13/4/22

ابوالمجاہد زاہد کی اطفالی شاعری - مضمون نگار : دلشاد حسین اصلاحی

 



’’بچے قوم کا مستقبل ہو تے ہیں،‘‘یہ مقولہ بڑا معروف ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بچوں کی عمدہ تعلیم و تر بیت کابندوبست کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام والدین اس طرف خاص توجہ صرف کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر سے بہترتعلیم دلانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔

پہلے زمانے میں اہل ثروت اور ذی حیثیت لوگ اپنے بچوں کے لیے اتالیق متعین کرتے تھے،جوبچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ان کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ تاکہ ان کے طلبہ سماج میں ایک اچھے انسان کا رول ادا کرسکیں۔ اپنے کام میں اساتذہ بے لوث ہوتے تھے، ان کے پیش نظرمادی منفعت سے ہٹ کر اپنے شاگردوں کے اندرانسانی جوہر پیدا کرکے مخلوق کاخادم اورخالق کااچھا بندہ بنانا ہوتا تھا۔

ماضی میں اساتذہ اپنے خلوص و بے لوثی اور بے نیازی کی وجہ سے طلبہ ہی کے درمیان نہیں بلکہ پورے سماج میںعزت ووقار کی نظر سے دیکھے جاتے تھے،آج زمانہ اور اس کی ترجیحات بہت کچھ تبدیل ہوگئی ہیں۔اساتذہ بھی معلومات کی منتقلی کوفریضۂ تدریس سمجھنے لگے ہیں،طلبہ میں اعلیٰ اقدار اور حسن اخلاق کی نشو و نماکو اہمیت ہی نہیں دی جارہی ہے،اس لیے دیکھنے میں آرہا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کارشتہ ویسا مستحکم وعقیدت مندانہ نہیں رہاہے جیسا کہ کبھی ہوا کر تا تھا،اقدار کے زوال میں جہاں بہت سے اسباب ہیں وہیں نصاب تعلیم کا حسن اخلاق و اقدار کے مواد سے خالی ہونا بھی ہے۔بچے پر نصابی تعلیم کاگہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔بچپن کی پڑھی ہوئی چیزیں نقش کالحجرہوتی ہیں۔یعنی زندگی بھریاد رہتی اور شعوری زندگی میں بڑاکام آتی ہیں۔اس لیے اچھی نثرکے ساتھ ساتھ عمدہ شاعری اس دور کی ذہنی تربیت میں خاص اور اہم رول ادا کرتی ہے۔اسی غرض اور مقصد سے ایسی چیزیں نصاب میں شامل کی جاتی ہیں۔

اردو زبان کاابتدائی نصاب آج بھی مولوی اسماعیل میرٹھی، افسرمیرٹھی، شفیع الدین نیر، چکبست وغیرہ کی اخلاقی اقدار پر مشتمل اطفالی شاعری کے بغیرمکمل تصور نہیں کیا جاتا۔ مولوی اسماعیل میرٹھی کو اس میدان میں تقدم اور خدمات کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔  انھوں نے اپنے زمانے میں پورا ایک نصاب مرتب کر دیا تھا جو آج بھی بہت سے مقامات پر رائج ہے۔وہ اطفالی ادب تخلیق کرنے والوں میں ایک بلند مقام پر فائز ہیں، ہم نے یوپی کے ابتدائی نصاب کی کتاب میںغالباً درجہ چہارم میں والدین اور استاذ کے تعلق سے یہ اشعارپڑھے تھے،جو آج تک ازبر ہیں        ؎

ہے ماں باپ کا پہلے رتبہ بڑا

بعد ان کے حق ہے تو استاد کا

 وہ تم کو سکھاتاہے علم  وشعور

جہالت طبیعت سے کرتاہے دور

ایسا ادب پڑھنے والا طالب علم نہ کبھی استاد کااحسان بھول سکتا ہے نہ کبھی زندگی میں اپنے ماں باپ کانافرمان ہوسکتا ہے۔

فکری، لسانی،تربیتی اوربچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کراردو میں شاعری کرنے والوں کی تعداد موجودہ دور میں بہت کم ہے اور جو شاعری ہورہی ہے وہ الاّ ماشا اللہ اس معیار کی نہیںہے کہ بچوںکے اندر اخلاقی اقدارکو بہت زیادہ پروان چڑھانے والی ہو،اور بچوں کے حسب حال اس کوبہت معیاری یااعلیٰ کہا جاسکے۔

ادب اطفال کے تعلق سے خصوصاًشاعری پر جب ہم نظر ڈالتے ہیںتوچند نمایاں ناموں میں مائل خیرآبادی، مرتضیٰ ساحل تسلیمی، پروفیسرمظفرحنفی اورشاگرد سیماب مولانا ابوالمجاہد زاہد ایسے  اشخاص ہیں جو فکری و فنی خوبیوں، بچوں کی عمر و ذہنی سطح اورنفسیات کو  اپنے کلام میں ملحوظ رکھتے ہیں اور اپنی تخلیقات میں بچوں کے لیے اخلاقی اقدار کو سمو کر پیش کرتے ہیں۔

تربیتی زاویۂ نگاہ سے جب ہم مولانا ابوالمجاہد زاہد کی شاعری کامطالعہ کرتے ہیں تومحسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اطفالی شاعری میں اس کا  خاص خیال رکھا ہے کہ بچوں کے اندر اخلاقی حسن پیدا ہو اور پروان چڑھے۔ 

مولانا ابوالمجاہد زاہدنے بچوں کی نفسیات،دلچسپی اورافتادطبع کو سامنے رکھ کر شاعری کی ہے۔زندگی کا طویل عرصہ درس وتدریس سے وابستگی رہی،عمربچوں سے اس قربت نے ان کے اندر ایک درک پیدا کردیا اس لیے بلا تردد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اطفالی شاعری عملی اور مجرب ہے۔وہ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے بھی نہایت کامیاب شاعر قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کے فن کے سلسلے میں معروف ناقد ڈاکٹرابن فریدنے ایک جگہ لکھا ہے :

’’اچانک ایساہوا کہ میں سرکاری نوکری سے برطرف ہونے کے بعدمرکزی درسگاہ رامپور میں استاد ہوگیا۔ ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھاکہ ناظم درسگاہ افضل حسین خاں صاحب مرحوم نے ’ہماری کتاب‘کاپورا سیٹ نظر ثانی کے لیے میرے سپردکردیا۔ اس وقت تک یہ کتاب صحیح نصابی تقاضوں کے مطابق مرتب نہیں ہوسکی تھی... اس مہم جوئی میں مجھے بہت سے شاعروں سے مطلوبہ موضوعات پر نظمیں بھی لکھوانی پڑیں۔ زیادہ ترجن استادشاعروں نے فکر سخن فرمائی وہ یہ سمجھنے سے قاصررہے کہ بچوں کاادب کیا ہوتاہے۔چنانچہ زیادہ تر نظمیں موضوع کے لحاظ سے بچوں کے لیے ضرور لکھی گئیں لیکن زبان تکنیک اورلفظیات کے اعتبار سے نہ صرف غیر فنی تھیں بلکہ فطری روانی اور شعری آہنگ سے بھی محروم تھیں۔ میری نظر میں صرف ایک شاعر  نصابی مطالبات کوسمجھ سکااور بے حدمترنم نظمیں کہہ سکا۔ ان نظموں کوپڑھنے کے بعد دل چاہنے لگا کہ اس شاعر سے پورے سیٹ کی تمام ہی نظمیں لکھوالی جائیں تاکہ واقعتا بچوں کاادب وجود میں آجائے۔اس کے علاوہ دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوئی کہ اس شخص سے ذاتی ربط ہوجائے۔ پھر جب ’ادارہ ادب اسلامی‘ کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تواس شاعر ابوالمجاہدزاہد سے ملاقات ہوئی۔‘‘

(پیش لفظ ’یدبیضا‘مجموعۂ کلام:ابوالمجاہدزاہد،از : ڈاکٹرابن فرید،ص9، مطبوعہ اکتوبر 1998)

 ابوالمجاہدزاہدنے اپنی اطفالی شاعری کے ذریعے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے اندراخلاقی اقدار پروان چڑھیں، پڑھائی لکھائی اورمحنت کا ذوق وشوق پیدا ہو، زندگی میں صاف صفائی اورسلیقہ مندی کی ترغیب ملے، ذہن توحید اور خوف خداکی تعلیمات سے آراستہ ہوں،خدمت خلق کے جذبات سے بچے سرشار ہوں،اور تمام عادات رذیلہ سے اجتناب کرنے والے بن جائیں اورساتھ ہی خصائل حسنہ کواختیارکرنے پربرضاورغبت ان کے اندر آمادگی پیداہو جائے،یہ چیز ان کی تمام نظموں میں اہتمام کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کے عناوین متعین کرنے میں بھی بچوں کے مزاج ومعیار کوپیش نظر رکھتے ہیں، جو بچوں کولبھانے والے اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان کی چند اطفالی نظموں کے مطالعے کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے۔ 

پھولوں سے بڑوں ہی کو نہیں بچوں کوبھی بڑی محبت ہوتی ہے۔ وہ اپنی نظم ’پھول‘ میں بچوں کومعلومات فراہم کرتے ہیںکہ پھول کتنے رنگ کے ہوتے ہیں،کس کس وقت کھلتے ہیں۔معلومات دینے کے بعدبچے کی فکری تربیت کے پیش نظراس کی جیب پھولوں سے بھری دیکھ کر ماں کے ذریعے یہ مکالمہ کراتے ہیں           ؎

دیکھ کے امی بول اٹھیں

اے ہے اتنے سارے پھول

پھلواری کے مالک سے

پوچھ کے بھی ہو لائے پھول‘‘

سن کے مجاہدبول اٹھے

’’کیوں لاتا چوری کے پھول

پھلواری کے مالک سے

پوچھ کے توڑے میں نے پھول

ناخوش  ہو  جاتا  اللہ

لاتا جو چوری کے پھول‘‘

امی نے خوش ہوکے کہا

’’ہنستارہ اے میرے پھول‘‘

   چوری سے رکنے اور باز رہنے کی تعلیم ان کی اکثر نظموں میں ملتی ہے۔وہ اللہ سے بچے کا رشتہ مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اچھا انسان بن کراس دنیا میں جیے اور خلق خدا اس سے فیض پائے۔وہ اپنے طالب علم کوضرر رسانی سے کوسوں دور دیکھنا چاہتے ہیں۔

پنچھی سبھا‘ ایک مزیدار نظم ہے۔جس میں اکتیس پرندوں کے نام گنوائے ہیں۔ منظرکشی بڑی عمدہ ہے۔بچے شوق کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔اگر ان پرندوں کومختلف قسم کے انسانوں کاعلامتی گروہ مان لیاجائے(میراماننایہی ہے)تویہ نظم انسانوں کا ایک بہترین اجتماع ہوگی۔اس میں بہت سے شریک پرندے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم سب کاراجا کون ہے۔پھر سب کی رائے سے’مٹھو‘ یعنی توتے صاحب ان کے اس سوال کا دل لگتے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ اللہ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کا ذکر کر کے آخر میںیہ پیغام دیتے ہیں جس میں بڑی خوبی سے مذکورہ سوال کا جواب بھی آ گیا ہے          ؎

جس نے  یہ  سنسار  بنایا

بس  وہ  ہے  سب  کا  راجا

 سب کا  مالک  سب کا داتا

سب  کا حاکم  سب  کا  راجا

 ہم سب  اس کوخالق مانیں

ہم سب  اس کو  رازق  جانیں

 اس کے آگے سر کو جھکا ئیں

اس  کے  ہی بندے  کہلائیں

مٹھو میاں کی اس گفتگو اور جواب کو سن کر تمام پرندے بیک زبان بول اٹھتے ہیں کہ   ؎ سچ ہے سچ ہے،سچ ہے سچ ہے نظم کے اختتام پربچوں کاذہن اس چیز کو قبول کرنے پر آ مادہ ہو جاتا ہے کہ واقعی اللہ ہی ہمارا حقیقی رب اور مالک ہے،اور پھر اپنی اس حیثیت کے تناظر میں اس چیز کابھی وہی سزاوار ہے کہ اسی کے سامنے سر جھکاکر اس کی بندگی کا اظہارو اقرار کیا جائے۔

 ذریعہ تعلیم میں کتاب اوراستادطالب علم کے لیے دو اہم واسطے ہوتے ہیں، زاہدصاحب نے نظم ’استاد‘ میں دونوں کو اپنے فرائض سے آگاہ کیاہے کہ ان کارویہ اور برتائو ایک دوسرے کے لیے کیا اور کیسا ہونا چاہیے۔ دو بندملاحظہ کیجیے         ؎

لکھاتا ہے تم کوپڑھاتا ہے تم کو

ادب  اور سلیقہ  سکھاتا ہے تم کو

بھلائی کی  باتیں  بتاتاہے تم کو

وہ حیواں سے انساں بناتاہے تم کو

سنو!غورسے اس کی ہر اک نصیحت

کرو اپنے استاد کی خوب  خدمت

 جو تم اس کی تعظیم وعزت کرو گے

جو تم شوق سے اس کی خدمت کروگے

 جوتم دل سے اس کی اطاعت کروگے

جو پوری کوئی اس کی حاجت کروگے

تو اس سے بڑھے گی تمھاری ہی عزت

 کرو  اپنے استاد کی  خوب  خدمت

 زاہدصاحب نے بچوں کے ذہن کے اندراستاد کی خدمت کے جذبے کو جاگزیں کیاہے۔اس کی دو وجہیں بتاکرطالب علم پر واضح کردیا ہے کہ اس کو کیوں ایسا کرنا چاہیے۔

سچی عید‘ ایک ایسی نظم ہے جو بچوں کواپنے غریب دوستوں اور کمزوروں کی مدد کرنے پرابھارتی ہے۔ یہ ایک مکالماتی انداز میں کہی گئی نظم ہے،ایک معصوم بچہ عید کے دن اپنے گھرآئے ہوئے اپنے دوست کوپرانے کپڑوں میں ملبوس اور ننگے پاؤں دیکھتاہے،تو اس کی وجہ معلوم کر لیتا ہے،وہ بتاتاہے کہ میرے ابو نہیں ہیں اور ماں بیمار ہے،میں کس سے ضد کروں!؟؟  

خاتون خانہ نے اپنے بچے کے دوست کی یہ گفتگوسن لی تھی،مگراس کا احساس کرائے بغیر کہ انھوں نے یہ گفتگوسنی ہے اس یتیم بچے کوایک جوڑاکپڑے اور عیدی دی۔بچہ اپنی ماں کا یہ عمل دیکھتا ہے اور اسی سے اثر پذیرہو تے ہوئے اپنی عیدی کے پیسے غریب دوست کی والدہ کودے آتاہے۔ملاحظہ کیجیے یہ مکالمہ    ؎

شام کو ماں نے پوچھا مجاہد میاں!

اپنے  پیسے  کہاں خرچ  تم نے کیے؟

 مجھ کو سینے سے چمٹا لیا  جب  سنا

میںنے صابر کی ماں کو وہ سب دے دیے  

 غریب سے ہمدردی کا یہ جذبہ بچے کے اندراپنی امی کے عمل سے پیدا ہوا۔یہ بچے کی اس نفسیات کاپتا دیتا ہے کہ بچے اپنے ماحول سے دیکھ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں۔نظم کامکالماتی اسلوب بھی اس کے اثر اور رنگ کودوبالا کرتا ہے۔

اے بچو!‘ آٹھ اشعارپر مشتمل ایسی نظم ہے،جس میں انھوں نے آنکھ‘ زبان‘ کان‘ ہاتھ‘ اور دل کے حسن استعمال کی تعلیم دی ہے اور غلط استعمال سے بازرپنے پر زور دیا ہے۔ اسلوب اور الفاظ نہایت سادہ اور سلیس ہیں۔مفہوم کی تفہیم میں بچے کو کسی دشواری کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس نظم کے یہ دو شعر دیکھیے   ؎

جو اللہ کے بندوں کوتکلیفیں دے اور دکھ پہنچائے

ایسے ہاتھوں والے سے ہے لنجا اچھااے بچو!   

 سود ‘  ڈکیتی ‘  چوری ‘رشوت کی ناجائز دولت سے

پاک اور نیک کما ئی کا ایک  پیسا اچھا اے بچو!

تربیتی نقطۂ نظر سے بچپن میں پڑھی ہوئی یہ چیزیں بڑے ہونے پر عملی زندگی میں اثر انداز ہوتی ہیں۔

زاہدصاحب کی نظموں میں سائنسی انداز بھی پایا جاتا ہے۔ایسی ہی نظموں میں سے دو نظمیں  ’پانی کی آپ بیتی‘  اور  ’میں پانی ہوں ‘ ہیں۔ان میں بچوں کومعلومات دی گئی ہے کہ پانی کہاں کہاں کن کن شکلوں میں زمین پر دستیاب ہے‘پانی کیسے سمندرسے اڑتاہے ‘کس طرح بادل بنتاہے‘اور اولاکیوں اور کب بن جاتا ہے؟؟؟

آج کل پانی کی حفاظت اور پانی کے ذخائر کو صاف ستھرا رکھنے کامسئلہ بین الاقوامی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔دنیا اس سلسلے میں فکرمند ہے۔ادب کے ذریعے بچوں کے ذہن میں یہ نکتہ بٹھا دینا کہ پانی ہی زندگی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے پانی کی اہمیت اور قدر و قیمت کے لیے انتہائی مثبت اور اہم ہے۔نظم کاایک شعر جس میں پوری نظم کاخلاصہ آگیا ہے،دیکھیے          ؎

خدا کی بڑی مہربانی ہوں میں

زمیں پر ہوں زندگی کانشاں

دونوں نظموں کاانداز بیان اور اسلوب الگ ہے۔لیکن مضامین تقریباً یکساں ہیں۔

 ایک دور تھا جب دادیاں اورنانیاں نونہالوں کواچھی اچھی کہانیاںسنایاکرتی تھیں‘اور مائیں اپنے لاڈلوں کو لوری دے کر سلاتی تھیں، اب بچوں کے لیے خواب خیال کی بات ہوچکاہے۔آج کے ترقی یافتہ جدید دور میں جس کی ابتدا ٹی وی سے ہوئی تھی اور اب بات نیٹ یعنی موبائل تک آپہنچی ہے،حال یہ ہے کہ پیدائش کے چندماہ بعد ہی بچے کو موبائل اسکرین کاعادی بنادیا جاتاہے۔ہر ایک کوایک نیاساتھی مل گیاہے۔کس کو فرصت ہے کہ کہانیوں اور لوریوں سے بچوں کادل بہلائے۔نتائج بد ہمارے سامنے ہیں۔زاہدصاحب نے ایک نظم’امی کی لوری‘  کے عنوان سے لکھی ہے،جوبڑی عمدہ اور سلیس ہے جس میں ماں کی محبت،اس کی آرزوئیں اور تمنائیں لفظ لفظ سے عیاں ہیں۔ ایک ایک لفظ ماں کی شفقت میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتاہے۔سولہ اشعار کی آٹھ بند پر مشتمل اس نظم کے یہ دو بنددیکھیے،جن میں ماں کے پیار اور تمناکاعکس ہی بچے کے لیے موجود نہیں بلکہ بچے کے محفوظ اور روشن مستقبل کی آرزو ماں کے دل میں موجزن ہے        ؎

  میرا راج دلارا تو ہے

میری آنکھ کا تارا تو ہے

  میرے راج دلارے سوجا

  میری آنکھ کے تارے سوجا

  سائے میںایماں کے پلے تو

پھولے مہکے اور پھلے تو

دکھ نہ کوئی تو پائے سوجا

  آنچ نہ تجھ پر آئے سوجا

آخر میں زاہد کی ایک دعائیہ نظم’اے سنسار بنانے والے‘کے دو بندپیش ہیں۔ ایک معصوم بچہ کس پیارے انداز میں اللہ کے حضور اپنے جذبات اور خواہشیں پیش کر رہاہے         ؎

 ہے یہ دعا ہم پڑھ لکھ جائیں

دین  ترا ہر سو  پھیلائیں

 سب کو  سیدھی راہ دکھائیں

اندھیارا دنیا سے مٹائیں

سورج چاند بنانے والے

 تاروں کوچمکانے  والے

باتوں  میں سچائی  بھردے

کاموں میں اچھائی بھردے

 دل میں ذوق صفائی بھردے

نیکی  او ر  بھلائی  بھردے

چڑیوں کو چہکانے والے

 پھولوں کو  مہکانے والے  

زاہد کی اطفالی شاعری زبان وبیان میں سلاست وروانی،نغمگی اورحسن آہنگ کے لحاظ سے اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔نظموں کے عناوین،زبان واسلوب سب کچھ بچوں کی فطرت اور مزاج سے ہم آہنگ  نظر آتے ہیں،جو ان کے اندرتعمیری اقدار کو پروان چڑھانے کاشوق وذوق پیدا کرتے ہیں۔ان کی شاعری مستقبل کے لیے تعمیری رخ پر بچے کی ذہن سازی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

آج کے ماحول میں جہاںتعلیم گاہوںمیں تربیتی نظام بہت ڈھیلا ہے بلکہ ختم ہی ہے،ایسے میں ہمیں اپنے نونہالوں کی تربیت کے لیے ایسی اردوشاعری اور ادبی لٹریچرکی طرف متوجہ ہوناچاہیے۔شاعری اختصاراور جامعیت کے ساتھ چیزوں کو پیش کرتی ہے۔ اس لیے چیزیں ذہن میں زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔اپنے بچوں کے اندر شاعری کے مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے،بچپن کی چیزیں بڑے ہوکر ذہن پر اثر انداز  ہوتی ہیں، مثبت اور با اخلاق زندگی گزار نے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس کے علاوہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیداکرنے اور اس کو نشو ونما دینے میں بڑا اہم رول اداکرتی ہے۔بچے دنیا اور آخرت دونوں میں والدین کے لیے ایک سرمایہ ہیں،اس لیے ان کوقوم و وطن اورخلق خدا کی خدمت اور بھلائی کے لیے مثبت سوچ اور فکر کاحامل بناناہر فرد کی اہم ذمے داری ہے۔

 

Dilshad Husain Islahi

E-54, Abul Fazal Enclave

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob.: 8750380917

Email.: dilshadhussain426@gmail.com

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں