9/1/25

دیوان اکبر قدیم، نسخۂ بنارس کا تعارف، مضمون نگار: محمد عامر

 اردو دنیا، دسمبر2024

بنارس ہندو یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے میں اردو، فارسی و عربی کے قلمی نسخوں کا ایک اہم ذخیرہ موجود ہے۔ ان ذخائر میں اردو شعرا کے دواوین کے ساتھ ساتھ ادبا کی تالیفات بھی موجود ہیںجن میں اکثر کتب تعارف اور محققین کی توجہ کی محتاج ہیں۔ماضی قریب میں راقم سطور کی نظراسی ذخیرے کے ایک نادر مخطوطے بعنوان ’دیوان اکبر بھچوّ‘ پرپڑی اور تحقیق و تفتیش کے بعد اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اکبر بھچو کا شمار اٹھارہویں صدی عیسوی کے غیر معروف شعرا میں ہوتا ہے۔ تذکروں میں ان کے احوال مختصر ہی ملتے ہیں۔

مرزا بھچّو اکبر: احوال و آثار

مرزا بھچو نام اور اکبرتخلص ہے۔ امروہہ کے رہنے والے تھے لیکن دہلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دیوان یاد گار چھوڑا ہے۔ مصحفی کی شاگردی اختیار کی لیکن کچھ ہی دن بعد شاہ حاتم سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ان کے حالات زندگی کے بارے میں معلومات محدود ہیں۔ ان کی تاریخ ولادت یا تاریخ وفات کا ذکر کسی تذکرے میں مذکور نہیں ہے۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفی اور شاہ ظہورالدین حاتم کے شاگرد تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا زمانہ 1699 کے بعد کا زمانہ ہے۔ تذکروں و تواریخ میں ان کے بارے میں جو تفصیلات درج ہیں وہ اس طرح ہیں۔

مجموعۂ نغز:شخصے از عوام ’ بھچو‘نام وے در سلک نقیبان حضور پُر نور منسلک بود۔ شاگرد استاد اکثرے از سخن سنجان عالم شیخ حاتم است۔ شوخی طبعش بدرجہ ایست کہ درخواندن اشعارِ اساتذہ مشہورہ بنام خودہیچ مبالات ندارد از چاشنی کلامش احوالش ہوید است۔ گوئند کہ ایں دہ شعر از وے است۔

’’ان کا نام بھچو ہے اور دربار معلی سے منسلک ہیں۔ معروف سخن سنج استاد شیخ حاتم کے شاگرد ہیں۔ شوخ طبیعت کے مالک ہیں اور استاد شعرا کے کلام کو اپنی طرف منسوب کرنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے۔ ان کے کلام کی چاشنی ان کے احوال سے ہویدا ہے۔ مندرجہ ذیل دس شعر ان کی طرف منسوب ہیں۔‘‘

دل میں جو آج درد ہے اکبر کے دوستاں

کس کی نگہ کے تیر کا پیکان رہ گیا

ہے بر میں میرے یار کے کیا جامہ پھبن کا

جو پاٹ ہے جامے کاسو تختہ ہے چمن کا

جوں پردۂ فانوس میں ہو شمع درخشاں

یوں جھمکے ہے جامے میںترے رنگ بدن کا

ہمارے دل میں خنجر ناز کے کیا کیا نہ گڑتے  ہیں

یہ کافر خوبرو جس وقت تن تن کر اکڑتے ہیں

یہ جتنے خوبرو سرکش ہیں ان کو خوب دیکھا میں

گئے پر حسن کے ایک ایک کے یہ پاؤں پڑتے ہیں

خدا چاہے سو ہووے اب ہمارے حق میں اے اکبر

صنم سے اپنے پھر ہم آج اک بوسے پہ اڑتے ہیں

چھیڑا جو ٹُک اُسے تو بگڑ کر کہا کہ واہ

تم کون ہو جو ہاتھ لگاتے ہو ہات کو

نقد جاں پر کیجیے بوسے کا سودا اس گھڑی

آپ کا اے مہرباں چاہے اگر سوبار جی

سینے میں دل کہاں ہے تو اس کو مت ٹٹول

پیارے بجائے دل ہیں یہاں سیکڑوں پھپھولے

تذکرۂ سرور:اکبر تخلص، بھچو جا  نام، مردِ شوخ طبع ولطیفہ گووبذلہ سنج، ملازم سرکار والا، درفرد نقیباںشرف امتیاز داشت۔ شاگرد شاہ حاتم۔ مشاعرہ درخانۂ خودوقت بودنِ شاہجہان آبادمی کرد۔ درکلامش شوخیِ طبع مفہوم می گردد۔ ازوست۔

’’اکبرتخلص ، بھچو نام، شوخ طبیعت، لطیفہ گو، بذلہ سنج آدمی تھے اور سرکار والا کے ملازم بھی اور نقیبوں میں ممتاز بھی تھے۔ شاہجہان آباد میں قیام کے دوران اپنے گھر میں مشاعرہ منعقد کرتے تھے۔ ان کی شوخ طبیعت ان کے کلام سے مترشح ہے۔ مندرجہ ذیل شعر         ؎

جس پر تیرے کرم کی ہووے نگاہ یارب

دونوں جہاں میں اس کو ہو عز و جاہ یارب

تذکرۂ ہندی:اکبر۔عرف بھچو جوانیست شوخ طبع و طرار و لطیفہ گو۔ ہمیشہ نوکر ی خانۂ بادشاہ بامتیاز دربوایان کردہ۔ در آں ایام کہ فقیر در شاہجہاںآباد طرح مشاعرہ انداختہ اول برائے اصلاح شعر رجوع بفقیر آوردہ بود۔ بعد چندے بخدمت شاہ حاتم رفتہ،استفادۂ کلی از ذات بابرکات ایشان برداشتہ۔ حالا صاحب دیوان است و بر رویۂ استاد قدم در راہ ا یہام گوئی بیشتر می گذارد در آں معنی ہائے تازہ می بندد۔ اما فقیر اشعار ایہام رادوست نمی دارد۔

’’اکبر عرف ’بھچو‘ شوخ طبیعت اور لطیفہ گو ہیں۔ ہمیشہ بادشاہ کی ملازمت سے سرفراز رہے۔ شاہجہان آباد کے قیام کے دوران جب راقم سطور نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا، اصلاح شعر کی غرض سے وہ اس فقیر کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ کچھ مدت کے بعد شاہ حاتم سے مشورۂ سخن کرنے لگے اور ان کی بابرکت ذات سے کسب فیض کیا۔ ابھی وہ صاحب دیوان ہو چکے ہیں اور پنے استاد کے نقش قدم پر ایہام گوئی میں زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں اور نئے معانی پیدا کرتے ہیں۔ ‘‘

یادگارِ شعرا:اکبر ۔شاہ بھچّو یا میاں؛ شاگرد حاتم۔ جب تک دہلی میں رہے، مشاعرہ کرتے رہے ( تذکرۂ سرور)۔ جب تک مصحفی دہلی میں تھے وہ اکبر کی نظمیں صحیح کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دیوان لکھا ہے۔ اس کا طرز پرانا ہے اور ذومعنی الفاظ سے خراب ہو گیا ہے(تذکرۂ مصحفی)۔

تذکرہ تلامذہ شاہ حاتم دہلوی:از عبد الرشید عصیم میںاکبر کا ترجمہ وہی دیا گیا ہے جو مصحفی نے تذکرۂ ہندی میں درج کیا ہے۔ البتہ اس میں اکبر کا نام اکبر علی اور اکبر امروہوی ضرور ملتا ہے جو کسی اور تذکرے میں نہیں ملتا ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ عصیم نے شاعر کا نام کہاں سے اخذ کیا ہے۔ مذکورہ تذکرے میں جو ترجمہ درج ہے وہ یہ ہے:

اکبر: نام اکبر علی اکبرامروہوی۔تذکرہ ہندی گویاں 1794-95 / 1209ھ میں ہے کہ ’’عرف بھچو شوخ طبع و طرار و لطیفہ گو۔ہمیشہ نوکر خانۂ بادشاہ بامتیاز دربوایاں کردہ۔ در آں ایام کہ فقیر در شاہجہاںآباد طرح مشاعرہ انداختہ اول برائے اصلاح شعر رجوع بہ فقیر آورد بود۔ در ایہام گوئی بیشتر می گذارد۔بعد چندے بخدمت شاہ حاتم رفتہ استفادہ کرد۔‘‘ صاحب دیوان تھے۔

’’اکبر علی اکبر امروہوی، عرف ’بھچو‘ شوخ طبیعت اور لطیفہ گو ہیں۔ ہمیشہ بادشاہ کی ملازمت سے سرفراز ہے۔ شاہجہان آباد کے قیام کے دوران جب راقم سطور نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا، اصلاح شعر کی غرض سے وہ اس فقیر کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ کچھ مدت کے بعد شاہ حاتم سے مشورۂ سخن کرنے لگے اور ان کی بابرکت ذات سے کسب فیض کیا۔ ابھی وہ صاحب دیوان ہیں۔‘‘

طبقات الشعرائے ہند

اکبر ،تخلص ایک شخص کا عوام سے(کذا)حاجی شاہ اکبر جو کہ مشہور ہے بھچو نام سے ہے(کذا) مصحفی کہتا ہے یہ شخص دہلوی خوش طبع رنگیلا اور پسندیدہ آدمی تھا ۔نقیبوں میںحضور پُر نور یعنی محمد شاہ کے نوکروں میں منسلک تھا۔ شاگرد شیخ ظہورالدین حاتم مشہور مصنف اشعارات(کذا) صوفایایہ(صوفیانہ) کی صحبت سے اس نے بڑا فائدہ دینداری اور اصلاحِ شعر کا اُٹھایا تھا۔ شاہ حاتم کے یہ اچھے شاگردوں میں سے ہے جبکہ مصحفی نے مشاعرہ شاہجہاں آباد میں مقرر کیا تھا۔ اکبر نے اول اپنے شعر پیش کیے تھے۔ شوخ طبع اس درجہ کا ہے کہ اشعار ِاساتذہ مشہور کے اپنے نام سے پڑھنے میں کچھ پرواہ نہیں کرتا چنانچہ چاشنی کلام اس کی سے حال اس کا ظاہر ہے۔ یہ اشعار کہتے ہیں کہ اس کے ہیں۔ صاحب دیوان ہے جو کہ قدما کے طور پر لکھاگیا ہے۔ کنایہ اور مشکل تشبیہ سے اس طور پر ہے کہ مصحفی جس کے تذکرے سے لکھا گیا ہے اس کو پسند نہ آئے۔

یہ حال معلوم ہوا کہ وہ خود بیان کرتا ہے کہ میرے پسند نہیں آئے۔

جامع التذکرہ:شاہ بھچو یا میاں، شاگرد حاتم، جب دہلی میں رہے مشاعرہ کرتے تھے۔ وہاں مصحفی سے اصلاح لیتے رہے۔ طرز پرانا، الفاظ ذومعنین استعمال کرتے رہے۔ ان کا ایک دیوان ہے۔(اسپرنگر، بحوالہ سرور، مصحفی)

تذکرہ خوش معرکہ زیبا: خوش سخنور،شیخ بھچو اکبر، شاگرد شاہ حاتم۔

 مخطوطہ : دیوان اکبر قدیم کا ایک اہم قلمی نسخہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے کے ذخیرۂ لالہ سری رام میں موجود ہے۔ یہ نسخہ ناقص الطرفین ہے۔ اس نسخے کا مسلسل نمبر17 ،بخط نستعلیق صاف اور قابل قرأت ہے۔اس نسخے میں زرد رنگ کے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔اگر چہ اس کے چند صفحات کرم خوردہ ہیں لیکن متن محفوظ ہے جس کو بہ آسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ کاتب کا نام نسخے میں کہیں رقم نہیں ہے ۔ سنہ کتابت بھی غیر معلوم ہے۔ اوراق کی تعداد 69اور ہر صفحے پر13 سطریں لکھی گئی ہیں۔سائز ساڑھے آٹھ گنا ساڑھے پانچ سینٹی میٹر ہے۔

محتویات:دیوان اکبر قدیم کا یہ نسخہ1495 اشعار پر مشتمل ہے۔ موجودہ پہلے ورق پرغزل کے مقطع کا ایک مصرع موجود ہے جس سے اس نسخے کا آغاز ہوتا ہے  ع

مثال آئینہ دل ہے امانت دار حیرت کا

اس مصرع کے بعد دیوان کی پہلی غزل رقم ہے۔ اس صفحے پر دو غزلیں ہیں۔ پہلی غزل ملاحظہ فرمائیں        ؎

جب وہ رشک بہار آوے گا

تب ہی دل کو قرار آوے گا

شب فرقت کا حال کیا کہیں

اُسے کب اعتبار آوے گا

مر گئے پھر بھی تیرے کوچے تک

اُڑکر مشت غبار آوے گا

چہرہ قاصد کا دیکھ کر بشاش

یہی جانا کہ یار آوے گا

دور سے دیکھتے ہی پوچھا میں

کب تغافل شعار آوے گا

کر رہا ہے جوگھر کی آرایش

شاید اکبرکا یار آوے گا

اس غزل پر کاتب کے ذریعے2 نمبر تحریر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نسخے سے شروع کی صرف ایک غزل نداردہے جو پہلے صفحے پر مرقوم تھی جس کے مقطع کا ایک مصرع باقی رہ گیا ہے۔چونکہ مخطوطے میں ترقیمہ بھی موجود نہیں ہے اس لیے راقم نے اس کو ناقص الطرفین مانا ہے۔ اس مخطوطے کا اختتام مندرجہ ذیل شعر پر ہوتا ہے       ؎

 اکبر محب خاص وہی ہے کہ جس کے میں

 الفت ہے جان و دل سے حسنؓ و حسینؓ کی

دیوان کے متن میں 264 غزلیں اور حاشیے میں 17 غزلیں درج ہیں۔ اشعار کی تعداد 1495 ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صفحات کے حواشی میں بھی ایک ایک شعر درج ہیں جن کی مکمل تعداد پانچ ہے۔ 

صنائع لفظی و معنوی: مرزا اکبر بھچو ایک ماہر شاعر تھے۔ لفظی و معنوی صنائع کا استعمال انھوں نے اپنے دیوان میں بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔دیوان اکبر میں بہت سی صنعتوں کا استعمال ہوا ہے لیکن صنعت تلمیح پران کو خاص دسترس ہے۔

صنعت تلمیح   ؎

جلوہ ذرا جو دیکھے صنم تیرے بدن کا

طالب کبھی کلیم نہ ہو کوہِ طور کا

حسن کے مصر میں دل دار کوئی ہے ایسا

جس کا یوسف ہو خریدار کوئی ہے ایسا

دیوان میں ایک حمدیہ غزل بھی ہے۔ یہ حمد دیوان کے ورق 15 ب پر رقم ہے۔ ملاحظہ ہو     ؎

 حمد:

جس پر تیرے کرم کی ہووے نگاہ یا رب

دونوں جہاں میں اس کو ہوعزوجاہ یا رب

محتاج اس جہاں میں کیجو نہ کسی کا

میری یہی دعا ہے شام و پگاہ یارب

دنیا کی الفتوں سے دل کو مرے چھڑا کر

صدقہ نبیؐ کا اپنے دے اپنی چاہ یا رب

مقبول ہو جو تیری درگاہِ صمدیت کا

پھر کس طرح ہو اس سے صادر گناہ یارب

اکبرکی عرض بھی ہے صدقہ رسولؐ کا تُو

دکھلائیو نہ مجھ کو روزِ سیاہ یارب

اکبر کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات یا جائے مقام کے بارے میں اس دیوان سے کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ مختلف تذکروں میں ان کے بارے میں جو تفاصیل ملتی ہیں ان سے صرف اتنا ہی علم ہوتا ہے کہ امروہہ میں پیدا ہوئے اور دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔ مشاعرے کروانے کا شوق تھا۔ غزل کہنے سے دلچسپی رکھتے تھے۔ پہلے مصحفی کی شاگردی اختیار کی، پھر شاہ حاتم کی شاگردی میں چلے گئے۔ شاہی دربار سے بھی ان کا تعلق تھا لیکن اس بارے میں ہمیں کوئی جانکاری تذکروں سے یا دیوان سے نہیں ملتی ہے۔

ان تذکروں کے علاوہ مرزا بھچو اکبر کے بارے میں کسی طرح کی معلومات نہیں ملتی ہے۔ ان تذکروں سے جو باتیں عیاں ہوتی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ اکبر نے پہلے مصحفی کی شاگردی اختیار کی لیکن کچھ دنوں کے بعد شاہ حاتم کی شاگردی اختیار کی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ شاہ حاتم ایہام گوئی کو پسند کرتے تھے جبکہ مصحفی کو ایہام گوئی ناپسند تھی۔ اور اکبر کا دیوان ایہام کے لوازمات سے پُر ہے۔ جابجا انھوں نے ایہام کے اشعار کہے ہیں۔

دیوان اکبر قدیم کی غزلوں میں منقبت کے بہت سارے اشعار موجود ہیں۔مثال کے طور پر ورق20 ب پر موجود ایک غزل کا یہ شعرجو مولا علی کی شان میں مناجاتی انداز میں کہا گیا ہے        ؎

بحر غم سے یاعلیؓاکبر کا کھیوا پار کر

بے طرح آکر ہوئی ہے اس کے دامن گیر موج

اسی طرح امام حسنؓ و امام حسینؓ کی شان اقدس میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک شعر کہا ہے ، جو کہ اس دیوان کا اختتامی شعر ہے جو کہ مقطع کا بھی شعر ہے         ؎

اکبر محب خاص وہی ہے کہ جس کے میں

الفت ہے جان و دل سے حسنؓ و حسینؓ کی

ان اشعار کے علاوہ اکبرنے کئی مقامات پر استاد حاتم کا ذکر فخریہ انداز میں کیا ہے۔ اور ان کی تعریف کے نغمے گائے ہیں۔ اور ان کی شاگردی پر خوشی کابھی اظہار کیا ہے۔مثال ملاحظہ ہو        ؎

اکبر یہ بات سچ ہے کہ حاتم جہان میں

صاحبقران ہے ریختہ گوئی کے بیچ

 (ورق21 الف)

اس قدر فیض ہے حاتم کا مجھ اوپر اکبر

ہائے اشعار میرے منھ سے جھڑتے ہیں

(ورق 42 ب)

عالم سے ریختہ کے تھی اکبر کو کیا خبر

پایا ہے فیض حضرت حاتم کی ذات سے

(ورق 57 الف،ب)

ایک شعر میں حضرت سودا کا ذکر کیا ہے      ؎    

اکبر بقول حضرت سوداہم اس جگہ

کیا کرچلے اور آئے تھے کس کام کے لیے

(ورق 62 ب)

نتیجہ گیری: مرزا اکبربھچو اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت تھے کیونکہ دہلی کے اکثر مشاعرے انھیں کی کوششوں سے منعقد ہوتے تھے لیکن آج ان کی شخصیت گمنامی کا شکار ہے۔ ان کے دیوان کا ایک مخطوطہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے میں محفوظ ہے جس  کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد ان کی ادبی اور تاریخی شخصیت کی بازیابی ممکن ہے اور اس لحاظ سے یہ مخطوطہ کافی اہم ہے۔

منتخب اشعار

کر رہا ہے جو گھر کی آسائش

شاید اکبر کا یار آوے گا

دل بچا اوسکا ہوئے گا اکبر

گھرمیں اپنے جو چھپ رہا ہوگا

 یار اگر اکبر تیرا دو چار دن روٹھا رہا

پھر جہاں میں تجھ کو جینا سخت مشکل ہو جائے گا

 پوری ہے کشش اپنی اگر دل کی تو اکبر

ایک روز تیرے پاس وہ پھر آن رہے گا

منت میں ہووے گی رسوائی و خفت حاصل

قتل اکبر کو میری جان اگر کیجیے گا

نہ رکھ خوف محشر کا دل میں تو اکبر

کہ بخشندہ خالق ہے تیرے گناہ کا

 غزل لکھنا ہے اکبر روز ہے اپنی طبیعت کا

وگر نہ قافیہ تھا اس زمین کا سخت بے ڈھنگا

ہمارا دیدہ ہے ہجرمیں اس شوخ کے اکبر

بھرا رہتا ہے جیسے رات دن تالاب پانی کا

کتابیات

1        مجموعۂ نغز،میر قدرت اللہ قاسم،مرتبہ محمود شیرانی،نیشنل اکادمی،1973

2        تذکرۂ سرور، میر محمد خاں،مرتبہ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، ادبی پرنٹنگ پریس، ممبئی، 1961

3        تذکرۂ ہندی، غلام ہمدانی مصحفی، مرتبہ مولوی عبدالحق، جامع برقی پریس دہلی، 1933

4        یادگارِ شعرا، اسپرنگر، مترجم طفیل احمد خاں،ہندوستانی اکیڈمی، صوبہ متحدہ، الہ آباد،1943

5        تذکرہ تلامذہ شاہ حاتم دہلوی،تلخیص و ترتیب ، عبد الرشید عصیم،محکم آرٹ پریس ملتان،1994

6        طبقات الشعرائے ہند، ایف فلن و مولوی کریم الدین (طبقۂ سوم)،مرتبہ سید شاہ عطاؤالرحمن عطا کاکوی،رئیس ادارہ تحقیقات عربی و فارسی ،پٹنہ، 1967

7        جامع التذکرہ3/61 تالیف محمد انصار اللہ، شائع کردہ: قومی کونسل دہلی2007

8        تذکرہ خوش معرکہ زیبا، سعادت خان ناصر،مرتبہ مشفق خواجہ، مجلس ادب لاہور1980

 

Mohammad Amir

Research Scholar, Dept of Urdu

Banaras Hindu University (BHU)

Varanasi- 221005 (UP) Cell.: 9208147549

mohammadamir47549@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

وہاب اشرفی کے افسانے، مضمون نگار: فہیم اشرف

  اردو دنیا، دسمبر 2024 پروفیسر وہاب اشرفی نے اردو زبان وادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنا ادبی سفر انھوںنے افسانہ نگاری سے ش...