20/4/22

مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی اہمیت اور قومی تعلیمی پالیسی - مضمون نگار : شفاعت احمد

 



کسی بھی انسان کی تعلیمی زندگی میں مادری زبان کی حیثیت بنیاد کے پتھر کی ہے۔تمام تر تعلیمی اور علمی ترقی اس کی مادری زبان پر منحصر ہوتی ہے۔درس و تدریس کی زبان اگر فطری اور قابل فہم ہوتو طلبہ نہ صرف نفس مضمون کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں بلکہ اپنے خیالات کو بھی موثر انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ قانون فطرت کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی مادری زبان ان کی فطری زبان ہوتی ہے جسے وہ اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ خوشی و غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔ مادری زبان انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ ہوتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے اس نظریے کو یکسر فراموش کر دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں۔ ہمارا بچہ اپنے گھر میں جو زبان بولتا اور سمجھتا ہے ،اس کے برخلاف اسکول میں اسے بالکل اجنبی زبان سے سابقہ پڑتا ہے۔ مثلاً گھر میں وہ اپنے والدین ،بھائی بہن اور پاس پڑوس کے لوگوں کو اردو یا ہندی، ملیالم، تمل، مراٹھی، تیلگو، پنجابی وغیرہ جیسی زبانیں بولتے ہوئے سنتا ہے اورجب وہ بولنے کے قابل ہوتا ہے تو اپنے ماحول کے زیر اثر وہ بھی انھی میں سے کوئی زبان بولتا ہے،مگر جب اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کی تعلیم انگریزی زبان میں شروع کی جاتی ہے جس کا برا اثر اس کی پوری علمی و تعلیمی زندگی پر پڑتا ہے اور بعد میں چاہے وہ کسی بھی شعبے میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلے مگر ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے جو نقص رہ جاتا ہے وہ کبھی دور نہیں ہوتا۔ مادری زبان سے ناواقفیت اور بے پروائی ہمارے معاشرے کی پسماندگی کا ایک اہم سبب ہے۔

تحقیقات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جو بچے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتے ہیں وہ اجنبی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یونیسکو اور دیگر ادارے اس حقیقت پر زور دیتے رہے ہیں کہ مادری زبان میں حصولِ علم خوداعتمادی اور خودشناسی کے ساتھ ساتھ بچے کی مجموعی نشوونما کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

یہاں عظیم ہندوستانی ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ سرسی وی رمن کا ذکر ضروری ہے، جنھوں نے مثالی بصیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں سائنس اپنی مادری زبان میں پڑھانی چاہیے، بصورت دیگر سائنس طبقۂ خواص تک محدود ہوکر رہ جائے گی اور عوام الناس سے اس کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ اگرچہ ہمارے نظام تعلیم نے اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ وہ انجینئرنگ، طب، قانون اور لسانیات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کورسز پیش کرتا ہے، لیکن ہم نے خلافِ عقل اپنے ہی لوگوں کو وہاں تک رسائی سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے اتنے برسوں میں صرف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں اور کالجوں کا ایک چھوٹا نیٹ ورک بنا دیا اور ہماری اپنی زبانیں پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم رہیں۔ اس طرح ہم نے اپنے طالب علموں کی اکثریت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی۔

اگر ہم عالمگیر سطح پر رائج اعلیٰ ذریعۂ تعلیم پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور یہ بھی کہ ہمارا طرزِ عمل درست نہیں ہے۔ مثال کے طورپر  G-20 ممالک میں بیشترایسے ہیں جہاں اسکولوں کے ساتھ یونیورسٹیوں میں بھی بہترین تعلیم کا ذریعہ وہاں کے عوام الناس کی زبانیں یعنی ان کی مادری زبانیں ہیں۔ اگر ہم ایشیائی ممالک پر ہی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا کی 70 فیصد یونیورسٹیوں میں کوریائی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں کے فضلا بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار نبھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب وہاں کی حکومت نے دیکھا کہ انگریزی کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھنے لگا ہے تو اس نے یہ انوکھا قدم اٹھایا کہ 2018میں اسکولوں میں تیسری جماعت تک انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی، کیونکہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ طلبا میں جنوبی کوریائی زبان کے تئیں دلچسپی کم ہوجائے گی اور اس کے نتیجے میں وہ مادری زبان سے بیگانہ ہوجائیں گے۔

اسی طرح جاپان کی یونیورسٹیزکے بیشتر تعلیمی پروگراموں کی تدریس جاپانی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے جہاں نیچے سے یونیورسٹی سطح تک ذریعۂ تعلیم وہاں کی عوامی زبان ہے۔ یورپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں اپنی زبانوں کے تحفظ کا رجحان شدت سے موجود ہے۔ فرانس تو اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ’’ذریعہ تدریس صرف فرانسیسی‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جبکہ جرمنی میں اسکولوں میں تعلیم کی زبان بنیادی طور پر صرف جرمن ہے اور ماسٹر پروگرام بھی 50فیصد جرمن زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ کناڈا میں لسانی تنوع کی بہت عمدہ تصویر سامنے آتی ہے، اگرچہ زیادہ تر صوبوں میں ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے،مگر کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کا غلبہ ہے اور یہاں کے بیشتر اسکولوں میں تحتانوی اور ثانوی سطح تک بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں بھی ذریعۂ تعلیم فرانسیسی ہے۔

اس عالمی تناظر کی روشنی میں اگر ہم اپنے ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو بہت ہی افسوسناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں نہ صرف زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں اور انجینئرنگ، طب اور قانون میں تو صورت حال مزید ناگفتہ بہ ہے، بلکہ ابتدا سے ہی بچوں کو مادری زبان کی بجاے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں اور انھیں اپنی زبان سے ناواقف رکھنے کی گویا شعوری کوشش کرتے ہیں۔

یہاں اس نکتے پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ مادری زبان میں تعلیم پر زور دینے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ دوسری زبانوں کو کمتر سمجھا جائے یا نظر انداز کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے موجودہ نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیا نائیڈو کی یہ بات اہم ہے کہ ہر شخص کو کئی زبانوں کا ماہر ہونا چاہیے، لیکن مادری زبان میں حصول تعلیم کی حیثیت کلیدی اور بنیادی ہونی چاہیے۔ یعنی انسان کی بنیادی تعلیم تو مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے،البتہ اپنی دلچسپی اور شوق اور دیگر علمی و معاشی ضرورت کے تحت وہ جتنی زبانوں میں چاہے مہارت حاصل کرے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقیات کی وجہ سے آج دنیا باہم مربوط ہوگئی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنے سے کامیابی کے نئے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ کسی بھی زبان،خصوصا مادری زبان کو نظرانداز کرکے ہم نہ صرف یہ کہ بہت بڑے علمی خسارے کا سودا کرتے ہیں، بلکہ نئی نسل کو اس کے ثروت مند سماجی، ثقافتی ولسانی ورثے سے بھی محروم کرتے ہیں۔

دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کوئی علم حاصل کیے بول یا سمجھ سکتا ہے۔ ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ اشاروں کی زبان کو یونیورسل لینگویج کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی وہ واحد زبان ہے، جس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی  اور مادری زبان وہ ہے جو انسان شعور سنبھالنے کے بعد اپنے والدین،گھر اور ماحول سے سیکھتا ہے۔مادری زبان صرف زبان نہیں ہوتی ، بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے۔ ایک پوری تہذیب، تمدن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ مادری زبان میں خیالات ومعلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی وجود میں آتا ہے۔ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔انسانی ذہن اور تخلیقی عمل میں رابطے کا کام بھی غیر ارادی طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ فی البدیہہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بھی مادری زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ فہم انسانی کا براہِ راست تعلق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فہمِ انسانی میں جامعیت، وسعت اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔

الغرض سیکھنے اور سکھانے کے لیے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے، اِس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ تخلیق اور ایجاد کا براہِ راست تعلق بھی مادری زبان سے ہے۔ سائنسی اور فنّی علوم میں نفسِ مضمون، سائنسی نظریات کی فہم اور ترسیل و ابلاغ کے لیے بہترین ذریعہ مادری زبان ہی مانا جاتا ہے۔ مادری زبان میں قدرتی طور پر یہ وسعت اور گنجائش ہوتی ہے کہ وہ تمام تر جدید عصری علوم بشمول سائنسی علوم کو ان کی اصل اصطلاحات کے ساتھ بغیر کسی ترجمے کے اپنا سکتی ہے اور ان کی ترسیل و ابلاغ کر سکتی ہے۔

مادری زبان انسانی شناخت، تشخص اور کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر وہ زبان جس میں لٹریچر تخلیق پا سکتا ہو، ترسیل علم کے لیے بہترین مانی جاتی ہے۔ جب کہ لٹریچر کا تعلّق بھی مادری زبان سے ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ماہرینِ تعلیم کی رائے میں ذریعہ تعلیم کے لیے مادری زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ دنیا میں زیادہ تر ممالک میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے سب سے موثر زبان، مادری زبان ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کی تحقیقی اور تخلیقی صلا حیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔مادری زبان میں تعلیم دیے جانے میں ایک آسانی یہ ہوتی ہے کہ بچے کے پاس اپنی زبان کے علم کا ایک ذخیرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اس لیے دورانِ تعلیم بوریت کی بجائے بچہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کے ذہن پر کم بوجھ پڑتا ہے اور بچوں کے سکول چھوڑ نے کی شرح میں بھی حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

مادری زبان میں تعلیم کے بارے میں یونیسکو کا کہنا ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ان کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ان کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔ یونیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق یونیسکو کی جاری کردہ پالیسی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے، تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا ہے وہ بھول نہ جائے۔

اس ضمن میں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی والی موجودہ مرکزی حکومت کے زیر نگرانی تیار کی جانے والی نئی تعلیمی پالیسی اہم ثابت ہوسکتی ہے جس میں پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پالیسی میں پرائمری تعلیم بذریعہ مادری زبان کو یقینی بنانے کی وکالت کی گئی ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ مادری زبان کے ذریعے تعلیم سائنٹفک نظریے کو مد نظر رکھ کر اپنائی گئی ہے۔ حکومتی پالیسی میں ابتدا سے چھٹی کلاس تک لازمی طورپر مادری زبان میں تعلیم دینے کی بات کہی گئی ہے،جس سے یقینا تمام مقامی زبانوں کو فائدہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کو لازمی بنایا جائے گا تو مختلف علاقوں میں علاقائی زبانوں کے فروغ کا بھی راستہ ہموار ہوگااور اس ضمن میں اردو کے لیے بھی ترقی کی نئی فضا قائم ہوگی البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تمام اسکولوں میں طلبہ کی ضرورت کے مطابق اردو اساتذہ بحال کیے جائیں نیز وہ اساتذہ ضروری اہلیت و قابلیت سے لیس ہوں۔ سرکار کا کام پالیسی بنانا ہے مگر اسے زمینی سطح پر اتارنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس شعبے سے وابستہ ہیں، مثلاً پیشۂ تدریس سے وابستہ اساتذہ کی ذمے داری ہے کہ وہ دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کریں اور اسکول کے ذمے داران مقامی تعلیمی افسران اور انتظامیہ کی ذمے داری ہے وہ ہر علاقے میں وہاں کے طلبہ کی مادری زبان کے اساتذہ کی تقرری کا نظم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ چھٹی کلاس تک طلبہ کی پوری تعلیم مادری زبان میں ہو۔

فی الوقت ہمارے ملک میں قومی سطح پر پرائمری اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لیے بی ایڈ، بی پی ایڈاور دیگر تربیتی کورسوں کی ڈگری کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے اساتذہ اہلیتی امتحان کو بھی پاس کرنا لازمی ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر سی ٹیٹ (CTET) امتحان سال میں دو مرتبہ منعقدہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں کے ذریعے بھی اساتذہ کے لیے اہلیتی امتحان (STET) لیے جاتے ہیں۔ چو ںکہ اب اساتذہ بحالی کے لیے سی ٹیٹ یا ایس ٹیٹ کا پاس ہونا لازمی ہوگیا ہے، اس لیے اردو آبادی کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کے ذریعہ تعلیم کو یقینی بنایا گیا تو مختلف موضوعات کے ایسے اساتذہ جواردو کے ذریعہ تدریسی عمل کو انجام دے سکیں وہ مذکورہ سی ٹیٹ اور ایس ٹیٹ امتحان پاس ہیں یا نہیں۔ اگر اردو کے ذریعے تعلیم دینے والے اساتذہ ہی اس امتحان میں پاس نہیں ہوں گے تو پھر اردو طبقے کے بچوں کے لیے اردو کے ذریعے تعلیم دینے کا راستہ ہموار کیسے ہوگا؟

اس طرح اگر ہم حقیقی معنوں میں مادری زبان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے فروغ کے تئیں سنجیدہ ہیں تو ہمیں پوری دیانت داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جہاں بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام مادری زبان میں کرنا ہوگا وہیں اس چیز کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے اساتذہ اہل اور باصلاحیت ہوں جو واقعی مادری زبان میں مختلف موضوعات کی تدریس کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں۔ سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی اپنے دیگر پہلوؤں کے ساتھ اس اعتبار سے بھی قابل تحسین ہے کہ اس میں مادری زبان میں تعلیم پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے،بس اس کے عملی نفاذ کے تئیں سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طورپر ہمارے ملک میں مادری زبان میں تعلیم کے حوالے سے ایک خوشگوار انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔



Dr. Shafayat Ahmad

Associate Professor, MANUU,

College of Teacher Education

Chandanpatti, Laheriasarai

Darbhanga (Bihar)

Mob.: 7091490018

 

 

 


 


1 تبصرہ: