12/4/22

اردو صحافت کی خشتِ اوّل: جام جہاں نما - مضمون نگار : محمد ضیا المصطفیٰ

 



ہندوستان میں انگریزی، بنگلہ، فارسی اور ہندی کی طرح اردو صحافت کی ابتدا بھی کلکتہ سے ہوئی۔ 27 مارچ 1822 کو ’جام جہاں نما‘ کے نام سے کلکتہ سے ایک اردو اخبار جاری کیا گیا جسے اردو صحافت میں فضلِ تقدم حاصل ہوا۔ چونکہ اس اخبار کے اجرا سے قبل برصغیر کی زبانوں میں صرف بنگلہ زبان کا اخبار ہی جاری ہوا تھا۔ اس وقت تک  اردو یہاں تک کہ فارسی یا ہندی کے بھی کسی اخبار کے نکلنے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ اس لیے اسے اردو کا پہلا مطبوعہ اخبار تسلیم کیاگیا ہے تاہم بعض صحافی اور محققین نے  اس کی اولیت سے انکار کرتے ہوئے غالباً دو ایسے اخبارات کی نشاندہی کی ہے جن کی اشاعت ’جام جہاں نما‘ سے قبل ممکن ہے۔ لیکن چونکہ ان کے دعوے دستاویزی حوالوں اور مستند تاریخی شواہد کے بجائے نرے قیاس پر مبنی ہیں اس لیے محض قیاس اور سماع کی بنیاد پر انھیں کسی محقق شے کے مقابل درست نہیں گردانا جاسکتا ہے۔ مثلاً کچھ ارباب تحقیق نے ٹیپو سلطان کے سرکاری پریس سے شائع ہونے والے ’فوجی اخبار‘ کو اردو کا پہلا اخبار مانا ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والوں میں پہلا نام ’میسور میں اردو‘ کے مصنف محمد سعید عبدالخالق کا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ :

’’بنگلور کے ایک عمر رسیدہ بزرگ اپنے مرحوم دادا کی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے جو سرکاری مطبع قائم کیا تھا اس سے اس کے حکم سے ایک سرکاری ہفتہ وار اخبار شائع ہوتا تھا، جس کی تقسیم اس کی فوج تک محدود تھی۔ اخبار میں فوجی خبروں اور احکام وغیرہ کے علاوہ انگریزوں کی شکایت اور فرانسیسیوں کی تعریف ہوتی تھی۔ یہ مطبع ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ضبط کرلیا گیا اور جہاں کہیں اس اخبار کے نسخے دستیاب ہوئے انھیں تلف کردیا گیا۔‘‘1

اس دعویٰ کی تردید میں مشہور صحافی گربچن چندن نے چند اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے بڑی ہی مدلل گفتگو کی ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’مصنف کا ماخذ بنگلورکے ایک عمر رسیدہ بزرگ کی اپنے مرحوم دادا کی روایت ہے جس کی تائید میں انھوں نے کوئی مستند شہادت یا دستاویزی حوالہ پیش نہیں کیا بلکہ خود یہ تاثر دیا ہے کہ آج اس اخبار کا کوئی شمارہ دستیاب نہیں کیونکہ انگریزوں نے 1719میں فتح میسور کے بعد اس کا تمام ریکارڈ تلف کردیا تھا۔

یہ اتلاف کا نظریہ کچھ حلق سے نہیں اترتا۔ ان دنوں انگریز حکام ہر قسم کا ریکارڈ حفاظت سے رکھنے کی راہ پر چل رہے تھے... پھر ایک شکست خوردہ اور جنگ میں کام آجانے والے حکمراں کے مبینہ مطبوعہ اخبار کے ریکارڈ کو تلف کرنے کی ضرورت یا شدت ہی کیا تھی؟ ... او رپھر اٹھارہویں صدی کے دیسی زبان کے ایک اوّلین اخبار کا رکارڈ تو ویسے ہی ایک ایسا اثاثہ تھا جسے تلف کرنے کے لیے کوئی  بھی ذہن آمادہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ 2

فوجی اخبار کو اردو کا اوّلین اخبار قرار دینے والوں میں ایک شمیم طارق بھی ہیں۔ وہ اس سلسلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اب تک کی تحقیق تو یہی تھی کہ کلکتہ کا ’جامِ جہاں نما‘ ارد وکا پہلا اخبار تھا جو 1822 میں شائع ہوا۔ عبدالسلام خورشید اور عتیق صدیقی نے بھی اسے تسلیم کیا ہے مگر اب جو آثار ملے ہیں، ان کی روشنی میں سرنگا پٹنم سے شائع ہونے والا فوجی اخبار اردو کا پہلا اخبار ہے۔‘‘

ٹیپو سلطان 1782 میں اپنے والد حیدر علی کے انتقال کے بعد سلطنت خداداد کے فرماروا ہوئے اور 1799 میں شہادت سے سرخرو ہوئے۔ یہ وہ دور ہے جب مشرق وسطیٰ سے فرانسیسیوں کی سرپرستی میں اخبارات شائع ہورہے تھے۔ ٹیپو سلطان اور فرانسیسیوں میں خاص روابط تھے۔ اس کے علاوہ عبداللہ یوسف علی کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کا پہلا انگریزی اخبار James Augustus Hicky کا تھا اور ہکیز ’بنگالی گزٹ‘ کے  نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ اخبار 1780 میں جاری ہوا تھا۔ اس لیے قرین قیاس ہے کہ انگریزی اخبار کے ردعمل میں فرانسیسیوں سے تحریک پاکر ٹیپو سلطان نے اخبار شائع کیا ہو۔ اس اعتبار سے اردو کے فوجی اخبار کو برصغیر کی ہر زبان کے اخبارات میں اولیت حاصل ہے۔‘‘3

شمیم طارق کی رائے راقم الحروف کے خیال سے اصول تحقیق کے خلاف ہے۔ انھوں نے متذکرہ بالا اقتباس میں محض قیاس کی بنیاد ٹیپوسلطان کے فوجی اخبار کی اشاعت کا نتیجہ اخذ کیا ہے تاکہ ’جام جہاں نما ‘ پر اس کی اولیت و سبقت ثابت ہوسکے کیونکہ ٹیپو سلطان کی شہادت 1799 کی ہے اور فوجی اخبار کو جیسا کہ انھو ںنے دعویٰ کیا ہے کہ ٹیپو سلطان نے شائع کیا تھا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ فوجی اخبارات ان کی زندگی میں ہی یعنی 1799 (جو ان کی شہادت کا سال ہے) سے قبل ہی جاری ہوا ہوگا۔ اس طرح فوجی اخبار کی اشاعت کا سنہ، جام جہاں نما کی اشاعت کے سال (1822) سے پہلے ہوگا اور وہ اردو کا پہلا اخبار قرار پائے گا۔ بجز اس کے کہ طارق صاحب دستاویزی حوالوں اور مستند شواہد کی روشنی میں اس اخبار کے وجود و اشاعت کو ثابت کرتے حالانکہ انھوں نے خود اولاً یہ تسلیم کیا ہے کہ ’جام جہاں نما‘ کا اردو کا پہلا اخبار ہونا تحقیق شدہ ہے اس کے باوجود اس کے رد میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرنا صرف قیاس پر تکیہ کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کیونکہ کسی شے کی مسلمیت کا اقرار کرتے ہوئے اس پر کسی قیاسی شے کی اولیت و فوقیت کا قائل ہونا اصولِ تحقیق سے چشم پوشی کی طرف غمازی کرتا ہے۔

فوجی اخبار کے علاوہ اردو کے اولین اخبار کے بارے میں ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ مولوی اکرام علی نے 1810 میں ’ہندوستانی پریس‘ سے ’اردو اخبار‘ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا تھا جو اردو کا پہلا اخبار تھا۔ نادم سیتاپوری رقم طراز ہیں:

’’ہندوستانی پریس قائم کرنے کے بعد اکرام علی کا دوسرا ادبی کارنامہ کلکتہ سے ’اردو اخبار‘ کا اجرا تھا۔ اردو اخبار 1810 میں کلکتہ سے اکرام علی کی ادارت میں نکلا اور یہی اردو کا پہلا اور سب سے پہلا اخبار تھا۔‘‘4

اس دعوے کی تائید میں مدعی موصوف نے سید حامد حسن قادری کی کتاب ’داستان تاریخ اردو‘ اور سید رئیس احمد جعفری کی کتاب ’بہادر شاہ ظفر‘ سے ایک ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے۔ پھر مولوی باقر کے ’اردو اخبار‘ ہری ہردت کے ’جام جہاں نما‘ اور راجہ رام موہن رائے کے ’مرأۃ الاخبار‘ کی اولیت کی تردید کے بعد نادم سیتاپوری نے ’اردو اخبار‘ کے وجود و اولیت کی اثبات میں لکھا ہے کہ:

’’یہ صحیح ہے کہ ’اردو اخبار‘ (کلکتہ) کا ایک پرچہ بھی فراہم کرنے میں اب تک میں ناکام رہا ہوں لیکن میں اپنے حافظے پر بھروسہ کرتے ہوئے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں ’’اردو اخبار کے کچھ پرچے بچپن میں میری نظر سے گزرے ہیں جو فل اسکیپ سائز کے کاغذ پر ٹائپ حروف پر چھپا ہوا تھا………………… اکرام علی کے’’اردو اخبار کی نایابی کا سہارا لے کر یہ یقین کرلینا مناسب نہیں ہے کہ اس نام کا کوئی اخبار انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں نکلا ہی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ چل کر اردو اخبار ’کلکتہ‘ کے شمارے سامنے آجائیں۔‘‘ 5

مندرجہ بالا اقتباسات پر غور کرنے کے بعد چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ اوّل یہ کہ نادم سیتاپوری کے دعوے کی بنیاد دستاویزی حوالو ںکے بجائے عہدطفلی کی یادداشت پر ہے جس میں سہو و مغالطے کا قوی امکان ہے۔ دوسرے یہ کہ بچپن میں اتنا شعور بالیدہ نہیںہوتا کہ انسان اشیا کے درمیان امتیاز کرسکے خاص کر ایک ایسی شے کی شناخت کرسکے جو اپنی نوعت کی پہلی پیش کش ہو جسے اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں اور کسی نے اسے اس چیز سے آشنا نہ کرایا ہو۔ تیسرے یہ کہ یہ دعویٰ، مفروضـہ اور ایک ایسی امید پر قائم ہے جس کا وجود و عدم واضح نہیں۔

مزید یہ کہ ’’انڈین ڈیلی میل کے حوالے سے آر آر بھٹناگر نے کہا ہے کہ مولوی اکرام علی نے 1810 میں ایک اخبار جاری کیا جس کا نام ’ہندوستانی’ تھا اور جس کی زبان فارسی تھی۔ لیکن اس اخبار کے بارے میں کوئی مواد دستیاب نہیں۔‘‘6

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادم سیتاپوری نے مولوی اکرام علی کے جس اخبار کا ذکرکیا ہے اس کا نام نہ اردو اخبار تھا اور نہ ہی اس کی زبان اردو تھی۔ وہ مغالطے کا شکار ہوگئے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ تاریخ صحافت اردو پر اب تک کی گئی تحقیق اور حاصل دستاویزات کی روشنی میں جام جہاں نما کو اردو کی مطبوعہ صحافت کی خشتِ اوّل تسلیم کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ ’جام جہاں نما‘ اردو کا پہلا اخبار ہے۔ اس کا اجرا کلکتہ کے 11 نمبر سرکلر روڈ سے 27 مارچ 1822 کو ہوا تھا۔ اگرچہ بعد میں اس کا دفتر ’کولوٹولہ‘ منتقل ہوگیا تھا۔

جام جہاں نما ‘ کے بانی اور درخواست دہندہ ہری ہردت تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے صیغۂ مالیات میں کلرک تھے۔ ان کا تعلق بنگال کے دَت خاندان سے تھا۔ ان کے والد تاراچند دت مشہور مصلح اور معمار قوم راجا رام موہن رائے کے صحافتی معاون تھے۔ ایڈیٹر سدا سکھ لعل تھے جو ایک صاحب علم منشی تھے اور پرنٹر کلکتہ میں ہی موجود ایک یورپی تجارتی ادارہ تھا جس کا نام ولیم ہاپکنس پیئر اینڈ کمپنی تھا۔

یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جو ہر بدھ کو نستعلیق ٹائپ میں شین پریس سے چھپ کر شائع ہوتا تھا۔ اس کا سائز 20x30/8 ہوا کرتا تھا۔ اس کے ابتدائی شماروں کے سرورق کے دونوں طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری مہر کا نشان ہوتا تھا اور یہ نشان کمپنی سے امداد و مراعات حاصل کرنے کے لیے شائع کیا جاتا تھا۔ جب کمپنی نے تخفیف اخراجات کے سبب 1828 میں سرکاری امداد بند کردی اور 3 ستمبر 1828 کو اخبار کا اپنا چھاپا خانہ بھی قائم ہوگیا تو کمپنی کی مہر کا نشان غائب کردیا گیا جو روز اوّل سے اخبار کے ماتھے کی زینت بنا ہوا تھا۔

معلوم ہو کہ ’جامِ جہاں نما‘بنیادی طور پر اردو میں شائع ہونا شروع ہوا تھا لیکن چھ یا سات شماروں کی اشاعت کے بعد قابل اعتنا خریدار نہ ہونے کی وجہ سے فارسی زبان میں تبدیل کردیا گیا اور جون 1822 سے فارسی میں نکلنے لگا۔ پھر تقریباً ایک سال بعد یعنی 23 مئی 1823 سے فارسی ’جام جہاں نما‘ کے ساتھ ایک اردو ضمیمہ بھی نکلنا شروع ہوا۔ اس طرح ’جام جہاں نما‘ کبھی صرف اردو کبھی صرف فارسی اور کبھی اردو فارسی دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ اردو کا یہ ضمیمہ چار صفحات پر مشتمل ہوتا تھا جس کے ہر صفحے پر دو کالم ہوا کرتے تھے، سرورق کے دونوں طرف فارسی حصے کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری مہر کا نشان بھی ہوتا تھا اور نشان کے بالکل نیچے جلی حروف میں اخبار کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ابتدائی صفحے کے داہنے سرے پر ’اردو زبان میں‘ لکھ کر ضمیمہ کے اردو زبان میں ہونے کی طرف اشارہ کیا ہوتا تھا۔ اس کے سامنے شمارہ نمبر اور تاریخ اشاعت بھی درج ہوتا تھا۔

جام جہاں نما‘ کے فارسی حصے کا ماہانہ چندہ دو روپے اور اردو ضمیمہ کا ماہانہ چندہ ایک روپیہ تھا۔ مطلب یہ کہ فارسی ’جامِ جہاں نما‘ اپنے اردو ضمیمے کے ساتھ صرف تین روپے ماہانہ کے ساتھ دستیاب تھا لیکن اگر قاری کو صرف اردو ضمیمہ درکار ہوتا تو اسے اس کے لیے بھی فارسی حصے کی طرح دو روپے ہی ماہانہ ادا کرنا ہوتا تھا۔

یہ سلسلہ 23 جنوری 1828 تک یونہی چلتا رہا، اس کے بعد اخبار کے مالک ہری ہردت نے اردو حصے کو بند کرنے او را س کی جگہ فارسی حصے کو آٹھ صفحات کے بجائے بارہ صفحات پر نکالنے کا اعلان کردیا۔ چنانچہ 23 مئی 1823 سے 23 جنوری 1828 تک یعنی چار سال آٹھ ماہ تک اردو پرچہ فارسی پرچے کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہوتا رہا اور بالآخر مطبوعہ اردو صحافت کی خشت اول رکھ کر ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

جام جہاں نما‘ کے ابتدائی چھ شمارے جو صرف اردو میں ایک مستقل اخبار کی حیثیت سے شائع ہوئے تھے ان کا تلف ہونا، اخبار کی زبان کا فارسی زبان میں تبدیل ہونا اور فارسی حصے کے ساتھ اردو حصے کا بطور ضمیمہ شائع ہونا چند ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر بعض ارباب صحافت کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس اخبار کا اجرا سب سے پہلے فارسی میں ہوا تھا، اردو پرچے کا سنہ اشاعت 1823 ہے اور اردو پرچے کی اشاعت ابتداً کسی مستقل اخبار کی حیثیت سے نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ فارسی پرچے کا ایک ضمیمہ تھا۔ ان تمام غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ ڈاکٹر جان برائس کے اخبار ’جان بل‘ کے اس اطلاعاتی بیان سے ہوتا ہے جو کلکتہ جنرل کے 1822 کے فائل میں ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’ آج صبح ایک نیا اخبار ہندوستانی زبان میں جاری ہوا ہے۔ یہ اخبار کوارٹر سائز کے تین ورق پر مشتمل ہے اور اس کا نام ’جام جہاں نما‘ ہے۔ پہلا شمارہ بدھ کے دن 27 مارچ کو شائع ہوا۔‘‘7

جام جہاں نما‘ کے دستیاب فائلوں کے جائزے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں عموماً ملکی اور غیرملکی خبریں ہی ہوتی تھیں۔ خبروں کی سرخیاں چھوٹی ہوتی تھیں۔ جیسے بنارس کی خبر، لاہور کی خبر، مفت کی خبر وغیرہ۔ ایک شمارے میں اوسطاً چار خبریں ہوتی تھیں اور عموماً ایک خبر ایک کالم سے تین کالم تک پھیلی ہوئی تھی اور بسا اوقات چار صفحوں پر بھی مشتمل ہوتی تھی۔ اہم خبریں شروع میں رکھی جاتی تھیں۔ خبروں میں ہی اکثر مدیر کی رائے اور تبصرہ شامل ہوتا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر یہ خبریں نوع بنوع ہوتی تھیں۔ سیاست، جنگ، جرم و سزا، تعلیم، نئی ایجادات و انکشافات اور انسانی دلچسپیوں سے متعلق خبریں اس اخبار میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نمونے کے طور پر تعلیم سے متعلق ایک خبر ملاحظہ ہو:

’’اخبار کے کاغذ سے جانا گیا کہ انگلینڈ کے ملک میں ایک کروڑ پانچ لاکھ آدمی سب فرقے رہتے ہیں۔ ان میں سے چھ لاکھ پچاس آدمی ہنروں کے سیکھنے میں مصروف ہیں اور فرانس کے رہنے والے تین کروڑ دو لاکھ آدمی سب گننے میں آئے۔ ان میں سے دس لاکھ ستر ہزار شخص علم پڑھنے کے لیے اسکول میں زندگانی کرتے ہیں۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ انگلینڈ کے لوگ اور ملکوں کی خلقت سے زیادہ کسب کمانے کے واسطے ہمت رکھتے ہیں۔‘‘ 8

جام جہاں نما‘ کی خبرو ںکے حصول کے متعدد ذرائع تھے۔ کچھ خبریں انگلستان اور کلکتہ کے مطبوعہ انگریزی اور فارسی اخبارات سے ترجمہ کرکے حاصل کی جاتی تھیں،  تو کچھ خبریں قلمی اخبارات، سرکاری وقائع نگار کے مراسلوں اور قارئین کے خطوط سے اخذ کرکے اپنے اسلوب میں ترتیب دیے جاتے تھے لیکن ان خبروں کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔

جام جہاں نما‘ کی زبان تکلف اور آرائش سے پاک ہے اور اس کی نثر سلیس، رواں اور عام فہم ہے کیونکہ اس کے مدیر وغیرہ اگرچہ اردو کے تہذیبی مراکز سے دور تھے لیکن چونکہ ان کی نظر انگریزی زبان و ادب اور انگریزی کے مطبوعہ اخبارات پر گہری تھی اس لیے وہ اپنے اخبار میں خبریں سیدھی سادی اور آسان زبان میں لکھنے کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ ’جام جہاں نما‘ کی نثر میں ادبی حسن بھی جا بہ جا پایا جاتا ہے۔ اس کی نثر پر فارسی کے اثرات برائے نام بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی خبروں میں واقعہ نگاری، منظر نگاری اور جزئیات نگاری کے جوہر بھی نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی خبروں میں بھی ادبی چاشنی کا لطف ملتا ہے تاہم کہیں بھی اخباریت کے فقدان کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ ادبی طرزِنگارش کا عکاس خبر کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

’’آج تک بنارس کی صبح اور اودھ کی شام خاص و عام کے زبان زد تھی۔ اس سبب سے کہ بنارس میں صبح دم گنگا کے کنارے ایسی (ایسے) پری پیکروں کی بھیڑ ہوتی ہے کہ ہفت اقلیم کے سیاح ان کے دیکھنے سے حیران ہوتے ہیں اور اودھ میں شام کے وقت شفق کی سرخی اور دو گز کے فاصلے سے پہاڑوں کی سیاہی اور دریا کے کنارے سبزی ایسی لطافت دکھلاتی ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ اب اخبار کے کاغذ سے ایسا ثابت ہوا کہ انگلستان کے صاحبو (ں) نے چڈوباکی صبح و شام کو بہت پسند کیا اور اس دلیل سے کہ اس وقت کی ہوا آدمی کے جسم کو تازگی اور بدن کو تفریح بخشتی ہے وہاں کی صبح اور شام کو بنگالے کے ملک پر ترجیح دیا۔‘‘9

بہرکیف ’جام جہاں نما‘ کو صحافت کے بنیادی وظائف، خبر کی فراہمی، تعلیم اور تفریح کے اعتبار سے اردو صحافت کا امید افزا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ اس اخبار نے اردو صحافت میں جن روایات کو رواج دیا، بعد میں شائع ہونے والے اخبارات نے ان کی تقلید کی اور بہت سارے امور میں اس کی روش کو اپنایا۔

حواشی

1        میسور میں اردو از محمد سعید عبدالخالق، مطبوعہ درسگاہ اردو دارالمطالعہ عام، معظم بلڈنگ حیدرآباد 1942، ص 76,77

2        جام جہاں نما: اردو صحافت کی ابتدا از گربچن چندن، ص 25

3        شمیم طارق، روشن لکیریں، ممبئی 1998 ص 80

4        فورٹ ولیم کالج اور اکرام علی، از نادم سیتاپوری، شائع کردہ ادارہ فروغ اردو لکھنؤ 1959، ص 170

5        فورٹ ولیم کالج اور اکرام علی از نادم سیتاپوری، ص 172

6        بحوالہ جام جہاں نما، اردو صحافت کی ابتدا از گربچن چندن، ص 24

7        صحافت پاکستان و ہند میں از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، ص 20

8        جام جہاں نما، 4 مئی 1825

9        جام جہاں نما، یکم اکتوبر 1825

 

Md Ziyaul Mustafa

Senior Research Fellow, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں