19/4/22

اردو ادب میں خواتین کی نیرنگیاں - مضمون نگار :معزہ (قاضی) دلوی

 



ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور معاشرہ وجود زن کے بغیر نامکمل۔ چونکہ ادب اور سماج کا گہرا رشتہ ہے لہٰذا ادب کا تصور بھی سماج کے بغیر نامکمل ہے۔ خدا نے حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا اور دنیا آباد کی۔ ہر زمانے میں سماج الگ الگ انداز سے وجود میں آتا گیا جس میں خواتین کو کبھی عزت کا مقام حاصل ہوا تو کبھی وہ خستہ حالی کا شکار ہوئیں۔ وقت کا پہیہ کئی زاویوں پر آگے بڑھتا رہا اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے بھی عروج و زوال کے پیش نظر اس نے مصلحین کو بھی جنم دیا جن کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کے تحت ایسی تحریریں منظر عام پر آئیں جو اپنے عہدکے زبان و ادب کا حصہ بنتی گئیں۔ 

1857 کی پہلی جنگ ِ آزادی ہندوستانی تاریخ اور با لخصوص مسلمانوں کے زوال کی تاریخ کا ایسا سیاہ ورق ہے جس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال اور پہلی جنگ آزادی کی وجہ سے ہندوستان میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ اس قیامت خیز جنگ آزادی نے بزرگان ِ قوم و ملت کی ذہنیت، خیالات، افکار اور رجحانات میں ایسا تلاطم برپا کیا کہ ان کے دلوںمیں ایک نئے احساس نے انگڑائی لی اور نئی منزل کو پانے کی لگن کے ساتھ روشن صبح کا خیر مقدم کرنے کے لیے انھوں نے اپنے قدموں کے رخ موڑ دیے۔مصلح قوم نے جن راستوںکا انتخاب کیا ان میں ایک راستہ مردوں کی تعلیم، دوسرا سماجی و معاشرتی اصلاح اور تیسرا راستہ تعلیمِ نسواں کی جانب جارہا تھا۔ وجود ِ زن سے تصویرِ کائنات میں بکھرے ہوئے خوشنما رنگ بدنما ہوتے دکھائی دینے لگے تو انھیں دوبارہ خوشنما بنانے کا سفر تحریکِ تعلیمِنسواں سے شروع ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ناولوں کی مدد سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف قدم اٹھایا۔ شیخ عبداللہ (علی گڑھ)، شیخ عثمان (پونے) اور جسٹس بدرالدین طیب جی (ممبئی) اور دیگر ان نے لڑکیوں کے لیے مدرسے قائم کیے۔ سید احمد دہلوی، شیخ عبداللہ، مولوی ممتاز علی جیسی ہستیوں نے صحافت کے ذریعے خواتین کی تعلیم و تربیت کی اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے اپنے ساتھ خواتین یعنی اپنی اپنی اہلیاؤں ہی کو اس کار ِخیر میں شامل کر کے خواتین کی جہالت اوربے علمی کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کے ایسے گروہ کو ترتیب پانے میں مدد کی جو تصنیف و تالیف اور اصلاحی کاموں کے ذریعے خواتین کو اپنا وجود منوانے میں مددگار ثابت ہوا۔ خواتین تعلیم کے میدان میں قدم بڑھاتی چلی گئیں اور ادب میں اپنی شناخت بنانے میں مصروف کار رہیں۔

1857 کے بعدخواتین اپنی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے پہلے دور میں تھیں۔ اس دور میں ضعیف الاعتقادی، جہالت، مردوں اور بطور خاص خواتین میں تعلیم کی کمی اور فرسودہ رسم و رواج سے پھیلی ہوئی خرابیوں نے انھیں روشن زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد (1836-1912) نے اصلاحی پہلوکو مد نظر رکھتے ہوئے ناول تحریر کیے۔ اسی عہد میں بہار کے عظیم آباد (پٹنہ) کی رہنے والی رشید النسا نے 1881 میں اصلاح النسا کے نام سے ایک ناول لکھا جسے بقول رشیدالنسا، ان کے بیٹے محمد سلیمان نے تیرہ برس ردّی میں پڑی کتاب کو 1894  میں چھپوایا اور اس کا نام اصلاح النسا رکھا گیا۔  اس ناول میں مصنفہ نے خواتین کے غیر ضروری شوق، بدعتوں اور جہالت دور کرنے کی غرض سے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول کا حوالہ دیتے ہوئے سو میں سے پچہتر لڑکیوں کے اصغری بننے کی امید پر اطمینان کا اظہار کیا اور سر سید کے اس خیال سے کہ مرد جب تعلیم یافتہ ہوں گے تو وہ خود اپنے گھر کی لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دیں گے، سے اختلاف کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ  :

ــ’’جب لڑکیاں شائستہ اور تعلیم یافتہ ہو جائیں گی تو لڑکوں کا تعلیم پانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔  ‘‘    1

خواتین کے ادب میں ناول اصلاح النسا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ناول اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف تو یہ تحریک تعلیم نسواں کو تقویت پہنچاتا ہے اور دوسری طرف طبقۂ نسواں کی اصلاح کے راستے ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ اردو ادب میں خواتین کی ناول نگاری کا اولین نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ایک جانب اس طرح کے ناول تھے اور دوسری جانب خواتین کے لیے جاری کردہ وہ رسائل تھے جن کا مقصد خواتین میں تعلیمی ذوق و شوق پیدا کرنا تھا۔ خواتین کے اس کاروان  ادب کی چند ناول نگار خواتین کے نام اکبری بیگم(...)،  صغرا ہمایوں مرزا (سر گذشت ہاجرہ)،  محمدی بیگم ( سگھڑ بیٹی)، طیبہ بیگم خدیو جنگ (انوری بیگم)، نذر سجاد حیدر کی پھوپھی اور قرۃ العین حیدر کی نانی والدہ افضل علی (گودڑ کا لال)، خجستہ اختر سہروردی (آئینۂ عبرت)، ظفر جہاں بیگم (افسری بیگم)، نذر سجاد حیدر ( حرماں نصیب)،  اے آر خاتون(شمع، تصویر)، حمیدہ سلطان وغیرہ ہیں۔

آج کے سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی قدم بڑھا رہی ہیں۔ اس حقیقت کو ایک ہندوستانی خاتون  رقیہ سخاوت حسین نے 1908 میں قرطاس کی زینت بنایا۔ اپنے انگریزی ناول  Sultana's Dream  میں خواتین کی مملکت ( لیڈی لینڈ) بساکر خواتین کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے کچھ اس طرح جوڑ دیا کہ سائنس میں ان کی برتری حاصل ہونے کے امکانات واضح ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی مصنفہ روشن جہاں رقمطراز ہیں  :

اس حوالے سے رقیہ صرف عورتوں کی تعلیم کی سادہ سی بات نہیں کر رہی تھیں بلکہ ایسی تعلیم کی بات کر رہی تھیں جو عورتوں کو سائنس کے میدان میں برتری دلائے۔   2

گو کہ یہ ناول انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا اس لیے ممکن ہے کہ اردو ادب کی زنبیل میں اس کے لیے کوئی گوشہ نہ ہو لیکن اس ناول کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی مسلم معاشرے کی ناول نگار خواتین کی بات ہوگی،  Sultana's Dream  کی بجائے سلطانہ کا خواب کا ذکر ہونا لازمی ہے۔

 سید احمد دہلوی نے خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کی غرض سے 1881  میں دہلی سے اخبار النسا جاری کیا۔ ان کے بعدبہت دقتوں کے ساتھ شیخ عبداللہ نے رسالہ خاتون، مولوی ممتاز علی نے رسالہ تہذیب النسواں، راشد الخیری نے رسالہ عصمت جاری کیے۔ ان رسائل نے بھی خواتین کی تعلیم و تربیت اوران کی اصلاح کے لیے ایک ایسی خوش گوار فضا تیار کی جس کی بدولت خواتین کا علمی و ادبی کارواں بنتا چلا گیا اور ناول نگاروں کے علاوہ خواتین مضمون نگار، افسانہ نگار،  طنز و مزاح نگار اور شاعرات نے اپنے تخلیقی کارناموں کی بدولت اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔  ان بنیادی تعلیم یافتہ اور ادب نواز خواتین کے بعد کئی اور نظم و نثرنگار خواتین کی شمولیت سے یہ کارواں آگے بڑھتا رہا اور اردو ادب  کے سرمایے میں بھر پور اضافہ کرتا رہا۔مذکورہ بالا مصلحین قوم کے علاوہ دیگر مصلحین نے بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی غرض سے رسالے جاری کیے جن میں بہت سی خواتین نے مضامین شائع کر کے اپنی قابلیت کے نمونے پیش کیے۔  اس ضمن میں مولوی ممتاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم، عباسی بیگم، امت الکریم، امت الوحی، نذر سجاد حیدر، خجستہ سہروردی، خاتون اکرم، آمنہ نازلی، خواجہ بانو، اے آر خاتون کے علاوہ اور اہم نام بھی ہیں جنھوں نے اپنے مضامین کے ذریعے معاشرے کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور بہترین مضامین سے اردو ادب کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کیا جن میں محمدی بیگم، صغرا ہمایوں مرزا، وحیدہ یعقوب، آبرو بیگم، بیگم شیخ عبداللہ وغیرہ کو اولیت حاصل ہے۔ عباسی بیگم ( مجموعہ ٔ مضامین :گل صحرا )، نذر سجاد حیدر، خجستہ سہروردی، امت الکریم (تعلیم کے متعلق)، امت الوحی (قوموں کی ترقی میں عورتوں کا حصہ)، عطیہ فیضی (مسلمانوں کو ایک پیغام)، زہرا فیضی ( صحت بڑی نعمت ہے )کے بعد نفیس دلہن ( نفس ِ وفا)، ظفر جہاں بیگم (قوم کسے کہتے ہیں)، بیگم ڈاکٹر عبد الغفور (آمیزش ِ غذا کا اثر صحت پر)، عظمت النسا بیگم (دنیا کو لوگ بری جگہ کیوں کہتے ہیں)، حجاب امتیاز علی ( ابا جان کی گھڑی )، خاتون اکرم (تغیرات ِ زندگی)، آمنہ نازلی، راج کماری جھنگن، اور لیلیٰ خواجہ بانوقابل ذکر ہیں۔ ان کے بعد 1936  تک مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے والی خواتین میں اے  آر خاتون (خواتین کے محاورے)، صالحہ عابد حسین (تحریک ِ آزادی میں عورتوں کا حصہ) کے علاوہ کئی اہم نام ملتے ہیں۔ تمام مضامین میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کے علاوہ معاشرے کے کچھ ایسے مسائل پیش کیے گئے تھے جن کا حل نکالنا ضروری تھا ۔ بقول پروفیسر صغرا مہدی :

خواتین نے تقریباً سو سال پہلے مضمون نگاری کی ابتدا کی اور اس کا سہرا اس زمانے کے زنانہ رسائل کے سر ہے۔ مضمون نگاری کا مقصد ایک تو اس میدان میں تربیت اور دوسرے ان کی اصلاح تھی۔ شروع میں مضامین کے موضوعات ایک مذہبی نوعیت کے ہوتے تھے یا پھر ان کا موضوع خانہ داری، آرائش، حفظان صحت وغیرہ ہوتا تھا۔ 3             

خواتین کی افسانہ نگاری کا آغاز 1918  سے قبل ہوچکا تھا۔یہ افسانے رسالہ تہذیب النسواںاور عصمت میں شائع ہوتے تھے۔ ان افسانہ نگاروں میں سے کسی کسی نے ایک دو افسانوں پر ہی اکتفا کر لیا تھا۔اس کے با وجود وہ افسانے اردو مختصر افسانے کے بہترین افسانوں میں شامل ہیں۔ پروفیسر صغرا مہدی کی یاد داشت کے مطابق رسالہ عصمت کے ایک پرچے میں ایک افسانہ  ’ میں اپنے قلندر کے پاؤں پہچانتی ہوں ‘  کے نام سے شائع ہوا تھا اور رسالہ تہذیب نسواں میں شائع ہونے والے افسانے عجلت ِ بے جا ،  ایفائے وعدہ ،  مشقِ ستم ،  تیسری تاریخ کا چاند،  سالگرہ،  مرتا کیا نہ کرتا کے نام سے شائع ہوئے۔ ان افسانوں کے تخلیق کاروں کے نام پردہ ٔ خفا میں ہونے کے باوجود ان کی اہمیت کا اندازہ پروفیسر صغرا مہدی کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ  :

حالانکہ ان میں سے بعض لکھنے والیوں کے نام تک یاد نہیںمگر اتنی مدت کے بعد ان افسانوں  کا یاد رہنا افسانہ کی حیثیت سے ان کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے۔  4

جب کہ ڈاکٹر رفعیہ سلطانہ کی تحقیق کے پیش ِ نظر اولین افسانہ نگارخواتین میں محمدی بیگم اور صغرا ہمایوں مرزا کے نام سر ِ فہرست ہیں جنھوں نے طویل افسانے لکھے جو طوالت کی بنا پر ناول کے زمرے میں شمار کیے گئے۔ 

شاعری میں بھی خواتین نے اپنی شناخت قائم کی۔  1857 سے پہلے لطف النسا امتیاز اور مہ لقا بائی چندا  کے علاوہ کئی مایہ ناز شاعرات گزری ہیں لیکن 1857 کے  بعد محمدی بیگم، عباسی بیگم، صغرا ہمایوں مرزا، سکندر جہاں بیگم وغیرہ نہایت اہم نام ہیں۔ ان تمام شاعرات کے بعد رابعہ پنہاں ( اشکِ خونین )، زاہدہ خاتون شیروانیہ (آئینۂ حرم) نوشابہ خاتون ( موج ِ تخیل )،کنیز فاطمہ حیا، نجمہ تصدق اردو ادب میں بے پناہ اضافہ کیا۔اگرچہ ان خواتین نے نہایت سلیقے سے  اپنی شاعری میںعشق و محبت اور فراق و ہجرکی عکاسی کی ہے، تاہم ان میں چند شاعرات نے ان دیگر موضوعات کو بھی شاعری کا حصہ بنایا جو سرمایہ داری، معاشرے کی چھوٹی بڑی خامیاں اور جبر و ظلم کی عکاسی کرتے تھے۔ بلقیس فاطمہ بیکس ـ اپنی ایک نظم ـ ’ شکوۂ خواتین مشر ـــق  ‘ میں کہتی ہیں          ؎

وفا آشنا  دل  ہمارا  جو  پایا

ہمیں خوب دل بھر کے تم نے ستایا

خدا کو  تمھارا  وتیرہ  نہ بھایا

سروں پر تمھاری فلاکت  کو آیا

قہر بن کے تہذیب مغرب کا سایہ

عباسی بیگم کا اپنا ایک الگ انداز رہا ہے۔ کہتی ہیں         ؎

خودی سے باز آ نہ خوار ہو،خدا کے بندے خدا خدا کر

خدا کا رستہ ہے صاف سیدھا، ادب سے چل سر جھکا جھکا کر

 کہاں وہ علم  و  ہنر کے بانی، کدہر تغلق،کدہر کیانی     

ہوئے  ہیں  زیر زمیں  وہ  پنہاں،  نشان ہستی  مٹا مٹا کر

ایک اہم نام زاہدہ خاتون شیروانیہ کا ہے جو ز۔خ۔ش کے نام سے لکھتی تھیں۔بقول قرۃ العین حیدر زاہدہ خاتون شیروانیہ اپنے عہد کی عالمی سیاست کے تعلق سے کئی بلند پایہ نظموں کے لیے مشہور رہی ہیں اور اپنے انتقال (1922) سے قبل انھوں نے درج ِ ذیل غزل کہی تھی        ؎

کار خانے میں جو بارود کے، بم آ کے پھٹا

جل گیا  پیکر  بے جرم و خطائے  مزدور

 غلہ ڈھونے سے  پسینے میں نہائے  سو بار

جب ہو اک پارہ نان روزہ کشائے مزدور 6

 خواتین کے اس ترقی یافتہ دور کے بعد وقت نے پھر ہلکی سی کروٹ لی اور اس بات کا احساس دلایا کہ ہندوستان اور مسلم معاشرے کی ابھی مکمل ترقی نہیں ہو پائی ہے۔ بدلتے حالات اور انتشار نے معاشرے کو دوبارہ تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی اور ہندوستانی سماج کو ایسے زخم دیے جو ناسور کی شکل اختیار کرنے لگے۔ان حالات نے عورتوں کو دوبارہ پیچھے کی طرف ڈھکیلنا شروع کر دیا اور وہ ایک بار پھر غلط رسم و رواج کی پابند ہوتی گئیں۔ ان تمام ناسوروں کا مداوا ضروری تھا۔ترقی پسند تحریک نے ان ناسوروں کی طرف مصنّفین اور شعرا کو متوجہ کیا اور منشی پریم چند کے مطابق حسن کے معیار کو بدلنے کی کوشش شروع کی گئی اور        ؎

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

 کے احساس سے قدم اٹھائے گئے۔ ایک بار پھر معاشرے کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا جو  تصویر ِ کائنات میں رنگ بھرنے والے وجود ِ زن پر کئی طرح کے بد نما دھبوں کی مانند نظر آنے لگے۔ ایک طرف ساحر  نے مردوں کے ظالمانہ رویے پر طنز کیا          ؎

عورت نے جنم دیا مردوں کو

مردوں نے اسے بازار دیا

اور دوسری طرف مجاز نے اپنے دائروں میں سمٹی ہوئی خواتین کوان کے وجود کی اہمیت کا احساس دلایا کہ      ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے  اک پرچم  بنا لیتی تو اچھا تھا

خواتین نے بھی آنچل کو پرچم بنانے کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے اپنے ناولوں، افسانوں اور شاعری کے موضوعات میں تبدیلی کی اور نئے انداز سے اپنے وجود کو منوانے کی ٹھانی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین نے اردو ادب کے سرمایے میں اضافے او راپنی شناخت بنانے کے لیے لکھا ؟  یا ان کے قلم اور تحریروں نے ان کی شناخت قائم کی؟  بات خواتین اور ادب کے تعلق سے ہو رہی ہے کہ اردو ادب میں خواتین کا کیا حصہ ہے یا ادب کو خواتین نے کیا دیا ؟اس ضمن میں پہلے یہ دیکھا جائے کہ ادب کیا ہے؟  یا ادب سے کیا مراد ہے ؟  ہم سب جانتے ہیں کہ ادب زندگی اور معاشرے کا ترجمان ہی نہیں بلکہ اس کا نقاد بھی ہے۔ یہ زندگی کے وسیع ترین مسائل کو گاہے بہ گاہے پیش کرتے ہوئے ان کے حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ  :

انسان کی زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔ محلوں سے جھونپڑوں تک، بازاروں سے دفتروں تک، غرض زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔ ادب افراد اور قوموں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔تجربات دراصل مردہ واقعات ہوتے ہیں جو دھبوں کی طرح انسان کے ذہن میں پڑے رہتے  ہیں۔ ادب ان کو زندگی عطا کرتا ہے۔  7

زندگی کی اسی تنقید یعنی ادب میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنی تخلیقات کے ذریعے منفرد انداز سے خواتین کے مسائل، ان کی زندگی کے تاریک اور روشن پہلو، نفسیاتی مسائل، معاشرے میں ان کے حقوق، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کواپنی تحریروں میں پیش کیا۔

1936 کے بعدخواتین افسانہ نگاروں نے معاشرے کے تکلیف دہ پہلوؤ ں، سماج میں عورت کی کم حیثیتی، جہالت، بے جوڑ شادیاں،گھر پر انتظار کی تاریکی، طوائفوں کے کوٹھوں پر روشنی، بانجھ پن سے ہونے والے مسائل، بزرگوں سے بے اعتنائی اور لاپرواہی،بچوں کے مسائل، بھوک، غربت... غرض ہر مسئلے کو اپنے افسانے اور ناولوں کا موضوع بنایا۔اس ضمن میں ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی،رضیہ سجاد ظہیر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، صالحہ عابد حسین، واجدہ تبسم،  جیلانی بانو،  صدیقہ سیوہاروی وغیرہ صف ِ اول میں نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر رشید جہاں نے اپنے افسانے افطاری میں غربت کی تصویر کشی نسیمہ اور اس کے بیٹے اسلم کی گفتگو کے ذریعے اس طرح کی ہے  :

ماں دوزخ کیا ہوتی ہے ؟

وہ کہتی ہے... دوزخ ! دوزخ وہ تمھارے سامنے ہی تو ہے۔

کہاں ؟... اسلم نے چاروں طرف سرگھما کر دیکھا۔

وہ نیچے جہاں اندھا فقیر کھڑا ہے، جہاں وہ جلاہے رہتے ہیں اور جہاں وہ رنگریز رہتا ہے اور لوہار بھی۔

دادی اماں تو کہتی ہیں دوزخ میں آگ ہوتی ہے۔  8

پھر وہ بتاتی ہے کہ دوزخ کی آگ در اصل چولھے کی آگ جیسی نہیں ہوتی بلکہ بھوک کی آگ ہوتی ہے۔  یہاں سابق پرنسپل مسز رشیدہ قاضی کے انشائیے کا حوالہ دینا بے محل نہیں ہوگا  :

پیٹ دنیا کی عظیم ترین قربان گاہ ہے۔پیٹ کی خاطر جوانیاں نیلام چڑھتی ہیں، عصمتیں قربان ہوتی ہیں اور مامتا بدنام ہوتی ہے۔ خود داری ذبح ہوتی ہے اور غیرت و حمیت کا لاشہ اٹھتا ہے۔ پیٹ نہ ہوتا تو چڑیا چڑی مار کے جال میں نہ پھنستی اور پیٹ نہ ہوتا تو چڑی مار بھی اپنا جال نہ پھیلاتا۔بڑے بڑے انقلابات کی تہہ میں پیٹ ہی کار فرما رہا ہے۔ اطالیہ کے شہر وں میں پیٹ نے آگ لگائی۔ فرانسیسی انقلاب پیٹ نے برپا کیا۔ روس میں تخت شاہی کو الٹنے کا ذمہ دار بھی پیٹ ہی ہے۔  9

موجودہ ہندوستانی معاشرے کا ایک  بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کو وقت دینا پسند نہیں کرتی اور بڑھاپے میں ان کو اپنی ذمہ داری اور فرض نہیں سمجھتی  بلکہ بوجھ سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ المیہ پہلے مغربی معاشرے کا غماز تھا جس کی آہٹ کے اندیشے کو خواتین افسانہ نگاروں نے محسوس کرتے ہوئے اپنے افسانوں کے ذریعے ہندستانی سماج کو خبردار کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں بھی کئی نام مل سکتے ہیں لیکن یہاں صالحہ عابد حسین (بیکار سامان ) اور بانو سرتاج (تین بوڑھے )کے نام کافی ہیں۔ عصمت چغتائی کے بعد غالباًسب سے معتوب افسانہ نگار واجدہ تبسم رہی ہیں جنھوں نے معاشرے کی گھٹن اور تفنن کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا محور بنایا۔ بقول حقانی القاسمی  :

ـ’’واجدہ تبسم نے مجبور اور مظلوم عورتوں کے لیے مقدمہ لڑا اور اس لیے مرد سماج کی خود ساختہ عدالتوں میں وہ مجرم اور معتوب قرار پائیں کہ عورت صرف اطاعت کے لیے پیدا ہوئی ہے، بغاوت کے لیے نہیں... واجدہ نے ان ہی سماجی حقیقتوں کو اپنے فکشن کا محور و مرکز بنایا جو معاشرے کے لیے ناسور بنتی جا رہی تھیں۔ ‘‘   10

مذکورہ بالا موضوعات کے علاوہ فسادات سے متاثر سماج کی تصویر کشی بھی ناولوں اور افسانوں میں اس خوبصورتی سے کی گئی کہ قاری کے دل میں ایک ہوک سی اٹھ جائے اور اس کا ذہن سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ فسادات کے حوالے سے عصمت چغتائی کا افسانہ ’ جڑیں‘،  رضیہ سجاد ظہیر کا افسانہ  ’ نمک ‘  اور صالحہ عابد حسین کا افسانہ ’ نراس میں آس ‘ اہم افسانے ہیں۔ان کے بعد کی افسانہ اور ناول نگار خواتین کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام قرۃ العین حیدر،  جمیلہ ہاشمی،بانو قدسیہ،  جیلانی بانو، صغرا مہدی، خدیجہ مستور،  ہاجرہ مسرور،زاہدہ حنا، آمنہ ابو الحسن، رفیعہ منظور الامین وغیرہ کے بعد ناموں کی طویل فہرست میں بانو سرتاج،شمیم نکہت،  ذکیہ مشہدی، لالی چودھری، صادقہ نواب سحر، غزال ضیغم، قمر جمالی، تسنیم کوثر، نگار عظیم، ثروت خان، اندرا شبنم، طاہرہ اور نسرین رمضان وغیرہ کے نام فوری طور پر لیے جاتے ہیں۔

اردو شاعری میں جن شاعرات نے اپنی شناخت قائم کی ان میں ادا جعفری، پروین شاکر،فہمیدہ ریاض، عذرا عباس،کشور ناہید، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی، نسرین حیات، عنبرین حسیب عنبرین ،شہناز نبی اور دیگر شاعرات شامل ہیں۔انھوں نے جہاں اپنی شاعری میں معاشرے میں رائج غلط رسم و رواج میں دبی پسی خاتون کی تڑپ اور بے کسی و کسمپرسی کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا وہیں عالمی مسئلے کے نقوش بھی اپنی تخلیقات پر اس طرح ثبت کیے کہ ان کی شاعری اس مسئلے کے خلاف اٹھتی ہوئی آواز ہی نہیں بلکہ ایک شاہکار بن گئی۔ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی کی شاعری محض تانیثیت کے د ائرے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنے عہد کے انسانیت سوز عالمی واقعات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

خواتین نے اپنی تخلیقات کو منفرد انداز میںپیش کیا ہے۔ کبھی سنجیدہ تو کبھی مزاحیہ۔ طنز و مزاح کے ذریعے اردو ادب کو رونق بخشنے  والی خواتین میں پہلا نام مرزا فرحت اللہ بیگ کی بھانجی آصف جہاں کا ہے جن کا مجموعہ گل خنداں کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ان کے بعد کئی نام ملتے ہیں جن میں عصمت چغتائی کے علاوہ تین قابل ذکر نام سلمی صدیقی (سکندر نامے، نور جہاں کا لوٹا )،  سرور جمال (مشق ستم،مفت کے مشورے ) اور شفیقہ فرحت (رانگ نمبر، گول مال ) ہیں۔ 

اردو کے مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم رسالہ ’شگوفہ ‘  حیدر آباد کے ہندوستانی مزاح نمبر ص 47پر رقمطراز ہیں کہ  :

’’(ظرافت) معاشرے کے عمومی مسائل سے الجھتی اور انھیں پاک و صاف کرتی ہے۔ معاشرت کے طریقوں، رسوم و رواج اور روایتی بندشوں کے مراحل سے آگے نکل کر سیاسی و ملکی معاملات کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

درج بالا قول کی روشنی میں اگر معاشرے کی جانب نظر اٹھائیں تولڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے رواج کے خاتمے کے بعد ان کے بازاروں میں بکنے کے علاوہ شادی بیاہ کے مقدس رشتے کے نام پر لڑکیوں کے بکنے کا رواج شروع ہوا۔ اس موضوع پر (سابق پرنسپل) مسز رشیدہ قاضی کا انشائیہ ’ قصہ قاضی کا ‘ نہایت معنی خیز ہے۔ ہندوستان میں قومی یک جہتی کے فروغ کی طرف اشارہ اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ قاری کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھتی ہے۔ اپنے انشائیے    ’کو ّے ‘میں لکھتی ہیں  :

 ہمارا دیش ہر طرح مالامال ہے، بس کمی ہے تو قومی یکجہتی کی۔ حکومت وقت قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سارا فتور قومی پرندے کے انتخاب کا ہے۔ مور میں آخر دھرا کیا ہے ؟صرف خوشنما پر۔ پروں کا مصرف کیا ؟  مور چھل مزاروں اور مندروں کے سوا کہیں کام نہیں آتے۔ مانگ محدود، فیض محدود، پھر کیوں نہ انھیں متروک قرار دیا جائے ؟مور کی جگہ کو ّے کو قومی پرندہ بنانا چاہیے کہ ایکتا، اتحاد اور اتفاق کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ کسی ایک کو ے کی جان پر بن جائے، تو ساری برادری بطور احتجاج کائیں کائیں کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے۔

اسی طرح ڈراما نگاری،صحافت( طیبہ بیگم، ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ثروت جہاں)، ترجمہ نگاری (صابرہ زیدی)، سفر نامے ( عطیہ بیگم فیضی، لالی چودھری )، خود نوشت نگاری (صالحہ عابد حسین، عصمت چغتائی، ادا جعفری) وغیرہ میں بھی خواتین نے اپنی تحریروں سے اردو ادب کے سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے  اور آج بھی کر رہی ہیں۔ ان خواتین کے ناموں کی طویل فہرست کے چند اہم نام پروفیسر فاطمہ بیگم، ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈاکٹر اقبال النسا، ڈاکٹر گل رخ ذہین، ام ہانی اشرف، نگار سلطانہ، ڈاکٹر مسرت جہاں،ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ہیں۔ ڈراما نگار خواتین ( عابدہ احمد،ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی) میں ایک اہم نام استاذالاساتذہ پروفیسر نور العین علی کا ہے جنھوں نے اپنے ڈراموں میں معاشرے کے مسائل کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ پروفیسر نور العین علی کو ڈرامے ’ کینسر ‘ پرانعام سے نوازا کیا گیا تھا۔اس ضمن میں ایک اور بات کا ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ عابدہ احمد نے ایک ڈراما گروپ ’ہم سب ‘ کے نام سے تشکیل دیا تھا۔     

وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی اردو ادب کی تاریخ میں خواتین کی شمولیت کا ذکر یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔بچے معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ادب اطفال کے تحت ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ لوک گیت کسی بھی ملک کی تہذیب و تمدن اور سیاست کے عکاس ہوتے ہیں۔ لوک گیتوں کے ذریعے اردو میں خواتین ( ڈاکٹر بسم اللہ بیگم، ڈاکٹر میمونہ دلوی ) نے ہندوستان کے تہذیب و تمدن اور سیاست کو محفوظ کرکے اردو ادب میں قابل قدر اضافے کیے۔ادب اطفال ( محمدی بیگم، خواجہ لیلیٰ بانو، سلطانہ آصف فیضی، عصمت چغتائی، نور جہاں نور  )،تحقیق و تنقید ( پروفیسر رفیعہ سلطانہ، پروفیسر زینت ساجدہ، پروفیسر صغرا مہدی، ڈاکٹر سیدہ جعفر، ڈاکٹر میمونہ دلوی، ڈاکٹر زہرہ موڈک، ڈاکٹر شرف النہار، رفیعہ سلیم، ڈاکٹر ظل ہما )،  بچوں کی تدریس ( مسز ذکیہ خطیب، مسز فاطمہ انیس )  جیسی اردو ادب کی مختلف جہتوں میںبھی صنف نازک نے اپنے جوہر دکھائے اور اس طرح ادبی کائنات کے گوشے گوشے کو اپنی تحریروں کے ذریعے روشن کرنے کی کوشش کی۔ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ممتاز علی،شیخ عبداللہ، حالی،  عبدالحلیم شرر وغیرہ مصلحین نے قوم کو اندھیرے غار سے نکالنے کے لیے کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کیا،اپنی تحریروں کی مدد سے خواتین میں سر اٹھا کر جینے کی خواہش پیدا کی،انھیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے راستے دکھائے۔خواتین انھیں راستوں پر نہ صرف قدم بڑھاتی جا رہی ہیں بلکہ اپنی شناخت قائم کرکے اردو ادب میں قابل قدر اضافے کرتی جا رہی ہیں۔

کسی بھی زبان کا رشتہ تاریخ سے بھی بنتا ہے اور سیاسیات سے بھی۔ معاشیات سے بھی جڑتا ہے اور سائنس سے بھی، نفسیات سے بھی پنپتا ہے اور سماجیات ؍معاشرت سے بھی۔ خواتین نے اپنے زور قلم سے اردو ادب کا حق پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کی اور آج بھی اس راہ پر پیہم رواں ہیں۔مختصراً یہ کہ خواتین نے محض عشقیہ اور رومانی ناول، افسانے اور شاعری کو اپنا موضوع سخن نہیں بنایا بلکہ انھوں نے زندگی اور معاشرے کودیکھا، سمجھا، غور کیا اور پھر قرطاس پر اتارا۔ان کی تحریروں میں معاشرے کی خواتین ہی کے مسائل نہیں ملتے بلکہ معاشرے کے اہم ستون یعنی مرد وں کی اصلاح کا پہلو بھی چھپا ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے کیونکہ اچھا اور صحت مند معاشرہ مرد و زن... دونوں سے بنتا ہے۔

( مقالے کی طوالت کی کے خوف سے کئی اہم ناموں کا ذکر نہیں ہو سکا )

حواشی  :

1        رشیدالنسا : اصلاح النسا :اشاعت اول 1894، ناشر : خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 2007،ص 162

 2       رشیدالنسا : اصلاح النسا :رشندری، رشیدہ اور رقیہ کا خواب : زاہدہ حنا :اشاعت اول1894، ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،  پٹنہ 2007،ص 231

 3       اردو ادب میں دہلی کی خواتین کا حصہ مرتبہ پروفیسر صغرا مہدی : دہلی کی مضمون نگار خواتین: پبلشر اردو اکادمی، دلی : سن اشاعت 2006، ص 95

4        اردو ا دب میں دہلی کی خواتین کا حصہ مرتبہ پروفیسر صغرا مہدی : دہلی کی افسانہ نگار خواتین: پبلشر اردو اکادمی، دلی : سن اشاعت 2006، ص 161

5        ششماہی فن اور شخصیت، بمبئی : غزل نمبر :  مدیر :صابر دت : بیا تاگل بر افشانیم مرتبہ قرۃ العین حیدر : مارچ 1978،ص470

6        اطہر پرویز : ادب کا مطالعہ : اسرار کریمی پریس، الہ آباد : ستمبر 71، ص 37

7        اطہر پرویز : ادب کا مطالعہ : اسرار کریمی پریس، الہ آباد : ستمبر 71، ص 41

8        پرنسپل رشیدہ قاضی :پلیٹ سے پیٹ تک : پرواز : ماڈرن پبلشنگ ہاؤز، نئی دلی 1988، ص 68

9        قلم کے گناہ : حقانی القاسمی :واجدہ تبسم : افکار و اذکار مرتبہ مسرور صغرا :  کلاسک آرٹ پریس 2014، ص 48

 10     پرنسپل رشیدہ قاضی : کوے :پرواز : ماڈرن پبلشنگ ہاؤز، نئی دلی1988،ص 91-92


 

Dr. Muizza (Kazi) Dalvi

Former Head & Associate Prof., Dept of Urdu

University of Mumbai, Kalina

Mumbai - 400098 (MS)

Mob.: 9892808007





1 تبصرہ: