4/4/22

کامکس اور ادب اطفال - مضمون نگار : رضی شہاب

 



ہم میں سے ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ بچے میں کم عمری یا یوں کہیں کہ بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا کرنے کی اپنی اہمیت ہے اور یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ بچوں کو کامکس اور کارٹون سے کتنی رغبت ہوتی ہے۔ رنگ، تصویریں اور کہانیاں وہ تین چیزیں ہیں جن کی طرف بچے سب سے پہلے متوجہ ہوتے ہیں۔ سیکھنے کے سفر کے آغاز میں رنگ، تصویریں اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں ان کے ذہن پر اپنا ایک خاص اثر مرتب کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی بچے کے ہاتھ میں کتابیں آتی ہیں تو وہ سب سے پہلے تصویروں کو الٹ پلٹ کردیکھتا ہے۔ رنگوں کی جاذبیت اسے ان تصویروں کو دیکھنے پر مجبور کرتی ہے اور جب کوئی شخص اس سے ان رنگوں اور تصویروں میں چلتی پھرتی کہانیوں کو بیان کرتا ہے تو اس کا ذہن ایک خاص رفتار سے تربیت حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں بچوں میں کتب بینی کے شوق کو مہمیز دینے کے لیے کارٹون اسٹرپس اور کامکس کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ بلا جواز نہیں ہے۔ جس طرح ادب عالیہ کے مطالعے کے شوقین لوگوں نے جاسوسی ادب یا یوں کہیں کہ پاپولرلٹریچر کو بطور زینہ استعمال کیا  ہے، اسی طرح بچوں میں زبان اور ادب نیز مطالعے کے شوق کو ہوا دینے کے لیے کامکس اور کارٹون اسٹرپس نہایت ہی کارآمد ثابت ہوتے رہے ہیں۔ کارٹون اسٹرپس اور کامکس بچوں کی ذہنی اور فکری سطح سے قریب تر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں ان کی دلچسپی عام کتابوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔  کم وقت میں زیادہ صفحات، زیادہ تصویریں اور چند اہم خیالات کے ساتھ انھیں ایک ذخیرہ الفاظ بھی حاصل ہوتا ہے، درست املا اور صرف و نحو سے واقفیت ہوتی ہے، علم اور یادداشت میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور لکھنے کی صلاحتیں  پروان چڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے فوائد ہیں جو بچوں کو ان کارٹون اسٹرپس اور کامکس کے مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں۔

بچوں کے ادب کی نوعیت کے حوالے سے جو بنیادی باتیں کہی جاتی رہی ہیں ان میں یہ ہے کہ، بچوں کا ادب دلچسپ ہو، ممکن ہو تو اس میں تصویریں ہوں، بچوں کے لحاظ سے اس کی زبان آسان اور عام فہم ہو، بات چیت یا مکالمے کا انداز زیادہ سے زیادہ اختیار کیا جائے، تخلیق ایسی ہو جو سائنسی نقطۂ  نظر کو پیش کرے نہ کہ توہم پرستی اور دیگر نظریات کو بچوں کے اندر ابھارے۔ اس کے ساتھ ہی تفریح بچوں کے ادب کی ضروری شرط ہے، ورنہ بچے کچھ ہی دن میں کہانی یا نظم سننے میں دلچسپی لینا ترک کر دیں گے۔ اور اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ کامکس بچوں کی دلچسپی کا سب اچھا سامان ہو سکتے ہیں۔

کامکس دراصل  قصہ گوئی کا ایک وسیلہ ہے  جس میں سلسلہ وار تصاویر کے سہارے کہانی کا بیان ہوتا ہے۔ ان تصاویر کے ساتھ تحریری بیانیے اور دیگر بصری آلات کا استعمال بھی کامکس میں کیا جاتا ہے۔ کامکس کو اس کے روپ میں لانے کے لیے جو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ان میں اسپیچ ببل، کہانی کے متعلق تعارفی جملے اور بیانیہ شامل ہیں۔ کامکس کا بہت ہی خاص عنصر کارٹون اور تصویری خاکے ہوا کرتے ہیں۔ یہ کارٹون اور تصویری خاکے کہانی کے بین السطور کی عکاسی کرتے ہیں۔

تقریباً تمام زبانوں میں کامکس کی ایک قدیم تاریخ رہی ہے۔ جدید یوروپی کامکس کی ابتدا 1830کے آس پاس تسلیم کی جاتی ہے البتہ1930  کی دہائی میں کامکس کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ بیسویں صدی میں کامکس کو خوب سراہا گیا۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ انگریزی زبان میں کامکس مزاحیہ تصویری خاکوں کے لیے بولا جاتا تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس لفظ کا استعمال سنجیدہ اور حساس بیانیوں کے لیے بھی کیا جانے لگا۔چونکہ ابتدا میں لوگ کامکس کو سنجیدہ فن و ادب تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن بیسویں صدی میں کامکس کی مقبولیت نے سارے تصورات بدل کر رکھ دیے۔ حالانکہ والدین اور اساتذہ اسے آج بھی تعلیمی شعبے میں ایک بے جان ٹول (وسیلہ) ہی سمجھتے ہیں۔ جبکہ کامکس وہ تحریر ہو سکتی ہے جسے بچہ بغیر کسی رہنمائی کے سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

 اس سے پہلے کہ میں موضوع پر مزید گفتگو کروں، مناسب ہے کہ پہلے یہی عقدہ حل کرلیا جائے کہ آخر بچوں کو کامکس کیوں پڑھنے دیا جائے۔ اس کے اسباب کو چند نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

1          کامکس کی قرأت بچوں کو ان باتوں تک رسائی حاصل کرنے پر ابھارتی ہے جو تحریر میں نہیں ہوتیں۔ کامکس پڑھتے ہوئے بچہ ڈایئلاگ (مکالمے) اور تصاویر پر انحصار کرتا ہے تاہم وہ ان باتوں پر غور کرتا ہے اور تصویرکی تفصیلات اسے جہاں تک لے جاتی ہیں اس کا ذہن ان تمام ابعاد تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی عمل سے بچے کی تصوراتی اور تخیلی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے اندر سماج کو دیکھنے کا نظریہ فروغ دے پاتا ہے۔

2          بلا شبہ وہ بچے جو اپنی کتابوں کو جلد سے جلد ختم کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہی بچے کامکس پڑھتے ہوئے بہت آرام سے مکمل پلاٹ اور تصویروں کو سمجھ کر انھیں اختتام تک لے جانے کی لاشعوری سعی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے کامکس بچوں میں پڑھنے کے لیے دلچسپی پیدا کرنے کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیتے ہیں۔

3          کامکس کی قرأت مختلف النوع کرداروں، حالات اور دیگر باتوں سے روشناس کراتی ہے۔ اس لحاظ سے بہت ہی کم وقت میں اور دلچسپیوں کے ساتھ بچے کو اپنے آس پاس کے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

4          وہ بچے جنھیں پڑھنا مشکلوں بھرا عمل لگتا ہے یا جو زبان سیکھنا چاہتے ہیں، تو انھیں نہ صرف یہ کہ ایسی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے جنھیں وہ پڑھ سکیں بلکہ انھیں ایسی کتابیں بھی چاہئیں جو ان میں کوشش کرتے رہنے کے لیے اعتماد پیدا کریں۔ کامکس کی کتابوں میں نہ صرف عمر کے لحاظ سے مواد فراہم کیا جاتا ہے بلکہ ان میں اضافی تصویریں اور عکس ہوتے ہیں،جو اس عمل میں معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

5          کامکس بہت سے سنجیدہ موضوعات کو اپنے اندر سمونے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس کی ایک روایت رہی ہے۔ ایسی صورت میں بچہ ابتدائی ایام سے ہی سماجی طور پر زیادہ گہری معلومات ان تصاویر اور عکس کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے جنھیں بآسانی کامکس میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے کہ آج کے اس تیز رفتار اور دن بہ دن ترقی کی جانب پیش قدمی کرنے والے عہد میں ہمارے بچے کن تفریحی ذرائع کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں؟ سماج میں برائیوں اور تشدد کا عنصر جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہزاروں واہیات چیزیں بچوں کے ذہن کو کند اور برائیوں کی جانب لپکنے والا بنا رہی ہیں۔ جو کارٹون ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں وہ مار دھاڑ، لڑائی جھگڑے اور طرح طرح کی خرافات سے پُر ہوتے ہیں۔ایسے میں ان کہانیوں کی ضرورت ہے جو بچوں میں بچپن سے ہی اچھے اخلاق و عادات کی اہمیت سے انھیں آگاہ کردیں۔ چونکہ عام کہانیاں جس طرح سے شائع کی جاتی ہیں، بچوں کی دلچسپی ان میں زیادہ نہیں ہو سکتی ہے، اس لیے کامکس کے سہارے انھیں پڑھنے کا گرویدہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہوگا جس سے ان میں پڑھنے کی عادت جڑ پکڑے گی اور ان کو صحت مند تفریح کا ایک اچھا ذریعہ بھی نصیب ہوگا۔

میں یہاں اردو زبان میں کامکس کی مکمل روایت کا ذکر نہیں کروں گا البتہ یہ بتاتا چلوں کہ حال کے دنوں میں بچوں کے چند ایک رسالے ایسے ہیں جو کبھی کبھار کامکس کہانیاں اپنے رسالوں میں شائع کرتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر اردو میں کامکس کی صورت حال کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن پر تفصیلی بات بھی کی جاسکتی ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کا سبب کچھ بھی ہو، یہ تو قطعاً نہیں ہے کہ کامکس کہانیاں پڑھی نہیں جارہی ہیں، یا لوگوں کی ان کہانیوں میں دلچسپی نہیں ہے یا پھر یہ کہانیاں بچوں کے ذہن پر منفی اثر مرتب کرتی ہیں۔ بلکہ  اس کی سامنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں وہ افراد یا ادارے نہیں ہیں جو اس جانب توجہ دیں۔ بچوں کے ادب کے نام پر صرف کہانیاں لکھ دینا، نظمیں کہہ لینا اور پھر ان کو غیر جاذب قسم کے گیٹ اپ میں شائع کرادینا ہی ادب اطفال کی خدمت نہیں ہے بلکہ ادب اطفال پر مشتمل کتابوں کے اپنے منفرد تقاضے ہیں۔ بچوں کی دلچسپیوں اور ان کی ذہنی و فکری سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے کتابیں تیار اور شائع کرنے کی اپنی اہمیت ہے  جس کا ہمارے یہاں فقدان ہے۔ ہمارے یہاں بچوں کی بیس نظمیں لکھ کر اسے کتابچے کی صورت میں شائع کراکر، دس بیس صفحے کی کتابوں کو40-50 روپے کی قیمتوں میں فروخت کرنے کی ہوڑ مچی ہے۔ ایسے میں کامکس جیسی کسی قدر دقت طلب کتابیں کس طرح تیار کی جاسکتی ہیں یا ان کی جانب توجہ دینے کی کسے فرصت ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ شکایت بے جا ہے کہ بچے کتاب نہیں اٹھاتے، وہ پورا دن ٹی وی پر کارٹون دیکھنے یا موبائل پر گیم کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کتابوں کی صورت میں ان کی دلچسپیوں کا مواد دستیاب نہیں ہے تو پھر وہ اپنے لیے دستیاب تفریحی پروگرام تلاش ہی لیں گے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ موبائل اور ٹی وی کی لت کا منفی اثر بچوں کے ذہن پر پڑتا ہے اور اس سے ہر والدین بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں کامکس جیسی دلچسپ کتابوں کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔

بلاشبہ موجودہ حالات اردو میں کامکس کے حوالے سے بہتر نہیں ہیں کیونکہ اس جانب بہت کم توجہ دیا جارہا ہے تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم مستقبل کے لیے تیار نہ ہوں۔اس سلسلے میں افراد اور ادارے مل کر چند امور انجام دے سکتے ہیں اور کامکس کی ایک توانا روایت کی ازسر نو داغ بیل ڈال سکتے ہیں۔ یقیناً مستقبل کی نسل کے لیے یہ ایک بہترین سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے چند ضروری اعمال جو انجام دیے جاسکتے ہیں۔

(الف) ورکشاپ کا انعقاد:

سب سے پہلے ورکشاپ منعقد کرائے جائیں جن میں تخلیق کار، آرٹسٹ دونوں شامل ہوں۔ ورکشاپ کا مقصد چند منتخب عناوین کے تحت کہانیوں اور تصویری خاکوں کا ڈھانچہ تیار کرنا ہو۔ یہ دھیان رکھا جانا ضروری ہے کہ کامکس کس عمر کے بچے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔کیوں کہ اسی صورت میں مناسب لفظوں اور بہتر موضوعات کا انتخاب کیا جاسکے گا اور پھر یہ کہ اسی کی مناسبت سے ان تصویری خاکوں میں رنگ بھرے جاسکیں گے جو کامکس کو اس کی اصلی شکل میں پیش کریں گے۔

چونکہ بات اردو کے حو الے سے ہو رہی ہے اس لیے غالب امکان ہے کہ ایسے آرٹسٹ بہت کم  دستیاب ہوں جنھیں آرٹ کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے بھی واقفیت ہو۔ اس لیے آرٹسٹ اور تخلیق کار کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسی صورت میں آرٹسٹ کو اسکرپٹ کی ضروریات اور کرداروں کا بیان نیز کہانی کے تمام زاویوں سے آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ آرہے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا۔

(ب)مسابقوں کا انعقاد:

دوسری بات یہ ہے اسکولوں میں اس طرح کے مسابقے منعقد کرائے جاسکتے ہیں جس میں ہر درجے کے طالب علموں کے لیے الگ الگ  موضوعات پر کامکس کی کہانیاں تیار کرائی  جائیں۔ ان کے خیالات کو اچھی طرح پڑھا جائے، انھیں کی کہانیوں پر نئے سرے سے کہانیاں مرتب کی جائیں اور ان کے لیے تصویری خاکے تیار کیے جائیں۔ این سی ای آرٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان یا اردو اکیڈمیاں سب مل کر بھی یہ کام کرسکتی ہیں۔

رسالے کامکس کہانیاں طلب کرسکتے ہیں۔

آیئے اب کامکس کی تیاری کن مراحل سے ہو کر تکمیل کو پہنچتی ہے، کا جائزہ لے لیا جائے۔

کامکس تیار کرنے کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ کسی خیال کو ذہن میں ترتیب دینے کا ہے۔ اگر آپ نے کوئی خیال اپنے ذہن میں بُن لیا ہے، اور یہ طے کر لیا ہے کہ آپ کس طرح کا کامکس تیار کریں گے تو آپ اگلے مرحلے کی جانب پیش قدمی کیجیے اور کہانی کو لفظوں کا روپ دیجیے۔ کہانی کا ڈھانچہ تیار کیجیے، مکالمے تحریر کیجیے۔ یہ غلطی کبھی نہ کریں کہ پہلے تصویری خاکے بنا لیں اور پھر اس کے مطابق بیانیہ خلق کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ایسی صورت میں کئی دقتیں پیش آئیں گی۔ کہانی مرتب کرنے کے بعد تصویری خاکے تیار کریں۔ اسپیچ ببل اور بیانیہ کے لیے جگہیں مختص کرتے ہوئے اصل کرداروں کی حرکات کو تصویری خاکوں میں زندہ کریں۔ تصویریں بناتے وقت کرداروں کے ماحول کو بھی تصویری ذرائع سے پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد تصویروں میں رنگ بھرنے کا مرحلہ آتا ہے۔

چاہے کہانیوں کا انتخاب ہو یا پھر تصویروں اور رنگوں کا، ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ وہ کامکس کس عمر کے بچوں کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ہر عمر کے بچوں کا ذہن اور چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا ان کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ کہانیوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کہانیوں میں لڑائی جھگڑے اور تشدد سے لبریز منظر نامے یا مکالمے نہ تخلیق کیے جائیں۔ پیار محبت اور اخلاص و دوستی کے درس پر مبنی کہانیاں بچپن سے سکھایا جانا عہد حاضر کی بڑی ضرورتوں میں سے ہے۔

 کامکس کی اہمیت اور ادب اطفال میں اس کی ضرورت کے حوالے سے یہ مختصر گفتگو اس لیے کی گئی ہے تاکہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہنے والے ادارے اس جانب بھی توجہ دیں اور اردو میں کامکس کی روایت زندہ  کریں۔اگر اس جانب توجہ دی جاتی ہے تو یقیناً مستقبل کی نسل اس سے ضرور مستفید ہوگی اور ہمیں اردو زبان اور اس کے رسم الخط سے واقف لوگوں کی بڑی تعداد میسر رہے گی۔

 

 

Razi Shahab

Assistant Professor,  Department of Urdu

West Bengal State University

Berunanpukuria, Malikapur

Barasat, North  24 Parganas

Kolkata-700126 (West Bengal)

Mob. 9810332595

 

 



1 تبصرہ:

  1. دور جدید کے ںٿر نگاروں میں اپنے منفرد لب و لہجہ اور مضمون نگاری کے میدان میں یہ اصلاحی قدم لائق تحسین ہے

    جواب دیںحذف کریں