اردو دنیا، دسمبر 2024
تذکرہ عام طورپرایسی کتاب کوکہتے ہیں جس میں شاعروں کے
احوال وآثارکو تفصیلی یامختصرطورپر بیان
کیا گیا ہو شاعروں کی سوانح اورکلام کے علاوہ تذکرے کا اطلاق ایسی کتابوں پربھی کیا
جاتا رہاہے جن میں مشہور و معروف صوفیا، عرفا، اولیا، اطبا، علما اورفضلاوغیرہ کی
زندگی کے احوال اوران کے کارناموں وکرامات وغیرہ کو تحریرکیا گیا ہو، پوری دنیا میں
فارسی زبان کے دستیاب شدہ تذکروں میں سدیدالدین
محمدعوفی کے ’لباب الالباب‘ کو فارسی کا پہلا تذکرہ ہونے کا افتخار حاصل ہے۔ بارہ
ابواب پر مشتمل یہ تذکرہ 617 اور 618 عیسوی کے درمیان پایہ تکمیل کو پہنچا۔’لباب
الالباب‘ کی تالیف کے تقریباً پونے تین سوسال تک کی فارسی زبان کی تاریخ میں کسی ایسے
تذکرے کا پتہ نہیں ہے جو فارسی شاعروں کے کلام کے متعلق تحریرکیا گیاہے، ساتویں صدی
ہجری کے بعد دسویں صدی ہجری سے فارسی میں تذکرہ نویسی کارحجان عام ہونا شروع ہوا
اورعصرحاضرتک اس کاسلسلہ جاری وساری ہے ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کے
تذکرے بڑی تعدادمیں تحریر کیے گئے اور آج بھی تذکرے مرتب کیے جا رہے ہیں لیکن ان
تمام تذکروں میں زیادہ تر تذکرے ’لباب الالباب‘ کوپیش نظررکھ کرہی ترتیب دیے گئے
اورآج بھی تھوڑے بہت تغیر و تبدیلی کے ساتھ بیشتر تذکرے اسی طرز پر لکھے جارہے ہیں
جو طرز ساتویں صدی عیسوی میں فن تذکرہ نویسی کے موجد و بانی سدید الدین محمدعوفی
نے اختیار کیا تھا۔
ہندوستان میں فارسی زبان کی دیگرشعری ونثری اصناف کی
طرح تذکرہ نویسی کی صنف کوبھی خوب عروج وبلندی حاصل ہوئی بلکہ فن تذکرہ نویسی پر
باقاعدہ کام ہندوستان کے فارسی داں مصنفین ہی کے قلم سے انجام پایا ہے، ابتدا سے
لے کراب تک ہندوستان میں فارسی شاعروں سے متعلق سیکڑوں تذکرے تالیف کیے جا چکے ہیں
جو فارسی ادب کا گرانقدر سرمایہ ہیں اور جن سے استفادہ اہل ہند ہی نہیں، خوداہل
زبان بھی کرتے رہے ہیں۔
تذکروں کی اہمیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تذکرے تاریخ کو
جاننے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اگریہ تذکرے تالیف نہ کیے گئے ہوتے توآج ہم بہت سے ایسے
شاعروں کے احوال وافکار سے محروم ہوجاتے جن کے متعلق تاریخ کی کتابوں یا دوسری
کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا مثلاً اگر محمد عوفی نے ’لباب الالباب‘ تالیف نہ ہوتی تو چھٹی اورساتویں
صدی عیسوی کے بے شمار شاعروں کے احوال وآثار کے متعلق ہماری معلومات نہ ہونے کے
برابر ہوتیں کیونکہ اس دور کے زیادہ تر شعرا کا کلام حوادث زمانہ کی نذرہوچکاہے۔
اس کے علاوہ ان تذکروں کی اہمیت وافادیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ الگ الگ
ادوارمیں تالیف کیے گئے ان تذکروں میں بعض تذکرہ نویسوں نے معاصر شاعروں کے بارے میں
ایسی بیش قیمت اور نافع معلومات فراہم کی ہیں جودوسری کتابوں میں نظرنہیں آتیں
اوراگر ہیں بھی تو بہت ہی مختصر اورنامکمل ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ تذکرے ان شاعروں
کے احوال وآثار، افکار و خیالات، سیرت وشخصیت اوراخلاق وکرداروغیرہ کے بارے میں
معلومات حاصل کرنے کا بہترین اورمستند ماخذ تصور کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ تذکرہ
لکھنے والے حضرات عام طور پر شاعر ہوا کرتے تھے اورانھوں نے دوسرے شاعروں کے کلام
کے بارے میں جو اپنی انتقادی آرا پیش کی
ہیں ان کی مدد سے خودان کے اور دیگر شاعروں کے کلام کے متعلق درست مقام ومرتبہ تعین
کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے اپنے تذکروں میں خوداپنے حالات کوبھی
تفصیلی اندازمیں قلم بندکردیاہے جودیگرکتب میں موجود نہیں ہیں اورکبھی کبھی ان
تذکرہ نویسوں نے دوسرے شاعروں کے ضمن میں اپنی زندگی اورشخصیت کے بعض اہم پہلوؤں
کی طرف بھی اشارے کر دیے ہیں جن کی مدد سے ان کے اخلاق وکردار اورحیات وکلام کے
متعلق قیمتی معلومات فراہم ہوجاتی ہیں، جودیگر ذرائع سے دستیاب نہیں ہوتیں یہی وجہ
ہے کہ تاریخ کے ہر دورمیں ان کی اہمیت کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔
تذکروں کی اہمیت وافادیت کا ایک اوراہم سبب یہ بھی ہے
کہ بعض ہوش مند اور ذی فہم تذکرہ نویسوں نے شاعروں کے احوال وآثار کے ساتھ ساتھ
اپنے دور کے سیاسی اورسماجی حالات اوراہم ادبی وتاریخی واقعات کو بھی قلم بندکردیا
ہے جس کے سبب یہ تذکرے تاریخی نقطہ نظرسے بھی قابل مطالعہ قرارپاتے ہیں مثلاً
’خزانۂ عامرہ‘ اور ’ریاض الشعرا‘ وغیرہ میں اپنے عہد کے بعض قابل ذکر اور اہم سیاسی
حالات اور تاریخی واقعات کو بھی احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے، جن کی مدد سے اس عہد
کے آداب ورسوم روایات ورواج اورتہذیب وتمدن سے کماحقہ واقفیت حاصل ہوتی ہے اوراس
دور کے سماج ومعاشرے کی بہت سی نامعلوم اورغیرمفہوم جہات واضح اورروشن ہوکراذہان
وقلوب کو جلا بخشتی ہیں، اس کے علاوہ ان ادبی تذکروں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی
منکشف ہوتی ہے کہ وقت اورامراوشرفا وغیرہ کے یہاں کس شاعر کے کلام کوکس حد تک اہمیت
ووقعت حاصل تھی اوران سلاطین وقت کا شعری ذوق اور انتقادی ادراک کس درجے کا ہوتا
تھااورشاعروں کو شاہی درباروں میں کون کون سی شاہی مراعات حاصل ہوتی تھیں، ان کے
متعلق بھی دلچسپ اورسودمند جانکاری انھیں تذکروں کے وسیلے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ
جانکاری عموماً دیگرکتابوں میں نظرنہیں آتی،
یہی سبب ہے کہ صنف تذکرہ کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔
جب اردو زبان وادب میں تذکرہ نویسی کی شروعات ہوئی تو
تذکرہ نگاروں کے سامنے فارسی زبان کے تذکروں کا بیش بہا خزانہ موجود تھا اوران کو
جب بھی اظہاربیان میں کوئی ضرورت پڑی
توفارسی کی بروقت امداد نے ان کے زبان وبیان کو سہارادے کران کو تقویت عطا کی اوریہی
وجہ تھی کہ ابتدائی دور کے اردو تذکرہ نویسوں نے فارسی زبان سے استفادہ کرنے میں
کوئی تامل نہیں کیا، جب ہندوستان میں اردو زبان رائج ہونے لگی تو فارسی تذکروں کی
طرح اردوزبان میں بھی تذکرے لکھے جانے کی طرف توجہ دی جانے لگی اور اردو شاعروں کے
متعدد تذکرے مرتب ہوکر منظرعام پر آئے، جن کی قدروقیمت ہردورمیں مسلم رہی ہے۔
فارسی تذکروں کے ذریعے ہی اردوناقدین ادب کو جلا حاصل ہوئی ہے، کیونکہ ابتدائی عہد
میں جتنے بھی اردو زبان کے تذکرے لکھے گئے، وہ فارسی تذکروں کی تقلید میں لکھے گئے
چونکہ فارسی زبان اپنے لفظی ذخیروں، اشتقاقی اور ترکیبی خصوصیات کے سبب دنیاکی
ثروت مند زبانوں میں شمارکی جاتی رہی ہے لہٰذا جب بھی اردو زبان کے ادیبوں کو اپنے
مافی الضمیر کے اظہارمیں کسی دقت کاسامنا ہوا تو وہ فارسی زبان وادب کے سرچشمے سے
سیرابی حاصل کرتے رہے اوراس طرح فارسی زبان نے اردو زبان کی صورت گری میں کلیدی
کردار اداکیا اورتذکرہ نویسی کے معاملے میں تو اس کا کرداربڑا ہی اساسی اوراہم
رہاہے۔
فارسی تذکرے کے زیراثرتالیف کیے جانے والے اردو تذکروں
کوصد فی صد تنقید کے زمرے میں تو نہیں رکھا جاسکتا لیکن یہ تذکرے اوران میں موجود
تنقیدی نکات ورحجانات ہمارے ادب کا وہ گرانقدر، بیش بہا اور ذی قیمت سرمایہ ہیں،
جن کی اہمیت کوہردوراورہر طبقے کے ذریعے تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور اردو ادب میں
باقاعدہ فن نقدکی ابتدا انھیں تذکروں سے ہوتی ہے، نورالحسن نقوی کے مطابق:
’’شعرائے اردو کے تذکرے ہمارا قدیم اور بیش قیمت
ادبی سرمایہ مکمل اور ہماری زبان میں تنقید کی بنیاد انھی کے ذریعے پڑی، اِن
تذکروں میں تنقید کے جونمونے ملتے ہیں انھیں باقاعدہ تنقید کہنا تو مشکل ہے، البتہ
انھیں اْردو تنقید کا پہلا نقش ضرور کہا جاسکتا ہے۔‘‘1
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان وادب میں تذکروں
ہی کے ذریعے تحریری ادبی نقد کی باقاعدہ شروعات ہوئی حالانکہ ان تذکروں میں تنقید
کے جونمونے ملتے ہیں وہ بڑے مبہم،غیرواضح اورمختصرہیں جن کی بنا پرانھیں فن نقد کے
اعلیٰ نمونے قرارنہیں دیے جا سکتے بایں ہمہ فارسی کے زیراثرتالیف کیے جانے والے ان
تذکروں کے ذریعے ہی اردوادبی تنقید کی بنیادیں استوارہوئی ہیں جن پر آگے چل فن
نقد کی بلند وبالا عمارت کی تعمیرممکن ہوسکی۔
یہاں اس طرف اشارہ کر دوں کہ بیشترفارسی تذکرہ نویسوں
نے اپنے تذکروں کی بنیاد معاصرانہ چشمک، شخصی پسندوناپسند اورگروہ بندی پر رکھی تھی۔
ان کے یہاں ادبی ایمانداری اورعلمی دیانتداری کو بروئے کارلانے کی شعوری کوشش نہیں
کی گئی ہے، حالانکہ دیانت، صداقت اورغیرجانبداری فن تنقید کے بنیادی اورلازمی جز ہیں
جن کے بغیر کسی بھی زبان کی ادبی تنقید کو اعتبار اوراحترام حاصل نہیں ہو سکتا،
فارسی تذکروں میں ان لازمی اجزا کے نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فارسی تذکرہ نویسوں
کے پیش نظرادبی نقدکے نہ تو مخصوص اصول وضوابط موجودتھے اورنہ ہی ان کا مقصد قوانین
نقد کو مرتب کرنا تھا بلکہ انھوں نے کبھی یہ تصوربھی نہیں کیا ہوگا کہ شاعروں کے
کلام پر ان کی یہ سرسری فن نقد کی بنیاد ثابت ہوگی، اردوتذکرہ نگاری چونکہ فارسی کی
تقلیدمیں شروع ہوئی تھی لہٰذا فارسی تذکرہ نویسوں کایہ عام رحجان یا انداز،ان کے یہاں
بھی بے چون وچرا اختیار کرلیا گیا حالانکہ انھوں نے اپنے تذکروں میں فارسی تذکرہ
نویسوں کی طرح بہت زیادہ انتہا پسندی، شدت اورانتقام کے رویے سے اغماض برتنے کی
شعوری کوشش تو کی لیکن شعراکے کلام کے انتخاب میں وہ پوری طرح غیرجانبداراوردیانت
دار رہنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے صحت مند تنقید کا وقار مجروح ہوا۔
عام طورپر اردو تذکرہ نویسوں نے اپنے تذکروں میں جس
اندازواسلوب کواستعمال کیاہے وہ فارسی تذکروں کامرہون منت کہا جائے تو زیادہ بہتر
ہوگا، فارسی تذکرہ نویس عموماً زبان وبیان اورمحاورہ وعروض کے پیش نظرشاعروں کے
کلام پراظہارخیال کرتے تھے اوراس اظہار خیال میں کوئی خاص گہرائی وگیرائی نہیں پائی
جاتی تھی، پہلی نظرمیں جوکچھ بھی انھیں محسوس ہوتا تھا یا ان کا وجدان وذوق ان کی
جس طرف راہ نمائی کر دیتا تھا وہ اسی کو سپرد قرطاس کر دیتے تھے، بلکہ حقیقت تو یہ
ہے کہ اس ابتدائی عہدکے ناقدین ادب بھی اس ادبی صنف کی ماہیت، مقصداوردرست
اسلوب سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ یہی
وجہ ہے کہ جب اردومیں تذکرے لکھنے کی شروعات ہوئی تواردومصنفوں نے بھی فارسی کے زیر
اثراسی طرز اور روش کو اختیار کرلیا لہٰذا نکات الشعرا، مخزن نکات اورچمنستان شعرا
اسی قسم کے تذکرے ہیں جن میں تنقیدی شعورکا احساس توملتاہے لیکن ان میں بہت زیادہ
گہرائی نہیں پائی جاتی، عام طورپر تذکرہ
نویسوں نے بہت ہی سرسری سے انداز میں شاعروں کے کلام پراظہار خیال کیا، جو کم وبیش
فارسی تذکرہ نویسوں سے ہی مستعارہے۔
اردو تذکروں میں بروئے کارلائے جانے والے تنقیدی
رحجانات کودیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان تذکرہ نویسوں کے پیش نظر بھی، شاعروں کے
کلام کو جانچنے وپرکھنے کے سلسلے میں کوئی مخصوص قواعد نہیں تھے اورنہ ہی فن نقد
کے اصول وضوابط کو متعین کرنے کی طرف کماحقہ توجہ صرف کی گئی تھی۔ ان کے طرز نقد
کا تمام تردارومدارذوقی اوروجدانی تھا اوراس عہد میں ادبی تنقیدی شعوراورروایات نہ
ہونے کے برابر تھیں، یہی وجہ ہے کہ بعض دانشوران ادب نے فن نقد کی تاریخ میں ان کو
بہت منفعت بخش تصورنہیں کیاہے کیونکہ ان کے یہاں ادبی شہ پاروں پر تنقید کا
جواندازاختیارکیا گیاہے وہ اس فن کے اصول وضوابط سے یکسر مختلف ہے، مثلاً تنقید کا
پہلا اصول غیرجانبداری اور دیانت داری ہے، جوابتدائی دورمیں لکھے جانے والے تذکروں
میں شاذ ونادرہی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ اس زمانے میں دوران تنقید شخصی پسند
وناپسند کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اس لیے ان میں وہی انداز پایا جاتاہے جو اس
دورمیں رائج تھا، ابو الکلام قاسمی اپنی مشہور ومعروف کتاب ’مشرقی شعریات‘ میں
لکھتے ہیں:
’’تذکروں میں اکثر طرف داری سے کام لیا گیا
ہے … شعر کے محاسن میں زیادہ ترصنائع لفظی و معنوی کو اہمیت دی گئی ہے،اکثر شعراکے
اسلوب و سلیقہ شعر کے لیے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے شاعری کی حیثیت
واضح نہیں ہوتی ہے۔‘‘2
اگر فارسی زبان میں ترتیب دیے جانے والے تذکروں پر نظر
ڈالیں توان میں مندرجہ ذیل خصوصیات نظر آتیں ہیں:
1 فارسی
تذکروں میں عام طورپر شعرا کے حالات کو مختصرطورپر بیان کیا جاتا تھا جب کہ کلام
کے انتخاب میں طوالت سے کام لیا جاتاتھا یعنی احوال کے مقابلے انتخاب کلام اکثر طویل
ہوتا تھا۔
2 شاعروں
کے حالات وغیرہ بیان کرنے میں ان کی تاریخ پیدائش ووفات اورزمان وعہد کو متعین
کرنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی جاتی تھی۔
3 اکثران
تذکروں میں یہ بھی نظر آتاہے کہ تذکرہ نویسوں کے ذریعے ایک شاعر کے کلام کو کسی
دوسرے شاعرسے منسوب کر دیا گیا اور پھر
بعدمیں تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کلام اس شاعر کا ہے ہی نہیں جس سے منسوب کر
دیا گیا ہے۔
4 عام
طورپر تذکرہ نویس ایک دوسرے کی تقلید وپیروی پر ہی اکتفا کر لینا بہتر تصورکرتے
تھے اوراپنی تحریروں میں جدت وندرت کی طرف بہت ہی کم متوجہ ہو پاتے تھے۔
5 فارسی
تذکرہ نویس دوران تحریر اکثر وبیشتر بہت مشدد ہو جاتے تھے اور کسی بھی شاعر کے
کلام کے محاسن ومعائب کا اظہار ذاتی تعلقات اور شخصی پسند وناپسند کے مطابق کرتے
تھے بعض تذکرہ نویسوں نے تواخلاقی اور تہذیبی نقطہ نظر سے شرمسارکر دینے والا
انداز بیان بھی اختیارکیا ہے، جس کے سبب صنف نقد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
6 فارسی
تذکرہ نویسوں کی تمام تر توجہ کلام کے ظاہری حسن وخوبصورتی کو بیان کرنے پر صرف
ہوتی تھی اورمعانی جو شعرکی اصل روح تصورکیے جاتے ہیں ان کی طرف تذکرہ نگاروں کی توجہ بہت کم ہوتی تھی۔
7 شاعروں
کے کلام کی خصوصیات اورمحاسن و معائب کو بیان کرنے کے لیے یہ تذکرہ نویس بڑا ہی
مبہم اورغیر واضح پیرایہ بیان اختیار کرتے تھے جس سے حسن کلام واضح اورقابل فہم
ہونے کے بجائے مشکل محسوس ہونے لگتا تھا، اکثرتو ان شاعروں کے کلام کے متعلق کوئی
حتمی رائے قائم کرپانا بھی مشکل ہو جاتا تھا۔
8 فارسی
تذکروں میں اخلاقی اقدار کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور رشک ورقابت، چشمک وتنازعات
اور شاعرانہ تعلی و علاقائی تعصبات کے باوجود بھی یہ تذکرہ نویس شاعروں کی حرمت
ومرتبے کا خاص خیال رکھتے تھے اور انھیں اچھے القاب وآداب سے یاد کرتے تھے۔
یہی وہ عام خصوصیات تھیں جوفارسی تذکروں میں پائی جاتی
تھیں اورجب اردوزبان وادب میں تذکرہ نویسی کا باقاعدہ آغازہوا تو ان تذکرہ نویسوں
نے فارسی تذکروں کی انھیں خصوصیات کواپنے پیش نظر رکھنے کی شعوری کوشش کی، یہاں تک
کہ تذکرہ نگاروں نے اردوشاعروں کے احوال وآثارکو قلم بند کرنے کے لیے اردو کے
بجائے فارسی زبان ہی کا سہارالیا اورابتدا میں انھوں نے اردو شاعروں کے تذکرے فارسی
زبان میں ہی تحریرکیے اردوتذکروں کے فارسی زبان میں تالیف کیے جانے کی کئی اہم
وجوہات تھیں، بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ اردوزبان نے ابتدا ہی سے فارسی زبان وادب کے
ہمہ گیراوردیرپا اثرات کو قبول کیا تھا، اور اردو شاعری تومکمل طورپرفارسی ہی کی
خوشہ چیں معلوم ہوتی تھی اوراس کا مزاج فارسی زبان کے مزاج سے گہری مطابقت رکھتا
تھا اس کے علاوہ اس عہد کے پڑھے لکھے لوگ اب بھی فارسی زبان کے علاوہ کسی دوسری
زبان کو قابل توجہ تصور نہیں کرتے تھے بھلے ہی اردوزبان کو روزمرہ کی گفتگو میں
قبول عام حاصل ہو گیا تھا لیکن دانشوران ادب کے نزدیک یہ زبان ابھی بھی مقبول نہیں
ہوسکی تھی اوروہ اس زبان میں اپنی ادبی تخلیقات کوپیش کرنا پسندیدہ یابہتر تصورنہیں
کرتے تھے۔ مزید برآں وہ الفاظ واصطلاحات جو فارسی زبان میں صدیوں سے بروئے کار
لائی جارہی تھیں اوراسی زبان کی تقلید وپیروی کے سبب اردومیں زبان وادب میں بھی
راہ پا گئیں تھیں لہٰذا ان کویک لخت الگ
کردینا بھی ممکن نہیں تھا، لہٰذا وہ بندھے ٹکے الفاظ واصطلاحات اوراصول وضوابط جو
زمانہ طویل سے فارسی تذکروں میں بکثرت استعمال ہوتے چلے آرہے تھے۔ اردو زبان میں
وہ ابھی بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ اردو ابھی ایک نوزائیدہ اورنوخیز زبان تھی اوراس
کا ذخیرہ الفاظ بھی فارسی کے مقابلے میں بہت محدودومختصر تھا اسی لیے شروعات میں
اردوزبان کے جتنے بھی تذکرے لکھے گئے ان پر فارسی کا گہرا اثر تھا، ڈاکٹر سید
عبداللہ کے مطابق:
’’اردوتذکرہ نویسی اپنی ابتدائی منزلوں میں
فارسی تذکرہ نویسی سے ہی نقل ہے یہی وجہ ہے کہ جب اردو شاعروں کے تذکرے مرتب ہونا
شروع ہوئے توان میں نہ صرف عام اصول تصنیف کے لحاظ سے فارسی تذکروں کی تقلید کی گئی
بلکہ ان تذکروں کی زبان بھی فارسی رہی۔‘‘3
کم وبیش یہی رائے زیادہ ترمحققین اورناقدین ادب نے پیش
کی ہے کہ اردوتذکروں کا تمام سرمایہ فارسی زبان ہی کا مرہون منت ہے اگر اس شیریں
زبان کے اعلیٰ نمونے اردوتذکرہ نگاروں کے پیش نظر نہیں رہے ہوتے تو یقیناً وہ اس میدان
میں اتنی تیزی سے ترقی نہیں کر پاتے چونکہ یہ اردومصنفین اور شعرا فارسی زبان ہی
کے پروردہ تھے اورنہ صرف پروردہ بلکہ دلدادہ بھی تھے جس کے سبب اس زبان کو اختیار
کرنا ان کے لیے کسی اجنبیت یا عار کا سبب نہیں تھا اسی وجہ سے طویل عرصے تک یہ
تذکرے فارسی زبان ہی میں تالیف کیے جاتے رہے، اس سلسلے میں سید محمد کریم اپنی
رائے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انیسویں صدی کی چھٹی دہائیوں تک اردو شعرا
کے تذکرے فارسی زبان میں لکھے گئے اورہرپہلو سے فارسی شعرا کے تذکروں کی پیروی
کوملحوظ رکھاگیا۔‘‘4
یہ درست ہے کہ جس وقت اردو تذکروں میں نقد نویسی کی داغ
بیل پڑ رہی تھی اس وقت لوگوں کے درمیان فارسی زبان کوقدرے اعتبار واقتدارحاصل تھا
لہٰذا اردو تذکرہ نویسوں نے بھی وہی انداز و اسلوب اختیار کیا تاکہ ان کی ادبی تخلیقات
کو قبول عام حاصل ہوسکے اور اردوناقدین ادب کی تمام ترتوجہ زبان وبیان، عروض وقافیہ
اورتاریخ وتنقیص کی ہی طرف زیادہ مبذول رہی، خود فارسی زبان وادب میں اس وقت تک فن
نقد بہت ستھرایا نکھرا ہوا نہیں تھا، اس زبان کی تنقیدی روایات بھی بہت کمزور، غیرواضح،
مبہم اورغیرمتعین تھیں جن کواہل اردو نے بغیرکسی کم وکاست کے اپنی تحریروں میں
استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، سید محمد کریم اردوکے ابتدائی تذکروں کی تشکیل وتالیف
کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’تذکرہ اورطبقات چونکہ شاخیں فن تاریخ کی ہیں
خصوصاً زبان عربی وفارسی میں اس قسم کی بہت سی تصنیف ہوئیں ہیں ان کی دیکھا دیکھی
اردومیں بھی اسی طریق تصنیف کا استعمال کیاہے۔‘‘ 5
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ تذکرے چاہے کسی بھی زبان میں
تحریر کیے گئے ہوں، ادب کا گرانقدراور بیش قیمت سرمایہ ہیں اورخاص کر اردو ادب میں
تو ان سے سرسری طور پر ہرگز نہیں گزرا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے مطالعے کے بغیر نہ
تو اردو شاعری کی اصل ماہیت و کیفیت سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں اورنہ ہی نقد
وانتقاد کی ابتدائی تاریخ ہی مرتب کی جا سکتی ہے کیونکہ قدیم شعرا اور ان کے کلام
کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان تذکروں کا مطالعہ کرنا ہی پڑتاہے اوراس حقیقت سے بھی چشم
پوشی نہیں کی جا سکتی کہ جدید ناقدین ادب کی ناقدانہ بصیرت بھی انھیں تذکروں کی
مدد سے پروان چڑھی ہے فارسی تذکروں کے زیر اثر جو بھی اردو تذکرے مرتب کیے گئے وہ
پوری طرح انہی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور تذکرہ نویسوں نے وہی میلانات، رحجانات
اور معیار و میزان پیش کرنے کی کوشش کی جو عرصہ دراز سے فارسی کے لیے مخصوص رہے
تھے اور خاص طور پر اٹھارویں صدی تک تو اردوادب کے مصنفین جدید تنقیدی رحجانات سے
مکمل طور پر انجان وبے خبر تھے اوریہ تو وہ وقت تھا کہ خود اردوکا نثری سرمایہ تقریباً
ناکے برابر تھا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو فن نقد کا جو عظیم الشان قصر نظر
آتا ہے اس کی اساس یا بنیاد کہیں نہ کہیں فارسی ہی کی مرہون منت ہے، اسی زبان کے
ذریعے اردو تنقید کو وقار اور بلند مقام عطا ہوا، لہٰذا اردو شرع و ادب اور ادبی
نقد کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی، اس میں فارسی زبان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں
کیا جاسکے گا۔
مآخذ ومنابع
1 نورالحسن
نقوی، فن تنقیداوراُردو تنقید نگاری، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،1990، ص89
2
ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی،
لاہور2000،ص175
3 سید
عبداللہ، شعرائے اردو کے تذکرے اورتذکرہ نگاری کا فن،جدید اردوٹائپ پریس چیمبر لین
روڈ ،لاہور، 1968، ص 1
4 کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر،
عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، ص 20,26
5
سیدمحمدنواب کریم، بحوالہ اردوتنقید حالی سے کلیم تک،بلس آفسیٹ پرنٹنگ ورکس، نئی
دہلی ،1993،ص 45
Imran Ahmad
Research Scholar, Dept of Arabic and
Persian
University of Allahabad
Prayagraj- 211002 (UP)
Mob.: 8004629927
imranmalikznt800@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں