3/12/19

حسرت جے پوری اور آبشارِ غزل مضمون نگار۔ شاہد احمد



حسرت جے پوری اور آبشارِ غزل

شاہد احمد
جب ہم اردو شاعری و غزل کی تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں تو ہمیں میر، غالب اور مومن کی غزلیں مسرور و ممنون کرتی نظر آتی ہیں۔ وہیں داغ اور جگر کا رنگِ سخن اردو شاعری کی جان ہے۔ حسرت جے پوری بھی اسی مزاج کے روح رواں ہیں۔ ان کی غزلیں، اور نغمے خود ان کا پتہ دیتی ہیں۔ ان کی رومانی غزلوں اور نغموں نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا        ؎
حسرت ہمارے دم سے ہے یہ سرخیِ شفق
یہ چرخ خون روئے گا گر ہم نہیں رہے
حسرت جے پوری کا اصل نام اقبال حسین تھا۔ 15/ اپریل 1922 کو گلابی نگر شہر جے پور میں آنکھیں کھولی۔ اردو، فارسی، اور انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ نے تقریباً سترہ برس کی عمر میں اپنی شاعری کی شروعات کی۔ شاعری آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ اپنے نانا فدا حسین فدا جے پوری سے اصلاح لیتے تھے جو آپ کے اردو اور فارسی کے استاد بھی تھے۔ آپ کی رہائش گاہ پر شعراء کرام کا مجمع ہمیشہ لگارہتا تھا چونکہ آپ جے پور میں ایک استاد شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسی  شعری ماحول میں حسرت کی شاعری پروان چڑھی۔ حسرت جے پوری کا تعلق غالب اسکول سے تھا۔ چونکہ آپ کا سلسلہ اردو غزل کے عظیم شاعر مرزا غالب تک پہنچتا ہے۔ آپ کے نانا آغا دہلوی کے شاگرد تھے اور آغا دہلوی کا شمار مرزا غالب کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ اسی نسبت سے آپ کا سلسلہ تلمذ مرزا غالب تک پہنچتا ہے۔
حسرت جے پوری کی عمر جب بیس برس کی تھی تو آپ رادھا نام کی ایک لڑکی (جو کہ آپ کے گھر کے سامنے رہتی تھی) کے خاموش عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ شاعری کی سیڑھیاں چڑھنے لگے اور اس کی یاد میں لفظوں کا ایسا تانا بانا بنا کہ ملک کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنی محبت کاا ظہار کرنے کے لیے بہترین غزلیں اور نغمے دے دیے۔ حسرت  خود رقم طراز ہیں کہ:
”شعر و شاعری کی تعلیم میں نے اپنے نانا جان سے حاصل کی لیکن عشق کا سبق رادھا نے پڑھوایا“
رادھا  اکثر جھروکے پہ آیا جایا کرتی تھی جسے دیکھ کر حسرت کہہ اٹھتے تھے     ؎
تو جھروکے سے جو جھانکے تو میں اتنا پوچھوں 
میرے محبوب تجھے پیار کروں یا نہ کروں 
مزید یہ کہ       ؎
تم سامنے بیٹھی ہو اور جان نکل جائے
مرنا تو کسی دن ہے ارمان نکل جائے
حسرت جے پوری سہل ممتنع کے قائل ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنی شاعری میں عام فہم، پراثر اور پرکیف لب و لہجہ اختیار کیا۔ مشکل الفاظ سے پرہیزکیا اور کہا کہ مشکل الفاظ کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ آسان ہوجائے اور ہر کوئی ان سے متاثر ہوسکے۔ بقول حسرت جے پوری:
”شاعری خداداد ہے۔ شاعر بنتے نہیں اللہ پیدا کرتا ہے۔“
حسرت جے پوری اردو کے عظیم شاعر مولانا حسرت موہانی سے بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے آپ نے اپنا تخلص حسرت اختیار کیا۔ ان کی پہلی غزل کا یہ شعر ملاحظہ ہو    ؎
کس ادا سے وہ جان لیتے ہیں 
مرنے والے بھی مان لیتے ہیں 
حسرت جے پوری نے 1940 میں تلاش معاش کے لیے بمبئی کا رخ کیا اور تقریباً آٹھ سال بس کنڈکٹری کی۔ راہوں میں کئی تکالیف اٹھائیں لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری۔ زندگی میں جو کچھ دیکھا محسوس کیا اسے اپنے الفاظ دے دیے۔ آپ دکھ اٹھاتے رہے، مسکراتے رہے، گنگناتے رہے، اور ان کی غزلیں اور نغمے انھیں سکون بخشتے رہے۔ فٹ پاتھ پہ ان کے ساتھ رہنے والے ان کے ساتھی ان کی محفل میں کردار نبھاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ عزم محکم ہو تو خودراہیں نکل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو    ؎
ظلمت شب میں بھٹکتے ہوئے راہی کے لیے
عزم محکم ہو تو راہیں بھی نکل آتی ہیں 
اپنی منزل پہ وہ انسان پہنچ جاتا ہے
بجلیاں خود اسے قندیلیں سی دکھلاتی ہیں 
اور اسی عزم محکم کا اثر رنگ لاتا رہا۔ دن میں بس کنڈکٹری کرتے اور رات کو بزم سخن سجاتے اور اسی مشق سخن نے انھیں ایک بس کنڈکٹر سے عظیم المرتبت شاعر اور گیت گار بنا دیا۔ جتنے ایوارڈ حسرت جے پوری کو ملے ہیں اتنے شاید ہی کسی شاعر کو نصیب ہوئے ہوں۔ 
حسرت جے پوری کی شاعری میں جو فنکارانہ حسن اور پرکاری ہے وہ دل کو چھو لینے والی ہے جس کا اعتراف ہر صاحب ذوق نے کیا ہے اور اسے احساس کی شدت کہیے یا ان کی سحربیانی۔ ان کے  اشعار کا تاثر ہر شعر میں اور ہر بار نئے انداز سے ابھر کر دل کے تاروں کو جھنجھوڑتا ہے، ان کے الفاظ خود بخود ترنم بکھیرنے اور گنگنانے لگتے ہیں، پڑھنے اور سننے والے پر ایک پرکیف نشہ طاری ہوجاتا ہے    ؎
مجھ سے خود ہے چمن کی زیبائی
میں گلوں کا کوئی سفیر نہیں 
مزید یہ کہ   ؎
حسرت جہاں میں اور ہیں لاکھوں غزل سرا
وہ کیا غزل جو ہوش جہاں کے اڑا نہ دے
حسرت جے پوری غزل کی اہمیت و مقبولیت اور اس کی عظمت کے قائل ہیں جس کا اعتراف اور غزل سے اپنی محبت کا اظہار اپنی غزلوں میں اس طرح پیش کرتے ہیں     ؎
ہے سہانہ غزل کا سفر
ختم ہوگا نہ یہ عمر بھر
میر و غالب بھی شیدائی تھے
اس حسینہ پہ دونوں بشر
ذوق و مومن بھی پروانے تھے
ہے یہ شمع بڑی معتبر
چلتی آئی ہے صدیوں سے یہ
لکھتے آئے ہیں داغ و ظفر
ابتدا کرگئے ہیں ولی
انتہا کرگئے ہیں جگر
ہر زباں پر ہے چھائی ہوئی
دشمنوں کی لگے نہ نظر
اس کے حسرت بھی شیدائی ہیں 
بات اتنی سی ہے مختصر
حسرت جے پوری کی غزل کا مجموعہ ’آبشار غزل‘ کے عنوان سے نومبر 1989 میں شائع ہوا جس میں تقریباً 128 غزلیں شامل ہیں۔ ایک ہی صفحہ پر اردو اور ناگری لپی میں غزلیں یکجا کی گئی ہیں۔ پیش لفظ فیاض رفعت نے قلم بند کیا ہے۔ حسرت جے پوری کی غزل پر فیاض رفعت نے اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کیا ہے:
”حسرت کی لفظیات قدیم و جدید کا بہترین امتزاج ہے مگر انھوں نے قدیم لفظوں کو نئی شکل عطا کی ہے۔ خوشبو، آنسو، جادو، چاند، پتھر، شبنم، آنچل، پائل، دھنک، نیند، تنہائی، سناٹا، مفلسی، مجبوری، درد و الم، بے کسی، فراق، تاثر، بیلا، گلاب، چمپا، چمیلی جیسے الفاظ استعاروں کی صورت میں غیرشعوری طور پر حسرت کی شاعری میں جگہ پاتے گئے۔ ان لفظوں میں حسرت کی شاعری کی دنیا آباد ہے۔“ (آبشار غزل، ص 7)
بلاشبہ حسرت کی شاعری میں پانی اور پتھر کے استعاروں کا استعمال انتہائی خوبصورتی سے ہوا ہے     ؎
بات سنتا نہیں وہ جان چمن پتھر کا
مجھ کو محبوب ملا شعلہ بدن پتھر کا
سانولا رنگ ہے کیا انگ ہے اللہ اللہ
صرف اتنی ہے کمی یار کا من پتھر کا
پھول کے بدلے برستے ہیں جفا کے پتھر
ہائے اس دور میں ہے اب تو چلن پتھر کا

کون بنیاد رکھے ماہ لقا پانی پر
آشیاں کون بناتا ہے بھلا پانی پر
آپ کے حسن خراماں کے تصدق جاؤں 
آپ چلتے ہیں کہ چلتی ہے صبا پانی پر
خود ہی لے کر گیا طوفان کنارے اس کو
وہ سفینہ تیری یادوں میں چلا پانی پر
یار کو جھوٹی محبت تھی کچھ ایسی حسرت
جس طرح نقش بناتی ہے ہوا پانی پر
.حسرت جے پوری کی غزل گوئی کو موضوعات کے لحاظ سے دیکھیں تو اس میں مختلف النوع مضامین کے درمیان ایک خاص موضوع عورت کا تصور بھی رہا ہے۔ حسرت عورت کی شان و عظمت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ ان کے نزدیک عورت اللہ کی رحمت کا وہ شاہکار ہے جس کے مراتب کو ترازو میں تولا نہیں جاسکتا     ؎
اوتار و پیمبر کو جنم جس نے دیا ہے
اللہ کی رحمت کا وہ شہکار ہے عورت
عورت نہیں ہوتی تو جہاں کچھ نہیں ہوتا
دل جس پہ نچھاور ہے وہ دلدار ہے عورت
عورت کے مراتب بھی کوئی کم تو نہیں 
دنیائے محبت کی علمبردار ہے عورت
حسرت جے پوری کی جو بھی تخلیقات منظرعام پر آئیں اس پر اگر ناقدانہ نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے فلمی گیتوں کے علاوہ ان کی اردو شاعری اور غزل کی خاموش خدمت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جو انھیں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے روشناس کراتی ہے۔ ان کی اسی ادبی خدمات کے پیش نظر دوسری عظیم الشان عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں جو 11 فروری 1989 کو دہلی کے پرگتی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ حسرت جے پوری کو ’جوش ملیح آبادی عالمی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ حسرت جے پوری 77 سال کی عمر میں  1999 میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔

Shahid Ahmed
24, Behind Kalka Mata Temple
Ganesh Nagar Pahada
Udaipur - 313001 (Rajasthan)
Mob.: 08107868785



ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں