28/11/19

بہار میں جدید اردو مرثیہ سمت و رفتار مضمون نگار۔ محمد ارمان


بہار میں جدید اردو مرثیہ
 سمت و رفتار

محمد ارمان


مرثیہ اردو شاعری کی ایک عظیم و قدیم صنف ہے اور یقینا جہاں اس کے اجزائے ترکیبی پر علمائے نقد و ادب نے ہمارے لیے نہایت قیمتی اور یادگار تحریریں چھوڑی ہیں، وہیں اس صنف کے منظر و پس منظر اور عہد بہ عہد ارتقا  پر بھی نہایت ہی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، یہاں تک کہ مختلف علاقوں اور خطوں میں بھی اردو مرثیہ کے ارتقائی سفر اور اس کے متعلقہ صوبائی و دبستانی اختصاص پر  تجزیاتی اظہار خیال میں کوئی کمی نہیں رکھی گئی ہے اور ان نکات کی صاف صاف نشاندہی کردی گئی ہے جن سے اس صنف کے ایسے امتیازات مبرہن ہوجاتے ہیں جو دکن، دہلی، لکھنو اور عظیم آباد کے رثائی اکتسابات کا فرق بخوبی سامنے لادیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ازروئے مقصدیت قدیم و جدید مرثیہ گوئی میں کیا بات وجہ تفاوت بنی ہے اور جدید اردو مرثیہ کی سمت و رفتار کا  معاملہ کیا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ قدیم دور میں مرثیے ازراہِ ثواب رونے اور رلانے کے مقصد سے لکھے گئے، جب کہ بیسویں صدی کے نصف اوّل سے مرثیہ گوئی کا مقصد حالات حاضرہ کی روشنی میں عزم و استقلال کے حصول کی نفسیاتی صورت اختیار کرگیا۔ مرثیہ کے تعلق سے انیس و دبیر کی خدمات بیشک ہمارے لیے ابدی سرمایہ افتخار ہیں، لیکن ان بزرگوں  کے دور میں ہی ایک ذہنی خلش ابھرنے لگی تھی اور بہار میں اردو مرثیہ نگاری کے مایہ ناز فن کار جو اس صنف کے حوالے سے انیسویں صدی اور بیسویں صدی عیسوی کے سنگم پر کھڑے تھے، یہ محسوس کرنے لگے تھے، بلکہ اس احساس سے یک گونہ مایوس بھی ہورہے تھے کہ مرثیہ میں روایات صحیحہ کی پابندی کے ساتھ اہل بیت کے شیوہئ صبر و رضا کی عکاسی گویا نہیں ہو رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ مرثیہ میں مقصدیت کی سمت بدلنے کا احساس باقاعدہ اظہار کی صورت اختیار کرنے لگا تھا۔ 
یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن اتنی بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ بہار میں ذہنی و فکری اعتبار سے جدید اردو مرثیہ کی داغ بیل اُسی دن پڑی، جس دن شاد نے اپنے مرثیہ پر مرزا دبیر کی اصلاح قبول کرنے سے معذرت کرلی اور پھر انھیں دنوں میر مونس کی معرفت وہ پیغام میر انیس تک بھی پہنچا دیا گیا جس میں مولوی یحییٰ وکیل بھی شاد کے ہم خیال تھے، یا ازروئے واقعہ یہ کہاجائے کہ شاد کے لیے مولوی یحییٰ وکیل ذہنی محرک بنے تھے۔
یہ 1872 کا واقعہ ہے اور اس کی تفصیل رسالہ ’ندیم‘ گیا کی 22 ویں جلد میں دیکھی جاسکتی ہے اور پھر جدید اردو مرثیہ کا بہار میں عملاً آغاز اس دن سے ہوا جس دن شاد نے میر انیس کے جوابی خیالات کے مدنظر اپنا دوسو بند پر مشتمل مرثیہ مکمل کرلیا۔ یہ 1884 کی بات ہے۔ گویا کم و بیش دس بارہ سال میں ایک ذہنی تحریک نے عملی صورت اختیار کی۔
 میر انیس کا ارشاد یہ تھا کہ اگر صرف روایات صحیحہ اور تاریخی واقعات تک مرثیہ کو محدود کر دیا جائے تو وہ موثر نہ ہوگا۔ ایسی فرمائش آسان ہے، لیکن اس طرح دس بند بھی نظم کرنا ممکن نہیں۔ میر انیس کی طرح میر خورشید علی نفیس بھی کچھ ایسا ہی سمجھتے تھے، لیکن 1889 میں جب شاد  نے اپنا مذکورہ مرثیہ میر نفیس اور ان کے نواسے میر عارف کو سنایا تو انھیں شاد کی صلاحیت اور نظریاتی صلابت کا قائل ہونا پڑا اور شاد کی عملی کاوش پر یک گونہ مہر پزیرائی ثبت ہوئی۔ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے شاد کے اس مرثیہ کا دو بند یکھتے چلیں     ؎
بچوں کو تین دن سے تھی جو انتہا کی پیاس
بیٹھے ہوئے تھے ماؤں کے پہلو میں سب اداس
بازار موت گرم تھا، اور سب کے دل اداس
لیکن یہ کیا مجال کہ ظاہر کریں ہراس
رونے کو اضطراب کو ٹالے ہوئے تھے وہ
سیدانیوں کی گود کے پالے ہوئے تھے وہ
بس روک لو قلم نہ لکھو عامیانہ بین
کچھ کم ہے یہ کہ ذبح ہوئے شاہ مشرقین
اس بین سے نہ صبر میں آجائے فرق بین
کافی ہے بس یہ بیت پئے ماتم حسین
چوں خلق ز حلق تشنہ او بر زمیں رسید
طوفاں بر آسماں ز غبارش ہمیں رسید
ظاہر ہے کہ یہاں پہلے بند میں اہل بیت کا، بلکہ یوں کہا جائے کہ کم سن بچوں کا مثالی ثبات و قرار دکھایا گیا ہے جو بہ آسانی یہ بتا دیتا ہے کہ جب ان نونہالوں کا صبر و ضبط اس درجہ پر تھا تو ان کے بڑوں کی سنجیدگی و شکیبائی کا عالم کیا ہوگا اور پھر دوسرے بند میں شاد نے اپنا نظریہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ قدما کا خیال یہی تھا کہ محض تاحد فصاحت و صداقت، مبالغہ آرائی کے بغیر اور بلاغت سے عدم احتراز کی صورت میں اثر آفرینی ممکن نہیں، لیکن شاد کے مذکورہ بند اس خیال کو، محض ایک مفروضہ ثابت کردینے میں یقینا کامیاب ہیں۔ شاد کے پیغام ’بس روک لو نہ لکھو عامیانہ بین‘سے بہار میں جدید اردو مرثیہ کی عملاً ابتدائی صورت سامنے آتی ہے۔ یہ اصل میں بیان مصائب میں تکرار اور آہ و بکا میں غلو کو بیان سیرت میں استحکام اور ضبط اظہار میں کمال استواری سے بدل دینے کا عمل ہے اور اس رُخ سے دیکھیں تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ سفارش حسین رضوی نے یہ غلط نہیں لکھا ہے کہ:
”مرثیہ گوئی میں شاد کو اپنے دور کا انیس کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مرثیہ کے قلب میں نئی روح پھونکی، نیا انداز بیان عطا کیا۔“    (اردو مرثیہ، 1965، ص399)
بلاشبہ شاد نے مرثیہ نگاری کے آئین و اصول اور اس کے فن کی طرف جس طرح توجہ دلائی ہے، وہ تاریخ ارتقا کے اعتبار سے بہار میں جدید اردو مرثیہ کے اقدار عالیہ کی تعین روشن ہو جاتی ہے      ؎
ہو جس میں ابتذال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو پست و پائمال وہ مضموں نہ باندھنا
عقلاً ہو جو محال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو جس پہ قیل و قال وہ مضموں نہ باندھنا
باتیں وہ کیا کہ جان سخن جن میں کچھ نہ ہو
مضموں کی جس میں ڈھانچ ہو باطن میں کچھ نہ ہو
داخل مبالغہ بھی محاسن میں ہے مگر
اتنا نہ ہو کہ نفس مطالب کا ہو ضرر
باتیں وہ ہوں پسند جن کو کریں ذی ہنر
آنکھوں کے آگے عین صداقت ہو جلوہ گر
اظہار مدعا میں کسی جا خلل نہ ہو
مطلب وہ کیا کہ جس کا کوئی ماحصل نہ ہو
حضرت شاد کا واقعی یہ تاریخی احسان ہے کہ جس طرح ان کی کاوشوں سے غزل میں دبستان دہلی اور لکھنو کی خلیج پاٹ دی گئی، اسی طرح ان کی فکر اور ان کی مرثیہ گوئی کی بدولت اردو مرثیہ میں اور خصوصاً بہار کے حوالے سے اردو مرثیہ میں اصلاح فکر و فن کی نئی راہ متعارف ہوئی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شاد مرثیہ میں بین کے نہیں بلکہ ’عامیانہ بین‘ کے مخالف ہیں اور ان کے نزدیک تبلیغ ناروا نہیں بلکہ غلو اورا غراق داخل معائب ہے۔
 شاد نے ہمیں یہ شعور بخشا کہ مرثیہ میں مبالغہ’اتنا نہ ہو کہ نفس مطالب کا ہو ضرر‘ اور کہنا چاہیے کہ یہیں سے مرثیہ نگاری کو جدید انقلابی ذہن ملا اور اس کی نئی سمت نے تعین پایا۔ شاد کے معاصرین میں صفیر، فضل حق آزاد، میر فدا حسین بحر، بہار حسین آبادی، سید علی اکبر کاظم عظیم آبادی اور منظر عظیمی جیسے مرثیہ نگار ان بہار کا نام آتا ہے اور ذرا تکلف سے سہی، مگر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ شاد کی انقلابی فکر کا اثر کسی نہ کسی طرح ان شعرا نے بھی قبول کیا ہے اور چونکہ ان میں سے بعض سرحد پار بھی چلے گئے، اس لیے ان اثرات کا دائرہ علاقائی تاریخ مراثی کے لحاظ سے مزید وسیع بھی ہوا ہے۔مثال کے لیے علی اکبر کاظم کا مرثیہ بہ عنوان ’پالی کا علم‘ پیش کیا جا سکتا ہے، جس میں علی نگر پالی کے امام بارگاہ میں علم محترم کے نصب کیے جانے اور اس تعلق سے ہونے والے مناقشاتی واقعات کی پوری تاریخ بیان کردی گئی ہے۔ مرثیہ میں علاقائی تاریخی واقعات کی شمولیت یقینا ایک ایسی بات ہے جو جدید رجحان کا پتہ دیتی ہے۔
 شاد مرثیہ نگاری کے باب میں نری روایت پرستی اور روایت پسندی پر اپنی سنجیدہ و شدید ضرب لگا چکے تھے اور کامیابی ان سے قریب ہونے لگی تھی،یہاں تک کہ بیسویں صدی کا وسطی زمانہ آتے آتے، قدرت نے اردو مراثی کو جوش ملیح آبادی اور آل رضا کے ساتھ ساتھ  بہار کے جمیل مظہری جیسے فن کار سے بھی نواز دیا جن کی بدولت یہاں جدید مرثیہ کا منظر نامہ پوری طرح روشن ہوگیا۔ جہاں تک علامہ جمیل مظہری کا تعلق ہے، یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ بہار کے حوالے سے اگر شاد جدید اردو مرثیے کے موسس ہیں تو علامہ جمیل مظہری، اسے بہمہ طور آگے بڑھانے والے سب سے کامیاب اور بزرگ فن کار کا درجہ رکھتے ہیں، جنہوں نے اردو مرثیہ سے قومی اصلاح اور بیداری کا کام لیا۔
 شاد کی مساعی سے مرثیہ اس سمت پر آچکا تھا اور آگے بڑھنے لگا تھا کہ ”باتیں وہ ہوں پسند جن کو کریں باہنر“ اور جمیل مظہری نے اسے مزید اس سمت سے بھی قریب کر دیا کہ باتیں وہ ہوں، پسند جن کو کریں ذی نظر ”یعنی تقاضائے وقت کے بموجب مرثیہ صرف مذہبی نہ ہو ملی بھی ہو اور تشکیک و جمود کی فضا میں کربلا کا پیغام عزم و یقین اور ایثار و ثبات عام لوگوں تک پہنچتا رہے اور یہ دیکھا اور دکھایا جائے کہ امام عالی مقام صرف روحانیت کے پیکر ہی نہیں انسانیت کا ملہ کے نمونہ بھی ہیں۔
 شاد کی مرثیہ نگاری کا عہد 1924 میں تمام ہوتا ہے اور اس کے محض چھ سال بعد 1930 میں مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر سے متاثر ہوکر جمیل مظہری کا مرثیہ ’عرفان عشق‘ سامنے آتا ہے جس میں بقول خویش انہوں نے باقاعدہ طور پر مرثیہ کا رشتہ قومی شعور سے جوڑا ہے۔ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے اس مرثیہ کے فلسفہ بداماں پیامی بند دیکھتے چلیں     ؎
نبض جاں تیز رہے مقصد فطرت ہے یہی
دل دھڑکتے رہیں سینوں میں محبت ہے یہی
آدمی غم سے نہ گھبرائے شجاعت ہے یہی
دل پہ قابو رہے، شرط بشریت ہے یہی
نشہ ہو بیخودی شوق میں ہشیاری کا
زندگی نام ہے، جذبات کی بیداری کا
صبح منزل کی تمنا ہے سر شام عمل
کس قدر گرم تخیل ہے سبک گام عمل
اے خوشا بیخودی نشہ خود کام عمل
غور کیجیے تو شکستیں بھی ہیں پیغام عمل
وہ شکستیں جو نتائج کو اثر خیز کریں 
عشق شوریدہ طبیعت کا جنوں تیز کریں 
بعد ازیں 1935 میں جمیل مظہری کا مرثیہ ’پیمان وفا‘ اُس وقت سامنے آتا ہے جب ماہ عزا کا احترام بالائے طاق رکھتے ہوئے، فرنگی حکمرانوں نے جارج پنجم کی جوبلی کے موقع پر امام بارگاہ میں چراغاں کا حکم دیا تھا۔ اس مرثیہ میں ابن زیاد کی حامیان حسین کو دھمکیوں کے تاریخی پس منظر سے خصوصی غذا لی گئی ہے اور وسیع تر شعور و آگہی کے ساتھ سیاسی بصیرت یوں جلوہ گر ہوتی چلی گئی ہے کہ صبر و استقامت کی پوری تاریخ سامنے آجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ برجستہ للکار کی ایک عجیب سی فضا چھا جاتی ہے جو یقینا غیرت و حمیت کو تازیانے لگانے کے لیے کافی ہے      ؎
کہیں زنجیروں کی دھمکی تھی، کہیں بارش زر
کام کرنے لگا ہر سمت حکومت کا اثر
سن کے یہ غل کہ چلا آتا ہے شاہی لشکر
عورتیں لے گئیں مردوں کو قسم دے دے کر
یوں ہی ایماں کی طرف خوف مکیں ہوتا ہے
دل میں راسخ ہو غلامی تو یوں ہی ہوتا ہے
آج بھی جب کہ ہے ماضی سے کہیں بہتر حال
حاکم شہر کے بگڑے ہوئے تیور کا خیال
کتنے ایمانوں کو کر سکتا ہے دم بھر میں نڈھال
جوبلی ماہ عزا میں ہوئی خود اس کی مثال
کیوں، جہاں ہو علم شاہ شہیداں اے قوم
جوبلی میں اسی پھاٹک پہ چراغاں اے قوم
اتنا ہی نہیں بلکہ اس مرثیہ میں جمیل مظہری نے حضرت زینب کا کردار بھی جس رُخ سے دکھایا ہے، وہ نہایت ہی اہم ہے۔ جسے ہم بلاشبہ ہمت و ولولہ کا اشاریہ کہہ سکتے ہیں      ؎
یہ چاہتی ہوں حق کا علم سرنگوں نہ ہو
بھائی کا خون ہو پہ صداقت کا خوں نہ ہو
چرچا ثبات و عزم کا نزدیک و دور ہو
ہے فیصلہ مرا کہ لڑائی ضرور ہو
حاضر رسن کے واسطے میرا گلا بھی ہے
پرچم کا کام دے تو یہ کہنہ ردا بھی ہے
 جدید اردو مرثیے کو سمت و رفتار عطا کرنے میں یقینا جمیل مظہری کا حصہ ناقابل فراموش ہے کہ انھوں نے مرثیہ کو بخوبی تمام تاریخ امروزہ سے پیام تہور کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور اس طرح گویا ایک بڑا ملی تقاضا پورا کیا ہے۔
بہار کے شعرائے مراثی میں بدر عظیم آبادی، نتھونی لال وحشی، احسن رضوی، ہوش عظیم آبادی، دانش عظیم آبادی، زار عظیم آبادی، مرتضیٰ اظہر رضوی، شہزاد معصومی، نقی احمد ارشاد، صابر آروی اور فردوس عظیم آبادی کے نام بلاتکلف لیے جاسکتے ہیں، ان میں بدر عظیم آباد اور نتھونی لال وحشی ہمارے وہ مرثیہ گوہیں جنھوں نے جمیل مظہری کے اثرات بہت قریب سے قبول کیے ہیں اور یقینا ان شعرا کی روایتوں کے بہترین اثرات آج اکیسویں صدی میں بھی ہمیں بخوبی تمام نواز رہے ہیں۔

Dr. Md. Arman
Kashinath Colony, Katari Hill Road
Opposite Ghanta Kothi
Gaya-823001 (Bihar)
Mob: 9931441623

ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...