29/11/17

مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت از فیروز بخت احمد



مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت

لارڈ جارج سے ایک بار کسی نے دریافت کیا کہ صحافی بننے کے لیے ایک انسان کو کیا کیا جاننا چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا، ’’سب کچھ اور کچھ نہیں یعنی کہ صحافی در اصل وہ ہے جو کہ دنیا کی تقریباً تمام باتوں کو جانے لیکن ماہر کسی کا نہ ہو!‘‘ لیکن مولانا کی یہ عجیب و غریب خصوصیت کہ وہ بہت کچھ جانتے تھے اور جو کچھ جانتے تھے ماہرانہ حیثیت سے جانتے تھے۔ جس موضو ع پر بھی لکھا، اپنا سکہ جمایا۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی نظیر دنیا ئے صحافت میں مشکل ہی سے ملتی ہے۔

بقول نیاز فتح پوری ’’مولانا کے دور صحافت کا تاریخی تعین دشوار ہے کیونکہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس کا آغاز کب سے سمجھا جائے۔ مولانا کی علمی و صحافتی زندگی کے سلسلے میں رسالہ ’مخزن‘، اخبار ’وکیل‘ اور ’الندوہ‘ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ابتدا ’لسان الصدق ‘ کے اجرا سے ہوتی ہے جسے انھوں نے جاری کیا، خود مرتّب کیااور خود ہی بند کر دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جس فضا و ماحول میں رہ کر اسے جاری کیا گیا تھا، وہ مولانا کے لیے بہت تنگ تھی اور وہ بہت سی باتیں جنھیں مولانا کھل کر کہنا چاہتے تھے کہہ نہیں پاتے تھے۔ یہ زمانہ مولانا کی بہت کم سنی کا تھا اور اتنی کم سنی کہ اس عمر میں لوگ اپنی تعلیم بھی ختم نہیں کرسکتے۔

حریت کے شیدائیوں، مظلوموں اور بیکسوں کی صدا کو اپنی صحافت کے ذریعے بین الاقوامی سیاسی شعور دے کر مولانا آزاد نے معاشرے میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ 1899  میں انھوں نے ’المصباح ‘کی ادارت کی۔ان کا تعلق 1901 میں مولوی سید احمد حسن فتحپوری کے ’احسن الاخبار‘ اور ’تحفۂِ احمدیہ‘ سے بھی رہا۔’احسن الاخبار‘ کی ادارت کی بیش تر ذمے داری مولانا ہی انجام دیتے تھے۔ وہ عربی اخباروں کے مضامین اور خبروں کے انتخاب و ترجموں کے کام بھی انجام دیتے تھے۔ پھر انھوں نے ’لسان الصدق‘ (1904) اور ’خدنگ نظر‘،’ایڈ ورڈ گزٹ‘، ’مرقع عالم‘،  ’البصائر‘،  ’مخزن‘،  ’الندوہ‘،  ’وکیل‘، ’دارالسلطنت‘، ’الہلال‘، ’البلاغ‘، ’اقدام‘، ’پیغام‘، ’الجامعہ‘، ’پیام‘، ’المصباح‘،  ’زمیندار‘، ’البشیر‘، ’مسلم گزٹ‘، ’مساوات‘، ’ثقافت الہند‘ وغیرہ میں نہ صرف مضامین دیے بلکہ ان میں سے بہت سوں کی ادارت بھی کی۔

مولانا کے صحافتی سفر کے شروعاتی دور کا ایک واقعہ نیاز فتح پوری کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں:
 ’علامہ رشید رضا، ایڈیٹر ’المنار‘ ایک عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرنے جا رہے تھے جو بڑے بڑے علما پر مشتمل تھا۔ ضرورت ایک ایسے شخص کی پڑی کہ جو عربی اور اردو دونوں کا ماہر ہو اور ان کی عربی تقریر کا برمحل ترجمہ کرتا جائے۔ مولانا شبلی کے منصب سے یہ بات فرو تر تھی کہ وہ خود اس خدمت کو انجام دیں۔ لہٰذا وہ بڑے متفکر تھے۔آخر ’’جز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار‘‘مولانا ابو الکلام بے تکلفانہ سامنے آجاتے ہیں اور اس خدمت کو اتنی خوبی و دلکشی سے انجام دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ خود تقریرکر رہے ہیں۔‘‘
یہ تھا مولانا کی ذہانت و قابلیت کا پہلا عملی مظاہرہ جسے کھلے اسٹیج پرسیکڑوں مدعیانِ فضل و کمال نے دیکھا۔

مولانا نے ’لسان الصدق‘ جاری کیا ’لسان الصدق‘ کی ادارت کے زمانے میں مولانا آزاد کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی اور بہت سے لوگ ان کے مداح بن گئے تھے۔ انھیں میں ایک صاحب شیخ غلام محمد امرتسر کے رہنے والے تھے۔ وہ اس زمانے کے مشہور سہ روزہ اخبار ’وکیل‘ کے مالک تھے جو امرتسر سے شائع ہوتا تھا۔ جب مولانا آزاد نے اکتوبر 1905 سے مار چ 1905تک 6 مہینے ’الندوہ‘ سے وابستہ رہنے کے بعد کسی وجہ سے خود بخود تعلق قطع کر لیاتو شیخ غلام محمد نے انھیں امرتسر آنے اور ’وکیل‘ کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی۔ اس پر مولانا امرتسر چلے گئے اور انھوں نے اپنے زمانۂ ادارت میں ’وکیل ‘ میں بہت خوش گوار تبدیلیاں کیں جس سے پرچے کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن ایک نجی حادثہ ایسا پیش آگیا کہ انھیں بادل نخواستہ جلد ہی امرتسر سے واپس جانا پڑا۔

مولاناآزاد کے ایک بڑے بھائی مولاناابو النصر غلام یٰسین آہ یعنی اس نا چیز کے دادا تھے دونوں بھائیوں کی تعلیم ایک نہج اور معیار پر ہوئی تھی۔ان کے والد مولانا خیرالدین کاپیری مریدی کا سلسلہ بھی تھا۔کلکتہ اور بمبئی کے اطراف میں ان کے مریدوں کی خاصی تعدادتھی۔ وہ بڑے بیٹے غلام یٰسین آہ کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کر رہے تھے۔آہ بھی خوٗبوٗ  میں اپنے والد کے نقشِ قدم پر تھے لیکن خدا کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔آہ عراق کے سفر پر گئے اور وہاں بیمار ہوگئے۔حالت خراب سے خراب تر ہوگئی۔ وہ بمبئی واپس آئے تاکہ وہاں علاج ہو سکے۔ والد کلکتہ سے بمبئی پہنچے اور انھیں ساتھ لے گئے لیکن ان کا وقتِ اخیر آ پہنچا تھا۔کلکتہ پہنچنے کے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔اپنے پیچھے وہ اپنی واحد اولاد نور الدین احمد صاحب یعنی راقم کے والد کو چھوڑ گئے تھے جن کی پرورش کی ذمے داری کا بوجھ مولانا پر بھی آگیا تھا۔یہ وسط 1906  کی بات ہے جب مولانا آزاد امرتسر میں وکیل سے وابستہ تھے۔ مولانا خیر الدین نے انھیں لکھا کہ اب تم گھر آجا ؤ اور کام کاج میں ہاتھ بٹاؤ۔ یہ ابھی جانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ نومبر 1906  کو والد نے ایک آدمی امرتسر بھیج دیاتاکہ انھیں اپنے ساتھ لے آئے۔ اب کوئی چارئہ کار نہیں رہ گیا تھا۔یہ کلکتہ چلے گئے۔امرتسر کا زمانۂ قیام اپریل 1906  سے نومبر 1907  یعنی صرف آٹھ مہینے رہا۔ وہ والد کے حکم کی تعمیل میں مجبوراً کلکتہ چلے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ وہاں جو کام ان کو سپرد کیا گیا،وہ کسی عنوان ان کی پسندکا نہیں تھا۔ مریدوں کی تعلیم و تربیت اور وعظ وغیرہ سے وہ کوسوں دور تھے۔ادھر اخبار نویسی کا مشغلہ ان کا دل پسند و مرغوب کام تھا۔ شیخ غلام محمد بھی ان کے کام سے ہر طرح مطمئن اور خوش تھے۔ قصہ کوتاہ چند دن بعد انھوں نے اپنے والد سے کھل کر کہہ دیا کہ وہ اس پیری مریدی کے سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ نہ انھیں یہ پسند ہے کہ لوگ آئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کو فرطِ عقیدت سے بوسہ دیں۔ والد آدمی سمجھدار تھے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے کی نہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف انھیں کسی کام پر مجبور کرنے سے کیا فائدہ۔ انھوں نے اجازت دے دی کہ اچھا اگر یوں ہے تو وہ واپس امرتسر جا سکتے ہیں۔اس پر وہ اگست 1907 میں امرتسر چلے گئے اور دوبارہ ’وکیل‘کی ادارت کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دی گئی۔ لیکن اب  ان کی صحت جواب دے گئی اور وہ بیمار رہنے لگے۔ سال بھرہی مشکل سے وہاں رہے اور اگست 1908میں ’وکیل‘ سے الگ ہو گئے۔

مولانا کی عمر اس وقت 20سا ل کے لگ بھگ تھی اس دوران انھوں نے کئی پرچوں میں کام کیا۔ ان میں سے بعض ان کی ذاتی ملکیت تھے۔ بعض دوسروں کے کہ جہاں وہ تنخواہ پر ملاز م کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ وہ کہیں بھی رہے ہوں، ان کا نصب العین ہمیشہ بلند رہا۔ان کی یہی خواہش اور کوشش رہی کہ صحافت کو ملک و ملت کی بہتری اور بہبودی، خدمت گزاری اور خیرخواہی کا وسیلہ بنایا جائے۔

’وکیل‘، ’زمیندار‘، ’مسلم گزٹ‘، ’پیسہ اخبار‘، ’مشرق‘، ’حبل المتین‘، ’مسلمان‘، ’الحکم‘، ’الحق‘، ’ہمدرد‘ اور انگریزی کا ’کامریڈ‘، سب کے سب پان اسلامی(Pan Islamic) رنگ میں ڈوبے ہوتے تھے اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں لکھتے وقت ’الہلال‘ کا نام ان اخباروں سے بالکل مختلف نہ تھا۔ ’الہلال‘ کی اصل خصوصیت مولانا کا مخصوص انداز تحریر تھا، جذباتی قسم کا اسلوبِ بیان جس میں تحریروں میں خطابت کی شان نظر آتی تھی۔ جملوں اور لفظوں کے تو وہ بادشا ہ تھے۔ محض ترتیب کے الٹ پھیر سے اپنی تحریروں میں گرمی پیدا کر دیتے تھے جس کی آنچ مدھم ہوتے ہوتے بھی پڑھنے والے کے شعور کو بے بس کر جاتی تھی۔

اور سب باتوں کو چھوڑ کر ’الہلال‘ کے صرف ادارۂ تحریر کو لیجیے تو حیرت ہوتی ہے۔ مولانا آزاد کے علاوہ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبداللہ عمادی، مولانا عبد السلام ندوی اور بعض دوسرے اصحاب کام کرتے تھے۔ ان سب کو باقاعدہ تنخواہ ملتی تھی۔شاید ہی کسی ہفتہ وار، پندرہ روزہ یا ماہنامہ کو ایسا ادارۂ تحریر نصیب ہوا ہو۔ پھر اس کے مضمون نگاروں میں ملک کے صف اول کے ادیب اور انشا پر داز شامل تھے۔

مولانا ابو الکلا م آزاد شروع سے ہی ہندوستان کی آزادی اور باہمی ہم آہنگی ویگانگی کے علمبردار رہے۔ ان کے صحافتی سفر کا باقاعدہ آغاز 13جولائی 1912  میں ہوا جب انھوں نے کلکتہ سے ’الہلال‘ جاری کیا۔ یہ ایک ایسا اخبار تھا کہ جس نے قومی جذبات اور سیاسی شعور کو بیدار کرکے ملک میں تہلکہ مچادیا اور ہندوستان پر قابض انگریزی ایوانِ حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا۔

’الہلال‘ صرف اخبار ہی نہ تھا بلکہ انگریزی حکومت کے خلاف تحریک بھی تھی جس نے ملت کے سرد و منجمد لہو کو گرم اور رواں دواں کر دیا۔ مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دی، مظلوموں اور مغلوبوں کو آزادی کا شیدائی و فدائی بنا دیا۔اس کی للکار اور پکار نے غلاموں کو زنجیرِ غلامی توڑنے کی توفیق دی اور شعلہ حیات بھڑکا دیا۔
جب جب جدوجہد آزادی ہند کی بات کی جائے گی تو مولانا ابو الکلام آزاد کے پرچہ ’الہلال‘ کا ضرور ذکرہوگا۔ مولانا اپنے جن کمالات، خصوصیات و امتیازات کے توسط سے تمام ملک پر چھائے ہوئے تھے اور جن کی نابغۂ روزگار شخصیت، غیر معمولی ذہنی و دماغی قابلیت نے لوگوں کے دل و جان پر اپنے گہرے نقش چھوڑے تھے، اس کی وجہ ان کی صحافت تھی۔

صحافت کا مقصد ان کے نزدیک اخلاص اور بے لوثی سے ملک و ملت کی خدمت کرنا تھا۔ یہ بات صاف ہے کہ انھوں نے اسے کمائی کا ذریعہ کبھی نہیں سمجھا، ہاں مشن ضرور ما نا۔ مولانا آزاد نے صحافت کو جو عزت و وقار عطا کیا، اس کے لیے اردو زبان آج بھی ان کی مشکور ہے۔

جناب احمد سعید ملیح آبادی، مدیر روزنامہ ’آزادہند‘، کلکتہ بیان کرتے ہیں : 
’’جس اخبار اور رسالے کو ہاتھ لگا دیا، اسے چار چاند لگا دیے۔ ایڈٹ کرنے کا گُر مولانا نے خود اپنے لیے وضع کیا، ان کے سامنے اور اگر کوئی نمونہ تھا تو وہ مصر اور ترکی کے اخبارات اوررسالے تھے جو مولانا کے پاس آتے تھے۔ مضامین کے انتخاب، موضوعات کے تعین، مسائل و مباحث کے بیان حتی کہ الفاظ و اصطلاحات کی ترجیحات اور املا کی پابندی پر بھی مولانا کی نظر اور گرفت رہتی تھی۔‘‘(رشید الدین خاں : ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ص 280 مضمون :احمد سعید ملیح آبادی)

’ الہلال‘ مولانا آزادکی علمی، ادبی، دینی و سیاسی بصیرت کا نچوڑ تھا۔ وہ ہر اعتبار سے ایک عہد آفریں جریدہ تھاکیوں کہ اس کے مقابلے کاکو ئی بھی ہفتہ وار پرچہ اب تک نہیں نکلا تھا۔’الہلال‘ کی تعریف میں ضیاء الدین اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
کانک شمس والملوک کواکب
اذا طلعت لم یبد منھن کواکب
(اے باد شاہ تو سورج ہے اور دوسرے سب بادشاہ ستارے ہیں
 جب سورج نکلتا ہے تو سارسے ستارے غائب ہو جاتے ہیں۔)

’الہلال‘ اردو کا پہلا با تصویر ہفت روزہ اخبار تھا جو ترکی سے منگوائے ہوئے ٹائپ پر چھپتا تھا۔ ’الہلال‘ کی مقبولیت اور لوگوں کی اس کے لیے بے چینی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے ایک پرچے کو لوگ حلقہ بناکر سنتے اور مولانا کے ایک ایک لفظ اور فقروں پر سر دھنتے تھے۔

’الہلال‘ کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا کیونکہ یہ لوگوں کے قلوب پر چھا گیا تھا اور اس نے فکر و نظر کے زاویے بدل دیے، نئی راہیں کھولیں اور نئے اسلوب میں نیا پیا م دیا۔ مسلمانوں کی حمیتِ ایمانی کو للکارااور انگریزوں کی نفرت کا نقش ان کے دلوں پر بٹھا دیا۔ بقول ممتاز اردو ادیب مالک رام ’الہلال‘کا اصلی کارنامہ اس کا اسلوب تحریر تھا جس میں رنگینی، شگفتگی اور ابداع و اختراع کی جلوہ گری تھی۔‘‘ ڈاکٹر عابد رضا نے لکھا ہے کہ ’الہلال‘ کی اصل خصوصیت مولانا کا مخصوص انداز تحریر تھا۔ اس میں جذباتی قسم کا اسلو ب تھا جس کی تحریرمیںخطابت کی شان نظر آتی تھی۔ لفظوں کے تو وہ بادشاہ تھے اور محض ترتیب کے الٹ پھیر سے اپنی تحریروں میں وہ گرمی پیدا کر دیتے تھے۔ ’الہلال‘ میں مولانا نے قرآنی آیتوں اور عربی عبارتوں کو نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔ فارسی اشعار نے بھی ان کی تحریروں کو نکھارنے اور سنوارنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔

’الہلال‘ اردوصحافت کا اہم ترین سنگ میل ہے۔ یہ جریدہ تمام تر سیاست کے لیے وقف تھا۔  پھرتفسیرِ کلا مِ پاک میں اور سیاسی تعبیروں میں تاریخی عوامل و محرکات کا پورا پورا احسا س تھا۔ لہٰذا صحیح معنوں میں ’الہلال‘ پہلا اخبار تھاجس نے اسلامی سیاست میں ایک ترقی پسندانہ اور آفاقی اندازاپنایا اور اس کی ترویج میں غیر معمولی کردار اپنایا۔

اس وقت کسی بھی رسالے کا حکومت پر تنقید کرنا آسان نہ تھا۔ یہ تو خوش قسمتی تھی کہ بنگال حکومت میں ایسے کارکنوں کی کمی تھی جو ’الہلال‘ کی فارسی اور عربی آمیز اردو سمجھ پاتے۔ پھر بھی لکھنؤ کے انگریزی اخبار ’پائینیر‘ نے حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ پرچہ کس قدرزہر بھرا پرو پیگنڈہ کر رہا ہے۔ اس بات کے لیے مولانا پہلے سے تیار تھے کہ جس طرح کا مواد وہ چھاپ رہے ہیں،اس کے پیش نظر ظالم اور جابر حکومت ان سے ایک دن ضمانت طلب کرے گی۔ چنانچہ حکومت نے ان سے پہلی مر تبہ دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی۔ مگر حکومت بنگا ل نے اس پہلی ضمانت کو ضبط کر لیا۔

’الہلال ‘جاری ہونے کے بعد مولانا آزاد نے ’البلاغ‘  نام سے نیا پریس قائم کیا اور اسی نام پر ایک اخبار  نکالنے لگے۔ یہ اخبار 12 نومبر 1915 کو منظر عام پر آیا اور اس وقت تک جاری رہاجب تک انگریزوں نے اس کوبھی ضبط نہیں کر لیا۔ ’البلاغ‘ میں جو روح کار فرما تھی، وہ’ الہلال‘سے کسی طور مختلف نہیں تھی لیکن اس میں اسلام کے اخلاقی فلسفے پر زیادہ زور تھا۔ ’البلاغ‘ کی تلقین تھی کہ مسلمان مطلق العنانی کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔

معروف ادیب وناقد مالک رام کا خیال ہے کہ ’الہلال‘ ان کے عہد شباب کی یادگار ہے اور ’غبار خاطر‘ بڑھاپے کی مگر کوئی بھی شخص اسے پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی تھکے ہوئے دماغ یا قلم کی تخلیق ہے۔ یہاں بھی ان کے ذہن کی گرم جولانی اور قلم کی گل افشانی میں وہی دلکشی ہے جو روز اول سے ان سے منسوب رہی۔  اگر تمام مشغولیتوں سے قطع نظر کر کے اپنے آپ کو علم و ادب ہی کے لیے وہ وقف رکھتے تو نہ معلوم آج اردو کے خزانے میں کیسے کیسے قیمتی جواہر کا اضافہ ہو گیا ہوتا۔

فیروز بخت احمد

1 تبصرہ: