9/1/25

وہاب اشرفی کے افسانے، مضمون نگار: فہیم اشرف

 اردو دنیا، دسمبر 2024

پروفیسر وہاب اشرفی نے اردو زبان وادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنا ادبی سفر انھوںنے افسانہ نگاری سے شروع کیا مگر صنفِ افسانہ ان کے ادبی سفر کے لیے منزلِ عیش ونشاط نہیں بن سکی۔ اس لیے بہت جلد انھوں نے تحقیق وتنقید میں اپنی راہ نکال لی۔ حق کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو افسانہ نویسی کا معیار بھی ان کا بلند تھا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ خود کو بطورِ افسانہ نویس متعارف کرکے ٹھہر نہیں گئے بلکہ  انھوں نے اس سے آگے کی راہ نکالی اور آگے بڑ ھتے چلے گئے۔البتہ ہم ان کے مجموعی مطالعہ کے مرحلے میں اس نتیجے کا ا ن دیکھا نہیں کر سکتے کہ بہ حیثیت افسانہ نویس وہ بہت معیاری ہیں۔گرچہ اس سے بھی پہلے انھوں نے شاعری کی طرف توجہ کی تھی مگر بہت جلد وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔ اس کا اعتراف انھوں نے اس طرح کیا ہے:

’’میں ابتدا میں افسانے لکھتا تھا۔ اتنے افسانے ہو چکے تھے کہ ایک مجموعہ مرتب کیا جاتا لیکن ایک صاحب کو افسانوں کے تراشے دیے اور وہ مشرقی پاکستان تراشوںکے ساتھ ہجرت کر گئے... ایک عرصہ تک افسانے نہیں لکھے۔ آخری افسانہ اس وقت لکھا جب جدیدیت کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی اور اشاعت کے لیے ’شب خون‘ میں بھیج دیا۔‘‘

 یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ وہاب اشرفی کی ادبی زندگی کا باضابطہ آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ وہ 1958 سے 1965 تک ایک سرگرم افسانہ نگار رہے۔ کم وبیش انھوں نے بیالیس افسانے لکھے۔ان کا پہلا افسانہ ’اپنی اپنی راہ‘ 1958 میں ’بیسویں صدی‘ دہلی میں شائع ہوا۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے سے ہی افسانے لکھ رہے تھے۔ اس بات کا خود وہاب صاحب نے ڈاکٹر ہمایوں اشرف کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے:

’’خاموشی سے کہانیاں تو لکھتا تھا لیکن چھپوانے کی نوبت 1958 میں آئی۔ میرا پہلا افسانہ ’اپنی اپنی راہ‘ بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ اس کی اشاعت کے بعد میں مسلسل افسانے لکھتا رہا۔

پروفیسر وہاب اشرفی کے ابتدائی افسانوں میں رومانی لب ولہجہ غالب ہے۔اسی لیے ان کے افسانوں کی اشاعت کا آغازاس رسالے سے ہوا جو اپنے زمانے میں رومانی افسانوں کی اشاعت کے لیے مشہور ہے۔ مگر ان کے بعد افسانوں کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بعد کے افسانوں میں سماجی ومعاشی حالات کو اپنے افسانوں میں بطورِ خاص جگہ دی ہے۔ بقول احمد حسین آزاد:

’’وہاب اشرفی نئے نقادوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں لیکن یہ کسی وقت افسانہ نگار بھی رہے ہیں۔ اس میدان میں بھی ان کی لو بہت تیز رہی ہے اور اس وقت بھی وہ اپنے ہم عصروں میں نمایاں رہے ہیں۔ رومانی آہنگ کے باوجود سماجی احوال وکوائف پر ان کی نظر تھی۔ ان کے بعض افسانوں میں طنز کا شدید احساس ہوتا ہے۔‘‘ (نقدِ آزاد، ص:85)

ابتدامیں اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ وہاب اشرفی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک تخلیق کار کی حیثیت سے کیا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے غزلیں کہیں، پھر نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد افسانہ نگاری کی طرف آئے۔ اس صنف میں انھوں نے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا جس کی وجہ سے ان کے زمانے میں انھیں پذیرائی نصیب ہوئی اور وہ کامیاب افسانہ نگار کی صف میں شامل ہوگئے۔ اس کے باوجود وہ اس میدان سے نکل گئے۔ یہ ان کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا اور اس فیصلے کی بنیاد یہ تھی کہ ان کا افسانہ اپناکوئی شناختی مزاج پیدا نہیں کر سکا اور نہ ہی اسلوب میں کوئی جدت وندرت نے جگہ پائی۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان میں کہیں ش مظفرپوری کا رنگ نظر آتا ہے تو کہیں بیدی، کرشن چندرکا اور کہیں منٹوکا اندازوہ اختیار کرلیتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد حسین آزاد نے وہاب اشرفی کے کل اٹھارہ افسانوں کو ترتیب دے کر 1986 میں ’ڈاکٹر وہاب اشرفی کے افسانے‘ کے عنوان سے شائع کردیا۔ احمد حسین آزاد کی اس سعی کی پذیرائی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ ہوئی۔ احمد حسین آزاد نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ’ہاتھی کے دانت‘ کو وہاب صاحب کا پہلا افسانہ قرار دیا ہے۔ موصوف نے ’وہاب اشرفی کے افسانے‘ کو صرف ترتیب ہی نہیں دیا تھا بلکہ اس کا مفصل پیشِ لفظ بھی لکھا۔ انھو ں نے اپنے پیشِ لفظ میں وہاب صاحب کا پہلا افسانہ’ ہاتھی کے دانت‘ پر اپنی رائے اس طرح دی ہے:

’’جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ ان کا پہلا افسانہ ’ہاتھی کے دانت‘ ہے۔ اس افسانے میں ایک رومانی قصہ افسانہ بنا ہے۔لیکن بے رحمی سے زندگی کی تلخی کو اس میں سمیٹ لینے کی جو کوشش کی گئی ہے وہ قابلِ دید ہے۔ دراصل وہاب اشرفی کا یہ پہلا افسانہ ہی اس بات کا احساس دلادیتا ہے کہ وہ زندگی کے حقائق کو رومان کے شیریں کیپسول میں چھپا نا چاہتے ہیں اور یہ صورت ان کے یہاں شدید سے شدید تر ہو جاتی ہے۔‘‘

 (وہاب اشرفی کے افسانے: احمد حسین آزاد)

جب ہم ان کے افسانوں کی ورق گردانی کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ ان کا آخری افسانہ ’کھویا ہوا چہرہ‘ ہے جو 1988 میں ماہنامہ ’شب خون‘ الٰہ آباد میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کا کوئی افسانہ شائع نہیں ہوا۔ اس کے بعد انھوںنے تحقیق وتنقید کی راہ اپنا لی۔

موصوف کی افسانہ نویسی کا دور 1958 سے شروع ہو کر 1965میں ختم ہوتا ہے۔ آٹھ برس تک وہاب صاحب کے افسانے شائع ہوتے رہے۔ ظاہر ہے یہی آٹھ برس ان کی افسانوی زندگی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں انھوں نے تقریباً 42 افسانے قلم بند کیے۔ یہ وہ افسانے ہیں جن کی وجہ سے ان کی پہچان افسانہ نگار کے طورپر مستحکم ہونے لگی تھی۔ مگر انہو ںنے  افسانہ نگاری ترک کردی۔ بقول مناظر حسن:

’’اس وقت تک (یعنی 65 تک) جدیدیت ایک فیشن کے طورپر اختیار کی جانے لگی تھی اور افسانہ لکھنے والوں سے گویا یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک خاص فارمولے کے تحت افسانہ لکھیں، وہاب اشرفی کے اس آخری افسانہ ’کھویا ہوا چہرہ‘ پر جدیدیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کے بعد انھوںنے افسانہ نگاری ترک کردی۔ کیونکہ وہ فیشن کے تحت کوئی افسانہ لکھنے کے حق میں نہیں تھے اور جدیدیت کو سمجھے بغیر اس سے رشتہ جوڑنا مناسب نہیں تصور کرتے تھے۔‘‘

(وہاب اشرفی کی افسانہ نگاری: مناظر حسن)

سچ تو یہ ہے کہ وہاب اشرفی نے بہت کم افسانے ادب کو دیے مگر جس قدر اور جس نہج کے افسانے اردو ادب کو انھوں نے عنایت کیے اس نے ہی انھیں افسانوی ادب میں زندہ، تابندہ اور سرخرو کردیا ہے۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ’کافر بھی ہوئے سجدہ بھی کیا، آئینہ سے شکوہ مت کیجیے، چھوٹی بہو، چھی چھی توبہ توبہ، مٹی کا مادھو، آخری لاش، کوئی غمگسار ہوتا، گردش میں ہے آسماں، مسیحا کہیں جسے، کھویا ہوا چہرہ اور ’چراغ پرانا شمع نئی‘ اہم ہیں۔یہ وہاب اشرفی کے وہ افسانے ہیں جس کی بنا پرادبی دنیا میں بہ حیثیت افسانہ نگار ان کی اپنی ایک الگ شناخت قائم ہوگئی ہے۔ ان افسانوں کے مطالعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں ان کی شخصیت کا ہر جگہ جلوہ نمایاں ہے۔ ان کے افسانوں میں ایک خاص مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔  انھوں نے افسانے محض اپنے دل کو بہلانے یا تفریح کے لیے نہیں لکھے ہیں۔ ان کے چند مشہور افسانوں کے چند بنیادی نکات پیش کر رہا ہوںجس سے و ہاب اشرفی کی افسانہ نگاری کے ضمن میں ان کے رجحانِ طبع کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔

ان کا افسانہ ’کافر بھی ہوئے سجدہ بھی کیا‘ سے گفتگو شروع کی جاتی ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے دو مختلف طبقات کی ذہنی کیفیت، ان کے حالات اور تغیراتِ زمانہ کو فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے جو سچ مچ قابلِ ستائش ہے اور جسے کسی بھی طورپر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس افسانے میں ذات پات کے تغیرات کو افسانہ نگار نے جس فنکارانہ انداز سے پیش کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔موصوف اپنے اس افسانے کے ذریعے قاری کو یہ درس دیتے ہیں کہ کوئی بھی شخص ہمیشہ کے لیے برا نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کامقدر ہمیشہ اسے چھوٹا رکھتا ہے۔ انسان کو یہ بات ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس افسانے میں بڑی مہارت کے ساتھ افسانہ نگار نے غرور کو خاکساری کی منزل تک پہنچا دیا ہے۔ وہاب صاحب نے تعلیم کی اہمیت پر بھی خاصا زور صرف کیاہے۔ وہ اپنے کرداروں گنیشوا اور پریگواکو تعلیم کی بدولت گنیش بابو اور پریاگ چودھری بنا کر پیش کردیتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ افسانہ اپنے مزاج اور منہاج کے اعتبار سے سب الٹرن موضوع پر ہے۔عہد زمینداری اور جاگیردارانہ نظام کے رویے سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں۔ اس عہد میں طبقۂ اشرافیہ کی جو حالت تھی اس کا بھی بخوبی اندازہ ہمیں ہے۔ رنگ ونسل، ذات پات کی کیفیات اوردرجات کے فرق نے اس عہد میں انسانی زندگی میں جس طرح کا اختلاف پیدا کردیا تھا وہ کسی سے چھپا نہیں۔ طبقۂ اشرافیہ کا یہ عام مزاج رہا ہے کہ وہ دوسرے طبقے کے افراد کوایک خاص انداز سے دیکھا کرتا تھا۔یہ حالت آزادی سے قبل کے ہندوستان میں شدت پکڑے ہوئی تھی۔ آزادی کے بعد ہندوئوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے معاشرے کے جسم پربھی بھید بھائو کی ضرب پڑنے لگی اور شعروادب میں ایسے احساس در آنے لگے جو نہ پہلے کبھی موضوع بنے تھے اور نہ بنائے جاتے تھے۔ ’کافر بھی ہوئے، سجدہ بھی کیا‘ ایسے ہی زمیندار کا قصہ ہے جس کی زمینداری تو ختم ہو چکی ہے مگر اس کا تحکمانہ انداز جوں کا توں باقی ہے۔

اسی طرح ان کا دوسرا افسانہ ’آئینہ سے شکوہ مت کیجیے‘ ہے جو ہمیں زندگی کے سنگین رخوں سے متعارف کراتا ہے۔ ا س افسانہ کو موصوف نے آئینے کی تمثیل سے ہمارے سامنے پیش کیا۔ ظلِ رسول جو اس افسانے کا اہم کردار ہے کی روح جب اس دارِ فانی میں آکر اپنوں کا مشاہدہ کرتی ہے تب اسے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کے اپنے کوئی نہیں تھے، کوئی ان کا چاہنے والا نہیں تھا، کوئی اس کا غمگسار نہیں تھا بلکہ سارے رشتے دار واحباب صرف اور صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے اس سے قریب تھے۔ اس طرح افسانہ نگار نے زندگی کی انتہائی تلخ حقیقت کو منظرِ عام پر لانے کی سعی کی۔

 وہاب اشرفی کا افسانہ ’چھوٹی بہو‘ خود غرضی اور احسان فراموشی کی مثال ہے۔اس میں افسانہ نگار نے چھوٹی بہو کے عادات واطوار اور اس کے اخلاق کو پیش کیا ہے کہ اس کی زندگی میں سبھی لوگ کتنے خوش تھے۔وہ ہر کسی کو خوش رکھنے کے لیے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتی تھی۔ بس! اس میں ایک کمی تھی وہ یہ کہ تمام خوبیوں کے باوجود وہ بانجھ تھی۔

چھوٹی بہو کے مرنے کے بعد اس کے گھر کے تمام افراد غمزدہ ہو جاتے ہیں۔ساس جو کہ اس کی زندگی میں اس پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتی تھی اس کے مرنے کے بعد روتے روتے ا س کا برا حال ہو جاتا ہے لیکن جب اسے یہ کہا جاتا ہے کہ تھی تو وہ بانجھ۔ تب وہ رونا بند کردیتی ہے۔ یعنی چھوٹی بہو کے وہ تمام ایثار وقربانی اور خدمات آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح یہ افسانہ گھریلو زندگی کی ایک تلخ حقیقت کی پردہ کشائی کرتا ہے۔

جب ہم وہاب اشرفی کے افسانے ’چھی چھی توبہ توبہ‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں طبقاتی کشمکش کی حقیقی منظرکشی ملتی ہے۔ موصوف کا یہ افسانہ دو مختلف طبقے کی خواتین پر مرکوز ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے ذات پات کو موضوع بنایا ہے۔یہاں انھوں نے اپنی فنی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ خرابیاں اور پستیاں کسی ایک خاص طبقہ ہی میں نہیں ہوتیں بلکہ ایک طرف جہاں ’کم ذات‘ لوگ کھلے طورپر بدعملی کے مرتکب ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف ’شریف زادی‘ استانی جی بھی پردے کے پیچھے غلاظت میں لت پت ہوتی ہیں۔ اس طرح موصوف نے صرف ایک طبقے کی برائی کو اپنا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ ادنیٰ اور اعلیٰ دونوں طبقے کی برائیوں کو منظرِ عام پر لاکر سچائی کو واشگاف کردیا ہے۔

جناب وہاب ا شرفی کی جھولی میں کئی ایسے افسانے بھی ہیںجو اپنے انداز اور Conceptکے اعتبار سے ہمیشہ یاد رکھنے والے ہیں۔ایسے افسانوں میں ’گردش میں ہے آسماں‘ اور ’کھویا ہوا چہرہ‘ بہت اہم ہیں۔اپنے مزاج ومنہاج کے اعتبار سے یہ دونوں افسانے اپنی مثال آپ ہیں۔

گردش میں ہے آسماں‘ میں آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی پر فنی نقطۂ نظر سے تنقید ہے۔ اس افسانے میں آج کے حالات کو ایک دوسری دنیا میں ہزاروں برس بعد دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔

اس افسانے کے مطالعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاب صاحب نے اس کے مواد کو اپنے ذہن میں یکجا کرنے میں کتنے خطرے مول لیے ہوں گے۔ کیونکہ یہ اردو میں موضوعی اعتبار سے ایک ایسی تنہا کہانی ہے جو سائنس کی نئی ایجادات پر قدغن لگاتے ہوئے مستقبل میں ان سے جو صورت واقعہ پیدا ہونے والی ہے اس کی پیشن گوئی کرتی ہے۔

کھویا ہوا چہرہ‘ وہاب صاحب کا آخری طبع زاد افسانہ ہے۔ یہ افسانہ بھی اپنی نوعیت کی ایک الگ تخلیق ہے۔اس کہانی کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اپنی ذات کو Assesکرتے ہوئے خود کو پروفروک (ٹی ایس ایلیٹ کی ایک نظم کا کردار) سے بھی کمتر تصور کرتا ہے۔اسے اپنی اہمیت چائے کی چمچی کے برابر ہونے سے بھی انکار ہے۔

اس طرح یہ کہانی ٹی ایس ایلیٹ کی عقبی زمین میں کھڑی ہے جو افسانہ نگار کی فکری وفنی سطح کو واضح کررہی ہے۔

ایک ذرہ ایک پہاڑ‘ وہاب اشرفی کا ایک ایسا افسانے ہے جو موضوع کے اعتبار سے انسانی دل سوزی، ایثاروقربانی (خواہ وہ ایثار کسی فرد کے لیے ہو یا ملک کے لیے) وغیرہ کی بہترین مثال ہے۔ اس کہانی کے مطالعے سے ہمیں جو درس ملتا ہے وہ زندگی گذارنے کے لیے نئی تعبیرات پیش کرتا ہے۔ اس کہانی میںفکر وفن دونوں ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہو گئے ہیں کہ یہ منظر واقعی دیدنی بھی ہے اور وہاب اشرفی کی فنی گرفت پر دال بھی۔

آبگینۂ تندیِ صہبا‘ میں وہاب اشرفی نے ایک خاتون کی ذہنی نزاکت ونفاست کو موضوعِ افسانہ بنایا ہے۔ بظاہر تو یہ رومانی کہانی معلوم ہوتی ہے مگر بعد مطالعہ اس کہانی سے مردو عورت کے مزاج ومیلان کے بہت سے جذبات واحساسات منظرِ عام پر آجاتے ہیں۔ خصوصاً جس طرح اس کہانی میں ذی ہوش اور قوی حسیات رکھنے والی عورت کا انجام جیسا نظر آتا ہے ویسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ بقول ڈاکٹر ہمایوں اشرف:

آبگینۂ تندیِ صبا‘ تو بظاہر رومانی کہانی ہے لیکن اس میں ایک خاتون کی ذہنی نزاکت اور نفاست کو افسانہ بنایا گیا ہے... مردو وزن کے مزاج اور میلان کی خبر دینے والی یہ کہانی بہت سے احساس جگاتی ہے۔ خصوصاً کسی ذی ہوش قوی حسیات رکھنے والی عورت کا انجام بس وہی ہوتا ہے جو اس کہانی میں ہوا ہے۔ کہانی کا قوام ایسا ہے کہ آخرکی سطریں نیا عالمِ خیال روشن کر دیتی ہیں اور حساس قاری کو دل گرفتہ بنا سکتی ہیں۔‘‘

(فکشن کی بازیافت،ص193)

ایک جوٹ، ایک موت‘ وہاب اشرفی کی ایک الگ نوعیت کی کہانی ہے جس میں موصوف نے ایک دفتر کے افسر جس کا نام ٹوم ہے اس کے غرور اور تیور کو اس طرح دکھایا ہے کہ اس کے آفس کا ایک کلرک تنگ آکر استعفیٰ دے دیتاہے اور دوسرے کام میں لگ جاتا ہے۔ جہاں سے وہ کچھ پیسہ کما لیتا ہے تب وہ کلرک اپنے سابقہ افسر کو اپنے گھر پر دعوت دے کر بلاتا ہے۔ کلرک اپنے افسر کی خوب خاطر مدارت کرتا ہے یہاں تک کہ اس کی افسری کے قصیدے بھی پڑھتا ہے۔ افسانے کے اختتام پر افسانہ نگار نے دکھایا ہے کہ افسر کو رخصت ہوتے وقت جب کلرک اپنے کتے سے ملاتا ہے اور اس کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے اس کا نام ’ٹوم‘ رکھا ہے تو وہ لمحہ اس افسر کے لیے موت سے کم نہیں ہوتا ہے۔یہ اس کہانی کا زبردست کلائمکس ہے۔

اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ افسانہ بھی در حقیقت ایک الگ نوعیت کا افسانہ ہے۔ اس افسانے کا انداز بھی اور اختتام بھی بہت خوب ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘ یہ پوری کہانی ایک ایسے کردار کے گرد گھومتی ہے جس کا نام ’افتخار نانا‘ ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جسے جھوٹ بولنے میں مہارت حاصل ہے۔ وہ سو فی صد جھوٹ بولتا ہے پھر بھی موصوف نے اس کہانی کا عنوان ’کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘رکھا ہے۔آخر کیوں؟ اس کہانی کا دوسرا عنوان کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر احمد حسین آزاد سے سنیے:

’’دراصل یہ عنوان Ironicalہے۔ جس شخص کی تعمیر کی گئی ہے، وہ جھوٹ بولنے میں ایسا طاق ہے کہ اس کی مثال ملنی محال ہے۔۔۔چنانچہ ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ اس شخص سے اس کی اس علت کے باعث نفرت نہیں ہوتی بلکہ اس سے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے۔دراصل مرکزی کردار نفسیاتی مریض ہے اور جھوٹ بول کر کسی کو ضرر پہنچانا نہیں چاہتا بلکہ یہ شدید احساس کمتری کی کتھا رسس کرتاہے۔‘‘

(وہاب اشرفی کے افسانے، مرتبہ ڈاکٹر احمد حسین آزاد، ص18)

مسیحا کہیں جسے‘ وہاب اشرفی کا ایک دلچسپ افسانہ ہے جو جنس پسندی کے رجحان پر مبنی ہے۔ یہ کہانی مارکسی نظریے، امریکی نظریے اور مذہبی نظریے کے تصادم سے آگے بڑھتی ہے۔ افسانہ نگار نے اس کہانی میں دکھایا ہے کہ تینوں نظریوں کا علمبردار اپنے اپنے نظریے کی صداقت کے اظہار میں اتنے پرجوش ہو جاتے ہیں کہ معاملہ قتل وغارت گری کی حد تک پہنچنے والا ہو جاتا ہے کہ ہوٹل میں مارتھا نام کی ایک رقّاصہ کا داخلہ ہو جاتا ہے جس سے تینوں اپنے تمام فلسفے بالائے طاق رکھ کر اپنا موضوعِ گفتگو مارتھا کے حسن وجمال کو بنا لیتے ہیں۔

آخری لاش‘ وہاب اشرفی کی رقم کردہ ایک المناک کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے غریب گورکن کی کہانی ہے جو بیٹی کی شادی کے لیے جہیز جمع کرنے میں منہمک ہے۔ اتفاق سے علاقے میں ہیضہ پھیل جاتا ہے اور گورکن کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب صرف اس کے پاس اتنی ہی رقم کم ہوتی ہے جتنی ایک قبر کی کھدائی سے ملتی ہے۔ وہ انتظار کرتاہے اور خوش بھی ہوتا ہے کہ اب اس کی بیٹی کی ڈولی اٹھ جائے گی مگر مرضیِ مولا کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ آخری لاش جو آتی ہے وہ اس کے ہونے والے داماد کی تھی۔ ایسا کربناک انجام اس کہانی کا کلائمکس کہ جسے پڑھ کر افسانہ نگار کی فنکاری کی داد دینی پڑتی ہے اور دل کو غموں کے سمندر کے حوالے بھی کردینا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاب صاحب کی یہ کہانی المناک توہے مگر اصلاحی بھی ہے۔افسانہ نگار نے بین السطور میں جہیز کی لعنت اور انسان کی خود غرضی کو ہدفِ ملامت بناتے ہوئے افسانے میں کمالِ فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے جس سے قاری کو کہیں بوریت نہیں ہوتی۔

ان کے علاوہ وہاب اشرفی کی کہانی ’چراغ پرانا، شمع نئی‘ خالص اصلاحی نوعیت کی کہانیاں ہیں اور ’اپنی اپنی راہ‘ خود غرضی کی ایسی کہانی ہے کہ جس کے بین السطور میں فلمی صحافت پر جا بجا طنز کے نشتر چبھوتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح ’پچیسویں قلوپطرہ‘ ایک مرد کی رزالت کی کہانی ہے اور ’علاجِ غم‘ نفسیاتی کہانی۔ ’تبسم کی لکیر‘ میں افسانہ نگار نے مشرق ومغرب کے تضاد کو موضوع بنایا ہے اور ’کوئی غمگسار ہوتا‘ موصوف کی ایک مفلس، بے بس اور بے کس ماں کی کہانی ہے۔ ’ستی ساوتری‘ الٹرا ماڈرن عورتوں کو مکدر کردینے والی کہانی ہے۔ ’ایک سایہ‘ میں رومانس کے ساتھ ساتھ مزاح کا رنگ بھی غالب ہے۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر اعلیٰ ادب کے اندر فنکار کا مقصدپوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فنکار کا مقصد اس کے فن میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ اسے علیٰحدہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔وہاب اشرفی بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مقصد کی پیشکش میں انھوں نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی کہانیوں میں ہر جگہ کہانی پن موجود ہے۔ ان کے افسانوں میں جذبات اور سنجیدگی کا متوازن اظہار ہے۔ انھوں نے فقروں اور جملوں کو چست ودرست بنانے کی غرض سے بعض جگہ تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال بھی کیا ہے۔اس طرح پلاٹ سازی، کردار نگاری، ماجرا سازی اور مکالمہ نگاری کے لحاظ سے بھی وہ اردو کے ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ ان کے یہاں سماجی احوال وکوائف پر بھی نظر خاص ہے۔ ساتھ ہی جمالیات کے تقاضوں پر بھی۔ لہذا ان کے افسانوں کو اردو کے بڑے افسانوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

مجموعی طورپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاب اشرفی نے اپنے 7-8 سالہ افسانوی سفر میں متعدد خوبصورت افسانے اردو ادب کو عطا کیے۔ لہٰذا! موصوف کی افسانوی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 

Dr. Faheem Ashraf

Maulana Azad National Urdu University

Model School

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 9785265771

f.ashraf777@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

وہاب اشرفی کے افسانے، مضمون نگار: فہیم اشرف

  اردو دنیا، دسمبر 2024 پروفیسر وہاب اشرفی نے اردو زبان وادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنا ادبی سفر انھوںنے افسانہ نگاری سے ش...