6/4/22

تیج بہادر سپرو کی آئینی اور تہذیبی بصیرت- مضمون نگار : عمیر منظر

 



تیج بہادر سپرو (پ:8دسمبر 1875، و: 20 جنوری 1949) کا شمار ان ممتاز ہندستانی شخصیات میں کیا جاتا ہے، جو نہ صرف ہندستانی تہذیب کا ایک روشن چہرہ تھے، بلکہ انھوں نے اپنے افکار وخیالات سے برطانوی عہد کے ہندستان میں بہت سی قانونی اور آئینی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا او راس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی۔انھوں نے ہندستانی تہذیب و ثقافت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے روشن پہلوؤں کو اپنی زندگی میں برتا ہی نہیں، بلکہ پوری زندگی اسی کے مبلغ و شارح بھی رہے۔اردو کو صرف وہ ایک زبان نہیں بلکہ اسے ہندستانی تہذیب کااہم جز سمجھتے تھے۔مولوی عبدالحق نے اسی لیے تیج بہادر سپرو کے بارے میں لکھا تھا کہ :

’’اگر کسی کو ہندستانی تہذیب کا بہترین نمونہ دیکھنا ہوتو وہ سرتیج بہادر سپرو کو دیکھے۔‘‘

(ہماری قومی زبان،تیج بہادر سپرو،ص د،انجمن ترقی اردو ہند 1941)

تیج بہادر سپرو کے انتقال پر تقریباً سات دہائیاں گزرنے والی ہیں، لیکن ان کی تحریریں اور وہ راستے جو انھوں نے زندگی بھر اختیار کیے آج بھی روشن اور قابل تقلید ہیں۔

سپرو جیسی شخصیات کا سب سے نمایاں امتیاز یہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ہندستان اور اس کی رنگار رنگ تہذیب و ثقافت کواپنے پیش نظر رکھا۔اپنے افکار و نظریات اور عملی جدوجہد سے ہندستان کی اُس تہذیبی اور ثقافتی رنگا رنگی کو مزید نمایاں کیا اور اسے ایک تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے تعبیر کیا۔اس کام کو انھوں نے پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ کیا۔برطانوی ہندستان میں وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے، مگر ہر جگہ ہندستان اور ہندستانیت کے ترجمان بنے رہے۔ان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کے علمی وسیاسی کارناموں کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی۔ جہاں ایک طرف وہ اردو کے بے لوث خادم اور اس تہذیب کے شارح و ترجمان رہے، وہیں دیگر زبانوں کی پرزور وکالت بھی کرتے رہے۔ انگریزیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے، مگر علمی سطح پر انگریزی زبان کے قدردان اور اس کی علمی حیثیت کو بلند تصور کرتے رہے۔ان کی سرگرم زندگی سے اس کی مختلف مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

تیج بہادر سپرو 8دسمبر 1875 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ سپرو کی تعلیم و تربیت ان کے دادا پنڈت رادھا کشن کے زیر سایہ ہوئی،جو دلی کالج میں استاد تھے اور آگے چل کر اتر پردیش میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔بجنور میںتعیناتی کے دوران ہی سرسید سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ایس کے بوس کے بقول’ یہیں سے اس گھرانے نے اسلامی تہذیب کو قریب سے دیکھا۔‘واضح رہے کہ سپرو ایک کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو وہاں سے ہجرت کرکے علی گڑھ میں آباد ہوگیا تھا۔ایس کے بوس نے لکھا ہے کہ :

’’سپرو کے داداسرسید احمد خاں کے حبیب لبیب تھے۔ 1857 کے انقلاب کے دوران وہ سرسید احمد خاں کے ساتھ بجنور میں تعینات تھے۔علی گڑھ میں اپنے دادا کے ساتھ سپرو اکثر سرسید کے یہاں آتے جاتے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات بہت سے مسلم قائدین اور دانشوروں سے ہوئی اور یہیں سے سپرو صاحب فارسی اور اردو ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔سپرو سرسید احمد خاں کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کے بیٹے محمود کے مداحین میں تھے۔ جسٹس محمود الہ آباد ہائی کورٹ کے پہلے ہندستانی جج جس وقت بنائے گئے اس وقت سپرو وہاں پر وکالت کی پریکٹس کررہے تھے۔اور یہیں سے وہ ایک دوسرے سے مزید قریب ہوئے۔ان رابطوں کے توسط سے اندر زندگی بھر کے لیے سیکولر اقدار اور تہذیبی رواداری کا مزاج بن گیا۔‘‘(ص 7)

دوران تعلیم آگرہ میں آگرہ کالج کے پروفیسر اینڈریوز سے قربت ہوئی، جنھوں نے سپرو کے لبرل خیالات کو فروغ دینے میں تقویت بخشی۔ 1891 میں آگرہ میں تعلیم کے دوران پنڈت ایودھیا ناتھ نے اردو میں تقریر کی تھی، جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکے۔ 1911 میں پنڈت بشن نارائن در کانگریس کے صدر بنے،ان سے سپرو کی ذہنی ہم آہنگی تھی اور جن کے اثرات ان کی شخصیت اور خیالات پرمرتسم ہوئے۔اس کے علاوہ جیمس مل، اسپینسر اور ہکسلے جیسے بڑے مغربی فلاسفر کے خیالات سے سپرو کافی متاثر ہوئے۔اپنے عہد کی اہم شخصیات اور ان کے افکار وخیالات سے ہم آہنگی اور اشتراک نے سپرو کو وہ نظر عطا کی جس نے ہندستان کی سرگرم سیاسی اور تہذیبی زندگی میں ان مٹ نقوش قائم کیے۔ ایک مدت بعد آج جب ہم ان کے افکار وخیال پر غور کرتے ہیں تو باور کرنا پڑتا ہے کہ ایسے روشن ضمیر اور کشادہ ظرف انسان ہی کسی تہذیبی تنوع کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سپرو نے ایک سرگرم سیاسی زندگی گزاری اور یہ زمانہ برطانوی عہد کے اس ہندستان کا تھا جہاں لب کشائی آسان نہ تھی مگر سپرو نے اس مہم کو اپنی آئینی مہارت اور تہذیبی لگن سے اس کامیابی کے ساتھ سرکیا کہ برطانوی سامراج بھی منہ دیکھتا رہ جاتا۔ سیاسی اتھل پتھل کے زمانے میں سپرو کی فکری بالغ نظری نے خود کو متحدہ ہندستان کی تعمیر و ترقی کے ترجمان کے طور پر پیش کیا۔

سرتیج بہادر سپرو 1913 میں ریاست متحدہ کے ودھان پریشد میں ممبرکی حیثیت سے نامزد کیے گئے اور یہیں سے انھیں اپنی آئینی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کا موقع ملا۔اس سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے کچھ مشورے اور تجاویز پاس کرانے کی کوشش کی اور حکومت برطانیہ کی پالیسیوں پر جرأت و ہمت کے ساتھ بحث وتنقید کی۔نامزد ممبر ہونے کے باوجود ودھان پریشد میں ان کی سرگرم گفتگو، تجاویز اور مشورے سے یہ خیال گزرتا تھا کہ یہ آزاد رکن ہیں۔ انھوں نے ودھان پریشد کے محدود اراکین (منتخب) کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ایک بحث کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ودھان پریشد کالبرل آئین، امنگوں اور خواہشوں کے شرمندۂ تعبیر ہوئے بغیر صرف گفتگو کی حدتک آزادی دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔

انھوں نے تعلیم یافتہ ہندستان کی بنیاد رکھنے کا کام برطانوی ہندستان کے عہد میں ہی کردیا تھا اور 1913کے بجٹ اجلاس میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ چھ ہزار مزید پرائمری اسکول قائم کیے جائیں اور تعلیم کے بجٹ کو ایک لاکھ تک کردیا جائے۔ انھوں نے کہا تھا پولس بجٹ میں کمی لائے جائے اور تعلیم کے بجٹ میں اس کا اضافی پیسہ لگایا جائے۔ سپرو نے اسی اجلاس میں تعلیم نسواں کے لیے الگ سے اسکول کے قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ان تجاویز سے سپرو کی سنجیدہ فکر اور ملک کے لیے ان کے بے لوث جذبے کو بآسانی محسوس کیا جاسکتاہے۔دراصل سپرو کی نگاہ دور رس آئین و انتظام اور تعلیم وتہذیب،سب پر تھی۔وہ ہندستان کی سماجی اور قومی زندگی پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور اسی لیے انھوں نے ودھان پریشد میں گرام پنچایتوں کو مضبوط کرانے اور ان کو چھوٹے چھوٹے معاملات کے تصفیے کے اختیار ات دیے جانے سے متعلق تجویز کی پرزور حمایت کی تھی لیکن یہ اس وجہ سے ممکن نہ تھا کہ اس سے عام ہندستانیوںتک کچھ اختیارات منتقل ہوسکتے تھے،انگریز جس کے روادار نہ تھے۔آزاد ہندستان میں بھی یہ بہت دنوں تک ممکن نہ ہوسکا لیکن 1993 میں 73 ویں آئینی ترمیمی بل (پنچایتی راج ایکٹ )کے ذریعے حکومت ہند نے سپرو کے اس خواب کی تکمیل کی۔

1915 میں سپرو نے ’انڈین  لیجسلیٹیو کونسل‘ کی حلف لی اوربہت جلد وہ کونسل کے قدآور قائدین میں شمار کیے جانے لگے۔یہاں انھوں نے ایک ایسے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیاجس سے آئندہ پندرہ برسوںمیں سب کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم کا حق مل سکے۔ انگریزوں کے زمانۂ اقتدار میں یہ چیز تو ممکن نہ تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے پوری قوت اور قانونی دلائل کی روشنی میں اپنی رائے پیش کی۔انگریزوں کے جانے کے بعد عرصے تک یہ تجویز عمل آوری کے لیے منتظر رہی اور بالآخر 2003 میں 86 ویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے آرٹیکل 21-A کو شامل کرکے یہ حق ہندستانی بچوں کو دیا گیا۔سروشکچھا ابھیان کے تحت مڈ ڈے میل کا جوپروگرام شروع کیا گیا ہے یہ سپرو کے خوابوںکی تعبیر ہے۔ انھوںنے ایک تعلیم یافتہ ہندستان کا خواب دیکھا تھا اور اس کے لیے وہ جو کچھ کرسکتے تھے وہ کیا بھی اورآج اس سمت جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے انہی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کہا جاسکتاہے۔

سپرو کی ان کوششوں سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ انھیں قانون وآئین کی جو فہم حاصل تھی اس کوانھوں نے ذاتی مفاد یا عہدہ و منصب کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ ملک سے محبت کرنے والے ایک عظیم دانشور کے طور پر ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو قربان کردیا۔ یاد رہے کہ یہ زمانہ ہندستان کی محکومی کا تھا۔انگریز حکمرانوں سے بظاہر کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی مگر انھوں نے انتظام وانصرام کے لیے جو آئین وضع کیا تھا اس کو سامنے رکھ کر یہ مشورے نہ صرف بہت اہم کہے جاسکتے ہیں بلکہ آزاد ہندستان کے تناظر میں ان کی معنویت دوچند ہوجاتی ہے۔کیونکہ ہم نے آزاد ہندستان کا آئین وضع کرنے میں اس فکر اور ذہنی رویے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ ان کی آئینی بصیرت اور ہمت ہی تھی کہ انھوں نے لیجسلیٹیو کونسل میں پہلی بار فوج میں بھارتیوں کے لیے بالکل برابری کا درجہ،عہدہ اورمواقع کا مطالبہ کیا اور کہا کہ فوج میں جو مرتبے یوروپین کوحاصل ہیںوہی ہندستانی فوجیوں کو بھی ملنے چاہیے۔یہ ہمارا خصوصی اور پیدائشی حق ہے، جس سے ہم دستبر دار نہیں ہوسکتے۔گاندھی جی کے ساتھ خلافت موومنٹ کا انھوں نے نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اس کے توسط سے آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی سرگرم شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی، جس کی طرف عام طور سے توجہ نہیں تھی۔اسی تناظر میں سپرو کے بنائے ہوئے آئین کو بھی دیکھنا چاہیے جو دراصل ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1919‘ کے تنقیدی جائزے اور اصلاحات پر مبنی ہے۔ انگریز حکمرانوں نے ہندستان کے آئین کی داغ بیل 1919 میں ڈالی تھی اور اس میں دو باتیں خاص تھیں۔

الف : ریاستوں میں دوہری سرکار(Diarchy in Provinces) اور مرکز میں دو ایوانی پارلیمنٹ (Bicameral Central Legislature)

ب: مرکزی سرکار کے بجٹ کی دو حصوں میں تقسیم (Votable, Non-Votable)

ج: ایک ہائی کمشنر جو لندن میں رہ کر ہندستان کی نمائندگی کرے گا۔

سپرو نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے سرکار اور آئین کے ڈھانچے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا اور دوہری سرکار کی مخالفت کی۔بجٹ میں Votable اور Non-Votable کی تقسیم کو غلط ٹھہرایا اور کہا کہ اراکین پارلیمان کو ووٹ کا حق پورے بجٹ پر ملنا چاہیے نہ کہ اس کے کسی ایک حصے پر۔واضح رہے کہ برطانوی حکومت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے Non-Votable بجٹ کو جاری رکھنا چاہتی تھی، جو ظاہر ہے ہندستانیوںکے مفادات کے خلاف تھا۔نہ دلیل،نہ اپیل،نہ وکیل جیسی صورت حال سے دوچار اور بے بس ہندستانیوں کے لیے رالٹ ایکٹ (Rowlett Act-1919)جیسے کالے قوانین کے درپردہ پولس راج کو فروغ دینا چاہتی تھی۔جلیاں والا باغ کا حادثہ اسی Non-Votableبجٹ کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے پولس کو بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ پولیس کسی بھی سرکار کے سامنے جواب دہ نہیں تھی بلکہ براہ راست گورنرکے سامنے ہی وہ جواب دہ تھی۔اس کے باوجود پورے بجٹ پر ووٹ کرنے کا اختیار ہندستانیوں کو انگریزوں کے جانے کے بعدہی مل سکا۔گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کی ان کمیو ں کو اجاگر کرنے کے نتیجے میں ہی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں سپرو کے چند مطالبے کو شامل کرکے ہندستانیوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور اسی کے تحت دوہری سرکار کے انتظام کو ختم کیاگیا۔اس تناظر میں سپرو کی آئینی بصیرت اور مہارت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

تعلیم یافتہ ہندستان، سپرو کی فکر اور عملی جدوجہد کا کلیدی محور قرار دیا جاسکتا ہے۔انھوں نے مختلف اسٹیج اور مواقع سے تعلیم،ذریعہ تعلیم اور اس کے دیگر عوامل پر بہت واضح اور دوٹوک انداز میں گفتگو کی۔جہاں انھوں نے تعلیم پر بات کی وہیں انھوں نے یونیورسٹیوں کے کردار اور ان کی شناخت کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی۔ان کا خیال تھا کہ ملک کی ہریونیورسٹی اپنے وسائل وذرائع کابہتر استعمال کرکے اپنی امتیازی شناخت قائم کرنے کی کوشش کرے تاکہ کسی ایک مضمون کے حوالے سے وہ پہچانی جائے۔وہ چاہتے تھے کہ تعلیم ایسی ہو کہ اس کے بعد کسی پیشے سے منسلک ہوا جاسکے۔ایسی تعلیم نہ ہو جو سرگرم سماجی اور معاشی زندگی سے الگ کردے۔ 30 نومبر 1935 کو پٹنہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ :

’’بھارت پڑھے لکھے بھکاریوں کا ملک بن رہا ہے۔‘‘ مغربی ممالک کے اپنے تجربوں کی روشنی میں کہا کہ’’ تعلیم کو روزگار سے منسلک ہونا چاہیے تاکہ طلبا کواعلی تعلیم کا فائدہ مل سکے‘‘۔ان کا خیال تھا کہ‘‘ پیشہ ورانہ،صنعتی یا پھر ایسی کوئی اور تعلیم دی جانی چاہیے جس سے انھیں نوکری ملنے میں آسانی ہو ‘‘۔ ممکن ہے ان سطور سے کسی کو یہ اندیشہ ہو کہ تیج بہادر سپرو تعلیم کے ثقافتی مظہر کے مخالف تھے۔اصل بات یہ ہے کہ وہ ثقافتی رویوں اور مظاہر کے نہ صرف حامی تھے بلکہ اس کی جیتی جاگتی مثال تھے۔

لکھنؤ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے ذریعہ تعلیم کے بارے میںکہا :

ہمارے بچوں کی بہت بڑی تعداد کی تعلیم میں یہ ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے کہ انھیں ایک غیر زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور خصوصاً ایسے مضامین کی تعلیم جن کے لیے ہر گز یہ ضروری نہیں کہ اپنی زبان چھوڑ کر کسی اور زبان میں پڑھائے جائیں ...میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں اپنی یونیورسٹیوں میں انگریزی کا رواج بالکل ترک کردینا چاہیے بلکہ اگر قومیت کے بے جا فخر یا تنگ نظرانہ قومیت کی بدولت کبھی ایسا وقت آیا کہ ہمارے بچے انگریزی ادب کی روحانی مسرتوں اور بلند خیالی سے محروم کردیے گئے تو مجھ سے زیادہ شاید ہی کسی کو افسوس ہوگا کیونکہ انگریزی ادب کی بدولت ہمیں بہت سے نئے خیالات اور نئے معیار میسرآئے ہیں ...بعض مضامین یقینی ایسے ہیں کہ ان کی تعلیم ابھی ایک خاصے عرصے تک انگریزی زبان ہی میں ہونی چاہیے،جب تک کہ ہماری زبان کی پہلی مہم بہت کچھ تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔میرا احتجاج انگریزی زبان کے استعمال یا انگریزی زبان کے مطالعہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس غفلت کے خلاف ہے جس کی بدولت ہماری زبانیں پیچھے پڑ گئی ہیں۔‘‘

(حوالہ سابق ص:2,5,6)

سپرو کی یہ کشادہ فکر راتوں رات کسی فکری تبدیلی کے سبب نہیں تھی بلکہ یہ چیزیں ان کی تربیت اور پرورش کاحصہ تھیں۔انھوں نے بہت سے ہندستانی رہ نماؤں اور دانشوروں کو قریب سے دیکھا اور استفادہ کیا تھا جو اپنی روشن خیالی اور فکری کشادگی کے سبب ہندستانی معاشرے کے لیے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔سپرونے اس تربیت سے جو کچھ حاصل کیا تھا اس پر تاعمر کار بندرہے۔

اردو زبان سے سپرو کا تعلق محض زبان کے طورپر نہیں بلکہ ایک تہذیبی تنوع اور ہندستانی ثقافت کی بہتر نمائندگی کے سبب تھا۔وہ اردو کو صرف ایک زبان تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک تہذیبی رویہ بھی قرار دیتے ہیں۔

سپروکے بقول :

’’اردو زبان ہندو مسلمانوں کا ایک ایسا مشترکہ و مقدس ترکہ ہے جو ناقابل تقسیم ہے ۔اس لیے مسلمان اگر یہ دعوی کریں کہ یہ ان کی زبان ہے تو یہ دعوی ہر گز قابل قبول نہیں ۔یہ ایک مشترکہ ترکہ ہے جو صدیوں سے ہمارے حصے میں آیا ہے ۔یہ ہماری تہذیب کا خزانہ ہے۔ بحیثیت ہندو ہونے کے مجھے یہ کہنے میں کچھ تامل نہیں کہ میری مادری زبان اردو ہے۔‘‘ (ایضاًص72)

یہی وہ تہذیبی اور ثقافتی رویے تھے جس نے انھیں مجبور کیا ہوگا کہ وہ انجمن ترقی اردو کی صدارت کو زینت بخشیں اور اس کثیر ثقافتی اور تہذیبی ملک کو مزید ثروت مندبنائیں۔انجمن ترقی اردو ہند کی جب بھی کوئی تاریخ لکھی جائے گی اس میں سپرو صاحب کے کارناموں اور اردو زبان اور تہذیب سے ان کی گہری اور سرگرم دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔

ہندستان دراصل وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کی ایک نمایاں ترین مثال ہے اور اس ملک کی بنیاد اسی پر ہے۔تیج بہادر سپرو کو یاد کرنے اور ان پر کچھ لکھنے کا مطلب ہی ہے کہ ہم ہندستان اور اس کے تہذیبی تشخص پر غور و فکر کررہے ہیں۔ان کے زمانے میں بھی اس کی ضرورت تھی اورآج بھی۔کیونکہ اس کے بغیر ممکن ہے کہ ہم سب کچھ ہوں مگر آدھے اور ادھورے۔کسی شناخت اور ثقافتی مظہر کے بغیر۔ایک لٹے پٹے اور بے سروسامان قافلے کی طرح،جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو

کتابیات

1        آدھونک بھارت کے نرماتا :تیج بہادر سپرو، ایس کے بوس،پبلی کیشن ڈویژن بھارت سرکار 1985

2        ہماری قومی زبان،تیج بہادر سپرو،انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی1941


 

Dr. Omair Manzar

504/122, Tagore Marg

Near Shabab Market

Lucknow - 226020 (UP)

Mob.: 8004050865

 

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں