کے ساتھ جنم دِن منانے کی بجائے اپنی پیدائش
کی تاریخ یکم ستمبر کر لی۔
دشینت
کمار نے گاؤں کے پرائمری اسکول سے پنڈت چرنجی لال کی قربت کا فیض پاتے ہوئے بنیادی
تعلیم حاصل کی۔ ہائی اسکول تحصیل دھام پور کے قصبہ نہٹور کے ایس این ایس ایم انٹر
کالج سے کیا،جبکہ انٹر میڈیٹ کی تعلیم ضلع چندوسی کے اسکول میں مکمل کی۔ الہ آباد
یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور وہیں سے ہندی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔کچھ
دنوں تک کرتپور (بجنور) کے انٹر کالج میں درس و تدریس کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد
میرٹھ چلے گئے۔ میرٹھ میں بھی مستقل سکونت اختیار کرنے کی نوبت نہیں آئی۔مرادآباد
سے بی ایڈ کی ٹریننگ کرنے کے بعد1958میں آکاش وانی دہلی میں اسکرپٹ رائٹر کی نوکری
لگ گئی۔ اس دوران دشینت کمار کو ڈاکٹر دھیریندر ورما اور ڈاکٹر رام کمار ورما جیسے
بڑے ناموں کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔حالانکہ اُنھوںنے’پردیسی‘ تخلص کے ساتھ
ہائی اسکول سے ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے،لیکن کہانی کار کملیشور اور مارکنڈے کے
علاوہ دھرم ویر بھارتی، وجے دیو نرائن وغیرہ کی قربت میںان کے اَدبی ذوق اور دلچسپی
کو نئی جلا ملی۔1960میں دشینت کماراسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی پاکرآکاش وانی
بھوپال آگئے۔ انھوں نے مدھیہ پردیش کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ کے تحت ہندی سیکشن میں بھی
اپنی خدمات پیش کیں۔آکاش وانی میں پروڈیوسر بننے کی راہ ہموار ہوئی،تو عمر نے وفا
نہیں کی اور ہندی غزل کا یہ درخشندہ ستارہ،جسے ہندی غزل کا سمراٹ کہا جاتا ہے، 30؍دسمبر
1975 کو بھوپال میںغروب ہو گیا۔
دشینت
کمار نے بھوپال میںسکونت کے دوران شاعری کی جانب اپنی توجہ مرکوز کردی۔ اس وقت
وہاں اردو زبان کے ترقی پسند شاعر تاج
بھوپالی اور کیف بھوپالی کا ڈنکا بج رہا تھا۔بیسویں صدی کی جس دہائی میں تاج
بھوپالی اور کیف بھوپالی کی غزل گوئی عروج پر تھی، اسی دورانیہ میں اَگیے اور
گجانن مادھو کی مشکل نظموں نے ہندی اَدب میں دھوم مچا رکھی تھی۔ ناگارجن اور دھومل
جیسے کچھ کوی ایسے ضرور تھے،جنھیں کسی خاص طبقے کی بجائے عام آدمی کے قریب محسوس
کیا جاتا تھا۔دشینت کمار اردو اور ہندی کے گھال میل سے پیدا ہوئے ہندوستانی شعری
ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔انھوںنے عام لوگوں کے درد،تکلیف اور پریشانی
کو محسوس کیا اور اردو غزل کی طرزپر ہندی میں طبع آزمائی کرنے لگے۔غزل کو ہندی میں
گیتکا بھی کہا جاتا ہے۔ انھوںنے اپنی غزلوں کی کتاب ’سائے میں دھوپ‘ کے پیش لفظ میںلکھا
بھی ہے۔
’کہ
اردو اور ہندی اپنے اپنے سنگھاسن(تخت) سے اتر کر جب عام آدمی کے بیچ آتی ہے،تو
اس میں فرق کر پانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔میری نیت اور کوشش یہی رہی ہے کہ اِن دونوں
بھاشاؤوں کو زیادہ سے زیادہ قریب لا سکوں۔ اس لیے یہ غزلیں اس بھاشا میں لکھی گئی
ہیں، جسے میں بولتا ہوں۔‘ ـ
)سائے میں
دھوپ‘ رادھا
کرشن پرکاشن دریا گنج نئی دہلی، اشاعت؛
جنوری 2008،ص1(
دشینت
کا زمانہ رومانی شاعری کادَور تھا۔ زیادہ تر شعرا حسن وجمال، حب و عشق، پیار و
محبت، حزن وملال، وصل و فراق، کاکل و گیسو، لب و رخسار، سراپا اور معشوق کی اداؤں
میں الجھے ہوئے تھے۔وہ اس نفیس قید سے باہر نکلنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ دشینت کمار
نے اس دائرے کو توڑتے ہوئے غزلیں کہنی شروع کر دیں۔انھوںنے لب و رخسار، حسن و
شباب، طائرو صیاد اور گل و بلبل کے نغموں کو بالائے طاق رکھ کر غریب، نادار،مفلس،
پریشان اور حال میں جی رہے عام آدمی کے درد کو محسوس کرتے ہوئے الگ راہ اختیار کی۔ملک
آزاد تھا،لیکن سیاسی شعور اور معاشرے میں پختگی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔غلامی
دَور میں دیکھا گیا آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے سے نہ تو غریبی دور
ہوپا رہی تھی اور نہ ہی بھک مری رک پا رہی تھی۔تعلیم زرداروں کی مٹھی میں قید تھی
اور خوش حالی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ مزدور و زمیندار کے بیچ فاصلہ بڑھتا جا
رہا تھا۔عوام سے کیے گئے وعدے کھوکھلے ثابت ہو رہے تھے۔ بد انتظامی کا یہ عالم تھا کہ عوامی نمائندے
اور افسر شاہ سرکاری اسکیموں کو لوگوں تک پہنچنے ہی نہیںدے رہے تھے۔ سرکاری امداد
اور اسکیموں کے راستے میں ہی بندربانٹ ہونے سے عوام پریشان تھے، جبکہ کچھ لوگ اپنی
مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سیاسی سطح پرنا اُمیدی کی جھلک معاشرے اور ادب
میں صاف طور پر دکھائی دینے لگی تھی۔کچھ اسی طرح کے خیالات ہندی کوی اَگیے کی
کتاب’کوی من‘ میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں لوگ بڑے بے چین اور
فکر مند تھے۔ اسی بے راہ روی اور نابرابری کے سبب تلخ سے تلخ تر ہوتے حالات نے دشینت
کمار کے قلب میں باغیانہ عنصر پیدا کر دیا۔انتظامیہ کے ناکارہ پن سے نالاں دشینت
کمار نے انقلاب زندہ آباد کے نعرہ اُگلتے پرچم کو ہی اپنے ہاتھ میں نہیں لیا،بلکہ
وہ آگ اُگلتے شعر کہنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ اس شاعر کے اشعار میں بدعنوانی،سرکاراور
افسر شاہی کے خلاف ان کے باغیانہ تیور کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ؎
یہاں
تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں
مجھے معلوم
ہے پانی کہاں ٹھہرا
ہوا ہوگا
دشینت
کی غزلیں ہندی اَدب کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ 1975میں شائع ہونے والے52 غزلوںکے
مختصر شعری مجموعے ’سائے میں دھوپ‘ میں اسی ہیئت کا کلام موجود ہے۔ دشینت کمار نے
اردو میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی، لیکن اپنی غزلوں میں ہندی کے مقابلے اردو الفاظ
کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ این سی ای آر
ٹی کے نصاب میں درجہ گیارہ کی ہندی کی کتاب میں شامل دشینت کی غزل ’کہاں تو طے تھا
چراغاں ہر ایک گھر کے لیے،۔۔۔۔۔‘ کے سات شعروں میںاردو کے 26ایسے الفاظ ہیں، جن کے
معنی ٹیچر کو ہندی میں بتانے پڑتے ہیں۔ شایداسی بنا پر کچھ لوگ اُنھیں اردو کا
شاعرمانتے ہیں،جبکہ دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کی وجہ سے انھیں ہندی کا کوی کہنا
زیادہ مناسب لگتا ہے۔ دشینت خود کو ہندی غزل کار تو مانتے تھے،لیکن وہ یہ بھی تسلیم
کرتے تھے کہ ان کی غزلیں کبھی بھی اردو یا ہندی کی پابند نہیں رہیں،بلکہ عام لوگوں
کی ہندوستانی زبان میں کہی گئی ہیں،تاکہ ہر کوئی انھیں آسانی سے پڑھ اور سمجھ
سکے۔ ان پر غزل کی بحر میں وَزن کا خیال رکھے بغیر اردو کے کئی الفاظ کاغلط
استعمال کرنے کا الزام لگا۔ علم عروض سے واقفیت رکھنے والے لوگوںنے سخت اعتراض کیا۔
شعرا کے اعتراض کے جواب میں دشینت کا کہنا تھا کہ اردو کے لفظ ’شَہر‘کو عام لوگ ہندی لفظ’نَگَر‘ کے وزن میں
’شَہَر‘ بولتے ہیں۔اسی لیے ’شَہر‘ کو ’ شَہَر‘ لکھا گیا۔دُشینت کمار غزلوں کے تعلق
سے لکھے جانے والے مجموعوں کے لیے پیش لفظ کو ضروری نہیں مانتے۔انھوںنے اس بابت
اپنی غزلوں کے مجموعے’سایہ میں دھوپ‘ کے پیش لفظ میںلکھا بھی ہے۔
’میں سویکار(قبول)
کرتا ہوں۔۔۔۔
کہ غزلوں کو بھومِکا (پیش لفظ )کی ضرورت نہیں
ہونی چاہیے۔لیکن ایک کیفیت اِن کی بھاشا کے بارے میں ضروری ہے۔کچھ اردو داں دوستوں
نے کچھ اردو شبدوں(الفاظ) کے پِریوگ( استعمال) پر اعتراض کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ
شبد( لفظ)’ شَہَر‘نہیں ’شَہر‘ ہوتا ہے،’وَزَن‘ نہیں ’وَزن‘ ہوتا ہے۔
کہ
میں اردو نہیں جانتا، لیکن اِ ن شبدوں کاپِریوگ یہاں اَگیاتوش(نادانستہ طور پر )
نہیں،جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ’ شَہَر‘ کی جگہ
’نَگَر‘لکھ کر اس دَوش ( خامی) سے مُکتی (خلاصی) پا لوں، کِنتو (لیکن) میں نے اردو
شبدوں کو اس رُوپ (شکل) میں استعمال کیا ہے، جس روپ میں وے(وہ) ہندی میں گھل مل
گئے ہیں۔ اردو کا ’شَہر‘ ہندی میں ’شَہَر‘ لکھا اور بولا جاتا ہے،ٹھیک اسی طرح جیسے
ہندی کا ’بِراہ منڑ‘ اردو میں ’ بِرہمن‘ ہو گیا ہے اور’ رِتُو‘ ’رُت‘ ہو گئی ہے۔
(ایضاً(
دشینت
کی غزلیں انقلابیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔شاید ہی کوئی ایسی غزل ہو،جس میں
امارت اور بد نظمی کے خلاف باغیانہ تیور کے شعر موجود نہ ہوں۔ ان کے درجنوں اشعار
کو ایسی شہرت ملی کہ اُنھیں جارحیت کے خلاف بطور احتجاج استعمال کیا گیا۔ احتجاجوں
میں شامل لوگوں میں جوش و خروش کی چنگاریاں پیدا کرنے کے لیے نعروں کے طور پر ان
کے اشعاراستعمال کیے گئے ؎
ہو
گئی ہے
پیر پربت سی
پگھلنی چاہیے
اس ہمالہ
سے کوئی گنگا
نکلنی چاہیے
30؍دسمبر1975کوحرکت قلب بند ہونے سے 42برس کی کم عمر میں
دشینت کا انتقال ہو گیا۔ حالانکہ اس ادیب و شاعر نے اپنے پیچھے جو ادبی سرمایہ
چھوڑا ہے، ان میں غزلیاتی مجموعہ’سائے میں دھوپ‘ کے علاوہ نظمی مجموعے ’سوریہ کا
سواگت‘،’آوازوں کے گھیرے‘اور ’جلتے ہوئے بن کا بسنت‘، نظمی ڈرامہ’ایک کنٹھ وِش
پائی‘،ڈرامہ’اور مسیحا مرگیا‘، ناول’چھوٹے چھوٹے سوال، ’آنگن میں ایک وِرَکش‘
اور’ دوہری زندگی‘ اور مختصر کہانیاں’من
کے کونڑ‘ شامل ہیں،لیکن اُنھیں بام عروج پر پہنچانے میں ان کی غزلوں کا اہم کردار
ہے۔
ہندی
غزل کے ذریعے عام آدمی کے دل میں جگہ بنانے والے سادہ زندگی کے پیکر دشینت بالا
بلند خیالات کے مالک تھے۔معاشرے کے تئیں
ان کی فکر و سوچ میں بہت گہرائی تھی۔انھوںنے مزدور، کسان، غریب، مجبور، تفریق اور
سماجی نابرابری کے تشدد کا نشانہ بنے لوگوں کا نہ صرف قریب سے مشاہدہ کیا،بلکہ ان
کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے ان کی آواز کو اپنی شاعری کی پرواز دی۔اس زمانے میں
اردو شعرا تو فارسی کے دقیق الفاظ کے سمندر سے باہر نکلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو
گئے،لیکن ہندی شاعری میں مشکل الفاظ کے استعمال کو کوی کی قابلیت کا پیمانہ تسلیم
کیا جاتارہا۔ دشینت نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ انھوں نے عام لوگوں کے سر سے گزر جانے
والے سنسکرت اور فارسی کے غیر آسان الفاظ کو ترک کرکے ان کی جگہ آسان ہندی اور
عام بول چال کے اردو الفاظ کو معاشرے سے اَخذ کرکے اَشعار کہے،جسے عام و خاص لوگوں
میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ؎
میں جسے ا
وڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل
آپ کو سناتا ہوں
دشینت
ہندی غزل کے ایسے عظیم شاعر ہوئے،جو اپنے آس پاس اور معاشرے میں موجود مسائل کا
انتخاب کرکے شعر میں ڈھالنے کا ہنرتو جانتے ہی تھے، انتظامیہ پر زبردست چوٹ کرنے
سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ؎
کہاں تو طے تھا
چراغاں ہر ایک گھر کے لیے
کہاں چراغ
میسر نہیں شہر
کے لیے
دشینت
کو ہندی غزل کابانی اور قائد اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوںنے جس زمانے میں شاعری کی
وہ زمانہ اردو غزل کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ نوابوں کی مجلسوں اور بادشاہوں کی
محفلوں سے باہر نکل کر رؤسا کے دالانوں کو رونق بخشنے والی اردو غزلیں مشاعروں کی
شان ہوتی تھیں۔ دشینت نے غزل کی خوبصورت صنف کو نہ صرف اردو کی طرح ہندی میں
آزمانے کا بیڑا اُٹھایا،بلکہ ہندی کے دلدادہ اس نوجوان شاعر نے وہ کارنامہ کر
دکھایا،جس کی ہمت اس وقت کے بڑے سے بڑے ہندی کوی نہیں کر پائے۔
ہندی
کے بیباک شاعرو ادیب دشینت نوکری کے سلسلے میں نہ صرف ضلع بجنور،بلکہ اترپردیش سے
باہر رہے۔ آخر میں وہ مدھیہ پردیش کے دارالخلافہ بھوپال پہنچے اور پھروہیں کے
ہوکر رہ گئے۔ انھوںنے بھوپال میں رہ کر اپنی شاعری کو پروان چڑھایا۔ مدھیہ پردیش کی
حکومت نے ہندی غزل کے شہنشاہ دشینت کمار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بھوپال میں
ان سے منسوب ایک میوزیم قائم کیا۔ایک شاہراہ کا نام بھی دشینت کے نام پر رکھا گیا۔
28ستمبر 2009میں مدھیہ پردیش کے گورنر نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا،لیکن ان کی جنم
بھومی ضلع بجنور یا صوبہ اتر پردیش میں انھیں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا، جس کے وہ
حق دار تھے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اَب اُن کے گاؤں میں بھی لوگ انھیں بھولتے جا
رہے ہیں۔
n
M. A. Kanwal Jafri
127/2, Jama Masjid, Neendru
Tehsil Dhampur
Distt.: Bijnor - 246761 (UP)
Mob.: 9917767622
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں