31/3/22

عائشہ عودہ کی خودنوشت أحلام بالحریۃ - مضمون نگار : ڈاکٹر صہیب عالم

 



عائشہ عودہ کی پیدائش رام اللہ کے ایک گاؤں دیر جریر میں1944 میں ہوئی۔ اسرائیلی فوجیوں نے 1969 میں قیدی بناکر ان کے ساتھ زبردست ظلم وجارحیت کا رویہ اختیارکیا۔ خاندانی گھر کو مسمار کردیا۔ 1970 میں اسرائیلی فوجی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ مزید مغربی قدس میں بم رکھنے کے الزام اور غیرقانونی تنظیم سے تعلق رکھنے کی پاداش میں 10 سال کی سزا سنادی۔

1979 میں قیدیوں کے تبادلے کے تحت ان کی رہائی ممکن ہو پائی۔ 1998 میں قائم شدہ ابن رشد اکیڈمی نے ان کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں انعام واکرام سے نوازا۔ یہ ادارہ مسلسل کسی نہ کسی ادیب کو اس کے تخلیقی ادب یعنی ناول، خودنوشت، سفرنامے، اور شعروشاعری پر انعام سے نوازتی ہے۔

عائشہ عودہ گرفتار ہونے سے قبل رام اللہ کے ایک اسکول میں علم ریاضیات کی معلمہ کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہی تھیں۔ 1967 کی عظیم فلسطینی جدوجہد میں آپ کا نام نمایاں ہوکر سامنے آیا۔

ادب السجون جدید فلسطینی ادب میں ایک نئے صنف کی حیثیت سے 1967 سے پروان چڑھ رہا ہے۔ اہم فلسطینی شعرائ محمود درویش، سمیح القاسم، توفیق زیاد وغیرہ کو جب قید کیا گیا تو انھوں نے قید خانوں کے اندر بھی شعروشاعری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک مشہور شاعر معین بسیسو نے مصر میں اپنی گرفتاری کے تجربے کو ’دفاتر فلسطینیہ‘ (فلسطینی ڈائری) کے نام سے شائع کرایا ہے۔

یہ صنف یعنی ادب السجون کافی حد تک جدید عربی ادب میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اس صنف میں مرد وعورت، ترقی پسند، تقلید پسند اور اسلام پسند ادبائ وشعرائ اپنی تخلیقات پیش کر رہے ہیں۔ ایسے افراد بھی اس میں طبع آزمائی کر رہے ہیں جن کے پاس نہ توکوئی سیاسی رجحان ہے اور نہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ صنف ڈائری، خودنوشت، ناول ، اشعار ، ڈرامے، شذرات، انٹرویوز کی شکل میں موجو د ہے۔ عربی ادب سے دلچسپی رکھنے والے اسکالرس کے لیے یہ ایک اہم میدان کے طور پر سامنے آرہا ہے، یہ تحقیق کا ایک نیا دروا کررہا ہے، اس کا تاریخی، سیاسی، سماجی اور تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

عائشہ عودہ نے ایک انٹریو کے دوران ـ اپنی خودنوشت ’احلام بالحریہ‘ کی تصنیف کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا کہ میرے لکھنے کا مقصد ہرگز ادب السجون کا حصہ بننا نہیں بلکہ میرا مقصد صرف اور صرف قید میں گزاری ہوئی زندگی کے کربناک تجربات کو سامنے لانا ہے تاکہ جو شخص جب چاہے اس سے واقفیت حاصل کرسکے۔حقیقتاً میری یہ تحریر مزاحمتی ادب اور آزادی کے ادب کا حصہ ہے۔ قید ہماری جد وجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ میں ادب السجون کی قیدی نہیں ہوں کیونکہ میںنے یہ تحریر قید سے آزاد ہونے کے بعد مختلف ایام میں تحریر کی ہے۔ میری تحریر کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے جس کا فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں ہر فلسطینی اسرائیلی قیدخانوں میں سامنا کر رہا ہے۔

عائشہ عودہ نے أحلام بالحریہ لکھتے وقت مکمل دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک انٹریو میں بیان کرتی ہیں:

’’میں نے یہ خودنوشت لکھنے کے دوران حد درجہ امانت، سچائی اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ کیونکہ میرے ذہن ودماغ میں وہ تمام اذیتیں اور صعوبتیں نقش ہوگئی ہیں جیسا کہ میںنے اپنے ہیر کلپ سے قید خانے کی دیوار پر کندہ کیا ہے اور میں تا حیات اسے بھول نہیں سکتی۔ ممکن ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن ہمارے ذہن ودماغ پر اس کا نقش گہرا ہوتا جائے گا اور ممکن ہے آنے والے وقت میں اس سے محاسبہ اور نقد کرنے میں آسانی ہو۔ اور ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں زبان میں کچھ نرمی آ جائے اور میں آج جوہوں وہ نہ رہ سکوں۔‘‘

اس کتاب میں انھوں نے قید میں ہونے والے مزاحمتی تجربات کو، اپنے تجربات کو بھی اور اپنے رفقائ کے تجربات کو بھی، اور قید کے اندر اسرائیلی فوجیوں کے جبروظلم کو اجاگر کیا ہے۔ یہ قیدی کے نام کو پسند نہیں کرتی ہیں۔

أحلام بالحریہ 2005 میں پہلی بار شائع ہوئی جو کہ166 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ نسائی ادب کا ایک مثالی نمونہ بھی ہے۔ قید کے دوران عائشہ اور ان کی قیدی ساتھیوں نے قید خانہ کو ایک انقلابی مدرسہ میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کا پہلا مقصد جہالت کو ختم کرنا تھا اور دوسرا مقصد ثابت قدمی، امیدوں کی پرورش اور مایوسی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا تھا، اور نیا سورج اگنا ہی چاہتا ہے اس پر یقین کامل پیدا کرنا تھا۔

فنی پہلو سے اگر عائشہ عودہ کی خودنوشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے ادب السجون کے ساتھ مزاحمتی اور نسائی ادب کو تقویت دی۔ 1969 سے 1979 کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والے ظلم وجبر، کربناک اذیتوںاور صعوبتوں کو انھوں نے مکمل طور سے پیش کیا ہے۔ ان پر جسمانی، ذہنی، معنوی، جذباتی اور وجدانی تمام خطرناک اور کربناک اذیتوں کا تجربہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کو ڈھا دیا گیا۔ انھوں نے قید میں جودس سال گزارے یہ ان کے وہ ایام گزشتہ ہیں جس میں انہوں نے دوسرا جنم لیا ۔

 عورت ہونے کے باوجود عائشہ نے اپنے جسم وقلم سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اپنی اس خودنوشت کے ذریعہ عائشہ نے اسرائیلی جرائم، ظلم وبربریت، اور اذیتوں سے پردہ اٹھایا اور عام لوگوں کے سامنے اسے پیش کردیا تاکہ عورتوں اور مردوں کے ساتھ اسرائیلی قیدخانوں کی کہانی دنیا کے سامنے آسکے۔

أحلام بالحریہ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک لائیو ویڈیو چل رہاہے جس میں یکے بعد دیگرے اس کے سامنے دل دہلا دینے والے منظر گزرتے جارہے ہیں۔ اس دوران قاری نہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور نہ اس کا ذہن ودماغ کتاب سے باہر نکل پاتا ہے۔

یہ کتاب مقدمہ کے علاوہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب آزاد ی کا خواب، دوسرا باب آدھی رات، تیسرا باب تفتیش، چوتھا باب اعتراف جرم ، پانچواں باب گویا کہ دیوار پھٹ گئی، چھٹا باب دوسرا جنم، ساتواں باب گنگناہٹ، آٹھواں با ب اپنے دوستوں کے ساتھ اور نواں باب لکھنے کا تجربہ۔

عائشہ مسئلہ کا سرسری تجزیہ کرتی ہوئی نہیں گزرجاتی ہیں، بلکہ وہ اس قیدوبند کے بنیادی سبب کا برملا اظہار کرتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اسرائیلی غاصب جب تک سرزمین فلسطین پر موجود رہیں گے، قیدوبند کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ـ’’میں پہلی لڑکی نہیں ہوں اور نہ آخری، جب تک فلسطین اسرائیلی غاصبوں کے قبضے میں رہے گا ہماری جیسی لڑکیا ںگرفتار ہوتی رہیں گی‘‘۔

اسرائیلی جارحیت کس طرح مردوعورت میں تفریق کیے بغیرانسانیت کوشرمسار کرنے والی حرکتیں کرتی ہے، اس کا اندازہ عائشہ کے ان بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو وہ تفتیش کے دوران اپنے اوپر گزرے ہوئے دردناک لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے قلم بند کرتی ہیں:

’’ان میں سے ایک نے میری چوٹیوں کی طرف دیکھا، اس کو زور سے پکڑا، اور ہوا میں مجھے اونچا اٹھایا اور زمین پر پھینک دیا اور ان کے قدموں نے مجھے روندنا شروع کردیا۔ دوبارہ اس نے میرے بال کی چوٹی کو اپنی طرف کھینچا اور مجھے اوپر اٹھایا اور زمین پر دے مارا ، گویا کہ انھوں نے مجھے کھلونا بنا رکھا تھا اور ان لوگوں نے میرے ساتھ تین یا چار بار حرکتیں کیں۔‘‘

’’جب میں نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا تو اسرائیلی فوجی نے مجھے حرافہ کے نام سے پکارا اور کہا :

یہ حرافہ ایسے نہیں بولے گی۔‘‘

’’میرے پیچھے کھڑے شخص نے دو پائپ اٹھایا، اور میرے سر پر مارنے لگا، جیسے کہ ڈھول بجانے والا ڈھول پر مارتا ہے، میں نے اپنے سر کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے، تو وہ میرے ہاتھ کے اوپر سے مارنے لگا۔‘‘

’’دوسرا شخص میری طرف بڑھا، میرے چہرے پر زور سے تھوکا، میں نے اپنے چہرے کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ اس نے دوبارہ تھوکا، اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کرکے کرسی سے باندھ دیا اور اپنے گھونسے سے میرے سر کے آخری حصہ پر مارنے لگا۔ میں نے اپنا توازن کھو دیا۔‘‘

’’اس نے استہزائ اًکہا : یہ حرافہ نہیں بولے گی۔ دوبارہ اس نے لوہے کے دو پائپ لیے اور میرے سر پر مارنے لگا، رکتا ، مارتا، رکتا، مارتا، یکے بعد دیگرے… یہاں تک کی سر زخمی ہوگیا۔‘‘

’’ایک فوجی دروازہ پر کھڑا ہوا، کچھ بولا، جلد ہی ایک شخص پانی سے بھری بالٹی لے کر آیا، بغیر کچھ بولے میرے اوپر انڈیل دیا اور نکل گیا۔

میرا جسم سکڑ گیا، میرے دانت ٹھنڈک کی وجہ سے کڑکڑانے لگے، ٹھنڈک میری ہڈیوں میں گھس گئی، میں اپنے جسم کو سمیٹ کر ایک حصے کو دوسرے حصہ سے گرمی پہنچانے کی کوشش کرنے لگی، میرے دانت ٹھنڈ کی وجہ سے کڑکڑارہے تھے، اورکانپ رہے تھے۔ ٹھنڈ میرے پورے جسم میں سرایت کرگئی۔ زمیں بھی میرے لیے پناہ گا ہ نہ بن سکی، میں قید خانے کے ایک گوشے سے لگے دیوار سے چمٹ گئی، کچھ منٹ بعد دوسری بار پانی سے بھری بالٹی میرے جسم پر انڈیل دی گئی۔ میرا پورا جسم پانی سے بھیگ گیا۔ ٹھنڈک نے میرے پورے جسم کو لپیٹ لیا، میرے دانت پرانی کار کے انجن کی طرح کانپ رہے تھے۔‘‘

عائشہ ان تمام اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارہ نہیں کرتی ہیں۔ وہ اذیت خانے میں بھی اسرائیلی جارحیت پسندوں کو عار دلانے اور ان کو ان کی حیثیت دکھانے کا کام کرتی ہیں۔ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’ان میں سے ایک نے حقارت اور ذلت آمیز لہجے میں بات کرنا شروع کردیا۔

تم، تم، تم حقیر ہو، اسرائیل سے لڑنا چاہتی ہو، ھ ھ ھ ھ

پھر اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولنے لگا:

اسرائیل سے پنگا،

اسرائیل نے تو بس چھ دنوں کے اندر تمام عرب ممالک کو شکست دے دی۔ اور وہ بھی چھ گھنٹوں میں۔ تم حقیر، ذلیل اسرائیل سے جنگ کرو گی۔ تم کند ذہن ہو، بے وقوف ہو۔

متکبرانہ لہجے میں  بولا:

اس کی اس بات نے مجھے ہلادیا۔ میرا غصہ پھٹنا ہی چاہتا تھا ، میں نے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اس کے لہجے میں ایک جملہ کہا۔

اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت؟

زور سے چیخا اور کہا، اپنا منہ بند کرو، منہ نہ لڑاؤ، جو ہم کہہ رہے ہیں سنو۔

اس نے عرب قوم کی عزت پر حملہ کیا۔ اور عرب کی قیادت پر بھی۔ اور کہا کہ عرب کی قیاد ت نے تو اپنے آپ کو بیچ دیا ہے۔‘‘

’’اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت‘‘ اس ایک جملہ میں اس نے اپنا مقام بھی بیان کردیا کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور اسرائیلی جارحیت پسندوں کو ان کی حیثیت بھی یاد دلادی کہ وہ کس قدر سطحیت اور گراوٹ کا شکار ہیں۔

عائشہ قید وبند کے ان ایام میں اپنی فلسطینی بہنوں کو نہیں بھولتی ہیں، انہیں یاد رکھتی ہیں اور انھیں اونچے اونچے عزائم سے مالامال دیکھنا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ فلسطینی لڑکیاں اپنے گھر اور بال بچوں سے آگے بڑھ کر ملک کی تعمیر وترقی اور ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔

’’میرا مقصد ملک کی تعمیر ہے، صرف گھر کی تعمیر نہیں، میری زندگی کا مقصد صرف اپنے بچوں کے عدد بڑھانے کے بجائے عوام کی تربیت ہے۔ ان کی آزادی اور زندگی اس ناجائز قبضہ میں محفوظ نہیں ہے…‘‘

’’میرے خواب بڑے اور وسیع تر ہیں، جنھیں چھینا نہیں جاسکتا۔ اگر میں نہیں جلی اور تم نہیں جلے تو روشنی کہاں سے آئے گی۔‘‘

عائشہ عزم اور حوصلے کا نام ہے، پوری کتاب میں اس کی یہ شان اور عظمت واضح طور سے نظر آتی ہے، تمام حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اس کے قدم میں کہیں لغزش نہیں آئی، اس نے بے مثال ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا، لکھتی ہیں:

’’یہ وہ تحریر ہے جسے میں نے 33 سال بعد لکھاہے۔ میں نے بم نصب کرنے کے سلسلے میں کبھی بھی لب نہیں کھولا۔ بہت سے لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے اس جرأت مند انہ کارنامہ کو بیان کروں جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے یا د ہے کہ فلسطین کی نسائی تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر عصام عبد الھادی نے عمان میں اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے بلایا، اور بہت سی طالبات نے اس سلسلے میں سوالات کیے، میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ گوناگوں کیفیت میں پایا۔‘‘

آگے لکھتی ہیں:

اصل چیز عزم کے ساتھ فیصلہ لینا ہے …… عزم ہی کامیابی کا ضامن ہے

اس کے بالمقابل وہ اسرائیلی جارحیت کی کمزوری پر بہت ہی گہرا طنز کرتی ہوئی لکھتی ہیں:

’’زمین وآسماں سے وہ لوگ ہمارے خیمے پر بمباری کرتے ہیں، برباد کردیتے ہیں، قتل کرتے ہیں، پانی اور بجلی کاٹ دیتے ہیں۔ زمیں گھر اور درختوں پر بلڈوزرچلا دیتے ہیں۔ موت، ڈر، رعب اور بربادی کی کاشت کرتے ہیں… اور وہی لوگ… عمالقہ ہیں اور وہی فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘

عائشہ اپنی اور آزادی فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والی اپنی تمام بہنوں کے آہنی عزائم کا اظہار ان لفظوں میں کرتی ہیں:

’’مرد عورت سے افضل نہیں ہیں۔ عورت مرد سے کم نہیں ہیں۔ وطن ، مستقبل ، آزادی اور عزت نفس تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے اور ثبات قدمی ہمارا شعار ہے۔‘‘

 

Dr. Suhaib Alam

Assistant Professor

Department of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi-110025




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں