5/4/22

بیسویں صدی کا افسانوی ادب اور ہندوستانی سماج - مضمون نگار: ارشد اقبال

 



بیسویں صدی کے ابتدائی چالیس پینتالیس سال کی یہ مختصر ترین انداز میں مختلف تحریکوں کی تاریخ ہے، جس سے ہمیں ملک کے معاشی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی حالات وکیفیات کا اندازہ ہوتا ہے۔

جس دور کی یہ سماجی،سیاسی اور معاشی کہانی بیان کی گئی ہے،اس میں مختصر افسانہ نگاری کے واضح میلانات سامنے آتے ہیں۔ایک رومانیت و تخیل پرستی کا، جس کی نمائندگی سجاد حیدر اورنیاز فتح پوری وغیرہ کر رہے تھے۔ دوسراحقیقت نگاری اور اصلاح پسندی کا،جس کے امام پریم چند تھے۔

پریم چند کے ذریعے مختصر افسانہ میں عام آدمی کے دکھ درد، رہن سہن، سماجی تعلقات معاشی کشمکش، مذہبی اور سماجی رسم و رواج، واقعات اور حقائق کے پردے میں قاری کی رسائی ہوئی اس کے علاوہ سماج کی فلاح و بہبود کے نقوش،منظر نگاری اور واقعہ نگاری کے پیرائے میں عوام تک پہنچ کر مقبولیت حاصل کرسکے۔

پریم چند کی افسانہ نگاری کا دور دراصل ہندوستان میں قومی بیداری کا دور تھا۔اس لیے ان کے افسانوں میں ساری کیفیات،زمانے کے حالات اور تحریکوں کے مقاصد نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ پریم چند کے بعد اردو افسانے کو سب سے زیادہ متاثر کرنے میں افسانوں کا مجموعہ ’انگارے‘ کا ہاتھ رہاہے۔ اس مجموعے میں سجاد ظہیر، رشید جہاں، احمد علی اور محمود الظفر کی کہانیاں شامل تھیں۔ متذکرہ مجموعے کے بعد اردو افسانے میںبیسوی صدی کے پیچیدہ مسائل اور شہری زندگی کی تمام نفسیاتی گتھیاں راہ پانے لگیں۔مغربی ادب سے متاثر ہوکر افسانے کی تکنیک میں بہت سے تجربے ہوئے،اس میں ذہنی عناصر کی بالادستی پریم چند کے بعد کی پیداوار ہے۔بعض افسانہ طرازوں نے فرائڈ کا اثر قبول کیا اور جنسی مسائل کو اپنے فن پاروں کا محور بنایا۔

انگارے‘ میں شامل افسانے فنی اعتبار سے خام ضرور ہیں لیکن ان افسانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان افسانہ نگاروں نے سماج کے اہم اور پیچیدہ مسائل کو فن کی حدود میں لانے کی پہل کی۔اس مجموعے کی اشاعت کے تعلق سے پروفیسر قمر رئیس نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیاہے:

’’ایک طرف اردو افسانہ کی پر سکون دنیا میں ایک دھماکہ تھی تو دوسری طرف ان حلقوں اور طبقوں میں غیظ و غضب کی آگ دہک اٹھی جن کے مفاد اور روایتی وقار کو اس سے ضرب پہنچی تھی۔ اس مجموعہ کی کہانیوں میں جو گستاخانہ بیباکی، برہمی،تلخی اور سرکشی تھی، وہ ایک نئی نسل، نئی طرز فکر اور نئے تصور فن کی آمد کا اعلان تھا۔‘‘

پریم چند اور’انگارے‘ کے بعد ترقی پسند ادب کی تحریک نے بھی اردو افسانے کو بہت متاثر کیا۔1936 میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں ایک اہم سماجی ضرورت نے باقاعدہ ادبی تحریک کی شکل اختیار کی جو یوروپ اور انگلستان کے انداز کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع کی گئی تھی اور یہی تحریک ادب میں سیاسی جذبوں کی بانی کہی جاسکتی ہے۔ اس تحریک کے بعد افسانوں میںنئے معاشی اور سیاسی مسائل پیش کیے گئے۔

پریم چند کے افسانوں کا مخزن دیہات میں بس رہے لوگوں کی سیدھی سادی زندگی سیرت، سچائی، ایمانداری، بے ایمانی، غربت، کاشتکار، زمیندار، پولیس اور دوسرے سرکاری عملے کا عتاب اورکبھی قحط سے سامنا۔اس کے علاوہ ہندوسماج کے رسم و رواج،عادات و اطوار،عقائد اسلاف کے کارنامے اور سماج کے اصلاحی نظریے یہ سب ان کے افسانوں میں عام طور پرموجود ہیں۔

پریم چند کے اثرات سے اردو میں اصلاحی افسانوں کی جو روایت پروان چڑھ رہی تھی اس سے سدرشن، اعظم کریوی،علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی خاص طورپر متاثر ہوئے۔

متذکرہ فن کاروں نے اصلاحی نقطۂ نظر کو وسعت دی اور افسانے میں حقیقت نگاری کا عنصر بھی شامل کیا۔ علی عباس حسینی نے ہندو مسلم فرقہ واریت کے خلاف کئی کامیاب افسانے لکھے انھوں نے دیہی زندگی کے مسائل کو بھی اپناخاص موضوع بنایا۔

سہیل عظیم آبادی نے بہار کے دیہاتوں میں بس رہی بے چین و بے بس زندگی کو پیش کیا۔وہاں کے کسانوں کی دکھ بھری زندگی، سیلاب اور زلزلے کی تباہی اور معاشی استحصال،ان کے ابتدائی افسانوں کا محور ہیں۔

سدرشن کے افسانوں کا محور دیہی زندگی بھی ہے اور شہری افراد کی حالت کا نقشہ بھی۔وہ عام طور پر غریب اور امیر کی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں۔ اعظم کریوی کے افسانوں میں معاشرت کے طریقے،پنچایتوں اور بازاروں کی گفتگو کے مناظر،آپسی تعلقات اور ان کا اثر، زمینداروں اور رعایاکے تعلقات،حکام اور ان کے عام لوگوں سے برتائو جیسے دلچسپ موضوع ہیں۔

حیات اللہ انصاری کسی ایک ماحول میں خودکو محدود نہیں رکھتے، انھوں نے افسانے کو فکری نقطۂ نظر دیا ہے۔ ان کے افسانوں پر سیاسی نظریوں، رویوں اور گاندھی جی کے فلسفے کا اثر پایاجاتاہے۔کرشن چندر کو اپنے دلچسپ بیان کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ان کے افسانوں میں خوبصورت مناظر کے ساتھ ساتھ سماج کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے یہاں سرمایہ دار اور ساہوکار کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے لیکن اکثر وہ کہانی بیان کرتے وقت کہیں کہیں بھٹک بھی جاتے ہیں،جس کی وجہ سے غیر ضروری اذکار و خیالات افسانے میں خود بخود آنے شروع ہوجاتے ہیں لیکن اس سے ان کے افسانوں کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

راجندرسنگھ بیدی کے یہاں جذباتیت ہے۔ حالانکہ ان کی جذباتیت میں گہرائی اور سکون ہے۔ انھوں نے سماجی اورمذہبی زندگی کا مشاہدہ بڑی گہرائی سے کیا۔ان کے افسانوں میں متوسط طبقے کی گھریلو زندگی اور روز مرہ کا ماحول ملتا ہے۔انھوں نے حقیقت نگاری کے مادّی پہلو سے کہیں زیادہ نفسیاتی تجزیے پر زور دیاہے۔

سعادت حسن منٹو پر روسی ادیبوں کا بڑا اثر رہا ہے۔ منٹو نے چیخوف،گوگول ترگنیف اور گورکی کے افسانوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ بالخصوص سماج کے اُس طبقے کو اپنے افسانوںکا مرکز بنایا جسے طوائف کہتے ہیں۔منٹو نے سماج کے ٹھیکیداروں پر جتنے پتھر برسائے ہیں،شاید وہ جرأت کسی دوسرے افسانہ نگار میں نہیں تھی۔عصمت چغتائی نے خواتین کے مسائل کو اپنے افسانوں کا مرکز بنایا،گھریلو زندگی اور اس زندگی کے مسائل کو نمایاںجگہ دی۔ اخترحسین رائے پوری کی نظر بیماروں،کمزوروں،بے کسوں فقیروں اور ہراس زدہ چہروں پر جاتی ہے، جنھیں سماج کا ناسور تصور کیا جاتا ہے۔ اخترانصاری سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اب بھی دنیا میں ظلم و بربریت،بے انصافی،خود غرضی اورمکاری موجود ہے۔اس لیے انسانیت کا جسم انگنت بیماریوں میں مبتلاہے۔اُوپندر ناتھ اشک کے افسانوں میں نچلے اور درمیانی طبقے کی معاشی زندگی، صنفی عدم مساوات،تشنگی اور بے بسی کی بہت اچھی عکاسی ملتی ہے۔

اختراورینوی نے بعض الجھے ہوئے مسائل کو اپنا موضوع بنایا،نچلے طبقے کی معاشی مشکلات،انسانی اقدار اور بھوک کا تصادم، قرض و سود، جھگڑافساد اور مقدمے بازی، خاندانی منافرت،زمین داراور کاشتکار،رکشہ کھینچنے والے اور مزدوروں کا مطالعہ بہت قریب سے کیا ہے۔

احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کی دیہی زندگی کی عکاسی کی ہے۔قاسمی نے بین الاقوامی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور قومی مسائل پر بھی۔دیوندرستیارتھی کے کامیاب افسانوں میں بنگال کی معاشی تباہی کا درد ناک المیہ ہے۔خواجہ احمد عباس کے افسانوں کا موضوع سیاسی ہے۔مہندرناتھ کے یہاں نوجوانوں کی ذہنی الجھنوں کا عکس ملتا ہے۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں اودھ کے متوسط طبقے کی زندگی اور خواتین کے مسائل بڑی خوبی سے آئے ہیں۔صدیقہ بیگم سیوہاروی نے بعض اہم مسائل پر افسانے تخلیق کیے ہیں۔

متذکرہ تمام قلم کے شہ سوارآزادی سے قبل مقبول عام ہوچکے تھے۔ ان کے افسانوں میں ٹھہرائو اور نظریوں کی پختگی کا احساس ہوتا ہے۔اس دور کی افسانہ نگاری میں چند رجحانات بڑے واضح اور نمایاں ہیں۔مثلاً ادیب واقعات پر تو پوری توجہ مرکوز کرتے ہی ہیں،علاوہ ازیں کرداروں کو اپنے مشاہدات و تجربات کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔حیات اللہ انصاری بیدی، منٹو، اخترانصاری اور عصمت کے بہت سے افسانوں میں کرداروں کی کشش،واقعات کی دل نشینی سے کہیں زیادہ نمایاں ہیں۔

انسان کے عمل اور رد عمل کے نفسیاتی محرکات کا سراغ لگانے والے افسانہ نگاروں نے زندگی کے معاشی پہلوئوں کو اپنے افسانوں میں بڑا اہم مقام دیا ہے، مظلوم کی حمایت کو اپنا مقصد سمجھاہے۔ان کے کرداروں میں مزدوراور کسان کے علاوہ کلرک طوائف، عورت اور مظلوم ہیں ظالموں کی صف میں سامراجی حاکم، ساہوکار، ڈھونگ رچانے والے مذہبی رہنمااور کٹھ پتلی بنے سیاسی لیڈر بھی۔

اردو افسانہ نگاروں تک کارل مارکس کے معاشی نظریات اور فرائڈ کے جنسی خیالات مغربی افسانوں کے ذریعے بھی پہنچے اور انھوں نے اس انداز کو قبول کرلیا۔ بعض نے سوچ سمجھ کر اپنے مشاہدات اور مطالعات کی بنیاد پر انھیں اپنے افسانوں میں جگہ دی تو بعض نے اس کی اندھی تقلید میں ان نظریات کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھا۔اس طرح اُس دور کی افسانہ نگاری کارل مارکس یا فرائڈ سے بہت متاثر نظر آتی ہے۔

اُس دور سے پہلے فن کی ہمہ گیری نظر نہیں آتی جو اس دور کے افسانوں کی خصوصیت ہے۔بیباک انداز بیان،حق اور مظلوم کی حمایت میں کہیں کہیں بے دردی اور بے رحمی کا انداز بھی اختیار کیا گیاہے۔بیان میں نئے نئے تجربے کے علاوہ بعض ایسے ہیں جن میں مغرب کی جدت اور مشرق کی روایت ہم آہنگ نظر آتی ہے۔احمد علی،حسن عسکری،کرشن چندر،عصمت اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانے اسی جدت اور روایت کی حسین آمیزش کا نمونہ ہیں۔ علی احمد کے افسانے ’ہماری گلی‘ اور ’میرا کمرہ‘ کرشن چندر کا ’دوفرلانگ لمی سڑک‘ منٹوکا ’نیا قانون‘ راجندر سنگھ بیدی کا ’گرم کوٹ‘ عصمت کا ’دوزخی‘ اور حیات اللہ انصاری کا ’آخری کوشش‘ میں موضوع اور فن کے تمام عناصر یکجا نظر آتے ہیںجواردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن اسی زمانے میں بعض افسانے ایسے بھی تخلیق ہوئے، جن میں اعتدال و توازن کا فقدان ہے مثلاً ’جنس‘ کو افسانے کا موضوع بناتے وقت احتیاط و توازن کی کمی کی وجہ سے بہت سے افسانوں میں لذت کا غلبہ اور عریانیت واضح ہوگئی ہے۔اسی طرح بعض افسانے صرف اس خیال کے تحت لکھے گئے ہیں کہ پڑھنے والا یک دم اچھل پڑے یا تلملاجائے، خواہ کسی کے جذبات ہی کیوں نہ مجروح ہوں۔

اُس دور میں ایسے فنکار بھی ابھر کر سامنے آئے جن کے فن میں ایک خاص طرح کا ٹھہرائو ملتا ہے۔اعتدال و توازن اور موضوع میں وسعت پائی جاتی ہے۔یہ فنکار زندگی،فن اور شخصیت کے امتزاج کے عکاس ہیں۔ان کے فن پاروں میں زندگی کی معمولی سی تبدیلی کی تصویر ملتی ہے اور انسان کے دل کے چھوٹے بڑے راز کی غمازی نمایاں ہے۔ غلام عباس،ہاجرہ مسرور خدیجہ مستور،قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں، بلونت سنگھ، شفیق الرحمٰن، ابراہیم جلیس، تبسم سلیم،صحالحہ عابد حسین،مہندرناتھ،آغا بابروغیرہ ایسے ہی افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

آج افسانہ نگاروں کی تمام تر توجہ اسی ماحول اور موضوع پر افسانے لکھنے کی جانب مرکوز نظر آتی ہے، جن سے وہ مکمل طورپر واقف ہیں۔وہ ماحول کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن کو بھی تبدیل کرتے جاتے ہیں مگر ان تبدیلیوں سے قاری کو کوئی دھچکا نہیں لگتا کیونکہ افسانہ نگار فرد کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں سے غافل نظر نہیں آتا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ انھیں خیالات کی ترجمانی کرتاہے جن سے فرد، بحیثیت سماج کی، ایک اِکائی کے دوچار ہے۔

احمد ندیم قاسمی، اختر اورینوی، سہیل عظیم آبادی، حیات اللہ انصاری اور دیوندرستیارتھی کے افسانوں کا قاری پنجاب، بہار، اترپردیش، ہندوستان کے مختلف علاقوں کے بے شمار مسائل جان لیتا ہے۔سعادت حسن منٹو، علی احمد، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی اور کرشن چندر کے افسانے پڑھ کر ممبئی،دہلی،لاہوراور کشمیر کی سیر ہوجاتی ہے۔ ان سبھی جگہوں کی اپنی الگ تہذیب ہے، اپنے مسائل ہیں۔ ان جگہوں پر مختلف مذاہب، مختلف طبقات اور مختلف پیشوں میں مہارت رکھنے والے عوام ہیں۔ان کی تصاویر بیدی،عصمت اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں ملتی ہیں۔

مقامی مسائل کے علاوہ ہماری زندگی کو سیاست نے بھی بہت متاثر کیا ہے۔نہ صرف  ملکی سیاست بلکہ بین الاقوامی سیاست نے بھی بہت سی الجھنیں پیدا کی ہیں۔ اس کشمکش کی عکاسی کرشن چندر کے بہت سے افسانوں سے ہوتی ہے، جن میں کسان، رشوت، فصل، روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں، سیٹھ، کلرک، جنگ، سامراج، فاشزم اور بین الاقوامی معاشی کشمکش سبھی کچھ بکھرے ہوئے ہیں۔

منٹوکے افسانوں میں طوائف کی زندگی کے علاوہ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تصویریں بھی ملتی ہیں۔جیل خانے،سیاسی جلسوں پر برستی گولیاں،ایک نئے قانون کی تلاش انقلاب کے نعرے،مزدور اور کسان کی بے بسی فلمی کمپنیاں اور ان کے چمکیلے ماحول کے پیچھے گناہوں کی سیاہی جیسے موضوعات بھی ملتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کے افسانے پنجاب کے دیہاتوں کے رومانی منظر کوہی نہیں پیش کرتے بلکہ خلافت تحریک، فوجی بھرتی اور انقلاب زندہ باد کے نعروں کی گونج میں سیاسی اور معاشی کشمکش کی آئینہ داری بھی ملتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردوافسانے میں اس روش یعنی سماج کے ماحول کی عکاسی کو کچھ لوگوں نے ادب کے لیے مضر سمجھا، زندگی سے بھرپور ادب، وقت اور حالات کی دھڑکنوں سے بھرپور ادب کو ادبیت کا بہکنا تصور کیا۔ اس ضمن میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:

’’ادب کا براہ راست یا بالواسطہ یہ کام نہیں ہے کہ یہ دنیا کی کثیر سے کثیر انسانی آبادی کو پیٹ بھر کھاناملنے میں مدد کرے اس کام کے لیے انسان کے پاس دوسرے ذرائع موجود ہیں اور وہ ان ذریعوں سے مصرف لیتا اور لے سکتا ہے۔ادب اور سیاسیات و معاشیات کے میدان متحد نہیں ہیں۔‘‘

دراصل یہ اعتراض کہ ادب میں سیاست کا غلبہ، ادب کے لیے صحت مند نہیں ہے۔ یہ دو وجوہ سے پیدا ہوا کہ اس زمانے میں بہت سے افسانے اس انداز سے لکھے گئے کہ وہ افسانے کے بجائے سیاسی نعرہ بن گئے جن کی وجہ سے ان کی ادبی حیثیت مجروح ہوگئی۔دوسری وجہ یہ ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے وابستہ بیشتر ادیب عملی سیاست سے وابستہ تھے،جس کی وجہ سے یہ بات قدرتی تھی کہ ان ادیبوں کے سیاسی خیالات، ان کے افسانوں میں براہ راست جگہ پانے لگے۔

اب یہاں مختصرطورپر ان افسانہ نگاروں کا تذکرہ کرنا ہوگا،جن پر انجمن ترقی پسند مصنّفین کے قیام اور ترقی پسند تحریک کا اثر نمایاں نظرآتاہے۔ حالانکہ ان فنکاروں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن یہاں چند ایسے افسانہ نگاروں کا ذکر کیا جارہا ہے جو اپنے انداز، فن کی وسعت اور موضوعات کی ہمہ گیری کی وجہ سے بہت مشہور و مقبول ہوئے اور ترقی پسند ادب میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

پریم چند کو اردو میں جدید افسانہ نگاری کا بانی کہاجاسکتا ہے۔انھوں نے افسانہ نگاروں کو ایک سنجیدہ و سبک رو مگر دیرپا بغاوت کی راہ دکھائی۔انھوں نے انسانی فطرت کی پوشیدہ تہوں تک رسائی کی۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ماضی کی روایت کو زیادہ حسین اور بامعنی بناکر انھوں نے فن کی بھی خدمت کی۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ کرکے پریم چند نے بہت سے نوجوان افسانہ نگاروںکو اندھیرے میں بھٹکنے سے بچالیا۔ان کی وجہ سے ترقی پسند افسانے کو حقیقت نگاری کی وہ صلاحیت حاصل ہوئی جس کی وجہ سے اردو افسانہ ترقی پسند ادب کی سب سے نمایاں شاخ بن گیا۔

پریم چند نے مختصر افسانے کو زندگی کا ترجمان بنانے کی جو بنیاد ڈالی تھی،اس کا سب سے نمایاں اثر علی عباس حسینی،اعظم کریوی،سہیل عظیم آبادی اور سدرش پر پڑا۔علی عباس حسینی کو کہانی کہنے کا فن آتا ہے۔ان کی کہانی میں انسانی معصومیت اور خلوص ہے۔انہیں زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل ہے۔ان کا رجحان اصلاحی،انسان دوستی اور قوم پرستی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانے ’آم کا پھل، کیا کیا جائے‘ اور ’بھوت‘ انقلابی حقیقت نگاری کے بہترین نمونے ہیں جبکہ افسانہ ’مسیحا‘ قحط بنگال سے متاثر ہوکر تخلیق کیاگیا ہے۔

اعظم کریوی کے افسانوں کا پس منظر بھی دیہات ہے۔ان کے افسانوں میں سیاست بھی نظر آتی ہے اور دیہات کی رومان انگیزفضااور وہاں کے باشندوں کی معصوم رومانی فطرت بھی۔

سدرشن نے بھی دیہی زندگی کے معاشرتی پہلو کو اپنا خاص موضوع بنایا،اس طرح ان کا مقصد دیہات کی معاشرتی زندگی کی مصوری ہے۔دیہی معیشت،سیاست اور سرمایہ دارانہ نظام و مزدور کی بے بسی سہیل عظیم آبادی کے خاص موضوع ہیں۔ان کے افسانوں میں زندگی کے مشاہدے اور احساس کی شدت نمایاں ہے۔

متذکرہ فنکاروں نے زندگی کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا،سماج کے نشیب و فراز کو سمجھااور اس کے تمام اجزا کو افسانوں میں پیش کرکے انہیں کو سماجی اور انفرادی مسائل کا آئینہ دار بنادیا لیکن جن افسانہ نگاروں کو ترقی پسند تحریک نے سب سے زیادہ متاثر کیا اور جنھوں نے اس فن کے میدان میں اپنی جگہ تقریباً اُسی وقت مستحکم کی،جب اس تحریک کی بنیاد پڑی،اُن میں اپندر ناتھ اشک،کرشن چندر، دیوندرستیارتھی،راجندر سنگھ بیدی،خواجہ احمد عباس،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد علی، اختر انصاری، احمد ندیم قاسمی،حیات اللہ انصاری اور اختر اورینوی کے نام قابل ذکر ہیں۔حالانکہ ان میں کئی فنکار ایسے بھی تھے جو ترقی پسند تحریک شروع ہونے سے قبل ہی سرگرم عمل تھے مگر ان کی شہرت کا لگ بھگ وہی زمانہ ہے جو اس تحریک کا ہے۔ان میں چند ایسے بھی ہیں جنھوں نے شدت کے ساتھ اس تحریک سے خود کو وابستہ کرلیا تھا۔

1936کے بعد اردو مختصر افسانہ نگاروں کی جو نئی پود پروان چڑھی،اس میں جو مقبولیت کرشن چندر کو حاصل ہوئی، وہ پریم چند کے بعد کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔ کرشن چندر نے اپنا تخلیقی سفر رومانویت سے شروع کیا پھر اس میں زندگی کی تلخیاں شامل ہوگئیں۔ان کے افسانوں کا ہیرو تباہ حال،مظلوم اور لٹاہوا انسان ہے۔ان کا نقطۂ نظر انسان سے ہمدردی،اس کی خامیوں پر  طنز اور اس کے مسائل کی تشریح ہے۔کرشن چندر کے مزدور عورتوں پر ایک درجن سے زیادہ افسانے تنوع کی عمدہ مثال ہیں۔ مثلاً جنت اور جہنم، سفید پھول، ٹوٹے ہوئے تارے اور’اندھا چھترپتی‘ اس قبیل کے شاندار افسانے کہے جاسکتے ہیں۔

کرشن چندر کی رومانویت اور انسان دوستی نے اُن کے طرز تحریرکو لطیف بنادیا،جس میں سختی یا کرختگی قطعی نہیںہے۔کرشن چندر کے تعلق سے بعض ناقدین نے ترقی پسند تحریک اور کرشن چندر کو ایک ہی سکے کے دو پہلو قرار دیا ہے۔ دو فرلانگ لمبی سڑک، ان داتا، کالوبھنگی، بھگت رام  اور ’برہم پتر‘ ان کے شاہکار اور اردو افسانوں کے چند یادگار فن پارے ہیں۔وہ نئی نئی تشبیہات سے بین الاقوامی سیاسی حالات،جنگ و امن اور حکومت کی پالیسی پر اس انداز سے افسانہ تخلیق کرتے ہیں کہ موضوع کی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔

اُپندر ناتھ اشک کے ابتدائی دور کے افسانوں میں اصلاحی انداز پایاجاتاہے،کیونکہ وہ پریم چند سے بہت متاثر ہوئے۔ ’ڈاچی‘ کے افسانوں سے انھوں نے سیاسی موضوعات کی ابتدا کی، اس کے بعد افسانوں میں انھوں نے نچلے، متوسط طبقے کی معاشرتی زندگی اور صنفی عدم مساوات کی بہت خوبصورت عکاسی کی ہے۔وہ کہانی میں پلاٹ اور واقعات کی ترتیب کو بہت اہمیت دیتے ہیں نیززندگی کے حقائق اور ان کی تفصیلات پر زور دیتے ہیں۔  عورتوں کی بے بسی اور ان کی سماجی نفسیات کا گہرا مطالعہ ہمیں ان کے افسانوں کونپل،قفس،چٹان،چیتن کی ماں میں مل جاتا ہے۔ مزدور طبقے کے مصائب اور طبقاتی کشمکش پر لکھے ہوئے افسانوں میں خلوص اور درد نظرآتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں۔وہ افسانے سے تبلیغ کا کام نہیں لیتے بلکہ اپنے کرداروں کے ارد گرد کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔متوسط طبقے کی عام گھریلو زندگی کی الجھنوں، پریشانیوں اور آرزوئوں کا عمیق مطالعہ ہونے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں تہذیبی قدروں کا عکس بھی ملتا ہے اور سماجی کمزوریوں کا تذکرہ بھی۔انسانی نفسیات اور اس کی کمزوریوں کی مثال ان کے افسانوں زین العابدین، لاجونتی،غلامی،کوکھ جلی اور ’گرہن میں ہے‘ میںکا مطالعہ کرکے، جن میں سماجی تضاد کی بے مثال حقیقت نگاری موجود ہے۔حالانکہ بیدی کے افسانے زندگی کے تلخ حقائق پر مبنی ہوتے ہیں مگر ان میں تلخی یا بیزاری نہیں ملتی بلکہ ان میں انسانیت،محبت اور ہمدردی کی کرنیں بکھری ہوئی معلوم ہوتی ہیں،جس کی مثال گرم کوٹ، دس منٹ، بارش میں، ہڈیاں  اور ’پھول‘ سے دی جاسکتی ہے۔زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو سماج کی بنیادی حقیقت کے انداز میں ابھارنا بیدی کا سب سے بڑا فن ہے۔ ان کے اس فن کی عکاسی ان کے افسانوں پان شاپ،لچھمن،کشمکش وغیرہ میں نمایاں طورپر ملتی ہے۔

حیات اللہ انصاری ترقی پسند تحریک کے انتہائی اہم افسانہ نگار تصور کیے جاتے ہیں۔ پریم چند کے بعد ان کی روایت کی توسیع حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں پائی جاتی ہے۔وہ اپنے افسانوں میں خطابت، انشا پردازی یا سنسنی خیزی سے کام نہیں لیتے۔ان کے افسانوںکا پہلا مجموعہ ’انوکھی مصیبت‘ کے کچھ افسانے انگارے گروپ سے متاثر نظر آتے ہیں،جن میں بے لاگ حقیقت نگاری کے نمونے ملتے ہیں مگر ان کا افسانہ ’آخری کوشش‘ اردو کے چند بہترین افسانوں میں شمار ہوتا ہے، جس میں گہرائی، معنویت،ٹھہرائو اور شعور ہے۔ان کے بعض افسانوں میں تفکر کا عنصر غالب ہے لیکن باوجود اس کے کہ ان کے افسانوں میں دلچسپی برقرار رہتی ہے دراصل ان کے فن پارے گہرے تجربے کی نشاندہی کرتے ہیں، اسی وجہ سے نفسیاتی مشاہدہ اور باریک بینی نے ان کے افسانوں کا معیار بلند رکھا ہے۔

احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا موضوع پنجاب کی دیہی زندگی ہے۔ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’چوپال‘ میں وہاں کی رومانی ہوائوں کا اثر ملتا ہے مگر ان کے دوسرے مجوعے ’بگولے‘ میں اُسی سرزمین کی زندگی کی تلخ حقیقتیں موجود ہیں۔اس مجموعے کے شروع میں قاسمی نے اپنی ایک نظم تحریر کی ہے،جس کا پہلا شعر ہے        ؎

تیری نظروں میں تو دیہات ہیں فردوس مگر

میں نے دیہات میں اجڑے ہوئے گھر دیکھے ہیں

اور اِنہی اُجڑے ہوئے گھروں کے باسیوں کی داستانیں ان کے افسانوں کا مرکز ہیں غرض یہ کہ قاسمی کے افسانوں کا سفر رومان سے حقیقت کی جانب اور جذباتیت سے فکر کی طرف ہے۔ان کا افسانہ ہیروشیما سے پہلے،ہیروشیما کے بعد دوسر ی عالمی جنگ پر لکھے جانے والے افسانوں میں ایک کامیاب افسانہ ہے۔

اختر انصاری کا افسانوی مجموعے ’اندھی دنیا‘ کے افسانوں میں متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی محرومیاں اور اس کے نتیجے میں سماج سے برہمی ہے۔ان افسانوں میں مضمون نگاری کے عناصر زیادہ ملتے ہیں اور تبلیغ کا عنصر نمایاں ہے۔اس کے بعد کے افسانے ’نازو‘ کے نام سے مجموعے کی صورت میں شائع ہوئے،ان میں یہ عیوب تقریباً دور ہوگئے ہیں۔کہیں کہیں طنز کا عنصر بھی ملتا ہے۔موضوع اور مواد کے سلسلے میں بھی نظر انتخاب سے کام لیاگیا ہے۔ ’خونی‘ کے افسانے فکرو نظر اور تخیل کے نکھار کے ساتھ ساتھ اعتدال کے تابع نظر آتے ہیں۔

اختر اورینوی نے بعض پیچیدہ مسائل کو اپنا موضوع بنایاہے اور نچلے طبقے کی معاشی مشکلات، لڑائی جھگڑے اور مقدمے بازی، خاندانی منافرت، زمین دار اور کاشتکار، قلی اور نان بائی رکشہ کھینچنے والے اور بھٹی جھونکنے والے سبھی کا مطالعہ قریب سے کیا ہے۔ان کے افسانے اندھی نگری، جینے  کا سہارا، بیل گاڑی اور ’بوڑھی ماما‘ انھیں موضوعات کے گرد گھومتے ہیں۔ان کے  ٹائپسٹ،یہ دنیا اور ’پس منظر‘ جیسے افسانوں میں انھوں نے سماج کی تلخ حقیقتوں کو جذباتی انداز میں لکھا ہے۔ان کا مجموعہ ’کلیاں اور کانٹے‘ فنی اعتبار سے زیادہ گہرائی اور معنویت رکھتا ہے۔ کردار نگاری کے لحاظ سے ’شکور دادا‘ انتہائی کامیاب افسانہ ہے لیکن افسانہ ’’کلیاں اور کانٹے‘‘ میں بہت سے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ پیش کیا ہے،جس کی وجہ سے زندگی کے بہت سے رخوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کے اس افسانے کو قابل قدر اور اردو کے چند بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتاہے۔

احمدعلی کے افسانے ان کے فنی ارتقا کی نشاندہی کرتے ہیں۔شروع کے افسانوں میں انھوں نے زندگی اور فن کے رشتے کو بہت اہم سمجھا ہے۔مثلاً ان کے افسانے مہاوٹوں کی ایک رات،بادل نہیں آتے اور ’استاد شمو خاں‘ اس رشتے کو استحکام عطاکرتے ہیں۔اس کے بعد ’ہماری گلی‘ اور ’میرا کمرہ‘ جیسے ان کے وہ افسانے ہیں جن میں زندگی کے حقائق کی نفسیاتی تاویلیں ہیں۔ ’قید خانے‘ کے افسانوں میں زندگی، نفسیاتی تخیل، فلسفیانہ فکر اور وسعت ان کا مطمح نظر ہے۔

خواجہ احمد عباس کے بعض افسانے مثلاً ’تین عورتیں‘ اور’معمار‘ انقلابی اور انسانی تصوریت کی عمدہ مثالیں ہیں۔ متوسط طبقے کی پریشانیاں،ایک صحافی کے بیانیہ انداز سے سامنے آتی ہیں۔غریبوں کے مسائل پر لکھے گئے ان کے بیشتر افسانے کہیں کہیں کسی سیاسی نعرے کا جز بن جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی موضوعات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے کرداروں کے ذہنوں میں گہرائی تک دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ان کے افسانوں میں زعفران کے پھول،ٹڈی،بارہ گھنٹے اور ’سردارجی‘ اردو کے قابل قدر افسانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ان کے فن پاروں میں مارکسیت بھی نمایاں طور پرنظر آتی ہے اور وہ نظریات جن میں تحریک آزادی کی بھی آواز سنائی دیتی ہے۔غیر ملکی سامراج سے دشمنی، سماجی اور اقتصادی مساوات، انسانیت کا واضح تصور اور ہندوستانی عوام کے بیچ آپسی تال میل نمایاں رہے ہیں۔ان کے بیشتر افسانے اِنہیں نظریات سے بھرے ہوئے ہیں۔

دیویندر ستیارتھی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں گھوم گھوم کر لوک گیت جمع کرنے میں گزاردیا،ان گیتوں کی بنیاد پر ایسے افسانے تخلیق کیے جو موضوع، ماحول اور خوبصورت بیان کے اعتبار سے اردو افسانہ طرازی میں ایک نیا تجربہ تھا۔ ان کے افسانوں کے تیسرے مجموعے ’اگلے طوفان نوح تک‘ میں قحط بنگال سے متعلق نئے دھان سے پہلے،دوراہا، پھر وہی کنج قفس اور ’قبروں کے بیچوبیچ‘ جیسے افسانے بنگال کے درد انگیز المیہ سے متعلق اور بہت موثر ہیں۔ان افسانوں میں دکھوں سے بھری دنیا میں بھی امید کی کرنیں نظر آتی ہیں۔

حواشی:

1       اردو افسانے کی نصف صدی: پروفیسر قمر رئیس (مشمولہ  ہفت روزہ ہماری زبان ) فروری 1975 

2       اردو تنقید پر ایک نظر:کلیم الدین احمد 1969،  166

3       (بحوالہ) ’اردو افسانہ تعبیر و تنقید‘ پروفیسر اسلم جمشید پوری 2002 ص 124

4       (بحوالہ) اردو افسانہ تعبیر و تنقید: پروفیسر اسلم جمشید پوری  2002 ص99

5       (بحوالہ) ’اردو افسانوی ادب‘ وہاب اشرفی 1987، ص87

          خواجہ احمد عباس ‘راج نارائن راز 1989 ص44

 

 

 

Dr. Arshad Iqbal

(Asst. Professor) M.M (PG.) College,  Katghar

Dist. Moradabad- 244001 (UP)

Mob. No.: 09412828013





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں